(Last Updated On: )
غلام مُرتضیٰ راہی
سیدھی اک دَم نہ مِری چال رہنی چاہئیے ہے
کچھ کسر اس میں بہر حال رہنی چاہیے ہے
چولہے جلتے رہیں سرسبز درختوں کے طفیل
خشک بھی کوئی کوئی ڈال رہنی چاہیے ہے
ذائقہ تھوڑا بہت پیار کی ہانڈی میں رہے
اس میں کچھ گلتی ہوئی دال رہنی چاہیے ہے
زور بازو کا چلے جنگ کے میدان میں پھر
وہی تلوار،وہی ڈھال رہنی چاہیے ہے
مجھ سے جو صرفِ نظر کرتے ہیں،یہ مانتے ہیں
گھاس تو گھاس ہے،پامال رہنی چاہیے ہے
مجھ کو اوروں کے حوالے سے نہ پہچانیے گا
جسم پر میرے،مِری کھال رہنی چاہیے ہے
ایک اک پَل کا کیا کرتے ہیں جو قرض ادا
زندگی ایسوں کی سو سال رہنی چاہیے ہے