سیلابی پانی نے ہر طرف تباہی مچا دی تھی، کئ گھروں کے گھر پانی کی بے درد لہروں ساتھ بہہ گئے تھے، دس گاؤں پانی کی زد میں آ گئے تھے۔ ڈھور ڈنگر کے مردہ جسم پانی میں تیرتے پھر رہے تھے، فضا میں مردوں کی بساند تھی جو لوگ ڈوب گئے تھے انکی لاشیں۔بے گوروکفن کیمپ میں پڑی ہوئی تھیں۔بھوک اور پیاس سے بلکتے بچے سردی میں ٹھٹرتے بوڑھے اور عورتیں سب کے سب اللہ کی اس آزمائش پر شکایتی نظروں سے آسمان کی ستم ظریفی کو دیکھ رہے تھے، مگر آسمان والے کو شاید انکی آزمائشیں مقصود تھیں تبھی تو خاموش تماشائی بنے اپنی کائنات کے حقیر زرے کی طرح انہیں یہاں سے وہاں لڑکھا رہا تھا، ہر سال ، انہیں اس عذاب سے گزرنا پڑتا مگر یہ بے کس لوگ تب بھی شکر ہی کرتے ، جن کو بنیادی سہولیات بھی ناپید تھیں، اپنے جیسے انسانوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے کہ کوئی تو مدد کو آۓ،،
گھر کھو دینے کی، وہ جانور جو انکے خاندانوں کے مکین تھے جو انکی اولاد کا پیٹ پالنے والے تھے ایسی آفتوں میں ان کو چھوڑ کر ہی کیوں بھاگنا پڑتا جب وہ بے زبان کچھ بول کر نا سہی آنکھوں سے ہی شکوہ کرتے ہمیں ہی کیوں چھوڑ کر جا رہے ہو۔۔ ان کی آنکھوں میں سوالات تھے کہ ہر سال ہم ہی کیوں اجڑتے ہیں، اس قدرتی آفات کے ہم ہی کیوں حقدار ہیں ؟ اور کب تک حکومت انہیں انسانوں سے الگ سوچے گی ایسے کئ سوالات تھے جن کا کوئی جواب نہیں تھا مگر سوال تھے، تکلیف تھی درد تھا سینوں میں گھٹن تھی۔۔ مگر سب قدرت کے سامنے بے بس تھے
، پاک فوج کے جوان طبی امداد دے رہے تھے، سب کو وبا سے بچانے کے لیے انجیکشن لگائے جا رہے تھے، آمنہ شاہ کی آنکھیں برستی جا رہی تھیں،صامن شاہ نڈھال سی ایک طرف پڑی تھی،بھائی کی فکر میں مبتلا اور بے بس، وہ منصور شاہ کو بار بار عاصم شاہ کا پتہ کرنے کو بول چکی تھی مگر اسکا کہیں پتہ نہیں تھا، تبھی انہوں نے کیمپ سے باہر شور سا سنا پتہ نہیں کیا ہو رہا تھا،
عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی ، رابعہ شاہ چادر کو لپیٹتے باہر کو لپکی ، کیمپ کا بیرونی پردہ ہٹاتے ہی انہوں نے دیکھا کیمپ خالی کیے جا رہے تھے ، کہ سیلابی پانی کا سارا رخ اسی طرف موڑ دیا گیا تھا، اب اس تمام جگہ کو ایک بہت بڑے نالے میں تبدیل ہونا تھا،
منصور شاہ غصے سے سرخ ہو رہے تھے کہ ہمیشہ کے لیے جگہ چھوڑ کر جانا پڑتا، رابعہ شاہ انہیں بازو سے تھامے کیمپ میں لا رہی تھیں،
شاہ صاحب بات سنئے، اتنا غصہ آپکی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے،
آپ آرام سے رہیں ہو کیا گیا ہے آپکو، اللہ میں کیا کروں وہ انہیں چھوڑ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں اور منصور شاہ دوبارہ باہر نکل گئے ، جہاں وہ آرمی کے لوگوں سے الجھ رہے تھے ،
تبھی کیمپ میں ارقم شاہ ارحم شاہ منصور شاہ کے ساتھ اندر آۓ تھے۔۔۔۔
ارقم وہ تیزی سے اٹھی تھیں، ارقم انکی طبیعت بگڑ جائے گی، ارصم کا کہیں کچھ پتہ نہیں ہے، انکو روکو۔۔۔۔
