(۱)
یہ وہ زمانہ تھا جب ’’سیلاب عظیم نے تباہی مچا رکھی تھی اور تمام کوہ و پربت اس کے گھیرے میں تھے۔‘‘ ۱ شہنشاہ شون کی ساری رعایا کو ٹیلوں اور اونچی جگہوں پر پناہ نہ مل سکی لہٰذا کچھ درختوں پر چڑھ گئے اور بعضوں نے لٹھوں کے ٹھاٹ باند ھ کر اوپر تختوں کے سائبان بنا لئے۔ پہاڑی چوٹیوں سے یہ منظر بڑا شاعرانہ لگتا تھا۔
ٹھاٹوں پر سوار لوگ دور دراز سے سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں لا رہے تھے۔ اور آخرکار ہر کوئی جان گیا کہ نواب کون ٭۲ جو نو سال کی کوششوں کے بعد بھی سیلاب کا سد باب کرنے میں ناکام رہا تھا، شاہی عتاب کا نشانہ بن گیا تھا اور اسے ’’کوہ پنکھ‘‘ پردیس نکالا دے دیا گیا تھا۔ اس کا بیٹا نواب ون مینگ جس کی عرفیت آہ یوی۳ تھی، اس کا جانشین مقرر ہوا تھا۔
دھرتی پر ہر سو پانی ہی پانی تھا۔ تمام چھوٹی بڑی دانش گاہیں بند ہو گئی تھیں۔ بچوں کے مکتبوں کے لئے بھی کہیں جگہ نہ ملتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگ پراگندہ ذہن ہو گئے اور بہت سے عالم ’’کوہ ثقافت‘‘ ۴ پر جمع ہو گئے تھے ان کے لئے کھانا چونکہ ’روزگار کاریگروں کی مملکت ‘ سے اڑن رتھوں میں آتا تھا، اس لئے انہیں کوئی فکر فاقہ نہ تھا اور وہ پڑھنے پڑھانے میں مگن رہتے تھے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر لوگ یوی کے مخالف اور بعض تو اس کے وجود ہی پر معترض تھے۔
مہینے میں ایک بار فضا میں گھوں گھوں کا شور پیدا ہوتا اور پھر اڑن رتھ نمودار ہو جاتا۔ اس کے جھنڈے پر بنے ہوئے سنہری دائرے سے مدھم سی روشنی پھوٹتی رہتی تھی۔ زمین سے پانچ فٹ کی بلندی پر چند ٹوکریاں لٹکی ہوتیں۔ ان ٹوکریوں میں کیا ہوتا تھا، عالموں کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ رتھوں کے سواروں اور نیچے والوں میں کچھ یوں بات چیت ہوتی تھی:
’’گڈ مورننگ!‘‘ ۵
’’ھاؤ ڈو یو ڈو؟‘‘
’’گلو گلی‘‘
’’او۔ کے!‘‘
اڑن رتھ ’’یگانہ روز گار کاریگروں کی مملکت‘‘ کو لوٹ جاتا تو فضا میں چہار سو خاموشی چھا جاتی اور عالموں کو بھی چپ سی لگ جاتی، پھر وہ کھانے میں لگ جاتے اور صرف پہاڑوں سے ٹکراتی لہروں کا شور سنائی دیتا۔ پھر کچھ دیر سستانے کے بعد عالموں کی توانائیاں لوٹ آتیں اور علمی گفتگو کے ہنگامے میں لہروں کا شور بھی دب کر رہ جاتا۔
’’یوی بھلے ہی کون کا بیٹا ہو، مگر سیلاب پر کبھی قابو نہ پا سکے گا،‘‘ ایک عالم نے جس کے ہاتھ میں چھڑی تھی، اعلان کیا، ’’میں نے بہت سے بادشاہوں، نوابوں اور امراء کے شجرے اکٹھے کئے ہیں۔ طویل عرصے تک بغور مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں: امیروں کی اولاد امیر ہی رہتی ہے اس بدمعاشوں کے بچے بدمعاش بنتے ہیں ۔ ۔ یہ کیفیت ’’موروثی‘‘ ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کون کامیاب رہتا تو یوی کو بھی کامیابی نصیب ہوتی، احمقوں کی اولاد دانا نہیں ہو سکتی!‘‘
’’او کے!‘‘ ایک اور عالم نے جس کے ہاتھ میں چھڑی نہیں تھی، اس کی بات سے اتفاق کیا۔
’’مگر جہاں پناہ کے والد کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ ایک اور بے چھڑی کے عالم نے دخل در معقولات کیا۔
’’وہ ممکن ہے کچھ ’ضدی‘ رہے ہوں، لیکن بعد میں ٹھیک ہو گئے۔ حقیقی احمق کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے‘‘
’’او کے!‘‘
’’یہ یہ سس۔۔۔ سب بب ۔۔۔۔ بکواس ہے!‘‘ ایک عالم نے جس کی ناک سرخ ہو رہی تھی، ہکلاتے ہوئے کہا، ’’تم افواہوں سے گمراہ ہو چکے ہو، حقیقت تو یہ ہے کہ یوی نام کا کوئی شخص ہی موجود نہیں۔ یوی ایک رینگنے والا کیڑا ہے۔ کوئی رینگنے والا کیڑا کیا سیلاب کا سد باب کر سکتا ہے؟ در اصل کون کا بھی کوئی وجود نہیں، کون ایک مچھلی ہے۔ کیا مم مچھلی سسسیلاب پر قق قق قابو پا سکتی ہے؟‘‘ اس نے دونوں پاؤں بری طرح پٹختے ہوئے کہا۔
’’کون کے وجود پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ سات سال قبل میں نے اسے بچشم خود دیکھا تھا۔ جب وہ کوہ کھون لون پر آلوچے کی کلیوں سے لطف اندوز ہونے جا رہا تھا۔‘‘
’’ممکن ہے آپ نام سے دھوکا کھا گئے ہوں۔ اسے کون کی بجائے ’آدمی‘ کہہ کر پکارنا زیادہ مناسب ہے۔ جہاں تک یوی کا تعلق ہے، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک رینگنے والا کیڑا ہے۔ میرے پاس اس کے عدم وجود کے یہ متعدد ثبوت موجود ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ‘‘وہ بڑے طنطنے کے ساتھ اٹھا، چاقو نکال کر پانچ صنوبر کے درختوں کی چھال اتار لی۔ پھر روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں کو پانی میں ڈال کر لئی بنائی۔ اس میں لکڑی کا کوئلہ ملایا اور چھوٹے چھوٹے حروف میں درختوں پر لکھنا شروع کر دیا تاکہ یوی کے عدم وجود کا ثبوت رہے۔ نو تیا ستائیس ۔ پورے ستائیس دن وہ لکھتا رہا۔ جو کوئی اس کا یہ مقالہ پڑھنا چاہتا، اسے فیس میں ایلم کے دس رسیلے پتے، یا اگر وہ لٹھوں کے ٹھاٹ کا مکین ہوتا تو سیپ بھر کائی دینی پڑتی تھی۔
ہر سو پانی ہی تھا، لہٰذا شکار یا کاشتکاری کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ سیلاب سے بچ نکلنے والوں کے پاس وقت کی کمی نہ تھی، اس لئے بہت سے لوگ پڑھنے چلے آئے۔ تین دن تک صنوبروں کے گرد لوگوں کا ہجوم رہا اور اِدھر اُدھر تھکاوٹ کی آہیں اور ستائشی کلمات سنائی دیتے رہے۔ تاہم چوتھے روز ٹھیک دوپہر کے وقت جب عالم تلے ہوئے نوڈل کھا رہا تھا، ایک کسان ٹپک پڑا۔
یوی نام کے آدمی موجود ہیں اور یوی کا مطلب ’رینگنے والا کیڑا ‘ نہیں ہوتا۔ ہمارے دیہات میں بن مانس کے لئے لفظ ’یوی‘ لکھنے کا رواج ہے۔‘‘
