حسین صاحب کی عادت تھی وہ خود فجر میں اٹھتے تھے اور ساتھ انہیں بھی اٹھاتے مگر اس دوران وہ کھبی روم میں نہیں گئے تھے باہر کھڑے ہو کر اس زوردار انداز میں دروازہ بجاتے کہ قبر سے مردے بھی اٹھ جائیں ابھی بھی وہ سب نماز پڑھ کے دوبارہ لیٹنے لگی تھیں
“کہاں لیٹ رہی ہو اٹھو ابا کے ساتھ جاگنگ پہ بھی جانا ہے” انہیں لیٹتے دیکھ کر مریم نے ٹوکا تھا
“مریم یار” ان سب نے کورس میں کہا تھا آنکھوں میں سونے دینے کی واضح التجا تھی
“کوئی مریم نہیں اٹھو سب جانتی تو ہو ڈاکٹر نے کہا تھا انہیں روز صبح تازہ ہوا میں لے کے جانا چاہیے اس سے ان کی ذہنی صحت پہ اچھا اثر پڑے گا اور تم میں سے کوئی اک بھی سو گئی تو وہ اسے اکیلے سوتا ہوا چھوڑ کے تو جائیں گے نہیں اس لیے شرافت سے اٹھ جاؤ سب” مریم کے کہنے پہ وہ سب منہ بناتیں اٹھ گئی تھیں
انہیں اٹھتا دیکھ کر مریم نے تشکر بھرا سانس خارج کیا تھا اب اس نے جا کر حسین صاحب سے روز والی بحث کرنی ہو گی جو روز صبح جاگنگ پہ جانے سے پہلے یہ ضرور کہتے تھے لوگ کیا کہیں گے یہ اپنے ساتھ پوری فوج لے کر آیا ہے جاگنگ کے لیے
جیسے تیسے منا کے وہ انہیں جاگنگ کے لیے لے ہی گئی تھی لیکن وہاں جا کر بس مریم ہی ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دوڑ رہی تھی باقی چھ اک بینچ پہ بیٹھ کے اک دوسرے کے کندھے پہ سر رکھ کے سو گئی تھیں لوگوں کی پرواہ کیے بنا
“میں اسی لیے کہتا ہوں کیا ضرورت ہے جاگنگ پہ جانے کی اب ان کے کام دیکھو تم” وہ اک رؤنڈ مکمل کر کے آئے تو حسین صاحب نے تاسف سے انہیں دیکھ کر مریم سے کہا تھا جس کا خود انہیں دیکھ کر غم و غصے سے برا حال تھا مریم نے غصے سے ہاتھ میں پکڑی سے پانی والی بوتل سے پانی ان کے چہروں پہ پھینکا تھا
“سیلاب آ گیا سیلاب آ گیا” وہ سب چیختی ہوئیں بینچ سے اٹھی تھیں مگر مریم کو تند نظروں سے خود کو گھورتے دیکھ کر سب نے اک دوسرے کو دیکھا تھا
“سوری مریم ہم جان بوجھ کے نہیں سوئیں وہ خودبخود آنکھیں بند ہو گئی تھیں” اس کے بولنے سے پہلے روش نے معصومیت کے ریکارڈ توڑتے کہا تھا
“اچھا اب بس گھر چلو بہت کر لی جاگنگ تم لوگوں نے” مریم کو منہ کھولتے دیکھ کر حسین صاحب نے ٹوکا تھا اور پھر سب گھر کی طرف روانہ ہو گئے تھے
گھر پہنچتے حسین صاحب کچن کی طرف بڑھ گئے تھے کیونکہ بیٹیاں بڑی ہو جانے کے باوجود اب تک ناشتہ وہی بناتے تھے کیونکہ اک ان کے ہاتھ کے پراٹھے کھائے بغیر ان بہنوں کی صبح نہیں ہوتی اور دوسرا انہیں مصروف رکھنا بھی مقصود تھا کیونکہ وہ بیٹھے سوچوں میں کہاں سے کہاں نکل جاتے تھے
مریم ان کی ہیلپ کروانے کچن میں آ گئی تھی جبکہ چھوٹی تینوں اور مائرہ اپنی اپنی یونی اور سکول کالج جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں اور زینیہ اور فاتینا دوبارہ اپنے اپنے بستر پہ ڈھیر ہو گئی تھیں
