آج اس کی سزا کا آخری دن تھا۔ وہ ناشتہ کرنے کے بعد جلدی سے تیار ہو کر احمد صاحب کے کمرے میں آئی اور احتیاطاً کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کر کے کمرے میں بنے چھوٹے سے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی۔ ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر اس نے وہاں اپنے دائیں طرف موجود الماری کو کھول کر اس کے اندر ایک مخصوص بٹن دبایا تو ٹھیک اس کے سامنے والی دیوار اپنی جگہ سے آہستہ آہستہ سِرکی اور دوسری طرف بنا خفیہ کمرہ واضح ہوا۔ دیوار کے سرکتے ہی وہ سرعت سے اس خفیہ کمرے میں داخل ہوئی تو پیچھے وہ دیوار خودبخود ہی بند ہوگئی۔ سامنے ہی احمد صاحب میز کے گِرد کرسی پر بیٹھے کسی فائل کا مطالعہ کر رہے تھے۔ آہٹ پر سر اٹھا کر دیکھا تو اس کا خوشی سے جگمگاتا چہرہ دیکھ کر نفی میں سر ہلا کر رہ گئے۔
“کہیئے، کیسے آنا ہوا؟”
“آپ اچھے سے جانتے ہیں۔” اس نے چہک کر کہا۔
“کیا جانتا ہوں؟” انہوں نے فائل کا ورق پلٹتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا۔
“سر اب آپ ایسے تو نہ کریں۔ میں نے کتنی مشکل سے یہ پندرہ دن گزارے ہیں میں جانتی ہوں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے میں کچھ ادھوری سی ہوں۔” اس نے منہ بسورا۔
“حالاں کہ اس دوران تم ریستوران میں اپنے ہاتھوں کی کجھلی مٹا چکی ہو۔” انہوں نے خفگی سے اسے دیکھا۔
“افشین کی بچی!” اس نے بڑبڑاتے ہوئے دانت پیسے۔
“اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا میرے اور بھی سورسز ہیں۔” اس کی بڑبڑاہٹ سن کر انہوں نے جواب دیا۔
” اب میری گن اور کارڈ دے دیں ناں۔” اس نے جھلا کر کہا۔
“میں نے کہا تھا کہ کوئی کاروائی نہیں کرنی ورنہ دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔”
” آپ نے ہاتھ اور گن سے منع کیا تھا، میں نے نہیں استعمال کیے بس پاؤں سے کام چلایا تھا۔” اس نے کندھے اچکائے۔
“اچھا اب دے دیں ناں۔” ان کو ہنوز ٹالتا دیکھ کر وہ اکتائی۔
“میری کچھ شرائط ہیں۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
“بتائیں۔” اس نے بیزاری سے آنکھیں گھمائیں۔
“آئندہ تم کوئی بھی کاروائی اکیلی نہیں کرو گی۔ اپنی سیفٹی کا مکمل بندوبست رکھو گی اور جہاں خطرہ محسوس ہو فورا ٹیم سے رابطہ کرو گی۔” انہوں نے تنبیہی انداز میں کہا۔
“اوکے سر۔” اس نے سر کو خم دیا مگر ان کی گھوری پر فوراً سیدھی ہوئی۔
“آئی پرومس”
احمد صاحب اٹھ کر الماری کی طرف گئے اور اس کا کارڈ اور گن نکال کر میز پر رکھی۔
“ارے واہ آپ تو پہلے ہی بندوبست کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔” وہ میز پر سے دونوں چیزیں اٹھاتے ہوئے چہکی۔
“مجھے پتہ تھا کہ تم صبح ہی صبح آن پہنچو گی اسی لیے کل لا کر رکھی تھیں۔” اب کی بار وہ متبسم لہجے میں بولے مگر وہ وہاں ہوتی تو سنتی۔ وہ تو اپنی گن اور کارڈ سمیت کسی اور ہی جہاں میں پہنچی ہوئی تھی۔ دونوں چیزیں پکڑے وہ یوں مسکرا رہی تھی جیسے اسے دنیا جہاں کا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ اس کو خیالوں میں کھویا دیکھ کر نفی میں سر ہلا کر رہ گئے۔ کچھ پل گزرنے کے بعد بھی جب دانین اپنی سوچوں میں ہی غرق رہی تو احمد صاحب نے زرا اونچی آواز میں اسے پکارا۔
“دانین ابراہیم”
