سزا پوری ہونی چاہئے تاکہ جزا ملے۔ میں خوش ہوں میرے معبود! میں خوش ہوں۔ مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ میں بالکل مطمئن ہوں۔ میں تیری رضا میں خوش ہوں۔ بہت شکر ہے تیرا کہ تو نے مجھے اپنی نعمتوں سے نوازا۔ مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، میں مطمئن ہوں۔
واپس پلٹا۔ دل چاہا کہ اپنے پیروں سے چلوں، نہ چل پایا۔ درخت کا سایہ غنیمت تھا۔ پورا دن وہیں گزار دیا۔ دینے والے دیتے رہے۔ زبان ہلا کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ یہ پیسے میرے لیے بیکار ہیں۔ اگر ہوسکتے تو روٹی دے دو لیکن گویائی تو بھوریا چرن لے گیا تھا۔ نہ سہی… دینے والے نے صبح کا ناشتہ دیا ہے تو ضرورت کے مطابق کھانا بھی دے گا اور بڑا اطمینان ہوا اس وقت مجھے جب دو تندوری روٹیاں اور ایک پلیٹ سالن جو مٹی کے ایک برتن میں تھا، لاکر میرے سامنے رکھ دیا گیا۔ میں نے بڑے اعتماد سے اسے کھایا۔ یہ جگہ بہت مناسب ہے۔ بقیہ زندگی یہاں بآسانی گزاری جاسکتی ہے۔ رزق دینے والا غافل نہیں ہے۔ کھانا مل جاتا ہے اور پانی قریب ہی موجود ہے۔ میں نے وہیں اپنا بسیرا کرلیا۔ نجانے کتنے دن گزر گئے لیکن دنوں کا حساب وہ رکھیں جنہیں دنوں سے دلچسپی ہو۔ مجھے دن گننے سے کیا ملتا۔ داڑھی بڑھ گئی، بال بڑھ گئے، وقت نے شکل بدل دی، ہڈیاں ابھر آئیں۔ آنکھوں میں حلقے پڑ گئے۔ صبر و سکون سے گزربسر کرتا رہا۔ پائوں بے جان تھے، قوت گویائی ختم ہوگئی تھی۔ گھسٹ گھسٹ کر چلتا تھا لیکن اس دن صبر کا پیمانہ پھر چھلکا جب میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے میرا دل سینے سے نکال لیا۔
ابا جان تھے۔ ہاں! بھلا انہیں بھول سکتا تھا۔ بینائی بھی ختم ہوجاتی تو تب بھی انہیں محسوس کرلیتا۔ لاغر ہوچکے تھے۔ خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔ دیکھ کر دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنے کی کوشش کی، زبان سے انہیں پکارنا چاہا۔ رک گئے مجھے دیکھا، جیب سے ایک روپے کا نوٹ نکالا، میرے ہاتھ میں تھمایا اور وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ میں اس نوٹ کو دیکھنے لگا۔ انہیں آوازیں دینا چاہیں۔ نہ پہچان سکے تھے مجھے وہ! نہ پہچان سکے تھے۔ یہ بھوریا چرن کا جادو نہیں تھا۔ یہاں دل کی گہرائیاں پکار رہی تھیں کہ وہ میرے باپ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ نوٹ کو چومتا رہا، سینے سے بھینچ کر روتا رہا۔ پتا نہیں آنکھوں سے آنسو نکل بھی رہے تھے یا نہیں۔ پیروں میں قوت ہوتی تو دوڑتا، ان کا پیچھا کرتا۔ کسی طرح انہیں بتا دیتا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، آپ کا مسعود ہوں۔ دل نجانے کب تک زخموں سے چور رہا۔ بدن کے زخم، دل کے اس زخم کے سامنے بے جان ہوگئے تھے۔ تب ہی ایک احساس دل میں ابھرا۔ کسی نے میرے کان میں کہا۔
’’اور اس کے باوجود تو شکر ادا نہیں کرتا۔ کم ازکم تجھے یہ اندازہ تو ہوگیا کہ تیرے باپ زندہ ہیں۔ وہ تیرے سامنے سے گزرے ہیں۔ بے شک وہ تجھے پہچان نہ سکے لیکن کیا شکر کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تو نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں اور دل اندر ہی اندر شکر کے کلمات ادا کرنے گا۔ آرزوئیں ہی تو اس جگہ تک لے آتی ہیں۔ یہ بھی ایک آرزو تھی لیکن اللہ کی طرف سے اسے یہیں تک رہنا تھا ورنہ باپ کا خون جوش مار سکتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ابا جان یہاں، اس شہر میں موجود ہیں۔ نجانے کون سی جگہ ہے، نجانے کونسا شہر ہے۔ کسی سے پوچھنے کے لیے گویائی تو ساتھ ہی نہیں دے رہی تھی۔ صبر و سکون سے ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھر کے رہ گیا۔ وہ نوٹ میں نے سنبھال کر احتیاط سے اپنے سینے کے قریب رکھ لیا جس میں مجھے اپنے باپ کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تھا اور سینے کے قریب اس نوٹ کی قربت نے بڑی ٹھنڈک بخشی تھی۔ جلتی ہوئی روح کو پیاسے بدن کو نہ جانے کیا دے دیا تھا اس نوٹ کے لمس نے! آہستہ آہستہ آسمان سے رات اترتی آرہی تھی۔ بڑی بے چین رات گزری تھی، بڑا بے کل رہا تھا دن۔ تصورات نجانے کہاں کہاں پہنچ رہے تھے۔ ابا جی مجھے پہچان نہ سکے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ پتا نہیں ان سب کے ذہنوں میں میرا کیا تصور رہ گیا ہے۔ اب اتنے عرصے کے بعد تو وہ مجھے بھول بھی چکے ہوں گے۔ سوچا تو ہوگا انہوں نے کہ کہیں سے میری کوئی خبر نہیں ملی تو اس کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ اب اس دنیا سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا ہے، میں یہاں سے جا چکا ہوں۔ اچھا ہے ایسا ہی ہوا ہو۔ کم ازکم انہیں تو صبر آگیا ہوگا۔ میں تو ابھی امتحان کی منزل سے گزر رہا ہوں۔ مجھے اگر صبر مل جائے تو بات ہی کیا ہے۔ آنسو نجانے کس طرح آنکھوں سے نکل آتے تھے۔ نجانے یہ ذخیرہ بدن کے کون سے گوشے میں پوشیدہ تھا۔ پھر نیند نے آغوش مادر کا کردار ادا کیا اور اپنے وجود میں سمیٹ لیا۔ دوسرا دن معمول کے مطابق تھا۔ چلتے پھرے انسان، انسانوں پر رحم کھاتے ہوئے۔ رزق عطا ہوجاتا تھا۔ ابھی تک اتنے دن گزر چکے تھے یہاں پڑے ہوئے، ایک رات بھی بھوکا نہیں سویا تھا۔ کبھی بے بسی سے بھوک سے ایڑیاں نہیں رگڑی تھیں۔ یہ معاملہ بھوریا چرن کا نہیں تھا بلکہ یہاں رزق عطا کرنے والے نے میرے لیے حکم صادر فرما دیا تھا کہ بھوکا نہ رہوں۔ دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے کچھ فقیروں کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ایک میرے قریب سے گزرا، رکا اور جھک کر بولا۔
’’ابے کیوں مررہا ہے یہاں …بھاگ جا، بھاگ جا! پولیس فقیروں کو پکڑ رہی ہے۔ اٹھا کر لے جائے گی بیٹا اور ہڈیاں توڑ دے گی۔ ابے پھوٹ وہ آرہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے دوڑ لیا۔ میں نے وحشت زدہ نظروں سے اس سمت دیکھا جدھر سے وہ آرہا تھا۔ درحقیقت تھوڑے فاصلے پر پولیس کے دو بڑے ٹرک کھڑے ہوئے تھے اور پولیس والے ڈنڈے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ جو فقیر ان کے ہاتھ لگتا، اسے بازوئوں سے پکڑتے اور ٹرک میں ڈال دیتے۔ میں نے صبر و سکون کے ساتھ یہ منظر دیکھا۔ نہ تو بھاگ سکتا تھا نہ ان سے کچھ کہہ سکتا تھا۔ دو موٹے تازے پولیس والے ڈنڈے ہاتھ میں لیے میرے قریب پہنچے اور خونی نظروں سے مجھے دیکھ کر بولے۔
’’آپ یہاں براجمان ہیں مہاراج! آیئے اب ذرا سرکاری بھیک اور لے لیجئے۔ ابے اٹھ یا لگائوں ڈنڈا کمر پر۔‘‘
میں نے ہاتھوں کے بل آگے کھسکتے ہوئے انہیں اپنے پیروں کی جانب متوجہ کیا۔ دوسرا پولیس والا کہنے لگا۔ ’’معذور ہے سالا! چلو اٹھا کر لے چلو۔‘‘ انہوں نے بے دردی سے میری بغلوں میں ہاتھ ڈالے۔ میں نے پائوں سیدھے کرکے زمین سے ٹکائے اور ان کے ساتھ گھسٹنے لگا۔ ٹرک کے قریب پہنچ کر انہوں نے مجھے دو تین بار جھلایا اور پھر ٹرک پر پھینک دیا۔ دو فقیروں نے مجھے زور زور سے دھکے دیئے اور غراتے ہوئے بولے۔
’’اندھے کے بچے! دیکھتا نہیں ہے، ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ابے سرک! انہوں نے لاتوں سے مجھے ایک طرف سرکا دیا اور میں سمٹ کر ایک کونے میں جا بیٹھا۔ کئی اور فقیر یہاں سے پکڑے گئے۔ گالیاں دے رہے تھے۔ پولیس والوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے، خوفناک بد دعائیں دے رہے تھے اور پولیس والے ہنس رہے تھے۔
’’بیٹا! اگر ان بد دعائوں سے ہمارا یہ حال ہوجاتا تو تمہارا یہ حال کبھی نہ ہوتا۔ اب چپ بیٹھو ورنہ ڈنڈے مار مار کر سر پھاڑ دیں گے۔‘‘ دو پولیس والے ٹرک پر چڑھ آئے اور اس کے ایک گوشے میں خود بھی بیٹھ گئے۔ ٹرک اسٹارٹ ہوکر چل پڑا اور میں اس نئی منزل کا انتظار کرنے لگا جو میرے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ یہاں اس درخت کے نیچے جیسی بھی گزر رہی تھی، بہتر تھی۔ پانی بھی موجود تھا، غذا بھی اللہ تعالیٰ فراہم کردیتا تھا۔ باقی سب کچھ اس کے اپنے اختیار میں تھا لیکن نجانے یہ نئی جگہ کیسی ہوگی۔ دل ہی دل میں توبہ کی۔ جس نے یہاں زندگی عطا کی اور رزق پہنچایا، وہی قادر مطلق ہر جگہ موجود ہے۔ بھلا فکر کیوں کی جائے۔ جب اس نے سانسیں بخشی ہیں تو ان سانسوں کے لیے یہ بھی متعین کردیا گیا ہوگا کہ وہ کیسے گزریں گی۔ آنکھیں بند کرکے گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹرک ایک بڑی سی عمارت کے احاطے میں داخل ہوکر رک گیا۔ اس کے تختے کھول دیئے گئے اور فقیروں کو نیچے کودنے کے لیے کہا گیا۔ جو معذور تھے، انہیں پولیس والے اتار اتار کر نیچے ڈال رہے تھے۔ پھر نیچے اتارنے کے بعد انہیں بھیڑ، بکریوں کی طرح ایک سمت ہانکنے لگے اور سب کو ایک کونے میں جمع کردیا۔ ٹرک وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ سب طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔ خدا کا خوف دلا رہے تھے۔ بھگوان، پرمیشور اور نجانے کیا کیا نام لے کر پولیس والوں کو ڈرا دھمکا رہے تھے۔ پھر پولیس کا افسر اعلیٰ قریب آیا۔ اس نے سب کو دیکھا اور کہا۔
’’تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ تم میں سے تو بے شمار ایسے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ تندرست و توانا ہیں۔ میں معذوروں کو نہیں کہتا لیکن جو تندرست ہیں، وہ تو اپنا کام محنت مزدوری کرکے چلا سکتے ہیں۔ یہ لعنت آخر تم لوگوں پر کیوں سوار ہے۔ ملک کو محنت کشوں کی ضرورت ہے اور تم ہو کہ حرام خوری کرتے ہو، بھیک مانگتے ہو۔‘‘ جو ہٹے کٹے مشٹنڈے تھے، وہ توبہ تلا کرنے لگے اور کہنے لگے کہ آئندہ وہ محنت مزوری کرکے وقت گزاریں گے۔ جو معذور تھے، وہ خاموشی اور بے بسی سے پولیس والوں کو دیکھتے رہے۔ پولیس کے افسر اعلیٰ نے کہا۔
’’تمہیں سزا ملے گی بھیک مانگنے کی۔ سرکار نے یہی حکم دیا ہے۔ ایک ہفتے کی سزا کاٹو گے یہاں! اور اس کے بعد جو معذور ہیں، انہیں ایسے اداروں کے سپرد کردیا جائے گا جہاں معذوروں کی دیکھ بھال ہوتی ہے لیکن انہیں وہاں کچھ کام دھندے کرنے ہوں گے۔ یہ فیصلہ ہے سرکار کا! چلو انہیں کوٹھریوں میں بند کردو۔‘‘
فقیروں کو ایک بار پھر ہانکا جانے لگا۔ مجھے معذور تسلیم کرلیا گیا تھا۔ بہرحال مجھے بھی سہارا دے کر ایک کوٹھری میں پہنچا دیا گیا۔ کوٹھری میں میرے علاوہ دو تین فقیر اور بھی تھے اور ایک دو ایسے ملزم تھے جنہیں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایک گوشے میں ہمیں بٹھا دیا گیا۔ ان لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا تھا۔ ایک ملزم نے پولیس افسر سے کہا۔ ’’حوالدار صاحب! ان کوڑھیوں کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی، انہیں کہیں اور رکھا جائے ورنہ ہم سب ہڑتال کردیں گے۔‘‘
’’ابھی تیری ہڑتال کرائوں۔ نکالو بے نکالو اسے باہر نکالو، یہ لیڈر ہے، ہڑتال کرے گا۔‘‘ پولیس کانسٹیبل نے لاک اَپ کا دروازہ کھولا اور اس لیڈر کو باہر گھسیٹ لیا۔ پھر لاک اَپ کے سامنے ہی ڈنڈوں سے اس کی خوب پٹائی کی گئی، وہ چیخنے چلانے لگا۔ بعد میں اسے مار پیٹ کر دوبارہ لاک اَپ میں دھکیل دیا گیا تھا۔ میرے ساتھ بھی چار پانچ فقیر تھے جو بیٹھے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ میں خاموش تھا۔ فقیروں نے آپس میں بات چیت شروع کردی۔ ایک نے کہا۔
’’بات تو ایک ہی ہے سڑک پر زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ دھوپ، ٹھنڈک برداشت کرنا پڑتی تھی۔ یہ پولیس کی بھیک ہے، روٹی تو دیں گے نا سسرے! پھر رفاہی اداروں میں بھیج دیں گے، وہاں بھی روٹی ملے گی۔ ارے بھائی! بھیک مانگنا ہی کون چاہتا ہے۔ ہاتھ، پائوں ہی کام نہ کریں تو کیا کیا جائے۔ کیوں بھائی میاں…؟‘‘
’’ٹھیک ہے مگر یار! ہوتی بری ہے۔ دیکھیں گے سسرے کب تک کھلاتے ہیں۔ ہونہہ! باپ دادا کا دھندہ ہے، ہم بھلا کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔‘‘
جتنے منہ اتنی باتیں، میں تو ان میں حصہ ہی نہیں لے سکتا تھا چنانچہ سکون سے بیٹھا انہیں دیکھتا رہا۔ عجیب دنیا تھی۔ ایک انوکھا تجربہ تھا میرے لیے۔ وہاں اس درخت کے نیچے تنہا ہی ہوتا تھا لیکن اب یہاں اس نئی برادری سے واسطہ پڑا تھا ، خوب مزے کے لوگ تھے یہ۔ رات ہوگئی سارے کے سارے ایک دوسرے سے اپنا تعارف کراتے رہے، اپنی اپنی کہانیاں سناتے رہے اور میں سن کر حیران رہ گیا۔ وہ معذور تھے، کسی کے ہاتھ نہیں تھے، کسی کے پائوں مفلوج تھے اور کسی کو کوئی اور بیماری تھی لیکن زندگی ان کے لیے کسی طرح ان لوگوں سے کم دلکش نہیں تھی جو دنیا میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اپنی اپنی کمائی کے بارے میں بتا رہے تھے اور اس کے بعد اپنے مشاغل کے بارے میں۔ ایک نے کہا۔
’’یار! میرے پاس تو بڑی شاندار جگہ تھی۔ وہاں بیٹھ کر تو ڈیڑھ دو سو روپے چٹکیوں میں آجاتے تھے اور کبھی کوئی صدقہ خیرات مل جائے یا زکوٰۃ دینے والا آجائے تو سمجھ لو مزے آگئے۔ پچھلے مہینے پانچ فلمیں دیکھیں اور بال، بچوں کے لیے بڑے کپڑے بنائے۔ کم بختوں نے وہ جگہ بھی چھنوا دی۔ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں کوئی اور نہ وہاں جابیٹھے۔‘‘
’’ابے سارے شہر میں ہی فقیر پکڑے جارہے ہیں۔ کوئی اور وہاں کیسے جاسکتا ہے؟‘‘
’’تو فقیر چھوڑے بھی تو جائیں گے۔ ابے! ہم سب سمجھتے ہیں، کوئی نیا حکم آیا ہوگا۔ کسی نئے افسر کو سوجھی ہوگی۔ اس نے یہ حکم چلا دیا۔ بعد میں بھول جائے گا۔ وہ بھولے گا تو باقی لوگ بھی بھول جائیں گے۔‘‘ تمام فقیر ہنسنے لگے تھے۔
شام ہوگئی، جھٹپٹے رات کی سیاہی میں تبدیل ہونے لگے۔ میں خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ایک فقیر نے دوسرے سے کہا۔ ’’ابے پہلوان! بیڑی ہوگی تیرے پاس۔‘‘
’’ابے میں خود مررہا ہوں۔ پورا بنڈل پڑا ہوا تھا جیب میں، اٹھاپٹخ میں نکل گیا کہیں۔‘‘
’’مارے گئے۔ اب کیا ہوگا؟‘‘
’’کوئی جگاڑ لگانی پڑے گی پیارے! یہ پولیس والے بھی سارے کے سارے رام بھروسے ہوتے ہیں۔ چائے تک نہیں ملی، سارا دن نکل گیا۔‘‘
’’بیڑی کی طلب ہو رہی ہے یار! ابے کسی کے پاس بیڑی ہے۔‘‘
’’سگریٹ پیو تو لے لو بادشاہ! بیڑی نہیں ہے۔‘‘
’’لا دے دے۔‘‘
’’ہفتے بھر کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ مال احتیاط سے خرچ کرو۔‘‘ تیسرے فقیر نے باقی دو کو ہوشیار کیا اور سگریٹ کے کش بڑی ترتیب سے لگائے جانے لگے۔ پٹنے والا ملزم کراہ رہا تھا۔ دو پارٹیاں ہوگئی تھیں۔ ایک فقیروں کی تھی، دوسری جرائم پیشہ افراد کی، مگر کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا کیونکہ ایک بولنے والے کی کراہیں اب تک سنی جارہی تھیں۔ رات کا کھانا دیا گیا۔ دو دو روٹیاں اور دال وغیرہ۔ سب کھانے میں مصروف ہوگئے۔ لاک اَپ کے سامنے راہداری میں ایک ملگجا بلب روشن تھا، جس سے لاک اَپ میں بھی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ کھانے سے فارغ ہوکر سب آرام کرنے زمین پر لیٹ گئے۔ میں بھی اپنی جگہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا ہوا تھا۔ لاک اَپ میں ایک اور ملزم کا اضافہ ہوا۔ دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیل دیا گیا تھا۔ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پورا بدن کرب سے چیخ اٹھا۔ زخموں کے منہ کھل گئے اور وہ چیخ اٹھے۔ پورے بدن کو ایسا ہی جھٹکا لگا تھا۔ وہ ماموں ریاض تھے، ماموں ریاض! انہیں اندر پہنچا کر دروازہ بند کردیا گیا اور ماموں ریاض گھبرائے گھبرائے سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ایک خالی جگہ جا بیٹھے۔ دل ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا، کلیجہ منہ کو آگیا۔ پھر حواس نے کچھ یاد دلایا۔ پہلے بھی بھوریا چرن نے یہ کھیل کھیلا تھا۔ ماموں ریاض پہلے بھی میرے سامنے لائے گئے تھے۔ بعد میں کچھ اور نکلا تھا۔ پورنی، کشنا بن کر آئی تھی۔ اس شیطان کے لیے یہ سب کچھ کردینا مشکل نہیں تھا۔ وہ اس عالم میں پہنچانے کے بعد بھی میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔ آنکھیں جلنے لگیں۔ میں جلتی آنکھوں سے انہیں دیکھتا رہا۔ وہ پریشان سر جھکائے بیٹھے تھے۔ رات گزرتی رہی اور پھر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ قیدی سو گئے۔ بھانت بھانت کے خراٹے ابھرنے لگے۔ سنتری بھی گشت ختم کرکے کہیں جا بیٹھے تھے۔ میں مسلسل ماموں ریاض کو گھورتا رہا تھا۔ اس قدر ہیجان کا شکار ہوگیا تھا کہ اپنی حالت کا احساس بھی نہ رہا۔ زبان کو جنبش دی تو طویل عرصے کے بعد اپنی سرگوشی سنی۔ اس ہیجان نے میری گویائی واپس کردی تھی، میرے بدن میں زندگی دوڑا دی تھی۔ میں کھڑا ہوسکتا تھا، میں بول سکتا تھا مگر سب کچھ بھولے ہوئے تھا۔ ماموں ریاض پر نظریں جمی ہوئی تھیں۔ اپنی جگہ سے اٹھا، ادھر ادھر دیکھا۔ ماموں ریاض کی طرف بڑھا اور پھر ان پر گر پڑا۔ میرے مضبوط ہاتھ کے شکنجے نے ان کا حلقوم بھینچ لیا تھا۔ انہوں نے مداخلت شروع کردی۔ دونوں ہاتھوں سے میری کلائی پکڑی مگر میرا پنجہ حلق سے نہ ہٹا سکے۔
’’کلمہ پڑھو۔‘‘ میں نے غرا کر کہا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ ’’میں گرفت ڈھیلی کررہا ہوں، کلمہ پڑھو۔ ورنہ تمہاری زبان باہر نکال دوں گا۔‘‘ میں نے یہ کہہ کر گرفت ڈھیلی کردی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے گردن مسلنے لگے۔ پھر انہوں نے خوف زدہ آواز نکالی تو میں نے جھپٹا مار کر دوبارہ ان کی گردن پکڑ لی۔ ’’اگر تم مسلمان ہو تو صرف کلمہ پڑھو۔ دوسرا ایک لفظ تمہارے منہ سے نکلا تو… تو…!‘‘ میں نے پھر دبائو ہلکا کردیا۔
ماموں ریاض نے پھنسی پھنسی آواز میں کلمہ پڑھا۔
’’دوبارہ۔‘‘ میں نے کہا اور انہوں نے دوبارہ، پھر میرے کہنے پر تیسری بار کلمہ پڑھا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ماموں ریاض مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ریاض احمد ہے آپ کا نام؟‘‘ میں نے گلوگیر لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں… ہاں!‘‘ وہ جانکنی کے سے انداز میں بولے اور میں ان سے لپٹ گیا۔ میں نے انہیں بھینچ لیا۔ وہ گھبرا گھبرا کر مجھ سے خود کو چھڑا رہے تھے۔ نہ جانے کیا سمجھ رہے تھے وہ، بمشکل تمام انہوں نے مجھے قدرے دور کیا۔ ’’کیا ہوگیا… کیا بات ہے بھائی۔‘‘ وہ سہمی سہمی آواز میں بولے۔
’’مجھے پہچانئے… مجھے پہچانئے ماموں ریاض!‘‘
’’مم۔ ماموں ریاض۔ کک کون ہو تم۔ میں… میں تمہیں نہیں جانتا۔‘‘ وہ اسی انداز میں بولے۔
’’میں مسعود ہوں ماموں ریاض! آپ کا بھانجا مسعود۔ ماموں، میں آپ کا بھانجا ہوں۔‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا۔
’’مسعود… مسعود۔‘‘ وہ آنکھیں پھاڑ کر مجھے گھورنے لگے۔ بہت دیر تک گھورتے رہے پھر کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔ ’’مسعود۔‘‘
انداز ایسا تھا جیسے اس نام کو یاد کر رہے ہوں۔ مجھے گھورتے بھی جا رہے تھے۔ پھر نہ سمجھنے والے انداز میں بولے۔
’’مسعود احمد… محفوظ احمد کے بیٹے؟‘‘
’’ماموں آپ کا مسعود۔ آپ کا چہیتا مسعود…!‘‘
’’معاف کرنا بھائی کچھ عجیب سی بات ہے میرا بھانجا مسعود تھا تو سہی مگر وہ تو… وہ تو…‘‘
’’مر چکا ہے یہی نا؟‘‘ میں نے سسکی لے کر کہا۔
’’تم مسعود کیسے ہو سکتے ہو۔ مسعود، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھتے رہے پھر آہستہ سے بولے۔ ’’تم واقعی مسعود ہو۔ معاف کرنا کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اگر تم مسعود ہو تو… تو۔‘‘ ان کا بدن تھرتھرانے لگا۔ بہت زور کی تھرتھری طاری ہو گئی تھی ان پر۔
’’ماموں، میں مسعود ہی ہوں۔‘‘ میں ان سے لپٹ کر سسکنے لگا اور ماموں کانپتے رہے۔ یکایک ان کے اندر تغیر پیدا ہوا اور پھر انہوں نے بے اختیار مجھے بھینچ لیا۔ ان کے حلق سے گھٹی گھٹی آوازیں نکلنے لگیں۔
’’مسعود… مسعود… آہ میرے بیٹے، میرے… میرے۔‘‘ وہ زار و قطار رونے لگے۔ ’’تم زندہ ہو مسعود، تم واقعی زندہ ہو۔‘‘
’’ہاں ماموں ریاض، جتنا زندہ ہوں آپ دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے بیٹے۔ کیا کر ڈالا تم نے مسعود۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے ہو۔ مسعود میرے بیٹے۔ یہاں ملنا تھا تمہیں، یہ زخم بھی لگنا تھا میرے کلیجے پر۔‘‘
’’سنبھالئے ماموں خود کو۔ خدا کے لئے سنبھالئے۔‘‘
’’آہ کیسے سنبھالوں؟ ہزاروں آنسو رکے ہوئے ہیں میری آنکھوں میں، لاکھوں دعائوں کا نتیجہ ہو تم۔ کیسے سنبھالوں۔‘‘
’’ضروری ہے ماموں۔ ضروری ہے۔ خدا کے لئے خود کو سنبھالئے۔‘‘
