(Last Updated On: )
مدیرہ : اختر جہاں
پتہ: مکتبہ شعرو حکمت بازار نور الامراء ۲۲۔ ۲۔ ۴۶۷، حیدرآباد۔ ۲۴
ضخامت: ۳۳۶ صفحات، قیمت فی شمارہ: ۵۰= ۳ روپے
عمدہ ادب اور صحت مند علم کی اشاعت کے لیے اکثر ان باتوں پر توجہ نہیں کی جاتی جو اپنی جگہ پر زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ مثلاً عمدہ طباعت عمدہ کتابت اور عمدہ کاغذا دارۂ شعر و حکمت قابلِ مبارک باد ہے کہ اس نے اچھے اور تازہ ادب کو بہت ہی اہتمام کے ساتھ شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ حسنِ عمل شعر و حکمت کے ہر صفحہ پر حسنِ مجاز کی شکل میں نظر آیا ہے۔۔ ۔ زیرِ نظر شمارہ میں دو طویل نظمیں شریک ہیں دونوں ہی مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کی طویل نظم ’’گم نام کا ممکن جو تو ہے‘‘ میں ہوں؟ ایک تجرباتی اور عملی نظم ہے جس میں شاعر کے سینے سے کائنات کے دامن تک ایک جستجو کا سلسلہ ہے۔ راشد نظم کا واحد خالص شاعر ہے۔ واحد پر آپ کو حیرت ہو گی لیکن راشد کا مطالعہ بہت گہرا ہے وہ تو ایسی باتیں جذب کر لیتا ہے جس پر ہماری نگاہیں کھل کر پڑی ہیں۔ مثلاً
(۱) کیسی بکھری پھول نیند، (۲) میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،
(۳) عشق جیسے روشنائی کا کوئی وجہ تھا اور کیسے شانوں پر گرا اک چاند گیت،
کتنے چوکوں سے، پیراہن پہ ناگہاں گرا!!،
جس سے میں ظاہر ہوا، کتنے گونگے مجمعوں سے گزر گیا ہوں!!
ن۔ م۔ راشد کی یہ نظم بلاشبہ اردو کی اہم ترین نظموں میں شمار کی جائے گی جس میں ایک گہرا، سمجھ دار اور فلسفی انسان اس سوال کی تلاش میں گم ہے کہ ’’میں کیسے ظاہر ہوا۔۔ ۔‘‘ دوسری طویل نظم عمیق حنفی کی ’’صلصلۃ الجرس‘‘ ہے۔
اردو میں یوں تو نعتیں اور قصیدے بہت سارے لکھے گئے ہیں لیکن جدید ذہن نے کبھی معروضی اور مسحور ہو کر اس انسانیت کے عظیم پیکر کی مدح سرائی میں زندگی کی خوش بو نہیں سونگھی تھی۔ ’’صلصۃ الجرس‘‘ اردو کے ایک بالغ نظر اور نئے شاعر کی نظموں کا ایک مجموعہ ہے۔ جس میں شاعر نے سرورِ کائناتﷺ کی زندگی کے مختلف گوشوں سے متاثر ہو کر اپنے احساسات کا خالص اظہار کیا ہے۔ نظم کا پیش لفظ ڈاکٹر عالم خوندمیری کا لکھا ہوا ہے۔ مضمون انقلابی اور ہوش مندانہ ہے۔۔ ۔ عمیق حنفی نے نئے اور پرانے ماحول کی مناسبت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فنی اعتبار سے یہ حصہ انتہائی خوب صورت اور دل کش ہے۔۔ ۔ بعثتِ رسالت مآب اور نعت شریف اور واقعۂ معراج، جنگِ بدر ایسے ہی کئی واقعاتِ سیرت پر عمیق نے حین پیرائے اور انداز میں شاعری کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اہلِ فن اور اربابِ عقیدت دونوں کی نظروں میں یہ نظم وقیع ثابت ہو گی!
زیر نظر شمارے میں ان دو نظموں کے علاوہ ن۔ م۔ راشد، اختر الایمان، عزیز قیسی، شفیق فاطمہ، ساجدہ زیدی، من موہن تلخ، اعجاز احمد، صلاح الدین پرویز اور علی ظہیر کی نظمیں ہیں جو جدید ذہن کی تازگی کی آئینہ دار ہیں ان کے علاوہ جو نظمیں ہیں وہ بھی معیاری اور خوب صورت ہیں۔ ان میں عادل منصوری کے دو تازہ تجربے ہیں۔ عادل ایک انتہائی روایت شکن فکر کا نمائندہ شاعر ہے۔ غزلیں سب ہی صحت مند ہیں۔ احمد ہمیش کا گیت بہت عمدہ ہے لیکن یہ گیت معلوم نہیں ہوتا۔ اعجاز احمد ایک جنیں شاعر ہیں ان کے مشرق و مغرب کے نغمے بصارت افروز ہیں۔ ’’فکر و فن‘‘ کے تحت جو مضامین جمع کیے گئے ہیں وہ اردو ادب کے لیے سوالیہ نشان اور علم کی ایک دل فریب جہت کی آئینہ دار ہیں۔ سید حسن عسکری کا مضمون ’’ادب میں علامی نظام‘‘ بہت گہرا ہے۔ کاش انھوں نے شالوں کے ذریعے اظہار کو آسان اور جاذب کر دیا ہوتا۔ ’’تعبیر کے خلاف‘‘ سوسن کا وہ مضمون ہے جس نے امریکہ میں ایک فکری رو کو زندہ کیا۔ اس کا ترجمہ عمدہ طریقہ سے کیا گیا ہے مترجم کا نام پردۂ خفا میں رکھا گیا ہے حالاں کہ یہ کوئی اچھا طریقہ نہیں۔ آرٹ پر یہ مضمون مکمل حیثیت رکھتا ہے۔ انور سدید تصورِ مرگ پر خوب کام کر رہے ہیں۔ اقبال کے تصورِ مرگ پر یہ مضمون جامع ہے۔ تبصرے اچھے خاصے اور دیانت دارانہ ہیں۔ شعر و حکمت کا یہ شمارہ حسین اور قابلِ مطالعہ ہے۔
٭٭٭