“کل ہم حویلی جائیں گے تم پیکنگ کرلینا۔۔۔”
درراب کی آواز پر وہ جہاں تھی وہیں ساکت ہو گئی۔۔۔
تو کیا وہ شادی کرنے جارہا تھا ؟؟؟
درراب نے اس کی سوال کرتی نظروں سے نگاہیں چرائیں۔۔۔۔
اسکہ نگاہیں پھیر لینے سے عنایہ جی جان سے لرز گئی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ بے جان ہوتے ہاتھ سے کپ چھوٹتا اس نے وہیں کونے میں بنے سمنٹ کہ پلر پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
“صبح ہوتے ہی ہم نکل جائیں گے ۔۔۔ تم ابھی سے پیکنگ کرلو ۔۔۔”
ہنوز خاموشی کہ بعد درراب نے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔۔
سن رہی ہو نا ؟؟؟؟
درراب نے اب کہ کان کہ پاس جاکر پوچھا۔۔۔
عنایہ سر ہلاگئی۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی کہ بعد درراب نے اسے دیکھا جو مسلسل نیچے دیکھے جارہی تھی ۔۔۔ پاوں کہ انگوٹھے سے مٹی کھرچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اپنے گھر جانا چاہو گی ؟؟؟
درراب کی آواز پر وہ ناسمجھی سے اسے سر اونچا کر کہ دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب نے سر ہولے سے ہلا کر تصدیق کی ۔۔۔۔
آپ لے کر جائیں گے؟؟؟
“ہاں۔۔۔”
خود آپ خود لے کر جائیں گے ؟؟
“ہاں بلکل میں خود لے کر جاوں گا۔۔۔”
مبہم سی مسکراہٹ کہ ساتھ کہا گیا:
لیکن وہ وہاں وہ ببھا بھائی بھی ہوں گے؟؟
حیرانگی کی جگہ ایک خوف نے لے لی تھی۔۔۔
درراب نے سختی سے ہونٹوں کو بھینچ لیا پہلے والی نرمی غائب تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ نے چور نظروں سے اسے کہ پتھریلہ تاثرات دیکھے۔۔۔۔۔
تمھیں ملنا ہے اپنے گھر والوں سے یا نہیں؟؟؟
اب کہ اواز میں ذرا بھی نرمی کا عمل دخل نہ تھا۔۔۔۔۔
“جی جی ملنا ہے ۔۔۔”
فوراً سے بیشتر سر کو اثبات میں ہلا کر کہا گیا کہ کہیں ارادہ ہی نہ بدل لے۔۔۔۔۔
“پھر تیار رہنا آدھے گھنٹے پہلے نکلے گیں۔۔۔۔”
اپنا کپ پلر سے اٹھایا اور جانے لگی تبھی درراب نے اسے ہاتھ تھام کر جانے سے روکا۔۔۔۔۔۔
کہاں جارہی ہو ؟؟؟
“وہ میں کچن میں کپ رکھنے ۔۔۔”
آج تو قدم قدم پر حیرتوں کہ پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔۔۔ درراب شاہ سکندر عنایہ کو اہمیت دے رہا ہے ۔۔۔۔
“جلدی آنا ۔۔۔”
اور وہ ناسمجھی سے سر ہلا کر کمرہ سے نکل گئ۔۔۔
درراب ہولے سے مسکرا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
آپ لوگ اس شخص کو اپنی بیٹی دینا چاہیں گے جس۔ کی زندگی میں پہلے سے ہی کوئی موجود ہو ؟؟؟؟؟
اس کی آواز پر وہاں بیٹھے ہر نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سے ڈرائنگ روم کو جدید تراش خراش کہ ساتھ سجایا گیا تھا۔۔۔ دبیز کارپیٹ اور مخملی پردے نرالی جھپ دکھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