’’کیا ایسے آدمی بھی ہیں جنہیں بن مانس کہا جاتا ہو…..‘‘ عالم چنگھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور اسی عالم میں نوڈلوں کا ادھ چبا نوالہ نگل گیا۔ اس کی ناک قرمزی ہو گئی تھی۔
’’یقینا ہیں۔ میں تو ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کے نام کتا اور بلی ہیں!‘‘
’’مسٹر پرندے کا سر، اس سے بحث نہ کریں۔‘‘ چھڑی والے عالم نے بیچ میں کودتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنی روٹی رکھ دی تھی، ’’تمام دیہاتی گنوار ہوتے ہیں، اپنا شجرہ لے کر آؤ!‘‘ اس نے دیہاتی کو مخاطب کیا، ’’میں ثابت کر دوں گا کہ تمہارے پرکھے سب کے سب گنوار تھے‘‘
’’میرے پاس کوئی شجرہ وجرہ نہیں‘‘
’’اوہنہ!‘‘ یہ تم جیسے جاہل اور بے ہودہ لوگ ہی ہیں جن کی وجہ سے میری تحقیق میں صحت پیدا نہیں ہوتی!‘‘
’’لیکن اس کے لئے آپ کو کسی شجرے کی ضرورت نہیں۔ میری تھیوری غلط نہیں ہو سکتی۔‘‘ مسٹر پرندے کا سر نے اور زیادہ آگ بگولا ہوتے ہوئے کہا۔‘‘ بہت سے عالموں نے مجھے لکھا ہے کہ وہ اس تھیوری کی تائید کرتے ہیں۔ میرے پاس وہ سب خطوط یہاں موجود ہیں‘‘
’’نہیں، نہیں، ہمیں بہر طور اس کا شجرہ دیکھنا ہو گا‘‘
’’مگر میرے پاس تو شجرہ ہے ہی نہیں۔‘‘ وہ ’’گنوار‘‘ کہنے لگا، ’’اور مصیبت کے اس وقت جب کہ چاروں طرف سے رابطہ کٹا ہوا ہے، آپ کے دوستوں کے تائیدی خطوط سے ثبوت مہیا کرنا، گھونگے کے خول میں بیٹھ کر عبادت کرنے سے زیادہ مشکل ہو گا۔ ثبوت یہاں ہمارے سامنے موجود ہے۔ آپ کا نام مسٹر پرندے کا سر ہے۔ کیا آپ آدمی کی بجائے واقعی پرندے کا سر ہیں؟‘‘
’’لعنتی!‘‘ مسٹر پرندے کا سر کا منہ غصے سے لال بھبوکا ہو گیا۔ ’’تمہیں میری توہین کرنے کی جرأت کیسے ہوئی! تمہارا خیال ہے کہ میں آدمی نہیں ہوں! چلو، نواب کاؤ یاؤ۶ کے پاس چل کر از روئے قانون اس کا تصفیہ کرائے لیتے ہیں! اگر میں آدمی ثابت نہ ہوا تو بخوشی سزائے موت قبول کر لوں گا۔ مطلب یہ کہ اپنا سر کٹوا دوں گا۔ سمجھے؟ اگر یہ بات غلط نکلی تو تم سزا پاؤ گے۔ بس ذرا انتظار کر لو۔ میں اپنے نوڈل ختم کر لوں۔‘‘
’’جناب،‘‘ دیہاتی نے احمقانہ انداز سے کہا، ’’آپ ایک عالم فاضل شخص ہیں۔ اتنا تو جانتے ہوں گے کہ دوپہر ہو چکی ہے اور دوسروں کو بھی بھوک لگ رہی ہو گئی۔ مصیبت تو یہ ہے کہ داناؤں کی مانند گنواروں کا بھی پیٹ ہوتا ہے ۔ ۔ انہیں بھی بھوک لگتی ہے۔ معاف کیجئے گا، میں ابک ائی تلاش کرنے جا رہا ہوں۔ آپ دعویٰ دائر کر دیں۔ میں عدالت میں حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہا پنے ٹھاٹ پر چڑھا اور جال لے کر آبی بوٹیوں کی تلاش میں نکل گیا۔ ایک ایک کر کے تماشائی بھی اِدھر اُدھر ہو گئے اور لال ناک اور کانوں والا مسٹر پرندے کا سر اکیلا رہ گیا۔ وہ پھر سے نوڈلوں پر ٹوٹ پڑا اور چھڑی والا عالم سر ہلانے لگا۔
مگر یہ اہم سوال تصفیہ طلب رہ گیا تھا کہ یوی واقعتاً کوئی رینگنے والا کیڑا تھا یا آدمی؟
(۲)
یوں لگتا تھا کہ یوی رینگنے والا کیڑا ہی تھا۔
آدھے سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔ ’’یگانہ روز گار کاریگروں کی مملکت‘‘ سے اڑن رتھ آٹھ بار آ چکا تھا۔ ٹھاٹوں کے مکین جو صنوبروں پر لکھا مقالہ پڑھنے آئے تھے، ان میں ہر دس میں سے نو جلندر کی بیماری کا شکار ہو چکے تھے۔ مگر ابھی تک یہ خبر نہ آئی تھی کہ سیلاب پر قابو پانے کا فرض کس افسر کو سونپا گیا تھا۔ اڑن رتھ دسویں بار آیا تب کہیں پتہ چلا کہ یوی نام کا ایک شخص واقعی موجود تھا، وہ واقعی کون کا بیٹا تھا اور اسے شاہی حکم کے تحت تحفظ آب کا وزیر مقرر کیا گیا تھا، وہ تین سال قبل چی چو۷سے روانہ ہو گیا تھا اور اب کسی بھی وقت واپس آنے والا تھا۔
لوگوں میں قدرے ہلچل پیدا ہوئی مگر وہ پر سکون اور مشکوک سے تھے۔ وہ اتنی افواہیں سن چکے تھے کہ اب ایسی ہر بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے تھے۔
تاہم، اب کی بار خبر کسی حد تک معتبر لگتی تھی۔ دو ہفتے نہ گزرے ہوں گے کہ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی ذکر تھا کہ وزیر جلد ہی پہنچنے والا ہے، کیونکہ ایک شخص نے جو دور کہیں آبی بوٹیاں اکٹھی کر رہا تھا، سرکاری کشتیاں دیکھی تھیں۔ اس نے ثبوت کے طور پر اپنے سر کا نیلا اور سیاہ گومڑا بھی دکھا یا جو بقول اس کے ایک محافظ کا پتھر لگنے سے ابھر آیا تھا، کیونکہ وہ بعجلت راستے سے نہ ہٹ سکا تھا۔ یہ وزیر کی آمد کا ایک ٹھوس ثبوت تھا۔ اور وہ شخص دیکھتے ہی دیکھتے شہرت حاصل کر گیا اور بہت مصروف رہنے لگا۔ ہر کوئی اس کا گومڑا دیکھنے لپکا چلا آیا اور اس کے ٹھاٹ پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ تب عالموں نے اسے طلب کیا اور سنجیدہ تحقیق کے بعد فیصلہ دیا کہ اس کا گومڑا اصلی گومڑا تھا۔ یہ دیکھ کر مسٹر پرندے کا سر اپنی تھیوری سے دستکش ہو گیا اور تاریخی تحقیق کا کام دوسروں پر چھوڑ کر لوک کہانیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
گومڑے والے واقعہ سے کوئی بیس دن بعد بڑی بڑی کشتیوں کا ایک بیڑا نمودار ہوا جس کی ہر کشتی درخت کے سالم تنے سے بنائی گئی تھی۔ ہر کشتی پر بیس محافظ چپو چلا رہے تھے اور تیس نیزے لئے کھڑے تھے۔ ہر کشتی کے اگلے اور پچھلے حصے پر جھنڈے لہرا رہے تھے۔ جونہی کشتیوں کا بیڑا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا، وہاں مقیم شرفاء اور علماء نے پورے احترام سے اس کا خیر مقدم کیا۔ کچھ دیر بعد، سب سے بڑی کشتی سے دو ادھیڑ عمر کے افسر اترے، جنہیں شیر کی کھالوں میں ملبوس دس بارہ محافظوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ دونوں افسر خیر مقدم کرنے والوں کے جلو میں، چوٹی پر بنی ہوئی پتھروں کی عمارت میں چلے گئے۔
