وہ ایگزیمینیشن حال سے نکل کر خاموشی سے یونیورسٹی کے کشاد گراؤنڈ میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے آکر بیٹھ گئی تھی ۔۔
آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص اک شام میں کتنا بدل گیا ۔۔
آنکھیں جذبات سے خالی تھیں اور لب مانو جیسے کسی نے سی دیئے ہوں اس سب کے دوران دماغ تھا جو مسلسل گزرے وقت کو کسی فلم کی طرح چلا رہا تھا ، وہ جو کبھی اسے دیکھ کر مسکرایا کرتا تھا ۔۔ اس سے بات کرنے کو بہانہ ڈھونڈا کرتا تھا آج کتنا پرایا ہو گیا تھا ، آج اسی کو اگنور کر رہا تھا آخر کیوں ؟؟؟ ” زونیہ نے آنکھ سے نکلتے آنسو کو صاف کیا وہ یہی سوچ رہی تھی جب اسے اپنے ساتھ کسی کے بیٹھنے کا احساس ہوا اس نے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گئی “۔۔
رو ۔۔ روح ۔۔ روحان ؟؟؟ ” زونیہ نے بےیقینی سے اسکا نام زیرلب دوہرایا تو وہ دھیمہ سا مسکرا دیا “۔۔
بہت مایوس لگ رہی ہو یا پھر شاید بدگماں ۔۔ ” روحان اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو زونیہ کی آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگیں “۔۔
زونی مجھ سے بدگمان مت ہو یار ، پلیز مجھ سے نفرت مت کرنا ۔۔ ” اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر روحان ضبط کھو رہا تھا جب کہ وہ آنکھوں میں شکوہ لیئے اسے دیکھ رہی تھی “۔۔
روحان میرے خوابوں کا میری خواہشوں کا قتل کیا ہے تم نے قاتل ہو تم میری خوشیوں کے اور یہ چاہتے ہو کے نفرت نا کروں تم سے بدگماں نا ہوں کیوں ؟؟؟ ” زونیہ مکمل اسکی جانب مڑتی ہوئی بولی تو روحان نے سر جھکا دیا “۔۔
میں ، میں بیوقوف تھی روحان بلکل ناواقف تھی اس لفظ محبت سے ، مجھے نہیں پتہ تھا مجھ کیا ہوتی ہے تم نے مجھے سکھایا محبت کرنا اسے محسوس کرنا ، تم سے مل کر اس لفظ کے معنی جان پائی ہوں اور پھر اچانک تمہاری بےرخی یہ اجنبی پن یہ سب کیوں ؟؟ مجھے پتہ ہے تم کرتے ہو مجھ سے محبت تمہاری آنکھیں بتاتی ہیں مگر تم ماننا کیوں نہیں چاہتے اقرار کیوں نہیں کر دیتے ؟؟ آخر ایسا کیا ہے جو تمہیں مجھ سے دور کر رہا ہے روحان ؟؟ ” زونیہ اس کا گریبان پکڑ کر روتے ہوئے بولی ، وہ اسے بتانا چاہتا تھا مگر ہمّت تھی جو ہو ہی نہیں رہی تھی “۔۔
میں تمہیں سب بتا دوں گا زونی ، انفیکٹ میں ابھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آخر وہ وجہ کیا ہے مگر اس کے لیے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا ۔۔ ” روحان نے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا تو زونی نے حیرت سے اسے دیکھا یہ بھی اس کا الگ روپ تھا “۔۔
نہیں روحان میں کہیں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ ، میں تمہارا قیمتی وقت برباد نہیں کر سکتی ۔۔ ” زونیہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی تو روحان نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے “۔۔