وہاں کہ ماحول کہ تناو کو رعب دار آواز نے کم کرنے کہ بجائے اور بڑھادیا۔ ۔۔۔۔
تم بتاو بیٹا پھر ہم کیا کریں؟؟؟
“پورے جرگے کو اس رشتے کا علم تھا پہلے تو کئی رشتے بھی اجاتے تھے اب تو ان کا سلسلہ بھی معطل ہوگیا ہے ۔۔۔۔”
“لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنی بیٹی کو بوجھ کی طرح اتار پھینکیں۔۔۔”
“پھر آپ بتاو بیٹا آپ کیا۔ چاہتے ہو۔۔۔”
نسوانی آواز کی شائستگی نے اسے اپنی جانب مائل کیا۔۔۔۔۔۔
“آپ ایک دو مہینہ اور رک جائیں اور بابا جان کو صاف انکار کردیں۔۔۔۔ اس کہ بعد میں خود اس کی شادی کرواوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے بیٹا اب تو دعوت نامے بھی تقسیم کردیئے گئے ہیں ۔۔۔۔۔ ایسے تو بدمامی ہماری بیٹی کا مقدر ٹہرے گی۔۔۔۔”
یہ وہ پہلو تھا جس پر وہ چپ ہوگیا تھا واقعی وقت تو اب رہا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے بہتر تھا جو ہورہا ہے ہونے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ خاموشی سے چلا آیا تھا۔۔۔۔۔۔
__________________________
کیسے یاد کرلیا سائیں؟؟؟
“بس کچھ کام تھا تم سے ۔۔۔”
“حکم کریں جی ہم تو آپ کہ حکم کہ منتطر ہیں۔۔۔”
“جو جو دھندا چل رہا ہے اسے رکوادو ۔۔۔”
خیریت سائیں؟؟
ہاں تمہارے گاوں میں ایک نیا افسر تعینات ہوا ہے ؟؟
“جی جی سائیں کوئی فروخ نامی ہے ۔۔۔”
“ہاں وہ ہی وہ جس کیس پر کام کررہا ہے اس کا راستہ تم تک آتا ہے ۔۔۔ اس لئے نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر سارے دھندے بند کروا دو ۔۔۔۔ اور کہیں روپوش ہوجاو۔۔۔۔”
لیکن سائیں اسے بھیجا کس نے ؟؟؟
“یہاں کا ڈی ایس پی ہے درراب شاہ وہ طاق لگائے بیٹھا ہے …”
پورا نام بتائیں سائیں؟؟؟
“درراب سکندر حیات شاہ “۔ تو کیوں پوچھ رہا ہے ؟
“اوہ سائیں یہ وہ ہی ہے جس کا میں نے تمھیں پہلے بتایا تھا۔ ۔ اس کی بہن کا قتل مجھ سے ہی ہوا تھا ۔۔ پھنس گیا وہ دیسی بابو ہاہاہاہاہاہاہاہ۔۔۔”
“اوہ ہاں ہاں مجھے یاد آیا پھر تو اس سے بہت سے حساب نکلتے ہیں ۔۔۔”
کون سے حساب سائیں ؟؟؟
کوئی نہیں تجھے جیسا کہا ہے ویسا کر تو کہیں پناہ گزین ہوجا میرا پوچھے لاعلمی کا اظہار کردینا ۔۔۔۔۔
کیوں سائیں تم کہاں جارہے ہو؟؟؟
“اوہ تجھے بتانا جروری نہیں سمجھتا۔۔۔”
“اچھا سائیں ناراض کیوں ہوتے ہو نہیں پوچھتا ۔۔۔۔۔”
موبائل جیب میں اڑس کر وہ جنگل کی طرف روانہ ہوگیا ٹھیک آدھے گھنٹے کہ سفر کہ بعد اسی جھونپڑی پہ رکا جو سیل کی ہوئی تھی ۔۔۔۔
ٹرک میں سے پیٹرول کی بوتل نکال کر اس جگہ کو تر کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیلن خالی کر کہ اسی جانب پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماچس کی تیلی کو شعلہ دکھایا اور مکروہ مسکراہٹ کہ ساتھ جھونپڑی کی طرف اچھال دی ۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے جھونپڑی نے آگ پکڑ لی ۔۔۔ لمبے لمبے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔۔۔