خشکی اور تری پر لوگ گردنیں نکال نکال کر سن گن لینے کی کوشش کرنے لگے۔ اور آخر ان پر عقدہ کھل گیا کہ وہ دونوں سرکاری انسپکٹر تھے۔ یوی بذات خود نہیں آیا تھا۔
عہدیدار کمرے کے وسط میں بیٹھ گئے اور کچھ کھانے پینے کے بعد تحقیقات شروع کر دی۔
’’جہاں پناہ، حالات اتنے ناگفتہ بہ نہیں ہیں۔ کھانے پینے کو کافی مل جاتا ہے۔‘‘ میاؤبولی کے ایک ماہر نے عالموں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا، ’’روٹی مہینے میں ایک بار گرائی جاتی ہے اور مچھلی کی کمی نہیں جو اگرچہ کیچڑ کا ذائقہ دیتی ہے، مگر خاصی موٹی تازی ہوتی ہے۔ اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے، ان کے لئے ایلم کے پتوں اور آبی بوٹیوں کی کمی نہیں۔ وہ مغز کھپائی کئے بغیر دن بھر چرتے رہتے ہیں ۔ ۔ دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ انہیں چونکہ دماغی کام نہیں کرنا ہوتا، اس لئے ان کے لئے یہ چیزیں کافی ہیں۔ ہم نے ان کا کھانا چکھا ہے اور وہ کچھ ایسا برا نہیں، اس کا ذائقہ ایک مخصوص قسم کا ہے‘‘
’’مزید برآں،‘‘ ایک اور عالم جو شہنشاہ شن نونگ کی ’’مخزن الادویہ‘‘ ۸ پر سند تھا، بیچ میں بول پڑا،
’’ایلم کے پتوں میں وٹامن ڈبلیو اور آبی بوٹیوں میں آیوڈین ہوتی ہے جو خنازیر کے لئے تیر بہدف ہے اور یہ دونوں چیزیں غذائیت سے بھر پور ہیں۔‘‘
’’او۔ کے!‘‘ ایک اور عالم نے کہا اور افسر حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’اور پینے کا پانی تو اس کثرت سے ہے کہ دس ہزار نسلوں کے لئے بھی کافی ہو گا۔‘‘ مخزن الادویہ کے ماہر نے بات جاری رکھی، ’’لیکن بد قسمتی سے یہ کچھ گدلا ہے اور پینے سے پہلے اسے نتھارنا ضروری ہے۔ لیکن میرے بار بار کہنے کے باوجود لوگ اس قدر کوڑھ مغز ہیں کہ دھیان ہی نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ کہ بیمار پڑنے والوں کا کوئی شمار نہیں‘‘
’’کیا سیلاب کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد نہیں ہوتی؟‘‘ گہرے بھورے رنگ کے لمبے چوغے میں ملبوس ایک معزز نے جس کی داڑھی میں پانچ نوکیں بنی ہوئی تھیں، اظہار خیال کیا، ’’یہ لوگ سیلاب آنے سے پہلے اس قدر کام چور تھے کہ پشتوں کی مرمت تک نہ کی اور جب سیلاب آ گیا تو پانی کی نکاسی میں سستی دکھائی‘‘
’’اسے روحانی اقدار سے عاری ہونا کہتے ہیں، ’’نوکدار مونچھوں والے ایک مقالہ نویس نے رائے دی جو فوشی ۹ کے اسلوب میں نثر لکھتا تھا، اور پچھلی صف میں بیٹھا ہوا تھا۔ ’’جب میں کوہ پامیر پر چڑھا تو بہشتی ہوائیں چل رہی تھیں، آلوچے کے پھول کھل رہے تھے، آسمان پر سفید ابر پارے مچل رہے تھے، دھوپ کی پیلاہٹ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی، چوہے سو رہے تھے، میں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ اپنے ہونٹوں میں سگار دبائے ہوئے تھا اور اس کے چہرے پر چھی یو ۱۰ کا نقاب تھا ہا ہا ہا ہا! اب اس سلسلے میں کوئی چارہ کار نہیں‘‘
’’او۔ کے!‘‘
اس قسم کی گفتگو گھنٹوں جاری رہی۔ افسروں نے توجہ سے ساری باتیں سننے کے بعد کہا کہ وہ ایک مشترکہ رپورٹ تیار کریں جس میں بحالی سے متعلق تفصیلی تجاویز بھی ہوں۔ اس کے بعد وہ کشتی میں واپس چلے گئے۔
اگلے دن، سفرکی تھکن کے بہانے انہوں نے نہ کوئی کام کیا اور نہ ہی کسی سے ملاقات کی۔ تیسرے روز عالموں نے انہیں پہاڑ کی چوٹی پر چھتری نما بوڑھا صنوبر دیکھنے کی دعوت دی۔ سہ پہر کو وہ پہاڑ کے عقب میں زرد بام مچھلی کا شکار کھیلنے چلے گئے اور شام تک شکار سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ چوتھے دن انہوں نے اس بہانے نہ کوئی کام کیا اور نہ ہی کسی سے ملاقات کی کہ وہ معائنے کے بعد تھک گئے تھے۔ پانچویں دن دوپہر کے بعد انہوں نے عوام کے نمائندے کو بلا بھیجا۔
عوام چار دن پہلے ہی سے اپنا نمائندہ چننے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے، مگر کوئی یہ ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہو رہا تھا۔ سب یہی کہتے تھے کہ انہیں افسروں سے ملاقات کا کوئی تجربہ نہیں۔ اور آخر کار قرعہ فال گومڑے والے کے نام نکلا اور اسے بھا ری اکثریت سے چن لیا گیا۔ وجہ یہ کہ وہ افسروں سے ملاقات کا کچھ تجربہ رکھتا تھا۔ یہ فیصلہ سنتے ہی اس آدمی کے گومڑے میں جو بیٹھ چکا تھا، یوں ٹیسیں اٹھنے لگیں جیسے کوئی سوئیاں چبھو رہا ہو۔ اس نے آبدیدہ ہو کر التجا کی، ’’نمائندہ بننے سے تو مر جانا بہتر ہے۔‘‘ اب لوگ دن رات اس کے گرد جمع رہنے لگے اور بار بار یہی زور دیتے کہ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرے۔ انہوں نے اس پر عوامی مفادات سے پہلو تہی کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ ایک ایسا خود غرض ہے جسے چین میں رہنے کو کوئی حق نہیں۔ ز یادہ جوشیلے لوگ مکے تان تان کر اسی کو سیلاب کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ آخر لاچار ہو کر اس نے فیصلہ کیا کہ دوسروں کی بھلائی کے لئے خود کو قربان کر دینا ٹھاٹ پر جان دینے سے بہتر ہو گا۔ چوتھے روز اس نے از حد اولو العزمی دکھائی اور رضا مند ہو گیا۔
ہجوم اسے داد و تحسین دینے لگا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ لوگ حسد کی آگ میں جلنے لگے۔
پانچویں دن لوگ اسے کھینچ کھانچ کر کنارے تک لے گئے جہاں اسے بلاوے کا انتظار کرنا تھا۔ اور افسروں نے واقعی اسے بلا بھیجا۔ اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں، مگر اس نے ایک بار پھر اولو العزمی دکھائی۔ اس نے دو بھر پور جماہیاں لیں اور سوجی آنکھوں کے ساتھ سرکاری کشتی میں یوں سوار ہو گیا جیسے دھرتی چھوڑ کر اچانک فضا میں اڑنے لگا ہو۔