’’آہ مسعود کیا بیت گئی ہم پر۔ اب تو عرصہ ہو گیا، اب تو تمہاری یاد بھی کھو بیٹھے تھے ہم۔ مسعود کیا کہوں، کیسے بتائوں تمہیں، میرے بچے کیا کیا گزری ہے ہم پر۔ باجی پر کیا گزری ہے۔ سب پر کیا گزری ہے۔ ہم انسانوں کی طرح جینا بھول گئے بیٹے، ہم ایسے نہیں جی رہے جیسے دنیا والے جی رہے ہیں۔ ہم… ہم۔‘‘ میں نے اپنے لباس سے ماموں کے آنسو خشک کئے۔ ماموں بار بار میرا چہرہ سامنے کر لیتے تھے، مجھے دیکھتے تھے۔ پھر سینے سے بھینچ لیتے تھے۔ تمام فقیر اور قیدی مزے سے سو رہے تھے، کوئی ہم جیسا نہیں تھا۔ ماموں نے کہا۔
’’تم، مسعود، کوئی تمہاری زندگی پر یقین نہیں کرے گا۔ اگر میں کسی سے کہوں گا تو وہ مجھ پر ہنسے گا۔‘‘
’’ہاں ماموں، میں خود اپنی زندگی پر ہنستا ہوں تو دوسروں کا بھی یہی حال ہو گا۔‘‘
’’ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے ہو۔ کہاں تھے، کیسی زندگی گزار رہے تھے؟‘‘
’’مجھ سے کچھ نہ پوچھیں ماموں، مجھ سے کچھ نہ پوچھیں۔ رات مختصر ہے، صبح بہت جلد ہو جائے گی بعد میں نہ جانے کیا ہو، پہلے مجھے سب کچھ بتا دیں ماموں، مجھے یقین نہیں ہے کہ مجھے کچھ معلوم ہو سکے گا۔‘‘
’’کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’امی؟‘‘
’’حیات ہیں۔ اندھی ہو چکی ہیں۔‘‘
’’اندھی…‘‘ میری رندھی ہوئی آواز ابھری۔
’’ہاں۔ رو رو کر بینائی کھو بیٹھی ہیں۔ اب تو طویل عرصہ ہو گیا ہے، ہم تو اسی وقت سے برباد ہیں جب سے تم نے…‘‘ ماموں خاموش ہو گئے۔
’’پھر کیا ہوا ماموں؟‘‘
’’پڑوسی خلاف ہو گئے۔ انہوں نے ہم پر گھنائونے الزامات لگائے، یہ کہا کہ ہم سفلی علم کرتے ہیں، غیر مسلم ہیں، مرتد ہیں۔ محمود جھگڑ پڑا اور اس کے ہاتھوں سے ایک قتل ہو گیا۔ ہماری کیا اوقات تھی کچھ کرتے۔ پولیس نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا، عجیب عجیب سوالات کرتے تھے۔ مجھے سترہ دن تھانے میں رکھا۔ تمہارے اور محمود کے بارے میں پوچھتے رہے کہ تم کہاں چھپے ہوئے ہو۔ ہم نے گھر چھوڑ دیا۔ اپنوں نے رشتے دار ماننے سے انکار کر دیا، جہاں گئے وہاں سے نکال دیئے گئے، کئی شہروں میں جا کر رہے اور… اور…‘‘
’’اور ماموں…؟‘‘
’’ایک اور المناک واقعہ ہوا؟‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’خورجے میں تھے ہم لوگ۔ گھر کے سامنے ایک اور خاندان رہتا تھا۔ انہوں نے شمسہ کا رشتہ مانگا۔ ہم قیامت زدہ بھلا کیا شادی بیاہ کر سکتے تھے۔ انکار کر دیا اور…‘‘ ماموں نے سسکی بھری۔
’’اور کیا؟‘‘
’’انہوں نے شمسہ کو اغوا کر لیا۔‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’وہ پھر کبھی نہیں ملی۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ دل میں شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ماموں بھی خاموش تھے۔ بہت دیر کے بعد میں نے کہا۔
’’ابو…؟‘‘
’’ٹھیک ہیں۔ ایک دکان پر نوکری کرتے ہیں۔‘‘
’’آپ…؟‘‘
’’میں بھی ایک اسٹور پر کام کرتا ہوں۔ اسٹور کے مالک کا بیٹا عیاش طبع ہے۔ مجھ سے رقمیں لے جاتا رہا ہے۔ حساب میں گڑبڑ ہوئی تو مالک نے مجھے غبن کے الزام میں گرفتار کرا دیا۔‘‘
’’آپ نے اسے اس کے بیٹے کے بارے میں نہیں بتایا۔‘‘
’’ہمیشہ بتاتا رہا ہوں مگر… لوگ کہاں مانتے ہیں، خدا ہی اس کے دل میں رحم ڈال دے تو میری گلوخلاصی ہو جائے ورنہ نہ جانے کیا ہوگا۔‘‘ میں خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد ماموں صاحب نے کہا۔ ’’اپنے بارے میں بھی تو کچھ بتا دو۔‘‘
’’اتنا کچھ سن چکے ہوں گے میرے بارے میں کہ اور کیا بتائوں، داستان اتنی لمبی ہے کہ… جی… ویسے ایک انکشاف کر دوں آپ کو خوشی ہو گی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’محمود کے بارے میں کوئی خبر ملی آپ کو۔‘‘
’’آج تک پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
’’وہ بیرون ملک ہے، مجھے مل گیا تھا۔ ایک بھلے انسان کی مدد سے میں نے اسے بیرون ملک نکال دیا، یقیناً بعد میں اس نے آپ سے رابطے کی کوشش کی ہو گی لیکن آپ کا پتہ نہ پاسکا ہو گا۔‘‘
’’آہ… کیا سچ مچ ایسا ہے؟‘‘
’’ہاں امی اور ابو کو یہ بات ضرور بتا دیجئے، انہیں خوشی ہو گی۔‘‘
’’مسعود تم…؟ تم…‘‘
’’نہیں ماموں میں شاید ابھی ان کی قدم بوسی کے قابل نہیں ہوں، شاید ابھی یہ سعادت میرے مقدر میں نہیں ہے۔‘‘
’’تمہارے اوپر جو مقدمات تھے ان کا کیا ہوا؟‘‘
’’بہت سے مقدمات کے اضافے ہو چکے ہیں، فیصلے ہوں گے۔ سب کے فیصلے ہوں گے۔ اللہ مالک ہے۔‘‘
’’ان سے ملو گے نہیں۔‘‘
’’امی ابو سے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ضرور ملوں گا۔ ان سے کہہ دیجئے زندہ رہیں، میرے لئے زندہ رہیں، میں ان سے ضرور ملوں گا۔‘‘
’’یہاں کس الزام میں آئے ہو۔‘‘
’’بس ماموں اور کچھ نہ پوچھیں، خدا کے لئے اور کچھ نہ پوچھیں۔ اللہ آپ کو اس مشکل سے نکالے۔‘‘ ہم دونوں ساری رات روتے رہے تھے، باتیںکرتے رہے تھے، اپنے بارے میں انہیں کیا بتاتا۔
صبح ہو گئی۔ دن کے دس بجے تھے کہ کچھ لوگ لاک اَپ کے دروازے پر آئے۔ ماموں ریاض انہیں دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ ایک خاتون بھی تھیں، ایک عمر رسیدہ شخص، ایک نوجوان اور پولیس
انسپکٹر۔ انسپکٹر نے کانسٹیبل سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا اور کانسٹیبل نے دروازہ کھول دیا۔ انسپکٹر نے ماموں ریاض سے باہر آنے کے لئے کہا اور ماموں ریاض باہر نکل آئے۔ معمر شخص نے ماموں ریاض کے ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسائیں اور انہیں ساتھ لے کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ پتہ نہیں کیا قصہ تھا۔ خاموشی سے وقت گزرتا رہا۔ ماموں ریاض کی واپسی کا انتظار کرتا رہا مگر وہ واپس نہیں آئے۔ دوپہر کو تمام فقیروں کو نکالا گیا اور احاطے میں کھڑے ہوئے ایک ٹرک میں بٹھایا گیا۔ ٹرک اسٹارٹ ہو کر چل پڑا۔ پھر اس نے کوئی چھ گھنٹے تک مسلسل سفر کیا اور پھر ایک جگہ رک گیا۔ پولیس والے نیچے اترے اور انہوں نے ٹرک کا پچھلا حصہ کھول کر فقیروں سے نیچے اترنے کے لئے کہا۔ سب نیچے اترنے لگے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ویران اور لق و دق جگہ تھی، دور دور تک ریتیلی زمین اور اس میں اُگی ہوئی تھوہر کی جھاڑیاں، پرندے اور دوسرے جانور بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ پتہ نہیں یہ لوگ یہاں لا کر ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے تھے۔ فقیروں نے احتجاج شروع کر دیا اور چیخنے چلانے لگے۔ پولیس والوں نے ان میں سے چند کو ڈنڈوں سے مارا۔ ایک موٹا تازہ پولیس والا کہنے لگا۔
’’شہر کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے تم لوگوں نے، اب رہو یہاں بھوکے پیاسے اور جائو سیدھے جہنم میں، کم بختوں سے کام کاج ہوتا نہیں ہے، ہٹے کٹے مسٹنڈے اور بھیک مانگ کر ہماری حق تلفی کرتے ہو۔‘‘ پولیس والے ٹرک میں چڑھنے لگے۔
کچھ معذور فقیروں نے کہا۔
’’بابا اللہ تمہارا بیڑہ غرق کرے، واپس شہر پہنچنا نصیب نہ ہو تمہیں، ٹرک کا حادثہ ہو جائے، ارے ہم سے تو کچھ اور کہا تھا تم لوگوں نے، ارے یہاں کیا کریں گے ہم، تمہارا ستیاناس، تمہارا ستیاناس۔‘‘ پولیس والے ہنستے ہوئے ٹرک پر چڑھ گئے اور ٹرک اسٹارٹ ہو کر آگے بڑھ گیا۔ واقعی بڑا عجیب کام کیا تھا ان لوگوں نے، اس ویرانے میں تو بھوک اور موت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ فقیر روتے پیٹتے رہے۔ پولیس والوں کو گالیوں سے نوازتے رہے۔ کچھ ادھر ادھر منتشر ہو گئے، ان میں سے کچھ فقیر اونچائی کی جانب بڑھنے لگے پھر دفعتاً ان میں سے ایک نے کہا۔
’’ادھر…ادھر آبادی ہے۔ ہم آبادی سے زیادہ دور نہیں ہیں، ارے چلو بھائیو! وہ تو کوئی مزار ہے، ذرا اوپر چڑھ کر دیکھو بڑا سا جھنڈا نظر آ رہا ہے اور مزار کا گنبد بھی۔‘‘ شوقین فقیر اس جانب دوڑے، بلندی تھی تھوڑی سی، وہ بھی اوپر چڑھے اور شاید اطلاع دینے والے فقیروں کی بات کی تصدیق ہو گئی۔ وہ سب ہنسنے مسکرانے لگے، قہقہے لگانے لگے۔ معذور فقیروں میں سے کچھ نے کہا۔
’’ارے بھائیو! اگر لمبا فاصلہ ہے تو ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو، ہم وہاں تک کیسے پہنچیں گے؟‘‘
’’مزدوری کون دے گا‘‘ سودے طے ہونے لگے، کچھ نے کچھ کو اپنے کندھوں پر لاد لیا، جن کی مزدوری طے نہیں ہوئی تھی وہ خود ہی بلندی کی جانب گھسٹنے لگے۔ میں خاموش اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ ایک فقیر نے جو سب سے آخر میں رہ گیا تھا، میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ابے تو نہیں چلے گا کیا…؟ ادھر یقیناً لنگر مل جائے گا۔ یہاں تو بیٹا کھانے کے لئے گھاس بھی نہیں ہے۔‘‘
میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور کہا۔ ’’تمہارا شکریہ بھائی چلا جائوں گا، میر ے تو پائوں ٹھیک ہیں۔‘‘ فقیر نے شانے ہلائے اور بلندی کی جانب بڑھ گیا۔ میرے دل میں کوئی تجسس پیدا نہیں ہوا تھا۔ شام جھکتی چلی آ رہی تھی، ہوا میں خنکی پیدا ہونے لگی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرناچاہئے۔ بدن لاغر تھا، ہاتھ پائوں بے شک سلامت تھے لیکن اتنی جان نہیں تھی کہ کوئی طویل فاصلہ طے کرتا۔ بدن کا خون نکل جانے کے بعد سے اب تک ایسی ہی نقاہت بدن پر طا ری رہی تھی۔ بہرحال شام کے جھٹپٹے رات کی سیاہیوں میں تبدیل ہونے لگے۔ کچھ فاصلے پر دو عجیب سے کالے رنگ کے مڑے تڑے پھل سے پڑے ہوئے تھے، پتہ نہیں کیا شے تھی۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھا، اٹھایا ٹٹول کر دیکھا۔ پھر ان میں سے ایک پھل توڑا تو کوئی صحیح اندازہ نہیں ہو سکا کہ کیا چیز تھی، پھینک دیا اور اس کے بعد ٹھنڈی سانس لے کر تھوڑا سا آگے بڑھ گیا۔ بلندی پر پہنچ کر میں نے بھی کافی فاصلے پر اندازے کے مطابق دو ڈھائی فرلانگ پر آبادیاں دیکھیں۔ غالباً کوئی مزار ہی تھا۔ قرب و جوار میں مکانات وغیرہ نظر نہیں آ رہے تھے لیکن روشنیاں تھیں، عمارت بنی ہوئی تھی اور اس کے اطراف میں اچھے خاصے لوگ موجود تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچی پکی قبریں بھی نظر آ رہی تھیں۔ پتہ نہیں کون سا علاقہ تھا غالباً بہت بڑا قبرستان تھا۔ زائرین کی گاڑیاں وغیرہ بھی کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ وہ فقیر جو یہاں سے گئے تھے، شاید یہ فاصلہ طے کر کے مزار شریف تک پہنچ گئے تھے کیونکہ اس جگہ سے وہاں تک کے راستے میں اب کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے ایک گہری سانس لی۔ اس علاقے کے بارے میں واقعی کوئی اندازہ نہیں ہو سکا۔ چلو ضرورت مندوں کا کام تو بن گیا۔ مجھے تو بھوک بھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہیں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ دور جگمگاتی روشنیاں بھلی لگ رہی تھیں پھر ہوا کے دوش پر تیرتی اذان کی آواز سنائی دی۔ ’’اللہ اکبر… اللہ اکبر۔‘‘
’’جل شانہٗ‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ اذان کی تکرار کرنے لگا۔ روحانی سکون محسوس ہوا تھا۔ دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ لذت انگیز تھا۔
اذان ختم ہو گئی۔ پتھر کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ہچکیاں بندھ گئیں۔ لرزتی آواز نکلی۔ لڑکھڑاتی ہوئی غیر یقینی آواز میں نماز کی نیت باندھی۔ ذہن ساتھ دینے لگا۔ سسکیاں، ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ برسوں کا چھنا ہوا سرمایہ واپس عطا ہو گیا تھا۔ سب کچھ یاد آ گیا تھا۔ روح کو طہارت عطا ہو گئی تھی۔ رکوع، سجدہ، رو، رو کر نماز پڑھتا رہا۔ سجدے سے سر اٹھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا مگر نماز پوری کرنی تھی۔ اعتماد بڑھتا گیا۔ نماز مکمل کر لی۔ بدن تھا کہ آگ کی طرح تپ اٹھا تھا۔ کسی کمزوری کا نام و نشان نہیں تھا۔ مسرت کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ آہ مجھے میرا سرمایہ واپس مل گیا۔ مجھے میرا سرمایہ واپس مل گیا اور کچھ نہیں چاہئے تھا، اور کچھ نہیں چاہئے تھا۔ اسی جگہ بیٹھا رہا۔ عشاء کی اذان سنائی دی پھر نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ رات بھیگتی جا رہی تھی۔ پھر نہ جانے کیا وقت ہو گیا، پلکیں جڑنے لگیں۔ وہیں لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ بدن سکوڑ لیا، نیند آ گئی، غالباً نیم غنودگی کی کیفیت تھی کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھا، دو سائے نظر آئے۔ اسی سمت آ رہے تھے۔ خاموش لیٹا رہا پھر ایک آواز سنائی دی۔
’’ارے… یہ کون ہے۔‘‘
’’کوئی سائل ہے۔‘‘
’’رکو…‘‘ کسی نے کہا اور وہ میرے پاس رک گئے۔
’’میاں صاحب…بھوکے ہو؟‘‘
’’شکر ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’روٹی کھائو گے؟‘‘
’’کھائیں گے۔‘‘
’’لو… یہ لو…‘‘ ان میں سے ایک نے جھک کر دو روٹیاں جن پر دال رکھی ہوئی تھی۔ میرے ہاتھوں پر رکھ دیں۔
’’شکر الحمدللہ۔‘‘ میں نے کہا اور احترام سے رزق لے لیا۔
’’یہ پانی ہے۔‘‘ دوسرے نے آبخورہ میرے حوالے کر دیا۔
’’سردی ہے، یہ کمبل اوڑھ لینا۔‘‘ پہلے نے کمبل اپنے شانے سے اتار کر میرے قریب رکھ دیا۔
’’اللہ اجر عطا فرمائے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’آئو۔‘‘ پہلے نے دوسرے سے کہا اور دونوں آگے بڑھ گئے۔
شکم سیری ہو گئی۔ آبخورہ سے پانی پیا۔ سردی اور بڑھ گئی، خنک ہوائیں تیز ہو گئی تھیں اور معدے میں وزن بڑھا تو دوسرے احساسات بھی جاگ اٹھے۔ کمبل یاد آیا۔ جلدی سے اٹھا کر بدن کے گرد لپیٹ لیا۔ نہ جانے کون خدا کے نیک بندے تھے، بڑے کام آئے۔ دل سے دعا نکلی۔ وہیں لیٹ گیا۔ کمبل بدن کے گرد لپیٹ لیا۔ مزید سردی لگی تو چہرہ بھی ڈھک لیا اور چہرہ ڈھکتے ہی ایک عجیب سی روشنی کا احساس ہوا۔ آنکھیں بند کر لیں لیکن روشنی کم نہ ہوئی۔ دیر تک ساکت رہا پھر بدن گرم ہو گیا۔ کمبل نے سردی سے نجات دلا دی تھی۔ ماموں ریاض یاد آئے۔ نہ جانے وہ کون لوگ تھے اور ماموں کو کہاں لے گئے۔ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ معمر شخص نے ماموں ریاض کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’آیئے…‘‘ ماموں ریاض خاموشی سے ان کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ وہ لوگ انہیں لئے انسپکٹر کے کمرے میں آئے۔
’’بیٹھئے۔‘‘ انسپکٹر نے کہا عورت اور لڑکا بیٹھ گئے۔ پھر معمر شخص بھی۔ انسپکٹر نے ماموں ریاض سے کہا۔ ’’آپ بھی بیٹھئے۔‘‘
’’جی… میں…‘‘
’’ہاں تشریف رکھئے۔‘‘ انسپکٹر نرمی سے بولا۔
’’شش… شکریہ…‘‘
’’نجم الحسن صاحب آپ سے سخت شرمندہ ہیں۔‘‘
’’جی…؟‘‘ ماموں ریاض حیرت سے بولے۔
’’جی ہاں انہوں نے غلط فہمی میں اور جذباتی ہو کر آپ کے خلاف رپورٹ درج کرا دی تھی اور اب انہوں نے یہ رپورٹ واپس لے لی ہے حالانکہ پولیس کے کام ذرا مشکل ہوتے ہیں لیکن نجم الحسن میرے دوست ہیں، میں نے ان کے لئے کچھ لچک پیدا کر لی ہے، میری رائے ہے ریاض صاحب آپ بھی انہیں معاف کر دیں۔‘‘
’’سر میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’بھئی میں آپ کو یہاں لاک اپ سے رہا کرتا ہوں۔ باقی معاملات آپ خود نجم الحسن صاحب سے طے کر لیں۔‘‘ ماموں ریاض کے چہرے پر مسرت کے آثار پھیل گئے۔ انہوں نے آنسو بھری آنکھوں سے نجم الحسن کو دیکھا اور بولے۔ ’’بڑے صاحب آپ۔ آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ میں بے گناہ ہوں۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب ہمیں اجازت دے دیجئے۔ کوئی ایسی آفیشل کارروائی تو نہیں کرنی ہے جس کی ضرورت ہو۔‘‘ نجم الحسن صاحب نے کہا۔
’’نہیں نجم جائو، عیش کرو اور ان صاحب کو ذرا مطمئن کر دینا۔‘‘ سب لوگ اٹھ گئے۔ معمر عورت نے ریاض ماموں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ریاض بھائی ہمارے ساتھ چلئے۔ آپ سے کچھ کام ہیں۔‘‘ فوراً ہی ریاض ماموں کے ذہن میں میرا خیال آیا اور انہوں نے کہا۔
’’انسپکٹر صاحب… وہ… وہ…‘‘ اسی وقت دو کانسٹیبل اندر داخل ہوئے اور انہوں نے سلیوٹ کر کے کہا۔ ’’سر ڈی ایس پی کی گاڑی آ کر رکی ہے۔‘‘
’’اوہو اچھا اچھا۔‘‘ انسپکٹر صاحب جلدی سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے نجم الحسن صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’ڈی ایس پی صاحب آ گئے ہیں۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر صاحب، نجم الحسن صاحب سے پہلے اپنے آفس کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ نجم الحسن صاحب نے ماموں ریاض کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’آیئے آیئے ریاض صاحب آئیں۔‘‘ ماموں ریاض غالباً میرے بارے میں پھر کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن یہ موقع نہیں تھا چنانچہ وہ خاموشی سے نجم الحسن صاحب کے ساتھ باہر نکل آئے۔ باہر ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ نجم الحسن صاحب نے انہیں ڈرائیور کے ساتھ بٹھایا۔ پچھلے حصے میں وہ نوجوان لڑکا، معمر خاتون اور نجم الحسن صاحب بیٹھ گئے اور کار اسٹارٹ ہو کر تھانے کی عمارت کے احاطے سے باہر نکل آئی۔ اس کے بعد یہ لوگ ایک خوبصورت بنگلہ نما عمارت میں داخل ہوئے، کمرے میں پہنچے اور نجم الحسن صاحب نے نوجوان لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اگر تمہارے خون میں شرافت کا ایک ذرہ بھی باقی ہے تو ریاض احمد صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگو، وہ اگر چاہتے تو تمہارا نام بھی لے سکتے تھے۔ کیا دھرا سب کچھ تمہارا تھا، ہم نے انہیں بے عزت کیا۔ تھانے بھی بھجوایا اور انہیں سزا بھی ہو سکتی تھی اس الزام میں، کچھ غیرت ہے تمہارے اندر۔‘‘ نوجوان لڑکا آگے بڑھا اور اس نے جھک کر ریاض ماموں کے ہاتھ پکڑنے چاہے۔ ریاض ماموں نے اسے بازوئوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور کہنے لگے۔
’’بیٹے میری مجبوریاں ہیں، میں نے تم سے کئی بار کہا کہ جو رقم تم مجھ سے لیتے ہو اس کا کسی نہ کسی شکل میں اندراج کرا دو۔ تمہارے ابو تمہیں تو معاف کر سکتے ہیں میرے لئے مشکل ہو جائے گی لیکن خیر تقدیر میں یہ بھی تھا اور پھر… اور پھر…‘‘ ماموں ریاض کے ذہن میں میرا تصور ابھرا لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نجم الحسن صاحب سے وہ کیا کہیں تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا۔
’’بڑے صاحب جو کچھ ہوا وہ اللہ کی مرضی تھی اور اللہ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہاں تھانے کے لاک اپ میں میری ملاقات ایک ایسے نوجوان لڑکے سے ہوئی تھی جو وہاں بند تھا لیکن میرے اس سے ایسے رابطے ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ میرے اوپر اگر کوئی احسان کرنا چاہتے ہیں تو صرف ایک کام کر دیجئے میرا۔‘‘
’’ہاں ہاں کہئے، آپ نے وہیں کیوں نہ کہا ریاض صاحب۔ انسپکٹر میرا گہرا دوست ہے۔ آپ اسی وقت بتا دیتے تو میں اس لڑکے کو بھی چھڑا لیتا۔ کیا جرم کیا ہے اس نے؟‘‘
’’یہ تو مجھے نہیں معلوم، اس کا نام مسعود احمد ہے۔ حلیہ میں آپ کو تفصیل سے بتائے دیتا ہوں۔‘‘
ماموں ریاض میرا حلیہ دہرانے لگے۔
’’بالکل اطمینان رکھیں میں کل ہی اس کے لئے کچھ کروں گا۔ آپ خلوص دل سے اسے معاف کر دیں اور مجھے بھی، جو کچھ ہوا غلط فہمی میں ہوا، میں دل سے شرمندہ ہوں۔‘‘ نجم الحسن نے کہا۔
’’تقدیر میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پورا ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے میری عزت بحال ہو گئی۔‘‘
دماغ پر غنودگی طاری ہو گئی اور پھر گہری نیند آ گئی۔ صبح اذان کی آواز نے جگایا تھا۔ ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ وہی جگہ تھی۔ مدھم مدھم اجالا پھیلتا جا رہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھا پانی دستیاب نہیں تھا۔ آب خورے کی شفاف مٹی سے تیمم کیا اور نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ بدن توانا تھا۔ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی۔ دل و دماغ شاد ہو گئے۔ سورج کی پاکیزہ کرنیں انہیں چھونے لگی تھیں۔ ادھر ادھر دیکھا پھر مزار شریف کی طرف اور پھر کمبل اٹھا کر کاندھے پر ڈالا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ رخ مزار شریف کی طرف تھا۔ فاصلہ محسوس ہی نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ گو قرب و جوار میں باقاعدہ کوئی شہر یا بستی آباد نہیں تھی لیکن خود یہ بستی بھی کم نہیں تھی۔ زائرین کے لئے قیام گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ ایک بزرگ کو دیکھا۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ دو بڑے تھیلے دونوں ہاتھوں میں لٹکائے ہوئے تھے۔ میری طرح نڈھال نظر آ رہے تھے۔ مجھے امداد طلب نظروں سے دیکھا پھر اشارہ کیا تو میں قریب پہنچ گیا۔