ایک مچھلی سے اگر کہا جاۓ کے تم نے پانی کے بغیر رہنا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا جاۓ کے زندہ بھی رہنا ہے تو اس مچھلی کی حالت شاید تم سمجھ پا پاؤ زونی ۔۔ جینے کیلیے کس طرح دکھوں کو اور اذیتوں کو سمیٹنا پڑتا ہے اس سے بھی تم ناواقف ہو ، تم بہت نازک ہو بہت نفیس سی جس کو خدا نے ہمیشہ دکھوں سے دور رکھا ہے زندگی کی سختیوں سے دور رکھا ہے اور میں نہیں چاہتا کے یہ سب تمہیں زندگی میں کبھی بھی فیس کرنا پڑے ، زونی محبت صرف یہ نہیں ہوتی کے ہم اپنے محبوب کو حاصل کر لیں ، اسے خوش دیکھا اسے غم کی ہوا تک سے بچانا اس کی حفاظت کرنا یہ بھی محبت ہے اور میرے نزدیک کھری محبت یہی ہے ۔۔۔ ” روحان نے بہت تحمل سے اسے سمجھانا چاہا “۔۔
روحان مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا صرف اس کے کہ میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں اور اپنی آگۓ کی ساری زندگی صرف اور صرف تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں پلیز ۔۔ ” زونیہ نے نم آنکھوں سے التجا کی “۔۔
تم چلو میرے ساتھ ایک مینٹ کے اندر اندر ۔۔ ” روحان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو زونیہ نے پہلے اسے دیکھا اور پھر ناچاہتے ہوئے بھی کھڑی ہوئی “۔۔
تم خواب دیکھنے میں مصروف تھی زونیہ جب کہ میری حقیقت بہت دردناک ہے ، سوچا تھا کبھی تمہیں نہیں بتاؤں گا کے میں کون ہوں کیوں ہوں کبھی نہیں بتاؤں گا کیوںکے میں چاہتا تھا کبھی تم مجھ سے نفرت مت کرو ، لیکن آج اس بات کی فکر سے بھی آزاد ہوں جہاں اس نفرت کی دنیا میں اتنے لوگوں کی نفرت برداشت کی ہے وہیں ایک اور صحیح مگر اس غلط فہمی کا شکار ہو کر میں تمہیں تمہاری زندگی کبھی برباد نہیں کرنے دوں گا کبھی نہیں ۔۔ ” روحان اسکی کلائی پر اپنی گریفت مظبوط کرتے ہوئے بولا اور اسے اپنے ساتھ لے کر گاڑی کی جانب بڑھ گیا “۔۔۔
_____
روحان جو بات کرنا چاہ رہا تھا وہ یونی میں کسی صورت نہیں کر سکتا تھا اس لیے وہ اسے اپنے ساتھ لیئے جھیل کی جانب آیا ۔۔ جہاں ہر جانب خاموشی تھی سکون تھا بس پانی کی لہروں کی دھن تھی اور ہوا جو اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھی ،
روحان گاڑی سے باہر آیا تو زونیہ نے بھی اسکی پیروی کی دونوں چلتے ہوئے ایک لکڑی سے بنے بینچ پر بیٹھ گئے کئی لمحے روحان نے پانی کی لہروں کو دیکھا جیسے سوچ رہا ہو بات کہاں سے شروع کی جاۓ تو دوسری جانب وہ دھڑکنوں کو تھامے اسکی صورت دیکھنے میں مصروف تھی جیسے آج موقع ہے پھر کبھی دید نا ہوگی ۔۔
روحان ۔۔۔ ” زونی نے اسے مخاطب کیا جو گم سم سا تھا اور اسکی آواز پر مڑ کر اسکی جانب دیکھا “۔۔
تم میرے دل کی دھڑکن بن گئے ہو ، اگر مجھ سے دور ہو جانا چاہتے ہو تو ، میں کیسے رہوں گی ؟؟ میں آج تک جو چاہا ہے مجھے ملا ہے اگر تم نا ملے تو مجھے صبر کس طرح سے آئے گا ؟؟ دل میں درد لے کر کیسے زندگی گزاروں گی ، جہاں ایک پل سو سال جیسا لگے گا ، روحان میں تمہیں یاد کرتے ہوئے کہیں مر ہی نا جاؤں ۔۔ ” زونیہ نے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا تو روحان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور بہت محبت سے اس کے آنسوں صاف کیئے “۔۔
