سویرا کو فون دئیے کافی وقت ہو چکا تھا وہ کمرے سے نکل کر اپنا فون واپس لینے آیا تو سویر ا فون کو سینے سے لگائے قالین سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی اس کے چہرے پر افسردگی تھی اور آنکھوں سے بے آواز آنسو بہہ رہے تھے شہریار کو ایک لمحے کے لیے اس پر ترس سا محسوس ہوا وہ کھنکھارتا ہوا آگے بڑھا
سویرا کھنکھارنے کی مردانہ آواز سن کر چونک گئی سر اٹھایا تو سامنے ہی گھریلو حلیہ میں ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہنے شہریار کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” شاہ بی بی سے بات ہوگئی تھی تو کم از کم فون تو واپس کردیتی اتنے مینرز تو آتے ہی ہونگے ۔۔۔” وہ پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا اس کے ہاتھوں میں دبے اپنے سیل فون کو نکالتے ہوئے بولا
” سوری ۔۔۔” وہ اپنی نم پلکیں جھکا کر پیچھے ہوئی
شہریار فون لیکر کھڑا ہوا لیونگ روم سے نکل ہی رہا تھا کہ اس کی نظر کچن کاؤنٹر پر پڑے سلاد کے سامان پر پڑی اس نے مڑ کر سر جھکائے آنسو پیتی سویرا تاسف سے دیکھا
” سنو ڈنر تیار ہو جائے تو مجھے بلا لینا ۔۔۔” وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کا دھیان بٹانے کو کہہ گیا
سویرا نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے جاتے ہوئے دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو صاحب نے فرمان جاری کیا تھا کہ میرے معاملات سے دور رہو اور اب ڈنر کا کہہ رہے ہیں ۔۔۔وہ اٹھی اور کچن میں آکر جلدی جلدی سے کھانا تیار کرنے لگی ۔۔
جو بھی تھا اب اس کا سارا دھیان کوکنگ پر تھا بہت دل لگا کر اس نے دال چاول کباب سلاد اور رائتہ تیار کیا ٹیبل سیٹ کی پر اب سب سے بڑا مسئلہ شہریار کو بلا کر لانے کا تھا وہ اپنی شام والی عزت افزائی بھولی نہیں تھی وہ آج تک سب کی جلی کٹی سنتی آئی تھی پر اب نا جانے کیوں اسے شہریار کے منھ سے نکلے الفاظ تکلیف دے رہے تھے ۔۔۔
بڑی ہمت کر کے دل مضبوط کر کے وہ درود شریف پڑھتی ہوئی شہریار کے کمرے کے دروازے تک آئی ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔
” یس کم ان ۔۔۔۔” شہریار کی بھاری آواز گونجی
وہ دھیرے سے زبان لبوں پر پھیرتے ہوئے دروازے کی ناب گھما کر اندر داخل ہوئی سامنے ہی لیب ٹاپ پر شہریار کام میں مصروف تھا
” ہاں بولو کیا بات ہے ؟؟ ” شہریار نے اسے کھڑا دیکھ کر پوچھا
” وہ کھانا تیار ہے آپ کھانا کھالیں ۔۔۔” وہ مجرمانہ انداز میں بولی جیسے کوئی بڑی غلطی کر دی ہو
شہریار نے ایک نظر اس پر ڈالی جو سر جھکائے اپنی انگلیوں کو مسل رہی تھی انداز ایسا تھا جیسے ابھی بھاگ جائے گی
” اوکے تم چلو میں آرہا ہوں ۔۔۔” وہ نارمل انداز میں بولا
سویرا نے اس کے عام لہجے میں بات کرنے پر چونک کر اسے دیکھا پھر اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی
شہریار اپنا کام سمیٹ کر شیشے کی بنی ریوالونگ ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو وہ بڑے سلیقے سے کھانا لگا چکی تھی وہ آرام سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اس کے سامنے دال چاول سلاد کباب بڑے طریقے سے رکھے ہوئے تھے اس نے پلیٹ میں کھانا نکالا تب ہی سویرا کچن کی طرف جانے لگی
” تم کدھر جا رہی ہو ؟؟ کھانا نہیں کھانا ؟ ” شہریار نے اچھنبے سے پوچھا
” وہ میں بعد میں کھا لونگی آپ آرام سے ڈنر کریں ۔۔۔” وہ کترا رہی تھی
” سنو لڑکی یہ حویلی نہیں ہے میرا گھر ہے ، تم آرام سے بیٹھو اور طریقے سے کھانا کھاؤ ۔۔” شہریار نے ٹوکا
” میں پہلے آپ کیلیئے کافی بنا لوں ۔۔۔” اس نے بودا سا بہانہ بنایا
” تمہیں ایک بار کی بات سمجھ میں نہیں آتی کیا ؟؟ شرافت سے بیٹھو اور کھانا کھاؤ کافی بعد میں بنا لینا ۔۔۔” وہ تپ گیا
سویرا خاموشی سے کچن سے اپنے لئیے پلیٹ لے آئی شہریار کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا اس کے بس کی بات نہیں تھی حالانکہ کے شہریار بڑے آرام سے کھا رہا تھا اس نے سویرا پر کوئی توجہ نہیں دی تھی نا ہی اسے دیکھا تھا پر پھر بھی سویرا اس کی موجودگی کے باعث ٹھیک سے نہیں کھا پا رہی تھی ۔
آج کافی عرصے بعد دیار غیر میں اس نے گھر کا بنا کھانا کھایا تھا بلاشبہ سویرا کے ہاتھ میں ذائقہ تھا اور وہ بھی اب صبح اس کے ہاتھ کے بنے ناشتے کا عادی ہوتا جارہا تھا ڈنر اور لنچ وہ عموماً باہر کرتا تھا لیکن آج وہ اپنے معمول سے زیادہ کھا گیا تھا
” سنو آدھے گھنٹے بعد مجھے کافی دے جانا ۔۔” وہ کرسی کھسکا کر کھڑے ہوتے ہوئے بولا
شہریار کے جاتے ہی وہ ایک گہری سانس لیکر اپنی پلیٹ ختم کرنے لگی پھر برتن وغیرہ سمیٹ کر بہت دل لگا کر اس کیلیئے کافی بنائی اور جب کمرے میں آئی تو وہ اسکرین پر میچ دیکھ رہا تھا
” سنئیے !! آپ کی کافی ۔۔۔” سویرا نے ٹرے آگے کی
” تھینکس ۔۔۔” شہریار نے مگ اٹھایا
” سنو لڑکی !! ” وہ جاتے جاتے رکی
” آج تمہارا اسکول میں پہلا دن تھا سب ٹھیک رہا کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی ۔۔۔” وہ پوچھ رہا تھا
” جی سب ٹھیک رہا تھا وہ میں اسکول نہیں ۔۔۔”
” بس بس مجھے ڈیٹیل نہیں سننی بس ایک بات کا خیال رکھنا یہ پاکستان نہیں ہے اس لئیے کوئی ایسی حرکت مت کرنا جس سے مجھے تمہیں یہاں لانے یا پڑھانے کے فیصلے پر شرمندگی محسوس ہو اور کسی سے بھی دوستی گاڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔”
” میں وعدہ کرتی ہوں ایسا کچھ نہیں کرونگی جس سے آپ کو پریشانی ہو ۔۔۔”
” اب تم جا سکتی ہو اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو اینا کو بتا دینا ۔۔۔” وہ بات کاٹ کر اسے باہر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا
*************************
صبح کا وقت تھا آج شہریار کو لیٹ جانا تھا وہ تیار ہو کر باہر آیا تو اس کا ناشتہ میز پر تیار تھا پر سویرا کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی وہ ناشتہ کر کے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکلا آج اس نے اپنے ڈرائیور کو چھٹی دی ہوئی تھی اس کا ارادہ شام میں عروہ کو شاپنگ کروانے کا تھا وہ گاڑی مین روڈ پر لیکر نکلا تو سامنے ہی بس اسٹاپ پر اسے پریشان سی سویرا نظر آئی وہ نا چاہتے ہوئے بھی گاڑی اس کے قریب لے گیا
” کیا ہوا تم اب تک ادھر ہی ہوں اسکول تو نو بجے لگ جاتا ہے ۔۔۔”
” وہ میری بس مس ہو گئی ہے ۔۔۔” سویرا شرمندگی سے بولی
” بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔” شہریار نے دروازہ کھولا
سویرا ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئی
” سکول کون سا ہے ؟؟ اسٹریٹ ایڈرس دو ؟ ۔۔ ” اس نے پوچھا
” آپ مجھے سب وے اسٹیشن تک چھوڑ دیں میں مینج کر لونگی ۔۔۔”
” سب وے ۔۔۔” وہ حیران ہوا
” اینا نے کس جگہ ایڈمیشن کروایا ہے جو تمہیں سب وے لینی پڑتی ہے ۔۔۔”
_________________
آج کا لنچ اسے شہریار کے ساتھ کرنا تھا لنچ کے بعد شام میں ان دونوں کا شاپنگ مال جانے کا تھا شہریار پاکستان سے اس کیلیئے کوئی گفٹ نہیں لایا تھا جس کا اس نے شکوہ کیا تو آج وہ اسے اس کی پسند کا گفٹ دلانے کا وعدہ کر چکا تھا وہ صبح ہوتے ہی نک سک سے تیار ہو کر شہریار کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی اس کا ارادہ صبح سویرے ہی شہریار کو سرپرائز دینے کا تھا وہ تھوڑا لیٹ ہو گئی تھی اور اپنی گاڑی فل اسپیڈ پر دوڑاتے ہوئے شہریار کے گھر کے قریب پہنچ چکی تھی سگنل پر گاڑی رکی ہوئی تھی جب اس کی نظر سامنے روڈ کی سائیڈ پر بس اسٹاپ پر پڑی وہ چونک گئی تیزی سے آنکھوں سے سن گلاسز اتارے۔ شیشہ نیچے کیا سامنے بس اسٹاپ پر شہریار کی گاڑی کھڑی تھی اور اس کی وہ پاکستانی کزن بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تھی دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہریار کی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔
عروہ کا غصہ اور جلن سے برا حال تھا سگنل گرین ہوچکا تھا وہ ابھی بھی روڈ پار نظریں جمائے بیٹھی تھی جب پیچھے کھڑی گاڑیوں نے ہارن بجایا اس نے ہوش میں آتے ہوئے تیزی سے گاڑی آگے بڑھا کر سڑک کنارے روک دی اور اپنے کلچ سے سیل فون نکالا ۔۔
*******************
“میں کیا پوچھ رہا ہوں ایڈریس بتاؤ اپنے اسکول کا ۔۔۔” شہریار نے سوال کیا
” وہ میں سب وے سے یونی۔۔۔۔۔”
” ایک منٹ دیکھ نہیں رہی میرا فون بج رہا ہے ۔۔۔” شہریار نے اسے ٹوکتے ہوئے ہینڈ فری کرکے فون اٹھایا۔
فون پر عروہ کی پک بلنک ہو رہی تھی جو سویرا کی نگاہوں سے اوجھل نہیں تھی وہ خاموشی سے رخ موڑ کر بیٹھ گئی
“ہاں عروہ بولو کیا بات ہے ؟؟ ”
” شیری کہاں ہو تم ؟؟ ” عروہ کی آواز گونجی
” میں ابھی آفس جا رہا ہوں لنچ پر ملتے ہیں ۔۔”
” تمہارے ساتھ کون ہے ؟ ”
شہریار عروہ سے بات کررہاتھا جب سویرا کو سامنے سے اپنی بس آتی نظر آئی اس نے تیزی سے اپنی کتابیں اور بیگ اٹھایا
” سنیے میری بس آگئی ہے میں چلی جاؤنگی ۔۔۔”
شہریار نے بات کرتے ہوئے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گاڑی کا آٹومیٹک لاک کھول دیا سویرا تیزی سے اتر کر بس کی جانب بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔۔
“شیری !! میں کیا پوچھ رہی ہوں ؟؟ ” عروہ کی آواز گونجی
” عروہ مجھے اس طرح کے سوال جواب پسند نہیں ہیں میں جو بھی کروں اٹس نن آف یور بزنس ،انڈر اسٹینڈ ؟ ”
” شیری میں !! میں کچھ بھی نہیں مجھے کوئی حق نہیں تم سے کچھ پوچھنے کا؟ کم آن شیری میں بہت جلد تمہاری بیوی بننے والی ہوں اور تم ایسے ۔۔۔”
” بیوی ابھی بنی نہیں ہو اور کم آن ڈونٹ ایکٹ لائک ٹیپیکل گرل یاد رکھو میں اپنی آزادی میں کوئی رخنہ برداشت نہیں کرتا اور نا ہی کرونگا ۔۔”
” شیری تم بہت روڈ ہو شاید میں نے ہی تمہارے پیار میں پاگل ہو کر اپنی ویلیو خراب کر لی ہے ۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
” کچھ نہیں یار میں بس سویرا کو اسکول چھوڑنے جارہا تھا پر اس کی بس آگئی اب آفس جا رہا ہوں ۔۔۔” وہ اکتا کر بولا
” ٹھیک ہے تم جاؤ لنچ پر ملتے ہیں ۔۔۔” عروہ فون بند کرکے گاڑی چلاتے ہوئے بولی وہ اپنا ارادہ بدل چکی تھی اور اب عروہ کی بس کا پیچھا کر رہی تھی ۔۔
بس سب وے اسٹیشن پر رک چکی تھی عروہ جب تک گاڑی پارک کرکے بھاگتی ہوئی آئی سویرا بلٹ ٹرین میں سوار ہو رہی تھی وہ تیزی سے بند ہوتے دروازے میں ہاتھ دیتے ہوئے اندر داخل ہوئی اب وہ چلتی ٹرین میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی جب اس کی نظر سویرا پر پڑی پنک فل سلیو کرتا بلیک جینز سر پر اسکارف پہنے وہ اس ماحول میں اجنبی سی لگ رہی تھی اسٹاپ آچکا تھا وہ بھی ایک فاصلہ رکھتے ہوئے سویرا کا پیچھا کررہی تھی ۔۔۔
تھوڑا دور پیدل چلنے کے بعد سویرا انگلینڈ کی مشہور یونیورسٹی کوئین میری میں داخل ہو چکی تھی عروہ حیرانگی سے یونیورسٹی کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” شیری تو کہہ رہا تھا یہ اسکول جا رہی ہے یہ ادھر کیسے آئی اس دیسی ٹیپیکل لڑکی کا اس یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیسے ہوا ؟؟ یا یہ شیری کی نظروں میں دھول جھونک رہی ہے ادھر کسی لڑکے سے ملنے آئی ہو ۔ ” عروہ کا حیرانگی سے برا حال تھا۔
” اس کا اتنا کیلیبر تو ہو نہیں سکتا یہ سو فیصد اپنے کسی بوائے فرینڈ سے ملنے آئی ہے ۔۔۔۔” عروہ پرسوچ نظروں سے آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہوئی سویرا کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
***********************
بائیو کیمسٹری کی کلاس چل رہی تھی سب اسٹوڈنٹس اپنے اپنے لیب ٹاپ ، میک بک پر لیکچر نوٹ کررہے تھے کتابیں بھی نہیں تھیں ٹیچرز سارا سلیبس اسٹوڈنٹس کو ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنے کا کہہ چکےتھے ایک واحد سویرا تھی جو کاپی اور پین تھام کر بیٹھی ہوئی تھی اس کے پاس لیب ٹاپ کی سہولت نہیں تھی وہ خاصی پریشان تھی کلاس کے ختم ہوتے ہی وہ تیزی سے نکل کر اسٹوڈنٹ ایڈوائزر آفس کی طرف گئی ۔۔۔۔
افس پہنچ کر اپنا نام کلاس روم اسٹوڈنٹ نمبر شیٹ پر لکھ کر سامنے بنے ایک بڑے سے آفس نما کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
آفس انچارچ انتھونی کے ساتھ ایک لمبا سا مرد کھڑا تھا جس کی پشت سویرا کی جانب تھی
“مس آپ دیکھ نہیں رہی میں بزی ہوں ؟ باہر ویٹ کریں میں فارغ ہو کر آپ کو بلاتا ہوں ۔۔۔” انتھونی نے دروازے کھلنے کی آواز پر اندر داخل ہوئی سویرا کو ٹوکا
” آئی ایم ویری سوری سر !! ” وہ شرمندہ ہو کر واپس جانے کے لیے پلٹی ۔۔۔
ڈاکٹر اینڈریو جو کسی کام سے انتھونی کے پاس آیا تھا اپنی پشت سے ابھرتی بھیگی بھیگی سی مانوس سی آواز سن کر تیزی سے پلٹا۔
سامنے اس کی سنو وائٹ جو اسے استنبول ائیرپورٹ پر ملی تھی جس کے خیالات نے آج بھی اس کے ذہن کو جکڑا ہوا تھا ، جس کا گلابی ڈرا سہما چہرا لمبی گھنی پلکیں اس کی نیندیں اڑا چکی تھی وہ لڑکی کمرے سے باہر نکل رہی تھی ۔۔
