ہر انسان کو اپنا بچپن عزیز ہوتا ہے۔ خاص طور سے بچپن کی یادیں وہ کبھی نہیں بھولتا۔زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد کبھی فرصت کے اوقات میں انسان جب اپنے ماضی کا سفر کرتا ہے تو اسے بچپن کی سنہری یادیں ستاتی رہتیں اور امید کرتا ہے کہ کاش وہ اپنے بچپن کے دور سے ایک مرتبہ پھر گزرے یا ان ساتھیوں سے ملے جو اس کے حسین بچپن کے ساتھی تھے۔ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو پتہ نہیں کیوں والدین اور گھر والے ان کے دلوں میں یہ ڈر بٹھادیتے ہیں کہ اب ان کے گھر میں کھیلنے کے دن ختم ہونے والے ہیں اور انہیں اسکول میں ڈال دیا جائے گا۔ اسکول کا ڈر بچوں کے ذہنوں میں اس قدر بٹھادیا جاتا تھا کہ بچے اسکول کو جیل خانہ سمجھتے تھے۔ لیکن زندگی کا ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب انسان اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے تو اس کے بچپن کی یادوں کا ایک بڑا حصہ اس کے اسکول کا زمانہ ہوتا ہے جہاں اس نے پہلی بار اپنے اساتذہ سے کچھ پڑھنا لکھنا سیکھا تھا۔ آج میں زندگی کے جس موڑ پر ہوں اور علم و ادب سے جو کچھ موتی حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرپایا ہوں اس کی بنیاد کے بارے میں جب غور کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ میری تعلیم و تربیت اور ابتدائی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں والدین کے بعد جن ہستیوں نے میرے حق میں اپنی صلاحتیں نچھاور کیں وہ میرے بچپن کے اساتذہ تھے جنہیں یاد کرتے ہوئے آج میں دلی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ یہ یادیں ان اساتذہ کی ہیں جو میرے تعلیمی سفر کی پہلی منزل سے وابستہ تھے جی ہاں میری مراد شہر نظام آباد کی وہ عظیم و مقبول درسگاہ ہے جسے ہم لوگ آغا خان اسکول اردو میڈیم کے نام سے جانتے ہیں جو بعد میں گولڈن جوبلی اسکول کہلایا اور شہر نظام آباد میں آج بھی یہ اسکول اور اس کی شاخ جونیر کالج نظام آباد کی کئی پیڑھیوں کی علمی درسگاہ ہے۔ میں اپنے پرائمری اسکول کی یادوں کو یہاں پیش کروں گا جب کہ۱۹۷۶ء تا۱۹۸۲ء میں نے اس اسکول میں پہلی جماعت تا ساتویں جماعت تعلیم حاصل کی تھی۔ آغا خان اپر پرائمری اسکول برکت پورہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں ان دنوں کریسنٹ جونیر کالج قائم ہے۔ جیسا کہ کہا گیا جون کے مہینے میں عام طور سے نیا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے۔ اور داخلے انجام پاتے ہیں۔ آغا خان اسکول کی کچھ یادیں جو بعد میں میرے شعور کا حصہ بنیں کہ اس اسکول سے ہماری بڑی پھوپھی عابدہ بیگم وابستہ تھیں ۔ جو بعد میں پاکستان چلی گئیں اور ان کے کئی شاگرد انہیں عابدہ ٹیچر کہہ کر یاد کرتے رہے آج بھی کچھ بزرگ جو اسکول سے وابستہ رہے وہ عابدہ ٹیچر کو یاد کیا کرتے ہیں۔ میری بڑی بہن شہناز نسرین اور میرے بھائی محمد احسن فاروقی جو ان دنوں نظامیہ طبی کالج حیدرآبادمیں پروفیسر شعبہ معالجات ہیں‘ مجھ سے پہلے اس اسکول میںشریک تھے اور خاندان کے دیگر لوگ بھی اس اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ میرے والد محترم جناب محمد ایوب فاروقی صابرؔ مرحوم ان دنوں محکمہ ایمپلائمنٹ میں اسٹاٹسکل اسسٹنٹ تھے۔ اور مجھے پتہ تھا کہ یہ وہ محکمہ ہے جہاں سے ملازمتوں کے لیے کال لیٹر جاری ہوا کرتے تھے اور ہمارے گھر یعقوب منزل پھولانگ نظام آباد کے دیوان خانے میں اکثر لوگ والد صاحب سے ملنے آتے تھے اور کال لیٹر کا تذکرہ کرتے تھے والد صاحب اور ان کے دوستوں جناب کاظم علی صاحب‘جناب جبار صاحب‘شطاری صاحب وغیرہ سے اکثر سننے میں آتا کہ والد صاحب نے کئی لوگوں کو ملازمت پر رکھوایا ہے۔ اس طرح میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ والد صاحب اس محکمہ میں کام کرتے ہیں جہاں لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں۔ جب گھر میں میرے کھیلنے کھانے کے دن پورے ہوئے اور بھائی بہنوں نے کہا کہ اب تمہارا داخلہ اسکول میں ہونے والا ہے تو میں روایتی طور پر گھبرایا ہوا تھا۔ گھر پر کریم صاحب کا رکشا آتا تھا دبلے سے سانولے کریم صاحب جو عرب گلی میں یونانی دواخانہ کے نزد ایک پتلی سے گلی میں کویلو کے مکان میں رہا کرتے تھے اور وہ ہمیں لینے کے لیے پھولانگ آیا کرتے تھے۔ بہرحال کریم صاحب کے رکشے میں میں اور بھائی بہن سوار اسکول پہونچے۔ بھائی صاحب مجھے لے کر جناب جبار صاحب مدرس تلگو کی جماعت میں گئے۔ جبار صاحب نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور والد کا نام پوچھا۔ میں نے دونوں جواب دئے اس کے بعد انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ باوا کیا کرتے ۔ میں نے جواب دیا کہ نوکریاں دلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھی نوکری دلائے گا پتہ نہیں میں نے جواب دیا یا نہیں۔ اسکول کے ابتدائی دنوں میں صغیر جماعت میں بچوں کا داخلہ ہوا کرتا تھا۔ شروع کے ایام میں اکثر بچے رویا کرتے تھے اسکول کے ٹیچر بچوں کو منانے کے لیے چاکلیٹ دیا کرتے تھے بچے پھر بھی نہ مانے تو ماجد صاحب بچوں کو خوب ڈانٹتے تے اور انہیں ٹین کی بنی چھت پر بٹھادیتے تھے۔ بہر حال اسکول میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ جناب رشید صاحب اس زمانے میں اسکول کے صدر مدرس تھے بچے ان کے نام کو بگاڑ کر کچھ نہ کچھ دیواروں پر لکھ دیا کرتے تھے برکت پورے کی دیواروں پر ان کے نام سے مذاق اڑایا جاتا تھا مجھے یاد ہے کہ بچوں کو ڈر بٹھانے کے لیے وہ کمرہ جماعت میں کوڑا لے کر آیا کرتے تھے۔ ابتدائی جماعتوں میں بچوں کو اردو حروف تہجی سکھانے کا کام جناب یعقوب صاحب کا تھا جوبعد میں آغا خان اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ ان کے فرزندان جناب ایوب صاحب‘مجیب صاحب‘نجیب صاحب ان دنوں میں آگے پیچھے اسکول میں زیر تعلیم تھے ان کی ایک بیٹی صبیحہ میری ہم جماعت رہی ہیں۔ یعقوب صاحب بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کا پڑھانے کا انداز بہت اچھا تھا وہ بڑے بڑے حروف تہجی بورڈ پر لکھا کرتے تھے اور دائیں سے بائیں حروف پر ہاتھ پھرنے کے دوران کچھ گنگناتے تھے اور چلنے دو کہتے ہوئے ہمیں حروف پر مشق کرنے کے لیے کہا کرتے تھے۔ یعقوب صاحب نے دوران ملازمت بی ایڈ کا امتحان دیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ وہ کچھ دنوں جیل میں بھی رہے تھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایام ایمرجنسی کے تھے اور جماعت اسلامی سے وابستہ نظام آباد کی کئی سرکردہ شخصیات کو ان دنوں جیل میں رکھا گیا تھا۔ ایمرجنسی کے بعد یعقوب صاحب پھر سے آغا خان اسکول میں شامل ہوگئے اور ہیڈ ماسٹر رہنے کی وجہہ سے بہت کم ہماری کلاس لیتے تھے۔ ایک دفعہ جب میں ساتویں جماعت میں تھا اور میرا اسکول ریکارڈ یہ تھا کہ میں پہلی جماعت سے ساتویں تک ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آیا کرتا تھا تو مجھے کلاس کے ذہین طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ کلاس میںکوئی ٹیچر نہیں تھے اور کہا گیا تھا کہ طلباء خاموشی سے اپنے کام کرتے رہیں لیکن ٹیچر نہ ہونے کے سبب کلاس میں بچے شور کرنے لگے تو یعقوب صاحب ہیڈ ماسٹر کمرے سے سیدھے ساتویں جماعت کے کمرے میں آئے جو بلندی پر واقع تھا انہون نے لکڑی سے مجھے بہت مارا اور مجھے ذمہ دار قرار دیا گیا کہ کمرہ جماعت میں خاموشی کیوں نہیں ہے۔ یہ تو کوئی وجہہ نہیں تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ استاد کا مار پھولوں کا ہار۔ جبار صاحب تلگو پڑھاتے تھے۔ وہ بہت موٹے تھے ان کے گھر سے دوپہر میں بہت بڑا ٹفن آیا کرتا تھا اور ہم لوگ حیرت میں رہتے تھے کہ دو تین ڈبوں پر مشتمل ٹفن وہ اکیلے کیسے کھالیتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ پھولانگ سے آیا کرتے تھے اس لیے دوپہر میں اسکول میں ہی ٹفن کھایا کرتے تھے۔ ٹفن رکھنے کی جگہ بائولی کے بازو تھی جہان پانی کے رنجن رکھے ہوتے تھے۔گرما کے دنوں میںاکثر ٹفن میں چیونٹیاںلگ جایا کرتی تھیں جنہیں صاف کرکے کھایا جاتا تھا۔ اسکول میں صبح 11-15کو انٹرویل کی پہلی گھنٹی ہوتی تھی ہم لوگ ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے باہر نکلا کرتے تھے۔ اسکول کے باہر ایک چنے والا مشہور تھا جو اکثر گیت گایا کرتا تھا چنا جور گرم ۔ میرا چنا ہے مزیدار جو کھایا وہ بنے گا تحصیلدار۔ اسی طرح اس زمانے میںکچی برادری کے کچھ لوگ بنڈی پر کھانے کی چیزیں لگایا کرتے تھے جن میںابلے ہوئے آلو ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب سب سے کم پیسے ایک پیسہ دو پیسے پانچ پیسے دس پیسے بیس پیسے بہت ہوا کرتے تھے اور پانچ پیسے میں بہت کچھ مل جایا کرتا تھا۔ گھر میںکبھی کبھی دادی ماں مہینے کے آغاز پر وظیفہ کی رقم سے پوتا پوتی ناتے نواسی کو ایک ایک روپیہ دیا کرتی تھیں تو وہ پیسے یا امی جان کی جانب سے دئے کچھ پیسے جیب میں رکھ کر ہم جیلانی بانو کے افسانے میں پیش کردہ کردار ادو کی طرح اپنے آپ کو امیر سمجھتے تھے جس کی جیب میں ایک روپیہ ہوا کرتا تھا ۔ ہمارے ایک ہم جماعت ندیم میرے خاص دوست تھے جو سلام زردہ کے بھائیوں میں شامل ہیں ان دنوں حیدرآباد میں ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں لیے انٹرویل میں ہم اکثر برکت پورہ میں اسکول کے بازو ایک گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر وقت گزارا کرتے تھے۔سامنے سے کھوجوں کے گھر سے ذبردست پکوانون کی اشتہا آمیز خوشبو آیا کرتی تھی۔ اسکول کی یادیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتی۔ مجھے گھر کے دیگر افراد کی طرح بچپن سے ہی کرکٹ کمنٹری سننے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں ایک مرفی ریڈیو تھا جس پر ہم لوگ کمنٹری سنا کرتے تھے انٹرویل میں جب کبھی موقع ملتا میں روٹری اسکول کے بازو لگے پان ڈبے کے پاس جاتا وہان کرکٹ کمنٹری چل رہی ہوتی اور اسکور معلوم کرلیتا کبھی کلفی کی بنڈی پر کمنٹری چل رہی ہوتی۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی ٹیم میں سنیل گواسکر۔ وشواناتھ۔وینگسارکر کپل دیو وغیرہ ستارے تھے۔ پاکستان کی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا جس میں آصف اقبال پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے ۔ظہیر عباس ۔عمران خان وغیرہ اہم کھلاڑی تھے۔ انگلینڈ کی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا بریرلی کپتان تھے اور ایان بوتھم نے سنچری بنائی تھی۔ ان سارے میچوں کی کمنٹری دوران انٹرویل میں نے شوق سے سنی ہے۔ اسکول کے اساتذہ میں جبار صاحب کا ذکر چل رہا ہے ایک دفعہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ایس آئی او کی جانب سے تحریری مقابلے منعقد ہوئے تھے جبار صاحب نے مجھے سے کہا کہ میں تلگو میں لکھوں انہوں نے ایک مضمون تلگو میں لکھ کر دیا جب پہلی دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ تلگو میں پیغمبر کو پراوکتا کہا جاتا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کے بچپن کے واقعات پر مبنی یہ مضمون میں نے تلگو میں لکھا تھا تو مجھے تیسرا نعام ملا تھا۔ ایک دفعہ جبار صاحب پرچے جانچ رہے تھے کمرے جماعت میں ہی وہ میرا پرچا جانچتے رہے اور نشانات ڈالتے رہے جب انہون نے نشانات کی گنتی کی تو102ہوگئے یعنی 100میں سے نشانات دینے تھے پھر انہون نے ان نشانات کو 99کردیا۔آغا خان اسکول کے ابتدائی اساتذہ میں جناب مظہر الدین فاروقی بھی تھے جو بہت گورے اسمارٹ تھے اور انگریزوں کی طرح انگریزی پڑھایا کرتے تھے ان کا اے بی سی ڈی پڑھانے کا انداز ہی نرالا تھا۔ بعد میں وہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے اور حیدرآباد میں ترقی کرتے ہوئے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے اور ان دنوں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ مظہر صاحب لائن گلی میں رہا کرتے تھے۔ ان کے خاص دوست جناب فہیم صاحب تھے جنہوں نے مجھے ابتدائی انگریزی سکھائی مجھے یاد ہے آج بھی انہوں نے انگریزی سوالات واٹ از یور نیم۔ واٹ از یور فادر نیم۔واٹ از یور فادر۔ ہائو اولڈ آر یو اس قسم کے جو سوال جواب سکھائے تھے اس سے مجھے انگریزی میں مہارت ملی۔ اور کرکٹ کمنٹری سننے کا شوق اور انگریزی سے دلچسپی کا اثر یہ ہوا کہ اردو میڈیم کا طالب علم ایک شاعر کا بیٹا لیکن ایس ایس سی امتحان میں جب نتیجہ آیا تو مجھے اردو سے زیادہ انگریزی میں نشانات ملے۔ فہیم صاحب آغا خان اسکول کے بعد ملازمت کے سلسلے میں سعودی چلے گئے تھے واپس آکر خدمت بنک سے وابستہ ہوئے۔ کچھ عرصہ قبل مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اور اکثر رضا بیگ مسجد میں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ دوران قیام نظام آباد جب میرا تبادلہ گری راج کالج میں ہوا تھا تو رضا بیگ مسجد کے ہال میں منعقدہ ایک پروگرام میں جناب فہیم صاحب سے بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تو ایک اور ہردلعزیز استاد جناب عزیز صاحب کے ساتھ میںنے یادگار تصویر لی اور ہر سال 5ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر میں فیس بک پر ان اساتذہ کے ساتھ لی ہوئی تصویر کو شئر کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان اساتذہ کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر رہے اور یہ اساتذہ صحت و عافیت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جناب عزیز صاحب ایک نوجوان استاد کے طور پر آغا خان اسکول میں داخل ہوئے تھے۔ وہ ہمیں سائنس پڑھایا کرتے تھے وہ سخت مزاج تھے اور آج جو کچھ سبق پڑھایا دوسرے دن اس میں سے سوالات پوچھا کرتے تھے۔عزیز صاحب جیسے آج شعلہ بیان مقرر ہیں آغا خان اسکول میں بھی ان کی تقریریں شعلہ بیان ہوا کرتی تھیں۔ یوم اساتذہ کا موقع ہو یا آغا خان کا یوم پیدائش ان کی تقاریر معلوماتی ہوا کرتی تھیں اسکول میں روز صبح دعا کے بعد اساتذہ کی تقاریر ہوا کرتی تھیں جن سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا کرتا تھا۔ ماجد صاحب بڑی جماعت کے طلباء کو ریاضی سکھایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جیومٹری سکھانے کے لئے وہ لکڑی کے بنے پرکار اور دیگر جیومٹری کے سامان کلاس میں لا کر بورڈ پر جیومٹری سکھایا کرتے تھے ان کی تدریس سے ہمیں پتہ چلا کہ مثلث کیا ہوتا ہے مربع کیا ہوتا ہے پانچ ضلعی کیا ہوتی ہے اور مسدس کیا۔ انہوں نے الجبر ا اور اس زمانے میں نئے شامل نصاب سٹس اور فنکشنس کو بھی اچھی طرح سمجھایا تھا۔ماجد صاحب بھی سختی کے لیے مشہور تھے۔ مذہبی طور پر بھی وہ سخت گیر تھے شیروانی اور کالی ٹوپی پہن کر آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ طلباء نے اطلاع دی کہ ایک مسلم لڑکی نے اسکول کے پروگرام میں فلمی گیت پر رقص کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ میری بیٹی ہوتی تھی پیر پر پیر رکھ کر چیر دیتا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے ہیڈ ماسٹرکے کمرے میں بلایا۔مجھ سے والد صاحب کے بارے میں دریافت کیا میری چوڑی پیشانی اور گنگھریالے بال دیکھے اور کہا کہ ایک دن میں ضرور ترقی کروں گا۔ آج ماجد صاحب اور دیگر اساتذہ کی باتیں سچ ثابت ہوئیں کہ ہمارے اساتذہ تو پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے اور آج ہمیں بڑی بڑی سرکاری ملازمتیں اور کالجوں میں تدریس کا موقع ملا ہے اس کے باجود یہ اساتذہ عظیم ہیں کہ انہوں نے تعلیم اور کردار کے اعتبار سے ہماری مضبوط بنیادیں رکھی ہیں۔
ہمارے اردو کے استاد مرزا عسکری حسین عسکر تھے۔ جن کا تعلق بودھن سے تھا جب میں تیسری جماعت میں تھا تو وہ پہلی دفعہ اسکول میں آئے۔ انہوں نے رجسٹر میں سب طلباء کے نام دیکھے اور میرا نام دیکھ کر پوچھا کہ والد کا نام کیا ہے تو میں نے جواب دیامحمد ایوب فاروقی تو انہوں نے کہا کہ وہ والد صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے دوست بھی ہیں۔ انہوں نے کلاس میں طلباء کے نام پوچھے اور آخر میں اپنا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ناچیز کو مرزا عسکری حسین عسکر کہتے ہیں اور کہا کہ جئب نام پوچھا جائے تو اپنے نام سے پہلے ناچیز لگاناچاہئے۔ انہوں نے مجھے اور دیگر طلباء کو اچھی طرح اردو پڑھائی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اردو زبان کی بدولت میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے تک پہونچا ہوں۔ عسکری صاحب ہم میں نہیں اللہ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے( آمین)ہمارے ایک ہندی اور گجراتی کے ماسٹر جناب اکبر علی دامانی صاحب بھی تھے جو کچی بچوں کو گجراتی سکھاتے تھے اور ہمیں ہندی سکھاتے تھے آج ہندی میں جو کچھ شدھ بدھ ہے وہ ان ہی کہ بدولت ہے وہ جماعت خانے میں بھی کچھ پڑھایا کرتے تھے۔ بڑے اصول پسند تھے کہتے تھے کہ محنت سے پڑھ لو ورنہ خون کے آنسو روئوگے یا بنڈی ڈھکیلو گے اور واقعی میں نے دیکھا کہ ہمارے کچھ ساتھ جنہوں نے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لی بنڈی ڈھکیلتے ہوئے نظر آئے۔
اسکول کی خاتون ٹیچروں میں میری مقبول ٹیچر محترمہ میمونہ ٹیچر رہی ہیں۔ جو شاکر ڈیری کی والدہ تھیں ۔ان کے شوہر عبدالشکور منظر ایک اچھے شاعر تھے۔ ان کے بھائی اسلم صاحب جوبلی ہوٹل کے مالک تھے اور ان کی بیٹیوں اسماء عاصمہ سیمااور عذرا وغیرہ بھی پیشہ تدریس سے وابستہ رہیں۔ میمونہ ٹیچر ہماری پھوپھی عابدہ ٹیچر کو اکثر یاد کیا کرتی تھیں اور اسکول میں میرے ساتھ اچھا برتائو کرتی تھیں ایک مرتبہ میرے بال بکھرے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے بالوں میں کنگھی کی تھی۔ بہت مخلص تھیں۔ چونکہ عابدہ ٹیچر کراچی پاکستان منتقل ہوگئیں تھیں۔ ان کی ایک بہن بھی کراچی میں تھیں تو وہ اکثر مجھے وہاں کے احوال پوچھتی تھیں اور وہاں سے کچھ چٹھی یا خط آیا تو میرے حوالے کرتیں۔ ہم لوگ ان کے گھر ٹیوشن پڑھنے بھی جایا کرتے تھے۔ بعد میں جب بھی نظام آباد جانا ہوا میں ان کے گھر جایا کرتا تھا بڑے خلوص سے بات کرتیں اور پرانی باتوں کو دہراتی تھیں کچھ سال قبل ان کا انتقال ہوا ہے اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔ حبیبہ ٹیچر بیالوجی حیاتیات پڑھایا کرتی تھیں۔ وہ عسکری صاحب کی رشتے دار تھیں۔ اور خاموش طبعیت والی تھیں۔ محترمہ اقبال ٹیچر سماجی علم پڑھایا کرتی تھیں۔ ان کے بیٹے رضی فزکس لیکچرر اور اب جونیر کالج کے پرنسپل ہیں ۔ اقبال ٹیچر کا بچوں کو چمٹی لیناآج بھی یاد ہے وہ اچھے خط پر توجہ دلاتی تھیں اور فیر کاپی دیکھا کرتی تھیں۔ نکہت ٹیچر بھی ہمارے زمانے میں آغا خان اسکول کی مقبول ٹیچر رہیں۔ وہ اپنے بالوں میں گلاب لگا کر آیا کرتی تھیں اور اکثر عزیز صاحب سے ان کی نوک جھونک رہا کرتی تھی۔ وہ بھی سخت مزاج تھیں سماجی علم اور سائنس پڑھایا کرتی تھیں۔مختلف مواقع پر اچھی تقریر کیا کرتی تھیں۔کچھ اساتذہ اسکول میں آئے اور گئے لیکن یہ اساتذہ ہمارے وہ اساتذہ تھے جن کے فیض تربیت نے مجھے اور بے شمار شاگردوں کو انمول ہیرا بنایا۔آغا خان اسکول میں چپراسی کا فریضہ جناب پاشا بھائی انجام دیا کرتے تھے اسی زمانے میں ان کی شادی بھی ہوئی تھی اور سہرا پہن کے اسکول میں آئے تھے مبارکبادی حاصل کرنے کے لیے۔ پاشا بھائی دن میں دو مرتبہ ہر کلاس میں ایک کاپی لے کر حاضر ہوا کرتے تھے جس میںطلباء کی یومیہ اٹنڈنس درج کی جاتی تھی۔ کبھی وہ نوٹس رجسٹر لے کر آتے تو طلباء میں خوشی کی لہر دوڑتی کہ شائد کل چھٹی ہے۔ اسکول میں سال میں ایک مرتبہ اعلان ہوتا ہے کہ ڈی ای او صاحب اسکول کا معائنہ کرنے والے ہیںسب لوگ اسکول میں حاضر رہیں اوراپنے کام کو مکمل رکھیں۔ اسکول میں صفائی اور دیگر امور پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔جناب یعقوب سروش صاحب بھی نظام آباد کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشنل آفیسر رہے۔آغا خان اسکول میں سال میں ایک مرتبہ پرنس کریم آغا خان کے یوم پیدائش پر جشن منایا جاتا تھا اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ طلباء کو واپسی پر کیک دیا جاتا تھا۔ تحریری تقریری مقابلوں میں کامیاب ہونے والوں کو انعام دیا جاتا تھا۔میرے ہم جماعت دوست اسلم لوہیا تھے جنہوں نے میرے ساتھ تقریباً پی جی تک پڑھائی کی انہیں وکیل بننے کا شوق تھا اور آج وہ نظام آباد کے نامور وکیل ہیں۔ کلاس میںکچی برادری کے طلباء تھے ایک سلیم نامی دوست بھی تھا جس کے بھائی الیاس وغیر ہ تھے۔ سلیم کو اس زمانے میں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا یہ وہ زمانہ تھا جب امیتاب بچن اور دیگر کی فلمیں مشہور تھیں۔ ہم لوگ فلموں کے پوسٹر دیکھا کرتے تھے شعلے‘دیوار‘نصیب وغیرہ۔ سلیم فلم دیکھ کر ہمیں اس کی اسٹوری سنایا کرتا تھا وہ کبڈی کھیل کا ماہر تھا جبار صاحب اکثر لیجرگھنٹے میں ہمیں اسکول کی پچھلی جانب جہاں اب پولیس اسٹیشن ہے گرائونڈ پر کبڈی کھیلنے لے جایا کرتے تھے میں اسکول کے زمانے میں کھیلوں میں پیچھے تھا اور پڑھنے میں آگے تھا لیکن کبڈی میں حصہ لیا کرتا تھا ایک مرتبہ جبار صاحب نے ذبردستی مجھے کلکٹر گرائونڈ کی یوم آزادی پریڈ میں شامل کیاوہ مجھے کتابی کیڑا کہا کرتے تھے جو پڑھنے میں آگے اور کھیل میں صفر ہوا کرتا تھا۔ سلیم کی اسٹوریاں اس قدر تھیں کہ بہت جلد اس نے فلموں کی سنچری مکمل کرلی تھی۔جب کہ ہمارے گھر میںکوئی فلم دیکھنے نہیں جاتا تھا ۔ ہمیں اسکول سے ایک مرتبہ چار دوست نامی بچوں کی فلم دکھائی گئی تھی۔ یہی میرا تھیٹر کا تجربہ ہے۔ بعد میں پھولانگ کے کچھ لوگوں نے موہن ٹاکیز میں ایک اسلامی فلم لگائی تھی جسے میں نے دیکھا تھا۔ اس طرح سلیم کے ذریعے ہمیں بہت سی ہندی فلموں کی کہانیاں سننے کو ملیں۔
ہماری کلاس میں دو صدیق تھے ایک لمبو صدیق تھا جو کبڈی کا ماہر تھا چھوٹا صدیق گنج کے تاجر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ کچیوں کے ہاں رشیدہ نام کی کئی لڑکیاں ہوا کرتی تھیں ہماری کلاس میں چار رشیدہ تھیں اور ہم نے ان کی شناخت کے لیے لمبی‘گوری‘موٹی وغیرہ کے نام دے رکھے تھے۔ کمرہ جماعت کے دیگر ساتھیوں میں عاصم بن مسعود‘قادر‘اشرف‘فاروق‘ندیم‘نظام ‘ ہدایت ‘یونس‘‘مجاہد‘قدوس وغیرہ تھے۔ قدوس میرے پھوپھو زاد بھائی تھے جو بڑی نہر میں تیرنے کے لیے جا کر غرقاب ہوگئے تھے۔اسکول میں کو ایجوکیشن تھا لیکن مجال کہ ہم نے سات سال میں کسی لڑکی سے بات کی ہو۔ ایک دفعہ لنچ کے وقفے میں ایک لڑکی نے فیر کاپی مانگنے کے لیے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے اس کا جواب نہیں دیا تھا یہ بچپن کا بھولا پن کہئے یا شرافت کے ہم لوگ اس معاملے میں کورے ہی تھے۔