یہ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں حیرت ناچ اٹھی کہ نیزہ بردار محافظوں یا شیر کی کھالوں میں ملبوس سپاہیوں نے اسے مارا پیٹا نہ گالیاں دیں ۔ وہ چلتا ہوا سیدھا وسطی کیبن میں پہنچ گیا۔ فرش پر ریچھوں اور چیتوں کی کھالیں بچھی تھیں، دیواروں پر کمانیں اور تیر آویزاں تھے، اور ہر طرف آرائشی ظروف سجے ہوئے تھے۔ اور یہ سب کچھ دیکھ کر اس کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ گئے۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا دیا اور دیکھا کہ سامنے اعزازی نشستوں پر دو افسر براجمان تھے۔ اسے نظر بھر کر انہیں دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
’’تم عوام کے نمائندے ہو؟‘‘ ایک افسر نے پوچھا۔
’’جی، انہوں نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔‘‘ اس کی نظریں فرش پر بچھی چیتے کی کھال کی چتیوں پر گڑی ہوئی تھیں۔
’’تمہارے ہاں صورت حال کیسی ہے؟‘‘
سوال اس کے پلے نہ پڑا اور وہ چپ سادھے رہا۔
’’سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے؟‘‘
’’جی حضور، آپ کی نوازش سے‘‘ اس نے لمحہ بھر کے توقف کے بعد مزید کہا، ’’ہم گزر کر رہے ہیں وقت گزر رہا ہے‘‘
’’تم لوگ کھاتے کیا ہو؟‘‘
’’پتے، آبی بوٹیاں‘‘
’’کیا تم یہ چیزیں ہضم کر لیتے ہو؟‘‘
’’بالکل جنا ب، ہم ہر چیز کھانے کے عادی ہیں ہم ہر چیز کھا لیتے ہیں۔ صرف کچھ نوجوان سر پھروں نے ان چیزوں کے بارے میں ایک گانا گھڑ رکھا ہے اور ناچ بھی۔ لوگوں کے دلوں میں بدی جڑ پکڑتی جا رہی ہے! مگر ہم انہیں خوب لتاڑتے ہیں!‘‘
افسر ہنسنے لگے اور ایک نے دوسرے سے کہا، ’’یہ بڑا ایماندار آدمی ہے!‘‘
تعریف سن کر وہ پھول گیا اور ہمت جو بڑھی تو بے تکان بولنے لگا:
’’ہم ہمیشہ کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں۔ آبی بوٹیوں سے رسیلا زمردیں شوربا بناتے ہیں، اور ایلم کے پتوں سے شاہی پکوان۔ ہم درختوں سے ساری چھال نہیں اتارتے، کچھ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اگلے موسم بہار میں ٹہنیوں پر نئے پتے پھوٹ نکلیں اور ہم چن لیں۔ کاش، آپ عالی مرتبت صاحبان کی اجازت سے ہم بام مچھلی پکڑ سکتے‘‘
دونوں افسروں کی دلچسپی معدوم ہو چکی تھی۔ ایک افسر نے یکے بعد دیگرے دو زور دار جماہیاں لیں اور سخت لہجے میں کہا، ’’ایک مشترکہ رپورٹ تیار کرو جس میں بحالی کے لئے تفصیلی تجاویز درج ہوں۔‘‘
’’مگر جناب ہم میں سے کوئی بھی لکھنا نہیں جانتا!‘‘ اس نے دبے لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا تم سب لوگ ان پڑھ ہو؟ یہ تو سخت پسماندگی کی نشانی ہے! اگر یہ بات ہے تو اپنے کھانوں کے نمونے لے کر آؤ!‘‘
وہ خوف اور خوشی کے ملے جلے احساسات لئے باہر آ گیا اور اپنا گومڑا سہلاتے ہوئے فوراً اپنے افسروں کا حکم خشکی، درختوں اور ٹھاٹوں کے مکینوں تک پہنچایا اور ساتھ ہی بلند آواز سے حکم دیا، ’’یہ نمونے اعلیٰ افسروں کے لئے ہیں، اس لئے ہر شے صاف ستھری اور احتیاط سے پکائی جانی چاہیئے‘‘
عوام پتے دھونے، چھال اتارنے اور آبی بوٹیاں اکٹھی کرنے میں جت گئے۔ ہر طرف گہما گہمی اور افراتفری کا سماں تھا۔ خود گومڑے والے شخص نے نمونے لے جانے والی قاب تیار کرنے کے لئے رندے سے لکڑی ہموار کی۔ پھر دو تختیوں کو پالش کر کے خوب خوب چمکا یا اور تیزی سے پہاڑ کی چوٹی پر عالموں کے پاس لے گیا، اور درخواست کی کہ ان پر خطاطی کریں۔ وہ قاب کے ڈھکنے پر ’’پہاڑ سی درازی عمر اور سمندر ایسی گہری مسرت‘‘ لکھوانا چاہتا تھا۔ دوسری تختی پر جو اس نے یہ اعزاز ملنے کی خوشی میں اپنے ٹھاٹ پر لوح نصب کرنے کی خاطر بنائی تھی، وہ لکھوانا چاہتا تھا، ’’ایماندار شخص کا مسکن‘‘ لیکن عالم صرف پہلی تختی پر ہی لکھنے پر راضی ہوئے۔
(۳)
جب یہ دونوں افسر دار الحکومت لوٹے تو بیشتر دیگر انسپکٹر بھی ایک ایک کر کے واپس آ چکے تھے۔ صرف یوی ابھی نہیں لوٹا تھا۔ وہ چند دن گھر میں آرام کرتے رہے اور پھر محکمہ تحفظ آب میں ان کے ساتھیوں نے ان کی واپسی کی خو شی میں زبردست دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت کے لئے چندہ تین زمروں میں منقسم تھا۔ مسرت، دولت اور درازی عمر۔ اور کم سے کم چندہ پچاس بڑی کوڑیاں ۱۱ مقرر کیا گیا۔ اس روز عمدہ گھوڑوں اور بگھیوں کا ایک شاندار نظارہ دیکھنے میں آیا اور شام ہوتے ہوتے سارے مہمان آ گئے۔ صحن میں مشعلیں روشن کر دی گئیں۔ خدام گائے کے گوشت کے پتیلے لا رہے تھے اور اس کی اشتہا انگیز مہک سے ان کے منہ میں پانی بھر آ رہا تھا۔ جب تین بار شراب کا دور چل چکا تو افسران سیلاب زدہ علاقوں کے مناظر بیان کرنے لگے جن کا وہ دورہ کر کے آئے تھے۔ نرسلوں کی سفید براق کلغیاں، سونے کی طرح جھلملاتا گدلا پانی، موٹی تازی رسیلی بام مچھلیاں، ملائم آبی بوٹیاں نشہ بڑھا تو انہوں نے کھانوں کے وہ نمونے نکالے جو وہ اکٹھے کر کے لائے تھے۔ یہ نمونے چوبی قابوں میں بند تھے جن پر فوشی اور چھانگ چی ۱۲ کے ’’سسکتے بھوت‘‘ حروف کے اسلوب میں تحریریں رقم تھیں۔ ابتدا میں تو ہر کسی نے تحریروں کی تعریف کی اور پھر اتنا جھگڑا ہوا کہ نوبت مار کٹائی تک آ گئی۔ آخر میں انہوں نے اس تحریر کو بہترین قرار دیا، ’’ریاست خوشحال ہے، عوام امن چین سے زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘ کیونکہ نہ صرف خطاطی قدیم فن کا شاہکار تھی بلکہ اس میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا تھا وہ بھی بڑے صائب تھے۔ شاہی مورخوں کے ہاتھوں رقم کئے جانے کے لائق!
