https://www.scholars.pk/ur/scholar/hazrat-allama-hafiz-muhammad-ayub-dehlvi
رئیس المتکلمین علامہ حافظ محمد ایوب دہلوی بن عبد الرحمٰن، محلہ کوچہ قابل عطار، دہلی (بھارت) میں 1888ء کو تولد ہوئے۔ شیخ عبد الرحمٰن دہلی میں تجارت کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت: ابتدائی تعلم اپنے گھر سے حاصل کی، اس کے بعد قرآن حکیم کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے۔ بعد ازاں وقت کے مشاہیرِ علماء سے شرف تلمیذ حاصل کیا، اس کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ البتہ ملا واحدی کی خوش نوش کتاب ’دلی جو ایک شہر تھا‘ سے معلوم ہوا کہ انہوں نے عظیم ریاضی دان علامہ مولانا محمد اسحاق رامپوری سے بھی استفادہ کیا تھا۔ بہت حال مختلف علمائے کرام سے درسِ نظامی کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ علامہ موصوف کتاب و سنت کے ساتھ منطق و فلسفہ میں کمال درجے کے عالم و فاضل تھے۔ صاحب تصنیف قادرُ الکلام خطیب اور متوکل صوفی تھے۔ بلا کے ذہین، فطین، طبع اخذ اور مزاج نقاد تھا۔
بیعت: آپ فرماتے تھے کہ ’میں نے حضرت خواجہ غریب نواز سید معینُ الدین چشتی اجمیری قدس سرہ سے روحانی طور پر بیعت کر لی ہے، اس سے فیضیاب ہوں۔ دہلی میں ایک درویش رہتے تھے مولانا نے ایک مدت تک ان کی صحبت میں رہ کر ان کی خوب خدمت انجام دی، ان سے بھی فیضیاب ہوئے (بروایت محمد زین العابدین)
شادی و اولاد: آپ نے دہلی میں عجائب خانم خاتون سے شادی کی جس سے آٹھ (8) لڑکے اور آٹھ (8) لڑکیاں تولد ہوئیں۔ ان میں سے بعض بچے بچپن میں فوت ہوئے: محمد خالد مرحوم، محمد خضر مرحوم، محمد رفیع مرحوم، محمد یامین مرحوم، محمد صالح مرحوم، محمد زین العابدین مرحوم، محمد فیروز مرحوم۔
دامادوں کے نام: محمد الدین پراچہ (پراچہ ہاؤس اردو بازار کراچی)، محمد فرید (مالک فریسکو بیکرز، فریسکو چونک برنس روڈ کراچی)، سرفراز خان، امیر حَسن، عبد الحمید، معراج محمد۔
حلقہ احباب: مولانا سیدنا جلالی دہلوی، مولانا سید السلام باندوی، مولانا سید منتخب الحق قادری، مولانا مفتی محمد عمر نعمی، مولانا امیر احمد انصاری جودھپورہ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی وغیرہ وغیرہ۔
معتقدین: آپ کے صحبت میں بیٹھنے، درس میں شرکت کرنے والے، استفادہ کرنے والے کو شہ چین، معتقدین و محبین کی فہرست طویل ہے۔ آپ کے درس میں اہلِ علم فاضل اور نامور شخصیات شرکت کرتی تھیں، ان میں سے بعض اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
