ہر جاندار کے پاس وہ اوزار ہیں جو اسے روزمرہ کی زندگی کے لئے درکار ہیں۔ جانوروں میں انفارمیشن پراسس کرنے کا سادہ ترین سسٹم ایک roundworm کے پاس ہے۔ اس کے پاس صرف 302 نیورون پر مشتمل نیورل نیٹورک ہے۔
اس کی زندگی کا سب سے بڑا ان جراثیم کا ختم ہو جانا ہے جن کو کھا کر یہ زندہ رہتا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک گھونگے کے پیٹ میں داخل ہو جاتا ہے تا کہ اگلے روز کسی اور جگہ پر اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہو کر اپنی زندگی جاری رکھے۔ یہ بوریت والی زندگی لگتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس سے گھن آئے۔ لیکن نہ ہی یہ بور ہوتا ہے اور نہ ہی اسے گھن آتی ہے۔ اس کے چند سو نیورون ایسے احساسات کے قابل ہی نہیں۔ نہ ہی پیچیدہ مسائل حل کر سکتے تھے اور نہ ہی پیچیدہ جذبات بنا سکتے ہیں۔
اور نہ ہی یہ اپنا یہ طریقہ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کیلئے جبلت کا یہ سکرپٹ تبدیل نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ پیچیدہ جانوروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ماحول میں ہونے والے کسی ٹرگر سے ہونے والا پروگرام شدہ ردِ عمل۔۔۔
مرغابی گھونسلے میں بیٹھ کر انڈا سی رہی ہے۔ اس کا انڈہ نیچے گر جائے تو یہ انڈے پر توجہ دیتی ہے۔ اسے گردن اور چونچ کی مدد سے احتیاط سے گھونسلے میں رکھ دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے یہ ایکشن کسی پرواہ کرنے والی ماں کے سوچ سمجھ کر کئے جا رہے ہیں لیکن یہ طے شدہ سکرپٹ کا نتیجہ ہیں۔
سکرپٹ کی مدد سے ایکشن قدرت کے شارٹ کٹ ہیں۔ یہ خاص عمل کے وقت دئے گئے ردِ عمل ہیں جو کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ جبلی بھی ہو سکتے ہیں اور عادت کا نتیجہ بھی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکرپٹ والا رویہ روٹین کی صورتحال میں کام کرتا ہے۔ لیکن اچھوتی صورتحال یا تبدیلی کے آگے ناکام ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، جب مرغابی نے اپنی گردن بڑھائی اور انڈہ ہٹا لیں تو کیا ہو گا؟ کیا وہ رک جائے گی؟ نہیں۔ وہ اپنی حرکت جاری رکھے گی گویا کہ انڈہ وہاں پر ہی تھا اور اس غیرموجود انڈے کو بھی “لڑھکا” کر گھونسلے تک لائے گی۔ اور انڈے کی جگہ پر گیند کو رکھ دیں تو یہ گیند گھونسلے تک چلی جائے گی۔
کیا یہ زندگی کے ڈیزائن کی کمزوری ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ آٹومیٹک طریقہ تقریباً ہر صورتحال میں کام کر جاتا ہے اور انڈے بچانے کا خودکار ایکشن کسی پیچیدہ ذہنی عمل کے مقابلے میں زیادہ موثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان بھی سکرپٹ کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے ایکشن بغیر سوچ سمجھ کے کئے جاتے ہیں۔ گہری سوچ میں گم بھی ڈرائیونگ کرتے ہوئے ٹھیک جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ ہمارے خودکار پروگرام چلاتے ہیں۔
یہ سکرپٹ مفید ہیں لیکن کافی نہیں۔ ایک شیر کو اپنا شکار تاڑ کر اسے پکڑنے کا منصوبہ بنانا ہے۔ شکار خود ساکن نہیں۔ یہاں پر کوئی جامد سکرپٹ مدد نہیں کرے گا۔ شیر کو صورتحال اور اس کے تناظر کا جائزہ لینا ہے تا کہ مقصد حاصل کیا جا سکے۔
