کیسی ہو ماہم ۔۔۔؟؟صباء نے اسکا حال پوچھا ۔۔۔
ٹھیک مجھے کیا ہونا ہے ۔۔۔ماہم نے مایوسی کہا ۔۔۔
یار کیا ہوا ہے آج پھر اداس ہو تم ۔۔۔
نہیں کچھ نہیں ہوا بس کچھ پریشان ہو ۔۔۔
کیا ہوا ہے کیا پریشانی ہے بتاؤ مجھے ۔۔۔؟؟صباء نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔
مجھے کچھ پیسے چاہیے گھر میں ضرورت ہے ۔۔ماہم یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ ارمان کی اسکول فیس دینی ہے ۔۔۔
تو اس میں کیا مسلہ ہے ہم سر ولید سے بات کرتے ہیں وہ تمہے دے دیے گئے ۔۔۔
نہیں سر کو آئے ابھی کچھ دن ہوۓ ہیں اور میں ان سے یہ کہو کہ مجھے پیسے چاہیے ۔۔نہیں میں ایسا نہیں کرو گئی ۔۔۔ماہم نے صاف انکار کر دیا ۔۔۔
سر ولید ایسے نہیں ہیں ۔۔اور تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو ۔۔تم نے گھر کی ضرورت پوری کرنی ہے نہ ۔۔۔؟؟
ہاں کرنی ہے ۔۔۔
تو ٹھیک ہے تم سر سے بات کرو وہ مان جاۓ گئے ۔۔۔صباء نے اسے یقین دہانی کرائی ۔۔
چلو میں جاتی ہو ۔۔۔اسے بس ارمان کی فیس ادا کرنی تھی ۔۔
********
ماہم سر ولید کے کمرے کے دروازے کو گھور رہی تھی وہ اندر نہیں جانا چاہتی تھی پر کچھ مجبوریاں انسان کو وہ کرنے پے مجبور کر دیتی ہے جو وہ نہیں چاہتا ۔۔۔
ماہم نے ہمت کی اور سر ولید کے کمرے کا دروازہ لاک کیا ۔۔۔
سر کیا میں اندر آ سکتی ہو ۔۔۔ماہم نے جھجکتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔
ولید کا دھیان فائل میں تھا ۔۔۔جی آجاۓ ۔۔۔ولید اور ماہم کی یہ پہلی ملاقات تھی ۔۔استقبال والے دن ولید نے ماہم کو نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔ماہم کی نظرے جھوکی ہوئی اور آواز کانپ رہی تھی ۔۔۔
جی کہے ۔۔۔ولید نے ابھی تک اسے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
سر مجھے کچھ ایڈوانس چاہیے ۔۔۔ماہم کی آواز ابھی بھی کانپ رہی تھی ۔۔۔
ولید نے فائل سے نظر ہٹا کر ماہم کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔
ولید نے ماہم کو دیکھا اسے لگا جیسے اسکے سامنے کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ کوئی شہزادی عام سے حلیہ میں کھڑی ہے ۔۔۔پل بھر کے لیے وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا ۔۔۔
سر ۔۔۔ماہم نے ولید کی طرف دیکھا۔۔اسے لگا شاید ولید نے اسکی بات نہیں سنی ۔۔۔
ولید ماہم کی آواز پر چونکا ۔۔۔جی ۔۔
مجھے پیسوں کی بہت ضرورت ہے اور سیلری ملنے میں ابھی کافی ٹائم ہے پلیز سر مجھے کچھ ایڈوانس دے دیے ۔۔۔ماہم کی آواز میں التجا تھی ۔۔۔
ولید نے خود کو سمبھالا ۔۔۔کیوں چاہیے آپکو ایڈوانس ۔۔؟؟
سر گھر میں ضرورت ہے ۔۔۔ماہم کی نظرے ٹیبل پر مرکوز تھی ۔۔۔
پکی بات ہے نہ گھر میں ہی ضرورت ہے ۔۔۔ولید نے شرارت سے کہا ۔۔۔
ماہم کا دل کر رہا تھا کہ خود کو نوچ دے ۔۔کہ کیسے لوگوں کو یقین دلائے کہ وہ در در ٹھوکرئے صرف گھر کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کھا رہی ہے ورنہ وہ تو گھر سے کبھی قدم باہر نہ نکالے