وہ جو اپنی سوچوں میں محو مسکرا رہی تھی اپنے نام کی پکار سن کر ایک دم ہڑبڑا کر ہوش میں آئی اور اپنی گن اور کارڈ جیکٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے سوری سر اینڈ تھینکس سر کہتی جلدی سے وہاں سے نکلی۔
ابھی وہ احمد صاحب کے کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ اس کا ٹکراؤ ارتضی سے ہوا جو آفس کے لیے نکل رہا تھا۔اسے اس کے چہرے پر پھیلی خوشی نے اسے حیران کیا اور وہ بے اختیار اسے پکارتا ہوا اس کے پاس آیا۔
“کیا بات ہے؟ آج تو کافی خوش لگ رہی ہیں؟”
“ارے آپ کو کیا پتہ بات ہی خوشی کی ہے۔” وہ چہکتے ہوئے بولی۔ اس کے انداز میں عجیب بچگانہ پن تھا۔ جیسے کوئی بچہ اپنی من پسند چیز کے ملنے کی آس پر خوش ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کے انداز پر وہ مسکرا دیا۔
“خیریت ؟ایسا کیا ہوگیا؟”
“آپ کو پتہ ہے آج میری س۔۔۔۔ ” بولتے بولتے اچانک اس کی زبان کو بریک لگی۔ اس نے چور نظروں سے ارتضی کو دیکھا جو اس کے جواب کا ہی منتظر کھڑا تھا۔
“کیا؟” اس کو خاموش ہوتے دیکھ کر اس نے پوچھا۔
“آآآآ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ ہاں مجھے کالج سے مزید چھٹیاں مل گئی ہیں۔” اس نے گڑبڑاتے ہوئے بات بنائی۔
“کمال ہے، آپ تو اس نالائق بچے کی مانند بی ہیو کر رہی ہیں جو پڑھنے سے بھاگتا ہو ۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا تو جواباً وہ بھی ہنس دی۔
“اوکے! شام میں ملتے ہیں۔ آپ اپنی چھٹیاں انجوائے کریں، میں آفس کے لیے نکلتا ہوں۔” وہ مسکراتے ہوئے اسے کہتا چلا گیا۔
“اللہ نگہبان۔” وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی رہائی کے تیسرے دن ہی وہ اشعر کی والدہ کے ساتھ افشین کے گھر پہنچی ہوئی تھی۔ افشین اور اس کی ماما صباحت بیگم نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ وہ دونوں خواتین کے درمیان ڈٹ کر بیٹھی رہی، حالاں کہ افشین نے کئی بار اس سے اشاروں کنایوں میں اشعر کی والدہ کی آمد کے بارے پوچھا بھی مگر وہ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن گئی۔ صباحت بیگم نے اسے چائے بنانے کا کہا تو اس نے باتوں باتوں میں دانین کو بھی آنے کا کہا کہ مل کر چائے بناتے ہیں مگر وہ ٹال گئی۔ کچن میں جا کر بھی اس نے اس کو میسجز کئے لیکن وہ شاید ڈھٹائی کے سارے ریکارڈ آج ہی توڑنے کا ارادہ کیے بیٹھی تھی۔ افشین اس کی بےپرواہی پر سوائے دانت پیسنے کے اور کچھ نہ کر سکی اور چائے کے ساتھ دیگر لوازمات تیار کرنے میں لگ گئی۔ ادھر ڈرائینگ روم میں براجمان اشعر کی والدہ نے صباحت بیگم کو اپنی آمد کی وجہ بتا کر افشین کا رشتہ مانگا تو کچھ پل کے لیے وہ خاموش ہوگئیں مگر دانین نے ان کی ہر طرح کی تسلی کروانے کی کوشش کی اور مزید کی بھی یقین دہانی کروائی۔ وہ چونکہ ایک عرصے سے دانین اور اشعر کو جانتی تھیں اس لیے کچھ دیر تک سوچنے کے بعد انہوں نے افشین سے پوچھ کر بتانے کا کہا جس پر دانین نے کہا کہ وہ ابھی پوچھ لیتے ہیں اور ساتھ ہی اٹھ کر ان کے لیے چائے کا انتظام کرواتی افشین کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی کچن سے باہر نکل کر ایک طرف لے گئی اور افشین سے پوچھنے کی زحمت کیے بنا ہی اس پر اشعر کے ساتھ رشتہ پکا کرنے کا بم پھوڑا۔ اس نے کچھ یوں اس پر حملہ کیا کہ وہ بوکھلا کر رہ گئی۔ اشعر کے ساتھ رشتہ ہونے پر وہ کچھ پل کے لیے مارے حیرت کے گنگ ہوگئی اور دانین صاحبہ اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتی اس کی رضامندی کا اعلان کرتی فوراً تیر کی تیزی سے ڈرائینگ روم میں پہنچی اور اگلے پندرہ منٹ میں اس نے ایسا چکر چلایا کہ وہ جو سب وہاں بیٹھے افشین کی رضامندی اور منگنی کی بات کر رہے تھے اب منگنی کے بجائے ڈائریکٹ نکاح کا پروگرام ترتیب دے رہے تھے۔ افشین تو اس افتاد پر ہکا بکا تھی۔ جاتے جاتے دانین صباحت بیگم کے کان میں بھی پھونک گئی تھی کہ چونکہ اس کا نکاح طے پا گیا ہے تو سو طرح کی بدنظری ہوجاتی ہے، اس لیے اس کو کسی صورت میں بھی گھر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ وہ چونکہ کچھ حد تک پرانے خیالات کی مالک تھیں اس لیے اس سے پوری طرح متفق نظر آئیں۔ یہ ساری واردات سر انجام دے کر وہ رات گئے گھر واپس لوٹی تو ڈنر کیے بغیر ہی کمرے میں آ گئی۔ آج کافی دنوں بعد وہ سکون کی نیند سونے والی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے صباحت بیگم سے فون پر ہی شاپنگ کا پلان ترتیب دے لیا تھا۔ چونکہ نکاح کی تقریب آٹھ دن بعد رکھی گئی تھی اور افشین کے علاوہ کوئی اور ان کا ہاتھ بٹانے کو تھا بھی نہیں اور اسے بھی دانین گھر میں بٹھا چکی تھی اس لیے انہوں نے دانین سے کہا کہ وہ کام نمٹانے میں ان کی مدد کرے اور وہ بھی فرمانبرداری کا اعلی مظاہرہ کرتی ہوئی جھٹ سے حامی بھرتے ہوئے اگلے دن ہی رابیل سمیت ان کے گھر پہنچ گئی۔ دعا سلام کے بعد صباحت بیگم ان کو انتظار کرنے کا کہہ کر خود تیار ہونے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ ابھی وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف تھیں کہ ملازمہ نے چائے اور دیگر لوازمات لا کر ان کے سامنے رکھے۔ اس سے پہلے کہ دانین ان چیزوں سے انصاف کرتی افشین آندھی طوفان بنی اس کے سر پر پہنچی اور اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتی ہوئی اپنے کمرے میں لے گئی۔
“ایسے تو چیل بھی انڈے نہیں اٹھاتی جیسے افشین آپی نے دانین آپی کو اٹھایا ہے۔” رابیل کپ اٹھاتے ہوئے بڑبڑائی۔
افشین نے اسے لے جا کر کمرے میں بیڈ پر پٹخا اور خونخوار نظروں سے اسے گھورنے لگی۔
“کیا ہے آنکھوں سے نگلنے کا ارادہ ہے کیا؟” دانین نے لاپرواہی سے پوچھا۔
“جان سکتی ہوں کہ یہ تم کیا کرتی پھر رہی ہو؟” اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں پوچھا۔
“کیا؟” اس نے بھرپور بھولپن سے سوال کیا۔
“مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمہارا حلیہ بگاڑ دوں اس لیے صاف صاف بتاؤ کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟” اس نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔
“اوکے بتاتی ہوں۔” اس کا جارحانہ انداز دیکھ کر وہ اٹھ کر اس کے سامنے آئی۔
“تم ہی تو کہتی تھیں کہ میں تمہارے بارے میں سوچوں، کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر تمہاری نیّا پار لگا دوں تو اب کیا ہوا ہے؟ اتنا اوور ریئکٹ کیوں کر رہی ہو؟”
“اور ماما سے کیا بکواس کی ہے؟ وہ مجھے باہر نہیں جانے دے رہیں۔” اس نے تیکھے چتونوں سے اسے گھورا۔
“وہی جو کچھ دن پہلے تم نے میرے ساتھ کیا ہے۔”
“اوہ تو تم نے بدلہ لیا ہے۔ میں نے جو کیا تمہاری بھلائی کے لیے کیا مگر تم یوں بدلا لو گی مجھے اندازہ نہیں تھا۔ معاف کر دو مجھے آئندہ کوئی مداخلت نہیں کروں گی۔” اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