’’میاں مزدوری کرو گے؟‘‘ وہ بولے۔
’’ضرور کریں گے۔‘‘
’’یہ تھیلے وہاں پہنچانے ہیں۔ انہوں نے کافی فاصلے پر اشارہ کیا۔
’’بسم اللہ۔‘‘ میں نے جلدی سے تھیلے اٹھائے۔
’’پہلے پیسے بتا دو۔‘‘
’’جو عنایت فرمائیں گے، لے لیں گے۔‘‘
’’بعد میں جھگڑا نہ کرنا۔‘‘
’’نہیں کریں گے، آیئے۔‘‘ میں تھیلے سنبھال کر آگے چل پڑا۔ بزرگ میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ وزنی تھیلے مطلوبہ جگہ پہنچا کر میں سیدھا ہوا تو بزرگ نے دو روپے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
’’بے حد شکریہ۔‘‘
’’کم تو نہیں ہیں۔‘‘
’’نہیں ہیں اگر آپ نے خوشی سے دیئے ہیں۔’’
’’ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں عنایت ہے۔ ناشتے کے لئے اللہ نے بندوبست کرا دیا ہے۔‘‘ میں نے دونوں روپے مٹھی میں دبا کر کہا۔ اسی وقت ریسٹ ہائوس کے ایک کمرے سے کوئی گیارہ سالہ لڑکا بھاگتا ہوا باہر نکلا۔ اس کے پیچھے ایک عورت، ایک لڑکی اور ایک30، 32سالہ شخص دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ لڑکے نے چیخ کر کہا۔
’’دادا میاں پکڑیئے۔‘‘ میرے ساتھ آنے والے معمر بزرگ چونک پڑے۔ ان کے حلق سے لایعنی سی آواز نکلی۔ میں نے بھی چونک کر لڑکے کو دیکھا اور اچانک لڑکا ٹھٹھک گیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا پھر بری طرح چیختا ہوا واپس اندر گھس گیا۔ اس کے پیچھے دوڑنے والے رک گئے، جیسے کچھ نہ سمجھ پائے ہوں۔ میرے وہاں رکنے کا جواز نہیں تھا اس لئے میں پلٹ کر واپس چل پڑا۔ جہاں دکانیں لگی ہوئی تھیں، وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ روپے کی دو پوریاں اور ترکاری ملی۔ کاغذ پر رکھے ایک گوشے میں آ بیٹھا۔ پُڑا کھول کر سامنے رکھا تو ایک بوڑھا فقیر نزدیک آ بیٹھا۔ اس نے کہا۔
’’ارے واہ چپڑی اور دو، دو۔ حصہ کر لو۔ مل بانٹ کر کھانا اچھا ہوتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ایک تم لے لو۔‘‘ میں نے ایک پوری پر آدھی ترکاری رکھ کر اس کے حوالے کر دی۔ اس نے خوشی سے پوری لے لی اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ہم فارغ ہو گئے۔
’’پانی پیو گے۔‘‘
’’ایں۔ ہاں آئو تلاش کریں۔‘‘
’’نہیں۔ میں دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور اپنی گدڑی سے ایک ٹوٹا پھوٹا سلور کا گلاس نکالا۔ گلاس خالی تھا۔ اس نے اسے میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ لو پہلے تم پی لو۔‘‘
’’ایں۔‘‘ میں حیرت سے بولا۔ پانی کہاں ہے؟‘‘
وہ ایک دم ہنس پڑا پھر بولا۔
’’دیکھو تو پانی، دیکھنا تو ضروری ہوتا ہے نا۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن اچانک ہی ہاتھ میں تھما ہوا گلاس وزنی محسوس ہوا اور اس سے پانی چھلکنے لگا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’تم پیو بھائی پھر مجھے دو۔‘‘
مگر میں پانی پینا بھول گیا تھا۔ اس نے اپنی گدڑی سے خالی گلاس نکالا تھا اور جب یہ گلاس میرے ہاتھ میں آیا تھا تو بالکل ہلکا تھا لیکن اب وہ پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے پھر ایک قلقاری ماری اور کہنے لگا۔ ’’پوری تمہاری، پانی ہمارا، حساب برابر۔ دیکھو تو ملے، سوچو تو پائو، ارے جلدی کرو ہمیں پیاس لگ رہی ہے، مرچیں لگ رہی ہیں مرچیں۔‘‘ وہ اپنے دونوں گال پیٹتا ہوا بولا اور میں نے بادل نخواستہ پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔ طبیعت سیر ہو گئی اور پھر جب گلاس پیچھے ہٹایا تو وہ کناروں تک لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے گلاس میرے ہاتھ سے چھین لیا۔
’’نہ گلاس تمہارا، نہ کمبل ہمارا، اپنا راستہ ناپو، ہم بھی چلے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گلاس گدڑی میں ڈالا اور تیز تیز قدموں سے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں شدت حیرت سے گنگ رہ گیا تھا۔ عجیب سا شخص تھا، پھٹے پرانے چیتھڑے لگے ہوئے لباس میں ملبوس، کاندھے سے جھولی لٹکائے ہوئے، ایک اونچی سی قبر کے کتبے کے پیچھے پہنچ کر وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ گردن جھٹکی اور پھر سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ دن خوب چڑھ گیا تھا اور رات کی نسبت دھوپ میں تیزی پیدا ہونے لگی تھی جگہ جگہ بوسیدہ قبریں، ٹوٹے پھوٹے لکھوری اینٹوں سے بنے مقبرے نظر آ رہے تھے۔ بہت سی جگہ چھائوں تھی۔ کسی بھی جگہ کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ کچھ ایسا شکم سیر ہو گیا تھا اس ایک پوری سے کہ بدن بوجھل محسوس ہونے لگا تھا بہرحال وہاں سے ہٹا، کمبل کاندھے پر ڈالا اور اس کے بعد قبروں کے درمیان مارا مارا پھرتا رہا۔ دوپہر کو بڑے مزار پر جانا نصیب ہو گیا۔ بڑی ٹھنڈک تھی وہاں، بے شمار افراد گنبد کے نیچے آرام کر رہے تھے۔ میں بھی وہیں پہنچ گیا۔ دل چاہا کہ فاتحہ خوانی کروں چنانچہ مزار کے قدموں میں پہنچ کر فاتحہ خوانی کرنے لگا۔ دھوپ تیز ہو گئی تھی۔ وہاں سے واپس نکل آیا۔ اسی جگہ پائوں پسار کر لیٹنا اچھا نہ لگا، یوں محسوس ہوا جیسے مزار اقدس کی بے حرمتی ہوگی اگر میں وہاں لیٹ جائوں، بہت سی جگہیں پڑی ہوئی تھیں۔ گھنے درختوں کے سائے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ باہر نکلا اور ایک گھنے درخت کے نیچے آ کر لیٹ گیا۔ کمبل کو تہہ کر کے تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھا اور درختوں کے پتوں کو گھورنے لگا۔ ننھے ننھے پرندے چہچہا رہے تھے۔ جگہیں تبدیل کر رہے تھے۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بڑی خوشنما لگ رہی تھی۔ طبیعت میں ایک عجیب سی فرحت تھی جسے الفاظ نہیں دے سکتا تھا۔ بہت دیر اسی طرح گزر گئی۔ آنکھوں میں کچھ بوجھ سا پیدا ہو گیا تھا۔ بھوک تو نام و نشان کو نہیں تھی۔ لگتا تھا ایک پوری نے دن بھر کی کسر پوری کر دی ہے۔ پھر وہ شخص یاد آیا۔ ایسی جگہوں پر اللہ کے نیک بندوں سے ملاقاتیں ہو ہی جاتی ہیں۔ کیا کہہ گیا تھا۔ دیکھو تو پائو، سوچو تو جانو۔ غور کرنے لگا اور یہی غور کرتے کرتے اچانک پچھلے دنوں کی باتیں یاد آ گئیں اور اچھل پڑا۔ ماموں ریاض تھانے میں ملے تھے اور وہ لوگ انہیں لے گئے تھے لیکن اس کے بعد جو کچھ علم میں آیا تھا وہ کیا حیثیت رکھتا تھا۔ بالکل یوں لگتا تھا جیسے تمام واقعات میری نگاہوں کے سامنے سے گزر رہے ہوں۔ میں خود بھی ان میں شریک ہوں۔ یہ کیسے ہوا تھا، یہ کیا بات تھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ بہت دیر تک غور کرتا رہا اور پھر گردن ہلا کر کروٹ بدل لی۔ ماموں ریاض بیچارے۔ اگر جو کچھ میرے ذہن میں آیا، سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مصیبت سے نکل گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ذہن میں کیسے آیا۔ ٹھنڈی ہوائوں نے آنکھوں کے پپوٹے بوجھل کر دیئے تھے اور ہلکا سا سرور ذہن پر طاری ہو گیا تھا لیکن سوچوں کے دائرے محدود نہیں ہوئے تھے۔
سوچوں کا عظیم سرمایہ محفوظ تھا۔ دماغ بوجھل ضرور ہو گیا تھا لیکن حاضر تھا۔ ماموں ریاض کے دل میں ضرور ہو گا کہ میرے لئے کچھ کریں۔ ہرچند کہ میں نے انہیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا لیکن اتنا جانتا تھا کہ وہ بھی دیوانے ہو گئے ہوں گے۔ اگر بڑے افسر نہ آ جاتے تو… ہو سکتا ہے جو کچھ میرے ذہن میں آیا اس کے بعد بھی انہوں نے کچھ کیا ہو۔ ہو سکتا ہے انہوں نے گھر جا کر میرے بارے میں امی اور ابو کو بتایا ہو۔ کیا گزری ہو گی ان پر، ماموں ریاض…
ٹوٹا پھوٹا سا گھر تھا۔ بوسیدہ کواڑ جس پر ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا۔ پلاستر کی دیواریں تھیں۔ دروازے کے دوسری طرف چھوٹا سا صحن، ایک برآمدہ جس میں تخت پڑا ہوا تھا۔ ایک کمرہ جس میں بائیں سمت غسل خانہ اور بیت الخلاء، دوسری طرف باورچی خانہ۔ ابو اور امی تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ امی کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ آنکھیں بے نور تھیں اور وہ بار بار پلکیں جھپکا رہی تھیں۔ ابو اچھل پڑے۔ انہوں نے سرگوشی کے عالم میں کہا۔
’’ریاض آ گیا۔‘‘
’’آ گیا؟‘‘ امی اچھل پڑیں۔
’’ہاں۔‘‘
’’ریاض، ریاض بیٹے!‘‘ امی کی لرزتی آواز ابھری۔
’’ہاں باجی… میں آ گیا۔‘‘
’’کہاں ہے، کہاں ہے۔ میرے پاس آ۔ ریاض میرے پاس آ۔‘‘ ماموں ریاض امی کے سینے سے جا لگے تھے۔ کیا ہوا تھا۔ مارا تو نہیں تجھے۔ انہوں نے تجھے مارا تو نہیں۔‘‘ امی ماموں ریاض کو ٹٹولتی ہوئی بولیں۔
’’ارے نہیں باجی، کوئی میں ڈاکو تھا، چور تھا، مارتے کیسے؟‘‘ ماموں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اللہ تیرا شکر ہے۔ اللہ تیرا احسان ہے۔ کچھ کھایا ہے تو نے۔‘‘
’’پیٹ بھر کر کھایا ہے باجی۔ اطمینان سے بیٹھو۔‘‘
’’جھوٹ بول رہا ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے۔ سنئے روٹیاں لے آیئے بازار سے، میں چائے بنا لیتی ہوں، روٹیاں لے آیئے۔‘‘
’’باجی۔ میں نے کھانا کھا لیا ہے۔‘‘
’’اور کھائیں گے۔ ریاض ہم نے نہیں کھایا، کل سے نہیں کھایا۔‘‘
’’اوہ، میں لاتا ہوں۔ آپ بیٹھئے بھائی جان۔ میں لاتا ہوں۔‘‘ ماموں ریاض بولے۔
’’نہیں ریاض، تو نہ جا بیٹے کہیں پولیس دوبارہ نہ پکڑ لے، تو نہ جا ریاض۔‘‘
’’باجی پولیس کیوں پکڑ لے گی مجھے آخر۔ اسے دھوکا ہوا تھا۔ بعد میں سب نے معافی مانگی ہے۔ یہ دیکھئے نجم الحسن صاحب نے مجھے پانچ سو روپے بھی دیئے ہیں ہرجانے کے طور پر۔‘‘
’’تجھ پر اب الزام تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں باجی، فیض الحسن بری صحبتوں میں ضرور پڑ گیا ہے مگر وہ برا لڑکا نہیں ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس نے جو رقمیں غائب کی ہیں ان کے الزام میں اس کے باپ نے مجھے گرفتار کرا دیا ہے تو وہ باپ کے پاس پہنچ گیا اور اس نے ساری بات بتا دی۔ نجم الحسن خود تھانے گئے، ان کی بیوی اور فیض بھی ساتھ تھا۔ انہوں نے مجھے چھڑا لیا، بڑی معافیاں مانگی ہیں۔ انہوں نے دو سو روپے تنخواہ میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔‘‘
’’اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
’’بھائی جان میں کھانا لے آتا ہوں۔‘‘
’’روٹیاں لے آ… میں چائے بنا لیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں باجی مرغی کا سالن لائوں گا۔ محنت کے پیسے ملے ہیں اور یہ آپ کو چائے بنانے کی کیا سوجھی۔ کیا آپ پھر چولہا جلانے لگی ہیں۔‘‘
’’نہیں مانتیں۔ مجھے بتائو کیا کروں…؟‘‘ ابو بولے۔
’’خدا کے لئے باجی چولہے کے پاس نہ جایا کریں۔ پورا دوپٹہ جلا لیا تھا۔ اللہ نے بچایا۔‘‘
’’اب بار بار ایسا تھوڑی ہو گا۔ جا کھانا لے آ۔‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماموں دروازے سے نکل گئے تھے۔ پھر میں نے ان سب کو دسترخوان پر دیکھا۔ امی ہاتھ والے پنکھے سے پنکھا جھل رہی تھیں۔
’’اب یہ پنکھا رکھ دیں اور کھانا کھائیں۔‘‘ ابو بولے۔
’’افوہ کھائو تم لوگ مکھیاں بیٹھیں گی کھانے پر۔‘‘
’’ایک بھی مکھی نہیں ہے۔ رکھئے پنکھا، کھانا کھایئے۔‘‘ ماموں بولے۔ ’’ذرا دیکھئے بھنی ہوئی مرغی کیا مزا دے رہی ہے۔‘‘
’’کھا لوں گی نا۔ تم لوگ کھائو۔‘‘ امی بے اختیار رو پڑیں۔ ابو اور ماموں کے ہاتھ رک گئے۔ ماموں نے کہا۔
’’باجی۔‘‘
’’کھا لوں گی میں۔ میرے پیچھے مت پڑو۔ مت پڑو میرے پیچھے۔ پتہ نہیں میرے بچے… میرے بچے۔‘‘ امی بلک بلک کر رو پڑیں۔ ابو بھی سسکنے لگے۔ ماموں عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ ان دونوں کو دیکھنے لگے۔ رک گئے تم لوگ، نہ کھائو تو مجھے مردہ دیکھو، کھائو، میں کہتی ہوں کھائو۔‘‘ امی ان کے ہاتھ ٹٹولنے لگیں۔ ماموں ریاض نے کہا۔
’’آپ سے تنہائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا بھائی جان۔‘‘ ابو نے آنکھوں میں آنسو بھر کے انہیں دیکھا۔ آپ کے اور باجی کے سوا دنیا میں میرا اور کوئی ہے۔ آپ دونوں کی قسم کھا کر ایک بات کہہ رہا ہوں۔ یہ رزق ہے میرے ہاتھ میں، جھوٹ نہیں بول رہا۔ مگر اب سوچ رہا ہوں کہ جو کچھ کہنا ہے باجی کے سامنے ہی کہہ دوں۔‘‘
’’بات کیا ہے؟‘‘ ابو نے آنکھیں خشک کر کے ماموں ریاض کو دیکھا۔
’’مسعود زندہ ہے۔ خیریت سے ہے۔ بس ذرا کمزور ہو گیا ہے۔ حلیہ بدل رکھا ہے۔ داڑھی چھوڑ دی ہے۔ کہتا ہے کہ کچھ مشکلات ہیں جن پر قابو پا لیا تو واپس گھر آ جائے گا، اس کی فکر نہ کی جائے۔‘‘
’’کیا…‘‘ ابو اچھل کر کھڑے ہو گئے۔
’’آپ کی اور باجی کی قسم جھوٹ نہیں بول رہا۔ وہ زندہ سلامت ہے اور اسے محمود کے بارے میں بھی معلوم ہے، ہمارا محمود بھی خدا کے فضل سے خیریت سے ہے اور ملک سے باہر چلا گیا ہے، اگر اسے ہمارا پتہ معلوم ہوتا تو یقیناً وہ اب تک ہم سے رابطہ کر چکا ہوتا۔‘‘
’’ریاض… ریاض تجھے اللہ کا واسطہ۔ کلیجہ نکال لیا ہے تو نے۔ ہائے تو نے کلیجہ نکال لیا ہے۔ ارے تجھے اللہ کا واسطہ بتا تو دے بتا دے کہ دل رکھ رہا ہے یا سچ بول رہا ہے۔‘‘ امی نے جھک کر ماموں ریاض کے پائوں پکڑ لئے۔
’’میں نے آپ دونوں کی قسمیں کھائی ہیں باجی۔ اور بھی کچھ کر سکتا ہوں تو مجھے بتائیں۔‘‘
’’کہاں ملا وہ، تیرے ساتھ گھر نہیں آیا؟‘‘
’’تھانے کے لاک اَپ میں ملا تھا۔‘‘
’’ایں…‘‘ابو کے حلق سے رندھی ہوئی آواز نکلی۔
’’اللہ نے چاہا تو واپس آ جائے گا۔ نجم الحسن کل اپنے تھانیدار دوست سے مل کر اسے رہا کرا لیں گے۔‘‘
’’مجھے لے چل، مجھے لے چل ریاض، مجھے لے چل۔ اپنے، اپنے بچے کو چھونا چاہتی ہوں میں، آہ میں اسے چھونا چاہتی ہوں۔‘‘ امی نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے اس طرح دل دکھا دیا باجی ورنہ میں yابھی آپ کو کچھ نہ بتاتا۔ مجھے اپنی یہ خاموشی جرم محسوس ہوتی تھی۔ ہر قیمت پر آپ کو انتظار کرنا ہو گا بھائی جان آپ غور کریں۔ اس پر قتل کا الزام ہے کہ جانے کس طرح اس نے خود کو چھپایا ہوا ہے۔ پولیس کی یادداشت اتنی خراب نہیں ہوتی، سب یکجا ہو گئے تو کہیں تھانیدار کو ماضی یاد نہ آ جائے۔ پھر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘‘
’’ہیں…‘‘ امی کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں۔ باجی صبر کرنا ہو گا آپ کو۔ اللہ نے آپ کو ان دونوں کی زندگی کی خبر دی ہے، ایک دن ہم سے آ بھی ملیں گے۔‘‘
’’کل نہیں…‘‘ امی نے حسرت سے پوچھا۔
’’سب کچھ اللہ جانتا ہے وہی سب کچھ…‘‘
ایک دم سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کوئی پائوں پکڑ کر چلایا تھا۔ پھر ایک آواز سنائی دی تھی۔
’’بابا جی… بابا صاحب…‘‘ میں چونک پڑا۔ چند افراد کھڑے ہوئے تھے۔ شکلیں جانی پہچانی سی تھیں۔ ان بزرگ کو میں نے فوراً پہچان لیا جن کا سامان اٹھانے کے دو روپے ملے تھے مجھے۔ میں جلدی سے اٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ کر انہیں دیکھنے لگا۔
’’بابا صاحب اٹھیے۔ اٹھیے بابا صاحب۔‘‘
’’کوئی غلطی ہو گئی مجھ سے۔‘‘ میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’غلطی ہم سے ہو گئی ہے بابا صاحب۔ آپ کو پہچان نہ سکے۔‘‘
کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں۔
’’اللہ کے نام پر آپ ہماری مدد کریں بابا صاحب۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔‘‘
’’آپ لوگ یقین کریں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہی خاندان تھا جو ریسٹ ہائوس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اب میں نے سب کو پہچان لیا تھا۔‘‘ وہ سب بھی میرے اردگرد بیٹھ گئے۔ بزرگ نے کہا۔
’’عامر میرا پوتا ہے۔ میرے بیٹے کا ایک ہی بیٹا، دوسری بیٹی ہے۔ یہ ہے نسیمہ۔ عامر اسکول میں پڑھتا تھا۔ شوخ کھلاڑی مگر ذہین تھا، کبھی کبھی بچوں کے ساتھ اسکول سے آوارہ گردی کرنے نکل جاتا تھا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کے اسکول سے کافی فاصلے پر ایک جگہ کربلا کے نام سے مشہور ہے وہاں تعزیئے دفن کئے جاتے ہیں۔ نزدیک ہی قبرستان بھی ہے۔ آس پاس کھیت بکھرے ہوئے ہیں۔ وہیں کھیلنے چلا گیا تھا۔ واپس آیا تو چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں چمک رہی تھیں۔ رات کو بخار آ گیا۔ وہ ہذیان بکتا رہا۔ اس کے بعد میاں صاحب ہم زیرعتاب ہیں۔ سیکڑوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن کی تفصیل طویل ہے، اس پر سایہ ہو گیا ہے بابا صاحب۔ نہ جانے کیا کیا کر چکے ہیں ہم مگر کچھ نہیں ہو سکا۔ بابا صاحب اس وقت بھی اس پر جنون طاری تھا جب وہ بھاگ کر باہر آیا تھا۔ آپ کو دیکھ کر سہم گیا۔ اس وقت سے اندر گھسا ہوا ہے جب کہ اندر رہتا ہی نہیں تھا، اب کہتا ہے باہر نہیں جائوں گا، باہر وہ ہے… وہ!‘‘
’’کون؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آپ سے ڈر رہا ہے۔‘‘
’’مجھ سے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجھ سے کیوں؟‘‘
’’اللہ جانتا ہے۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔ عجیب ہیں آپ لوگ۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں خود ایک غریب آدمی ہوں۔ محنت مزدوری کر کے پیٹ بھرتا ہوں۔ چچا میاں آپ کو خود علم ہے کہ میں نے آپ کا سامان اٹھا کر صبح کا ناشتہ کیا تھا!‘‘
’’اللہ کے نیک بندے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دیکھئے بابا صاحب۔ ہم بھلا آپ سے کچھ کہنے کی کہاں اہلیت رکھتے ہیں۔ اتنا ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ نے اپنی کوئی امانت آپ کو سونپی ہے تو اسے دوسروں کی بھلائی کے لئے ضرور استعمال کریں۔ آپ کی سربلندی میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہم پریشان حال لوگ ہیں نہ جانے کہاں کہاں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ معصوم بچہ ہے، کل گیارہ سال عمر ہے اس کی۔ پوری زندگی تباہ ہو جائے گی اس کی۔ ماں رو رو کر مر جائے گی اس کی۔ سولی پر لٹکے ہوئے ہیں ہم لوگ، اللہ کے نام پر ہماری مدد کریں۔ بزرگ رونے لگے۔
مگر محترم… میں… میں ایک عام آدمی ہوں۔ میں خود زندگی کا ستایا ہوا ہوں۔ آپ کو ضرور میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’وہ صرف آپ سے خوفزدہ ہے۔ کہتا ہے باہر نہیں جائے گا۔ باہر کمبل والے بابا ہیں اور کمبل آپ ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’کمبل!‘‘ میرے پورے وجود میں بم سا پھٹا۔ کمبل… کمبل۔ میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کمبل کو دیکھا جسے ابھی سرہانے رکھے سو رہا تھا۔ یہ عطیہ انہیں دو۔ بزرگوں میں سے ایک نے مجھے دیا تھا مگر اس وقت میری اندھی آنکھوں نے اسے نہیں پہچانا تھا، اب تک نہیں پہچانا تھا۔ یہ تو وہی کمبل تھا جو ایک بار پہلے بھی مجھے مل چکا تھا۔
میں بھلا اس کمبل کو بھول سکتا تھا جب یہ ملا تھا تو مجھے عروج ملا تھا اور پھر میں نے اسے کھو دیا تھا۔ آہ یہ وہی کمبل تھا، سو فیصد وہی تھا، دماغ میں شیشے ٹوٹنے لگے۔ چھناکے ہونے لگے، وہ دونوں بزرگ یاد آئے جن میں سے ایک نے مجھے کمبل دیا تھا۔ شکلیں یاد نہیں تھیں لیکن… باقی سب کچھ یاد تھا کمبل اوڑھا تھا اور اس کے بعد امی اور ابو کو دیکھا تھا۔ ماموں ریاض کے بارے میں آگے کا سارا حال دیکھا تھا۔ کوئی تصور اتنی جامع شکل نہیں اختیار کرسکتا۔ میں نے تو وہ سب کچھ دیکھا تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
’’بابا صاحب…‘‘ بزرگ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
جی… میں … وہ۔
’’خدا کے لیے بابا صاحب، خدا کے لیے اللہ نے آپ کو کچھ دیا ہے تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں خدا کے لیے بابا صاحب۔‘‘
بزرگ نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور میں تڑپ اٹھا۔
’’ایسا نہ کریں محترم، خدا کے لیے ایسا کرکے مجھے گناہ گار نہ کریں۔‘‘
’’ہماری مدد کریں۔‘‘
’’آپ مجھے وقت دیجئے کچھ کرسکا تو ضرور کروں گا۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں خود حاضری دوں گا۔‘‘
’’بہت بہتر، ہم انتظار کریں گے۔‘‘
’’آپ جائیے میں آپ کے پاس ضرور آئوں گا۔ اگر آپ کا کام نہ کرسکا تو معذرت کرنے آئوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ سب امید بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے واپس چلے گئے۔ میں نے دیوانہ وار آگے بڑھ کر کمبل اٹھالیا اسے سینے سے لگالیا، سکون کا ایک سمندر سینے میں اتر گیا تھا دیر تک اس سکون سے بہرہ وَر ہوتا رہا۔
شام کے سائے جھلک رہے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ پانی تلاش کرکے وضو کیا نماز پڑھی۔ اسی درخت کے نیچے بسیرا کرلیا تھا۔ رات ہوگئی عشاء کی نماز سے فارغ ہوا تھا کہ کھانا آگیا۔
