(Last Updated On: )
میلوں پھیلے صحرا میںہروقت گردآلود ہوائیں اُڑتی رہتیں؛دُور دُور تک چمکیلی ریت کے اُڑان بھرتے ذرّے راہ گزاروں کی منور آنکھوں کو دُھندلا تے رہتے تھے؛اور یہ صحرائی مسافرماحول کی سنگینی سے بے نیاز اپنے کاموں میں یوںمحو رہتے جیسے کوئی انہونی ہو ہی نہیں سکتی_____مشہورتھا کہ کوٹ ناگ گڑھ کسی زمانے میں خطرناک سانپوں اوراژدہوں کا مسکن تھا؛اسی لیے اس کا یہ نام پڑا۔اُن دنوں کوٹ ناگ گڑھ میں بلا کی گرمی پڑرہی تھی؛انسان توانسان چرند،پرند اور درند بھی اپنے مسکنوں سے نکل کر بیزاری کے عالم میں سر پٹخاتے پھرتے تھے۔پانی کی قلت کے باعث سیاہ بھجنگ ناریاں اوربوڑھی عورتیں کہنیوں تک روایتی چوڑیاں چڑھائے، مٹی کی گاگریں اُٹھائے ٹبوںاوربنیوں میںپانی تلاش کرتی پھرتی تھیں_____ان کے چہروں پر کبھی لالی رہی ہوگی؟ لیکن اَب اُن کے چہروں پر تھکا دینے والی زندگی کے کرخت آثار تھے؛ البتہ کچھ نوخیز لڑکیاں دیسی پاؤڈر اور تیزرنگت کی سرخی سے اپنے چہروں کو لال کرنے کی ناکام کوشش ضرور کرتی تھیں۔بستی میں مہینوں بعدایک بنجاراآیاکرتاتھا، جوخواتین کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں لاتا۔اُس روز بھی وہ بنجارا اپنی پشت پر صدیوں پرانا سیاہ صندوقچہ لادے؛ہاتھ میں لاٹھی پکڑے کوٹ ناگ گڑھ میں داخل ہوا۔ خواتین جو پانی کی تلاش میں تھیں، سارے کام چھوڑ کراُس کے گرد دائرہ بنا کر کھڑی ہوگئیں۔بعضوںنے اپنی چُنری کے کناروں میں کچھ سکے باندھ رکھے تھے؛ تیزی سے کھولنے لگیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیں۔ کچھ جو سکوں کے بوجھ سے آزاد تھیں ، وہ چیزوں کی خواہش ہی کرسکتی تھیں؛ لیکن بنجارا کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا۔اُس کے پاس قرض کی سہولت موجود تھی؛ یوں وہ لڑکیاں بھی اپناشوق پورا کرنے لگیں، جو تہی دست تھیں۔ ابھی لڑکیوں کا گھیرا قائم تھا؛اچانک ساقا بڑبڑاتا ہوااورخواتین کا حلقہ چیرتا ہوا بنجارے کے سر ہوگیا____وہ مسلسل ایک ہی جملہ دوہرا رہا تھا :
’’تاجاں_____آ_____تاجاں_____آ_____تاجاں_____آ‘‘
بنجارا جو سال ہاسال سے یہاں آرہاتھا؛ اس گفتگو سے اچھی طرح شناسا تھا_____ وہاں موجود عورتیں بھی ساقااورتاجاں کے تعلق سے کچھ کچھ واقف تھیں۔عورتوںنے اپنی گاگریں اُٹھائیں اورکچھ ہی لمحوں میںدائرہ توڑ ،آگے پیچھے قطار بنا کر ٹبوں کی طرف بڑھ گئیں_ _ _ _ بنجارے نے اپنا صندوقچہ سمیٹا اورساقا کوآگے بڑھنے کا اشارہ کیا_____!