“مریم میرے شوز نہیں مل رہے” روش کی تیاری تو مریم کو کھپائے بغیر کھبی مکمل نہیں ہوتی تھی اس لیے حسبِ عادت اس نے کمرے سے ہانک لگائی تھی مریم آملیٹ کے لیے پیاز کاٹ رہی تھی وہ وہی چھوڑ کے کمرے میں گئی تھی
روش کو شوز دینے کے بعد گدھے گھوڑے بیچ کے سوئی ان دونوں کو اک اک تھپڑ لگانا نہیں بھولی تھی لیکن وہ بھی ڈھیٹوں کی سردار تھیں اس لیے بغیر اثر لیے پڑی رہی تھیں
ناشتہ کرتے ہی روش کی وین آ گئی تھی وہ سب کو خدا حافظ کہتے چلی گئی تھی مائرہ منیہا اور نویرا نے پوائینٹ سے یونی جانا تھا اس لیے وہ بھی خدا حافظ کہتے جلدی سے گھر سے نکلی تھیں
ان کے جانے کے بعد ان تینوں نے برتن سمیٹ کے رکھے تھے کچن مریم نے صاف کرنا تھا اور باقی کی صفائی فاتینا اور زینیہ کے ذمے تھے حسین صاحب بھی ناشتہ کرتے اٹھ گئے تھے تا کہ کپڑے بدل کا سٹور جا سکیں ان سے پہلے ان کا ہیلپر سٹور کھو لیتا تھا
گیٹ کراس کرتے نویرہ نے ان دونوں کو رکنے کا کہا تھا اور خود گلی میں چاروں طرف نظر دوڑائی تھیں کس کے بھی نہ ہونے کا اطمینان کر کے نویرہ نے سر سے پن اتار کے برابر والے گھر کے سامنے کھڑی ارسلان کی بائیک کے دونوں ٹائروں سے ہوا نکالی اور بیگ کھول کے اس میں موجود بلیڈ نکال کے دل کی بھڑاس نکالتے اس نے بائیک کی سیٹ پہ لاتعداد کٹ لگائے تھے نیچے موجود فورم بھی صاف نظر آنے لگی تھی
یہ سب کرنے کے بعد اس نے اطمینان سے ہاتھ جھاڑے اور بیگ سے مارکر نکالتے ٹنکی پہ بڑا بڑا ریوینج لکھا اور ساتھ اک سمائلی بنائی تھی
“آیا بڑا مجھے درخت سے دھکا دینے والا” بائیک کو دیکھتے وہ بڑبڑائی تھی اور دونوں کو لیے جلدی سے قدم آگے بڑھائے تھے ان دونوں نے تاسف سے اسے دیکھا تھا بچپن سے ہی ایسا ہوتا آیا تھا ارسلان اتنا نقصان نہیں کرتا تھا جتنا نویرہ اس کا کرتی تھی
گلی کا موڑ مڑنے سے پہلے نویرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں ارسلان کھڑا صدمے سے اپنی بائیک کو دیکھ رہا تھا تبھی ارسلان کی نظر بھی ان کی طرف اٹھی تھی اسے خود کو دیکھتا پا کر نویرہ نے وکٹری کا نشان بنایا اور تیزی سے موڑ مڑ گئی تھی پیچھے ارسلان پیچ و تاب کھاتا بعد میں بدلہ لینے کا سوچتا بائیک اندر کھڑی کرنے لگا کیونکہ اب وہ یونی لے کر جانے کے قابل تو تھی نہیں پوائنٹ سے ہی جانا پڑنا تھا
______________________
مغرب کی اذان ہونے والی تھی وہ سب حسین صاحب کا انتظار کر رہی تھیں وہ مغرب کے بعد آتے تھے اور سب صحن میں لگے درخت کے نیچے بیٹھ کے چائے پینے کے ساتھ ساتھ باتیں کرتے تھے ڈنر وہ سب عشا کی نماز پڑھنے کے بعد کرتے تھے
وہ سب سر جوڑے بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی تھی ان سب کو تھوڑی حیرت ہوئی تھی کہ کون ہو سکتا ہے کیونکہ حسین صاحب کھبی دروازہ نہیں کھٹکھٹکاتے مریم سر پہ دوپٹہ صحیح سے اوڑھتی دروازے کی طرف بڑھی تھی
