اگلے روز صبح میں موسم بڑا خوشگوار تھا__بادل آسمان پے اٹکھیلیاں کر رھے تھے__ اگر بارش ہوتی تو سردی میں مزید ٹھندک ہوجاتی__ آج اسلام آباد کے پہاڑ سورج کی روشنی سے محروم تھے__ ہر طرف عجیب سی آسودگی پھیلی تھی یا شاید یہ موسم کی مہربانی تھی کہ سارے چرند پرند بھی خوش اور خاموش تھے___ ناشتے سے فارغ ہوکر عارش نے سیمل کو اسکی یونی چھوڑنے کا کہا__آج اسکا یونی جانے کا دل نہیں تھا مگر آج زولوجی کے آسائنمٹ کی سبمشن تھی تو سیمل کو حالت ناچار جانے کے لیۓ تیار ہونا پڑا__ عارش اپنی وِٹز میں موجود اسکا انتظار کر رہا تھا اور وه اپنی میڈ کو ضروری اقدامات کرتے ہوئے عُجلت میں اپنی چادر سنبھالے باہر آرہی تھی__آج اس نے اپنا موبائل فون جان بوجھ کر نہیں لیا تھا__اسکا دل اسکی غلطی پر چوٹ بھی کر رہا تھا مگر آج اس نے عارش کو بلا وجہ تنگ کرنے کی قسم کھائی تھی__ یونی پہنچتے ہی آسائنمٹ سبمٹ کروا کر وه مشاء کے ساتھ لان میں بیٹھ گئی__مشاء سے اسکی دوستی چند دن قبل ہی ھوئی تھی__ آج خلاف معمول عارش نے سیمل کو کال بھی نہیں کی تھی__کیونکہ وه میٹنگ میں جاتے ہی بزی ہوگیا تھا___ اس نے سیمل کا ناراض موڈ نوٹ کرلیا تھا__پر اسکو منانے کا کام واپسی کے لیۓ رکھا تھا___
“مشاء مجھے چکر آرہے ہیں اندر چلو پلیز__” مشاء نے جب سیمل کی یہ بات سنی تو فوراً اسے لیۓ وه جی سی آر روم کی طرف بڑھ گئی__ تھوڑی دیر ایسی ہی حالت رہی اسکی__جوس پی کر اس نے گھر جانے کا اراده کیا لیکن مشاء نے بتایا کہ باہر بہت تیز بارش ہورہی ہے تم ایسے مت جاؤ__کسی کو کال کر لو__
سیمل کو اب اپنی غلطی کا اندازه ہوا__موبائل تو وه لے کر نہیں آئی تھی__پھر اس نے مشاء سے فون لے کر عارش کو کال کی مگر عارش کا فون نہیں لگ رہا تھا__شاید بارش کی وجہ سے سگنلز ڈاؤن تھے__ تین چار بار کال کی مگر سب بے سدھ___
“چھوڑو مشی__وه میٹنگ اٹینڈ کر رہے ہونگے__ میں اوٹو لے کر چلی جاتی ہوں___ ” سیمل نے تنگ آکر مشاء سے کہا__
“ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی__مگر یہ جوس پورا ختم کرو پھر یہاں سے میں تمہیں نکلنے دونگی__ورنہ بیٹھو یہیں__”وه سیمل کی عادت سے واقف تھی تبھی اسنے یہ شرط رکھی تھی____
جوس ختم کر کےوه دونوں آگے پیچھے نکلیں__مشاء چونکے وین سے آتی تھی تو اس نے زیاده کوئی ضد بھی نہیں کی تھی__ سیمل کا ابھی بھی سر بھاری ہورہا تھا وه جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی___ بارش میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آگئ تھی___ وه ابھی مین روڈ پہ کھڑی تھی__ مکمل بھیگی ہوئی وه روڈ پہ کسی رکشے یا ٹیکسی کا انتظار کر رہی تھی___ جب ایک لینڈ کروزر اسکے بلکل سامنے آکے رکی اور اس میں ایک آدمی نکلا جو اپنی منہ کو کسی ماسک سے چھپایا ہوا تھا___ باہر نکل کر اس نے سیمل کی ناک کی طرف ایک ٹشو بڑھایا جسے سونگھ کر وه اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ زمین پہ ڈھے گئی___ روڈ پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا__اسی لیۓ انہیں اپنا کام انجام دینے میں کوئی دقت نہیں ہوئی___ اسکو گاڑی میں میں ڈال کے وه منظر سے یک لخت غائب ہوگئے____