زونی تم جانتی ہو یہ سب وقتی ہوتا ہے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہمیں ہماری محبت نا ملی تو ہم جی نہیں پائیں گے مر جائیں گے ، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا یہ سب تو بس کچھ قربت کے لمحوں کا اثر ہوتا ہے اور کچھ نہیں ۔۔ میں مانتا ہوں تم مجھے اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی ہو مگر زونی ایسا ممکن نہیں ہے اور یہی حقیقت ہے ۔۔ ” روحان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے بہت نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے سمجھایا “۔۔
تم جانتی ہو میری ماں اچھی عورت نہیں تھیں ، انکا بہت سارے مردوں سے ناجائز تعلق تھا ۔۔ ” روحان نے چہرہ جھکا کر کہا اور زونیہ نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا “۔۔
اور وہی ناجائز تعلقات ہی میری اس دنیا میں آنے کی وجہ بنے ہیں زونی ۔۔ ” روحان ضبط کرتے ہوئے اسے بتانے لگا مگر پھر بھی ایک بے رحم آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر گرا اور زونیہ نے شاک کی سی کیفیت میں اسے دیکھا ، جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہو “۔۔
زونی اس گھٹیا عورت نے نو ماہ تک مجھے وجود کا حصہ بنائے رکھا اور پھر میرے پیدا ہوتے ہی وہ ظالم مجھے مرنے کیلیے قبرستان میں پھینک گئی ۔۔ ” روحان نے سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں سے کہا اور زونی نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ دیا اور بےیقینی کی حالت میں کچھ آنسوں جو آنکھ میں مچل رہے تھے باہر ٹپک پڑے “۔۔
ہاں زونی سچ ہے کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں ، ایسا عشق جس میں میں تمہارے لیئے اپنی جان تک دے دوں ، ایک ایسا عشق جس میں تمہاری خوشی کی خاطر میں خود کو تم پر وار دوں ، تم سے عشق کی گواہ میری راتیں ہیں اور خدا جو میرے حال کا محرم ہے مگر یقین جانو زونی میں تمہارا ساتھ کبھی بھی نہیں چاہتا میں نہیں چاہتا تم میری ہمسفر بنو میں نہیں چاہتا کے تم میری محرم بنو ۔۔ ” روحان نے اسکی نم آنکھوں میں بہت غور سے دیکھتے ہوئے کہا جہاں حیرت کے سمندر تھے “۔۔
یہ کیسا عشق ہے تمہارا روحان ؟؟ جان دے سکتے ہو مگر ہمسفر بننے کی خواہش نہیں رکھتے ، میری خوشی پر قربان ہونے تو تیار ہو مگر میرے محرم بن کر خود کو مجھ پر وارنا نہیں چاہتے ؟؟ راتیں نیند سے خالی ہیں مگر ان راتوں میں میری قربت نہیں چاہتے کیوں ؟؟ ” زونی نے اس کے گریبان سے پکڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ، دونوں کی آنکھیں برس رہی تھیں زونی کی آنکھوں میں ہزار سوال تھے اور روحان کی آنکھیں جواب سے خالی تھیں “۔۔