اس نے ہلکا سا دروازے کی جھری سے باہر جھانکا تو کوئی عورت کھڑی نظر آئی تھی مریم نے سوچتے کہ وہ کون ہو سکتی ہیں دروازہ کھولا تھا سامنے ہی اس عورت کے ساتھ اک ستائس اٹھائیس سال کا سنجیدہ تاثرات لیے اک مرد بھی تھا
“السلام علیکم بیٹا یہ حسین صاحب کا ہی گھر ہے؟” مریم کے دروازہ کھولتا انہوں نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا
“میں نگہت ہوں اور یہ میرا بیٹا روحان ہمیں شکیل بھائی نے بھیجا ہے حسین صاحب سے تھوڑا کام ہے” انہوں نے حسین صاحب کے بہت ہی اچھے دوست کا حوالہ دیا تھا
“آئیے اندر آئیے ابا ابھی سٹور سے آئے تو نہیں مگر میں کال کر کے بلوا لیتی ہوں” شکیل صاحب کا حوالہ سنتے مریم نے انہیں اندر بلا لیا تھا
“مریم کون ہے؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے دروازے نے تمہیں جکڑ لیا ہو اور،،،،” نویرہ جو اپنے دھیان میں بولتی گیٹ کی طرف آئی تھی وہاں کھڑے دو اجنبی چہروں کو دیکھتے چپ ہوئی تھی اور کندھوں پہ پھیلا دوپٹہ جھٹ سے سر پہ لیا تھا اس کی یہ حرکت دیکھتے نگہت بیگم مسکرائی تھیں
مریم انہیں لیے برآمدے میں آئی تھی انہیں وہاں بیٹھا کہ خود کچن میں چلی گئی تھی تا کہ کوئی چائے کا بندوبست کر سکے اس کے پیچھے باقی سب بھی انہیں سلام کرتیں کچن میں آ گئی تھی مریم سے پوچھنا بھی تھا کہ وہ لوگ کون ہیں
“ویسے شکیل چچا خود بھی آتے رہتے ہیں چچی بھی آتی جاتی ہیں لیکن ان کے سپوتوں کو کھبی نہیں دیکھا” مریم کے بتانے پہ کہ انہیں شکیل صاحب نے بھیجا ہے منیہا نے سر ہلاتے شوشہ چھوڑا تھا
“وہ بیچارے آئیں بھی کیسے آخری دفعہ جب وہ آئے تھے جانے کس بات پہ تم سب نے ان کی مل کے جو درگت بنائی تھی سپیشلی چھوٹے والے کو منیہا نے اتنا مارا تھا بیچارے کا حشر برا ہو گیا تھا اب بھی آتے ہوئے وہ واقعہ یاد آتا ہو گا تو آنے سے توبہ کر لیتے ہوں گے” مریم نے بتایا تو ان سب کا قہقہہ چھت پھاڑ تھا
“تمیز سے باہر مہمان بیٹھے ہوئے ہیں” مریم نے انہیں تنبیہ کی تھی جس پہ وہ سب شرافت کے جامے میں آئی تھیں ان کے چائے بنانے تک حسین صاحب بھی آ گئے تھے چائے سرو کرنے کے بعد وہ سب اپنے روم میں چلی گئی تھیں
“بھائی صاحب دراصل ہم شکیل بھائی کے پڑوسی ہیں ہم نے اپنا گھر رینیو کروانا ہے تقریباً اک مہینے کا کام ہے تب تک کے لیے ہمیں کرائے پہ اک گھر چاہئیے تھا ہم نے یہی بات شکیل بھائی کے سامنے رکھی تو انہوں نے آپ سے ملنے کا کہا کہ آپ کا اوپر والا پورشن خالی ہے” نگہت بیگم نے اپنے آنے کی وجہ بتائی تھی جسے سن کے حسین صاحب تھوڑا سوچ میں پڑ گئے تھے
“جی ہمارا اوپر والا پورشن ہے تو خالی ہی لیکن آپ جانتی ہیں یہ گھر لڑکیوں والا ہے اور،،،،” انہوں نے روحان کو دیکھتے بات دانستہ ادھوری چھوڑی تھی