عارش میٹنگ ختم ہونے کے بعد اب سیمل کو مسلسل کال کر رہا تھا__ تین بار کالز کرنے کے بعد اب اسکی میڈ نے کال ریسوو کی تھی__ بات کرنے کے بعد پتہ چلا کے وه جلدی جلدی میں اپنا موبائل چارج پہ سے نکال کر صبح اپنے ساتھ لے جانا بھول گئی تھی__
اس نے پھر یونی جانا ضروری سمجھا کیوں کہ بارش حد سے بڑھ گئی تھی___ کال پہ بات کرنے سے یہ بھی پتہ چلا کہ شام کے سات بج گئے تھے اور وه اب تک گھر نہیں پہنچی تھی___ جو عارش کے لیۓ حیران کن بات تھی____
دو دن سے سیمل چار بجے تک عارش کے ساتھ گھر آجاتی تھی___ لیکن آج تو سات بج گئے تھے وه اب حقیقی معنوں میں پریشان ہوا تھا__کیونکہ سیمل کو یہاں کے راستوں کا بھی علم نہیں تھا__ بہت دھیان سے وه تیز گاڑی چلاتے ہوۓ وه یونیورسٹی پہنچا__ چونکہ یونیورسٹی پرائیویٹ تھی تو زیاده بڑی نہیں تھی___ اسکے ڈیپارٹمنٹ میں جاکے اس نے ہر جگہ اسے دیکھا__ مگر وه کہیں نہیں تھی__ بارش کے باعث سب اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے اور کچھ ابھی اپنی روانگی پکڑ رہے تھے__ اس نے تین چار لڑکیوں کو اسکی تصویر بھی دکھائی مگر دیر سے ایڈمشن ہونے کے باعث اسے کوئی نہیں جانتا تھا___ وه چوکیدار کے پاس بھی گیا مگر وه بھی اسکی گمشدگی سے لا علم تھا__ اس نے سوچا کچھ دیر اور گھر جاکر انتظار کیا جائے پھر وه کوئی ایکشن لے گا___ گھر آکر اس نے یہاں بھی اسکی غیر موجود گی پائی___
“میں کہاں ہوں___؟” ہوش میں آتے ہی اس نے اپنے اطراف کا جائزه لیا___ اسکا سر بے حد بھاری ہورہا تھا___
“کھولو مجھے__کوئی ہے___ کیوں لائے ہو مجھے یہاں__ ” مگر اسکے ہر سوال کا جواب ندارد تھا___ رسیوں کو اسکے گرد مضبوطی سے باندھا گیا تھا__ جس سے اسکی کلائیاں بھی زخمی ہوگئیں تھیں___ اللّٰه سے فریاد کرنے کے سوا کوئی چاره نہ تھا__ تو جو سورتیں اسے زبانی یاد تھیں وه سب کا ورد کرنا شروع ہوگئی____
اس وقت رات کے دس بج رہے تھے اور سیمل کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں تھا___ اس نے جیسے ہی ارصم کو معاملے کی سنگینی کے بارے میں بتانے کے لیۓ اپنا آئی فون جیب سےباہر نکالا عین اسی وقت کسی پرائیویٹ نمبر سے کال آنے لگی___ اس نے بلا کسی افتاد کے فوراً کال ریسوو کی___
کال ریسو کرتے ہی ایک جان دار قہقہہ سننے کو ملا___
“کون ہو تم ___؟؟ “عارش کو کسی غلط بات کا اندیشہ لاحق ہوا__ جس کی تصدیق مقابل نے کر دی تھی___
“بہت تیس مار خان سمجھ رہا تھا نہ اپنے آپ کو___ تیرے لیۓ ایک گفٹ پلین کیا تھا___ امید ہے تجھے مل گیا ہوگا___ مگر افسوس بچارا کچھ نہیں کر سکتا نیوی کا غلام___ کم ظرف کہیں کا___ کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو ایک تیرے ہی پاس دماغ ہے بچو ہم بھی دماغ رکھتے ہے____ ” آغا باران کی آواز نے جیسے اسے اشتعال بخشا__
“کم ظرف میں نہیں تو ہے جو مرد سے مقابلا نہیں کرنا جانتا ایک لاچار عورت کو اپنے بدلے کا مہره بنا کر استمعال کر رہا ہے___ مگر میں____” آگے کی بات بغیر سنے آغا باران نے ہنس کر کال ڈسکنیکٹ کردی____