اسکول میں امتحان بڑے سخت ہوا کرتے تھے اور جوابات یاد کرکے ہم لوگ امتحان لکھا کرتے تھے۔ ایک سال ایسا ہوا کہ پھولانگ کے ایک اسکول سے پرچے باہر نکلنے لگے۔ مجھے پرچہ سوالات ملتا جو میں اپنے دوستوں کو دیا کرتا تھا دوسرے دن وہی پرچہ امتحان میں آیا کرتا تھا۔پہلے سے سوالات معلوم ہونے کا مزہ ہی کچھ اور ہوا کرتا تھا۔ جب ہم ساتویں جماعت میں تھے تو ڈر بٹھایا گیا کہ بورڈ امتحان ہے دوسرے اسکول میں سنٹر پڑے گا۔فیرویل پارٹی میں ذبردستی ہمیں رونا پڑا کہ ہم اسکول سے بچھڑ رہے ہیں ہال ٹکٹ ملا روٹری اسکول کی تیسری منزل پر ہمارا سنٹر پڑا۔ بورڈ امتحان کا ڈر یوں نکلا کہ کمرہ جماعت میںطلباء کو نقل مارنے کا موقع ملتا گیا۔چونکہ مجھے اور دیگر ساتھیوں کو جوابات یاد ہوا کرتے تھے ہم لوگوں نے بغیر نقل کے بھی امتحان اچھا لکھا۔ ریاضی کے امتحان میں باہر کی مدد کام آئی ۔ جب نتائج نکلے تو میرے لیے افسوس کا موقع تھا کہ فلم دیکھنے والا سلیم اپنی اچھی رائٹنگ کی بدولت تین نمبرات سے اول آگیا اور میں دوم۔ بہر حال آغا خان اسکول سے نکل کر ہم سب قلعہ ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت میں شریک ہوئے۔ آغا خان اسکول کی یادیں ہیں جو۱۹۸۲ء کے ساتویں کے بیچ تک رہیں۔ ہر سال اسکول سے کئی قابل طلباء نکلے اور ملک اور بیرون ملک اپنا اپنے والدین اور اساتذہ کا نام روشن کیا۔ جناب یعقوب صاحب کے تینوں فرزندان نظام آباد کی تہذیبی و سماجی زندگی کی اہم کڑی ہیں۔ مجیب صاحب نے نالج پارک اور کریسنٹ اسکول کے نام سے کئی تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں اور اپنے والد کی تربیت سے لوگوں کو فیضیاب کر رہے ہیں۔ بعد میں گولڈن جوبلی اسکول کے نام سے آغا خان اسکول ہائی اسکول ہوگیا۔ بعد کے بیچ کے طلباء نے اولڈ بوائز کے تحت اسکول پہونچ کر اپنے اساتذہ کے ساتھ تقاریب بھی منائیں اور دیگر طلباء کو بھی یاد دلایا کہ اپنے بچپن کے اساتذہ کو خراج پیش کریں۔ میرا یہ مضمون بھی میرے ان اساتذہ کے لیے خراج ہے جنہوں نے میری تعلیم کی مضبوط بنیاد رکھی۔ اور آج میں اس قابل ہوا ہوں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے کچھ کرسکوں۔ جب میرا تبالہ نظام آباد ہواتو میں نے گری راج کالج میں لیکچر دینے کے لیے جناب عزیز صاحب کو مدعو کیا تھا اور موجودہ دور کے طلباء سے ان کا تعارف کرایا کہ یہ میرے بچپن کے استاد ہیں۔ جناب مظہر فاروقی صاحب کا جلسہ تہنیت بھی نظام آباد میں قدیم طلباء کی جانب سے منایا گیا۔ جناب عزیز صاحب۔ماجد صاحب۔مظہر صاحب ۔اقبال ٹیچر اور نکہت ٹیچر ابھی بھی بہ قید حیات ہیں۔ اور ہم شاگردوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔اکثر اساتذہ بہت زیادہ طالب علموں کو یاد نہیں رکھتے لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ یہ اساتذہ مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں نظام آباد میں چھ سال قیام کے دوران میری سرگرمیوں کی انہوں نے ستائش کی ہے۔ آغا خاں اسکول ہو یا کوئی بھی اسکول اس اسکول سے فارغ طلباء جنہوں نے تعلیم و تدریس کے میدان میںترقی کی ہے کہ وہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنے تاثرات لکھیں تو اپنے اساتذہ کو بھرپور خراج ملے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...