ایسا لگتا ہے کہ صحرا زندگی کے تنوع کا مطالعہ کرنے کے لئے اچھی جگہ نہیں ہو گی۔ لیکن اگر آپ کے پاس اچھا گائیڈ ہو تو یہ بہترین مقام ہے کیونکہ چھوٹی سی چیز بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ افریقہ کے نمب صحرا کا سفر قدرت کے ایڈاپٹیشن کے ذریعے ڈیزائن کا genuis آشکار کرتا ہے۔ اس سخت ماحول میں پودے اور کیڑے پانی کو پکڑنے اور محفوظ رکھنے کے انوکھے طریقے رکھتے ہیں۔ اس صحرا کا ایک چھوٹا سا بیٹل اس کی مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرڈ میگزین میں کہانی چھپی کی ایک نئی شروع ہونے والی کمپنی پانی کی بوتل ڈیزائن کر رہی ہے جو ہوا سے نمی چوس کر خود بخود بوتل بھر دے گی۔ ویسے ہی جیسے نمب کے صحرا کا بیٹل کرتا ہے۔
یہاں پر پورے سال میں صرف تیرہ ملی میٹر اوسط بارش ہوتی ہے۔ اس کیڑے کی نقل کے لئے کئی اکیڈمک کام کئے جا چکے ہیں لیکن پہلی بار خود ہوا سے نمی چوس کر بھرنے والی پانی بوتل کا آئیڈیا نیا تھا۔
یہ کیڑا یہی والا کام مہارت سے کرتا آیا ہے۔
سمندر کی جانب سے آنے والی ہوا نمی لاتی ہے۔اس کے پروں میں کچھ ابھار ہیں جو پروں کے کناروں پر پانی کھینچنے والے (hydrophilic) مادے سے بنے ہیں۔ اور باقی جگہ پر پانی دھکیلنے والے (hydrophobic) سے۔ یہ ہوا کی سمت کا نشانہ لے کر اپنے پر ایسے پھیلاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نم ہوا کو پکڑ سکے۔ بہت چھوٹے سے قطرے اس کی کمر پر بنتے ہیں جو پندرہ سے بیس مائیکرون قطر کے ہیں۔ یہ بہہ کر اس کے منہ کی طرف لڑھک جاتے ہیں۔
این بی ڈی نینو نامی یہ کمپنی دو ماہرینِ حیاتیات، ایک مکینیکل انجینر اور ایک کیمسٹ نے شروع کی ہے جس کا مقصد اس کے خول کی مصنوعی کاپی بنا کر سٹرکچر کی مدد سے پانی کو ہوا سے الگ کرنے کا کام کرنا ہے۔
فطرت سے سیکھنا biomimicry کا شعبہ ہے۔ اور یہ صرف ٹیکنالوجی تک محدود نہیں۔ میڈیسن سے ریسرچ تک، صنعت، معیشت، آرکیٹکچر، شہری منصوبہ بندی، زراعت، معیشت، سیاست، یہ فطرت کا مشاہدہ، تجزیہ اور اس کی قدر کرنے کا نیا طریقہ ہے۔