نامور دانشور ملا واحدی (کراچی)، حکیم محمد سعید بانی ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی، محترم سخی سید شوکت علی دہلوی مرحوم بانی مکتبہ رازی کراچی، مولانا عزیز الحق عزیز ڈپٹی سیکریٹری حکومت پاکستان (کراچی)، محمود احمد خان ریٹائرڈ الیکشن کمشنر سندھ کراچی (نے آپ کی کتاب “ختمِ نبوت” کا انگلش ترجمہ کیا جسے مکتبہ رازی نے آب و تاب کے ساتھ شائع کیا) حکیم فاروقی ہندوستانی دوا خانہ گارڈن، حکیم حافظ محمد محسن الدین احمد صاحب بقائی ٹھٹھائی کمپاؤنڈ/ شمالی ناظم آباد (کراچی)، خان بہادر شیخ حبیب الرحمٰن، حاجی محمد صالح دہلوی، دلی کے مشہور پنجابی سودا گر، حاجی شیخ محمد خلیل سوت والے (کھارادر)، ڈاکٹر رفیع الدین ملتانی سیکریٹری حکومت (کراچی)، اسلم ملتانی، حاجی محمد صدیق طیبی سینٹر نیو چالی کراچی وغیرہ۔
سفر حرمین شریفین: آپ نے 1966ء کو حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کیا مدینہ منورہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حاضری کی سعادت ابدی حاصل کی اور نہایت عقیدت و احترام سے درود اسلام کا نذرانہ پیش کیا۔ یاد رہے کہ آپ کو حج کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔
خطابت: آپ ہر اتوار کو درس یاد کرتے تھے ایک اتوار کو حکیم حافظ محمد سعید دہلوی شہید (بانی ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی) کے گھر شکار پور کالونی نزد مزائد پر۔ دوسرے اتوار کو اسد ملتانی (سیکریٹری حکومت پاکستان) کی کوٹھی 10 ڈی گارڈن روڈ کراچی پر جس میں قرآن و حدیث کے ساتھ فلسفہ و منطق پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرتی تھی، درسِ قرآن ہوا کرتا تھا۔ جس میں قرآن حکیم کی تفسیر تشریح اور علمی نکات بیان کئے جاتے تھے۔ ان دروس میں حاضرین کو کوئی بھی سوال دریافت کرنے کی کھلی اجازت ہوا کرتی تھی۔ ان تقاریر کو آڈیو کیسٹ کا خزانہ ہمدرد لائبریری بیت الحکمت میں محفوظ ہے، اس کے علاوہ بھی مختلف حضرات مثلاً حاجی محمد صدیق (الیوسف چیمبر شاہراہ لیاقت کراچی)، الحاج سید شوکت علی دہلوی مرحوم (کراچی)، اور حکیم محمد عبد اللہ قادری (کراچی) وغیرہ کے پاس محفوظ ہیں۔
خطابت کی جھلکیاں: رئیس المتکلمین علامہ حافظ ایوب دہلوی محفل درس فرمایا کرتے تھے، ہر اس مجلس میں جانا چاہئے کہ جہاں نبی علیہ السلام کی تعظیم کی جا رہی ہو اور اس مجلس میں نہیں جانا چاہئے جہاں نبی علیہ السلام کی بے ادبی ہو رہی ہو، حرام ہے، گناہ ہے۔ ’یا رسول اللہ‘ میں کیا جھگڑا ہے حضرت شاہ عبد العزیز ایسے بزرگ ہیں جن کو سب مانتے ہیں، دیوبندی، بریلوی اور غیر مقلد تینوں متفق ہیں۔ وہ فرماتے ہیں
’یا صاحب الجمال و یا سید البشر،
من وجہک المنیر و قد نور القمر،
کایمکن الثناء کماکان حقہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘
شاہ عبد العزیز ایسے بزرگ ہیں کہ (میری نظر میں) سارے عالَم میں ان کے برابر کا کوئی عالِم نہیں تھا۔ جب انہوں نے ’یا‘ کہہ کر پکارا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے اُستادوں کا سلسلہ ان سے (شاہ عبد العزیز سے) ملتا ہے۔ مذہبی چیزوں میں آئمہ اربعہ کو بزرگ جانتا ہوں اور حنفی مذہب کا پیروکار ہوں۔ ہر مذہب والا اپنے مذہب کو افضل کہتا ہے، میں بھی اپنے مذہب کو افضل کہتا ہوں۔ (مقلات ایوبی جلد اول ص 262 مطبوعہ مکتبہ رازی کراچی ندارد)
