(Last Updated On: )
سزائے جذبہ و احساس کاٹتے رہئے
ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے
اس اژدحام حریصاں کو ہے یہی مطلوب
کہ ایک دوسرے کا ماس کاٹتے رہئے
ہر ایک شکل ملے مثل نخل بے چہرہ
یہی کہ شہر میں بن باس کاٹتے رہئے
یہ کار زندگی ہے کار کوہکن سے کٹھن
بصارتوں سے یہ الماس کاٹتے رہئے
بہ فیض نکتہ وری موسمِ بہار میں بھی
خزاں کی چھوڑی ہوئی گھاس کاٹتے رہئے
اس انتظار کی لا حاصلی پہ زور ہی کیا
پرائے وقت کو بے آس کاٹتے رہئے
٭٭٭