اور یہاں پر سکرپٹ نہیں کام کرتا۔ اس وجہ سے جانوروں میں دو قسم کی سوچ کام کرتی ہے۔
ایک منطقی یا ریشنل یا تجزیاتی سوچ ہے۔ اس میں فیکٹ یا ریزن کی بنیاد پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ دوسری لچکدار سوچ ہے۔ مختلف انواع میں یہ مختلف درجوں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ممالیہ میں یہ زیادہ ہیں، خاص طور پر انسان میں۔
تجزیاتی سوچ کو جدید معاشرے میں بڑی عزت دی جاتی ہے۔ یہ سادہ مسائل حل کرتی ہے۔ اس کو آئی کیو ٹیسٹ یا کالج میں داخلے کے امتحان میں چیک کیا جاتا ہے۔ یہ طاقتور ہے اور لیکن آٹومیٹک سوچ کی طرح یہ سیدھی لکیر میں کام کرتی ہے۔ ہمارا شعوری ذہن اسے کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں خیالات الف سے ب سے ج تک خاص اصولوں کی مدد سے جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی کمپیوٹنگ اس کی مثال ہیں۔ لیکن اچھوتے پن کا چیلنج حل نہیں کر سکتی۔
اور یہاں پر لچکدار سوچ کام کرتی ہے۔ یہ زیادہ تر غیرشعوری طور پر کام کرتی ہے اور اس کی پراسسنگ کا طریقہ nonlinear ہے۔ اس میں سوچ کے الگ دھاگے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اور اربوں نیورونز میں ہونے والی پراسسنگ کے نتیج میں نتائج پر پہنچا جاتا ہے۔
تجزیاتی سوچ top down ہے۔ یعنی اس کا آغاز شعوری سوچ ہے۔
لچکدار سوچ bottom up ہے۔ یعنی اس میں نیورونز کے جنگل میں ہونے والی پیچیدہ پراسسنگ کے نتائج شعور تک پہنچتے ہیں۔
چونکہ تجزیاتی سوچ کے برعکس اس میں اوپر سے آنے والی سمت کی بندش نہیں ہے، اس لئے اس میں جذبات کا عمل دخل زیادہ ہے۔ یہ متنوع انفارمیشن کو پراسس کر سکتی ہے۔ معمے حل کر سکتی ہے اور مشکل مسائل کے حل کے نئے طریقے ڈھونڈ سکتی ہے۔ غیرروایتی عجیب خیالات کو بھی سوچ سکتی ہے جو ہماری تخلیقی صلاحیت کیلئے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت طاقتور نوع نہیں ہیں لیکن تمام انواع پر غالب ہیں۔
پچھلے بارہ ہزار سال میں ہم نے معاشرے قائم کئے۔ جنگل کی زندگی کے مصائب سے بڑی حد تک بچاؤ حاصل کیا۔ ہم نے اپنی لچکدار سوچ سے روزمرہ زندگی کو تبدیل کر لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیا کے گھونسلے میں باتھ روم نہیں ہوتا۔ گلہریاں اپنے اخروٹ تجوری میں نہیں رکھتیں۔ لیکن ہم نے اپنا ماحول اپنے تصور کے مطابق بدل لیا ہے۔ ہم ہر قسم کے گھر، اپارٹمنٹ اور فلیٹ بناتے ہیں۔ ان کو ڈیزائن کرتے ہیں۔ ان کا آرٹ سے سجاتے ہیں۔ ہم صرف چلتے یا بھاگتے نہیں۔ جہاز کی مدد سے ہوا میں اڑتے ہیں۔ پانی میں کشتی چلاتے ہیں۔ سائیکل اور گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ اور ہمارے سفر کا ہر طریقہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ یہ ہماری ایجادات ہیں۔ یہ ماحول پر تخیل کی فتوحات ہیں۔ آپ کے میز پر پڑا ربڑ اور پیپر کلپ بھی۔ آپ کے پیر کا جوتا اور باتھ روم کا ٹوتھ برش بھی۔
جہاں پر بھی نظر دوڑائیں، انسان کے لچکدار ذہن سے بنی مصنوعات کا سمندر ہے۔ لیکن یہ خود میں نیا ٹیلنٹ نہیں۔
اور یہ صرف سائنسدانوں، موجدوں یا فنکاروں کے لئے نہیں۔ لچکدار دماغ کسی کے بھی پنپنے کیلئے اہم فیکٹر ہے۔