اماں ہمیں یہاں سے نکلنا ہے ابھی، صامن شاہ نے جب بھائیوں کو آتے دیکھا تو مردہ جسم میں جیسے کسی نے روح پھونک دی ہو، وہ بھاگ کر ارحم شاہ کے بازؤں میں چھپ گئی تھی
بھائی ارصم کہیں کچھ پتہ نہیں ، وہ بناء پانی کے مچھلی جیسے مچلی تھی، وہ جانتی تھی کہ اسکے بھائی انہیں لینے ضرور آتے۔۔
با با جان ہمیں یہاں سے نکلنا ہی ہو گا، ارحم شاہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی نہیں ۔۔ میں اپنی جگہ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ارے اپنا گھر بار کون چھوڑتا ہے، حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا ہی ہو گا
تم لوگوں کو اپنی جگہ اپنی مٹی کی کوئی قدر نہیں، کوئی لگاؤ نہیں، وہ روہانسے ہو رہے تھے، میرے ماں باؤ جی دفن ہیں اس گاؤں میں، انہیں چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں، تمہیں اتنے بڑے افسر لگایا یہ دن دیکھنے کے لیے کہ اپنے باپ کو خوار کرو، دور ہو جاؤ میری نظروں سے ناہنجارو، جو اپنی مٹی کا سگا نہیں وہ کسی کا سگا نہیں ہوتا، دفع ہو جاؤ،
ارصم کو بلاؤ مجھے اس سے بات کرنی ہے، وہ میری ہر بات مانتا ہے وہ روک لیتا یہ سب ، ارصم کو بلا ؤ، ارصم کو بلاو وہ روک لیتا، تم لوگوں کو قدر نہیں ہے، ارصم ۔۔۔۔ ارصم
وہ اونچی اونچی آوازیں لگانا شروع ہو گئے تھے، وہ بار بار باہر کی جانب جا رہے تھے کہ انکا اعصابی تناؤ بڑھ رہا تھا انکا چہرے کے اعضاء کھینچ رہے تھے،
بابا ۔۔۔۔ بابا جان پلیز آپ غصہ مت کریں آپکی طبیعت خراب ہو رہی ہے بابا پلیز پلیز وہ انہیں کیمپ میں موجود بستر پر بٹھانے کی کوشش کر رہے تھے وہ ان کے ہاتھوں سے نکلے جا رہے تھے
ارصم کو بلاو ۔۔۔۔
ارصم سمجھتا ہے میری بات سمجھتا ہے وہ بلاو اسے
ارحم شاہ تیزی سے باہر کی جانب بھاگے کہ ڈاکٹر کو بلایا جائے کیونکہ منصور شاہ کا بایاں بازو درد کی شدت سے مڑ رہا تھا انہیں ہارٹ اٹیک کا خدشہ تھا
ارصم۔۔۔۔
ارصم ۔۔۔۔۔ منصور شاہ درد کی شدت سے نڈھال ہوتے جا رہے تھے، صامن شاہ زور زور سے چلا رہی تھی، کیونکہ کہ صرف ارصم ہی بابا کو سنبھال سکتا تھا جسکا کہیں کوئی اتا پتہ نہیں تھا،
ارصم کہاں چلے گئے ہو ۔۔۔۔۔ رابعہ شاہ کا حوصلہ بھی جواب دے رہا تھا،
با با سنبھالیں خود ارصم آ جاتا ہے
صامن شاہ سر سے پاؤں تک کانپ رہی تھی، تبھی تیزی سے ڈاکٹرز کی ٹیم اندر آئیں اور انہوں نے منصور شاہ کو سیدھا لیٹا کر ان کے سینے میں
انجیکشن لگایا ، جس سے کچھ وقت کے لیے درد رکا تھا مگر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انکی حالت بگڑ رہی تھی
ارحم شاہ سر انہیں ہاسپٹل لے جائیں، اگر آپ نے مزید دیر کی تو بہت دیر ہو جائے گی ، پلیز ۔۔۔۔
ارحم شاہ نے تیزی سے ہیلی کاپٹر منگوایا اور انہیں لیے سیدھا اسلام آباد پہنچا ، جہاں منصور شاہ کو آئی ۔سی۔ یو میں داخل کروا کر اس نے رابعہ شاہ اور صامن شاہ کو گھر بھجوایا اور خود ہسپتال میں رک گیا،
جب کہ ارقم شاہ وہیں گاؤں میں ارصم شاہ کا پتہ لگوانے کے لیے رک گیا تھا ۔۔۔