” سویرا شہریار ۔۔۔۔” اس نے زیر لب اس کا نام لیا
“انتھونی اف یو ڈونٹ مائنڈ اس لڑکی کو میں ڈیل کر لوں؟”
“شیور ڈاکٹر اینڈریو! آپ بیٹھیں میں اسے اندر بھیجتا ہوں۔” انتھونی ادب سے کھڑا ہوا اپنی کرسی اینڈریو کو دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
” ہے مس آپ اندر جا سکتی ہیں۔” وہ دروازے کے ساتھ کھڑی سویرا کے پاس آکر بولا
سویرا خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی تو پیچھے سے انتھونی نے دروازہ بند کردیا وہ چونک کر مڑی۔
” مس! تشریف رکھیئے اور اپنا مسئلہ بیان کریں ۔۔۔” ڈاکٹر اینڈریو نے اسے متوجہ کیا
وہ دھیرے سے چلتی ہوئی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی
” فرسٹ ائیر میڈیسن ؟؟ “
” یس سر ۔۔”
” پرابلم کیا ہے ؟؟ میں آپ کی کیسے مدد کر سکتا ہوں ۔۔۔”
وہ بغور سر جھکائے بیٹھی ہوئی سویرا کو دیکھ رہا تھا اس مغربی معاشرے میں ایسی معصومیت مشرقی حسن دیکھنے کو نہیں ملتا تھا یہ لڑکی تو اسے پہلی نظر میں ہی بھا گئی تھی لیکن وہ اس کے شادی شدہ ہونے کا سن کر پیچھے ہٹ گیا تھا بھولنے کی کوشش کر رہا تھا اور آج جب وہ سامنے آئی تو ۔۔۔۔
” سر مجھے فرسٹ سمسٹر کا سلیبس اور کورس آؤٹ لائن چاہئیے اور بکس کے نام بھی ۔۔۔”
” ویل مس یہ سب آپ کو ویب سائٹ پر مل جائیگا آپ اپنے اسٹوڈنٹ نمبر سے لاگ ان ہوں ساری انفو اور کورس آؤٹ لائن بھی ۔۔۔”
” سر میرے پاس لیپ ٹاپ نہیں ہے کیا اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا ؟ ”
” مسز سویرا شہریار !! یہی نام ہے نا آپ کا ؟؟ ”
سویرا نے چونک کر اسے دیکھا
” آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں ہم ائیرپورٹ پر ملے تھے۔۔” اس نے یاد دلایا
” ویل مسز شہریار لیپ ٹاپ یا میک بک کے بغیر آپ کا سراوئیو کرنا مشکل ہے۔ کوئز اسائمنٹ سلیبس لیکچر سب آن لائن ہوتا ہے ویسے آپ کے بلین ائیر ہسبنڈ نے آپ کو ایک لیب ٹاپ تک نہیں دلایا ؟ مجھے حیرت ہے ۔۔۔”
” اٹس اوکے سر میں مینج کر لونگی ۔۔۔” سویرا اسے پہچان چکی تھی وہ تیزی سے کھڑی ہوئی اور اینڈریو کو کچھ بھی کہنے کا موقع دئیے بغیر باہر نکل گئی
ڈاکٹر اینڈریو اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھا اور کمرے سے نکل کر ریسیپشن کے پاس آیا
” یہ اسٹوڈنٹ جو ابھی گئی ہیں ان کا ریکارڈ نکلوا کر دیں۔۔”
چند لمحوں میں سویرا کا بائیو ڈیٹا اس کے ہاتھ میں تھا
” مس سویرا فاروق ۔۔۔۔”
ایڈریس ۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو اس کا نام دیکھ کر ہی چونک گیا
” تو تم میرڈ نہیں ہو یا پھر انگلینڈ آنے کے لیے ہوسکتا ہے پیپر میرج کی ہو ؟ واٹ ایور اب تم بس میری ہو ۔۔۔۔” اینڈریو اس کے نام پر نظریں جمائے ہوئے تھا
*******************
سویرا آفس سے نکل کر اپنی دوسری کلاس میں آگئی تھی تمام لیکچرز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ تیزی سے باہر نکلی جب کاریڈور سے گزرتے ہوئے اسے بریڈلی نے آواز دی
“ہے سویرا ،ویٹ ۔۔” وہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا
سویرا اس کے سامنے آنے پر رک گئی اپنی کتابوں کو سینے سے لگائے ہوئے وہ سائیڈ پر سے ہو کر گزرنے لگی تھی جب بریڈلی نے اس کا ہاتھ تھام کر روکا ۔۔۔
” ہاتھ چھوڑو ۔۔۔”
” پہلے یہ بتاؤ پرابلم کیا ہے ؟ یہ بسورتا ہوا چہرہ کیوں بنایا ہوا ہے۔ پتا بھی ہے کمزور دل اسٹوڈنٹ ڈر سکتے ہیں ۔۔۔”
سویرا نے اس ڈھیٹ انسان کو گھورا
” وہ سامنے دیکھو کاریڈور میں سب ہمیں دیکھ رہے ہیں سوچ رہے ہونگے کہ اتنا ہینڈسم لڑکا اس روتی چڑیل کے ساتھ افئیر چلا رہا ہے اس لئیے شاباش جلدی سے بولو کیا مسئلہ ہے ورنہ ہمارے افئیر کے پوسٹر لگ جانے ہیں جو کم از کم میں افورڈ نہیں کرسکتا ۔۔” بریڈلی نے جیسے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا
سویرا نے زچ آکر اسے اپنا سارا مسئلہ بتایا
” یہ فیکٹ ہے کہ تمہیں لیب ٹاپ چاہیے ہوگا چلو لیکر آتے ہیں ۔۔۔” وہ فوراً فیصلہ کرتے ہوئے بولا
” میں کیسے جا سکتی ہوں ؟؟ ” وہ دو قدم پیچھے ہٹی
” میرے ساتھ چلو۔ میرے دوست کی یہاں کے سب سے بڑے مال میں کمپیوٹر شاپ ہے تمہیں ڈسکاؤنٹ پر لیب ٹاپ مل جائیگا اور پیمنٹ بھی تم قسطوں میں کر دینا ۔۔۔”
” مگر ۔۔۔”
” سوچ لو میں ایسی آفر بار بار نہیں دیتا اور کل تم کیا کرو گی کلاس میں ۔۔۔” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
“ٹھیک ہے لیکن مجھے شام ڈھلنے سے پہلے گھر پہنچنا ہے ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
*******************
” شیری ۔۔۔” عروہ اس کے بازوؤں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولی
” ہممم ۔۔۔”
” اتنے دنوں بعد تمہارے ساتھ لنچ ڈیٹ اور اب مال میں شاپنگ !! شیری یو آر سو سوئیٹ مجھے آج سب بہت اچھا لگ رہا ہے ۔۔” اس نے چلتے چلتے اس کے کندھے پر سر رکھا
” کافی پیو گئی ۔۔۔” وہ ایک بڑے سے بک اسٹور کے سامنے کیفے پر رکتا ہوا بولا
عروہ نے اثبات میں سر ہلایا اور وہ دونوں کافی شاپ کے اندر داخل ہو گئے کافی آرڈر کرنے کے بعد شہریار عروہ کو لیکر شیشے کی دیوار کے پاس آبیٹھا جہاں سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا موسم ابرآلود تھا کسی بھی لمحے تیز بارش کا امکان تھا
” سنو تمہاری کزن کس اسکول میں پڑھتی ہے ؟؟” عروہ نے اسے دیکھتے ہوئے اچانک سے پوچھا
“پتا نہیں اینا نے ایڈمیشن کروایا ہے ۔۔۔” وہ لاپرواہی سے بولا
” شیری تمہاری کزن سسٹر ابھی ٹین ایج لڑکی ہے اس کا خیال رکھو کہیں بگڑ نا جائے یو نو اکثر دیسی لڑکیاں آزادی پا کر اپنی حدود بھول جاتی ہیں اسکول کا کہہ کر بوائے فرینڈز کے ساتھ نکل جاتی ہیں ۔۔۔” عروہ نے بڑے طریقے سے بات شروع کی
” وہ میری سسٹر نہیں ہے! بس کزن ہے انڈر اسٹینڈ اور تم اس کی فکر مت کرو وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جو رنگینیاں دیکھ کر پھسل جائے۔” شہریار نے ناگواری سے اسے ٹوکا
” بڑی سائیڈ لے رہے ہوں ؟؟” عروہ نے اسے گھورا
” عروہ وہ لڑکی میرے خاندان سے ہے۔ میرے چاچو کی بیٹی ہے وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتی اور کائنڈلی ٹاپک چینج کرو ورنہ میں چلتا ہوں ۔۔۔”
“سوری شیری ۔۔۔۔” عروہ نے تیزی سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا
-**-*************
بریڈلی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سویرا کو لیکر مسل پہنچ چکا تھا ابھی بڑی مشکل سے پارکنگ ملی تھی گاڑی پارک کر کے وہ دونوں اترے ہی تھے کہ تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔۔
سویرا کا کرتا بھیگ گیا تھا وہ دونوں ہی لمحوں میں مکمل بھیگ گئے تھے بریڈلی نے ایک نظر کپکپاتی ہوئی خود میں سمٹتی ہوئی سویرا پر ڈالی وہ لڑکی جو خود کو بہت سینت سینت کر چھپا کر رکھتی تھی اس وقت مکمل بھیگی ہوئی تھی اس کے دلکش خدوخال واضح ہو رہے تھے بریڈلی نے نظریں چراتے ہوئے اپنا کوٹ اتارا اور تیزی سے اس کے شانوں پر رکھ دیا اس چھ فٹ کے مالک کے کوٹ نے سویرا کو ڈھک دیا تھا
” پہنے رہو اگر ٹھنڈ لگنے سے بیمار ہو گئی تو مجھے برا بھلا کہو گی ۔۔۔” وہ تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً بھاگتے ہوئے بولا
وہ دونوں مال کی اینٹرنس کی جانب جا رہے تھے اور دور شیشے کے پار سے دو آنکھیں اس منظر کو بغور دیکھ رہی تھیں ۔۔
________________________________________
عروہ نے کافی کا مگ میز پر رکھتے ہوئے شہریار کو گھورا جو کافی ہاتھ میں لئیے مسلسل اپنے سیل فون پر مصروف تھا۔
” شیری اتنے دن بعد مجھے ڈیٹ پر لائے ہو اور مسلسل فون پر لگے ہوئے ہو یہ فئیر نہیں ہے اب پلیز یہ فون بند کرو دیکھو تمہاری کافی بھی ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔” وہ ضبط کرتے ہوئے بولی
” عروہ کم آن میں ایک ضروری بزنس کال پر بزی ہوں اتنے ڈھیر سارے کام ہوتے ہیں اب ہر وقت تو تم سے باتیں نہیں کر سکتا ۔۔۔” وہ سخت لہجہ میں بولا
” میں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں تم کسقدر مصروف ہو لیکن ابھی یہ ٹائم صرف میرا ہے ۔۔۔” وہ ضدی لہجے میں بولی
” یہ کارڈ پکڑو اور اپنے لئیے ایک اچھی سی ڈریس لیکر آؤ میں جب تک یہ کانفرنس کال ختم کرتا ہوں ۔۔۔” اس نے فون ہولڈ کروا کر اپنے والٹ سے ویزا کارڈ نکال کر اسے دیا
عروہ نے گھور کر اس کو دیکھا پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کارڈ ہاتھ میں لیکر کافی شاپ سے باہر نکل گئی
شہریار فون پر اینا اور ترک ایمبیسیڈر کے ساتھ مصروف تھا جب اس کی نگاہ شیشے سے باہر نظر آتےنظر پر پڑی ۔۔۔۔
سامنے ہی سویرا بارش میں بھیگی ہوئی کھڑی تھی اس کے ساتھ ایک بمشکل انیس بیس سال کا خوشکل لڑکا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اس لڑکے نے اپنا کوٹ اتار کر سویرا کے شانوں پر ڈال دیا ایک لمحے کو شہریار کے چہرے پر بڑا سنجیدہ اور سرد سا تاثر ابھرا ماتھے پر شکن پڑ گئی تھی اب وہ لڑکا سویرا سے بات کر رہا تھا کچھ ہی منٹ میں وہ لڑکا سویرا کا ہاتھ پکڑ کر اسے مال کے اندر لے گیا ۔۔۔شہریار نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی
” سر !! سر آپ سن رہے ہیں ۔۔۔۔۔” اینا کی آواز گونجی
” یس اینا ! ۔۔۔” وہ فوراً فون پر متوجہ ہوا لیکن اس کا سارا دھیان کام پر سے ہٹ چکا تھا
” میں ابھی کچھ مصروف ہوں اینا آپ یہ فون میٹنگ کل ارینج کریں ۔۔۔” وہ فون بند کرکے کھڑا ہو گیا
بنا سوچے سمجھے اس کے قدم مال کی جانب بڑھ رہے تھے سامنے ہی ایک بڑی سی بک شاپ کے ساتھ کمپیوٹر شاپ تھی جہاں اسے سویرا اس لڑکے کے ساتھ کھڑی نظر آئی وہ دونوں لیب ٹاپ دیکھ رہے تھے
” سویرا لک دس یہ میک بک ہے اسٹیڈیز کیلیئے بالکل پرفیکٹ ۔۔۔” بریڈلی نے سویرا کو متوجہ کیا
” نہیں یہ بہت مہنگا ہے میں ابھی افورڈ نہیں کر سکتی ۔۔۔” سویرا نے منع کیا
کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک لیب ٹاپ پسند کر چکے تھے اب اس کالے لیب ٹاپ پر وہ لڑکا پنک ستارے نما گلٹر جیسے اسٹیکر لگا رہا تھا شہریار نے اگنور کرنے کی بہت کوشش کی پھر ایک فیصلہ کر کے اس نے آگے قدم بڑھائے ہی تھے کہ عروہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا
**********************
عروہ ،شہریار کا کریڈٹ کارڈ لیکر مال میں آگئی تھی مگر اس کا موڈ اب شاپنگ سے ہٹ چکا تھا دھیان کے سارے دھاگے شیری میں اٹکے ہوئے تھے وہ خوش شکل خوش لباس تو ہمیشہ سے ہی تھا لیکن گزشتہ تین سال سے بہترین طریقہ سے بزنس سنبھال رہا تھا کانفیڈینس لیول بھی غضب کا تھا جس نے اس کی وجاہت اور شخصیت کو مزید اجاگر کردیا تھا شہریار کی شخصیت میں ایک متاثر کن سی کشش محسوس ہوتی تھی لڑکیاں اس پر مرتی تھیں اور وہ اپنی دھن میں مگن سب سے بے پرواہ بس اپنے بزنس کو مزید آگے بڑھانے میں لگا ہوا تھا ۔۔۔
” کیا وہ دو ٹکے کی سویرا اس قابل ہے کہ شہریار جیسے بندے کو اپنے حسن کے جال میں پھنسا سکے ؟؟ ” وہ بےحد تنفر سے سوچ رہی تھی
” نہیں وہ لڑکی کسی بھی طرح سے شیری کے قابل نہیں ہے اتنی محنت سے تو شیری میرے ساتھ سیٹ ہوا ہے اب میں کسی بھی قسم کا رسک نہیں لے سکتی ہوں ۔۔۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے بوتیک سے نکلی اور واپس شہریار کی جانب جانے کیلئے چلنے لگی تبھی اسے ایک شاپ کے باہر شہریار کھڑا نظر آیا
” اس کی تو کانفرنس کال چل رہی تھی یہ باہر کیا کررہا ہے ؟؟ ” وہ تیزی سے اس کے قریب آئی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو سامنے ہی سویرا کسی گورے لڑکے کے ساتھ لیب ٹاپ دیکھ رہی تھی اس نے شہریار کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر عجیب سی کرختگی چھلک رہی تھی اسے ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی وہ تیزی سے آگے بڑھی اور شہریار کے کندھے پر ہاتھ رکھا
” واؤ !! یہ تمہاری کزن تو بہت فاسٹ نکلی !! ویسے دیکھو تو کتنا کیوٹ کپل ہے !! شیری تم نے تو مجھے کبھی ایسے اپنا کوٹ نہیں پہنایا آئی ایم سو جیلس ۔۔۔۔”عروہ نے شکوہ کیا
” عروہ تم جا کر گاڑی میں بیٹھو میں اسے لیکر آتا ہوں ۔۔۔” اس نے عروہ کا ہاتھ ہٹایا
” شیری آر یو کریزی ؟؟ وہ ڈیٹ پر ہے اور تم ۔۔۔۔” عروہ نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے ٹوکا
” جسٹ شٹ اپ !! تم جا کر کار میں میرا ویٹ کرو ۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا
” یہ تمہارا کنسرن نہیں ہے شیری ، تم کیوں اتنا غصہ ہو رہے ہوں چلو ادھر سے انہیں کچھ پرائیویسی دے دو ۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے بولی
“ڈیم اٹ عروہ !! یہ میرا کنسرن ہے وہ میرے خاندان کی عزت ہے ، میں اسے اس طرح اپنی عزت اچھالنے کی اجازت میں ہرگز نہیں دے سکتا ۔” وہ رکھائی سے بولا
” تمہاری عزت ؟؟؟ وہ کب سے تمہاری عزت ہو گئی ہے؟؟ بولو ؟؟ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ وہ لڑکی تمہیں اپنی اداؤں کے جال میں پھنسا لے گی جیسے آج اس گورے کو پھنسایا ہوا ہے ۔۔۔” عروہ چٹخ پڑی