۔۔۔پر وہ کسی کو یقین نہیں دلا سکتی تھی کیونکہ یہ دنیا بس اسی بات پر یقین کرتی ہے جس پر وہ کرنا چاہتی ہے ۔۔۔ورنہ دنیا کی نظر میں سب جھوٹ ہی ہوتا ہے ۔۔۔
کیا ہوا آپ خاموش کیوں ہوگئی ۔۔۔ولید نے ماہم کے جواب نہ ملنے پر اسے مخاطب کیا ۔۔۔۔
ماہم اسکی آواز پر چونکی ۔۔۔جی سر گھر میں ہی ضرورت ہے ۔۔۔ماہم نے مختصر جواب دیا ۔۔۔
چلے ٹھیک ہے میں زیشان صاحب کو کہہ دو گا وہ آپکو دے دیے گئے ۔۔۔
تھنکس سر ۔۔۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔
سر میں جاؤں ۔۔۔؟؟؟ماہم نے سوالیہ نظروں سے ولید کو دیکھا ۔۔۔
جی جاۓ ۔۔۔
ماہم اللّه کہ شکر ادا کرتی باہر نکل گئی ۔۔۔
**********
پروین میرے جوتے کہا ہے ۔۔۔؟؟عابد آج بہت غصے میں تھا ۔۔۔
جی لائی ۔۔پروین نے باہر سے عابد کے جوتے لا کر دیے ۔۔۔
یہ کیا تم نے میرےجوتے صاف نہیں کیے ۔۔۔عابد پروین پر دھاڑا ۔۔۔
عابد میں نے صاف کیے ہیں تم دیکھوں تو سہی ۔۔۔پروین کی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
میرے سامنے زبان چلاتی ہو گھٹیا عورت ۔۔۔عابد نے ایک زور دار تھپڑ پروین کے رخسار پر دے مارا ۔۔۔۔
اسما کپڑے سمیٹ رہی تھی جب اسے پروین کے چیخنے کی آواز آئی ۔۔۔۔
اسما پروین کے کمرے کی طرف بھاگی ۔۔۔
سامنے پروین کو دیکھ کر اسما کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔
پروین کے بالوں کو عابد نے اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہوا تھا ۔۔۔
ابا چھوڑے اماں کو۔۔۔۔۔اسما پروین کو چھوڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
تمہاری جرات کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی ۔۔۔عابد نے پروین کو چھوڑا اور اسماکو مارنا شروع کر دیا ۔۔۔
عابد تم مجھے مار لو پر میری بچی کو چھوڑ دو خدا کے لیے ۔۔۔۔پروین نے عابد کے پاؤں پکڑے ۔۔
عابد اسے بازو سے پکڑ کر دھکا دیا اور باہر نکل گیا ۔۔۔
اماں۔۔۔تم ٹھیک ہو ۔۔۔پروین عابد کے دھکا دینے پر بیڈ پے جا گرئی تھی۔۔۔
اسما پروین کے لیے پانی لائی۔۔۔
اماں پانی۔۔۔پروین نے کانپتے ہاتھوں سے دو گھونٹ پانی پیا ۔۔۔
مجھے معاف کر دو میری بچی۔۔ میری وجہ سے عابد نے تمہے بھی مارا ۔۔۔ماں تھی نہ ۔۔اپنی پروا ہی کب ہوتی ہے اسے۔۔۔ بس اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔
اماں میں ٹھیک ہو ۔۔۔اسما نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔
جادیکھ تیرے ابا چلے تو نہیں گئے ۔۔میں نے روٹی بنا کر رکھی ہے وہ بھی نہیں کھائی ۔۔۔پروین کی درد کی وجہ سے آواز بہت مشکل سے نکل رہی تھی ۔۔۔
اماں بس کر دو ابھی بھی تمہے انکی پڑی ہے کتنا مارا ہے تمہے ۔۔اپنا حال تو دیکھو ۔۔۔
کیا کرو شوہر ہے میرا اور تمہارا باپ ۔۔۔
نہیں چاہیے ہمیں ایسا باپ جو ہماری ماں کو مارے ۔۔۔