چند اہلِ حدیث (غیر مقلد) درس میں بیٹھا کرتے تھے (ایک روز) میں نے رد کر دیا، تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئے، ہو جاؤ، غیر مقلدی غلط چیز ہے اس سے بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ چاروں امام حق پر ہیں، ان کی تقلید جو نہیں کرے گا تو گمراہ ہو گا۔ (مقلات ایوبی جلد اول ص 260 مطبوعہ مکتبہ رازی کراچی ندارد)
قیامت تک جتنے اولیاء اللہ ہیں ان کے مجموعے سے ایک ادنیٰ صحابی کو افضل مانتا ہوں، یہ میرا عقیدہ ہے۔ تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جنتی مانتا ہوں، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں سمجھتا اور جو بات مانتا ہوں اس کے لئے دلیل ہوتی ہے (مقلات ایوبی جلد اول ص 293 مطبوعہ مکتبہ رازی کراچی ندارد)
مجتہد اگر غلطی کرے گا تو اس کو ایک انعام ملے گا۔ اگر ٹھیک کرے گا تو دو انعام ملیں گے۔ چاروں امام حق پر ہیں، تمام مجتہدین حق پر ہیں، تمام اولیاء اللہ اور ارباب کشف حق پر ہیں، یہ میرا عقیدہ ہے۔ (مقلات ایوبی جلد اول ص 295 مطبوعہ مکتبہ رازی کراچی ندارد)
تصنیف و تالیف: آپ کے علمی دروس کو آپ کے محبین و متوسلین نے آڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا تھا، جس سے نقل کر کے کتابیں تیار کر کے آپ کی زندگی اور اس کے بعد شائع کر کے مفت تقسیم کی گئی۔ ریٹائرڈ پروفیسر محمد نعیم (کالا بورڈ ملیر) علامہ موصوف کے درس میں اکثر شرکت فرماتے تھے انہوں نے ایک ملاقات میں راقم فقیر کو بتایا کہ ’’وہ تاجرانہ بنیاد پر کتابیں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔‘‘ وہ فرماتے ہیں کہ ’’وسائل ہیں تو شائع کر کے مفت تقسیم کریں۔‘‘ اس سلسلہ میں وہ چندہ جمع کرنے کے حق میں بھی نہیں تھے۔ ان کا اللہ عز و جل کی ذات پر کامل بھروسہ تھا۔ وہ فرماتے تھے ’جس کام کا ہونا ہے۔ وہ ضرور ہو کر رہے گا۔‘ وہ کامل متوکل تھے۔ آپ کی بعض کتابوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
تفسیر ایوبی: حصہ اول جس میں “اعوذ، بسم اللہ اور سورۃ الفاتحہ کی تفسیر
حصہ دوم میں سورت بقرۃ رکوع اول کی تفسیر، سوا چار سو صفحات پر مشتمل ہے مطبوعہ مکتبہ رازی شارع محمد بن قاسم روڈ کراچی۔
فتنہ انکارِ حدیث: فرقہ پرویزی کے (بانی غلام احمد پرویز ایڈیٹر ماہنامہ طلوعِ اسلام لاہور) کے رد میں لکھی گئی۔ مولانا نے نہایت مدلل اور معقول جواب دیئے ہیں۔ مکتبہ نے اردو، انگریزی، عربی اور فرنچ میں شائع کیا، اس کا ایک ایڈیشن اے بی المعاشی برادرز ائل انڈسٹریز کراچی نے شائع کیا ہے۔
ختمِ نبوت: قادیانیت کے رد میں شاہکار رسالہ ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی کثیر تعداد میں شائع ہوا اور فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ چھپ کر ہزاروں کی تعداد میں افریقہ میں مفت تقسیم ہو چکا ہے، اس کے بعد مکتبہ نے عربی میں شائع کیا۔ صدیقی ٹرسٹ کراچی نے ’ثمرۃ الکون‘ کو 1982ء میں اور فتنہ انکارِ الحدیث (عربی) کو 1983 ء میں دو ہزار اڈیشن شائع کئے۔