’’بابا صاحب لنگر لے لیجئے۔ صاحب مزار کے نام کا ہے۔‘‘ انکارنہ کرسکا تھوڑا بہت
کھانا کھایا اس کے بعد کمبل اوڑھ لیا، دل میں کہا۔
’’مجھے اس نعمت سے سرفراز کرنے والو! مجھ سے زیادہ تم میرے بارے میں جانتے ہو میں کوربینا ہوں، میری نظر محدود ہے۔ میری عقل محدود ہے جو منصب مجھے عطا کیا گیا ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے رہنمائی درکار ہے۔ میری عقل ناقص صحیح فیصلے کرنے سے قاصر ہے مجھے رہنمائی عطا ہو۔ مجھے رہنمائی عطا ہو، مجھے رہنمائی درکار ہے، مجھے رہنمائی چاہئے۔‘‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے کسی نے زور سے دھکیل کر کہا۔
’’بڑا پھیل کر سورہا ہے سرک جگہ دے۔‘‘ میں لڑھک گیا تھا، جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ بھی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھا آدمی تھا۔ ’’زمین اللہ کی ہے اس پر سب کا حق ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں آپ آرام سے لیٹ جائیں۔‘‘ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بوڑھا آدمی اطمینان سے لیٹ گیا کچھ دیر خاموشی سے گزر گئی پھر اس نے گردن اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولا۔
’’پیروں میں بڑا درد ہورہا ہے ذرا دبا دے۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے اس کا پائوں اٹھاکر گود میں رکھ لیا اور اسے دبانے لگا۔
دفعتاً اس نے بڑی زور سے دوسرا پائوں میرے سینے پر مارا اور میں بے اختیار لڑھک کر دور جاگرا۔
’’ہاتھوں میں کانٹے اگے ہوئے ہیں۔ آہستہ نہیں دبا سکتا طاقت آزما رہا ہے میرے پیروں پر۔‘‘
’’اوہ نہیں بابا صاحب معاف کردیجئے اب آہستہ دبائوں گا۔‘‘ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر دوبارہ اس کے پاس آبیٹھا۔ احترام سے دوبارہ اس کا پائوں لے کر گود میں رکھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگا۔
’’ہاں اب ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے آنکھیں بند کرلیں، کوئی ایک گھنٹہ گزر گیا تو اس نے کروٹ بدل کر دوسرا پائوں میری گود میں رکھ دیا۔ میں دوسرا پائوں دبانے لگا۔ کافی دیر گزر گئی اچانک وہ بولا۔ ’’قاتل بہت ہیں کچھ زیادہ خطرناک کچھ کم۔ دشمن کے وار کرنے سے پہلے اس پر وار کردو۔ اسے مار ڈالو۔ دشمن نمبر ایک غرور ہے، خودپسندی ہے، تمہارے بدن کا لباس، تمہاری بینائی، تمہاری سوچ اور سب سے بڑھ کر تمہاری زندگی اپنی نہیں ہے پھر کس چیز پر حق جتاتے ہو۔ بیوقوفی ہے نا… کیوں ہے نا…؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’سب کچھ قرض ہے ادھار ہے ادائیگی ضرور ہوتی ہے، بچا کھچا اپنا ہوتا ہے دوسرے کے مال پر کیا اترانا کیوں ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ٹھیک کہتے ہیں بابا صاحب۔‘‘
’’پوچھ لینا اچھا ہوتا ہے سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لو۔‘‘
’’کس سے بابا صاحب؟‘‘
’’بتانے والا اندر ہوتا ہے پوچھو گے جواب ملے گا، بھٹکنے کی ضرورت ہی کیا ہے مگر کرنے سے پہلے پوچھو۔‘‘
’’جی بابا صاحب۔‘‘
’’خود غرضی ہمیشہ نقصان دیتی ہے پہلے دوسروں کے بارے میں سوچو پھر اپنے بارے میں۔ جذبات سنبھالنے پڑتے ہیں ورنہ کھیل بگڑ جاتا ہے کیا سمجھے۔ اور کچھ پوچھنا ہے۔‘‘
’’آپ نے جتنا بتایا ہے اتنا تو سمجھ لیا بابا صاحب۔‘‘
’’میں نابینا ہوں بابا صاحب کچھ نہیں جانتا۔ سچائی سے سب کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر ناواقفیت کا شکار ہوجاتا ہوں۔‘‘
میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’چہرہ ڈھک لینا، دل و دماغ روشن ہوجائیں گے بس کافی ہے۔‘‘
بوڑھے شخص نے پائوں سمیٹ لیے۔
’’اور دبائوں بابا صاحب؟‘‘
’’نہیں… چلتا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے کہا اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا میں اسے دیکھتا رہا اس نے چند قدم آگے بڑھائے اور پھر ایک اور درخت کی آڑ میں گم ہوگیا۔ دل بری طرح کانپ رہا تھا، رہنمائی ملی تھی، انعام عطا ہوا تھا، ہدایت کی گئی تھی۔ درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ میں ڈوب گیا۔ ساری باتوں کو یاد کرکے دل میں اتار رہا تھا پھر وہ لوگ یاد آگئے جن سے وعدہ کیا تھا۔ کیا کروں، کیا کرنا چاہئے لیٹ کر کمبل چہرے پر ڈال لیا۔ ذہن میں ان کا تصور کیا تو چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔ وہ سب نگاہوں کے سامنے آگئے بزرگ، ان کا بیٹا، بہو، لڑکی اور وہ بچہ۔ زبان باہر لٹکی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں دہشت رقصاں تھی۔ نوجوان لڑکی نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور خوف سے کانپ رہی تھی، بچے کی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ حسرت بھری نظروں سے بچے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا شوہر سر پکڑے بیٹھا ہوا تھا اور وہی بزرگ تسبیح ہاتھوں میں لیے کچھ پڑھ رہے تھے۔
دفعتاً لڑکے کی زبان لمبی ہونے لگی۔ سرخ زبان کسی سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کی لمبائی کوئی چار گز ہوگئی اور پھر اچانک اس نے ان بزرگ کے ہاتھوں میں دبی تسبیح کو لپک لیا، نوجوان لڑکی نے دہشت بھری چیخ ماری اور گر کر بے ہوش ہوگئی۔
’’بات کرلو… چلے جائو… حال معلوم ہوجائے گا… چلے جائو کام ہوجائے گا۔‘‘ مجھے اپنی آواز سنائی دی، میں بول رہا تھا، میں سن رہا تھا۔ مستعدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کمبل تہہ کرکے شانے پر رکھا اور تیز تیز قدموں سے اس طرف چل پڑا، کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا سب لوگ ریسٹ ہائوس میں تھے۔ میں نے دروازہ بجایا انہی بزرگ نے دروازہ کھولا تھا۔
’’آپ… آئیے، دیکھئے اندر کیا ہورہا ہے۔‘‘
انہوں نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’آسکتا ہوں؟‘‘
’’آجائیے۔‘‘ بزرگ دروازے سے ہٹ گئے میں اندر داخل ہوگیا۔ بچہ اچھل پڑا تھا اس کی زبان فوراً اندر چلی گئی اور اٹھ کر دیوار سے جالگا۔ وہ مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور شاید بھاگنے کے لیے جگہ تلاش کررہا تھا، اس نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میرا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، اپنا کام کرو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’ایک گلاس پانی دیجئے۔‘‘ میں نے بزرگ سے کہا اور وہ جلدی سے ایک طرف رکھی صراحی کی طرف بڑھ گئے۔
’’تم سن نہیں رہے، میرا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔‘‘
لڑکے نے بھاری آواز میں کہا۔
’’یہاں تم سے جھگڑا کون کررہا ہے۔ اللہ کے بندے ہو، اللہ کا نام لے کر بات کرو۔‘‘ میں نے بزرگ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر اس پر بسم اللہ پڑھ کر پھونکی اور اس کے بعد پانی کا گلاس لڑکے کی طرف بڑھاکر بولا۔
’’لو میاں پانی پیئو، محبت سے کوئی چیز پیش کی جائے تو اسے محبت سے ہی قبول کرنا چاہئے۔‘‘
’’دیکھو آخری بار سمجھا رہا ہوں، ہمارے بیچ میں مت آئو تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا سوائے نقصان کے۔‘‘
’’اللہ کے بندے ہوکے، اللہ کے بندوں کو نقصان پہنچائو گے تو تمہارے ساتھ بھی تو بہتری نہیں ہوگی جواب دو، ورنہ یہ پانی میں تمہارے جسم پر پھینک دوں گا اور تم سمجھتے ہو کہ یہ گناہ صرف تمہارے سر ہوگا۔‘‘
’’ارے واہ جھگڑا ہمارا ہے، بیچ میں کود رہے ہو تم۔ ذرا اس سے پوچھو کیا کیا ہے اس نے، بچے کھیل رہے تھے اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا تھا، شرارت اپنی جگہ ہوتی ہے، پتھر مارنے شروع کردیئے اور اچھا خاصا زخمی کردیا میرے بچے کو، میں بھلا چھوڑ دوں گا اسے، اتنے ہی زخم نہ لگادوں اسے تو میرا بھی نام نہیں۔‘‘
’’درگزر بھی تو ایک پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ بچپن ہے، بے شک تمہیں نقصان پہنچا ہوگا لیکن اس کی زندگی لے کر تمہیں کیا مل جائے گا۔‘‘
’’اور اگر میرا بچہ مرجاتا تو…‘‘
’’اللہ نے اسے زندگی عطا فرمائی تم اس کے صدقے اس کی زندگی بھی قائم رہنے دو… یہ ضروری ہے۔‘‘
’’کیا ضروری ہے اور کیا غیرضروری، میں سمجھتا ہوں تم اپنی یہ ولایت لے کر یہاں سے چلے جائو ورنہ میرا تمہارا جھگڑا ہوجائے گا اور ہاں پہچانتا ہوں تمہیں اچھی طرح، جانتا بھی ہوں ایک بار دیکھ بھی چکا ہوں مگر وہ معاملہ ذرا دوسرا تھا ہر ایک کے بیچ میں پہنچ جاتے ہو۔ تمہارا بھی کچھ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’اگر میرے سر میں پتھر مارکر تمہارا دل ٹھنڈا ہوسکتا ہے تو میں حاضر ہوں کچھ نہ کہوں گا تمہیں، لیکن بچوں کے باپ ہو، معاف کردو اسے۔ میں اس کی طرف سے اور اس کے تمام اہل خانہ کی طرف سے تم سے معافی چاہتا ہوں۔ اگر کوئی جرمانہ کرنا چاہو تو جرمانہ کردو ادائیگی ہوگی۔ مگر اب اسے معاف ہی کردو تو بہتر ہے۔‘‘
’’اور اگر نہ کروں تو…؟‘‘
’’تو پھر بات دوسری شکل اختیار کرجائے گی۔‘‘ میں نے گلاس سیدھا کرلیا اور لڑکا دیوار کے سہارے ادھر سے ادھر کھسکنے لگا پھر بولا۔ ’’یہ طریقہ ہوتا ہے دوستی کرانے کا، ان لوگوں سے کہو کہ آئندہ اگر یہ بچہ اس طرف دیکھا گیا تو پھر میں اسے نہیں چھوڑوں گا اور تم، ٹھیک ہے میں نہ سہی کوئی دوسرا تمہیں ٹھیک کردے گا۔ ہر ایک کے بیچ میں ایسے ہی مت آجایا کرو۔‘‘
’’بہرحال فی الحال تو تم یہ بتائو کہ سچے دل سے اسے معاف کررہے ہو یا یونہی عارضی طور پر مجھے ٹال رہے ہو؟‘‘
’’اور اگر یہ بچہ دوبارہ ادھر دیکھا گیا تو…؟‘‘
’’اس کا وعدہ اس کے والدین کریں گے۔‘‘
عورت جلدی سے بولی۔ ’’نہیں جائے گا ہم وہ شہر ہی چھوڑ دیں گے، وہ جگہ چھوڑ دیں گے ہم، کبھی نہیں جائیں گے اس طرف، کبھی نہیں جائیں گے۔‘‘
’’دیکھو میاں جی مشورہ دے رہے ہیں تمہیں ہم ایسے معاملات میں ٹانگیں مت اڑایا کرو، ورنہ کسی وقت نقصان بھی اٹھا جائوگے۔ ارے ہاں پہنچ گئے ولی بن کر۔‘‘ لڑکے نے کہا اور اس کے بعد اس نے آنکھیں بند کرلیں، رفتہ رفتہ اس کا جسم ڈھیلا پڑتا جارہا تھا اور پھر وہ دیوار کے ساتھ نیچے کھسکتا ہوا زمین پر گرپڑا۔ وہ بھی بے ہوش ہوگیا تھا بزرگ جلدی سے آگے بڑھے ان کا بیٹا بھی آگے بڑھا اور باپ نے بیٹے کو گود میں اٹھالیا۔ لڑکا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ عورت کی سسکیاں بلند ہورہی تھیں میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’خدا نے اپنا کرم کردیا میرے خیال میں اب سب ٹھیک ہے۔ آپ لوگ اطمینان سے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کریں۔ اب خدا نے چاہا تو سب بہتر ہوجائے گا۔‘‘
بزرگ جلدی سے میرے قریب پہنچے اور انہوں نے جھک کر میرے پائوں پکڑنا چاہے تو میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’نہیں محترم، خدا کے لیے نہیں یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ یہ میرے ساتھ دشمنی ہے، محبت کے جواب میں دشمنی۔‘‘
بزرگ ایک دم سیدھے ہوگئے تھے۔
’’میرا دل کہہ رہا ہے، میرا بچہ ٹھیک ہوگیا۔ آہ ہم سب کو نئی زندگی ملی ہے اپنے جذبات کا اظہار میں کیسے کروں۔‘‘ وہ بولے۔
’’بس ایک ہی التجا ہے۔‘‘
’’حکم کیجئے بابا صاحب۔‘‘
’’میرے حق میں دعائے خیر کیجئے۔‘‘
’’سنیئے بابا صاحب سنیئے، کچھ خدمت کا موقع دیجئے ہمیں۔‘‘
’’اللہ نے آپ کو اپنی رحمت سے نوازا ہے۔ ایسی باتیں نہ کیجئے خدا حافظ۔‘‘ میں نے کہا اور وہاں سے نکل آیا اس کے بعد رکنے کو دل نہیں چاہا تھا چنانچہ کسی سمت کا تعین کئے بغیر چلتا رہا۔
مزار شریف سے بہت دور آبادی تھی وہاں سے بھی گزر گیا۔ لق ودق میدان شروع ہوگئے، چاند نکل آیا تھا، ایک پرسکوت ماحول تھا اسی طرح چلتے رہنے میں لطف آرہا تھا، چلتا رہا اور نہ جانے رات کا کونسا پہر گزر گیا، پائوں کچھ وزنی محسوس ہوئے تو رک گیا، جھاڑیاں، پتھر مٹی کے تودے گڑھے جن میں پانی بھرا ہوا تھا جھینگر بے وقت کی راگنی الاپ رہے تھے۔ کسی قدر صاف ستھری جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا اور تھکن محسوس کرکے وہیں آرام کرنے کی ٹھانی۔ ایک پتھر سے سر ٹکایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ نہ جانے کتنی دیر گزر گئی۔ قدموں کی چاپ سنائی دی اور آنکھیں کھل گئیں، چار انسان نظر آئے۔ چاندنی میں انہیں صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ دیہاتی تھے لاٹھیاں اٹھائی ہوئی تھیں، لمبے تڑنگے تھے۔ سہمے سہمے قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں انہیں دیکھتا رہا اور جب وہ میرے قریب سے گزرے تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’سنو… بات سنو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چاروں رک گئے۔ انہوں نے شاید مجھے دیکھا تھا اس لیے وہ چاروں طرف دیکھنے لگے۔ پھر سب ہی دہشت سے چیخنے لگے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ایک دوسرے میں الجھ کر گر پڑے۔
’’ارے دیّا رے دیّا۔ ارے شردھانند تیرا ستیاناس۔ ہے پربھو… ہے بھگون… ارے بھاگو… ارے بھاگو۔‘‘ ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا مگر ان کی ہمت پست ہوگئی تھی۔
’’ڈرو نہیں بھائی، میں بھی تمہارا جیسا انسان ہوں، ڈرو نہیں۔‘‘ میں کھڑا ہوگیا۔
’’ہرے ماردیو، رام دیال۔ ہرے بھاگو بھیا۔‘‘ کوئی اور چیخا اس دوران میں ان کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔
’’دیکھو میں پھر کہہ رہا ہوں تم سے ڈرو نہیں میں کوئی بھوت پریت نہیں تمہارے جیسا انسان ہوں۔‘‘
’’ہرے بھیا بھوت ناہیں ہو تو کا یہاں کھیت رکھا رہے ہو؟‘‘ ایک نے ہمت کرکے کہا۔
’’مسافر ہوں سفر کررہا تھا۔ تھک کر یہاں لیٹ گیا تھا۔‘‘
’’ایں۔‘‘ ان کی کچھ ہمت بندھی ایک ایک کرکے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سب نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھا اور پھر ڈرے ڈرے انداز میں ہنسنے لگے۔
’’ارے تو ڈر کون رہا تھا۔ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے ہاں… واہ رہے رام دیال تو بھی بڑا بکٹ ہے بھائی۔‘‘
’’بس بس چپ ہوجا شرم کر جان تو تیری نکل رہی تھی مگر بھائی مسافر لگو تو تم بھوت ہی رہو۔ ارے بھیا اکیلے یہاں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
’’تم لوگ کون ہو اور اس وقت کہاں جارہے تھے۔‘‘
’’ارے بس کیا بتائیں یہ شردھانند ہے بس ہریالی بستی گئے تھے کام سے صبح کو چلتے مگر یہ گھر والی سے کہہ آیا تھا کہ رات کو واپس آجائے گا۔ بس بھیا ہمیں کھینچ کر چل پڑا حالانکہ راستے میں لال تلیا پڑے ہے مگر بھیا بیاہ کو چار مہینے ہوئے ہیں وعدہ کیسے نہ پورا کرتا ارے ہے نا شردھانند…‘‘
’’اب چلو یا یہیں پڑے رہو گے۔‘‘ شردھانند نے کہا۔
’’بھائی مسافر، تم کدھر جارہے تھے۔‘‘
’’بس سیدھا ہی جارہا تھا۔‘‘
’’کہیں دور سے آرہے ہو کا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’چلو گے ہمارے ساتھ یا یہیں جنگل میں مزے کروگے؟‘‘
’’تم لوگ کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’دھونی پور کے رہنے والے ہیں ہم۔‘‘
’’چلو، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا تھکن تھی مگر پھر بھی ان سادہ دل دیہاتیوں کے ساتھ جانے کو دل چاہا۔ وہ سب آگے بڑھ گئے تھے۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ شردھانند نے پوچھا۔
’’مسعود۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میاں بھائی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پہلے کبھی دھونی پور نا گئے؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
’’بڑھیا جگہ ہے۔ مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’ارے نابھائی نا۔ رات کا وقت ہے کچھ نا بولیں گے ہم۔ ویسے ہی اس سسرے شردھانند نے مروادیا ہے ہمیں۔‘‘ رام دیال نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔ اس کے بعد دیر تک خاموشی طاری رہی تھی پھر ان لوگوں کے قدم رکنے لگے سب ڈرے ڈرے سے لگ رہے تھے میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’لال… لال تلیا۔‘‘
’’تم لوگ پہلے بھی اس کا نام لے چکے ہو۔ یہ لال تلیا کیا ہے۔‘‘
’’ارے بھیا یہاں سے نکل چلو، بعد میں بتادیں گے۔‘‘
’’نہیں ابھی بتائو۔‘‘
’’جمناداس…‘‘ شردھانند نے خوفزدہ لہجے میں کہا اور سب رک گئے۔ شردھانند خوفزدہ انداز میں ایک طرف اشارہ کررہا تھا، میں نے اس سمت دیکھا آگ روشن تھی اور کوئی شخص بیٹھا اس جلتی آگ میں لکڑیاں ڈال رہا تھا۔ جس سے آگ اور بھڑک اٹھتی تھی۔
’’کیا بات ہے آگے نہیں چلو گے۔‘‘ میں نے پوچھا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سب وحشت زدہ نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر ان کے ساتھ کھڑا رہا پھر میں نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے میں چلتا ہوں تم یہاں آرام کرو۔‘‘
’’ارے کوئی دماغ خراب ہوا ہے تمہارا۔ آگے نہ بڑھنا بے موت مارے جائوں گے، گردن مروڑ کر رکھے دے گا تمہاری۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’سر کٹا… ہرے رام غلطی سے منہ سے نام نکل گیا۔‘‘ رام دیال نے دانتوں تلے زبان دبالی۔
’’سر کٹا کہاں ہے وہ۔‘‘
’’تلیا کنارے آگ کون جلارہا ہے۔‘‘
’’وہ سر کٹا ہے۔‘‘
’’ارے تو کیا چاچا ہے ہمارا۔‘‘ سب کے سب دہشت زدہ نظر آرہے تھے۔
’’مجھے اس کے بارے میں کچھ اور بتائو۔‘‘
’’تمہاری تو گھوم گئی ہے کھوپڑی۔ ہمیں کاہے کو مروائو ہو بھائی۔ ارے واپس چلو بھیا آج کی تو رات ہی مصیبت کی ہے۔ کہہ رہے تھے شردھانند سے آج گھر پہنچ جائیں تو جانو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم یہاں رکو میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں آگے بڑھنے لگا تو چاروں نے لپک کر مجھے پکڑلیا۔
’’ساری شیخی نکل جائے گی میاں جی رک جائو، آئو واپس چلتے ہیں۔ دن نکل آئے گا تو آگے بڑھیں گے۔ تمہیں اس کے قصے نہیں معلوم۔‘‘
’’بتائوگے تو پتہ چلیں گے نا۔‘‘
’’کوئی ایک ہو تو بتائیں جمناداس کے سارے کٹم کو کھا گیا ہے یہ۔ ہری داس کو اس نے مارا۔ سلیم چاچا کا جوان بیٹا اس کے ہاتھوں مارا گیا، کلو سنگھاڑی کی لاش تال میں گل گئی۔ راتوں کو مستی میں نکل آتا ہے اور آوازیں لگاتا ہے۔ سنگھاڑے لے لو سنگھاڑے۔ کسی نے جھانک لیا تو سمجھو گیا۔ ہماری بستی تو بھوت بستی ہوگئی ہے آج کل۔ بے چارے بنسی لعل پر تو مصیبت آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’آئو۔ بیٹھو، مجھے اس کے بارے میں مزید بتائو۔‘‘ میں نے کہا۔ بات دلچسپ تھی خلق خدا کو تنگ کیا جارہا تھا تو ذمہ داری تو آتی تھی، ان لوگوں نے معصومیت سے مکمل کہانی سنائی۔ جمناداس دھونی پور کا بنیا تھا۔ دو بیٹے ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا دکان کے کچھ پیسے جوئے میں ہار گیا۔ باپ کے خوف سے لال تلیا پر آچھپا، صبح کو اس کی اکڑی ہوئی لاش ملی تھی۔ جمناداس نے ایک منتر پڑھنے والے کو بلاکر تلیا کنارے جاپ کرایا بس غضب ہوگیا۔ منتر پڑھنے والا تو خیر بھاگ گیا مگر جمناداس کی مصیبت آگئی۔ بیوی مری، بیٹی آگ سے جل کر مرگئی پھر دوسرا بیٹا پاگل ہوگیا اور سب کے غم میں جمناداس نے دھتورہ کھاکر خودکشی کرلی۔ ہری داس اہیر بھی تلیا کنارے مارا گیا۔ سلیم چاچا کا بیٹا پہلوانی کرتا تھا۔ مسلمان تھا۔ سر کٹے کو تسلیم نہ کیا۔ تلیا کنارے آکر سرکٹے کو للکار دیا۔ بہت سے لوگوں نے بے سرکے پہلوان کو اس سے کشتی لڑتے دیکھا اور پھر نوجوان لڑکا خون تھوک تھوک کر مرگیا یہی ساری کہانیاں تھیں میں نے بنسی لعل کے بارے میں پوچھا۔ ’’وہ دوسری بات ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ارے وہ اور واقعہ ہے بنسی لعل مہاراج بھی تو کسی سے کم نہیں ہیں۔‘‘
’’وہ اس سرکٹے کا قصہ نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں وہ ان کے کرموں کا پھل ہے۔‘‘
’’چلو تم لوگ یہاں بیٹھو میں ذرا اس سے ملاقات کرلوں۔‘‘ میں نے کہا اس بار میں ان کے رو کے سے نہ رکا تھا آگ کو نشان بناکر ہی آگے بڑھا اور تالاب کے کنارے پہنچ گیا۔ خاصا وسیع قدرتی تالاب تھا جس میں سنگھاڑوں کی بیلیں تیر رہی تھیں، میں نے جلتی آگ کے پاس اسے بیٹھے ہوئے دیکھا لباس سے بیگانہ ایک لمبا تڑنگا شخص تھا اور درحقیقت اس کے شانوں پر سر موجود نہیں تھا۔ میری آہٹ پاکر وہ کھڑا ہوگیا میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کون ہے رے تو۔‘‘ ایک منمناتی آواز سنائی دی۔
’’مسعود ہے میرا نام۔ تمہارا بھی کوئی نام ہے؟‘‘
’’سورما بن کر آیا ہے؟‘‘
’’نہیں تمہیں سمجھانے آیا ہوں؟‘‘
’’کیا سمجھائے گا؟‘‘
’’تمہارا اصل ٹھکانہ کہاں ہے؟‘‘
’’تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا۔‘‘