عارش کو مزید انگاروں پہ دھکیل دیا گیا تھا____ اسکا دماغ جیسے سائیں سائیں کر رہا تھا___ ره ره کر سیمل کا خیال آرہا تھا___ اگر آج صبح وه اسکے ساتھ زبردستی نہ کرتا تو شاید یا عین ممکن اتنے خراب موسم میں اسے اس سے جدا نہ ہونا پڑتا___ وه بیچاری تو پہلے ہی اتنی مشکلوں سے گزری تھی اب میری ڈیوٹی کا رسک بھی اب اسے کے ذمے تھا___ اب عارش کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا کہ کیوں اس نے آغا باران اور اسکے آدمیوں کو پولیس کے حوالے کیا تھا___ اس نے جلد از جلد اپنے سر اور باقی کمانڈرز کے ساتھ میٹنگ کال کی___
“سر ہمیں آج رات ہی کوئی ایکشن لینا ہوگا اس نے پرسنلی مجھ پہ اٹیک کیا ہے امید ہے آپ سب بھی میرا ایسے ہی ساتھ دیں گیں جیسے میں پیشنیٹلی آپ سب کا دیتا ہوں__” عارش اس وقت کافی مضطرب تھا____
“لیکن سر ہم انکی لوکیشن کا کیسے پتا کریں گیں___ اس نے تو کال بھی پرائیویٹ نمبر سے کی تھی___ ” سامنے بیٹھے ایک کمانڈر نے سوال داغا ___ البتہ یہ سوال سب کے ذہن میں تھا___
“اسکا بھی میں نے پہلے ہی انتظام کردیا تھا___ ” آخر کو سیکرٹ ایجنٹ تھا___ حفاظتی اقدامات وه سب سے پہلے ہی کرتا تھا اور یہ تو پھر اسکی محبت تھی_____
ابھی وه سورتیں پڑھ ہی رہی تھی کہ سامنے سے کوئی آتا دیکھائی دیا__ اس نے جلد ہی درود شریف پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا__ اسے مقابل کا چہره صاف نہیں دکھ رہا تھا کیونکہ جس کمرے میں وه موجود تھی وه مکمل اندھیرے کی زینت بنا ہوا تھا___ بلکل قریب بیٹھ کر وه اس پہ جھک کر اسے دیکھنے لگا___ سیمل کو اسکی حرکت پہ بہت غصہ آیا____
دراصل وه ایک نیچ انسان تھا اس لیۓ ایک آدمی کا بدلا ایک عورت سے لے رہا تھا___ ساتھ ہی بنا کوئی موقع زائل کیۓ بغیر اس نے اسکے منہ پہ تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کردی___ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وه اپنا حوش کھونے لگی___ آغا باران نے اسکی ساری رسیاں کھول دی تھیں لیکن وه یہاں سے کسی طرح نہیں بھاگ سکتی تھی__ وه سب مرد تھے اور سیمل ایک کمزور عورت__ کم از کم ابھی وه ہر طرح سے کمزور تھی___ رسیاں کھول کر آغا باران نے اسے أٹھا کے زمین پہ کافی بے دردی سے لا پھینکا___
سیمل ابھی بھی حجاب لیۓ ہوئے تھی___ البتہ اسکی کالی چادر جو ہمہ تن وه گرد لپیٹے رکھتی تھی وه غائب تھی___
” بتا ہمیں تیرا شوہر اب کیا کرنے والا ہے بتا ورنہ تیری خیر نہیں___ اسے ہمارے لڑکیوں کے کاروبار کا کیسے علم ہوا اور کیوں وه ہمارے کام میں دیوار بن کے سامنے آیا بتا____ آگے اسکے کیا کیا پلین ہیں ہمیں سب کا بتاؤ ____ ” انہوں نے جیسے اندر کا سارا لاوا باہر نکالا___
“مجھے کچھ نہیں پتا___ سچ میں مجھے چھوڑ دیں آپکو خدا کا واسطہ___ ” سیمل عارش کی سیکرٹ ایجنٹ والی جاب سے لاعلم تھی تو وه کیسے بتا سکتی تھی___
آغا باران کو لگا وه جھوٹ بول کر وه عارش کو بچا رہی ہے___ لیکن اگر سیمل کو سچ معلوم بھی ہوتا تو وه اپنی جان دے دیتی مگر کوئی راز فاش نہ کرتی___ تھوڑی دیر اچھی طریقے سے مارنے کے بعد انھوں نے سیمل کے ہاتھوں اور پاؤں کے تلوؤں پے بیشمار بلیڈ سے کٹ مارنا شروع کردیے___ وه مسلسل مزاحمت کرتی رہی مگر ساری کوشش بے سدھ___
مکمل ہاتھوں، اور پاؤں کے تلوؤں کو لال رنگ سے رنگ کر انہوں نے اس پہ نمک ڈالنا شروع کیا ___ اپنے زخموں پہ نمک پڑتے ہی وه زور زور سے چلانے لگی___ عین اسی وقت باہر سے بہت سارے فائرز کی بیک وقت ایک ساتھ آواز آئی___
سارے لوگ اندر چوکننے ہوگئے___