چین کے اس مخصوص فن کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے ثقافتی مسائل ایک طرف رکھے اور قابوں میں محفوظ نمونوں پر گفتگو شروع کر دی۔ خوبصورت وضع کے کیک دیکھ کر ہر کسی نے تعریف کی۔ مگر، شاید وہ بہت زیادہ شراب پی چکے تھے، اس لئے قضیہ کھڑا ہو گیا۔ ایک نے صنوبر کی چھال کے کیک کا لقمہ لیا تو اس تازگی اور مہک کے قصیدے پڑھنے لگا اور اعلان کر دیا کہ وہ اگلے دن ہی استعفیٰ دے کر سبک دوشی کی زندگی شروع کر دے گا اور حقیقی مسرتوں کسے لطف اٹھائے گا۔ ایک اور شخص نے سرو کے پتوں کی روٹی کھائی تو اسے سخت اور بد ذائقہ قرار دیا۔ اس کی زبان چھل گئی تھی۔ اور عوام کے دکھ درد میں شرکت کے اس اظہار سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حکمرانی کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا اور وزیر بن کر ذمہ داریاں سنبھالنا بھی کو ئی آسان بات نہ تھی۔ دوسرے لوگ کیک اور روٹیاں جھپٹنے کو لپکے، کیونکہ تھوڑی دیر بعد چندہ اکٹھا کرنے کے لئے ان چیزوں کی نمائش ہونے والی تھی۔ ادھ کھائے کیکوں اور روٹیوں کی نمائش مناسب نہ تھی۔
دریں اثنا باہر شور و غوغے کا سماں پیدا ہو چکا تھا۔ سانولے چہروں اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس بد وضع، گداگروں ایسے لوگوں کا ایک ہجوم ساری رکاوٹیں توڑ کر اندر آ گیا تو سنتریوں نے چمکتے نیزے دکھا کر انہیں روک لیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟ ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو!‘‘ ہجوم کے آگے آگے چلنے والے ایک دراز قد چھریرے بدن والے شخص نے جو دم بھر کے لئے مبہوت ساہو کر رہ گیا تھا، چلا کر کہا۔ اس کے ہاتھ پاؤں بڑے بڑے تھے۔
محافظوں نے مدھم روشنی میں غور سے دیکھا، پھر بڑے احترام سے راستہ چھوڑ دیا، اور تن کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے بہرحال پیچھے آنے والی ایک تھکی ماندی عورت کو روک لیا جو کھدر کا چوغہ پہنے ہوئے تھی اور اس کی بغل میں ایک بچہ تھا۔
’’ارے! تم مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ اس نے بند مٹھی سے پیشانی کاپسینہ پونچھتے ہوئے متحیر لہجے میں پوچھا۔
’’یقینا پہچانتے ہیں بیگم یوی!‘‘
’’تو پھر مجھے اندر کیوں نہیں جانے دیتے؟‘‘
’’مادام، بڑا مشکل وقت آن پڑا ہے۔ اس سال عوام کا اخلاق سدھارنے اور مردوں کے دلوں میں صالح خیالات پیدا کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں کو یکجا ہونے کی اجازت نہیں۔ اب عدالت میں کوئی عورت داخل نہیں ہو سکتی۔ یہ قاعدہ یہاں صرف آپ ہی کے لئے نہیں ہے۔ یہ حکم اوپر سے آیا ہے۔ ہم قصور وار نہیں ہیں۔‘‘
وہ لمحہ بھر کو تو گھبرائی، مگر پھر مڑ کر بلند آواز سے کو سنے لگی:
’’خدا کرے تمہارے ٹکڑے اڑیں! تم کس کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے بھاگے بھاگے اندر گئے ہو؟ اپنے گھر کے سامنے سے یوں گزر گئے جیسے تمہارے ماں باپ مر چکے ہوں! تم افسر ہو، افسر! اس افسری کا کیا فائدہ؟ یاد رکھو کہ تمہارے باپ کو کس طرح دیس نکالا ملا اور وہ جھیل میں کود کر کچھوا بن گیا! سنگدل خبیث، خدا کرے تمہاری بوٹیاں چیل کوے کھائیں!‘‘
اسی اثنا میں ہال کے اندر ایک ہلچل مچ چکی تھی۔ دعوت اڑانے والوں نے جو کرخت چہروں والے لوگوں کے انبوہ کو اندر آتے دیکھا تو بھاگ نکلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ لیکن جب کسی کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نظر نہ آیا تو ہمت کر کے غور سے آنے والوں کا جائزہ لینے لگے۔ آگے آگے آنے والے شخص کا چہرہ گو سنولایا ہوا اور دبلا پتلا تھا، تاہم لوگ اس کے رکھ رکھاؤ سے جان گئے کہ وہ یوی تھا۔ باقی لوگ ظاہر ہے اس کے ساتھی تھے۔
اس اچانک حملے سے ان کا نشہ ہرن ہو گیا۔ چوغوں کی سرسراہٹ اور پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اور وہ سب اپنی نشستوں سے ہٹ گئے۔ یوی سیدھا میز کی طرف بڑھا اور اعزازی نشست سنبھال لی۔ اس کے مزاج میں شائستگی نہ تھی یا پھر وہ گنٹھیا کا مریض تھا، کیونکہ ٹانگیں جوڑ کر بیٹھنے کی بجائے اس نے ٹانگیں پھیلا رکھی تھیں اور اس کے بڑے بڑے پاؤں کا رخ افسروں کی طرف تھا۔ پاؤں میں موزے نہیں تھے اور تلوؤں پر سنگھاڑے ایسے گھٹے پڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھیوں نے اس کے دونوں جانب نشستیں سنبھال لیں۔
’’حضور کیا آج ہی دار الحکومت پہنچے ہیں؟‘‘ ایک افسر نے جو دوسروں سے قدرے زیادہ باہمت تھا، گھٹنوں کے بل آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’سب لوگ یہاں قریب آ کر بیٹھو!‘‘ یوی نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے چنگھاڑ کر کہا، ’’تم لوگوں کی تحقیقات کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟‘‘
افسروں نے گھٹنوں کے بل آگے بڑھتے ہوئے پریشان نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں اور ادھر اُدھر بکھرے ہوئے بچے کھانوں کے پاس بیٹھ گئے۔ گھبراہٹ میں انہیں یہ ہمت بھی نہ ہوئی کہ خادموں سے کہہ کر جگہ صاف کروا دیتے۔
’’حضور کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ حالات اتنے برے نہیں ہیں۔ ہمارے رائے میں حالات خاصے اچھے ہیں۔‘‘ آخر ایک افسر نے کہنا شروع کیا، ’’صنوبر کی چھال اور آبی بوٹیوں کی بہتات ہے، اور پینے کے پانی کی بھی کمی نہیں۔ عام لوگ نیک دل اور سادہ لوگ ہیں اور وہ اس زندگی کے عادی ہیں۔ حضور جانتے ہی ہوں گے کہ ان کی قوت برداشت کا ساری دنیا میں شہرہ ہے۔‘‘
’’اس ناچیز نے چندہ اکٹھا کرنے کا ایک منصونہ بنایا ہے۔‘‘ دوسرا افسر بول اٹھا، ’’ہماری تجویز ہے کہ انوکھے کھانوں کی ایک نمائش منعقد کی جائے۔ اور ملبوسات کی نمائش کے لئے مس نوی وی کو مدعو کیا جائے۔ اس کے لئے ٹکٹ فروخت کئے جائیں گے، تاہم، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آنے پر راغب کرنے کی غرض سے ہم یہ اعلان کریں کہ نمائش میں کوئی چندہ نہیں مانگا جائے گا۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ یوی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بہر حال، ایک فوری اہمیت کا کام یہ ہے کہ عالموں کو اونچی جگہ لانے کے لئے ٹھاٹوں کا ایک بڑا بیڑا بھیجا جائے گا۔‘‘ تیسرا افسر بول اٹھا، ’’اس کے علاوہ ’یگانہ روز گار کاریگروں کی مملکت، میں ایک ایلچی بھیجا جائے، انہیں بتایا جائے کہ ہم ثقافت کو عزیز جانتے ہیں اور یہ کہ وہ امدادی سامان ہر ماہ یہاں بھیجتے رہیں عالموں نے ہمیں بڑی اچھی رپورٹ دی ہے جس میں اس امر کی توثیق کی گئی ہے کہ ثقافت قوم کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اور عالم ثقافت کی روح ہوتے ہیں۔ ثقافت موجود رہے گی تو چین بھی قائم رہے گا۔ باقی سب باتیں ثانوی ہیں‘‘