ساقا پچاس پچپن سال کا لمباترنگا ،مریل اورسڑیل قسم کا ایک لنگڑا شخص تھا_____اُس کے سامنے والے دودانت انتہائی لمبے تھے ؛ باقی دانت کسی زمانے میںموجود رہے ہوں گے؛اَب اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں تھا۔اُس کی آنکھیں گھومی ہوئی تھیں؛ جب وہ سامنے دیکھ رہا ہوتا تواُس کے چہرے کا رُخ ہمیشہ بائیں جانب ہوجاتا_____زُبان میں اس قدر لکنت تھی کہ صرف اُسے قریب سے جاننے والے ہی اُس کی زبان سمجھ سکتے تھے اورکوٹ ناگ گڑھ کا ہر شخص اُس کاقریبی تھا۔ نہیںمعلوم وہ کہاں سے آیا تھا لیکن سرکنڈوں کی اس بستی کاوہ ایسا مکین تھا، جس کے لیے ہر گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا_____وہ بے دھڑک کسی بھی وقت ان بے دَر گھروں میں گھس جاتا اوراپنی ضرورت کی چیز کی طرف اشارہ کرکے حاصل کرلیتا۔ لڑکے بالے اور کبھی کبھی نوخیز لڑکیاں بھی اُسے چھیڑتیں؛جواباً وہ رونے لگتا_____ پھر بچوں کی طرح ریت پر لوٹتا رہتا؛اس عرصے میں اُس کی لنگڑی ٹانگ زمین پر ایسے نقش اُبھارتی جیسے کوئی خارش زدہ جانور زمین پرلوٹنے کے بعد نشان چھوڑجاتا ہے۔ اُس کے منھ سے مسلسل رال ٹپکتی رہتی،ناک بہ بہ کراُس کی کھچڑی نما بد وضع ڈاڑھی میں جذب ہوتی؛ پھر وہ ریت کی مٹھیاں بھر بھر کراپنے سر میں ڈالتا جاتا_____چھیڑنے والے یہ تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتے۔پھر کسی بڑے بوڑھے کے آنے پرنوجوان کھسک جاتے اورساقا رَو رَوکراپنی کتھا سنانے لگتا۔ بزرگ دلاسا دیتے اور پھر چند ہی لمحوںمیں ساقا اپنے کپڑے جھاڑ کر کسی گھر میں گُھس جاتا۔
وہ سب کاسانجھا مزدور تھا؛اس لیے ہر کوئی اُس سے کام لینا اپنا حق سمجھاتھا؛ جس کے ہاتھ لگ جاتا،وہ اُسے دَھر لیتا۔خصوصاً عورتیں اُس سے گھر کے کام کاج میں مدد لے لیا کرتی تھیں اور وہ بھی اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتے ہوئے ہر کام نبٹانے کی کوشش میں رہتا۔توشی چرواہا تواُسے کسی بھی طورآرام نہیں لینے دیتا تھا؛مٹھی بھر بھنے ہوئے دانوں کا لالچ اُسے ہروقت توشی کے ساتھ رکھتا۔توشی تھا بھی نرم دل اور میٹھا _____ وہ ساقا کی عزتِ نفس کبھی مجروح نہ ہونے دیتا؛بلکہ اُس کی باتوں کو توجہ سے سُنتا_____پھر مصنوعی حیرتوں کا مظاہرہ یوں کرتا جیسے تمام معلومات صرف ساقا کے پاس ہیں اورتوشی تو کچھ جانتا ہی نہیں۔ وہ اور زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں گھروں کے اندر کی کہانیاں توشی کو سنانے لگتا_____توشی ایسا اَیالی تھا،جس کے پاس کم وبیش ہرگھرانے کی بکریاں تھیں۔ یُوں وہ بھی براہِ راست لوگوں کی نفسیات، مزاج اورحالات سے اچھی طرح واقف تھا_____ لیکن ساقا سے سُن کر وہ زیادہ لطف کیش ہوا کرتا _____دونوں ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر گھومتے؛سبزہ تلاش کرتے اور بکریاں چراتے رہتے۔ جب بھی ٹبوں پر جانوروں کو پانی پلانے لے جاتے،وہاںموجود ناریوں پر حریصانہ نگاہ ڈالتے اور بعد کاسارا وقت اُن کا یہی موضوع رہتا_____
تاجاں،خان سائیں کی پہلی بیوی تھی؛جو درجن بھر بچے جننے کے بعد بھی اُسی طرح جواں اور طاقت وَر تھی_____خان سائیں اس بستی کے سیاہ وسپید کے مالک تھے؛اِس لیے اُنھوں نے اپنا حقِ ملکیت کبھی نہیں چھوڑا_____پچھلی سردیوںمیں اُنھیں بھولے رام کی بارہ سالہ بیٹی انیتادیوی پسندآگئی تھی؛لڑکی والوں کی تو جیسے قسمت سنور گئی_____ ہنسی خوشی کے ساتھ سات دنوں کے اندر اندرلڑکی خان سائیں کے پاس آگئی۔انیتا دیوی سے پہلے صاحبو اورچنگی بھی اسی طرح خان سائیں کے حرم میں شامل ہوئی تھیں اوراُن میں سے ہرایک کئی کئی بچے جن چکی تھی_____خان سائیں کی تنی ہوئی مونچھوں کے سامنے کوٹ ناگ گڑھ کے اُن رہائشیوں کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہتیں_____ جب وہ اپنے سیاہ مشکی گھوڑے کو تازیانہ لگا تے تواُس کے سموں سے اُڑتی ریت ہر ایک کے نتھنوں کا حصہ بنتی؛لوگ دُور تک اُڑتی گرد کو دیکھتے رہ جاتے_____اورخان سائیں یہ جا_____وہ جا_____!