نہ میری بچی ایسا نہیں کہتے اللّه ناراض ہوتا ہے ۔۔۔
اماں اللّه ان سے ناراض نہیں ہوتا جو اپنی کمزور مخلوق پر ظلم کرتے ہیں ۔۔۔؟؟چھوڑ دو اماں تم ابا کو ۔۔۔۔
چھوڑ دو ۔۔۔تو کہا جاؤ گی ۔۔۔نہ میرا بھائی ایسا جو مجھے رکھ لے اور بہن کے سر پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ۔۔۔اب میں اکیلی نہیں ہو تم اور گڑیا بھی ہو تم دونوں کو کہا چھوڑو بتاؤ ۔۔۔؟؟
اماں لیکن ۔۔۔پروین نے اسما کی بات کاٹی۔۔۔
بس چپ کر اور گڑیا کو مت بتانا ایسے ہی پریشان ہوجاۓ گی۔۔۔۔
میں نے پہلے بھی اسے کبھی نہیں بتایا ۔۔۔
اچھا کرتی ہو ۔۔۔
اے زندگی۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو بتا۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں؟
جہاں کوئ غم نہ ہو۔۔۔
جہاں آنکھیں نم نہ ہوں ۔۔۔
جہاں دل میں خواہشوں کی۔۔۔
تھوڑی سی بھی پیاس نہ ہو۔۔۔
جہاں زندگی اداس نہ ہو۔۔۔
جہاں سنگدل تنہائی نہ ہو۔۔۔
جہاں خوشیوں سے جدائی نہ ہو۔۔۔
اے زندگی۔۔۔۔
مجھے تو بتا۔۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں۔۔۔۔
جہاں راحتیں اذل سے نصیب ہوں۔۔۔
جہاں بہاروں کی نوید ہو۔۔۔
جہاں اپنوں سے سب قریب ہوں۔۔۔
اے زندگی۔۔۔
مجھے تو بتا۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں؟
اسلام علیکم ۔۔۔!!ولید نے قاضی صاحب اور رضوانہ بیگم کو سلام کیا ۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔!!دونوں نے محبت سے اسکے سلام کا جواب دیا ۔۔۔
آج تم پھر آفس سے لیٹ آئے ہو ۔۔۔
موم آپکو تو پتا ہے آفس میں بہت کام ہوتا ہے یہ تو ڈایڈ کی ہمت تھی جو وہ اکیلے آفس کو دیکھتے تھے ۔۔۔
قاضی صاحب یہ تو غلط بات ہے میرا بیٹاجب سے امریکہ سے آیا ہے گھر میں تو نظر ہی نہیں آتا۔۔۔ آپ نے کام کا سارا بوجھ میرے اکلوتے بیٹے کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ۔۔۔رضوانہ بیگم نے شکوہ کیا ۔۔۔
لو بہی آفس کا مالک بھی تو آپکا بیٹا ہی ہے ۔۔۔قاضی سب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
موم مجھے اچھا لگتا ہے آفس سمبھلنا۔۔۔ویسے بھی سارا سٹاف اتنا اچھا ہے۔۔کے مجھے زیادہ ٹینشن ہی نہیں ہوتی ۔۔۔ولید نے انھے یقین دلایا ۔۔۔
یہ تو اچھی بات ہے ۔۔پر پھر بھی تم جلدی آجایا کرو ۔۔۔
ٹھیک ہے موم کل سے جلدی آجایا کرو گا ۔۔پر آپ مڈل کلاس ماؤں کی طرح ٹینشن کیوں لیتی ہے ۔۔؟؟
بیٹا ماں مڈل کلاس کی ہو یا اپر کلاس کی ہوتی ماں ہی ہے ۔۔۔
تم ہماری ایک ہی اولاد ہو اور وہ بھی جان سے پیاری اسلیے تھوڑی حساس ہو تمہارے لیے ۔۔۔
جانتا ہوں۔۔۔ پر اب آپکا بیٹا بڑا ہوگیا ہے موم ۔۔۔ولید نے محبت سے کہا ۔۔۔
اب اگر آپ دونو ں کے شکوے ختم ہوگے ہو تو ۔۔۔ہم کھانا شروع کرے ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔۔ قاضی نے مسکرا کر کہا ۔۔۔
جی ڈایڈ ۔۔۔
*********
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...