’’تم خلق اللہ کو پریشان کرتے ہو تمہیں یہ جگہ چھوڑنا ہوگی یہاں سے چلے جائو ورنہ نقصان اٹھائو گے۔‘‘
’’لڑے گا؟‘‘ اس نے ران پر ہاتھ مارکر اچھلتے ہوئے کہا۔
’’مجبور کروگے تو لڑنا پڑے گا، میں چاہتا ہوں ایسا نہ ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ دل کہہ رہا تھا کہ جو کچھ کررہا ہوں درست ہے وہ گندی روح ہے اور انسان کو نقصان پہنچاتی ہے اسے روکنا ضروری ہے وہ کئی بار ران پر ہاتھ مارکر اچھلا اور پھر اس نے اپنے بائیں شانے سے میرے سینے پر ٹکر ماری۔ لڑکھڑا گیا، ہاتھ بڑھاکر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ اس کے بدن کے درمیان سے نکل گئے۔ اس نے عقب میں آکر پھر ایک ٹکر ماری اور میں پھر لڑکھڑا گیا مگر گرا نہیں تھا۔ ایک منمناتا بھیانک قہقہہ اس کے حلق سے نکلا اور وہ اچھل کود کرنے لگا۔ کبھی سو گز دور نظر آتا کبھی بالکل قریب، اسے چھونے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ میں نے بسم اللہ پڑھی اور تیار ہوگیا۔ اس نے قریب آکر میرے سینے پر لات ماری تو میں نے فوراً کمبل اس پر اچھال دیا اور کمبل پوری طرح پھیل کر اس پر چھاگیا، ایک بھیانک چیخ سنائی دی اور وہ زمین پر گرپڑا۔ کمبل کے نیچے وہ بری طرح جدوجہد کررہا تھا اور اس کی چیخیں بھیانک سے بھیانک تر ہوتی جارہی تھیں۔ وہ کئی کئی فٹ اچھل رہا تھا پھر اس کی آواز مدھم ہوتی چلی گئی اور کچھ دیر کے بعد کمبل بالکل زمین پر پھیل گیا جیسے اس کے نیچے کچھ نہ ہو، میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھالیا اور نیچے کا منظر دیکھ کر خود بھی حیران رہ گیا۔ زمین پر ایک بے سرکے انسانی جسم کا پورا سیاہ نشان بنا ہوا تھا جس سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں نے کمبل لپیٹ کر کندھے پر ڈال لیا نہ جانے کس طرح ان چاروں کی ہمت پڑی کہ وہ میرے قریب آگئے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھنے لگے۔
’’بھسم ہوگیا۔‘‘ رام دیال نے کہا پھر سب نے مجھے دیکھا اور اچانک چاروں ہاتھ جوڑ کر میرے پیروں سے لپٹ گئے۔ ’’جے ہو مہاراج کی۔‘‘
’’مہاراج میاں ہیں۔‘‘ دوسرا بولا۔
’’ہم سمجھے نہ تھے مہاراج۔‘‘ بمشکل تمام میں پیچھے ہٹا اور میں نے ان سے اپنے پائوں چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیا کررہے ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’آپ نے سر کٹا مار دیا مہاراج، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ہم نے۔ آپ دھرماتما ہیں۔ ہم سمجھے نہیں تھے آپ کو مہاراج۔ آپ نے سر کٹا مار دیا، ارے دیا رے دیا، یہ بات تھی اور ہم اندھے ہیں پہچان نہیں پائے آپ کو مہاراج۔ کوئی بری بات منہ سے نکل گئی ہو تو معاف کردیں، ان سب کی حالت خراب ہورہی تھی، میں نے انہیں تسلی دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔ چلئے آپ لوگوں کو ایک گندی روح سے تو نجات مل گئی۔‘‘
’’ارے مہاراج بستی والے سنیں گے تو چرنوں میں آپڑیں گے آپ کے۔ سب کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس سر کٹے نے اور مہاراج یہ تو بھسم ہوگیا
دھرتی میں سماگیا، ہرے رام۔ ہرے رام۔‘‘ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہیں، میں نے کہا۔ ’’چلو ٹھیک ہے یہ کام تو ہوگیا اب تو بستی چلوگے۔‘‘
’’اب بھی نہ چلیں گے مہاراج۔‘‘ وہ چاروں بڑی عقیدت سے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگے راستے میں، میں نے ان سے بستی میں رہنے والوں کے بارے میں پوچھا۔
’’بڑی اچھی ہے ہماری بستی مہاراج۔ ہندو، مسلمان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم اس بستی میں پیدا ہوئے، جوان ہوگئے، کبھی کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ سنسار میں ادھر ادھر لوگ لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور ہم بڑے پریم سے رہتے ہیں۔ جہاں ہم مولوی حمیداللہ کی باتیں سنتے ہیں وہیں پنڈت کرشن مراری کی کتھائیں بھی سنتے ہیں، بھگوان کا نام سب اپنے اپنے طور پر لیتے ہیں مہاراج۔ کیا ہندو کیا مسلم۔‘‘
’’مولوی حمیداللہ کون ہیں؟‘‘
’’دھونی پور کی مسجد کے مولوی صاحب ہیں، بڑے اچھے آدمی ہیں بیچارے۔‘‘
’’مسلمان یہاں کتنے آباد ہیں؟‘‘
’’ہمیں ٹھیک سے نہیں معلوم مہاراج پر بہت ہیں اور سب اپنے اپنے کام کرتے ہیں۔‘‘ راستے بھر ہم لوگ باتیں کرتے آئے اور پھر دھونی مسجد پہنچ گئے۔ صبح ہونے میں دیر ہی کتنی رہ گئی تھی۔ پھر بستی کے سرے میں قدم رکھا تو مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی اور میرے قدم رک گئے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا مسجد کا راستہ اور بتادو مجھے۔‘‘
’’وہ ہے، سیدھے ہاتھ کی سیدھ میں وہ جو روشنی جل رہی ہے۔‘‘ شردھانند نے کہا۔ میں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور پھر کہا۔ ’’اچھا تو بھائیو! میری منزل وہ ہے۔‘‘
’’دھونی پور میں رہیں گے تو مہاراج؟‘‘
’’دیکھو جو اللہ کا حکم۔‘‘
’’ہم آپ کی سیوا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں بھائی تمہارا بے حد شکریہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا اب تم لوگ اپنے گھروں کو جائو میں بھی اپنے اللہ کے گھر کی جانب قدم بڑھاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، انہوں نے ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے گردنیں جھکادیں اور عقیدت سے واپس چل پڑے۔ میرا رخ مسجد کی جانب ہوگیا تھا۔
مسجد زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ چھوٹی چھوٹی تقریباً پانچ فٹ اونچی دیواریں چاروں طرف بنی ہوئی تھیں۔ احاطہ وسیع تھا اور مسجد کی اصل عمارت بہت چھوٹی۔ احاطے میں تھوڑے فاصلے پر ایک چبوترہ بلند ہوگیا تھا۔ بائیں طرف ہاتھ سے چلنے والا نلکا لگا ہوا تھا اور اس کے بعد ایک سمت گھروں کا سا منظر تھا۔ یقینی طور پر مسجد کا حجرہ ہوگا۔ مولوی صاحب ابھی تک بلندی پر اذان دے رہے تھے غالباً یہ مسجد کی چھت کا حصہ تھا جہاں وہ موجود تھے۔ ایک سمت سے سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ میں نے کمبل ایک سمت رکھا جوتے اتارے، ہاتھ سے نلکا چلایا اور وضو کرنے بیٹھ گیا۔ اذان ختم ہوچکی تھی، غالباً مولوی صاحب نیچے اتر رہے تھے، میں نے وضو سے فراغت حاصل کرکے کمبل سنبھال کر بغل میں دبایا اور اس کے بعد ایک سمت بڑھ گیا۔ مولوی صاحب میری ہی طرف آگئے تھے۔ میں ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ چوڑا چکلا جسم اور معمر آدمی تھے، بڑی سی داڑھی سینے پر بکھری ہوئی تھی اور آنکھوں میں چمک تھی، مجھ سے بولے۔
’’مسافر معلوم ہوتے ہیں حضرت۔‘‘
’’جی مولوی صاحب۔‘‘
’’ابھی ابھی بستی میں داخل ہوئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں بس یوں سمجھ لیجئے… کہ آپ کے منہ سے اذان کی آواز نکلی اور میں نے آپ کی بستی میں پہلا قدم رکھا۔‘‘
’’خوش آمدید… میرا نام حمیداللہ ہے۔‘‘
’’خاکسار کو مسعود احمد کہتے ہیں۔‘‘
’’نمازی آنے والے ہیں ذرا انتظامات کرلوں اس کے بعد آپ سے گفتگو رہے گی۔ نماز کے بعد چلے نہ جائیے گا۔ صبح کا ناشتہ میرے ساتھ کیجئے گا۔‘‘
’’بہتر۔‘‘ میں نے جواب دیا اور ایک گوشے میں جابیٹھا۔ آنکھیں بند کیں اور درود شریف کا ورد شروع کردیا۔ مولوی صاحب مجھ سے ملنے کے بعد کہیں چلے گئے تھے۔ کچھ دیر کے بعد مسجد کے دروازے سے نمازیوں کا داخلہ شروع ہوگیا۔ نلکا چلنے کی آوازیں ابھرتی رہیں۔ کوئی بیس بائیس افراد جمع ہوگئے۔ مولوی صاحب بھی تیار ہوکر واپس آگئے اور پھر میں نے نماز باجماعت ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد نمازی تو ایک ایک کرکے چلے گئے، بہتر جگہ اور کون سی ہوسکتی تھی چنانچہ میں وہیں بیٹھا رہا اور درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ مولوی صاحب میرے قریب آگئے تھے کہنے لگے۔ ’’آئیے مسعود صاحب تشریف لائیے، چائے تیار ہوگئی ہے ناشتہ کچھ دیر کے بعد پیش کیا جائے گا۔‘‘
’’زحمت ہوگی آپ کو…‘‘
’’نہیں۔ مہمان رحمت خداوندی ہوتے ہیں اور پھر اتنی صبح ہماری بستی میں داخل ہونے والا مہمان تو ہمارے لئے بڑا باعث رحمت و برکت ہوسکتا ہے۔ آئیے تکلف نہ کیجئے، مجھے میزبانی کا شرف بخشیئے۔‘‘
میں مولوی صاحب کے پیچھے چل پڑا۔ مسجد کا وہ بغلی حصہ جسے میں گھروں کا سلسلہ سمجھا تھا ایک سرے سے دوسرے سرے تک مولوی صاحب ہی کے پاس تھا۔ اندرونی حصے میں شاید ان کے اہل خانہ کی رہائش تھی، تھوڑا سا برآمدہ تھا، اس کے بعد وسیع و عریض صحن، جس میں املی کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے اور ان کی چھائوں بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔ سورج ابھی پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا لیکن اجالا تیزی سے پھیل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے کچی مٹی کے پیالے میں چائے پیش کی اور میں نے اسے قبول کرلیا۔ مولوی حمیداللہ میرے سامنے بیٹھ گئے تھے، بغور مجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔ ’’میاں برا نہ مانئے گا ہماری اور آپ کی عمروں میں جتنا فرق ہے اس کے تحت اگر کہیںکوئی تھوڑی سی بے تکلفی کی گفتگو ہوجائے تو برا نہ محسوس کریں۔‘‘
’’نہیں مولوی صاحب۔ بزرگ ہیں آپ میرے۔‘‘
’’کہنا یہ چاہتے تھے کہ ویسے تو آپ ایک عام سے نوجوان ہیں، لیکن نجانے کیوں آپ کے چہرے میں ایک خاص بات محسوس ہوتی ہے ہمیں…‘‘
’’کیا عرض کرسکتا ہوں؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مزید تعارف نہ ہوگا…؟‘‘
’’کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے میری جو قابل تعارف ہو، بس یوں سمجھ لیجئے کہ صحرا نورد ہوں، نجانے کہاں کہاں گھومتا رہتا ہوں۔ میں اچانک اس بستی کی جانب نکل آیا۔ علم بھی نہیں تھا کہ کون سی بستی ہے یہ اور پھر آپ نے اذان دے دی…‘‘
’’کہیں نہ کہیں تو رہائش ہوگی آپ کی۔ کوئی نہ کوئی تو مشغلہ ہوگا…!‘‘
’’بس یہی مشغلہ ہے۔ اس سے زیادہ کیا کہوں۔‘‘
مولوی حمیداللہ صاحب گہری نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے، چائے کے گھونٹ لیتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’میاں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جی جی، کہئے…‘‘
’’اب اس بستی میں تشریف لائے ہیں آپ تو کچھ وقت ضرور میرے ساتھ اس بستی میں قیام کیجئے گا، مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’اور مجھے ندامت…‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ کو زحمت ہوگی۔‘‘
’’اب ان تکلّفات کی گنجائش نہیں ہے۔ مسعود صاحب میری درخواست ہے، جب تک بھی ممکن ہوسکا، آپ یہاں قیام فرمائیے گا۔ دیکھئے یہاں املی کے درخت کے نیچے چارپائی ڈلوادوں گا آپ کی۔ آرام سے قیام کریں اور پھر ہمارا کیا جاتا ہے۔ اللہ کی سمت سے رزق حاصل ہوتا ہے اور ہم سب کھاتے ہیں، آپ کا اضافہ ہوگا تو یقینی طور پر رزق میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔‘‘ میں نے مسکراکر گردن ہلادی۔
تقریباً ساڑھے آٹھ بجے حمیداللہ کے گھر سے پراٹھے اور ترکاری آگئی ساتھ میں چائے بھی تھی۔ میں نے ان کے ساتھ ناشتہ کیا۔ حمیداللہ صاحب کہنے لگے… ’’اور اگر صبح کے اس حصے میں آپ یہاں پہنچے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ رات بھر سفر کیا ہوگا۔ اب مناسب یہ ہے کہ ظہر کے وقت تک آرام فرمائیے گا اگر نیند گہری ہوگئی تو میں نماز کے وقت جگادوں گا۔‘‘
میں نے قبول کرلیا تھا۔ املی کے درخت کے نیچے پڑی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا۔ کمبل سرہانے رکھ لیا اور آنکھیں بند کرکے یہ تصور کرنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔
ذہن میں خیالات بیدار ہونے لگے۔ حکم ملا کہ ابھی یہاں قیام کرنا ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی تھی یہ میری اپنی آواز تھی جو میرے کانوں میں گونجی تھی۔ ایسا کیوں ہے۔ مجھے اپنی ہی آواز خود سے دور کیوں محسوس ہوتی ہے۔
’’یہ سب کچھ جاننا ضروری نہیں ہے۔ کچھ باتوں کو جاننے کے لیے وقت متعین ہوتا ہے۔ سوجائو۔‘‘ مجھے پھر اپنی آواز سنائی دی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اب کسی انحراف کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ دوپہر کو مولوی حمیداللہ نے جگایا اور میں اٹھ گیا۔ مولوی صاحب بولے۔
’’مسعود میاں۔ ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ خوب سوئے اب جاگ جائیے۔‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’ساڑھے بارہ بج گئے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں۔ غسل کریں گے…؟‘‘
’’اگر زحمت نہ ہو تو۔‘‘
’’نہیں۔ گرم حمام موجود ہے۔ زحمت کیسی۔ یہ اور بتادیں کہ کھانا نماز کے بعد کھائیں گے یا پہلے۔‘‘
’’بعد میں ہی مناسب رہے گا ورنہ جو حکم ہو۔‘‘
’’میں خود بھی نماز کے بعد کھاتا ہوں۔ آئیے حمام بتادوں۔‘‘
غسل سے فارغ ہوکر باہر نکلا۔ مسجد کے دروازے کے باہر سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے غور نہیں کیا۔ اپنی جگہ جا بیٹھا۔ کچھ دیر کے بعد مولوی حمیداللہ صاحب مسکراتے ہوئے آگئے۔
’’کہیئے نیند پوری ہوگئی۔‘‘
’’اللہ کا احسان ہے۔‘‘
کچھ پوچھ سکتا ہوں۔‘‘
’’جی فرمائیے…؟‘‘
’’یہ سر کٹے کا کیا قصہ ہے۔‘‘
’’خیریت۔ کیا ہوگیا…؟‘‘
’’صبح دس بجے سے لوگوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’آپ کو علم نہیں ہے۔ کسی سر کٹے کو جلاکر راکھ کردیا ہے آپ نے۔‘‘
’’اوہو… وہ… جی ہاں۔ بس وہ اللہ کے کلام سے ٹکرانے آگیا تھا۔ ویسے بھی خلق اللہ سے دشمنی کررہا تھا۔‘‘
’’میں ایک جاہل دیہاتی ہوں مسعود احمد صاحب۔ میرا کوئی امتحان نہ لے ڈالیے گا۔ اللہ کے واسطے۔‘‘
’’کوئی گستاخی ہوگئی محترم…؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
’’شرمندہ نہ کریں مسعود احمد صاحب، اپنے بارے میں عرض کررہا ہوں مجھ سے گستاخی ہوجائے تو درگزر فرمائیے۔‘‘
’’آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ آپ بزرگ ہیں اور پھر آپ نے بڑی خاطر داری کی ہے میری۔ ویسے یہ سرکٹا۔‘‘
’’جی ہاں۔ خبیث روح تھی۔ لال تالاب پر کوئی بیس سال سے قبضہ جما رکھا تھا۔ ذات کا دھوبی تھا مگر بڑا سرکش اور کمینہ انسان تھا۔ اس نے مشتعل ہوکر اپنے باپ کو قتل کردیا تھا۔ ماں اس واقعے سے متاثر ہوکر کنویں میں کود کر مرگئی۔ بستی والوں نے بستی سے نکال دیا تو تالاب کے پاس جاکر رہنے لگا۔ یہاں اسے سانپ نے ڈس لیا اور کوئی بارہ پندرہ دن کے بعد اس کی سڑی ہوئی تعفن زدہ لاش کا پتہ چلا۔ لوگوں نے اسے ہاتھ بھی نہ لگایا اور وہ وہیں مٹی ہوگئی مگر پھر راتوں کو اور دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اسے تالاب کے کنارے چھورام چھورام کرتے دیکھا جانے
لگا۔ ادھر سے گزرنے والے بے شمار افراد کو اس نے اپنی خباثت کا شکار بنایا۔ کافی خوف و ہراس چھایا رہتا ہے اس کی وجہ سے۔ مجبوری یہ ہے کہ بستی سے باہر کا راستہ ایک ہی ہے۔ دھونی پور کے لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ہیں۔ دوپہر کو بارہ بجے سے تین بجے تک کوئی ادھر سے نہیں گزرتا اور شام کو سورج چھپنے کے بعد سے صبح سورج نکلے ادھر سے سفر نہیں کیا جاتا۔ کوئی بھولا بھٹکا گزر گیا تو بس اس کا شکار ہوگیا۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے۔ موذی سے نجات ملی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’لوگ صبح سے آرہے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔ یہ ایک تکلیف دہ پہلو ہے۔‘‘
’’ٹالتا رہا ہوں کہ آپ سو رہے ہیں۔ مگر ملنا پڑجائے گا آپ کو… بڑی عقیدت سے آرہے ہیں۔ کچھ مقامی لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ بتایا بستی والوں کو۔ یوں سمجھ لیں پوری بستی میں کاروبار بند ہے لوگ جوق در جوق لال تالاب جارہے ہیں۔ وہاں اس کے زمین میں زندہ جل جانے کا نشان موجود ہے…!‘‘
’’اللہ کا یہی حکم تھا اس کے لیے، مگر اب میں کیا کروں…؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔
’’بس ایک بار مل لیں ان سے۔ ویسے بھی کسی کا دل رکھنا عبادت ہے۔‘‘
’’چلیے…!‘‘
’’ابھی مناسب نہ ہوگا۔ میں اعلان کیے دیتا ہوں کہ نماز کے بعد آپ باہر آئیں گے۔‘‘
’’نہیں۔ اس میں رعونت کا پہلو جھلکتا ہے۔ آئیے ان سے ملاقات کرلیں۔‘‘
’’سبحان اللہ۔ آئیے۔‘‘ حمیداللہ صاحب بولے اور میں ان کے ساتھ باہر نکل آیا، بیس بائیس افراد تھے، زیادہ تر ہندو تھے چند مسلمان۔ مولوی حمیداللہ نے کہا۔ ’’لیجئے ٹھاکر جیون کمار جی۔ مل لیجئے مسعود میاں سے۔‘‘
’’ہیں… یہ ہیں وہ مہان پرش۔ چرن چھوئیں گے ہم ان کے۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے کہا اور آگے بڑھے۔ میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
’’آپ مجھ سے ہاتھ ملائیں ٹھاکر صاحب میرے گلے لگیں۔ میں اتنا بڑا انسان نہیں ہوں کہ آپ میرے پائوں چھوئیں۔‘‘
’’آپ نے جتنا بڑا کام کیا ہے میاں جی وہ تو ایسا ہے کہ ہم آپ کو سر پر بٹھائیں۔ دھونی بستی کو نیا جیون دیا ہے آپ نے۔‘‘
’’اس کے لیے آپ اپنے بھگوان کا اور مسلمان اللہ کا شکر ادا کریں۔ میں تو بس ایک ذریعہ بنا ہوں۔ مجھے تو اس خبیث کا علم بھی نہیں تھا۔ آپ کی بستی کے چار جوان مجھے اس کے سامنے لے آئے۔‘‘
’’وہ پھر تو نہ جی جائے گا مہاراج۔‘‘
’’ان شاء اللہ اب ایسا نہ ہوگا…!‘‘
’’ہم بستی والے آپ کی کیا سیوا کریں مہاراج۔ آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔‘‘
’’مجھے صرف آ پ کی دعائیں درکار ہیں۔‘‘
’’آپ ابھی جائیں گے تو نہیں مہاراج۔‘‘
’’نہیں۔ مولوی حمیداللہ صاحب کے حکم کے بغیر میں یہاں سے نہیں جائوں گا…!‘‘
’’ہم آپ کے چرنوں میں کچھ بھینٹ کریں گے۔‘‘
’’مجھے آپ کی دعائوں کے سوا کچھ نہیں چاہئے۔‘‘
’’ہم آپ سے پھر مل سکتے ہیں مہاراج…؟‘‘
’’جہاں حکم دیں گے حاضری دوں گا!‘‘
’’نماز کا وقت ہونے والا ہے ٹھاکر صاحب! اب اجازت دیجئے…!‘‘ حمیداللہ صاحب نے کہا اور سب مجھے سلام کرکے واپس چلے گئے۔ نماز پڑھی۔ کھانا کھایا اور اس کے بعد حمیداللہ صاحب املی کی چھائوں میں میرے پاس آبیٹھے…
’’چراغ تلے اندھیرا ہے مسعود احمد صاحب۔ میں نے خود تو آپ کو خراج عقیدت پیش ہی نہیں کیا۔ اپنے بارے میں مختصر بتادوں۔ اسی بستی میں پیدا ہوا۔ یہیں پروان چڑھا والد صاحب کا منصب سنبھالا، دو جوان بیٹیوں کا باپ ہوں۔ اہلیہ ہیں اور میں ہوں۔ بس اللہ کا نام جانتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں…!‘‘
’’اس سے زیادہ کچھ ہے بھی نہیں حمیداللہ صاحب۔ اللہ آپ کی مشکلات دور کرے۔‘‘
یہاں آکر خوشی ہوئی تھی جھگیوں کی بستی تھی۔ لوگوں نے بڑا احترام کیا تھا جوق در جوق ملنے آتے رہے تھے۔ بہت کچھ چاہتے تھے مجھ سے۔ میں خود شرمندہ ہوگیا تھا۔ نماز وغیرہ سے فراغت کرکے رات کا کھانا کھایا بہت دیر تک لوگوں کے درمیان بیٹھا رہا۔ پھر زیادہ رات ہوئی تو آرام کرنے لیٹ گیا۔ نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا تھا… پھر غنودگی طاری ہوگئی۔ دفعتاً ہی کچھ آہٹیں ابھریں اور آنکھیں کھل گئیں۔ نظر سامنے اٹھ گئی۔ احاطے کی دیوار پر دو پائوں لٹکے ہوئے تھے۔ صرف دو پائوں جو عجیب سے انداز میں جنبش کررہے تھے باقی جسم کا وجود نہیں تھا۔
آنکھیں پوری طرح کھل گئیں… پھر کوئی آ گیا… پھر کچھ کرنا ہے… غور سے دیکھنے لگا پھر کچھ تصوّر بدلا، خالی پائوں نہیں تھے باقی بدن بھی تھا جس جگہ سے احاطے کی دیوار نظر آ رہی تھی، وہاں اِملی کے درخت کی گھنی شاخیں جھکی ہوئی تھیں اور جو کوئی دیوار پر تھا اس کا باقی جسم پتوں کی آڑ میں چھپا ہوا تھا یہ اس وقت پتا چلا جب وہ نیچے کودا، شاید کمزور بدن کا مالک تھا چونکہ زیادہ بلندی نہ ہونے کے باوجود وہ نیچے گر پڑا تھا، میں خاموش لیٹا یہ کھیل دیکھتا رہا۔ وہ اُٹھ کر میری طرف بڑھنے لگا اور پھر میرے قریب آ گیا۔ آنکھوں میں جھری کر کے میں اسے دیکھنے لگا۔ دھوتی کرتا پہنے ہوئے ایک سفید بالوں والا شخص تھا۔ مونچھیں بڑی اور سفید تھیں، کچھ سمجھ میں نہیں آیا کون ہے وہ، میرے پلنگ کے پاس کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر اس نے لرزتے ہاتھ سے میرے پائوں کا انگوٹھا پکڑ کر ہلایا اور اس کی آواز اُبھری۔
’’مہاراج… جاگیے مہاراج… سوالی آیا ہے اور آپ سو رہے ہیں جاگیے مہاراج۔‘‘
اب اُٹھنا ضروری تھا میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور زمین پر بیٹھ گیا، تب میں جلدی سے اپنی جگہ سے اُترا اور میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے… ارے… یہ کیا کر رہے ہیں آپ یہاں بیٹھئے مجھے گناہ گار کر رہے ہیں۔‘‘