میں ایسا نہیں کر سکتا زونی ، دراصل میں ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا ، میں تم سے یک طرفہ عشق کرنا چاہتا ہوں میں اپنے عشق میں تمہیں بھی شریک نہیں کرنا چاہتا زونی ۔۔ میں نے دیوانگی کے دور میں تمہیں محسوس کیا ہے تمہاری قربت کو خیالوں میں محسوس کیا ہے اور اب مجھے در حقیقت تمہارے وجود کی کوئی طلب نہیں ہے ۔۔ ” روحان نے دل کی وہ بات کہی جو آج تک وہ خود سے چھپاتا آرہا تھا اور زونیہ کو محسوس ہوا وہ اسکی باتوں میں ڈوب جاۓ گی “۔۔
زونی ایک خواجہ سرا نے مجھے پالا ہے ، میری ماں بن کر اس دنیا میں نا میری کوئی ماں ہے نا کوئی باپ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میرا خود کا ہی کوئی وجود نہیں ہے اور جس کا خود کوئی وجود نا ہو وہ تمہارے قابل کہاں سے ہو سکتا ہے ؟؟؟ ” روحان نے اسکی پریشان آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جو اب مسلسل برس رہی تھیں “۔۔
جب سے ہوش سمبھالا ہے اپنے چاروں طرف طوائفوں کو دیکھا ، جو حسن سے لدی ہوئی تھیں ہر شام میں نے انہیں سجا سنورا دیکھا ہے ہر شام میں نے مرد کی صورت گدھ کو دیکھا ہے جو گندی نظر سے انہیں دیکھتے ہوئے خبیث مسکراہٹ چہرے پر سجائے پھیرتے تھے ، ہر رات کسی بدکردار لڑکی کو بدکاری کرنے کے بعد اندھیرے میں سیسکتا سنا ہیں میں نے ۔۔ تم میری اذیت میرے درد کا اندازہ نہیں لگا سکتی زونیہ تم ایک لمحے کو سوچو گی تو تمہاری جان جائے گی ۔۔ ” روحان ضبط کی آخری انتہا پر بولا اور زونیہ کو لگا اس سے زیادہ اس نے سنا تو بیہوش ہو جاۓ گی ، اس کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے روحان کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی کہنے کو سب الفاظ ختم ہو چکے تھے “۔۔
میں 20 کا سال کا تھا جب ایک دن چھن چھن ایک 16 سال کی لڑکی کو لے کر آئیں وہ روۓ جا رہی تھی یہاں تک کے وہ روتے ہوئے بار بار بیہوش ہو جاتی تھی اسے دیکھ کر پہلی بار میرے دل میں کسی لڑکی کے لیے ہم دردی پیدا ہوئی تھی ، میں نہیں جانتا تھا وہ کون ہے مگر وہ اتنی حسین تھی کہ اس جیسا حسن میں نے بیس سال میں کبھی نہیں دیکھا تھا ، اسکی آنکھیں شہد جیسی شفاف اسکے ہونٹ اتنے گلابی کے گلاب بھی ماند پڑ جاۓ اسکا نفیس سا سراپا کسی کو بھی آپے سے باہر کر سکتا تھا ، مگر اس سب سے بڑھ کر جو سوال میرے دل میں پیدا ہوا وہ یہ تھا چھن چھن اسے یہاں کیوں لائی ہیں ۔۔ ” روحان نے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور زونیہ نے بہت تجسوس سے اسکی بات سنی “۔۔
زونی اسکی ماں مر چکی تھی اور اسکی سوتیلی ماں اور سوتیلی بہن نے دس لاکھ لے کر اسے اختر میاں کو بیچ دیا تھا جو اسے چھن چھن کے حوالے کر کے گئے تھے وہ روۓ روۓ جا رہی تھی تو چھن چھن نے فیصلہ کیا اسے واپس اس کے گھر اس کے باپ کے پاس چھوڑ کر آئیں گی اور انہوں نے ایسا کیا ، وہ لے کر گئی تھیں اسے اس کے باپ کے پاس مگر اس بغیرت انسان نے اسے بدکردار کہہ کر دنیا کے سامنے رسوا کر کے گھر سے ہی نکال دیا ۔۔ ” روحان کی آنکھوں میں آج بھی تتلی کا وہ روتا چہرہ آیا تو اسکی رگیں تن چکی تھیں اس کی آنکھیں مکمل طور پر سرخ ہو رہی تھیں “۔۔