مقصودِ کائنات: اس کا ماحصل یہ ہے کہ ’مقصودِ کائنات‘ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی قدر ہے، مکتبہ رازی نے اس رسالہ کا ترجمہ عربی ’ثمرۃ الکون‘ کے نام سے شائع کیا۔
مقالات ایوبی: (3 جلدیں) مطبوعہ مکتبہ رازی، 15 شہاب مینشن محمد بن قاسم روڈ کراچی۔
تحقیق الکلام: مسئلہ جبر و قدر:
منکرینِ حدیث اور قربانی: فقری نے علامہ ایوب کی کتب کی اشاعت کا جو جائزہ پیش کیا ہے، اس سے بخوبی علامہ کی تالیفات کی عوام الناس میں مقبولیت کا پتہ چلتا ہے۔ وقت کا تقاضا و ضرورت ہے کہ علامہ کی تین سو کیسٹ میں جو تقاریر مختلف علوم و فنون پر مشتمل پھیلی ہوئی ہیں، انہیں کاغذ پر منتقل کر کے کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
عادات و خصائل: رازی زماں علامہ ایوب کے قریبی صحبت یافتہ سید صاحب جناب الحاج شوکت علی دہلوی کراچی نے آپ کی تصویر کو اپنے قلم سے یوں کھینچا ہے موصوف رقم طراز ہیں: ۔
’’بلند اور کشادہ پیشانی، بڑی بڑی روشن مقناطیسی کشش رکھنے والی آنکھیں، خوبصورت داڑھی، رنگ ملیح، صورت میں دلکشی، چہرے پر فکر و تحقیق اور ذہانت و فراست کے انوار، موزوں قد، رعب و دبدبہ اور جلال و جمال سے آراستہ، لیکن بہت معمولی لباس کرتہ کا گریبان کھلا ہوا، سر پر دو پلی ٹوپی، پاؤں میں ادھوڑی استر کی جوتی، کثرت سے پان کھانے کے باعث دانت اور ہونٹ رنگین اور کپڑوں میں جگہ جگہ پیک کے دھبے یہ حلیہ ہے اس ہستی کا جسے مولانا ایوب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
دلی کے رہنے والے، دلی کی زبان بولنے والے، معقولات کے بادشاہ، فلسفہ کے امام اور فکر و تحقیق میں اپنی مثال آپ، قرآن پاک پر بے پایاں عبور حاصل تھا۔ جب رموز قرآن بیان کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ آبشار گر رہی ہے اور تلل روانی، زور بیان میں کبھی جھول نہیں آتا تھا۔ تکلف وبناوٹ سے پاک، بے نیاز اور ساتھ ہی محبت و مروت اور خدا ترسی کی صفات سے زندگی مرصع تھی‘‘ (پیش لفظ)
مولانا پیسے کے حوالے سے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ دن بھر خالق دینا ہال کے سامنے کپڑے کی مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ کراچی میں لٹھا کی دوکان پر بیٹھتے تھے۔ کسی مسجد میں امامت و خطابت ان کا معمول نہیں تھا۔ وہ کسی دار العلوم سے بھی منسلک نہیں تھے۔ ان کی الگ تھلگ دنیا تھی، اپنی دنیا میں مشغول و مصروف رہا کرتے تھے۔ وہ دین کی خدمت فی سبیل اللہ کرتے تھے، وہ فیس مقرر کر کے کسی جلسہ میں جانے کو بہت بُرا سمجھتے تھے، اسی لئے تقریباً نہیں جاتے تھے۔ اپنی تشہیر کو سخت ناپسند کرتے، غالباً اس لئے آپ کی کسی کتاب میں بھی سوانح منسلک نہیں ہے۔ وہ گم نامی و گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ سیدھے سادھے بے نفس، سادہ مزاج، صاف گو، عظیم انسان تھے۔ وہ لباس سے نہیں پہچانے جاتے تھے کہ یہ وہ عالِم ہیں جس کی نظر نہیں۔ معمولی سا لباس زیب تن فرماتے گدڑی میں لعل کے مصداق معلوم ہوتے۔