’’بھگوان سکھی رکھے جسے بھگوان عزت دیتا ہے وہ دُوسروں کو عزت دیتا ہے مگر میں آپ کے چرنوں میں بیٹھنا چاہتا ہوں۔ سوالی ہوں، مجبور ہوں، دُکھی ہوں، آپ کے سائے میں سر جھکا کر آپ سے مدد مانگنے آیا ہوں۔‘‘
’’آپ آرام سے یہاں بیٹھیں اور مجھے بتائیں کیا بات ہے۔‘‘ میں نے اسے اُٹھا کر پلنگ پر بٹھا دیا۔
’’اَنا کا مارا ہوا ہوں مہاراج… پر دوش اکیلے میرا نہیں ہے، پرکھے ہی سکھا کر گئے تھے، وہ تو ایک معیار بتا کر چلے گئے نقصان مجھے ہوا اور اب سچ بھی بولوں گا تو لوگ مذاق اُڑائیں گے میرا، کوئی سچ نہ مانے گا سب یہی کہیں گے کہ ٹھاکر پر بپتا پڑی تو سیدھا ہوگیا ہے بھگوان… میرا کوئی ہمدرد نہیں رہا سنسار میں…‘‘
آنے والے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اسی لیے مہاراج رات کی تاریکی میں آیا ہوں آپ کو دُکھ دیا معاف کر دیں۔‘‘ اس کی آواز آنسوئوں میں گندھی ہوئی تھی۔
’’تمہارا معاملہ قدرت کے ہاتھ ہے خدا کا یہ گناہ گار بندہ اگر تمہاری کچھ مدد کر سکتا ہے تو اس سے گریز نہیں کرے گا۔‘‘
’’بپتا سنو گے میری؟‘‘ وہ بولا۔
’’ضرور سنوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بنسی راج بہادر ہے میرا نام… کھرا برہمن ہوں ، بیس باغ کا مالک ہوں اور ہزاروں بیگھے زمین چھوڑی ہے پرکھوں نے، ساتھ میں یہ نصیحت بھی کہ اپنے علاوہ سب کو نیچ سمجھو، دولت سنسار کی سب سے بڑی بڑائی ہے۔‘‘
’’کیسا پایا اس نصیحت کو۔‘‘
’’مار دیا سسروں نے مجھے یہ سوچ دے کر… سنسار میں سب سے نیچا کر دیا مجھے۔‘‘
’’اب تم کیا ہو۔‘‘
’’ایک بے بس اَپرادھی… جو کسی مدد کرنے والے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تلاش کر رہا ہے بیس باغ اور ہزاروں بیگھے زمین بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔‘‘
اس کی سسکیاں جاری ہوگئیں، میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوگیا۔ میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے دھرم کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہتا لیکن میرا دین کہتا ہے کہ اگر کسی نے گناہ کیا ہے تو اس کی سزا دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر تم کسی کے کام آ سکتے ہو تو اس سے گریز نہ کرو۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تمہارا معاملہ تمہارے اور خدا کے درمیان ہے۔ میری ذات سے اگر تمہیں کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو میں ضرور تمہارے لیے جو کچھ بھی مجھ سے بن پڑے گا کروں گا۔ اب وقت ضائع نہ کرو اپنے بارے میں جو کچھ بھی بتانا چاہتے ہو بتا دو۔‘‘
’’تھوڑا بہت تو بتا چکا ہوں مہاراج اس سوچ نے مجھے سنسار سے دُور کر دیا تھا۔ ہر ایک کو نیچ سمجھنا میرا کام بن گیا تھا۔ کسی کو اپنے خلاف پایا پکڑوایا۔ جوتے لگا دیئے، کسی نے زیادہ سرکشی کی تو ہاتھ پائوں تڑوا دیئے، بڑے بڑے عزت داروں کی عزت اُچھال دی میں نے، پانچ بیٹے تھے میرے دو بیٹیاں اور یہ سب میری نگاہوں میں دھونی پور کے سب سے اُونچے لوگ تھے کیونکہ میری اولادوں میں سے تھے۔ ایک بہن بھی ہے میری۔ ہرناوتی نام ہے اس کا، میری بیٹیوں سے دو چار سال ہی بڑی تھی، کہانی لمبی نہیں سنائوں گا مہاراج، ہرناوتی بہک گئی جوانی کے جوش میں، اس نے پرکھوں کے ریت رواج بھلا دیئے اور ایک نیچ ذات سے پریم کر بیٹھی۔ ہیرا تھا اس کا نام، لاکھو کا بیٹا تھا۔ دھونی پور کے ایک مشرقی گوشے میں گھر بنا کر رہتا تھا، نوکر تھا ہمارا مہاراج، ہماری زمینوں پر کام کرتا تھا، باپ بیٹے ہمارا دیا کھاتے تھے۔ پھر بھلا ٹھاکر بنسی راج بہادر یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ہیرا پوری آنکھیں کھول کر ہرناوتی کو دیکھے، پر ایسا ہوا نہ جانے کب اور کہاں ملے تھے وہ لوگ، ہرناوتی، ہیرا کے پریم میں گرفتار ہوگئی اور چھپ چھپ کر اس سے ملنے لگی، بستی والوں نے دیکھا کسی کی مجال تو نہیں تھی کہ کوئی ہم سے آ کر یہ بات کہہ سکے لیکن آپس میں کانا پھوسیاں کرتے تھے، ہمیں اس سمے تک کچھ نہیں معلوم تھا لیکن پھر میری دھرم پتنی نے ایک رات ہرناوتی کو گھر سے چوری چوری نکلتے ہوئے دیکھا تو چونک گئی، دن بھر اور رات بھر سوچتی رہی اور مجھے بتا دیا، میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ مہاراج دُوسری رات میں نے ہرناوتی کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ چاندنی رات میں میرے ہی باغ کے ایک گوشے میں وہ لاکھو کے بیٹے ہیرا کے پاس بیٹھی ہوئی ہے۔ دونوں باتیں کر رہے ہیں اور سنسار سے بے خبر ہوگئے ہیں۔ خون اُتر آیا تھا میری آنکھوں میں۔ سوچتا رہا کہ کیا کروں اور جب برداشت نہ کر سکا تو ان کے سامنے پہنچ گیا، میں نے ان کے پاس پہنچ کر کڑک دار آواز میں دونوں کو مخاطب کیا تو دونوں تھر تھر کانپنے لگے۔ ہیرا میرے قدموں میں گر گیا اور میں نے زوردار ٹھوکر مار کر اس کا سر پھوڑ دیا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا لیکن میری بہن ہرناوتی نے اپنی ساڑھی کا پلو پھاڑ کر میرے ہی سامنے اس کے ماتھے پر پٹی کسی اور پھر آنکھیں نکال کر مجھ پر کھڑی ہوگئی۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ حق کس نے دیا ہے کہ میں اس کے پتی کو اس طرح ٹھوکر ماروں، اس بات پر میں جو کچھ نہ کر ڈالتا کم تھا لیکن عقل سے کام لیا، خون میرا ہی تھا، ہرناوتی کی یہ مجال کبھی نہ ہوئی تھی کہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی بھی ہو جائے لیکن اس سمے وہ جس طرح بات کر رہی تھی وہ چونکا دینے والی بات تھی، میں نے اسے خونی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ تیرا پتی کہاں سے ہوگیا ری کمینی؟‘‘
’’تم اسے پاپ کہہ سکتے ہو بھیا جی مگر اب یہ پاپ میں کر چکی ہوں۔‘‘
’’کب کیسے…؟‘‘
’’ہیرا سے میں بہت پہلے سے پریم کرتی ہوں، ہم دونوں کا پریم پوتر تھا اور جب میں نے ہیرا کو مجبور کیا کہ وہ میرے ساتھ پھیرے کر لے تو میرے مجبور کرنے سے ہیرا بھی مجبور ہوگیا اور اس نے رام مندر میں جا کر پجاری شونارائن کے سامنے اگنی کے گرد میرے ساتھ پھیرے کر لیے اور میں اس کی پتنی بن گئی۔ ہم جانتے تھے مہاراج کہ آپ کو پتا چلے گا تو آپ کا من سلگ اُٹھے گا اس لیے چھپ چھپ کر یہاں ملتے ہیں اور اس سمے کا انتظار کر رہے ہیں جب آپ ہم دونوں کو ساتھ رہنے کی آگیا دے دیں گے۔‘‘
’’تو سچ کہہ رہی ہے…؟‘‘
’’بھیا جی کی سوگند بالکل سچ…‘‘
’’ٹھیک ہے گھر جا بات کروں گا میں تجھ سے پھر۔‘‘ میں نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ بہن کو بیٹی ہی کی طرح پالا تھا میں نے… ماتا پتا جی تو پہلے ہی مر چکے تھے محبت بھی تھی مجھے اس سے لیکن اپنی اَنا، اپنا مان سب سے پیارا تھا یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا کہ کل کا دن اگر بستی والوں کو یہ بات پتا چلے تو میری کیا عزت رہ جائے گی، کوئی کام تو کرنا تھا ایسا جس سے یہ بات راز میں رہ جائے چاہے اس کے لیے مجھے کتنی ہی انسانی زندگیوں کی قربانی دینی پڑے۔ بہرحال میں نے اپنے ایک خاص آدمی امرناتھ کو اس کام کے لیے آمادہ کیا۔ جب دُوسری رات میں نے امرناتھ کو بلا کر اسے یہ کہانی سنائی تو امرناتھ گردن جھکا کر بولا کہ مہاراج مجھے تو یہ بات پہلے سے معلوم تھی۔ بڑا غصہ آیا مجھے امرناتھ پر اور میں نے غرا کر اس سے کہا۔ ’’کمینے، نمک حرام، اگر تجھے یہ بات معلوم تھی تو مجھ سے کیوں نہ کہا تو نے؟‘‘
’’ہمت نہیں پڑی تھی مہاراج، ہمت نہیں پڑی تھی۔‘‘
’’اب یہ بتا کہ کیا کیا جائے…؟‘‘
’’مہاراج سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہرناوتی جی ہی سب کے سامنے یہ سب کچھ کہنے کو تیار ہیں۔ آپ نے پہلے کبھی غور نہیں کیا مگر میں یہ دیکھ چکا ہوں کہ وہ اس شادی کو چھپانا نہیں چاہتیں اور بڑی ہمت سے سنسار کے سامنے آنے کو تیار ہیں۔‘‘
’’نکال دوں گا اسے گھر سے باہر، ٹکڑے ٹکڑے کا محتاج کر دوں گا۔‘‘
’’اگر آپ یہ بات ہرناوتی جی سے کہیں گے تو وہ آپ کے چرن چھوئیں گی اور خوشی خوشی گھر سے چلی جائیں گی۔ محبت کی کہانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں مہاراج، آپ کو اس سے کوئی خاص کامیابی نہیں حاصل ہوگی۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کروں امرناتھ، مجھے بتا میں کیا کروں؟‘‘
’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا مہاراج آپ مجھ سے کہیں بڑا دماغ رکھتے ہیں۔‘‘
’’سب نے میرے ساتھ غداری کی ہے۔ ایک ایک کو دیکھ لوں گا میں اور وہ پجاری شونارائن اس نے پھیرے کرا دیئے میری بہن کے ایک نیچ ذات کے ساتھ، جیتا رہ سکے گا وہ؟ پہلے اسی کی زبان بند کروں گا، امرناتھ پہلے میں اسی کی زبان بند کروں گا، جیتا نہیں چھوڑوں گا اسے۔‘‘
’’مندر کا معاملہ ذرا دُوسرا ہوتا ہے مہاراج۔ ویسے بھی آپ یہ بات جانتے ہیں کہ دولت مندوں کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ دھونی پور کے لوگ آپ سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے اس قدم سے وہ آپ کو نقصان پہنچانے پر تل جائیں۔‘‘
’’ایک ایک کو مروا دوں گا، ایک ایک کو ختم کرا دوں گا۔‘‘ میں نے غرا کر کہا۔
’’نہیں مہاراج دھونی پور کے ساروں کو آپ نہیں مار سکتے۔ آپ کو کچھ اور ہی سوچنا ہوگا۔‘‘ امرناتھ کی بات سمجھ میں آنے والی تھی۔ میں سوچتا رہا پھر میں نے کچھ فیصلے کر لیے، میں نے کہا۔ ’’تو یہ کام خاموشی ہی سے کرنا ہوگا امرناتھ اور تجھے میرا ساتھ دینا پڑے گا، اتنی دولت دوں گا تجھے کہ جاگیردار بن کر جیون بسر کرے گا۔ میری عزت بچانا اس وقت تیرا بھی کام ہے۔‘‘
’’امرناتھ اپنی جان دینے کو تیار ہے مہاراج منہ سے بول کر دیکھیں۔‘‘ تب میں نے امرناتھ کے ساتھ مل کر ایک ایسا منصوبہ بنایا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہی کیا میں نے، بادلوں بھری ایک رات ہم گھر سے باہر نکلے، امرناتھ کو میں نے جو ہدایات دے دی تھیں وہ ان پر عمل کر رہا تھا، اس بیچ میں نے ہرناوتی سے کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ جب دُوسری رات وہ چوری چوری گھر سے باہر نکلی تب بھی میں نے اسے نہ روکا حالانکہ میں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس پاپی اچھوت کے ساتھ وقت گزارتی رہی مگر میں اپنا کام آگے بڑھانے کا پورا پورا منصوبہ بنا چکا تھا، میں اور امرناتھ رام مندر پہنچے، پجاری شونارائن جی کو اُٹھایا اورا ن سے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے، پجاری جی سچّے آدمی تھے، انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ دو پریم کرنے والے ایک ہونا چاہتے تھے، انہوں نے سنسار کی ریت کے مطابق وہ سب کچھ کر دیا جو انہیں ایک کر دیتا، تب میں نے زہر کی شیشی شونارائن جی کو دیتے ہوئے کہا۔
’’اور آپ نے جو کچھ کیا شونارائن جی اس کے نتیجے میں آپ کو یہ موت قبول کرنا ہوگی۔‘‘ شونارائن مسکراتے ہوئے بولے۔
’’موت اور جیون بھگوان کی لین دین ہے، اگر اس زہر سے میری موت لکھی ہے تو مجھے یہ ہر حالت میں پینا پڑے گا اور اگر ابھی کچھ جیون باقی ہے تو یہ زہر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘ سو میں نے دیکھا کہ شونارائن جی زہر کی پوری شیشی حلق میں اُنڈیل گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کے ہاتھ پائوں مڑ گئے۔ ہم نے پہلے سے سارا بندوبست کر رکھا تھا، زہر نکلے ہوئے ایک سانپ کی دُم مروڑ کر اسے شونارائن جی کے پائوں سے چپکا دیا اور سانپ کے دانت شونارائن جی کے پائوں میں گڑھ گئے تاکہ دیکھنے والے یہی سمجھیں کہ پنڈت شونارائن مہاراج سانپ کے ڈسے سے مرے۔ اس طرح ہم نے ہرناوتی اور ہیرا کی شادی کے اس سب سے بڑے گواہ کو ختم کر دیا لیکن بات یہیں تک محدود نہیں رہنی تھی۔ دُوسرا انتظام بھی کرنا تھا۔ شونارائن جی کی موت پر کسی نے کوئی شبہ نہیں کیا۔ ہرناوتی چھ راتیں ہیرا سے ملتی رہی مگر ساتویں رات ہیرا کے جیون میں کبھی نہیں آئی۔ منصوبے کے مطابق ہرناوتی کو دُوسرے گائوں بھیجا گیا اور وہ سب کے ساتھ خوشی خوشی گئی تھی مگر میں اور امرناتھ آٹھ آدمیوں کے ساتھ تیار تھے۔ ہم لوگ رات کی تاریکی میں لاکھو کے گھر پہنچے دروازہ بجایا تو لاکھو نے دروازہ کھول دیا۔ میرے آدمیوں میں سے ایک نے اس کے سر پر لاٹھی ماری اور لاکھو ’’ہائے‘‘ کہہ کر ڈھیر ہوگیا، تب ہیرا باہر نکلا اور ہم نے اسے بھی لاٹھیوں پر رکھ لیا، پھر گھر کی تین عورتوں، باپ، بیٹے اور ایک بچّے کو ہم نے ہاتھ پائوں باندھ کر وہیں ڈال دیا اور اس کے بعد پورے گھر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی، اتنی تیز آگ لگائی تھی ہم نے اور اتنا تیل ڈالا تھا کہ کوئی ان کی مدد نہ کر پائے۔ بیس گھر جلے تھے اس آگ سے اور ہیرا اور لاکھو اپنے مزید پانچ گھر والوں کے ساتھ جل کر بھسم ہوگئے تھے اس گھر میں۔ تب میرے دل کو سکون ملا۔ ہرناوتی واپس آگئی، بستی والے کبھی یہ نہ جان سکے کہ آگ کیسے لگی۔ بس انہوں نے کوئلہ ہوئی لاشیں نکالی تھیں اور ان کا کریا کرم کر ڈالا تھا مگر ہرناوتی مجھے شبہے کی نظروں سے دیکھتی تھی اور پھر ایک رات وہ میرے پاس پہنچ ہی گئی۔ میں اس وقت اپنے کسی کام میں مصروف تھا۔ ہرناوتی کا چہرہ دیکھ کر میں چونک پڑا اور میں نے اس سے پوچھا کہ اس کا کیسے آنا ہوا تو اس نے پُراسرار لہجے میں کہا۔ ’’میرا سہاگ کیسے بھسم ہوا مہاراج؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’مگر مجھے معلوم ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا معلوم ہو گیا ہے۔‘‘
’’میرے سسر لاکھو کے گھر میں آگ لگی نہیں لگائی گئی تھی۔‘‘
’’لگائی گئی تھی، کس نے لگائی؟‘‘
’’امرناتھ، بھیل چند، شکتی لعل، پرسی رام، رگھو، شنکر، راجن اور سونا آگ لگانے والے تھے اور آپ آگ لگوانے والے۔‘‘
’’کیا بک رہی ہے۔‘‘ میں غصے سے دھاڑا۔ مگر میرے بدن میں سردی دوڑ گئی تھی، سارے نام سچے تھے کس نے مخبری کر دی نہ جانے کس نے زبان کھول دی۔ ہرناوتی حیرت انگیز طور پر پُرسکون تھی اس نے کہا۔
’’شبہ تو مجھے پہلے ہی تھا بھیا جی۔ آخر آپ میرے بھیا ہیں، ہم نے ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے مگر آپ نے جو انیائے کیا، وہ اچھا نہیں تھا۔ سارے کنبے کو مروا دیا، بچّے کو بھی نہ چھوڑا، دوش تو ہیرا کا تھا مہاراج، سب کا تو نہیں تھا۔ آپ کو رحم نہ آیا ان پر، زندہ جلوا دیا آپ نے انہیں آگ میں۔‘‘
’’ہرناوتی، جو کچھ میں نے تیرے ساتھ آج تک کیا ہے اس کا یہ بدلہ دے رہی مجھے، الزام لگا رہی ہے میرے اُوپر، ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو جا تھانے چلی جا میرے خلاف رپٹ درج کرا دے، گرفتار کرا دے مجھے ان سب کے قتل کے الزام میں۔‘‘ ہرناوتی عجیب سے انداز میں ہنسی پھر بولی۔
’’کہا تھا میں نے ہیرا سے بھیا جی، کہا تھا مگر اس نے کہا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بنسی راج مہاراج بڑے اختیار والے ہیں۔ پولیس کو اپنے جال میں پھانس لیں گے مال و دولت دے دیں گے اسے اور بات ختم ہو جائے گی لیکن اب اپنا کام ہیرا خود ہی نبٹائے گا بنسی راج مہاراج۔‘‘
’’کک… کیا بک رہی ہے تو… تو… تو کہتی ہے اور… اور وہ ہیرا… ہیرا۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی ہرناوتی نے آہستہ سے کہا۔
’’آیا تھا ہیرا میرے پاس۔ پہلے مجھ سے اس نے اپنی ساری بپتا سنائی اور اس کے بعد کہنے لگا کہ اگر اکیلا مار دیا جاتا اسے تو یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ چلو ہرناوتی کے بھیا نے مارا ہے مگر سارے مار دیئے پتا جی کو بھی مار دیا، کہہ رہا تھا کہ سب نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اپنا بدلہ وہ خود لیں گے تم سے، سمجھے بنسی راج مہاراج میں تمہیں یہی بتانے آئی تھی۔ ہیرا تو کہہ رہا تھا کہ کیا فائدہ یہ سب کچھ کہنے سے، جب بدلہ شروع ہوگا تو بنسی راج مہاراج خود ہی دیکھ لیں گے، کہنے سننے سے کوئی فائدہ نہیں ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔‘‘ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہرناوتی کو دیکھتا رہا شاید پاگل ہوگئی تھی، وہ ہمدرد نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہوئی واپس چل پڑی۔ میں نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
’’کہاں جا رہی ہے تو…؟‘‘
’’اب کہاں جائوں گی بھیا جی، میرا سسرال تو ختم ہی ہوگیا۔‘‘ اس نے رُندھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’بے حیا، بے شرم، نیچ ذات تھے وہ… اس گھر کو اپنا سسرال کہتے تجھے شرم نہیں آتی؟‘‘ جواب میں اس نے مجھے حقارت بھری نگاہوں سے دیکھا اور کمرے سے نکل گئی، مگر مجھے کچھ کرنا تھا۔ اگر اس نے کسی اور کے سامنے زبان کھول دی تو میرے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو جاتیں، چنانچہ میں نے اسے دوسرے ہی دن ایک الگ تھلگ جگہ رکھ دیا، میری حویلی پرکھوں کی بنائی ہوئی ہے۔ دو حصے ہیں، اس کا ایک حصہ ویران پڑا رہتا ہے۔ میں نے اسی ویران حصے کو صاف ستھرا کرایا اور اسے وہاں پہنچا دیا، میری پتنی پہلے تو حیران ہوئی بعد میں مجھے اسے اپنا رازدار بنانا پڑا۔ امرناتھ وغیرہ سے میں نے ہرناوتی کی کہی ہوئی باتوں کی پوری تفصیل نہیں بتائی تھی کہ کہیں وہ ڈر نہ جائے لیکن ہرناوتی کی قید کی نگرانی کرنے کے لیے اسی کو منتخب کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہرناوتی کو اس بات کا شبہ ہوگیا ہے کہ لاکھو کے گھرانے کو مارا گیا ہے۔ امرناتھ میرا وفادار آدمی تھا آنکھیں بند کر کے اپنے کام میں لگ گیا مگر میری نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ مہاراج میں یہ سوچتا تھا کہ ہرناوتی، ہیرا کا نام کیسے لیتی ہے۔ وہ یہ بات کیسے کہہ رہی تھی کہ ہیرا نے اسے یہ تفصیل بتائی تھی۔ ویسے تو میں نہ مانتا مگر اس نے ان تمام لوگوں کے نام بالکل ٹھیک ٹھیک لیے تھے جو لاکھو کے گھرانے میں آگ لگانے گئے تھے۔ پھر ایک خوفناک واقعہ پیش آیا، امرناتھ اور اس کے دو ساتھی جو رات کو وہیں سویا کرتے تھے جہاں ہرناوتی قید تھی، اچانک ہی آدھی رات کو دہشت سے چیختے ہوئے دوڑتے نظر آئے، ان تینوں کے جسموں میں آگ لگی ہوئی تھی اور شعلے اتنے بلند تھے کہ حویلی کے دُوسرے ملازموں نے انہیں دیکھ لیا، سب اکٹھے ہوگئے، لوگ کہتے ہیں میں تو اس وقت موجود نہیں تھا، کہ انہوں نے آگ بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان کے جسموں میں لگی آگ نہ بجھی اور تینوں کے تینوں ایسے جل گئے جیسے کوئلہ جل کر سخت ہو جاتا ہے، پتا ہی نہ چل سکا کہ ان کے جسموں میں آگ کیسے لگی۔ اس واقعہ سے بڑا خوف پھیل گیا تھا میں ضروری کارروائیوں میں مصروف رہا۔ بستی والوں کو اس بارے میں بس اتنا ہی پتا چل سکا تھا کہ کسی طرح تین آدمی جل کر بھسم ہوگئے۔ اصل بات کسی کے کانوں تک نہیں پہنچی تھی۔ ہرناوتی سے میں خود ملا تو وہ مطمئن نظر آئی، ہنس کر بولی۔
’’باقیوں کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہونا ہے مہاراج تھوڑا سا انتظار کرلیں اور اس کے بعد آپ کی باری آئے گی۔‘‘
’’تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے، دُشمن ہوگئی ہے تو ہماری۔‘‘
’’نہیں مہاراج میں نے تو ایسا نہیں کیا، ہیرا مجھے پہلے ہی بتا گیا تھا کہ ابتداء وہ امرناتھ اور ان دونوں آدمیوں سے کرے گا، میرے اُوپر پہرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے مہاراج، بچا سکتے ہو تو ان کے گھروں کو اور انہیں بچا لینا جنہیں تم نے اس کام کے لیے آمادہ کیا تھا، میں کہاں جائوں گی میرا کون سا ٹھکانہ ہے۔‘‘ میں واقعی پریشان ہوگیا تھا، میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں، امرناتھ میرا مشیر تھا، ہر طرح کے رازداری کے مشورے میں اسی سے کرتا تھا وہ نہ رہا تھا، مجھے اس کی موت کا بہت افسوس تھا، بہرحال پریشانیوں کا آغاز تو اسی دن سے ہوگیا تھا مہاراج جس دن سے مجھے یہ پتا چلا تھا کہ ہرناوتی نے اس نیچ ذات سے شادی کرلی ہے اور اب یہ پریشانیاں عروج کو پہنچتی جا رہی تھیں۔ میرے بیٹے عیش و عشرت کی زندگی میں پروان چڑھے تھے۔ بڑے بیٹے کی شادی کرنے والا تھا میں، مگر کوئی بات سمجھ میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ رگھو اور شنکر جو کھیت پر کام کر رہے تھے، سانپ کے ڈسنے سے مر گئے۔ کسی ایسے ناگ نے ڈسا تھا انہیں جو بہت زہریلا تھا، دونوں کی لاشیں تک نہ اُٹھائی جا سکی تھیں بدن کا سارا گوشت گل کر پانی کی طرح بہہ گیا تھا اور ہڈیوں کے ڈھانچے کھیتوں میں پڑے نظر آئے تھے۔ جہاں جہاں ان کا پانی بہا تھا، وہاں زمین ایسی کالی ہوگئی تھی کہ جیسے آگ لگا دی گئی ہو اور اس کے بعد مہاراج وہ کھیت پھر سے سرسبز نہ ہو سکے، پھر اس کے بعد دُوسرے لوگوں کی باری آئی، بیر چند اور شکتی راج بھی مارے گئے۔ راجن اور سونا تو پہلے ہی امرناتھ کے ساتھ بھسم ہوگئے تھے۔ بیرچند اور شکتی کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی ٹکرا گئی اور اس طرح ان کا قیمہ قیمہ ہوا کہ ان کی لاشیں بھی نہ اُٹھائی جا سکتی تھیں۔ اب میرے حواس جواب دینے لگے تھے، میں بیمار ہوگیا تھا اتنا بیمار کہ بخار اُترے نہ اُترتا تھا کہ ایک دن ایک وید جی میرے پاس آئے، بھدّی سی شکل کے مالک تھے، میرا بیٹا کپور چند انہیں لے کر آیا تھا، دوائوں کا بکس ان کے پاس تھا۔ کپور چند نے کہا کہ یہ بہت نامی گرامی وید جی ہیں اور بڑا اچھا علاج کرتے ہیں، میں آپ کو انہیں دکھانا چاہتا ہوں پتا جی، میں تیار ہوگیا وید جی نے کہا کہ وہ تنہائی میں مجھ سے کچھ باتیں کریں گے، سب چلے گئے۔ وید جی نے مجھے اپنے تھیلے سے دوائوں کی دو پڑیاں نکال کر دیں اور کہا کہ میں انہیں پانی کے ساتھ کھا لوں، میں نے ایسا ہی کیا۔ پڑیاں کھانے کی دیر تھی کہ مجھے اپنے بدن میں بڑی طاقت محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسے میں ٹھیک ہوتا جا رہا ہوں۔ میں نے عقیدت بھری نگاہوں سے وید جی کو دیکھا تو وہ ہنسنے لگے پھر بولے۔