“ایڑی چوٹی کا زور لگا لے ڈی ایس پی مجھ تک رسائی کہ سارے راستے بند ہوچکے ہیں ۔۔۔۔”
بے ہنگم زور دار خباثت سے قہقہہ لگا کر ٹرک کی جانب مڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________
“کیوں رو رہی ہو بہو جو تقدیر میں لکھا جا چکا ہے وہ ہی ہونا ہے رونے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔”
سعیدہ بیگم نے قریب بیٹھی نجمہ سے کہا:
“کیسے نہ رووں ماں جی میری عینو سے ملنے تک نہیں دیا میں کہہ رہی ہوں وہ مشکل میں ہے اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔”
“تو صحیح کہتی ہے بہو کچھ فیصلہ انسان کی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔۔۔”
سعیدہ بیگم رنجیدگی سے گویا ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے سکندر سے اتنی سنگدلی کی امید نہیں تھی ماں جی ۔۔۔”
ضعیم آحمد جو کب سے اپنی بیوی کہ بہتے اشکوں کو دیکھ رہے تھے ماں جی سے بول اٹھے۔۔۔۔۔
“امید تو اس کی بھی نہیں تھی کہ تم اپنی اولاد کی تربیت ایسے کرو گے۔۔۔”
سعیدہ بیگم بھڑک اٹھیں۔۔۔۔۔۔
“میرے راحب نے کچھ نہیں کیا وہ عورت ذات کی بہت عزت کرتا ہے میں اپنے بیٹے کو جانتی ہوں ماں جی وہ اپنے حق سے دست بردار تو ہوسکتا ہے لیکن کبھی بھی نا حق قتل نہیں کرسکتا ۔۔۔۔”
“آپ سب وہ دیکھ رہیں ہیں جو دکھایا گیا ہے وہ نہیں دیکھ رہے جو حقیقت ہے۔۔۔”
بیٹے کو برا بھلا کہنا۔ نجمہ کو ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔
“بہو تم ہمیں نہ بتلاو کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے ۔۔۔۔ آج اگر اپنوں میں رہتے تمہارے بچے تو یہ قیامت تو نہ ٹوٹتی ۔۔۔۔۔۔۔۔”
“سب جانتے ہیں بھائی صاحب کہ بھانجے کہ مزاج کو ۔۔۔۔ آوارہ لڑکوں سے یارانا ہے گھر میں رہتا کب ہے وہ ۔۔”
“بس نجمہ ماں جی سے بحث نہ کرو ۔۔۔”
ضعیم احمد بیوی پہ گرجے تھے۔۔۔۔۔۔
جبکہ سعیدہ بیگم ایک ہی نکتہ پہ ساکت ہوگئیں تھیں۔۔۔
______________________
شاہ کہ آجانے سے فرق بس اتنا آیا تھا کہ وہ سارا دن کمرہ میں رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ اسے نیچے جانے نہیں دیتا تھا یوں صائمہ کی آر پار ہوتی نظروں سے بچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
ایک بات قابل غور تھی کہ مہتاب بیگم سے اس کی کافی حد تک انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی تو وہ ان کہ رویہ پر حیرت زدہ رہ جاتی ۔۔ جس کی بیٹی ناحق قتل ہوئی ہو اس ماں کا اس قدر شفقت سے پیش آنا ۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کبھی اسے مورد الزام نہ ٹہرایا بلکہ خالہ بی کہ بعد وہ ہی تھیں جو اس کی ڈھال بن کر کھڑی تھیں۔۔۔۔۔۔