پھ ۔۔ پھر کیا ۔۔ کیا ہوا رو ۔۔ روحان ؟؟ ” زونیہ نے ہمت جمع کرتے ہوئے پوچھا اور روحان نے چہرہ جھکا دیا “۔۔
پھر اس کے پاس سوا طوائف بننے کے کوئی راستہ نہیں بچا تھا زونی ، اس نے بھی اس دلدل میں پاؤں رکھ دیا جس سے مجھے شدید نفرت تھی ۔۔ چھن چھن نے اس سے ہلف لیا اور اسے حسن نگری کی شہزادی بنا دیا کیوںکے حسن نگری میں اس سے زیادہ حسین کوئی ہے ہی نہیں ، وہ حسن کا چلتا پھرتا نمونہ ہے اسے تتلی کا خطاب دے دیا گیا وہ جو صرف خاص محفل سجاتی ہے اسکی محفل کے بعد حسن نگری کے پاس ایک بڑی رقم جمع ہوتی ہے ۔۔ ” روحان جھکے چہرے میں آنسوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور دوسری جانب زونیہ کی دونوں رخسار بھیگ چکی تھیں “۔۔
میرے نزدیق لڑکی ایک سیپ کا موتی ہے زونی جو ہر کسی کے لیے نہیں ہے کسی خاص کیلیے ہے ، کسی ایسے کیلیے جو اسکے قابل ہو کسی ایسے کیلے جو اسکی قدر و قیمت جانتا ہو ، میں تمہارے قابل نا کبھی تھا اور نا کبھی ہو سکتا ہوں ۔۔ زونی تم خوش قسمت ہو تمہارے پاس ماں باپ ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ تم سے محبت کرتے ہیں تم پر بھروسہ کرتے ہیں تمہیں کسی بھی ایسے شخص کیلیے انکا دل نہیں دوکھانا جو تمہارے قابل ہی نہیں ہے ۔۔ ” روحان نے بہت آس سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا جس کے چہرے سے ہی اس کے درد کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا “۔
یہ انسان کے بس میں نہیں ہے روحان کسی سے محبت کرنا اور کسی کو بھول جانا اور تمہیں ، شاید میں کبھی بھی نا بھول پاؤں خاص طور پر آج جو حقیقت میں جانی ہوں اس کے بعد تو بلکل بھی نہیں ، تمہاری حقیقت جاننے کے بعد یہ ناممکن ہے کے تم سے نفرت کی جاۓ روحان ۔۔ تمہارے لیے صرف اور صرف محبت ہے کیوںکے تم ڈیزرو کرتے ہو محبت ۔۔ روحان میں نے آج تک جس روحان سے محبت کی تھی وہ ایک روڈ اور ضدی سا ایٹیٹیوڈ والا اور بہت خوبصورت سا لڑکا تھا مگر آج کے بعد میں جس روحان سے محبت کروں گی وہ ایک عشق کا سمندر ہے ، جو خود میں لاکھوں غم چھپائے میری خوشی اور میری عزت کی خاطر مجھ سے دور ہوا ہے ۔۔ پہلے تم میری تمنا تھے تمہیں حاصل کرنا میری خواہش تھی مگر آج کے بعد تم وہ احساس ہو گے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گے آئ لوؤ یو روحان آئ ریلی لوؤ یو ۔۔۔ ” زونیہ نے روتے ہوئے کہا اور بات کے اختتام پر اس کے گلے لگ گئی اور ضبط کے بوجود روحان کے آنسو اس کے بالوں میں جزب ہونے لگے ” ۔۔