” میں تمہیں آخری بار سمجھا رہا ہوں کہ میرے خواب و خیال میں بھی سویرا جیسی لڑکی نہیں ہے وہ کسی بھی طرح سے میرے ٹائپ کی نہیں ہے میں ایسی دبی دبائی ہونق سی لڑکی کو اپنے ساتھ ، اپنے حلقہ میں متعارف نہیں کروا سکتا ۔۔۔”وہ تپ اٹھا
” پھر اسے گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے ؟؟ ”
” لسن عروہ اٹس انف تم گاڑی میں جا کر بیٹھو
میں اس لڑکی کو لیکر آتا ہوں ۔۔” وہ عروہ کو روانہ کرکے مڑا تو اندر شاپ خالی تھی اس نے چاروں جانب دیکھا پر وہ دونوں اسے کہیں نظر نہیں آئے وہ کچھ سوچتا ہوا شاپ میں داخل ہوا
” ابھی ادھر ایک لڑکی آئی تھی وہ کدھر گئی ؟؟ ” اس نے سیلز مین سے سوال کیا
” سر آپ اس ایشین بیوٹی کا پوچھ رہے ہیں ؟؟ ” سیلز مین نے مسکراتے ہوئے پوچھا
شہریار نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا تو اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی
” سر وہ تو پیمنٹ کر کے جا چکی ہیں ۔۔۔”
” کدھر گئی ؟؟ مین نے تو اسے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا ” شہریار نے اسے گھورا
” سر دس منٹ پہلے میم جا چکی ہیں ہمارے دو دروازے ہیں وہ شاید عقبی دروازے سے گئی ہیں ۔۔۔”
شہریار دوسرے دروازے سے شاپ سے باہر نکلا پر اسے سویرا دور دور تک کہیں نظر نہیں آئی اس نے جیب سے اپنا سیل فون نکالا پھر جھنجھلا اٹھا
” ڈیم اٹ !!! اس لڑکی کے پاس فون نہیں ہے ۔۔۔”
وہ غصہ دباتے ہوئے گاڑی تک آیا
” تھینک گاڈ تم آگئے چلو آج کلب چلتے ہیں ۔”
عروہ نے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کی
شہریار نے گاڑی کو ریورس کیا اور تیزی سے میں روڈ پر کار نکال لی
” شیری یہ تم میرے گھر کی طرف کیوں جا رہے ہو ؟؟ ” عروہ نے راستہ دیکھ کر سوال کیا
شہریار لب بھینچے سنجیدگی سے کوئی جواب دئیے بغیر ڈرائیونگ کرتا رہا ۔عروہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک آف ہو گیا تھا وہ کسی بھی طرح شہریار کو روکنا چاہتی تھی تاکہ سویرا کو اس لڑکے کے ساتھ اٹیچ ہونے کا ، وقت گزاری کرنے کا الزام لگا سکے ۔
شہریار نے اسے اس کے گھر کے دروازے پر اتارا اور تیزی سے بنا رکے گاڑی آگے بڑھا کر چلا گیا ابھی وہ آدھے راستے پر ہی پہنچا تھا کہ اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا غصہ میں اس نے اس پر توجہ ہی نہیں دی تھی اس نے ایک زوردار ہاتھ اسٹیئرنگ پر مارا پھر فون نکال کر اپنے ڈرائیور کو پٹرول اور دوسری گاڑی لانے کی ہدایات دیں
وہ جتنا جلدی گھر پہنچنا چاہ رہا تھا اتنی ہی دیر ہو رہی تھی شام ڈھل چکی تھی رات کی سیاہی آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلا رہی تھی جب اس کا ڈرائیور کین میں پٹرول لیکر پہنچا
” مائیک تم صبح سویرا بی بی کو کس جگہ ڈراپ کرتے ہو ۔۔؟ کیا اس کا کوئی فرینڈ ادھر ہوتا ہے ؟ ” اس نے ڈرائیور سے دریافت کیا
” سر !! میں نے تو کبھی بھی میڈم کو کہیں بھی ڈراپ نہیں کیا وہ خود ہی آتی جاتی ہیں ۔۔ ” مائیک نے ادب سے جواب دیا
***************************
سویرا کا موڈ بہت اچھا تھا وہ کمرے میں بیگ رکھ کر اب چمکتی ہوئی آنکھوں سے اپنے لیب ٹاپ کو دیکھ رہی تھی
“اب کل کلاس میں، میں بھی سب اسٹوڈنٹس کی طرح کام کرونگی ۔۔۔” اس آنکھوں میں ستارے جگمگا رہے تھے وہ بچوں کی طرح بار بار لیب ٹاپ کو چھو رہی تھی
کچھ دیر بعد کچن میں آکر اس نے بہت دل لگا کر کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ کھیر بھی تیار کی تھی چکن پلاؤ کو دم لگا کر کچن سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں آئی آج اس کا دل رخسار آپی سے بات کرنے کو چاہ رہا تھا پر افسوس اس کے پاس کوئی سیل فون نہیں تھا اور نا ہی گھر میں کوئی لینڈ لائن فون تھا شاید شہریار کو اکیلے رہتے ہوئے کبھی لینڈ لائن فون کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ہوگی وہ سوچتے ہوئے الماری سے کپڑے نکالنے کیلئے بڑھی ۔
رخسار نے بھی زیادہ تر جوڑے نئی شادی شدہ دلہن کے حساب سے خرید کر پیک کئیے تھے کافی دیر تک کپڑے الٹ پلٹ کرنے کے بعد اس نے ایک نسبتاً سادہ سا جوڑا نکالا اور شاور لینے چلی گئی
فریش ہو کر اپنے لمبے گھنے بالوں کو ایسے ہی کھلا چھوڑ کر وہ آستینیں چڑھاتے ہوئے کچن میں آگئی ارادہ سلاد اور رائتہ بنانے کا تھا ابھی وہ کاؤنٹر ٹاپ پر کھیرے کے گول گول قتلے کاٹ رہی تھی کہ اطلاعی گھنٹی بجنے کی آواز گونجی
” یہ کون آ گیا ۔۔۔۔”
وہ حیران ہوتی ہوئی کپڑے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی مین دروازے تک آئی کچھ دیر ہاتھ مسلتے ہوئے سوچتی رہی پھر پیروں پر اچک کر ڈور آئی سے باہر دیکھنے لگی
*****************
شہریار الجھا الجھا سا عروہ کو چھوڑ کر گھر آیا گاڑی پارک کرکے مین اینٹرینس پر پہنچ کر دروازے پر نصب گھنٹی بجائی ۔۔
کافی دیر تک دروازہ نہیں کھلا تو وہ کلس کر رہ گیا
” او گاڈ اس لڑکی نے میرا دماغ گھما کر رکھ دیا ہے ۔۔۔” اس نے جیب سے مین ڈور کی چابی نکالی ہی تھی کہ دروازہ جھٹ سے کھلا
” اسلام علیکم ۔۔۔” سویرا دھیرے سے سلام کرتی ہوئی پیچھے ہوئی
” کیا کررہی تم ؟؟ دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگائی ۔۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا
” وہ میں میں ۔۔۔۔۔” سویرا اس کے لہجہ سے گھبرا گئی
” سنو لڑکی !! یہ مجھ سے بات کرتے ہوئے میں میں مت کیا سیدھا سیدھا جواب دو ؟؟ کہاں تھی تم ؟؟ ”
” سوری میں کچن میں تھی جب بیل بجی تو ڈر گئی آپ کے پاس تو چابی ہوتی ہے اور کوئی آتا نہیں ہے تو میں ڈر گئی ۔۔۔” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے بولی
شہریار خاموشی سے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کرکے چابی اپنی مخصوص جگہ پر رکھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا
سویرا مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی لیونگ روم تک آئی اور صوفہ پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی اب سے کچھ دیر پہلے وہ کتنی خوش تھی اور اب اس کی بھوک تک مر چکی تھی کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور چولہا بند کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
شہریار کافی دیر تک شاور کے نیچے کھڑا ہو کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر تنگ آکر باہر نکلا ٹراؤزر پر بلیک بنیان پہن کر وہ اپنے کمرے کے ساتھ بنے ہوئے جم میں داخل ہوا اب وہ پنچنگ بیگ پر مکے مار مار کر اپنا غصہ نکال رہا تھا دو گھنٹے تک وہ باکسنگ میں لگا رہا پھر تولیہ سے پسینہ پوچھتے ہوئے کچن کی جانب بڑھا سارا لاونج اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس نے لائٹ جلائی سامنے ہی میز پر دو آدمیوں کیلیئے برتن سجے ہوئے تھے وہ سر جھٹکتے ہوئے کچن میں داخل ہوا تو کاؤنٹر پر سلاد کا سامان رکھا ہوا تھا اس نے فرج کھول کر پانی نکالا
بوتل کو منھ سے لگاتے ہوئے اس کی نظر چولہے پر پڑی اس نے پتیلی کا ڈھکن اٹھایا تو پلاؤ کی اشتہا انگیز خوشبو اس کی ناک سے ٹکرائی اسے ایک لمحے کو افسوس سا ہوا
” نہیں مجھے اس پر ترس نہیں کھانا وہ اس قابل نہیں ہے ۔۔۔” وہ خالی بوتل کاؤنٹر پر رکھ کر ارد گرد نظریں دوڑانے لگا
جب سے سویرا آئی تھی وہ گھر اور کچن کی فکر سے آزاد ہو گیا تھا اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ انڈے گوشت چاول گروسری کدھر سے آئی اب تک تو وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید سویرا ڈرائیور سے گروسری منگواتی ہے کیونکہ وہ اسے پہلے دن ہی ایک کثیر رقم تھما چکا تھا لیکن اب ۔۔۔۔۔
وہ غصہ دباتے ہوئے سویرا کے کمرے کی طرف بڑھا اسے اپنے سوالات کے جواب چاہئے تھے
کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا ہلکی ہلکی سی نائٹ بلب کی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی سامنے بیڈ پر سویرا سینے تک کمفرٹر اوڑھے سو رہی تھی
شہریار نے ایک سرد نگاہ اس کے سوئے ہوئے وجود پر ڈالی سامنے لیٹی ہوئی لڑکی خوبصورتی کے ہر پیمانے پر پورا اترتی تھی ہر لحاظ سے مکمل مگر ناجانے کیوں وہ آج تک اس کے دل میں گھر نہیں کر پائی تھی لیکن اس سب کے باوجود اس لڑکی کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا اسے برداشت نہیں ہوا تھا ۔۔۔
” جس دن سے میری زندگی میں آئی ہو مجھے الجھا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔” وہ بڑبڑایا
سامنے ہی میز پر نیا لیب ٹاپ رکھا ہوا تھا جس پر پنک کلر کے ستارے نما اسٹیکرز جگمگا رہے تھے وہ بڑے اطمینان سے میز کی جانب بڑھا اور لیب ٹاپ اٹھا کر زور سے زمین پر دے مارا دبیز قالین کی وجہ سے آواز پیدا نہیں ہوئی وہ اپنے قدم لیب ٹاپ پر رکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
***********************
ٹوٹی جب رسم وفا تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
دیکھےجب آنکھوں میں شک کے ساۓ تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
دیکھے جب بدلتے مزاج تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
جب محسوس کی بے وفائی تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
ٹوٹے جب خواب شیشے کی طرح تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
ہوا جب خاک وعدہ وفا تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
کیا جب تم کو زندگی سے خارج تب
محبت چھوڑ دی ہم نے
یہی اب اس زخمی دل کا دلاسہ ہیں کہ
محبت چھوڑ دی ہم نے
(شزا خان )
نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی آج صبح کا آغاز جتنا خوشگوار تھا اختتام اتنا ہی خراب تھا شہریار اسے دروازے پر چھوڑ گیا تھا اس نے اس کے جذبات کی ، احساسات کی پرواہ نہیں کی تھی وہ بےحد دلگرفتی سے سوچ رہی تھی رات کا ناجانے کون پہر تھا وہ کروٹیں بدل رہی تھی تھک ہار کر اس نے اپنا سیل فون اٹھایا ساڑھے تین بج رہے تھے اس نے بنا سوچے سمجھے شہریار کو فون ملا دیا ۔۔۔
” ہیلو ۔۔۔” شہریار کی کوفت سے بھرپور آواز سنائی دی
” شیری ۔۔۔۔” وہ سسک اٹھی
” عروہ !!! کیا ہوا ؟ آر یو آل رائٹ ؟ تم نے اس وقت فون کیا سب ٹھیک تو ہے ؟” شہریار نے سنجیدگی سے پوچھا
” شیری !! میری جان میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ، تم مجھے چھوڑ دو گے یہ خیال آتے ہی میری سانسیں رکنے لگتی ہیں میں خود کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی ہوں بس تم اور میں کوئی تیسرا ہمارے درمیان نہیں ہے پر دل ہے کہ مانتا نہیں ہے ۔۔۔” وہ بلک بلک کر رہ رہی تھی
شہریار رات کے اس پہر عروہ کے فون اور پھر اس اعتراف پر ششدر رہ گیا ۔۔
” عروہ ریلیکس ، کام ڈاؤن میں تو پہلے ہی تمہیں شادی کی آفر کرچکا تھا تمہیں ہی میرے پیرنٹس کی اپروول چاہئیے تھی ۔۔۔” شہریار نے یاد دلایا
” شیری !! مجھے لگتا تھا کہ میں تمہاری فیملی کے ماننے کا انتظار کر لونگی لیکن جب سے وہ تمہاری کزن آئی ہے میں پتہ نہیں کیوں پر ان سیکیور فیل کررہی ہوں بس مجھے اب کسی کی پرواہ نہیں ہے ہمیں اسی ویک منگنی کر لینی چاہیے اور ساتھ ہی شادی کی ڈیٹ بھی فکس کر لینی چاہیے ۔۔۔” وہ روئے روئے انداز میں بول رہی تھی
” ابھی تم ٹینس ہو تھوڑا آرام کرو ہم اس موضوع پر صبح بات کرتے ہیں ۔۔ ” اس نے پیچھا چھڑانے والے انداز میں کہا
” شیری !! تمہیں یاد ہے نا کہ تم نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا ؟؟ پھر اب جب میں ریڈی ہوں تو تم پیچھے کیسے ہٹ سکتے ہو ؟؟ یا میں سمجھوں تم بھی ایک عام مرد نکلے جو کم عمر لڑکی پر پھسل گئے ۔۔۔” وہ طنز کرتے ہوئے بولی
” اٹس انیف عروہ !! تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو میں اب تمہیں کوئی صفائی نہیں دونگا ” وہ اکھڑ گیا
” شیری پلیز !! میں نے جان لیا ہے کہ میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتی اس لئیے میں اپنی شرط واپس لیتی ہوں تم بس مجھ سے جلد از جلد شادی کر لو اپنے گھر والوں کو جب چاہوں بتا دینا ” وہ اصرار آمیز لہجے میں بولی
” اچھا ابھی تو تم آرام کرو میری صبح میٹنگ ہے کل ڈنر پر مل کر بات کرتے ہیں ۔۔ “شہریار نے اسے تسلی دیکر فون رکھ دیا
عروہ کے فون نے اسے ڈسٹرب کر دیا تھا وہ اپنی فیلنگ سمجھ نہیں پا رہا تھا جو بھی تھا عروہ سے اس کی کمٹمنٹ تھی اتنی اچھی اور کانفیڈینس سے بھرپور لڑکی اس کے لئیے یوں بے قرار تھی اور کب سے اس کے ساتھ اپنی شادی کا انتظار کررہی تھی ، اب اسے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا سویرا اس کی زندگی میں زبردستی داخل کی گئی تھی اور ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہی تو ہوا تھا کون سا وہ اسے اپنی خلوت میں شامل کر چکا تھا لیکن ۔۔۔ شاہ بی بی سے کیا ایک سال کا وعدہ ۔۔۔ اس کی سوچوں کو بریک لگا گیا