آج بھی وہ ان کی آغوش میں چھپے غم غلط کررہی تھی اور وہ ہمیشہ کی طرح اس کہ سر میں نحیف انگلیاں پھیر رہیں تھیں۔۔۔
“بس میرا بچہ طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔۔”
میں کہوں گی شاہ سے ۔۔۔۔ وقتی طور پر وہ غصہ ہے جیسے جیسے وقت گزرے گا سنبھل جائے گا ۔۔۔ دانی سب سے زیادہ اسی کی لاڈلی تھی ۔۔۔
“پر اماں جان بھیا نے نہیں چلائی گولی میں جانتی ہوں وہ وہ تو اس سے محبت کرتے تھے اور جلد شادی بھی کرلیتے گر بابا جان نکاح کی اناونسمینٹ نہ کرتے تو ۔۔۔۔”
“یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔ بس اس کا وقت آچکا تھا ۔۔۔۔”
“اللہ کو یہ ہی منظور تھا۔۔۔۔”
“اے لڑکی تم یہاں کیا کررہی ہو چلو کچن میں بہت کام ہیں۔۔۔”
یہ کس لہجہ میں بات کررہی ہو عنایہ سے ؟؟؟
“آپ کو تو میرا لہجہ کھٹکھہ گا ہی یہ چہیتی جو ہر وقت کان بھرتی رہتی ہے آپ کہ۔۔۔۔۔۔۔”
صائمہ تم حد سے اگے بڑھ رہی ہو؟؟
مہتاب کی بات نظر انداز کرتے ہوئے صائمہ عینو کا ہاتھ کھینچ کر کچن میں لے آئی اور وہ بھی چپ چاپ چلی آئی لڑائی بڑھتی بہتر تھا خاموشی اختیار کرے۔۔۔۔۔
شاہ پھر ایک ہفتہ کیلئے چلا گیا تھا اور صائمہ کو اس کہ جاتے ہی آزادی مل گئی تھی۔۔۔۔۔۔
________________________
صائمہ اور ماہم دونوں ہاتھوں میں بیگ تھامے گپیں لگاتی ہوئیں مال سے نکلیں۔۔۔۔
ماہم نے ایک ہاتھ میں آئس کریم پکڑ رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔شانوں تک آتے باب کٹ بال اڑ اڑ کر اس کہ چہرہ کو چھو رہے تھے ۔۔۔۔
دوسرے ہاتھ میں بیگ ہونے کہ وجہ سے وہ اچھی خاصی الجھن کا شکار ہورہی تھی ۔۔۔۔
سامنے سے آتے شخص سے زور دار ٹکراو کہ باعث ساری چیزیں زمین بوس ہوچکیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرووخ جو اپنے لئے کچھ شاپنگ کرنے آیا تھا اس اچانک افتاد پر بوکھلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
سوری کہہ کر بیگ اٹھانے کی بجائے وہ مال میں گھس گیا جبکہ اس کہ پیچھے ماہم غصہ سے بیچ و تاب کھانے لگی۔۔۔۔
“ایڈیٹ دیکھ کہ نہیں چل سکتا ۔۔۔”
بھڑاس نکال کر وہ جھک کر بیگ اٹھانے لگی ۔۔۔ تبھی مردانہ وائلٹ نظر آیا ۔۔۔۔۔
انکھیں کسی احساس سے چمک اٹھیں ۔۔۔۔
“مسٹر اب آئے گا مزہ خود چل کر مجھ سے معافی مانگو گے ۔۔۔۔”
“ارے کہاں رہ گئی چلو اب ۔۔۔”
صائمہ دور جاچکی تھی پلٹ کر دیکھا تو وہ وہیں کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
“اں ہاں ہاں آگئی۔۔۔”
جلدی جلدی وہ مردانہ وائلٹ پرس میں ڈالا اور اگے بڑھ گئ۔۔۔۔۔
___________________________
گھر جا کر پتا چلا کہ وہ لوگ اب یہاں نہیں رہتے ۔۔۔ ایک سال پہلے وہ گھر بیچ چکے تھے ۔۔۔۔