پروفیسر نعیم صاحب نے بتایا کہ وہ فرماتے تھے ’’تم لوگ درس میں آتے تو ہو لیکن اس کی تشہیر کبھی نہیں کرنا۔‘‘ وہ اس چیز پر سب سے عہد لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ’’جنہیں درس میں آنا نصیب ہے وہ ضرور آ کر رہے گا اس لئے تشہیر نمائش کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اشتہارات میں ان کا نام نمایاں اور القابات سے شائع ہو، اس لئے کسی جلسہ میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔
صاحبزادہ محمد زین العابدین صاحب نے بتایا کہ وہ ساداتِ کرام کا نہایت احترام کرتے تھے۔ سادات پر زکوٰۃ کو حرام سمجھتے تھے۔ جھوٹ سے نفرت رکھتے تھے اور حق سچ کا ساتھ دیتے تھے۔ ایک صاحب کے ان کی طرف نو (9) ہزار روپے تھے لیکن وہ پاکستان آ کر بھول گئے، لیکن مولانا نے قیام پاکستان کے بعد انہیں یاد دلا کر پوری رقم واپس لوٹا دی۔ ایک بار ایک صاحب دوکان پر حاضر ہوئے وہ ان سے کہنے لگے ’’بلینک چیک لیں اور یہ لکھ کر دیں کہ عیسائیت، قادیانیت، پرویزیت اور غیر مقلدیت کارد نہیں کریں گے۔‘‘ لیکن اس مردِ خدا نے سختی سے دو ٹوک الفاظ میں وہ پیشکش ٹھکرا دی۔ وہ کہتے تھے کہ ’میں دربارِ رسالت میں بک چکا ہوں، اب کوئی میری بولی نہیں لگا سکتا۔‘ وہ بکنے جھکنے اور دبنے والے انسان نہیں تھے بلکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے غلام اور دین اسلام کے مخلص سپاہی تھے۔ وہ سخی تھے، راہِ خدا میں لُٹانا جانتے تھے۔ سارے دن کی کمائی میں سے گھر کا خرچہ نکال کر بقیہ رقم اہل ضرورت، سفید پوش، محتاجوں اور بیوہ خواتین پر خرچ کر دیتے تھے۔
مولانا مرحوم کتب خانہ و کتب بینی کی حاجت سے آزاد تھے۔ انہیں رب کریم نے وہبی علم عطا فرمایا تھا، وہ نہ لکھتے تھے نہ پڑھتے تھے۔ ان کے معمولات اس طرح تھے کہ روزانہ فجر پڑھ کر، ناشتہ کرتے اس کے بعد کھارا در سے بس میں بیٹھ کر برنس روڈ آتے، گوشت، سبزی وغیرہ خرید کر لائن میں لگے ہوئے فقیروں کو خیرات دیتے ہوئے واپس گھر آتے، پھر وہاں سے بس میں بیٹھ کر لائٹ ہاؤس دوکان پر چلے جاتے حلال روزی کماتے۔ شام گھر واپس ہوتے عشاء کے بعد سوتے، یہ ہیں ان کے معمولات زندگی۔ ان کے فیض یافتہ شاگرد ملا واحدی لکھتے ہیں:
’’افسوس انہیں لکھنے کی مشق نہیں تھی، وہی زبان جو تقریر میں استعمال کرتے تھے تحریر میں استعمال کر سکتے تو بلا مبالغہ امام غزالی علیہ رحمہ کی طرح حیات جاوید پا لیتے۔ مجھے چودھویں صدی ہجری کی عظیم ترین علماء و مشائخ سے شرف نیاز مندی حاصل رہا۔ میں نے علم کے سمندر میں غوطہ خور عالم اور غزالی صفت درویش مولانا ایوب دہلوی جیسا نہیں پایا۔‘‘ (’ مولانا ایوب جنہوں نے دین کی تجارت کبھی نہیں کی‘ مضمون نگار: ملا واحدی، روزنامہ جنگ کراچی 20 دسمبر 1969)
تاثرات: نامور قانون دان و اسکالر، اے کے بروہی مرحوم آپ کے متعلق اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں: ۔