’’اگر ابھی سے مرگئے ٹھاکر بنسی راج تو بعد کے کام کیسے دیکھ سکو گے۔ میرا تمہارے پاس آنا تو بہت ضروری تھا تمہیں ابھی جیتے رہنا ہے مہاراج بہت عرصے تک جیتے رہنا ہے۔ تم نے میرے پریوار کو ختم کیا ہے۔ اپنا پریوار ختم ہوتے ہوئے بھی تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔‘‘ اور جب میں نے حیران ہو کر وید جی کے چہرے پر نظر ڈاتی تو یہ دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی کہ وہ ہیرا تھا ہیرا جسے میں نے جلا کر بھسم کیا تھا وہ مجھے شریر آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’بھگوان کے ہاں کوئی ذات نہیں بنائی جاتی نہ اُونچی ذات نہ نیچی ذات اور دل تو بھگوان نے سبھی کو دیا ہے۔ ہم نے تو پھیرے کئے تھے آپ کی بہن سے مہاراج کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ سوئیکار کرلیتے ہمیں تو کیا ہو جاتا اور پھر دوشی تو ہم تھے۔ ہمارے پتا جی کو بھی مار دیا تم نے ماتا جی کو بھی مار دیا، ہمارے بھتیجے کو بھی مار دیا، کیسا انیائے کیا تم نے مہاراج ہم تو ہرناوتی کی وجہ سے خاموش ہو جاتے، معاف کر دیتے تمہیں مگر دُوسرے معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ تو مارے گئے جنہوں نے ہمارا گھر پھونکا تھا اور اب تمہارے پریوار کی باری ہے مہاراج، پانچ بیٹے ہیں تمہارے۔ دو بیٹیاں ہیں، بیٹیوںکی تو شادی کر دی تم نے ان کا نمبر سب سے بعد میں آئے گا۔ پہلے اپنے ان پانچ ستونوں کو گرتے ہوئے دیکھ لو ہم ایسا کر دیں گے مہاراج کہ تمہارے گھر میں پھر کبھی روشنی نہ آئے، ہم تمہاری ساری دیوالیاں بجھا دیں گے، ہم سب نے یہی فیصلہ کیا ہے مگر تمہیں جینا ہے، بیمار رہو گے تو رہو یہ تمہاری مرضی ہے مگر زندہ رہو تاکہ اپنے کئے کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھو۔‘‘ یہ کہہ کر ہیرا دروازے سے باہر نکل گیا، میرے پورے جسم میں سرد لہریں دوڑ رہی تھیں، کوئی شبہ نہیں تھا، کوئی دھوکا نہیں تھا جو کچھ دیکھا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، جو کچھ سنا تھا اپنے کانوں سے سنا تھا اور دل خون ہو کر رہ گیا تھا۔ اس نے میرے بیٹوں کی طرف اشارہ کیا تھا اور مجھے اپنی اولاد اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی، بڑا بدحواس ہوگیا تھا میں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ میرا بیٹا جو سب سے بڑا تھا میری اس بیماری پر کافی توجہ دے رہا تھا۔ ایک بار اس نے پوچھا کہ میرے من کو کیا روگ لگ گیا ہے، کچھ بتائو تو سہی؟ میری دھرم پتنی بھی ضد پر آ گئی تو میں نے ساری کہانی ان لوگوں کو سنا دی۔ میرا بڑا بیٹا ہنسنے لگا پھر بولا۔
’’یہ آپ کا وہم ہے مہاراج آپ کے دل میں چور بیٹھ گیا ہے۔ وہ سارے کے سارے جو مرے آپ کو ان کی موت کی وجہ معلوم ہے، حادثے ہی ہوئے تھے ان کے ساتھ۔‘‘
’’وہ کیسے حادثے ہوئے تھے ذرا مجھے بھی بتا دو، انسانی جسموں میں آگ لگ جائے، ناگ ایسے کاٹیں کہ بدن پانی ہو جائے، یہ سارے کھیل کیا تم انسانی کھیل سمجھتے ہو یا صرف حادثہ کہہ سکتے ہو۔‘‘ وہ لوگ بھی کچھ متاثر ہوگئے تھے لیکن کوئی بات سمجھ میں نہ آ سکی اور پھر مہاراج میرا سب سے بڑا بیٹا آہ… میرا سب سے بڑا بیٹا ایک صبح جب گھر والوں نے اسے نہ پایا تو اس کے کمرے میں اسے پکارنے گئے تو نوکر نے اس کی لاش چھت کے کنڈے سے لٹکی ہوئی دیکھی تھی۔ اس کی زبان اور آنکھیں باہر نکل پڑی تھیں۔ یہ نہیں پتا چلا تھا کہ کس نے اسے سولی پر لٹکایا ہے۔ زمین سے آٹھ فٹ اُونچا لٹک رہا تھا وہ، گردن میں رسّی ڈلی ہوئی تھی اور رسّی کنڈے میں۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی پولیس کو بلا لیا گیا۔ پولیس نے اپنا سارا کام کیا مگر مجھے ہیرا کی بات یاد تھی۔ میرا دماغ اسی طرف جا رہا تھا جو حشر ہو سکتا تھا میرے من کا مہاراج آپ کو پتا ہے۔ اسی بیٹے کی شادی میں کرنے والا تھا سب کچھ چوپٹ ہو کر رہ گیا تھا آہ… مہاراج میں اپنی جیون بھر کی کمائی لٹا بیٹھا تھا اپنے ہاتھوں، ہرناوتی کے پاس پہنچا ہاتھ جوڑ کر اس کے چرنوں میں جھک گیا اور اس سے میں نے کہا کہ اگر ہیرا اس سے ملتا ہے تو ہیرا سے کہے کہ وہ ہم پر رحم کرے۔ ہرناوتی نے مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے کسی پر رحم کیا ہے مہاراج آج تک، آپ رحم کا نام جانتے ہیں؟‘‘
’’تو بھی تو ان کی موسی ہے ہرناوتی تیرے بھی تو کچھ لگتے
ہیں وہ۔‘‘ میں نے رو کر کہا۔
’’کوئی رشتہ نہیں ہے تم سے میرا… قیدی ہوں میں تمہاری… میرا تمہارا صید و صیّاد کا رشتہ ہے بس، تم نے اس کا پورا کٹم مار دیا… اس نے سوگند کھائی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔‘‘
’’ہرے رام ایسا مت کہہ ہرنا… ایسا مت کہہ بچا لے اپنے بھتیجی بھتیجوں کو… بچا لے انہیں۔‘‘
’’خون کا بدلہ خون… سب مریں گے، سب مریں گے کوئی نہیں بچے گا۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح بولی اور پھر ہنسنے لگی، پھر چیخنے لگی، پھر رونے لگی اور اس کے بعد کچھ کہنے کو باقی نہ رہا، کچھ نہیں بگاڑ سکا میں اس کا۔ اس مہینے کے بعد میرا گووندا مار دیا گیا۔ وہ بھائیوں میں سب سے تگڑا جوان تھا۔ سب سے خوبصورت جوان تھا، دیکھنے والے اسے دیکھتے تھے تو اس کی جوانی پر رشک کرتے تھے۔ مہاراج میرا گووندا رات کو کھاپی کر آرام سے سویا، آدھی رات کواس کے کمرے سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں، وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا، سب کو پکار رہا تھا، ہم سب اُٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بھاگے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ اندر سے بند تھا، بہت سے نوکروں نے مل کر اسے توڑا تو اندر کمرے میں دُھواں بھرا ہوا تھا مہاراج۔ گہرا گاڑھا کالا دُھواں جس میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور اب گووندا کی آواز بھی سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ پہلے جب اس کی چیخیں سنائی دی تھیں تو پوری طاقت سے چیخ رہا تھا وہ بعد میں اس کی آواز مدھم ہوتی چلی گئی تھی۔ دروازے کھڑکیاں سب بند تھے، پتا ہی نہیں چلا تھا کہ دُھواں کہاں سے آیا، نوکروں نے روشنیاں جلائیں لیکن گہرے گاڑھے کالے دھویں کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ دروازے کھڑکیاں کھول دیئے گئے جس طرح بھی ممکن ہوسکا کمرے کا دُھواں باہر نکالا گیا اور میں نے، میں نے اپنے کڑیل گووندا کی لاش زمین پر اکڑی ہوئی پائی، اس کا چہرہ بڑا بھیانک ہوگیا تھا مہاراج یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کی گردن دبا کر اسے مار دیا ہو اور پھر ہمیں ایک قہقہہ سنائی دیا۔ بھلا میں اس قہقہے کو نہ پہچانوں گا، اسی پاپی کا تھا، اسی پاپی ہیرا کا قہقہہ تھا وہ جیسے اپنی کامیابی سے بڑا خوش ہو مہاراج ہم پر جو بیتی ہمارا من ہی جانتا ہے۔ جو کر بیٹھے تھے وہ تو کر ہی بیٹھے تھے مگر اس کے بعد، اس کے بعد مہاراج جو ہو رہا تھا وہ سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا۔ ایک بار پھر میں ہرناوتی کے پاس گڑگڑاتا ہوا پہنچا مگر وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے، وہ بھی پاگل ہو چکی ہے، من تو چاہتا ہے کہ سسری کو زندہ جلا دوں آگ میں۔ سب کچھ اسی کی وجہ ہوا ہے مگر مہاراج ہمت نہیں پڑتی۔ گووندا کے بعد میرا ایک اور بیٹا میرے ہاتھوں میں دَم توڑ گیا، ایسا پاپی باپ ہوں میں جو مرنا چاہتا ہے مگر موت بھی اسے نظرانداز کر چکی ہے۔ نہیں آتی موت بھی مجھے سمیٹنے، بھگوان کے لیے میری مدد کریں، میری مدد کریں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں میرے، تین بیٹوں کو صبر کر چکا ہوں بڑا دل پتھر کر لیا ہے میں نے، مجھے جیون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آج مر جائوں تو سارے پاپ کٹ جائیں مگر جیتے جی یہ نہیں دیکھ سکتا کہ ایک ایک کر کے سارے میری آنکھوں کے سامنے ختم ہو جائیں۔ کھانا پینا ختم ہو چکا ہے میرا مہاراج، جب بہت بھوک لگتی ہے تو تھوڑی بہت کوئی چیز کھا لیتا ہوں۔ چھ چھ دن کے فاقے کئے ہیں میں نے، صرف اس خیال سے کہ بھوک اور پیاس سے مر جائوں مگر موت نہیں آتی۔ میری ہی طرح میری دھرم پتنی کا بھی حال ہے حالانکہ وہ تو بے گناہ ہے، اس نے کچھ نہیں کیا مگر مجھ سے زیادہ وہ مر رہی ہے۔ میری مدد کر سکتے ہیں تو اللہ کے نام پر میری مدد کریں۔ آپ مسلمان ہیں اور اللہ کے نام پر اگر آپ سے کوئی مدد مانگی جائے تو سنا ہے مسلمان اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں سوال کرنے والوں پر… میں سوالی ہوں مہاراج آپ کے بارے میں جو کچھ سنا ہے میں نے اگر بھگوان نے، اگر اللہ نے آپ کو کچھ دیا ہے تو مجھ پر خرچ کر دیں، دُعائیں ہی دے سکوں گا اس کے بدلے اور کچھ نہیں کر سکوں گا مہاراج۔ ساری بستی والے مجھے ناپسند کرتے ہیں اگر آپ حکم دیں کہ میں ان سارے بستی والوں کے سامنے ان کے چرنوں میں گر جائوں تو میں اپنی اَنا توڑنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ اَنا مجھے ورثے میں ملی تھی مہاراج مگر میرے ورثے نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔‘‘
وہ اس طرح بلک بلک کر رویا کہ میرا دل پانی ہوگیا جو کہانی اس نے سُنائی تھی اس میں اس کے ظلم کی داستان چھپی ہوئی تھی لیکن اب بنسی راج ایک تھکا ہوا انسان تھا۔ ایک ایسا شخص تھا جس سے کوئی انتقام لینا بھی گناہ سمجھے۔ ایسے آدمی کو بھلا میں کیا کہتا، بہت دیر تک وہ روتا رہا اس کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں اس کی بے بسی کی حالت کو محسوس کررہا تھا اس نے پھر کہا۔
’’اگر میں بستی والوں کے سامنے دن کی روشنی میں آپ کے پاس آتا تو جوتے مارتے میرے سر پر، اتنی باتیں کرتے وہ کہ مجھ سے سہی نہ جاتیں، اس لیے مہاراج رات کا یہ سمے چنا ہے۔ آپ کو جو تکلیف ہوئی وہ مجھے پتا ہے مگر مجھے جو تکلیف ہے مہاراج ایک ڈوبتا ہوا آدمی ہر اس چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے ہاتھ آ سکے، میں بھی ویسا ہی ہوں۔ آپ کی تکلیف کو میں اپنی تکلیف میں بھول گیا ہوں، مجھے معاف کر دیں میری مدد کریں۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے، آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب بہہ رہا تھا۔ چہرہ حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’آج کی رات مجھے دو بنسی راج، کل میں تم سے اس بارے میں بات کروں گا۔ میں کسی نہ کسی طرح تمہارے پاس پہنچ جائوں گا، اس وقت تم سے کوئی وعدہ نہیں کر سکتا لیکن کل میں تمہیں بتا سکوں گا کہ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج دو بیٹے اور دو بیٹیاں رہ گئی ہیں میری۔ بیٹیاں اپنی سسرالوں میں ہیں۔ ان کے بچّے بھی ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ ہیرا کہتا ہے کہ میرے سارے پریوار کو میری آنکھوں کے سامنے ختم کر دے گا تو مہاراج بیٹوں کے بعد بیٹیوں کا نمبر آئے گا اور اس کے بعد نواسے نواسیوں کا پتا نہیں کیا کرے گا وہ۔ کیا سب کو مار دے گا؟ مہاراج بڑی اُمید لے کر جا رہا ہوں، بڑی آس لے کر جا رہا ہوں، بڑی آس لے کر جا رہا ہوں۔ دھونی پور والے آپ کا نام لے رہے ہیں۔ میں، میں میں، بھی بڑا سہارا رکھتا ہوں آپ کا مہاراج بڑا سہارا رکھتا ہوں۔‘‘
’’تم جائو بنسی راج بس اب جائو۔‘‘ میں نے کہا اور بنسی راج اسی راستے سے واپس چلا گیا جس راستے سے آیا تھا۔ میرے لیے بڑی مشکلات چھوڑ گیا تھا وہ، بہرطور مجھے اپنا فرض پورا کرنا تھا۔ میں نے نیند کا خیال ترک کر دیا، پانی تلاش کر کے وضو کیا اور دو زانو بیٹھ گیا۔ میں اپنے لیے رہنمائی چاہتا تھا اور میری رہنمائی ہوگئی۔ میرے دل سے آواز اُبھری کہ گناہ کرنے والا گناہ کر بیٹھتا ہے اس کا حساب کتاب اللہ کے حوالے، انسان کو انسان پر رحم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اگر کوئی کسی کے ساتھ کچھ کر سکتا ہے تو اسے اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ بات اگر صرف بنسی راج کی ہوتی تو بنسی راج ہر سزا کا مستحق تھا اور وہ بھی جو اس کے ساتھ شریک تھے لیکن وہ شریک نہیں تھے جنہیں موت کے گھاٹ اُتارا گیا اور یہ ایک خبیث رُوح کا کارنامہ ہے جو بھٹک گئی ہے اور انتقام کی آگ میں جل رہی ہے اور وہ عورت بھی بے قصور ہے جو ماں ہے۔ باپ نے جرم کیا سزا بس اسی کو ملتی تو مناسب تھا لیکن ماں اس جرم میں شریک نہیں تھی اور جو غم اس کو ہو رہا ہے وہ جاری نہیں رہنا چاہئے۔ یہ روشنی کی رہنمائی تھی لہٰذا مجھے اطمینان نصیب ہوگیا۔ اس کا مطلب ہے کہ میں بنسی راج کی مدد کر سکتا ہوں اور اس کے بعد مجھے مدد کرنے کا طریقہ دریافت کرنا تھا اور میری رہنمائی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے بستر پر لیٹ کر کمبل اپنے چہرے پر ڈھک لیا تھا اور تصورات کی ہوائیں مجھے اُڑا کر نہ جانے کہاں سے کہاں لے گئی تھیں۔
صبح کی نماز کے بعد جب نمازی مسجد سے واپس چلے گئے تو حافظ حمید اللہ صاحب میرے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے میں نے حمید اللہ صاحب کو بتایا۔
’’حمید اللہ صاحب رات کو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ٹھاکر بنسی راج دیوار پھلانگ کر میرے پاس پہنچا اور اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ شاید آپ کو اس بات کا علم ہو کہ دھونی پور کا ٹھاکر بنسی راج کسی مصیبت میں گرفتار ہے۔‘‘
’’ایسی ویسی مصیبت… کئے کا پھل پا رہا ہے وہ، تین بیٹے ہلاک ہو چکے ہیں اس کے اور بڑی پُراسرار داستانیں سُنائی جا رہی ہیں اس کے سلسلے میں مگر وہ آپ کے پاس مدد کے لیے آیا تھا حیرت کی بات ہے وہ تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔‘‘
’’اس کی اَنا ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ دھونی پور کے ہر شخص کے سامنے ناک رگڑنے پر تیار ہے۔ میرا خیال ہے حافظ صاحب اس کے باقی بچوں کو زندہ رہنا چاہئے۔ انتقام کا یہ طریقۂ کار مناسب نہیں ہے۔ سزا اگر صرف اسے ملے جس نے گناہ کیا ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے جو بے گناہ ہوں انہیں کسی اور کے گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔‘‘ حافظ حمید اللہ صاحب نے مجھے گہری نگاہوں سے دیکھا پھر بولے۔ ’’اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں مسعود میاں صاحب تو ٹھیک ہے اس سلسلے میں میری جو خدمات ہوں گی انہیں سرانجام دینے کے لیے میں حاضر ہوں۔‘‘
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی میں نے کہا۔ ’’بس آپ کی دُعائیں درکار ہوں گی مجھے اس کے علاوہ اور کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حافظ حمید اللہ صاحب مسکرا کر خاموش ہوگئے، پھر میں نے ان سے پوچھا۔ ’’ویسے بستی والے بھی بنسی راج سے نفرت کرتے ہوں گے، آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’سب اس سے گھن کھاتے ہیں، وہ بڑا سرکش آدمی رہ چکا ہے اور اس کے ہاتھوں ہمیشہ ہر ایک کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ آج بھی اس کے بہت سے کارندے اس کی کنجوسی سے تنگ ہیں، کمبخت کچھ بھی نہیں دیتا کسی کو اور سب کچھ ہڑپ کر لینے کے چکر میں رہتا ہے۔ آپ دیکھ لیں مسعود میاں اگر آپ کا دل گواہی دیتا ہے تو اس کے لیے کام کریں۔‘‘
’’ہو سکتا ہے حمید اللہ صاحب اس سے بہتوں کی بہتری بھی ہو جائے یعنی انہیں کچھ مل جائے جنہیں اس کے ہاتھوں سے کچھ نہیں ملتا۔ وہ تو اپنے آپ کو اتنا مجبور و بے کس ظاہر کر رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے اب اسے اپنے دھن دولت سے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو۔ بہرحال دیکھے لیتے ہیں اس کی مدد تو کرنا ہی ہوگی، ہاں یہ بتایئے کہ اس تک پہنچنے کا کیا ذریعہ ہو سکتا ہے؟‘‘
’’میں آپ کو اس کی حویلی تک لے جا سکتا ہوں یہ کونسا مشکل کام ہے۔‘‘
’’بس ذرا لوگوں سے چھپ کر جانا چاہتا ہوں تاکہ بلاوجہ شہرت نہ ہو پائے، اس سلسلے میں اس شہرت سے بہت سی رُکاوٹیں درمیان میں آ جائیں گی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اس کے لیے تو میرے خیال میں رات کا وقت ہی مناسب ہوگا، آج کا دن گزار لیجئے عشاء کے بعد نکل جایئے۔ ویسے بھی رات کے ایک حصے میں دھونی پور کی بستی مکمل پُرسکون ہو جاتی ہے اور یہاں راتوں کو کوئی رونق نہیں ہوتی، میں آپ کو وہاں پہنچا دوں گا۔‘‘
’’آپ مجھے بس وہاں تک کا پتا بتا دیجئے گا۔‘‘ میں نے حمید اللہ صاحب سے اتفاق کرلیا۔ رات کو حمید اللہ صاحب نے میرے ساتھ جانا چاہا لیکن میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے تنہا جانے دیں یہ ضروری ہے۔ مجبوراً وہ رُک گئے، البتہ انہوں نے مجھے بڑی وضاحت سے حویلی کا پتا بتا دیا تھا۔ میں چل پڑا، حمید اللہ صاحب نے سچ کہا تھا پوری بستی شہر خموشاں بنی ہوئی تھی۔ کتّے تک نہیں بھونک رہے تھے۔ اِکّا دُکّا گھروں میں سے روشنی جھلک رہی تھی۔ ورنہ زیادہ تر گھر تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کبھی کسی گھر سے بچّے کے رونے کی آواز سنائی دے جاتی اور پھر خاموشی پھیل جاتی۔ میں بستی کے ایک کھلے میدان میں نکل آیا جہاں میدان کے بیچوں بیچ ایک چبوترا نظر آ رہا تھا جس کے عین درمیان ایک بڑ کا درخت پھیلا ہوا تھا۔ درخت کے نیچے ایک دیا روشن تھا اور اس کی لرزتی روشنی میں کچھ لوگ بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ حمید اللہ صاحب نے اس درخت کے بارے میں بھی بتایا تھا سیدھے چلنا تھا اور میدان کے اختتام سے بائیں ہاتھ مڑ جانا تھا مگر میں نے سوچا ان بیٹھے ہوئے لوگوں سے اور تصدیق کر لوں چنانچہ ان کی طرف بڑھ گیا۔ قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ وہ عورتیں تھیں، لہنگا اور چولی پہنے ہوئے سوگوار بیٹھی ہوئی تھیں، ان سے کوئی دو گز کے فاصلے پر ایک شخص گھٹنوں سے اُونچی دھوتی باندھے اور شلوکا پہنے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا، درمیانی عورت کی گود میں ایک تقریباً سات سال کا بچہ سو رہا تھا، ان کے اس انداز پر مجھے حیرت ہوئی نہ جانے بے چارے کس مصیبت کا شکار تھے۔
’’کیا بات ہے بہنو… یہاں کیسے بیٹھی ہو۔‘‘
’’دھیرا ارتھی مانگ رہا ہے میں اسے ارتھی کہاں سے دوں۔‘‘ اس عورت نے کہا جو بچّے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔
’’کیا مانگ رہا ہے۔‘‘ میں کچھ نہ سمجھ کر بولا۔ میں نے جھک کر بچّے کو دیکھا اور پھر بُری طرح چونک پڑا، بچّے کے جسم پر لباس نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم اکڑا ہوا تھا اور کوئلے کی طرح سیاہ ہو رہا تھا، اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رَمق نہیں تھی چہرے کے نقوش تک جل کر بگڑ چلے تھے۔
’’ارتھی… ارتھی کہاں سے لائوں ارتھی۔‘‘ عورت نے جھنجھلا کر کہا دفعتاً بچّے نے گردن اُٹھائی اور پھٹی پھٹی آواز میں۔ ’’ہیں… ہیں۔‘‘ کر کے رونے لگا پھر بھیانک آواز میں بولا۔ ’’بپو… ارتھی… ارتھی۔‘‘ پھر اس کی گردن اپنی جگہ پہنچ گئی، اسی وقت گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھے شخص نے گردن اُٹھا کر کہا۔
’’میں بتاتا ہوں میاں جی… سنو میں بتائوں بستی کے بیس گھر جل گئے تھے، چار ہمارے ناتے داروں کے تھے وہ بے چارے اپنی مصیبت میں پڑ گئے، کریا کرم کون کرتا ہمارا، کتّے کی طرح جلے ہوئے شریر گھسیٹے اور شمشان ڈال آئے، چتائیں تو جیتے جی پھنک گئی تھیں ہماری… بڑے تو سمجھدار تھے مگر دھیرا بچہ ہے ضد کرتا ہے پگلا کہیں کا…! جائو تم اپنی گیل کھوٹی مت کرو خود چپ ہو جائے گا سسرا۔‘‘ اس نے کہا اور گردن دوبارہ گھٹنوں میں دبا لی۔