“آپ اس بات کی فکر مت کریں روحان صبح جاتا ہے اور رات گئے واپس آتا ہے” نگہت بیگم نے ان کی الجھن دور کی تھی
“اچھا چلیں کوئی بات نہیں اگر آپ مطمئن نہیں تو ہم کوئی اور بندوبست کر لیتے ہیں” نگہت بیگم نے انہیں سوچ میں ڈوبا دیکھ کر نرمی سے کہا اور روحان کو اٹھنے کا اشارہ کیا تھا
“نہیں نہیں مجھے اپنی بیٹیوں پہ پورا اعتماد ہے اور آپ کا بیٹا بھی شکل سے شریف لگ رہا ہے لوگوں کا کیا ہے ان کا کام تو باتیں بنانا ہے” ان کے کہنے پہ حسین صاحب شرمندہ ہوتے جلدی سے بولے تھے اور ساتھ روحان کو بھی دیکھا تھا جو سارا وقت سنجیدگی سے نظریں جھکائے بیٹھا رہا تھا
“بہت شکریہ آپ کا بھائی صاحب ہم آج رات ہی یہاں شفٹ ہو جاتے ہیں کل صبح سے ویسے بھی کام شروع ہو جانا ہے” نگہت بیگم نے کہا تو حسین صاحب نے سر ہلایا تھا پھر اک دو باتیں مزید کرنے کے بعد وہ لوگ اٹھ گئے تھے ادھر وہ روم میں بیٹھی باہر ہی نظریں گاڑے ہوئے تھیں
“ویسے لڑکا ہے ہینڈسم” منیہا نے اک نظر روحان کو دیکھتے کمینٹ پاس کیا تھا اونچا لمبا قد گندمی رنگت اور درمیانی سی داڑھی مونچھوں میں وہ بہت صوبر لگ رہا تھا
“ہو گا ہم کیا کریں؟ ہم نے کونسا اس کا اچار ڈالنا ہے” مریم نے لاپرواہی سے کہتے موبائل پکڑا تھا
“آئیڈیا اس دن مائرہ کہہ رہی تھی نا لڑکا کہاں ہے جس سے مریم کی شادی کرنی ہے مل گیا لڑکا اسی سے ہم مریم کی شادی کر دیتے ہیں” روش چہکتے ہوئے بولی تو بیک وقت سب نے اسے گھوری سے نوازا تھا
“اتنی تم ہو نہیں جتنی بننے کی کوشش کرتی ہو اس لیے فضول باتیں کرنے سے پرہیز کیا کرو آئندہ میں تمہارے منہ سے ایسی کوئی بات نہ سنوں” مریم نے سختی سے اسے ٹوکا تھا روش نے خفا ہوتے منہ بسورا تھا اور جا کر بیگ کھول کے بیٹھ گئی تھی
مریم جانتی تھی وہ خفا ہو گئی ہے مگر اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسے منانے کا وہ اک دوسرے سے مذاق کرتی رہتی تھیں مگر کھبی کوئی ایسی اوٹ پٹانگ بات نہیں کی تھی جس سے ان کے ذہنوں سپیشلی روش جو کہ میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی اس کے ذہن پہ کوئی برا اثر پڑے وہ ان سب کی بڑی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کا رول بھی ادا کرتی تھی جو انہیں ہر اچھی بری بات سمجھائے
_________________________
نگہت بیگم اپنے بیٹے روحان سمیت رات کو ہی شفٹ ہو گئی تھیں اوپر والے پورشن میں وہ سب ان کا اپنے گھر میں شفٹ ہونے کا سن کے بہت خوش ہوئی تھیں کیونکہ انہیں باتیں کرنے کے لیے کوئی مل گیا تھا جب وہ اک دوسرے سے باتیں کر کے بور ہو جائیں تو کوئی اور بھی تھا اب جس سے جا کر وہ باتیں کر سکتی تھیں
اگلی صبح جاگنگ کے بعد حسبِ معمول وہ سب اپنے کمروں میں اور حسین صاحب اور مریم کچن میں آ گئے تھے جب کافی دیر اپنے نام کی کوئی پکار نہ سنائی دی تو خود اٹھ کر روم میں گئی تا کہ دیکھ سکے وہ سب کیا کر رہی ہیں
“ارے انکل آپ ناشتہ کیوں بنا رہے ہیں؟” مریم کے کچن سے نکلتے ہی روحان نیچے آیا تھا شاید آفس جا رہا تھا چونکہ سیڑھیوں کے بلکل ساتھ کچن تھا اس لیے اس کی نظر بلا ارادہ کچن کی طرف اٹھی تھی اور وہاں موجود حسین صاحب کو ناشتہ بناتے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی اور وہ بےساختہ پوچھ بیٹھا تھا
“بس بیٹا ماں ان کی بچپن میں گزر گئی تو ان کے سارے کام میں ہی کرتا تھا اب باقی سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں سوائے صبح کے ناشتے کے وہ آج بھی میری ہی ذمہ داری ہے” حسین صاحب پہلے تو چونکے تھے پھر مسکراتے ہوئے اسے وجہ بتائی تو وہ بھی مسکرا دیا اور مریم کے آنے سے پہلے انہیں خدا حافظ کہتے چلا گیا تھا
“کیا ہوا کوئی تیار ہو کے ابھی ادھر آئی نہیں؟” مریم واپس کچن میں آئی تو حسین صاحب نے پوچھا تھا
“سب چھٹی کر کے بیٹھی ہوئی ہیں بقول ان کے اوپر والی آنٹی کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے ہیں” مریم نے آملیٹ پلیٹ میں نکالتے بتایا تھا
“دیکھو انہیں زیادہ تنگ نہیں کرنا” حسین صاحب اپنی بیٹیوں کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انہیں تنبیہ کرنے نہیں بھولے تھے جس پہ مریم نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا تھا
پھر ناشتہ کرنے کے بعد حسین صاحب چلے گئے تھے ان سب نے مل کر کام نپٹائے تھے پھر اوپر والے پورشن میں چلی آئی تھیں اوپر آ تو گئی تھیں مگر سب اک دوسرے کو دھکے دے رہی تھیں تم پہلے جاؤ تم پہلے جاؤ مگر کوئی آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں تھی تبھی سامنے موجود روم سے نگہت بیگم باہر نکلی تھیں اور سب کو کھڑا دیکھ کر مسکرائی تھیں
“ارے بچیوں وہاں کیوں کھڑی ہو آ جاؤ اندر اگر میرے بیٹے کی وجہ سے جھجھک رہی ہو تو وہ کب کا آفس جا چکا ہے” ان کی جھجھک کو بھانپتے نگہت بیگم نے نرمی سے کہا تھا ان کے اتنے نرم انداز پہ ان سب کو حوصلہ ہوا تھا اور وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی تھیں سب نے اپنا اپنا تعارف کروایا تھوڑی ہی دیر میں وہ ان کے ساتھ ایسے گھل مل گئی تھیں جیسے نگہت بیگم ہمیشہ یہی رہتی ہوں
“اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ مجھے یہاں آ کر میری بیٹی کی خواہش پوری ہو جائے گی اور مجھے اتنی پیاری پیاری بیٹیاں ملیں گی تو میں تھوڑا جلدی آ جاتی یہاں” نگہت بیگم نے محبت بھری نظروں سے ان ساتوں کو دیکھا تھا
“ارے آنٹی لوگ بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں اور آپ کو بیٹی چاہیے بیٹے تو بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں” زینیہ نے بظاہر ہنستے ہوئے کہا تھا مگر اس کے لہجے میں دکھ بھرا ہوا تھا بچپن سے اب تک ہر کوئی یہی کہتا آیا تھا بیچارے حسین کی سات بیٹیاں ہیں اللّٰہ کوئی بیٹا دے دیتا جو اس کا بڑھاپے کا سہارا بن جاتا
“ارے بیٹا انسان بڑا ناشکرا ہے بیٹیاں ہوں تو بیٹے کی خواہش بیٹے ہوں تو بیٹی کی خواہش اور کس نے کہا صرف بیٹے بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں مجھے لگتا ہے بیٹیاں بیٹوں سے بھڑ کا ماں باپ کا احساس کرتی ہیں اور جو بیٹے مانگتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں بیٹے نعمت ہیں اور نعمتوں کا حساب ہو گا جبکہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور رحمت کا کوئی حساب نہیں ہوتا” نگہت بیگم نے ان سب کے چہروں سے ٹپکتی اداسی دیکھ کر انہیں رسانیت سے سمجھایا تو وہ سب مسکرا اٹھی تھیں
“مریم آپی زینیہ فاتینا کہاں ہو سب؟” اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا نیچے سے آتی آوازوں پہ سب اس طرف متوجہ ہوئے تھے
“میں دیکھتی ہوں” نویرہ کہتی تیزی سے نیچے گئی تھی جہاں ان کے پڑوسیوں کے اکلوتے چشم و چراغ کی اکلوتی بہن سارہ موجود تھی
“تم آج یونی نہیں گئی؟” نویرہ کو دیکھتے سارہ نے حیرت سے سوال کیا تھا
“نہیں آج ہم میں سے کوئی نہیں گیا وہ ہمارے اوپر والے پورشن میں اک آنٹی اور ان کا بیٹا رینٹ پہ شفٹ ہوئے ہیں بس ان سے تعلقات بڑھانے اوپر گئی تھیں” نویرہ نے اسے بتایا تھا
“آنٹی سے یا ان کے بیٹے سے؟” سارہ کے شرارت سے پوچھنے پہ نویرہ نے اسے اک دھمکو رسید کیا تھا
“ظاہر سی بات ہے آنٹی سے اور بیٹے سے یاد آیا تم اپنی اماں کے بیٹے کا حال سناؤ؟” اسے جواب دیتے نویرہ نے شرارت سے بھرپور لہجے میں ارسلان کے بارے میں پوچھا تھا
“نہ کرو ان کی بائیک کی حالت تم نے؟” سارہ نے حیرت سے اسے دیکھا تو نویرہ نے کھلکھلاتے ہوئے سینے پہ ہاتھ رکھتے جھک کے کریڈٹ وصول کیا تھا
“بہت کیا ہے تم نے بائیک کی حالت پہ بیچارے بھائی کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی صلواتیں سنا رہی ہیں اماں” سارہ نے افسوس سے کہا تھا
“کیا مطلب انہیں کیسے پتہ چلا کہ بائیک کی وہ حالت میں نے کی تھی؟” نویرہ کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی
“وہ بائیک کی ایسی حالت کرنے والے کو کوس رہی تھیں ابھی انہیں یہ نہیں پتہ وہ تمہارا کارنامہ پتہ چل گیا تو،،،، ” سارہ نے بات ادھوری چھوڑتے اسے دیکھا تھا
“جب پتہ چلے گا تب کی تب دیکھی جائے گی فلحال آ جاؤ اوپر چلیں تمہیں آنٹی سے ملواتی ہوں بہت سویٹ آنٹی ہیں” نویرہ نے اس کی بات کو ہوا میں اڑاتے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور اوپر چلی گئی تھی جہاں وہ سب ان کی ہی منتظر تھیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...