“پتہ لگاؤ کون ہمارے اڈے تک پہنچا
ہے___” آغا باران ہوش میں آئے___
سیمل کو لگا اسکی عصمت کی حفاظت کرنے والا نجات دہنده اللّٰه نے بھیج دیا___
آگے کا سارا کام آسانی سے ہوتا گیا__ عارش کے برگئیڈیر سر بھی ان سب کے ساتھ ریڈ مارنے آئے تھے___ لوکیشن انہیں بآسانی مل گئی تھی___
سارے کمانڈرز باہر موجود سارے آدمیوں کے لیۓ قابض ثابت ہوئے تھے___
کیپٹن ارصم اور کیپٹن عارش جس وقت اندر داخل ہوئے تھے اس وقت آغا باران اپنی گن(gun) سیمل پہ تانے کھڑا تھا عین اسی وقت عارش نے آغا باران کے بازو پہ فائر کیا___ بازو پہ فائر لگتے ہی وه لڑکھڑا گیا___ اور زمین بوس ہوا___ وه بھاگ کر سیمل کے پاس آیا جو بہت قرب سے رو رہی تھی___ عارش کو دیکھتے ہی اسے جہاں سکون ملا وہیں اس کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوا تھا___ عارش نے جب اپنی شریکِ حیات کو درد و تکلیف میں دیکھا تو اس کے اندر تلاطم برپا ہوگیا__ اسکا دل کیا کہ اسکی گن میں موجود سارے لوہے کو اس ظالم شخص کے اندر اتار دے___
” عارش تم بھابھی کو لے ہاسپٹل جاؤ یہاں
ہم سنبھالتے ہیں__ “سیمل کی حالت دیکھتے ہوئے اس نے عارش کو ہاسپٹل جانے کے لیۓ بولا___
“نہیں اس شخص کو انجام تک میرے ہاتھ پہنچائیں گیں___”
کیپٹن عارش آپ پلیز انہیں لے کر جائیں___ وه سیمل کے پاس ہی تھا مگر ابھی اس آغا کو اسکے ظلم کی سزا دینا چاہتا تھا___
لیکن اس وقت اس نے سیمل کو ہاسپٹل لے جانا ضروری سمجھا___ اس نے جیسے ہی اسے اپنی آہنی گرفت میں لیا___ وه درد اور ڈر کی کیفیت میں بولی” پلیز مجھے بچا لیں پلیز مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے___ ” عارش نے اب اسکا سوجا ہوا چہره قریب سے دیکھا تھا___ ہاسپٹل پہنچتے وقت تک وه بے ہوش ہوچکی تھی___
آغا باران اور اسکے آدمیوں سے ارصم اور باقی سب سامنا کر رھے تھے___
ایمرجنسی میں لے جاتے وقت وه کافی پریشان اور مضطرب تھا___
تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر باہر آئیں__
“یہ پولیس کیس ہے آپ پولیس کو انفارم کر دیں جلد از جلد___ ایسی حالت میں انکی ایسی کنڈیشن کس نے کی____” ڈاکٹر عارش سے مخاطب تھیں__
عارش نے پہلے تو اپنا سیکرٹ ایجنٹ کا کارڈ دکھایا اور پھر اس نے ان کی بات کا مطلب جانا___
“کیا مطلب اس حالت میں ایسی کنڈیشن___ وه ٹھیک تو ہیں نا___؟؟” عارش سیمل کے لیۓ بہت فکر مند تھا وه پہلے ہی بہت اذیت برداشت کر چکی تھی___ ” سر شی از ایسپکٹنگ بےبی___ ” یہ خبر سنتے ہی وه اندر تک نہال ہوگیا___ ایسا لگا کہ ہر طرف خوشبو پھیل گئی ہو__ ہر طرف قوس قزح کے رنگ بکھیر دیۓ گئے ہوں___
“میں ابھی ان سے مل سکتا ہوں___” عارش کے دل میں فوراً اس سے ملنے اور اس خبر کو سنانے کی خواہش جاگی___
“وی آر سوری سر__
اگلے چھ گھنٹے انکے لئے کافی اہم ہیں__ وه کافی ٹرام سے گزری ہیں اس لیۓ پلیز دعا کریں___ انہیں جلد از جلد ہوش آجائے___ ورنہ دو تین دن بھی لگ سکتے ہیں___ “عارش کو لگا اسے خوشخبری سنا کر پھر اداس ہونے کی نوید سنائی گئی ہے___
اسکے بعد عارش نے نوافل ادا کیۓ___
تین گھنٹے بعد اسے ہوش آگیا تھا___
ارصم ، زینب رانا آنٹی ، سلمان صاحب بھی اسے ملنے آگئے تھے___ سب کے ملنے کے بعد وه سیمل سے ملنے گیا تھا___