بستی دریا سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پرتھی؛اِس طرف کوئی سہولت نہیں تھی؛ مجبوراًلوگوں کو کشتی کے ذریعے دوسری جانب جاناپڑتا_____ایک شکستہ کشتی دن میں دوبار لوگوں کو لاتی لے جاتی_ _ _ _ _ خان سائیں نے جب دریاپارجانا ہوتا تو اپنے مشکی گھوڑے کی باگیں کھلی چھوڑ دیتے۔ملاح، خان سائیں کو گھوڑے سمیت سوارکرتا اور پھر پاراُتارآتا۔ایسے موقعوںپرساقا بستی کے تمام کاموں اورلوگوں پر لعنت بھیج کر تاجاں کے پاس پہنچ جاتا۔اُس کے تمام ادھورے پڑے کام نبٹاتا۔اُس کے جانوروں کو نہلاتا، اُن کے سامنے چارہ ڈالتا، گوبراُٹھا کر باہر پھینکتا، پورے صحن میں جھاڑو لگاتا،کپڑے دھونے کے لیے گاگریں بھر بھر لاتا،سرکنڈوں سے بنے گھر کی چھت اورصحن میں مٹی سے لپائی کرتا، غرض ہروہ کام جو اُسے سونپا جاتا_____خوشی سے کرتا اورسرشاری کے عالم میں اپنی توتلی زبان سے اپنے تئیں علاقائی لوک گیت گنگناتارہتا۔خان سائیں جب تک گاؤں سے باہر ہوتے،ساقاان خدمات میں جُٹا رہتا۔
O
اُن دنوں دریا میں طغیانی تھی؛چرواہا توشی باربارگاؤں والوںکو باخبرکرتاتھا_____اُدھر ملاح اور بنجارے نے بھی اطلاع دی تھی کہ اِس بار دریا کے تیور معمول سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔اس سے پہلے کوٹ ناگ گڑھ تک توپانی کبھی نہیں پہنچاتھا؛البتہ آس پاس کے دیہات اکثر زیرِ آب آتے اورڈیروں کو ویران کرجاتے_____کھڑی فصلیں،جانور،انسان اورپالتوپرندے سال ہاسال سے دریا کی ستم گری کا شکار ہوتے آئے تھے۔
اس بار پانی کوٹ ناگ گڑھ کی حدوں میں داخل ہوگیا؛لوگ جان بچانے کے وسیلے ڈھونڈنے لگے_____جس کے لیے جیسے ممکن تھا،وہاں سے نکلنے کے جتن کرنے لگا_____بس ضروری چیزیں پشتوں پر لادیں اور نکل گئے۔ ویسے بھی بستی والے کون سااتنے امیر تھے کہ چھکڑے بھر بھر سامان لے کرجاتے؟خان سائیں بھی اپنی خاندانی فوج کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تھے_____پوری بستی میں ایک اکیلا اُن کا گھرانہ تھا،جسے چھکڑے کی ضرورت تھی_____ مگر جب ہر طرف پانی کی حکمرانی ہو تو چھکڑے کہاں سے آئیں؟ جیسے تیسے کرکے وہ اپنے اونٹوں اور کشتیوں کے ذریعے وہاں سے نکلنے میں کام یاب ہوسکے تھے۔ جو نہ نکل سکے ، وہ پانی میں بہ گئے_____ گزوں بلندپانی پورے کوٹ ناگ گڑھ کی کچی بستی کو اپنی لپیٹ میں لے چکاتھا؛ہرطرف پانی ہی پانی_____اوراِ س پانی کی تہ میں اورزَد پر جو کچھ آیا،تباہی کے منھ میں چلا گیا _____کچھ بھی تو باقی نہیں بچاتھا_____پانی نے سب کچھ نگل لیا____ پوری بستی کھا گیا۔
دنوں بعداُجڑی بستی بسانے کے لیے جب کوٹ ناگ گڑھ کے باقی ماندہ لوگ پلٹے تواُن کے گاؤں کے صرف آثار باقی تھے۔ پھلاہی، کیکر اور بیری کے کچھ درخت جومشکل سے اپنے تنے بچا لینے میں کام یاب ہو گئے تھے،ٹنڈمنڈ حالت میں استقبالی مینار کی صورت ایستادہ تھے_____ایک مایوس کن فضاتھی؛ ہر کوئی نیا ٹھکانے بنانے کے لیے پریشان تھا۔خان سائیں کاگھراگرچہ کچی اینٹوں اور سرکنڈوں سے بنا تھا _ _ پھر بھی اُس کی دیواروں کے آثار موجود تھے۔اُن کا قافلہ حسرت ویاس اوراُمید کی ملی جلی فضا میں اپنے گھر کے باہر پہنچ کر ٹھہرچکاتھا _____اُن کے درجنوںبچے حزن وملال میں ڈوبی ہوئی حیرت کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔اچانک سیاہ بھجنگ مردہ سانڈ پر اُن کی نظر پڑی_____خوف سے اُن کی چیخ نکل گئی _ _ _ _ _ خان سائیں تجسس سے آگے بڑھے؛تاجاں کے صحن کے سامنے بیری کے درخت کے ٹنڈی شاخوں کے نیچے ساقا کی پھولی ہوئی لاش پڑی تھی؛ جس کی لنگڑی ٹانگ ایک چُنری سے بندھی ہوئی تھی_____ خان سائیں یہ معما حل نہ کرسکے لیکن تاجاں کے رُخساروں پرگرم آنسوؤں کی قطار روانہ ہوچکی تھی؛ سبززمین پر پیلے پھولوں والی چُنری اُسی کی تھی۔
O
[ماہنامہ ’’صبحِ بہاراں‘‘ راول پنڈی، اگست ۲۰۱۸ء]