’’ان کے خیال میں چین کی آبادی حد سے زیادہ ہے۔‘‘ پہلا افسر پھر گویا ہوا، ’’آبادی میں کمی حصول امن کا بہترین طریقہ ہے۔ ۱۳ عام لوگ احمق ہوتے ہیں۔ ان کے رنج و راحت، دکھ اور خوشیاں کسی صورت بھی داناؤں کے تخیلات ایسے نازک نہیں ہوتیں۔ انسان کو جاننے اور واقعات کا اندازہ لگانے کے لئے موضوعیت پسندی شرط اول ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر شکسپیئرکو لیں‘‘
بکواس! یوی نے سوچا اور پھر بلند آواز میں کہنے لگا۔ ’’میری تحقیقات کے مطابق بند باندھنے کا پرانا طریقہ خاصا غلط تھا۔ آئندہ ہمیں آب نکاسی کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟‘‘
ہال میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی! افسروں کے چہروں پر موت کی زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ کئی ایسے تھے جن کی طبیعت خراب ہو گئی ۔ اور اگلے روز رخصت علالت پر جانے کا سوچنے لگے۔
’’یہ طریقہ چھی یو نے اپنایا تھا!‘‘ ایک نوجوان افسر نے قدرے ہمت سے کام لیتے ہوئے غصے میں اپنے آپ سے کہا۔
’’میری حقیر رائے میں تو حضور یہ خیال ترک کر دیں!‘‘
سفید سر اور داڑھی والے ایک افسر نے کہا۔ اسے یہ زعم تھا کہ سلطنت کے مستقبل کا دار و مدار اب اس کے ہونٹوں سے نکلے ہوئے چند لفظوں پر تھا۔ چنانچہ حوصلہ مجتمع کرتے ہوئے اس نے صدائے احتجاج بلند کر دی، ’’بند باندھنے کا یہ طریقہ آپ کے محترم آنجہانی والد نے اپنایا تھا۔ سعادت مند بیٹا وہی ہوتا ہے جو تین سال تک باپ کی روایت نہ بدلے۔ ۱۴ آپ کے والد کو فوت ہوئے ابھی تین سال پورے نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
یوی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’اور یہ بھی تو سوچیں کہ آپ کے آنجہانی والد نے کس قدر مصائب اٹھائے!‘‘ کھچڑی سر اور داڑھی والے ایک افسر نے جو یوی کے ماموں کا منہ بولا بیٹا تھا، دخل دیتے ہوئے کہا، ’’انہوں نے طغیانی کے راستے میں بند باندھنے کے لئے آسمانی شہنشاہ سے شی ژانگ ۱۵ مستعار لی۔ اور گو ان پر شاہی عتاب نازل ہوا، مگر پانی کی سطح قدرے نیچی ہو گئی۔ میری رائے میں ہمیں ان کے طریقے پر کاربند رہنا چاہیئے۔‘‘
یوی چپ سادھے بیٹھا رہا۔
’’حضور، آپ کو وہ کام پایہ تکمیل تک پہچانا چاہیے جو آپ کے والد ادھورا چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ ایک موٹے افسر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ یوی کی خاموشی دیکھ کر اس نے یہی خیال کیا کہ وہ قائل ہونے کو تھا۔ پھر بھی اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے، ’’خاندان کا نام پرانے خاندانی رسم و رواج کے ذریعے روشن کریں۔ حضور شاید نہیں جانتے کہ لوگ آپ کے محترم آنجہانی والد کے بارے میں کیا کچھ کہتے رہتے ہیں‘‘
’’قصہ مختصر یہ کہ بند باندھنے کا طریقہ دنیا بھر میں کامیاب رہا ہے۔‘‘ سفید داڑھی والا افسر اپنے ساتھی کی لغزش پر جلدی سے پردہ ڈالنے کے لئے بیچ میں ٹپک پڑا، ’’تمام دوسرے طریقے ’جدید طریقے ‘ ہیں ۔ چھی یو اسی غلطی کا شکار ہوا۔‘‘
یوی کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’میں جانتا ہوں۔ کوئی کہتا ہے میرا باپ بھورا ریچھ بن گیا، اور کوئی کہتا ہے، تین ٹانگوں والا کچھوا۔ کچھ لوگ مجھ پر الزام دھرتے ہیں کہ میں شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔ لوگ جو چاہیں کہتے رہیں۔ میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہاڑوں اور جھیلوں کے نقشے تیار کئے ہیں، لوگوں سے رائے لی ہے، مسئلے کو حقائق کی روشنی میں دیکھا اور فیصلہ کیا ہے۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے، ہم آب نکاسی کے نالوں کا نظام قائم کریں گے۔ یہاں موجود میرے تمام ساتھیوں کی بھی یہی رائے ہے۔‘‘
یوی نے ایک ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا، سفید داڑھی اور بالوں والے افسر، کھچڑی داڑھی اور بالوں والے افسر، چھوٹے سے سفید چہرے والے افسر، بھرے بھرے اور پسینے سے تر چہرے والے افسر، موٹے مگر بغیر پسینے کے چہرے والے افسر، غرض سب نے اس سمت دیکھا۔ وہاں سانولے، دبلے پتلے چہروں والے فقیر نما لوگ بے حس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ نہ مسکرا رہے تھے اور نہ ہی بول رہے تھے، یوں جیسے لوہے کے بنے ہوئے مجسمے تھے۔
(۴)
یوی کے جانے کے بعد وقت گویا پر لگا کر اڑنے لگا۔ ہر بیتنے والے دن کے ساتھ غیر محسوس انداز میں دار الحکومت کی خوش حالی لوٹتی چلی آئی۔ ابتداً کچھ امیر لوگوں نے ملائم ریشم پہننا شروع کیا۔ پھر پھلوں کی بڑی بڑی دکانوں میں سنگترے اور چکوترے بکتے نظر آنے لگے۔ کپڑے کی دکانیں نت نئے ریشم کے تھانوں سے بھر گئیں اور صاحب حیثیت لوگوں کے دسترخوانوں پر عمدہ سویابین کی چٹنی، شارک کے بازوؤں کا شوربا اور سرکہ میں ڈوبے سمندری ککری نمودار ہو گئے۔ اور پھر ریچھ کی کھال کے قالین اور لومڑی کی کھال کے استر والی جیکٹیں دکھائی دینے لگیں۔ عورتوں کے کانوں میں سونے کی بالیاں اور کلائیوں میں چاندی کے کڑے بہار دینے لگے۔
نت نئے نظارے دیکھنے کے لئے آدمی کو محض اپنے دروازے پر کھڑے ہونے کی ضرورت تھی۔ کبھی بانسوں سے تو کبھی صنوبر کے تختوں سے لدے ہوئے چھکڑے گزرتے چلے جاتے۔ کبھی کوئی مصنوعی پہاڑیاں بنانے کے لئے طرح طرح کے پتھر لے جاتا نظر آتا اور کسی نے تازہ مچھلی اٹھا رکھی ہوتی۔ بعض اوقات تو ایک ایک فٹ سے زیادہ لمبے کچھوؤں سے لدے ہوئے چھکڑے بھی دار الحکومت کی طرف رواں دواں دکھائی دے جاتے۔ کچھوؤں نے گردنیں اپنے خولوں میں چھپا رکھی ہوتی تھیں اور وہ بانس کے پنجروں میں بند ہوتے تھے۔
’’امی! دیکھو تو کتنے بڑے بڑے کچھوے ہیں!‘‘ بچے شور مچاتے باہر نکل کر چھکڑوں کو گھیر لیتے۔
’’ہٹ جاؤ، بدمعاشو! یہ شہنشاہ کے لئے ہیں۔ تمہیں اپنی جان پیاری نہیں ہے کیا؟‘‘
قیمتی چیزیں دارالحکومت میں آنے کے ساتھ ساتھ یوی کے بارے میں خبریں بھی چلی آ رہی تھیں۔ لب سڑک درختوں کی چھاؤں میں، مکانوں کے چھجوں تلے بہت سی کہانیاں سننے میں آتیں۔ مقبول ترین کہانی یہ تھی کہ یوی کس طرح رات کے وقت بھورے ریچھ کے روپ میں آیا، منہ اور پنجوں کی مدد سے نو دریاؤں سے گاد نکالی، کسی طرح اس نے آسمانی فوجوں اور آسمانی جرنیلوں کو طلب کر کے شیطان وو چی چھی کو جو سیلاب لایا تھا، پکڑوا کر کوہ کچھوا کے نیچے قید کیا۔ اب شہنشاہ شون کے معرکوں کی بات کوئی نہیں کرتا تھا، کوئی ذکر ہوتا بھی تھا تو ولی عہد تان چو کے ناکارہ پن کا!