“کیسی ہیں آپ ___؟؟” عارش نے تحمل سے صرف پہلا سوال داغا___ساتھ ہی اسکے سرد ہاتھ تھام لیۓ___ سیمل کے چہرے کی لالی کو دیکھ کر اسے یہ بات پتا چلی تھی کہ وه بات سیمل پہلے جانتی ہے___ “ٹھیک ہوں__الحمد اللّٰه___ پہلے آپ یہ بتائیے کے آپ کو لوکیشن کا کیسے پتا چلا___ ؟”سیمل کو اس کی آنچ دیتی نظروں کا سامنا کرنا مشکل لگ رہا تھا اس لیۓ اس نے وه سوال کیا جو کافی دیر سے اسے پریشان کر رہا تھا____
عارش نے اسکی چالاکی کو خوب سراہا___
“یہ چیز آپ کو ڈھونڈنے میں بہت ضروری ثابت ہوئی تھی___”عارش نے سیمل کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں موجود رنگ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا___
“مطلب”
“مطلب یہ کے اس میں موجود چِپ اور ٹریکر نے میری بہت ہیلپ ہے___ “یہ وہی رنگ تھی جو عارش نے دو ہفتے پہلے سیمل کو اپنے ہاتھ سے پہنائی تھی اور نہ اتارنے کی تاکید کی تھی___
“اچھا جی یعنی حفاظتی اقدامات آپ پہلے ہی کرتے ہیں__ ” سیمل نے ہنس کر کہا اور نظروں کو جھکا کر اسکا شکریہ ادا کیا___
“شکریہ آپکو نہیں مجھے کرنا چاہیۓ اتنے خوبصورت گفٹ کے لیۓ___” یہ کہتے ساتھ ہی اس نے اپنے لب سیمل کی صبیح پیشانی پہ رکھ دیۓ___ اور سیمل کو لگا جیسے سارے زخم اندر تک مندمل ھوگئے ھوں___
” آپکے راعب اور پریشے مجھے بہت تنگ کرتے ہیں__”سیمل اس وقت ان دونوں کو تیار کر کے خود آئینے کے سامنے بیٹھی کمرے میں اندر آتے عارش سے مخاطب تھی__
عارش اس وقت آفس سے تھکا ہوا آیا تھا مگر سیمل کو بلیک اینڈ ریڈ ساڑھی میں دیکھ کر اسکی ساری تھکن اڑن چھو ہوگئی تھی__
“ہے میری پری کو کچھ مت کہنا___ شی از مائن ڈول __” عارش نے مان سے کہتے اسے پیار کیا___
“اور میں کون ہوں__؟”سیمل نے خفگی سے عارش کی طرف دیکھتے ہوئے بولا___
“آپ تو جان ہیں___ ویسے یو لوکنگ ہوٹ اینڈ پریٹی ان ریڈ اینڈ بلیک ساڑھی___” عارش نے اس پے اپنا پیار نچھاور کیا___
اب سیمل کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں___ الله نے دو گلاب ایک ساتھ عطا کیۓ تھے___
جو اسکی حیات کو مزید حسین و جمیل اور پر لطف بناتے تھے___ آج زنیب اور ارصم کی شادی تھی ___آغا باران کو بھی عمر قید ھوگئی تھی___ اللّٰه نے تمام برائیوں کو ختم کردیا تھا____ الله نے سب کو ہر چیز سے نواز دیا تھا___ عارش کے میزان میں سیمل کی محبت ہمیشہ کے لیۓ لکھ دی گئی تھی___
ﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ یہ تھی
ﺟﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺍُﮒ ﺁﺗﯽ ہے___
ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺭﺵﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ہرﯾﺎلی_____
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ہرﯾﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮬﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ__
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ہﯽ ﺳﯿﻢ ﺯﺩﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ___
اور ایسی غلطی نہ تو سیمل نے کی نا ہی عارش نے___ اسی لیۓ الله نے انکی آزمائش لی اور جب وه کندن بن کر جل گئی___ تو اسکی آزمائش پوری ہوگئی___ اور اسے دنیا جہان کی خوشیوں سے نواز دیا گیا___
ختم_شد