ناجانے کب تک وہ دونوں جی بھر کر روتے رہے وہ اس کے سینے پر سر رکھے وہ راز بھی سنتی رہی جو اس نے زبان سے بیاں نہیں کیئے تھے تھوڑے فاصلے پر کھڑے رومانہ اور سمیر کی آنکھیں بھی مکمل طور پر نم تھیں وہ دونوں بھی وہ راز جان چکے تھے ، انہوں نے ہمیشہ روحان سے نفرت کی تھی کیوںکے وہ طوائف خانے میں رہتا ہے یہ وہ جانتے تھے مگر حقیقت اتنی دردناک ہوگی انہوں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا ۔۔
روحان مجھے معاف کر دو پلیز ، میں سچائی جانے بغیر تمہیں غلط سمجھ رہی تھی تم سے بدگماں ہو رہی تھی ۔۔ ” زونیہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو روحان نے نفی کی “۔۔
تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے زونی ، میں جانتا ہوں میرا کردار کسی کو بھی بدگمان کر سکتا ہے ، مجھے بناوٹ نہیں آتی میں رشتوں کی حفاظت محبت اور خلوص سے کرتا ہوں اور لوگ اکثر وہ رخ دیکھ لیتے ہیں جو ہوتا ہی نہیں ہے ۔۔ ” روحان زخمی مسکراہٹ لیئے بولا تو زونیہ کو اس پر اور پیار آیا “۔۔
تم میرا عشق ہو زونی اور ہمیشہ رہو گی ، تمہارا مقام میری زندگی میں کبھی نہیں بدل سکتا ،، میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا زونی اگر ہمیں ہماری محبت نا ملے تو دوسروں کو محبت دینا مت چھوڑ دینا ۔ ہمیشہ انہیں محبت دینا جو آپ سے سچے دل سے محبت کرتے ہوں آپ کو اپنی عزت سمجھتے ہوں اور اپنی زندگی اس شخص کے نام کرنا جس کا تم مان ہو جو تم سے تو کیا تمہارے نام اور تمہارے ساۓ سے بھی محبت کرتا ہو ، اس نفرت اور خودغرض دنیا میں اگر ایسا کوئی مل جاۓ نا تو اسے کبھی کھونا مت ۔۔ ” روحان اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو زونیہ نے روتے ہوئے مسکرا کر اثبات میں گردن ہلائی ، روحان نے آگۓ بڑھ کر اس کی پیشانی چومنی چاہئی مگر ایک حسین روتا ہوا چہرہ اسکی نظروں میں گھوما تو پیچھے ہو گیا “۔۔
میں گناہ نہیں کر سکتا ، کیوںکے میرے لب کسی کی امانت ہیں تو تمہارا ماتھا بھی کسی اور کی امانت ہے ، آج میں نے تمہیں خود کی جانب سے دیئے ہر غم سے آزاد کیا ہے ، اپنا خیال رکھنا اور ہمیشہ خوش رہنا ” . ۔۔ روحان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور آگۓ کی جانب بڑھ گیا آنکھیں تھیں کے بھیگ رہی تھیں لب تھے کے مسکرا رہے تھے ۔۔ اس کی پشت دیکھ کر زونیہ نے منہ پر ہاتھ رکھا اور واپس بینچ پر بیٹھ گئی ،،
روحان ۔۔۔۔ ” زونیہ نے زور سے چیختے ہوئے کہا اور چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا ” ۔۔
نہیں رومانہ آج نہیں ۔۔۔ اسے آج جی بھر کر رو لینے دو کیوںکے روحان سے کیا وعدہ بھی تو نبھانا ہے نا ۔۔ ” رومانہ اس کی جانب جانے لگی تو سمیر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے روک دیا اور اسے اپنے ساتھ لگا دیا جو زونی کا غم دیکھتے ہوئے روۓ جا رہی تھی ۔۔۔
________
کاشف آپ ابھی تک نہیں گئے ایکسپریس سٹیشن ؟؟ ناجانے زونیہ کب سے وہاں کھڑی آپ کا انتظار کر رہی ہو گی حد ہے ویسے ۔۔ “دوپہر 4 بجے کے قریب فرزانہ بیگم کاشف صاحب کے سر پر آپہنچیں “۔۔