آمن شاہ بہن کے گلے لگے کتنی ہی دیر تک روتی رہی تھی۔۔۔
آپی بھائی مل تو جائیں گے نا
ہاں مل جائے گا، وہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا، وہ کہیں نہیں جا سکتا، وہ دونوں ایک دوسرے کو کم اور خود کو تسلی زیادہ دے رہی تھیں، ارغم شاہ ماں اور باپ کو ہر وقت تسلیاں دیتا کہ ارصم شاہ مل جائے گا ۔۔۔۔
صامن شاہ کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی، اسے تیز بخار نے آن لیا تھا ، جو دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا، وہ تیزی سے ڈھانچے میں تبدیل ہو رہی تھی ، بھائی کا غم اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ رہا تھا، بھابیاں، ارغم شاہ بچے سب اسکی ہمت بنا رہے تھے جبکہ ایک طرف منصور شاہ اور رابعہ شاہ کی گرتی ہوئی صحت اور دوسری جانب ارصم شاہ کی گمشدگی اس کے حوصلے پست کر رہی تھی۔۔۔۔
اسکی دنیا ہی اندھیر ہوئی جا رہی تھی
۔۔۔۔
قراۃالعین یہاں آۓ ہوئے دس دن گزر چکے تھے، اندر باہر آندھیاں چل رہی تھیں، نا کچھ کھا پی رہی تھی نا ہی کسی سے بات کر پا رہی تھی، کہیں کوئی آسرا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا یہ نہیں تھا کہ وہ پچھتا رہی تھی ۔۔۔ اس نے جو کچھ کیا بلکل ٹھیک کیا وہ حق بجانب تھی،
مگر سر پر چھت کا نا ہونا اور ہر طرف سے بے یارو مددگار ہونے سے وہ ڈر رہی تھی ،
آخر مزید کتنےدن یہاں رہ پاتی ، کبھی نا کبھی تو یہاں سے جانا ہی پڑتا مگر کہاں۔۔۔۔
اسکے آگے سوائے اندھیروں کے کچھ نا تھا، اسے اپنے رشتے داروں تک کا پتہ تھا اسکے کسی کام نہیں آ سکتے تھے، اسکی دوست بھی کتنی دیر تک اسکی مدد کر پاتی یہاں رہ کر وہ انکی زندگی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی تھی، اسکا شوہر جو ابھی تک بے ضرر تھا تو کتنی دیر تک تھا، ایسے کئی سوال منہ پھاڑے سامنے تھے، باہر کی دنیا گدھوں سے بھری پڑی تھی، جو اسے بے آسرا جان کر نوچ نوچ کر کھا جاتی۔۔۔
یا اللہ تیرے سوا کوئی مددگار نہیں۔۔۔۔ میرے مالک مجھے بے سائبان مت کرنا میری مدد کر۔۔۔۔
وہ گھٹنوں پر سر رکھے محو مناجات تھی، وہ ایک سید زادی تھی ، مگر حالات نے کہاں لے آۓ تھے۔۔۔۔ کہ وہ ایک غیر محرم کے گھر میں تھی۔۔۔۔
اللہ اگر اسکے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو اسکے آگے اسے جسم کے لوں کھڑے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔
کہاں جاؤں۔۔۔۔
پڑھائی کے نام پر اسکے پاس صرف بی اے کی ڈگری تھی آگے پڑھ رہی تھی مگر اس مصیبت میں پھنس گئی تھی۔۔۔
کیا کروں ۔۔۔۔
کہاں جاؤں
کون مدد کرئے گا میری۔۔۔
اسکی خالہ ۔۔۔۔
رابعہ شاہ۔۔۔۔ ہری پور
بجلی کی طرح خیال آیا تھا
اور پھر ہمت بھی اپنا گریبان چاک کر کے کہیں سے آگئی تھی۔۔۔ اور چہرے پر مسکراہٹ بھی دل کو اتنے دن سے قرار نہ تھا کہیں سے آگیا تھا
مگر اسکی بدقسمتی تھی کہ اس سے پہلے وہاں اسکی بدنامی پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔
اس نے تیزی سے اپنا بیگ تیار کیا، اور اپنی دوست کا شکریہ ادا کیا اور ہری پور کی بس میں سوار ہو گئی جہاں مزید نئی مشکلات منہ کھولے کھڑی تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارصم شاہ کا کہیں کوئی پتہ نہیں چل سکا تھا، منصور شاہ کی حالت خطرے سے باہر تھی مگر وہ بار بار ارصم کا پوچھ رہے تھے نیم غنودگی میں بھی انہیں ارصم کے سوا کوئی دوسرا نام یاد نہیں تھا وہ گھر آچکے تھے مگر رابعہ شاہ اور منصور شاہ اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے
صامن شاہ بھائی کی جدائی سے تڑپ رہی تھی ، تو وہاں بھائیوں نے زمین آسمان ایک کر دیا تھا بھائی کو ڈھونڈنے میں
مگر ارصم شاہ نا کسی کو ملنا تھا نا ہی ملا۔۔۔۔
گورنمنٹ کی جانب سے دیۓ گئے اس کئ کنال کے گھر میں صامن شاہ یہاں سے وہاں بدروحوں کی طرح چکراتی پھرتی کہ قرار نہیں تھا
بچے سارا دن اسکا دھیان بٹانے کو اس سے باتیں کرتے بھابھیاں کاموں میں شامل ہونے کو کہتیں مگر وہ باغیچے میں ایک کونے سے دوسرا کونہ ماپتی اور تھک کر بستر پر ڈھے جاتی۔۔۔ آمن شاہ اور ارغم شاہ کو واپس جانا پڑا کہ انکی پیپر ہونے والے تھے
دو ماہ ہو چکے تھے انہیں یہاں آۓ ہوئے وقت کب کسی کے لیے رکتا ہے ، اسکا بے رحم پہیہ کسی کے درد کا مرحم تو کسی کے لیے سزا بن جاتا ہے۔۔۔۔
زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑتی مگر انکا وقت ٹھہر گیا تھا، وہ کہتے ہیں نا کہ مرے کو صبر آتا مگر زندہ اپنا بچھڑ جائے تو صبر تو دور کی بات انسان خود زندہ لاش بن جاتا، دو ماہ کا عرصہ بیت گیا تھا، مگر صامن شاہ کی نظریں دہلیز نہیں چھوڑتی تھیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
قراۃالعین ہری پور پہنچی تو اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی تھی کہ جن کے لیے اتنی دور سے آئی وہ یہاں سے جا چکے تھے، سیلابی پانی انکے پیروں کے نشان بھی ساتھ ہی بہا کر لے گیا تھا ۔۔۔
اسکی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا تھا،
وہ یہاں سے وہاں چکراتی سڑکیں ناپتی ایک چھوٹے سے مقامی پارک میں جا کر بینچ پر بیٹھ گئی، تو آنسوؤوں کی جھڑی سی لگ گئی، اتنا روئی ، اتنا روئی کے غم ہلکا سا ہو گیا، اسے لگا اب ساری زندگی دھکے ہی کھانے ہیں، اب کہاں جانا تھا اسے،
کوئی منزل
کوئی راستہ
کہیں کوئی نشان نہیں تھا
سب راستے سب منزلیں وقت کی آندھی کی نظر ہو گئے، ہر طرف گہرے اندھیرے کی کالی گہری کھائیاں منہ کھولے اسے نگلنے کے لیے تیار کھڑی تھیں، اور نگل بھی گئی تھیں ۔۔۔۔
وہ ایک گناہ سے خود کو بچانے نکلی تھی اور گناہوں کی گہری اندھی کھائی میں گری تھی جہاں سے باہر کا کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے وہ اپنی موت کو گلے لگا لیتی ، مگر جہاں وہ تھی وہاں موت کا بھی بناء اجازت آنا منع تھا تبھی تو وہ کئ بار ناکام ہو چکی تھی