عنایہ بجھے دل سے واپس گاڑی میں اکر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔
جبکہ درراب نے پرسوچ انداز میں گاڑی اگے بڑھادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈش بورڈ پر موبائل تھرتھرایہ تو گاڑی کی اسپیڈ ہلکی کرتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔۔۔
بولو دین؟؟؟
وعلیکم سلام ۔۔۔۔
کیا بکواس ہے یہ؟؟؟
درراب کی کی ڈھاڑ کہ ساتھ گاڑی ایک جھٹکہ سے رکی تھی۔
عنایہ جو بھاگتے دوڑتے نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی جی جان سے لرز اٹھی۔۔۔۔۔
تو تم کہاں مرے ہوئےتھے ؟؟؟؟
کس نے لگائی آگ ؟؟؟
تو اب تک کیا سورہے تھے ؟؟؟
“آدھے گھنٹے میں مجھےساری رپورٹ دو ۔۔۔”
کان سے ہٹا کر موبائل ڈش بورڈ پر پٹخا۔۔۔۔۔۔
عنایہ چور نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی درراب نے گردن گھما کر اسے دیکھا تو فٹ سے اپنا چہرہ موڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سارے عرصہ میں عنایہ خاموش رہی ۔۔۔۔
طویل سفر کہ بعد گاوں کی کچی سڑکوں پر گاڑی ہچکولے لینے لگی۔۔۔۔۔۔
سامنے ہی بڑی سی برقی قمقموں سے سجی حویلی نظر آئی ۔۔۔
حویلی کی سجاوٹ دیکھ کر بے اختیار درراب نے لب بھینچے ۔۔۔ جبکہ عنایہ کہ دل پر چھریاں چل گئیں ۔۔۔۔ رو رو کر وہ اتنا تھک چکی تھی کہ اب سکت باقی نہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
سر مے آئی کم ان ؟
“یس ۔۔۔”
نفیس سی ہیل پہنے ٹک ٹک کرتی ہوئی وہ ٹیبل کہ اگے رکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر پریزینٹیشن ریڈی ہے آپ ایک دفعہ ریڈ کرلیں۔۔۔۔”
سریلی سی آواز میں کہا گیا۔۔۔
“ٹھیک ہے آپ رکھ دیں ۔۔۔”
مختصر سا خواب ملا۔۔۔
اور وہ واپس مڑگئی۔۔۔
کیا مریم تم روز پر امید ہو کر جاتی ہو اور منہ لٹکاکر آتی ہو ؟؟؟
میں کیا کروں وہ شخص اتنا سحر انگیز ہے کہ “مجھے اپنی جانب کھینچتا ہے اور میں بنا سوچے سمجھے کھینچی چلی جاتی ہوں۔۔۔”
“دیکھو ان فلسفیانہ باتوں سے پرہیز کرو اور حقیقت کو مان لو۔ ۔۔۔ ”
کون سی حقیقت مریم ؟؟
“سر کو صرف اپنے کام سے لگاو ہے وہ نا تو ایسی خرافات میں کبھی پڑیں ہیں اور نہ ہی ان باتوں کو مانتے ہیں مجھے ان کہ ساتھ کام کرتے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے جتنا میں جانتی ہوں تم نہیں جان سکتیں۔۔۔۔۔۔”
“مجھے جاننا بھی نہیں ہے بس وہ نظریں اٹھا کر ہی دیکھ لے گا تو میرے بے قرار دل کو سکون مل جائے گا۔۔۔”
“چلو اب ہوش میں آو اور یہ فائل کمپلٹ کرو۔۔۔۔”
مریم نے ہنستے ہوئے کہا:
مس مہرین؟؟؟
تبھی وہ میانی چال چلتا ہوا ان کی کیبین کی جانب آیا۔۔۔ وہ ہی پرانا انداز نظریں موبائل پر تھیں۔۔۔۔
آپ نے مجھے کون سے پیپرز دیئے ہیں؟؟؟
“سر وہ ہی جو آپ نے مانگے تھے ۔۔”