اوہ ہو فرزانہ بیگم 4 گھنٹے کا سفر ہے زونیہ نے کہا تھا وہ 2 باجے وہاں سے روانہ ہو گی یہاں آتے آتے 6 ساڑھے 6 تو ہو ہی جائیں گے آپ فکر مت کریں ہم جا کر پیک کر لیں گے اسے ۔۔ ” کاشف صاحب نے انہیں حوصلہ دیا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگے “۔۔۔
بس آپ نا انہیں کتابوں میں ہی لگے رہے ۔۔ ” فرزانہ بیگم نے بدمزہ ہوتے ہوئے کہا ”
بھئی فرزانہ بیگم آج کل کی جینیریشن کا یہی مسلہ ہے کہ موبائل میں لگے رہتے ہیں اور کتابوں سے دور رہتے ہیں ، کتابیں پڑھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دنیا کتنی بڑی ہے اور یہ انسان کتنے گہرے ہیں ۔۔ ” کاشف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تو فرزانہ بیگم نفی کرتی ہوئی باہر چلی گئیں “۔۔
فرزانہ بیگم لاؤنج میں تھیں جب مین گیٹ کھلنے کی آواز آئ انہوں نے لاؤنج میں لگی شیشے کی کھڑکی سے دیکھا تو نغمانا بیگم کی گاڑی اندر داخل ہوئی انہیں دیکھ کر فرزانہ بیگم کا چہرہ کھلکھلا اٹھا اور وہ لاؤنج کا دروازہ کھولتی ہوئیں راہ داری کی جانب بڑھیں “۔۔
اسلام وعلیکم نغمہ باجی کسی ہیں آپ ؟؟ ” فرزانہ بیگم نے خوشی سے گلے ملتے ہوئے کہا “۔۔
بلکل ٹھیک ہوں اللہ کا شکر ہے تم بتاؤ ؟؟ ” نغمہ بیگم بھی محبت سے بولیں “۔۔
اللہ کا کرم ہے باجی ۔۔ آرے سوہا میری جان کسی ہو بچے ؟؟ ” فرزانہ بیگم نے سوہا کا ماتھا چومتے ہوئے پیار سے کہا ” ۔۔
میں بلکل ٹھیک ہوں خالہ جان آپ ٹھیک ہیں ؟؟ ” سوہا اپنی نرم آواز میں بولی تو انہوں نے پیار سے اللہ کا شکر کہا “۔۔
اسلام وعلیکم خالہ جان ۔۔ ” فرزانہ بیگم سوہا اور نغمہ بیگم سے مل رہی تھیں جب مصطفیٰ گاڑی لاک کرتے ہوئے ان کے قریب آتے ہوئے بولا “۔۔
وعلیکم السلام خالہ کی جان کیسا ہے مصطفیٰ ؟؟ ” فرزانہ بیگم نے پیار کرتے ہوئے کہا اور پھر سب کو لے کر اندر آگیں ، کاشف صاحب بھی آواز سن کر باہر آچکے تھے انہوں نے سب کو سالام کیا اور مصطفیٰ کو گلے ملے “۔۔
بھئی ساحل میاں نہیں آئے ؟؟ آجاتے تو ان سے بھی ملاقات ہو جاتی ۔۔ ” کاشف صاحب نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا “۔۔
کاشف بھائی آپ کو تو پتہ ہے ساحل کا ایک دن بھی آفس سے آف نہیں لیتے ، بچوں نے تو کہا تھا لیکن انہوں نے پھر کبھی کا کہہ کر ٹال دیا “۔۔
خالہ جان کیا زونی ابھی تک نہیں آئ ؟؟ ” سوہا نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا “۔۔
نہیں بچے وہ 6 باجے تک آئے گی انشاءاللہ انکل جائیں گے اسے پیک کرنے ۔۔ ” فرزانہ بیگم نے بتایا “۔۔
ارے کاشف بھائی کیوں جائیں گے مصطفیٰ اور سوہا کر لیں گے نا پیک زونیہ کو ہے نا بچوں ؟؟ ” نغمہ بیگم نے سوہا اور مصطفیٰ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو دونوں نے خوشی خوشی حامی بھر لی “۔۔
اچھا آپ سب بیٹھیں میں چاۓ کا انتظام کرواتی ہوں ۔۔ ” فرزانہ بیگم ان سب کو باتیں کرتا چھوڑ کر کچن کی جانب بڑھ گئیں “۔۔۔
_________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...