“افشی! تم اتنی سنجیدہ کیوں ہو رہی ہو؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
“تم نے جو کرنا تھا کر چکیں اب مہربانی کرو جان چھوڑو میری۔” وہ اس کو دروازے کی جانب دھکا دیتے ہوئے غرائی۔ وہ جو اب تک اسے مذاق سمجھ رہی تھی اس کی سنجیدگی دیکھ کر کھٹکی۔ اس کے تیور کچھ اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔ وہ چند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی جو صوفے پر بیٹھی انگلیاں چٹخاتی سخت اضطرابی کیفیت میں لگ رہی تھی۔ وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
“مجھے نہیں بتاؤ گی؟” اس نے آہستگی سے کہا۔
“کیا؟” وہ چونکی۔
“وہی جو تمہارے دل میں ہے۔ ادھر میری طرف دیکھو۔ میں جانتی ہوں کوئی بات تمہیں پریشان کر رہی ہے۔ کیا بات ہے؟ بتاؤ مجھے۔” اس کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر دانین نے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑتے ہوئے کہا
“دانی !”
” میں سن رہی ہوں۔” دانین نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا.
“مجھے۔۔۔ مجھے یہ شادی نہیں کرنی ۔” اس نے اس سے نگاہیں ملائے بغیر کہا۔ ایک پل کو وہ خاموش ہوئی مگر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے مسکرائی۔
“بس اتنی سی بات ہے۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات تھی ۔آنٹی سے کہہ دیتیں یا پھر مجھے بول دیتیں۔ خیر فکر مت کرو میں دیکھ لوں گی۔” دانین نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے تسلی دی
“آئی ایم سوری دانین۔”
“ارے کوئی بات نہیں۔ جب دل ہی راضی نہ ہو تو یہ زبردستی کے رشتے سوائے فرسٹریشن اور ڈپریشن کے اور کچھ نہیں دیتے۔” اس نے نرمی سے کہا۔
“بہت شکریہ۔” وہ اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس کے گلے لگی۔
“اچھا ایک بات پوچھوں؟ سچ سچ بتاؤ گی؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دانین نے کہا.
“ہاں پوچھو؟”
“تمہیں اشعر سے شادی کیوں نہیں کرنی؟” اس نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“بس ویسے ہی۔” اس نے مدہم لہجے میں جواب دیا۔
“تمہیں پتہ ہے وہ تمہیں پسند کرتا ہے۔”
جانتی ہوں۔” اس نے جواب دیا
“پھر بھی منع کر رہی ہو؟” دانین نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“صرف محبت اور پسند ہی کافی نہیں ہوتی دانی۔”
“وہ تو ٹھیک ہے مگر اشعر میں کیا برائی ہے؟ اچھا لڑکا ہے، پڑھا لکھا ہے، اتنی اچھی جاب کرتا ہے۔ ہم سب ایک عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں کبھی کوئی ایسی ویسی بات بھی سامنے نہیں آئی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اور تمہیں کیا چاہیئے۔” دانین کی آنکھوں میں بلا کا تعجب تھا۔
“یہ سب کافی نہیں ہے نہ۔ انسان اور خصوصاً مرد کی خود مختاری بہت معنی رکھتی ہے جبکہ وہ پہلے باس پھر تمہارے اور اس کے بعد میرے انڈر ہوتا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ لینا ہو وہ ہماری طرف دیکھتا ہے۔ خود سے وہ چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی نہیں لے سکتا۔ ہر وقت ہمارے آرڈر فالو کرتا ہے۔ اس کی اپنی سوجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہے تو میں کیسے اسے اپنی زندگی کا ساتھی بنا سکتی ہوں۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...