*************************
صبح کا اجالا پھیل رہا تھا سویرا کی معمول کے مطابق فجر کے وقت آنکھ کھل گئی تھی وہ بڑے آرام سے نائٹ لیمپ بند کر کے بستر سے اتری اور لائٹ جلنے کے لئیے آگے بڑھی ہی تھی کہ اس کا پیر کسی سخت چیز سے ٹکرایا وہ کراہ کر پیچھے ہوئی آنکھے مسلتے ہوئے فرش کی جانب دیکھا اور اس کا ننھا سا دل دھک سےرہ گیا وہ تیزی سے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا زمین پر پڑا لیب ٹاپ اٹھا چکی تھی
” یہ ادھر کیسے ؟؟؟ ” پریشانی سے اس کا برا حال تھا
دوپٹے سے اسے صاف کرتے ہوئے اس نے لیب ٹاپ کو کھولا تو اندر سے پوری اسکرین بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ چکی تھی وہ ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسکرین کو دیکھ رہی تھی آنکھوں سے بے آواز آنسو بہے چلے جا رہے تھے اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ لیب ٹاپ فرش پر کیسے گرا وہ آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھی پر آنسو تھے کہ امنڈتے چلے آرہے تھے۔ اس نے لیب ٹاپ اٹھا کر بیگ میں رکھا اور وضو کرنے چلی گئی
نماز پڑھ کر اللہ سے رو رو کر دعا مانگنے کے بعد اس نے یونیورسٹی جانے کی تیاری شروع کردی تیار ہو کر اپنے لمبے گھنے بالوں کی سادہ سی چٹیا بنائی اور سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہوئی کچن میں آگئی
ابھی اس نے چائے کا پانی رکھا ہی تھا کہ شہریار اپنے کمرے سے باہر نکلا
“یہ آج جاگنگ پر نہیں گئے ۔۔۔” وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی
“جوس ۔۔۔” وہ گلاس میں اورنج جوس نکال کر تیزی سے اس کے پاس آئی
شہریار نے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھا اس کی سرخ آنکھیں شدت گریہ کی چغلی کھا رہی تھیں شہریار کو اسے دیکھتے ہی کل شام مال کا منظر آنکھوں میں گھوم گیا شہریار کو عجیب سی فیلنگ ہوئی تھی غصہ حسد رقابت وہ اپنے احساسات کو کوئی نام نہیں دے سکا
” کافی بنا کر میرے کمرے میں لاؤ ۔۔۔۔” وہ جوس کا بھرا گلاس میز پر پٹختے ہوئے بولا
سویرا شہریار کا اکھٹر انداز دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی وہ تیزی سے کافی میکر کی جانب بڑھی گرم گرم بلیک کافی بنا کر کپ میں انڈیلی اور تیزی سے شہریار کے کمرے کی جانب بڑھی دستک دے کر اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئی
” آپ کی کافی ۔۔۔”
“میز پر رکھ دو اور تم یہاں بیٹھو ۔۔۔” اس نے سامنے پڑے صوفہ پر اشارہ کیا
” سنو لڑکی !! میں تمہیں ادھر پڑھنے کیلئے کیرئیر بنانے کے لئیے لایا ہوں اور تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہو ؟؟ ” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
” یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ممم میں نے کچھ نہیں کیا سچی ۔۔” سویرا نے بے ساختہ سر اٹھایا
اس کی جھیل سی سیاہ آنکھوں میں حیرت جھلک رہی تھی پہلی دفعہ شہریار کو اس کی آنکھوں کی کشش کا احساس ہوا اس نے سرعت سے اپنی نظریں ہٹائیں
” کل تم کہاں تھیں ؟؟ کس کے ساتھ تھیں بولو ؟؟ ” وہ غرایا
” میں ۔۔۔۔”
” ہاں تم ؟؟وہ لڑکا کس حق سے تمہیں چھو رہا تھا بولو کس حق سے اس نے تمہیں وہ دو ٹکے کا لیب ٹاپ دلایا ۔۔۔۔”
سویرا کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے وہ شہریار کا خونخوار انداز دیکھ کر سہم گئی تھی
“سب اسٹوڈنٹس کو ٹیچر نے لیب ٹاپ لانے کا کہا ہے وہ کہتے ہیں ادھر سارا کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے ۔۔” وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی
” تمہیں ادھر کس چیز کی کمی ہے ؟؟ کیا میں نے تمہیں کہاں نہیں تھا کہ جو چاہئیے ہو وہ اینا کو بتا دینا ؟؟ ”
” جب تک میرے نکاح میں ہو اپنی اوقات میں رہنا سیکھو آئندہ اگر میں نے کسی غیر مرد کو تمہارے آس پاس بھی دیکھا تو ٹانگیں توڑ کر پاکستان بھجوا دونگا ۔۔” شہریار سرد لہجے میں بولتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کر چکا تھا
سویرا چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں بتا پائی کہ اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اینا سے رابطہ کر سکے
********************
“اکرم بات سنیں ” رخسار نے آرام سے اخبار پڑھتے ہوئے اکرم کو مخاطب کیا
“کیا ہے رخسار یار اخبار تو پڑھنے دو ۔۔۔”
” سنیں وہ پھپھو سخت خفا ہیں مجھ سے بات بھی نہیں کررہی ہیں ۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
” رخسار ، امی کو اگنور کرو ورنہ تمہاری صحت خراب ہو جائے گی اور مجھے اپنی بیگم کی صحت کی بہت فکر ہے ۔۔۔” اکرم شرارت سے اس کی لٹ کھینچتے ہوئے بولا
” آپ میری بات کو سیریس نہیں لے رہے ہیں دیکھنا وہ آپ کی دوسری شادی کروا دینگی اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے ۔۔۔” رخسار نے تاسف سے کہا
” تو پھر تم ہی ان کی بات مان لو اور چلو لندن چلتے ہیں کسی اچھی ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں شاید اللہ اپنا کرم فرما دے ۔۔۔” اکرم نے سمجھایا
” اکرم شیرو کو گئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں اس وقت پھپھو کا وہاں جانا مناسب نہیں ہے پہلے ان دونوں کو سیٹ تو ہو جانے دیں ۔۔”
” تو میری پیاری بیگم پھر آپ بھی اپنی ساسو ماں کو اگنور کرو ویسے بھی اگر وہ لندن جانے کی ضد نہیں چھوڑتی ہیں تو حامی بھر لو
میں نے ان کے پاسپورٹ اور ویزا میں ہی پانچ چھ ماہ تو نکال دینے ہیں ۔۔۔”
” آپ ٹھیک کہہ رہے پاسپورٹ ویزا میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کیا ؟؟ ” وہ تجسس سے پوچھ رہی تھی
” کیوں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا ؟؟ ویسے بھی امی ادھر ہماری محبت میں نہیں جانا چاہ رہی بلکہ ان کا نشانہ سویرا ہی ہے ” اکرم نے اپنی نازک سی بیگم کو گھورا
” آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں پھپھو کو بس یہ ڈر ہے کہ کہیں شیرو سویرا کو اپنا نہ لے وہ اسی لئیے ادھر جانا چاہتی ہیں اور اب میں پھپھو کی سب باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرونگی ۔۔۔” رخسار نے سر ہلایا
” واؤ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا !! ویسے بیگم آپ اتنی سمجھدار کب سے ہو گئی ہیں ۔۔۔” اکرم سر دھنتے ہوئے بولا
“جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ میرے لئیے کتنے ضروری ہیں ۔۔۔” رخسار ترکی بہ ترکی بولیں