” مریم آپ ریچیک کریں فائل اور انھیں بتائیں کہ کون سی فائل مجھے چاہیئے تھی ۔۔۔۔”
اب کہ مہرین سے کہنے لگا۔۔۔۔۔
“اور ہاں فضول باتوں سے گرہیز برتیں کام پر کنسنٹریشن کریں تو زیادہ بہتر ہے ورنہ میرے پاس کولیگز کی کمی نہیں ہے ۔۔۔۔۔”
ازلی اعتماد کہ ساتھ کہتا ہوا وہ واپس مڑ گیا جبکہ مہرین کا چہرہ اہانت اور ذلت کہ احساس سے سرخ پڑگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی خفت مٹانے کیلئے وہ مریم سے فائل لے چکی تھی۔۔۔۔۔
______________________________________________________
صائمہ کہ پیر خوشی کہ مارے زمین پر ہی نہ ٹک رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پیر حویلی میں ہوتا تو دوسرا بازاروں میں۔۔۔
حویلی کی سجاوٹ بھی صائمہ کی ایما پر ہوا تھا ۔۔۔۔۔
سکندر حیات صاحب بھی الگ ہی کچہری لگائے رکھتے ۔۔۔۔۔۔ ایک مہینہ پہلے سب کو دعوت دے ڈالی تھی۔۔۔۔
مایوں کا دن بھی آپہنچا تھا ۔۔۔۔۔
شادی والے گھر میں خوشی کی کوئی رمق نہیں تھی ۔۔۔ کیوں کہ یہاں دوسروں کی خوشیاں روند کر اپنی خواہشوں کہ محل تعمیر کروائے جارہے تھے ۔۔۔۔۔۔
صعود بھی نہ جانے کن کاموں سے نکلا ہوا تھا کہ حویلی میں قدم رکھنا بھی یاد نہ رہا۔۔۔۔۔
صائمہ نے قریب کہ سارے رشتے داروں کو بلوالیا تھا۔۔۔۔ دیکھتے دیکھتے مہمانوں کی امد و رفت شروع ہوتی گئی ۔۔
مہتاب بیگم اسے دیکھ کر اس بار مسکرا بھی نہ سکیں تھیں ممتا بھری آغوش دیکھ کر وہ پھر سسک اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
تبھی دروازہ کھول کر شاہ وہیں چلا آیا ۔۔۔
مہتاب نے اسے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔۔لیکن وہ چلتا ہوا ان کہ قریب اکر بیٹھ گیا۔۔۔۔
اماں جان آپ تیار ہوجائیں بابا جان آپ کو بلا رہے ہیں۔۔۔۔
مہتاب بیگم اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھ گئیں ۔۔۔ کیوں کہ ہر عورت کی طرح وہ بھی اپنے مزاجی خدا کہ حکم کی پابند تھیں۔۔۔۔
عنایہ !!
“یہ سوٹ پہن کر تیار ہوجاو ۔۔۔۔۔”
کیا مطلب؟؟؟
“مطلب واضح ہے اس بیگ میں جو ڈریس ہے وہ زیب تن کرنا ہے۔۔۔ لیکن صرف پندرہ منٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“میں کہیں نہیں جاوں گی سن لیا آپ نے ۔۔۔ جو کرنا ہے کریں ۔۔۔”
تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے ؟؟؟
“اور آپ نے شاید سنا نہیں کہ میں نے انکار کردیا ہے۔۔۔۔”
“آپ کی خوشیاں آپ ہی کو مبارک ہو۔۔۔”
“ایک لفظ اور نہیں مجھ سے بحث کرکہ کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے چپ چاپ چینج کرو جاکر میرے روم میں ۔۔۔۔”
وہ تنبیہہ نظروں سے کہتا ہوا کمرہ سے نکل گیا ۔۔۔
وہ حیران پریشان خالی خالی نظروں سے بیگ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...