’ان کے قرآن شریف کے اس عمیق مطالعے اور اسلام کی روح کی سوجھ بوجھ سے میں بہت متاثر ہوا ہوں، مجھے اس بارے میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کی آئندہ نسل کے لئے ان کے خیالات کا گہر مطالعہ قرآن شریف کو صحیح سمجھنے اور پیغمبر اسلام کے ارشادات کی اہمیت کو بخوبی سمجھنے میں کافی حد تک مدد و معاون ثابت ہوں گے۔‘ (مقالات ایوبی جلد اول)
نامور اسکالر ماہر تعلیم ٖڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی رقم طراز ہیں: ۔
’علامہ حافظ محمد ایوب صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں جن اہلِ علم کو حاضری کا موقع ملتا تھا، وہ ان کے تبحرِ علمی کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ علامہ موصوف کو علوم معقول و منقول میں حیرت انگیز دستگاہ تھی۔ اس زمانے میں ایسے علماء جو علمُ الکلام میں اس درجہ امتیازی قابلیت کے حامل ہوں نظر نہیں آتے۔ منطق و فلسفہ اور قرآن و حدیث کے علوم کا ایسا امتزاج دوسروں کی تصانیف میں مشکل سے ملتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا کا علم اس قدر حاضر تھا کہ ان کی تقریر معانی و معارف سے لبریز ہوتی تھی۔ وہ بے تکان مسلسل ایسی علمی تقریر کرتے تھے کہ دوسروں کو غرق ریزی اور مطالعے کے بعد بھی تحریر تک میں وہ بات پیدا کرنی دشوار ہوتی تھی۔ ان کے برجستہ ارشادات نکات و حقائق کا خزینہ ہوتے تھے۔‘ (مقصودِ کائنات)
قائد اعظم اکیڈمی کے ریسرچ اسکالر خواجہ رضی حیدر صاحب علامہ موصوف کی علمیت کے معترف اور ان کی خود داری و صاف گوئی اور سادگی کے گیت گاتے رتے تھے۔
محترم حاتم وقت سید شوکت علی مرحوم (والد سید فصاحت علی) نے اپنی ریٹائر منٹ سے مولانا ایوب مرحوم کی کیسٹ سے تقاریر علمی کاغذ پر نقل کروا کے کتابیں ترتیب دے کر ملک و بیرون ملک مفت تقسیم فرمائیں۔ اس کام کے لئے اہل علم کا بورڈ اور مکتبہ رازی کو قائم فرما کر ایک اہم و منفرد خدمت سرانجام دی تھیں۔ آپ کی اشاعت سے اہل علم ہمیشہ استفادہ کرتے رہیں گے اور اہل درد آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اجر دیتا رہے گا۔ آپ کا عمل اہل ثروت مخیر حضرات کے لئے ایک نمونہ ہے۔
وصال: رازی زمان علامہ الدیوان مولانا حافظ محمد ایوب دہلوی نے 4 شوال المکرم 1389ھ بمطابق 13، دسمبر 1969ء بروز پیر 81 برس کی عمر کو کراچی میں انتقال کیا۔ آپ کا مزار دھوبی گھاٹ کے متصل پورہ لیاری کے قبرستان میں ہے۔ جو کہ دہلی قوم سوداگران کی ملکیت ہے۔
(سید فصاحت علی صاحب نے علامہ مرحوم کی بعض دستیاب کتابیں مہیا کی اور صوتی ربانی صاحب کی پر خلوص کوشش سے علامہ مرحوم کے صاحبزادے محمد زین العابدین صاحب سے فریسکو چوک کے قریب ایک سادہ ویرانے فلیٹ میں بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے اپنے والد محترم کے متعلق سوانح لکھوائی اور ملا واحدی کے مطبوعہ مضمون والا اخبار کا تراشہ مرحمت فرمایا۔ فقیر تمام معاونین کا مشکور ہے)
٭٭