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا، حقیقت کا اندازہ ہو رہا تھا، میں دو قدم آگے بڑھا اور گھٹنوں میں سر دیئے آدمی کے قریب پہنچ گیا۔
’’تم لاکھو ہو۔‘‘ میں نے پوچھا اور اس نے پھر سر اُٹھا لیا۔ اس بار اس کا چہرہ اور بھیانک نظر آنے لگا۔
’’ہیں ناہیں تھے، میاں جی تھے… ایک اُونچی جات والے نے… سب رے مار دیئے، سب بھسم کر دیئے، کتوں نے کھوپڑیاں پھاڑ دیں ہماری دیکھو یہ دیکھو۔‘‘ اس نے سر جھکا دیا، اس کا سر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور پھر وہ اوندھے منہ چبوترے پر گر گیا، اس کے بدن سے دُھواں اُٹھنے لگا، فضا میں گوشت کی چراند پھیل گئی تھی، دُھویں نے ان عورتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا اور میں بدبو اور دُھویں سے گھبرا کر کئی گز پیچھے ہٹ گیا۔ آنکھیں اور ناک بند کر لینے پڑے تھے، پھر ناک بند کرنے سے دم گھٹا تو ہاتھ ہٹا لیا مگر چبوترہ خالی پڑا تھا، نہ عورتیں تھیں نہ بچہ، نہ لاکھو اور نہ ہی چراغ… تاریکی میں لپٹا بڑ کا درخت بھیانک سنّاٹے میں تنہا کھڑا تھا…! یہ منظر بہتوں کی جان لے سکتا تھا، ہو سکتا ہے یہ خبیث رُوحیں اکثر لوگوں کو نظر آتی ہوں۔ ٹھنڈی سانس لے کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میدان عبور کر کے جب بائیں طرف مڑا تو پرانی طرز کی حویلی نظر آ گئی۔ یقیناً دھونی بستی کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ حویلی کے دروازے پر روشنی نظر آ رہی تھی لیکن پوری حویلی پر خاموشی طاری تھی، میں آگے بڑھ کر حویلی کے بڑے دروازے پر پہنچ گیا۔ ’’کوئی ہے بھائی میاں… کوئی ہے۔‘‘ میں نے آواز لگائی لیکن کوئی جواب نہیں ملا، تیسری آواز پر کچھ آہٹیں سُنائی دیں اور پھر گیٹ کی ذیلی کھڑکی کھل گئی۔ سفید موٹے کھیس میں لپٹے ہوئے ایک شخص نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین اُونچی کر کے میرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی پھر ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’کون ہو بھیا تم…؟‘‘
’’یہ بنسی راج کی حویلی ہے؟‘‘
’’نا تمہاری ہے… لے جائو اُٹھا کر… ارے تم ہو کون۔‘‘ چڑچڑے آدمی نے پوچھا۔
’’مجھے بنسی راج سے ملنا ہے۔‘‘
’’کیوں ملنا ہے؟‘‘
’’بلایا ہے انہوں نے مجھے۔‘‘
’’آدھی رات کو بلایا ہے، جھوٹ بولو ہو۔‘‘
’’اگر وہ حویلی میں موجود ہیں تو انہیں خبر دے دو کہ جسے انہوں نے بلایا تھا، وہ آیا ہے۔‘‘
’’آئو۔‘‘ اس نے کہا اور میں اندر داخل ہوگیا۔ اتنی رات تو نہیں ہوئی ہے کہ یہاں یہ سنّاٹا قائم ہو جائے مگر ظاہر ہے چھوٹی آبادی ہے اور پھر حویلی کی فضاء میں خوف و ہراس چھایا ہوا ہے، سب لوگ کونوں کھدروں میں گھسے ہوئے ہوں گے۔ یہ شخص غالباً چوکیدار تھا اور خود بھی سوتے سے اُٹھ کر آیا تھا اسی لیے بگڑا ہوا تھا۔ بڑے گیٹ سے حویلی کے اصل رہائشی علاقے کا فاصلہ اچھا خاصا تھا، چوکیدار میرے آگے آگے چلتا رہا۔ سامنے کی سمت سے جانے کی بجائے اس نے بغلی سمت اختیار کی۔ غالباً مختصر راستے سے لے جا رہا تھا۔ میرا اندازہ دُرست نکلا اور وہ چند سیڑھیاں چڑھ کر اندر ایک غلام گردش میں داخل ہوگیا۔ نیم تاریک راستے پر وہ آگے بڑھتا رہا، کئی موڑ مڑے آگے بالکل اندھیرا تھا اگر اس کے ہاتھ میں لالٹین نہ ہوتی تو آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا۔
’’تم مجھے بنسی راج کے پاس لے جا رہے ہو یا پوری حویلی گھما رہے ہو۔‘‘
’’پوری حویلی تو تم ساری رات میں نہ گھوم سکو گے مہاراج۔‘‘ چوکیدار نے عجیب سے لہجے میں ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اور کتنا چلنا ہے؟‘‘
’’آئو…!‘‘ اس نے ایک جگہ رُک کر کہا۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اس نے لالٹین نیچے رکھی اور شاید کوئی دروازہ کھولنے لگا پھر دوبارہ لالٹین اُٹھا کر بولا۔ ’’آئو اندر چل کر بیٹھو… مہاراج کو خبر کر دوں۔‘‘
’’لعنت ہے۔‘‘ میں نے کہا اور دروازے کو ٹٹول کر اندر داخل ہوگیا۔ ’’یہاں روشنی نہیں ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اگلا پائوں خلاء میں لہرایا ایک دم توازن بگڑ گیا، سنبھلنے کی کوشش کی لیکن نہ سنبھل سکا اور دُوسرے لمحے میرا بدن خلاء میں نیچے جا رہا تھا، میں نے بے اختیار دونوں طرف ہاتھ مارے مگر پکڑنے کے لیے کچھ نہیں تھا، میں کسی گہرے کنویں میں گر رہا تھا۔
چند لمحات کے لئے سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہو گئیں، کلیجہ حلق میں آ گیا۔ اسی احساس کا شکار تھا کہ اتنی گہرائی میں گروں گا تو جسم کا کیا حشر ہو گا۔ گہرائیاں ختم ہوئیں مگر آخری لمحات میں جیسے بدن ٹھہر گیا، پائوں سیدھے ہو گئے اور پھر پیروں کے نیچے زمین محسوس ہوئی، گویا دبائو نہیں پڑا تھا، بدن ساکت ہو گیا تھا لیکن گھور تاریکی تھی، کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، یہ کیفیت بھی کچھ لمحات رہی پھر آہستہ آہستہ اجالا سا ابھرنے لگا، آس پاس نظر آنے لگا، یہ کنواں تو نہیں تھا۔ اچھی خاصی وسیع و عریض جگہ تھی، گھسے ہوئے گول پتھر چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے، میں بھی ایک بڑے پتھر پر کھڑا ہوا تھا البتہ اوپر کچھ نہیں نظر آ رہا تھا، آسمان کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ کیا تھا یہ سب… چوکیدار کون تھا۔ بدن کو جنبش دی، پائوں آگے بڑھائے اور انہیں پتھروں پر جماتا ہوا آگے بڑھا۔ کوئی تیس چالیس قدم نکل آیا، اب چاروں طرف مدھم سی روشنی پھیل گئی تھی۔ یہ روشنی نہ تو تاروں کی چھائوں تھی، نہ کسی مصنوعی شے سے پیدا ہوئی تھی بس آنکھوں کو نظر آ رہا تھا لیکن آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر اچانک عقب سے کسی کے پتھروں پر چلنے کی آواز آئی اور میں چونک کر پلٹ پڑا۔ ایک انسانی جسم تھا لباس سے بے نیاز سیاہی مائل… میری طرف آ رہا تھا۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ جب وہ قریب آیا تو دل پر ہلکا سا اثر پڑا۔ سب کچھ مکمل تھا مگر چہرے پر کچھ نہیں تھا۔ ناک، نہ آنکھیں، نہ ہونٹ۔ بس بے خدوخال کا ایک گول سا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر وہ رک گیا۔
’’کون ہو…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ماما ہیں توہار… تے کون رہے؟‘‘ آواز آئی۔
’’بھانجا ہوں تمہارا۔‘‘ میں بے اختیار مسکرا پڑا۔ ویسے یہ آواز اس چوکیدار کی بھی نہیں تھی جس نے مجھے فریب دے کر یہاں پہنچایا تھا۔
’’ٹھٹھول کرے ہے میاں جی۔ ہمکا جانت ناہے تے… سارا ٹھٹھول نکال دئی ہے۔ ہاں… منتر پڑھویں آئے رہے۔ پڑھ منتر۔ ہم او دیکھیں تورے منترو…!‘‘
’’ہیرا ہو تم…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بھٹی میں گیا ہیرا۔ تے حویلی ماں کاہے آئے رہے۔ ادھر توہار کام نا ہوئی ہے۔ ہم کہہ دیت۔ ارے اس پاپی کے لئے گرے ہے تے جس نے ہمرا کا ترسا دئی ہے۔ سب کے سب بدلہ لیں گے اس سے ہاں…!‘‘
’’تم کون ہو… مجھے بتائو؟‘‘ میں نے کہا اور چند قدم آگے بڑھا کر اس کے پاس پہنچ گیا لیکن اچانک ہوا کا ایک جھونکا سا آیا اور میں نے اس کے سیاہ جسم کو بکھر کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔ گول چکنے پتھروں پر جلے ہوئے کوئلے کی راکھ بکھری نظر آ رہی تھی۔
’’تو کا کچھ بتانے کی جرورت نا رہے ہمکا… تے اپنی سنبھال۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔ میرے منہ سے ہلکی سی آواز نکل گئی۔ وہ دوسری طرف اسی طرح کھڑا ہوا تھا۔
’’مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘ میں نے سنبھل کر پوچھا۔
’’حویلی ماں بہت سارے رہے ہیں۔ تے ادھر اپنا چکر نا ہی چلائی سکت…!‘‘
’’یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘ میں نے پھر قدم آگے بڑھائے اور ہوا کے ساتھ پھر اس کی راکھ بکھر گئی مگر اس کی آواز تیسری سمت سے سنائی دی تھی۔
’’توہار ماما کی سسرال… تے اب جیتے جی یہاں سے ناں نکل سکت…!‘‘
میرا چہرہ اسی طرف گھوم گیا، وہ موجود تھا۔
’’تو مار دو مجھے…!‘‘ میں نے کہا۔
’’ارے ہم کاہے ماریں سسر، بھوک پیاس سے کھود ہی مر جئی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پھر تم یہاں کیوںآئے ہو؟‘‘
’’توہار باپ کی مڑھیار ہے نا… جو ہمکا آنے کو منع کرت ہے۔ ابھی بٹوا سب پتہ چل جئی ہے جب ناگ پھنکاریں گے۔ بچھوا ناچیں گے توہار چاروں طرف…!‘‘
’’ہوں…میں نے تمہیں پہچان لیا۔ سنا تھا تمہارے بارے میں آج دیکھ بھی لیا، بتائوں تم کون ہو…؟‘‘
’’جارے… بتئی ہے… ہونہہ۔‘‘ اس نے حقارت سے کہا۔
’’چھلاوے ہو۔‘‘ میں نے کہا اور دفعتاً ہی ہوا کا جانا پہچانا جھونکا مجھے محسوس ہوا مگر اس بار اس جگہ اس کی راکھ نہیں بکھری تھی بلکہ وہ غائب ہو گیا تھا۔ چوتھی بار اس کی آواز کہیں سے نہ سنائی دی۔ یہ خیال میرے ذہن میں ایسے ہی نہیں آ گیا تھا، بہت پرانی بات تھی۔ اس وقت کی جب میرے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوا تھا۔ میں معصوم تھا لیکن سمجھدار تھا اور کہانیوں سے دلچسپی رکھتا تھا۔ کسی بزرگ نے ایک چھلاوے کی کہانی سنائی تھی اور بتایا تھا کہ وہ کیا ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔ وہی کہانی یاد آ گئی تھی اور میں نے اسے چھلاوا کہا تھا۔ یہ بھی سنا تھا میں نے اس کہانی میں کہ اگر چھلاوے کو پہچان لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر نظر نہیں آتا اور اس وقت یہ سب کچھ بالکل سچ ثابت ہوا تھا۔ وہ سو فیصد چھلاوا ہی تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب میں کیا کروں۔ کیا اس کے الفاظ یہ بتاتے تھے کہ حویلی میں باقاعدہ بری ارواح کا بسیرا ہے اور زیادہ تر لوگ بنسی راج کے ستائے ہوئے ہیں۔ اب یہ تو سوچ نہیں سکتا تھا کہ میں ایک ایسے ظالم آدمی کو نظرانداز کر دوں جس نے بہت سوں پر مظالم کئے ہیں اور اب ان کی سزا بھگت ر ہا ہے کیونکہ مجھے ہدایت مل چکی تھی۔ بعض معاملات میں برا انسان بھی کسی کی وجہ سے کسی طرح بچ جاتا ہے۔ اس کے تین بیٹوں کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا، باقی میں نہیں جانتا تھا کہ آگے مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے وہاں سے قدم آگے بڑھا دیئے۔ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس جگہ کی وسعت کتنی ہے۔ پتھروں پر سے گزرتا ہوا میں آگے بڑھتا رہا اور ایک بار پھر مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ ذرا سی گہرائی نظر آئی تھی اور میں نے کنارے سے اس سمت دیکھا تھا۔ وہی خاندان موجود تھا جس سے میں بڑ کے درخت کے نیچے مل چکا تھا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور لاکھو سے بولا۔
’’بپو ارتھی چاہئے، سیندور چاہئے، گھی چاہئے، لکڑیاں جلا دو بپو، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
لاکھو نے ویسے ہی گردن اٹھائی، ادھر ادھر دیکھا اور پھر جھڑک کر لڑکے سے بولا۔ ’’ارے چپ کر جا انجائی، بھوک لگ رہی ہے، ارتھی چاہئے۔ ارے ہم سب کو نا دیکھ رہا کا، ہمارے پاس کا رہے؟‘‘
’’بپو، بھوکا ہوں۔‘‘ لڑکا بولا۔
’’تو پھر ادھر دیکھ… وہ کھڑا ہے اسے کھا لے، اسی کو کھا لے، میں کا کروں۔‘‘ لاکھو نے کہا اور لڑکے نے بھاڑ سا منہ کھول دیا۔ عجیب و غریب منظر تھا یہ بھی۔ لڑکے کا سر بہت بڑا تھا، بدن سوکھا ہوا تھا اور اتنا سوکھا ہوا تھا کہ یقین نہ آئے۔ سر اسی مناسبت سے بڑا تھا۔ اس نے گول گول آنکھوں سے مجھے دیکھا اور منہ کھول دیا۔ اتنا بڑا منہ، اتنا بڑا کہ ایک اچھی خاصی گیند اس کے منہ میں چلی جائے۔ چہرے پر انتہائی خوفناک تاثرات لئے وہ اپنے سوکھے سوکھے قدموں سے چلتا ہوا میری جانب بڑھا۔ شاید انہیں توقع ہو کہ میرے حلق سے اب دلخراش چیخ بلند ہو گی اور میں پلٹ کر بھاگ نکلوں گا لیکن میں اسے دیکھتا رہا۔ لڑکا آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور میرے قریب پہنچ گیا۔ میں نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور کہا۔
’’آئو آئو آگے آئو، کھا لو مجھے۔‘‘ ہوا کا بالکل ویسا ہی جھونکا محسوس ہوا اور لڑکا میری نگاہوں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ اب میرے چاروں طرف کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ سب دہشت سے مار دینے والے کھیل ہو رہے تھے۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ سب بیکار سی باتیں ہیں۔ مجھے جو عمل کرنا ہے اس کے لئے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں تھا اور اب میں جہاں بھی آ پھنسا ہوں مجھے یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ ایک ہی ذریعہ تھا میرے پاس۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑا اعتماد تھا مجھے اپنے اس ذریعے پر، انسانی فطرت کے تحت کسی بھی غیرمتوقع بات پر ایک لمحے کے لئے بدن میں ہلکی سی کپکپاہٹ بے شک دوڑ جاتی تھی لیکن اس کے بعد وہ اعتماد بحال ہو جاتا تھا جو مجھے عطا کیا گیا تھا۔ میں نے شانے سے کمبل اتارا اور اسے اپنے گرد لپیٹ کر اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا اور میرا خیال بالکل درست ثابت ہوا۔ چند لمحات اسی طرح گزرے اس کے بعد میں نے کمبل چہرے سے ہٹایا اور منظر بدلا ہوا دیکھا۔ حویلی کے بڑے دروازے کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ دروازے کا آدھا پٹ کھلا ہوا تھا اور وہ پراسرار جگہ جہاں چوکیدار نے مجھے پہنچا دیا تھا، نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
میں اس شان کریمی کے قربان ہونے لگا۔ مجھے جو اعتماد بخشا گیا تھا، وہ ناقابل تسخیر تھا۔ بڑے اعتماد کے ساتھ قدم آگے بڑھائے اور حویلی کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ چھلاوے اور ارواح خبیثہ اپنی کوششوں میں ناکام ہو چکی تھیں اور مجھے اس سمت روانہ کر دیا گیا تھا جہاں آنا تھا۔
حویلی کی راہداریاں سنسان پڑی ہوئی تھیں، بے شک مجھے کسی رہنما کی ضرورت تھی جو مجھے بنسی راج تک پہنچا دے لیکن شاید یہاں کے لوگوں پر بھی خوف و ہراس طاری تھا۔ جیسا کہ اس چھلاوے نے مجھے بتایا کہ یہاں وہ اکیلا نہیں رہتا، بہت سے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے حویلی میں رہنے والوں کا خون ویسے ہی خشک ہوتا رہتا ہوگا۔ یہی بڑی بات ہے کہ وہ اب بھی اس حویلی میں موجود تھے۔ غرض یہ کہ میں اپنی دھن میں آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک ایسے کمرے کے قریب پہنچ گیا جہاں روشنی جھلک رہی تھی۔
گو یہ سب کچھ ایک غیرمناسب عمل تھا لیکن میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔ میں نے تو باقاعدہ چوکیدار کے ذریعے یہاں آنے کی کوشش کی تھی۔ اب چوکیدار کی جگہ کون تھا، مجھے معلوم تھا۔
روشن کمرے کے دروازے کے سامنے رک کر میں نے دستک دی۔ اندر بے شک روشنی تھی لیکن کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ دوسری بار اور تیسری بار دستک دی تو اندر سے ڈری ڈری آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پھر کسی نے انتہائی ہمت کر کے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’کک …کون ہے، کون ہے؟‘‘ آواز اس قدر ڈری اور سہمی ہوئی تھی کہ ایک لمحے کے لئے تو سمجھ میں بھی نہیں آئی کہ کسی مرد کی ہے یا عورت کی۔ لیکن میں نے پھر دستک دی اور آواز سنائی دی۔
ارے کون ہے، کون ہے؟‘‘ اور اس بار میں نے اس آواز کو پہچان لیا تھا۔ بنسی راج ہی تھا جس کا دم نکلا جا رہا تھا۔ میں نے صاف لہجے میں کہا۔ ’’دروازہ کھولو بنسی راج مہاراج۔ میں مسعود ہوں۔‘‘
’’کک …کون بھائی۔ کون؟‘‘
’’مسعود۔ جس کے پاس تم مولوی حمیداللہ کے گھر ملنے گئے تھے۔‘‘ میرے ان الفاظ نے غالباً بنسی راج کے دل سے خوف دور کر دیا بلکہ کچھ زیادہ ہی دور کر دیا۔ ہلکی سی گرنے کی آواز سنائی دی۔ یوں محسوس ہوا جیسے بنسی راج اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگا ہو اور کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑا ہو۔ پھر دروازے پر آہٹیں سنائی دیں اور ساتھ ہی کسی عورت کی ڈری ڈری آواز۔ ’’ارے دیکھ تو لو، گردن نکال کر دیکھنا، پھر دروازہ کھولنا۔‘‘ یقیناً بنسی راج کی دھرم پتنی ہو گی۔ بنسی راج نے تھوڑی سی جھری کی اور مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’بنسی راج میں ہی ہوں۔ میں نے تم سے تمہاری حویلی آنے کا وعدہ کیا تھا نا؟‘‘
’’ہاں، مہاراج۔ آ جایئے۔‘‘ بنسی راج نے کہا اور پورا دروازہ کھول دیا۔ بڑی سی مسہری کے ایک گوشے میں سفید ساڑھی میں ملبوس ایک عورت سکڑی سمٹی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف و دہشت کے آثار منجمد تھے اور آنکھوں سے انتہائی ہراس ٹپک رہا تھا۔ بنسی راج نے تیز روشنی جلا دی اور عورت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے گردن خم کرتے ہوئے کہا۔ ’’معافی چاہتا ہوں اس وقت آنے کی لیکن یہی وقت میرے لئے مناسب تھا۔‘‘
’’ارے مہاراج پدھاریئے، پدھاریئے، بھگوان کی سوگند آپ کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا ہوں۔ میں نے پورا دن انتظار کیا، اب تک انتظار کرتا رہا ہوں میں، من ٹوٹ گیا تھا اور میں اپنی دھرم پتنی سے یہ کہہ رہا تھا کہ شاید بھگوان نے ہماری تقدیر میں کوئی اچھائی نہیں لکھی ہے ورنہ مہاراج مسعود ضرور آ جاتے۔‘‘ بنسی راج نے مخصوص بناوٹ کی ایک قیمتی کرسی اٹھا کر میرے سامنے رکھ دی اور میں بیٹھ گیا۔ ’’یہ میری دھرم پتنی چندراوتی ہے، مہاراج یہ بہت دکھی ہے، یہ تین بیٹوں کا دکھ بھوگ رہی ہے۔‘‘
’’برا مت ماننا بنسی راج تم نے بھی تو بہت سی مائوں کو ان کے بیٹوں کا دکھ دیا ہے، کرنی کا پھل تو ملتا ہی ہے۔‘‘
’’نا مہاراج نا۔ ایسا مت کہو۔ بڑی آس لگا رکھی ہے ہم نے۔ ارے انیائے میں نے کیا ہے۔ بھگوان کی سوگند کوڑھی ہو جائوں، سانپ بچھو لپٹ جائیں میرے شریر سے، آنکھیں بہہ جائیں پانی بن کر جو بھی سزا ملے، مجھے مل جائے۔ بھگوان میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو بچا لے۔ سمے لوٹ آئے اور میں اپنے سارے پاپوں کا پرائشچت کرلوں۔ کچھ ایسا ہو جائے مہاراج۔ وہ بچ جائیں بس۔ اب کوئی اور دکھ مجھ سے نہ سہا جائے گا۔‘‘ وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ ایسا کرب تھا اس کی آواز میں کہ میں کانپ کر رہ گیا۔ یہ پچھتاوا تھا، احساس تھا، ندامت بھی۔ اب کچھ اور کہنا میرے لئے مناسب نہیں تھا۔
’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا بنسی راج۔ پورا کرنے آ گیا، دل چھوٹا نہ کرو، اللہ مالک ہے، میں کوشش کروں گا!‘‘
’’بڑی دیا ہو گی مہاراج۔ بڑی دیا ہوگی۔‘‘
’’چلتا ہوں۔‘‘
’’حویلی میں رک جائو بھگوان۔ ہمیں ڈھارس ہو جائے گی۔‘‘ بنسی راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
’’پھر آئوں گا بنسی راج۔ ضرورت پڑنے پر پھر آئوں گا۔‘‘ میں اٹھ گیا۔ بنسی راج مجھے حویلی کے باہر تک چھوڑنے آیا تھا۔ میری منت سماجت کرتا رہا تھا۔ میں اسے دلاسے دے کر آگے بڑھ گیا۔ مسجد تک واپسی میں کوئی واقعہ نہیں پیش آیا۔ حجرے میں تاریکی تھی۔ میں درخت کے نیچے اپنے ٹھکانے پر آ گیا۔ اس مختصر وقت میں ہی بڑے انوکھے واقعات پیش آئے تھے۔ بے شک وہ ارواح خبیثہ تھیں لیکن ان کے ساتھ بھی ظلم ہوا تھا۔ ان سب نے بنسی راج کی حویلی میں بسیرا کر لیا تھا اور وہ اپنا انتقام لینا چاہتی تھیں۔ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔ واضح اشارہ مل چکا تھا کہ میں بنسی راج کی مدد کروں لیکن ان ارواح خبیثہ کے ساتھ مجھے کیا کرنا چاہئے، یہ میرے علم میں نہیں تھا۔ نیند آنکھوں سے دور ہو گئی تھی۔ اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ بنسی راج کے ہاتھوں چوٹ کھائے آسیب میری طرف سے ہوشیار ہو گئے تھے جس کا ثبوت مجھے حویلی میں داخل ہوتے ہی مل گیا تھا۔ بہت دیر تک بیٹھا سوچتا رہا پھر نماز پڑھنے کو دل چاہا، یوں بھی تہجد کا وقت تھا۔ اپنی جگہ سے اٹھ کر صحن مسجد میں آیا، وضو کیا اور عبادت کرنے لگا۔ دل کو ناقابل بیان سکون ملا تھا۔ سلام پھیرا تو ایک اور تہجد گزار پر نظر پڑی۔ ادھیڑ عمر شخص تھا۔ میری دائیں سمت بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بھی سلام پھیرتے ہوئے مجھے دیکھا اور نماز سے فارغ ہو کر مجھے سلام کیا، میں نے احترام سے اسے جواب دیا۔
’’موسم خوشگوار ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’بے شک۔ رحمت الٰہی سے منور۔‘‘ میں نے جواب دیا۔