کھدر کا سوٹ پہنے جسکی اصل رنگت بھی اب بدوضح ہو چکی تھی، وہ ایک کوٹھری میں بند تھی، باہر کی دنیا دیکھے اسے دو مہینے گزر چکے تھے، دو وقت کا کھانا اور بے تحاشہ مار نے اسکی خوبصورتی کو گہنا دیا تھا
جب ایک دن اسے سر سے پاؤں تک سجا کر ایک خوبصورت سجی سجائ سیج پر بٹھا دیا گیا کہ اب اس میں مار کھانے کی ہمت نہ بچی تھی
اسکا کوئی دولہا نہیں آیا تھا، اسکا نکاح نہیں پڑھایا گیا، اسکی قیمت لگائی گئی تھی، اسکی راتوں کی قیمت مقرر کی گئی تھی
وہ کوستی تھی دن رات خود کو کہ بربادی ہی مقدر تھی تو وہاں ہی ہو جاتی جہاں سے بھاگی تھی، تباہی ہی قسمت میں تھی تو اپنا گھر کیا برا تھا
سیاہی ہی مقدر تھی تو کیوں بری تھی وہ جگہ جہاں پردے میں عزتوں کے سودے ہوتے تھے،
آہ۔۔۔۔۔ وہ چلانا چاہتی تھی۔۔۔
رونا چاہتی تھی
مگر آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے تھے ، ہلک سے آواز بھی چھین لی گئی،
اور وہ عزت بھی جس کی خاطر وہ اس۔بے رحم دنیا کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔۔۔۔
تبھی اس نے دروازے پر دستک سنی
کوئی اندر آیا تھا
کوئی سیدھا چلتا ہوا آرہا تھا
موت؟؟؟
نہیں۔۔۔۔
موت۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
موت
ہاں موت۔۔۔۔۔
موت عزت کی
موت اسکے وقار کی
موت اسکے کردار کی
اسکے عزت نفس کی
وہ کانپ رہی تھی
قدموں کی آواز اپنے قریب آتی جا رہی تھی
موت کی آواز
اندھیرا
اندھیرا
اندھیرا
بتیاں اچانک گل ہو گئیں
سب آوازیں بند ہو گئیں
سکون تھا
نہیں
سکوت تھا
راحت تھی
نہیں
ازیت ۔۔۔۔ اذیت۔۔۔۔۔
درد۔۔۔۔۔ بے تحاشہ اندھیرا۔۔۔۔۔
اسکا دل رک رہا تھا ۔۔۔۔۔
دور کہیں کوئی بلا رہا تھا
کوئی آواز تھی۔۔۔۔۔
دماغ کی
نہیں دل میں کوئی آواز تھی
محبت سے بھری۔۔۔۔
اماں۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ بابا نہیں۔۔۔۔۔
نہیں کوئی دور تھا بہت دور وہ پہچان نہیں پا رہی تھی
کوئی رو رہا تھا
تاریکی گہری ، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نا دے
مگر آواز تھی
جو اسے بلا رہی تھی
نہیں مجھے جانا ہے
وہ بولی
جانے دو
پچھلے دو مہینوں کے چوبیس گھنٹوں کے ساٹھ منٹ اور ایک ایک منٹ کے ساٹھ سیکنڈ میں ہر سیکنڈ کے ہر لمحے میں یہ ہی تو بولی تھی کہ
جانے دو
مجھے جانے دو
جانے دو
اب جب جارہی تھی
تو یہ اپنی سی آواز کون دے رہا تھا
اسکے جسم میں سویاں چبھ رہی تھیں
مگر ذہن نے دل کو بند کیا اور گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا
آواز اور اندھیرے کی کشمکش میں جیت اندھیرے کی ہوئی اسے آوازوں کی نہیں سننی تھی۔۔۔۔
وہ چلی گئی۔۔۔۔ گہرے اندھیروں میں
سکوت تھا
نہیں
سکون تھا
اذیت تھی
نہیں آرام تھا
درد تھا
نہیں
اماں کی گود تھی۔۔۔۔ گود جیسی نرم نرم پیروں میں دھنستی گھاس تھی،
وہ بھاگ رہی تھی، پیروں میں نرم نرم گھاس اسکا ننھا سا پاؤں ادھر ادھر ڈول رہا تھا ، بابا اسکے پیچھے تھے، دس سال۔کی وہ پریوں جیسی گلابی فراک میں وہ تتلیوں کو پکڑ رہی تھی۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...