چونکہ ایسی خبریں عرصے سے مل رہی تھیں کہ یوی دار الحکومت واپس آنے والا ہے، اس لئے ہر روز درے کے پاس لوگوں کا ایک ہجوم اس کی سواری دیکھنے اکٹھا ہو جاتا، مگر ہر روز انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ خبریں بہر حال متواتر آ رہی تھیں اور مستند بھی تھیں۔ انجام کار ایک ملگجی صبح وہ ہزاروں کے مجمع میں راستہ بناتا ہوا شاہی دار الحکومت چی چو میں آ داخل ہوا۔ ا س کی پیشوائی میں کوئی شاہی نشان نہ تھا۔ بس اس کے فقیر نما ساتھیوں کا ہجوم تھا۔ وہ سب سے پیچھے تھا۔ بڑے بڑے ہاتھوں اور پاؤں والا چھریرا سا شخص ۔ اس کا چہرہ سنولایا ہوا اور داڑھی بھوری تھی۔ اس کی ٹانگیں قدرے مڑی ہوئی تھیں اور دونوں ہاتھوں میں سیاہ رنگ کا بڑا سا نوکدار پتھر تھا۔ شوان کوئی ۱۶ جو شہنشاہ شون نے اسے عطا کیا تھا۔ وہ بار بار یہی پکار رہا تھا، ’’برائے کرم، راستہ تو چھوڑ دیں!‘‘ اسی طرح ہجوم میں دھکا پیل کرتا وہ شاہی محل تک آ پہنچا۔
محل کے دورازے پر لوگوں کے نعرہ ہائے تحسین سے فضا یوں گونج اٹھی جیسے دریائے چہہ چیانگ کی گرجتی موجیں!
بوڑھا شہنشاہ شون اژدھا تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے سے کسی قدر خوف اور تھکن کے ملے جلے آثار ہویدا تھے۔ یوی کے اندر آنے پر وہ بعجلت بڑی حلیمی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ علیک سلیک کے بعد وزیر کاؤ یاؤ نے کچھ استقبالیہ کلمات کہے اور پھر شہنشاہ گویا ہوا:
’’مجھے کچھ دانائی کی باتیں بتاؤ۔‘‘
’’کیا کہوں؟‘‘ یوی نے فوراً جواب دیا، ’’مجھے تو ایک ہی فکر رہتی تھی کہ ہر روز اس پر دباؤ رکھا جائے!‘‘
’’دباؤ رکھا جائے ۔ ۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟‘‘ کاؤ یاؤ نے استفسار کیا۔
’’جب سیلابِ عظیم نے دھرتی پر دھاوا بول کر رکھا تھا اور کوہ و دامن ڈوبے اور گھرے ہوئے تھے تو لوگ پانی میں محصور ہو کر رہ گئے۔‘‘ یوی کہنے لگا: ’’جہاں خشکی تھی، وہاں میں نے گھوڑا گاڑی سے سفر کیا، جہاں پانی تھا وہاں کشتی کا سہارا لیا، کیچڑ میں بے پہئے کی گاڑی استعمال کی اور پہاڑ راہ میں آئے تو پالکی کام آئی۔ ہر پہاڑ پر میں نے درخت گرائے اور ای کی مدد سے ہر کسی کو چاول اور گوشت مہیا کیا۔ میں نے کھیتوں کا پانی دریاؤں میں اور دریاؤں کا پانی سمندر میں خارج کیا۔ اور چی کی مدد سے لوگوں کی فوری ضرورتیں پوری کیں۔ جہاں رسد کی قلت پائی، وہاں ان علاقوں سے سامان منگوایا جن کے پاس کچھ فاضل تھا۔ میں نے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ اور انجامِ کار ہر کوئی امن و چین سے زندگی گزارنے لگا اور امن و امان کا دور دورہ ہو گیا۔‘‘
’’خوب! یہ ہیں دانائی کی باتیں۔‘‘ کاؤ یاؤ نے تعریف کی۔
’’ہاں!‘‘ یوی نے بات جاری رکھی، ’’حکمران کو عاقل اور حلیم ہونا چاہئے۔ وہ خدا پر بھروسہ رکھے تو خدا بھی اُس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے۔‘‘
شہنشاہ شون نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور امورِ مملکت یوی کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اسے جو کچھ کہنا ہو، بلا جھجک اُس کے منہ پر کہے، پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرے۔ یوی نے حامی بھر لی تو شہنشاہ نے ایک اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ’’تان چوکی طرح میری نافرمانی مت کرنا۔ وہ لہو و لعب میں غرق رہتا ہے، انہونی باتیں کرتا ہے اور گھر میں بھی ایسی آفت مچاتا ہے کہ جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس نے واقعی حد کر دی ہے!‘‘
’’میری شادی کو چار دن ہوئے تھے کہ میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔‘‘ یوی کہنے لگا: ’’میرا ایک بیٹا آہ چھی ہے، مگر میں اچھا باپ ثابت نہ ہو سکا۔ یوں میں نے سیلاب پرقابو پایا۔ سلطنت کو پانچ خطوں میں تقسیم کیا جن میں ہر خطے کا رقبہ اڑھائی ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی ہے جس میں ۱۲ صوبے ہیں۔ میں نے پانچ گورنر مقرر کئے ہیں۔ سب کام کے آدمی ہیں سوائے میاؤ کے ۔ آپ کو اس پر نظر رکھنی ہو گی!‘‘
’’یہ سب تمہاری محنتوں کا ثمرہ ہے کہ میری سلطلت میں پھر سے امن و سکون کا دور دورہ ہو گیا۔‘‘ شہنشاہ نے تعریفی لہجے میں کہا۔
تب شہنشاہ اور کاؤ یاؤ نے احتراماً سر جھکا لئے۔ دربار برخاست ہونے کے بعد شہنشاہ نے فوراً ایک فرمان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہر کوئی یوی کی پیروی کرے، ورنہ اُسے سخت سزا دی جائے گی۔
