(Last Updated On: )
ذت
سینوں میں اترتی ہوئی تاثیر کی لذت
پُر درد ہے تقریر یہ تحریر کی لذّت
لمحات شب غم کے ابھی ٹُوٹ رہے ہیں
زخموں میں مرے دل کے کسی تیر کی لذت
رستوں کے طلسمات سے کیا دے گی رہائی
اس اشہب دوراں کو عناں گیر کی لذّت
پائے گا کہاں جائے اماں ذوقِ اسیری
کی ترک اگر پاؤں نے زنجیر کی لذّت
اب بھی ہے یہی نعرہ لب موج رواں پر
تقدیر کے ہاتھوں میں ہے تدبیر کی لذّت
کیا بھیڑ ہے مقتل میں شہادت طلبوں کی
چلتا ہوا جادو ہے یہ شمشیر کی لذّت
جینے کا مزہ کیا ہے اگر موت نہ ہوتی
تخریب کی لذّت سے ہے تعمیر کی لذّت
تسکینِ دل و جاں ہے ضیا، بزم ِ سخن میں
شوخی کہیں غالب کی، کہیں میر کی لذّت
٭٭٭