” یہ کب ہوا ؟؟ ”
” جب پھپھو نے آپ کی دوسری شادی کی بات کی ۔۔۔”
” اچھا چھوڑو سب یہ بتاؤ میں کتنا ضروری ہوں ؟؟ ” وہ رومینٹک ہوا
اس سے پہلے رخسار کوئی جواب دیتیں دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا
“یہ کیا بے شرمی ہے ؟؟ دن دھاڑے تم کمرے میں گھسی بیٹھی ہو کوئی شرم و لحاظ ہے یا سب کچھ اپنی بھاوج کے ہاتھ ولایت بھیج دیا ہے ۔۔۔” فرازنہ نے رخسار کو جھاڑا
” اسلام علیکم پھپھو !! ” رخسار نے فوراً سلام کیا
” رخسار میں تمہیں آئندہ اس ٹائم کمرے میں نہ دیکھو چلو جا کر چائے کا اہتمام کرو ۔۔۔” انہوں نے اسے باہر کا راستہ دکھایا
********************
سویرا نے کمرے میں آکر جلدی سے اسکارف نکال کر سر پر لپیٹا دوپٹہ اچھی طرح سے شانوں پر پھیلایا اور اپنا بیگ کندھے پر لٹکا کر کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ شہریار کی آواز گونجی
“کہاں جا رہی ہوں ؟؟ ”
“وہ میں یون۔۔۔۔”
” آج سے تم اکیلی کہیں بھی نہیں جاؤ گئی باہر ڈرائیور آچکا ہے تمہارا پک اپ اور ڈراپ اب سے وہی کریگا ۔۔۔وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
سویرا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اپنے آنسوؤں کو پیتے ہوئے باہر نکل گئی
سویرا کے جانے کے بعد وہ خود بھی تیار ہو کر آفس کیلیئے روانہ ہوا ابھی راستے میں ہی تھا کہ جونس کی کال آگئی ۔۔۔
” ہیلو شہریار ہاؤ آر یو ؟؟ ”
” فائن !! تم سناؤ ۔۔۔”
“ڈیل فائنل ہو گئی ہے میں آج رات لندن پہنچ رہا ہوں سیدھا تمہارے گھر ہی آؤنگا ٹریٹ ریڈی رکھنا ۔۔۔” جونس خوشدلی سے ہنستے ہوئے بولا
” اوکے پھر گھر پر ملتے ہیں ۔۔۔” شہریار نے فون بند کیا اور اپنی توجہ ڈرائیونگ پر لگا دی
***********************
وہ آفس میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا لیکن اس کی توجہ بار بار بھٹک کر سویرا کی طرف جا رہی تھی یہ سچ تھا کہ وہ اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا لیکن اس وقت سویرا کا سہما ہوا چہرہ بھیگی ہوئی آنکھیں بار بار اس کی نظروں میں آرہی تھیں وہ کوشش کے باوجود اسے اپنے ذہن سے نہیں جھٹک پا رہا تھا ۔۔۔
“مس اینا اندر آئیے ۔۔۔” اس نے انٹر کام پر اپنی سیکریٹری کو اندر بلوایا
“یس سر ۔۔۔” اینا دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوئی
“مس اینا !! مجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک بہترین لیٹسٹ لیب ٹاپ اپنی ٹیبل پر چاہئیے ۔۔۔” اس نے حکم دیا
“یس سر ۔۔۔” اینا حیرت سے اس کے سامنے رکھے ایپل کے جدید لیب ٹاپ کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی
****************
سویرا کو ڈرائیور یونیورسٹی ڈراپ کر کے واپسی کا ٹائم پوچھ کر جا چکا تھا وہ تیز تیز قدموں سے اپنی کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی جب کاریڈور میں کھڑے اپنے سینئرز سے بات کرتے ڈاکٹر اینڈریو کی نظر اس پری وش پر پڑی ، سویرا کا اداس چہرہ اور سرخ آنکھیں اسے بے چین کر گئی تھیں ۔وہ اپنے ساتھیوں سے ایکسکیوز کرتے ہوئے لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا سویرا کے راستے میں آکر رک گیا ۔۔
سویرا جو اپنی دھن میں مگن تیزی سے چل رہی تھی اینڈریو کے ایک دم سامنے آنے سے رک گئی
“کیا ہوا ہے ؟ تم روئی کیوں ہوں ؟؟ ” اینڈریو نے سختی سے پوچھا
آپ راستہ چھوڑیں ۔۔۔۔” سویرا سخت لہجہ میں بولی
” کسی نے تمہیں چھیڑا ہے ؟ کچھ کہا ہے ؟مجھے بتاؤ کون ہے جو تمہیں رلانے کا سبب بنا ہے ۔۔” ڈاکٹر اینڈریو کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس چھوٹی سی نازک سی لڑکی کو اپنی پناہوں میں لے کر کہیں دور نکل جائے
” گڈ مارننگ سر !! کم آن سویرا کلاس اسٹارٹ ہونے میں بس دو منٹ رہ گئے ہیں ۔۔۔۔” بریڈلی اچانک سے نمودار ہوا اور ڈاکٹر اینڈریو کو سلام کرتے ہوئے سویرا کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے کاریڈور میں گم ہو گیا
“بریڈلی !! میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔” آگے جا کر سویرا نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی
” مس لیٹ لطیف ایک تو تمہیں ڈاکٹر اینڈریو سے بچایا پتا بھی ہے وہ بہت روڈ اکھٹر ٹیچر ہیں نئے ہیں لیکن سنا ہے اسٹوڈنٹس کی بےعزتی کرنے میں ماہر ہیں ۔۔۔۔” وہ اسے کلاس تک لے آیا تھا
وہ دونوں اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ چکے تھے سب اسٹوڈنٹس نے اپنے اپنے لیب ٹاپ نکال لئیے تھے آن لائن کوئز اسٹارٹ ہو رہا تھا اور سویرا ہاتھ میں کاپی پین لئیے نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
” سسششش سویرا !! اپنا لیب ٹاپ نکالو جلدی کرو اگر ٹیچر نے دیکھ لیا تو کک آوٹ کردینگی ۔۔۔” بریڈلی نے سویرا کو سرگوشی میں مخاطب کیا
” میرا لیب ٹاپ ٹوٹ گیا ہے ۔۔۔۔” وہ بڑے ضبط سے بولی
” واٹ ؟؟ تمہیں پتہ بھی ہے اس کوئز کی مارکنگ ہے ۔۔۔۔” بریڈلی نے سر پیٹ لیا پھر تیزی سے اپنا لیب ٹاپ پاس ورڈ کھول کر سویرا کے آگے رکھا
” مس مارگریٹ ۔۔۔۔” بریڈلی نے کھڑے ہو کر پروفسر کو پکارا
” یس بوائے !! ” ساٹھ سالہ پروفیسر مسکراتے ہوئے اس شریر لڑکے کے پاس آئیں
” میم میں اپنا لیب ٹاپ شاید گھر بھول آیا ہوں اگر آپ پرمیشن دیں تو یہ کوئز آپ کے لیب ٹاپ سے کر لوں پلیز سوئیٹ میم ۔۔۔۔”
” اوکے مگر یہ پہلی اور آخری دفعہ ہے آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔” پروفیسر مارگریٹ نے سے گھورا
” یس میم !!! ” وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکا اور تیزی سے ڈائس پر رکھے ان کے کمپیوٹر کی طرف بڑھ گیا
کلاس ختم ہونے کے بعد وہ سویرا کے پاس آیا
” کم از کم میرا شکریہ ادا تو کردو آج تمہیں فیل ہونے سے بچا لیا ہے ۔۔۔”
” بہت شکریہ ۔۔۔” سویرا نے اس کا لیب ٹاپ واپس کیا
” تمہارا لیب ٹاپ کیسے ٹوٹا ؟؟ ”
“پتا نہیں ۔۔۔۔” سویرا کنی کترا کر جانے لگی
” چلو شاپ پر چل کر دکھا لیتے ہیں اگر وارنٹی میں کوور ہوا تو دوسرا لے لینگے ورنہ اسے ٹھیک ہونے دے دینگے ۔۔۔”
” نہیں اٹس اوکے ، میں مینج کر لونگی ۔۔” سویرا نے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی
بریڈلی نے بڑے اطمینان سے سویرا کا بیگ کھول کر لیب ٹاپ نکالا
” اوکے سویٹی میں یہ شاپ پر لے جاؤں گا اور جیسے ہی ٹھیک ہوتا ہے تمہارے گھر پر پہنچا دونگا ۔۔۔”
**********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...