یہ سن کر سوداگروں میں بھگدڑ مچ گئی، لیکن یوی دار الحکومت واپس آنے کے بعد کچھ بدل چکا تھا۔ وہ گھر میں اب بھی سادہ کھانا کھاتا تھا مگر چڑھاوے چڑھانے کا وقت آتا یا سرکاری تقریبات ہوتیں تو بڑے تزک و احتشام کا مظاہرہ کرتا۔ عام طور پر وہ سادہ لباس پہنتا، مگر دریا میں یا کسی سے جوابی ملاقات کے لئے جاتا تو زرق برق لباس پہن لیتا۔ یوں کوئی کاروبار متاثر نہ ہوا اور تھوڑے ہی عرصے بعد تاجر پیشہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یوی سب کے لئے بڑی عمدہ مثال تھا اور کاؤ یاؤ کے نئے قانون بھی بُرے نہیں تھے۔ چہار سو ایسا امن و سکون دیکھنے میں آیا کہ جنگلی جانور بھی خوشی سے ناچ اُٹھے اور ققنس مزے سے اڑتے پھرنے لگے۔
٭٭
حواشی
۱۔ قرون اولیٰ کے شاہی خاندانوں سے متعلق ’’کتاب تاریخ‘‘ سے ایک قول
۲۔ نواب کون سیلاب کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوا ’’کوہ پنکھ‘‘ پر مرگیا تھا۔
۳۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہی نواب کون کا بیٹا تھا۔ وہ سیلابوں پر قابو پانے میں کامیاب رہا اور شون کے بعد تحت نشین ہوا۔
۴۔ ’’کوہ ثقافت‘‘ پر عالموں کا اجتماع دوسری انقلابی خانہ جنگی کے زمانے کی بعض ثقافتی شخصیتوں اور کچھ رجعت پسند عالموں کی طرف طنزیہ اشارہ ہے۔ ’’کوہ ثقافت‘‘ اکتوبر ۱۹۳۲ کے اس واقعہ کی طرف طنزیہ اشارہ ہے کہ جب چیانگ ھان، لیوفو، سو پینگ چھا نگ اور ماہنگ سمیت پئچنگ کی تیس سے زیادہ ثقافتی شخصیتوں نے کو متانگ حکومت کو عرض داشت پیش کی تھی کہ پئچنگ کو ’’شہر ثقافت‘‘ قرار دے دیا جائے۔ اس وقت جاپانی سامراجی چین کے شمال مشرقی صوبوں پر قبضہ کر چکے تھے اور شمالی چین سخت خطرے سے دوچار تھا۔ کومن تانگ حکومت، دشمن کی اطاعت اور وطن فروشی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے شمال سے نکلنے اور قدیم ثقافتی نوادرات کو پئچنگ سے نانچنگ منتقل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ چیانگ ہان اوردوسرے لوگوں نے قدیم ثقافتی نوادرات کی اس منتقلی کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ پئچنگ کوئی سیاسی یا فوجی اہمیت نہیں رکھتا اور ایک نہایت بے ہودہ تجویز پیش کی کہ حکومت پئچنگ کو ثقافتی علاقہ قرار دے کر اس کا دفاع ترک کر دے۔ انہوں نے درخواست کی کہ ’’حکومت جملہ فوجی شعبوں کو پاؤ تینگ منتقل کر کے پئچنگ کو ’شہر ثقافت‘ قرار دے دے۔‘‘ یہ بات واضح ہے کہ یہ تجویز نہ صرف بے ہودہ تھی بلکہ اس وقت کی جاپانی سامراجیت کی سازشوں سے بھی مطابقت رکھتی تھی۔ یہ اس دلیل سے بھی ہم آہنگ تھی جو کومنتانگ حکومت اپنی اطاعت پسندانہ پالیسی کے جواز میں دیتی رہتی تھی۔ کومنتانگ حکومت نے پئچنگ کو ’’شہر ثقافت‘‘ تو قرار نہ دیا، مگر انجام کار، اس سے جاپانی سامراجیوں کے حق میں دستبردار ہو گئی۔ ۱۹۳۳ کے اوائل میں بہت سے ثقافتی نوادرات نانچنگ پہنچا دئے گئے۔ لوشیون نے ۱۸ ستمبر ۱۹۳۱ کو شن یانگ پر جاپانی قبضے کے وقت سے اپنی وفات تک متعدد مضامین لکھے جن میں کومنتانگ کی قوم سے غداری کو بے نقاب کیا گیا تھا ایسے ہی ایک مضمون میں انہوں نے ’’شہر ثقافت‘‘ کی تجویز کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ زیر نظر کہانی کے پردے میں انہوں نے ان بیہودہ دلائل کا مضحکہ اڑایا ہے جو چیانگ ھان اور دوسرے لوگوں نے اپنی عرضداشت میں دئے تھے۔ اور بعض ’’عالموں‘‘ کو ان معاصر عالموں کے زمرے میں رکھا ہے جو رجعت پسندانہ خیالات کے حامل تھے۔
۵۔ مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے بعض نام نہاد عالموں کا مذاق اڑانے کے لئے یہ مکالمہ اصل متن میں بھی انگریزی میں ہے۔
۶۔ قدیم چین کے شہنشاہ شون کا ایک افسانوی وزیر انصاف۔
۷۔ قدیم چین کے نو صوبوں میں سے ایک صوبہ۔ روایت کے مطابق سیلاب پر قابو پانے کا کام چی چو سے شروع ہوا تھا۔
۸۔ طبی جڑی بوٹیوں پر قدیم ترین چینی کتاب۔ اس کے زمانہ تالیف کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ غالباً یہ ھان یا وی ادوار میں مرتب کی گئی تھی اور شن نونگ سے منسوب ہے۔
۹۔ قدیم چین کا ایک افسانوی شہنشاہ جو حروف علت کا موجد سمجھا جاتا ہے۔
۱۰۔ قدیم روایتوں کے مطابق چھی یو شمال کے ایک قبیلے چیولی کا سردار تھا۔
۱۱۔ کوڑیاں، قدیم چین میں نقدی کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔
۱۲۔ ایک روایت کے مطابق چھانگ چی شاہی مورخ تھا اور اس نے حروف علت وضع کئے تھے۔
۱۳۔ اس وقت نام نہاد عالم اور حکام ’’آبادی میں کمی‘‘ کے لئے ایک دلیل یہ بھی دیا کرتے تھے۔ مثلاً چھن یوان نے جریدے ’’ماڈرن ریویو‘‘ کی جلد سوم (شمارہ یکم مئی ۱۹۲۶) میں خاندانی منصوبہ بندی کی اس بنیاد پر بھرپور وکالت کی کہ ’’ہماری آبادی میں اب اضافے کی ضرورت نہیں بلکہ موجودہ آبادی اگر آدھی بھی کر دی جائے تو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‘‘ ان دنوں ایسی باتیں اکثر سننے میں آتی تھیں۔
۱۴۔ کنفیوشس کا ایک قول۔
۱۵۔ افسانوی مٹی جو بڑھتی تھی اور کبھی ختم نہیں ہوتی تھی۔
۱۶۔ کوئی نوکدار یشب ہوتا ہے جو امراء درباری رسوم اور نذر گزارتے وقت اٹھائے رکھتے تھے۔ شوان کا مطلب ہے سیاہ۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید