سواگت لاج کا نرم بستر بھی انتخاب عالم کی آنکھوں میں نیند در آمد نہ کر سکا۔ وہ دیر تک اپنے بستر پر کروٹ بدلتا رہا اس نے کئی بار ٹیلی ویژن کو کھولا اور پھر بند کر دیا۔ اس پر سرکاری بانگلہ ٹی وی کے بد مزہ پروگرام انتخاب کا منہ چڑھاتے رہے۔ حکومت کی بیجا تعریف و توصیف سے اسے شدید الجھن ہوتی تھی بالآخر اس نے فون اٹھایا اور استقبالیہ پر بیٹھے کیشو سے بولا یہ تمہارا ٹی وی صرف سرکاری بولی کیوں بولتا ہے؟
کیشو نے جواب دیا۔ صاحب سرکار کا پر چار مفت میں ہوتا ہے۔ دوسرے نجی چینلوں کیلئے ٹاکا (روپئے) خرچ کرنے پڑتے ہیں اور ہم اپنے گاہکوں پر بیجا اخراجات کا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے۔
یہ بیجا بوجھ ہے؟ یہ تم کس زمانے کی بات کر رہے ہو کیشو؟ آج کے دور میں ٹیلی ویژن ضروریاتِ زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن سارے لو گوں کی ضروریات تو یکساں نہیں ہوتیں۔ ہمارے کئی گاہک ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ٹی وی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں ان کی بات کر رہا تھا۔
کیشو تمہارے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن اس سے میرا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
جناب آپ نے اپنا مسئلہ تو بتلایا ہی نہیں۔ کہیں آپ کسی کیبل والے کے ایجنٹ تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سکون سے سو جائیں ہم کیبل لگوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
انتخاب کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا کیا ایجنٹ؟ تم نے رجسٹر میں دیکھا نہیں میں ڈاکٹر ہوں ڈاکٹر انتخاب عالم!
صاحب رجسٹر کو ہم نہیں دیکھتے وقتِ ضرورت پولس والے دیکھتے ہیں۔ ویسے اگر آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کو نیند نہیں آ رہی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس شب خوابی کی گولیاں تو ہوں گی ہی۔ کھا کر سو جائیے۔
تمہیں کس نے کہا کہ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے؟
ہر بات کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی صاحب۔ اگر آپ کو نیند آ رہی ہوتی تو آپ میری نیند کیوں خراب کرتے؟
میں تمہاری نیند خراب کر رہا ہوں؟
جی نہیں معاف کیجئے آپ مجھے لوری سنا کر سلا رہے ہیں اور ان کا اچھا خاصہ اثر بھی ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں دوبارہ نیند کی آغوش میں پہنچ جاؤں جلدی سے فرمائیے کیا خدمت مطلوب ہے۔
انتخاب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا معاف کرنا کیشو۔ مجھے واقعی نیند نہیں آ رہی کوئی فلم وغیرہ ہے تمہارے پاس جسے دیکھ کر میں اپنا وقت گزار سکوں اور ممکن ہے سو بھی جاؤں؟
کیشو نے دماغ پر زور ڈالا اور میز کی دراز کھولی اس میں ایک ڈی وی ڈی پڑی مسکرا رہی تھی۔ جی ڈاکٹر صاحب آپ ایسا کیوں نہیں کہتے کہ آپ کو فلم دیکھنی ہے۔ میں ابھی دو منٹ میں حاضر ہوا۔ کیشو نے اوپر الماری میں سے ڈی وی ڈی پلیئر اتارا اس کی جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کیا اور انتخاب کے کمرے میں پہنچ گیا۔
آداب عرض ہے سرکار کیشو بولا
آؤ! آؤ کیشو یہ کیا لائے ہو اپنے ساتھ؟
جناب اس چراغ کے اندر ایک جن ہے جو بجلی کا پلگ لگاتے ہی نمودار ہو جائے گا اور آپ کا دل بہلائے گا۔
انتخاب کو ہنسی آ گئی وہ بولا کیشو کاش کہ تم فلم انڈسٹری میں ہوتے؟
جی ہاں سرکار لیکن اگر میں وہاں پہونچ گیا ہوتا تو بیچارے رامو میرا طلب ہے رام گوپال ورما اور کرن جوہر وغیرہ کا کیا ہوتا؟
وہ! وہ تمہاری طرح کسی سواگت لاج میں مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے۔
اب تک کیشو پلیئر کو ٹی وی اور بجلی سے منسلک کر چکا تھا۔ وہ بولا صاحب یہ لیجئے آپ کا چراغ روشن ہو گیا ہے۔ اپنے جن کو آواز لگائیے اور مجھے اجازت دیجئے۔
لیکن اس میں ہے کیا میرا مطلب ہے فلم کون سی ہے؟
یہ تو میں بھی نہیں جانتا؟
کیا مطلب؟ تم لائے ہو اور نہیں جانتے؟
جی ہاں سرکار آپ جیسا کوئی گاہک بھول گیا تھا۔ مجھے دیکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ آپ تو جانتے میرے پاس کتنا کام ہوتا ہے؟
اچھا تو تم بنا جانے بوجھے مجھے کوئی فلم پکڑا کر رفو چکر ہو رہے ہو کیوں؟ اگر یہ کوئی بور فلم نکلی تو؟
تب تو اور بھی اچھا ہے آپ کو فوراً نیند آ جائے گی۔
اور اگر دلچسپ فلم ہوئی تو؟
کوئی مشکل نہیں آپ کی تفریح ہو جائے گی اور مجھے بخشش ملے گی۔
یار کیشو وہ تو اچھا ہوا کہ تم یہاں پھنس گئے ورنہ رام اور کرن تو درکنار سلیم جاوید بھی ٹھکانے لگ جاتے۔
کیشو مسکرا کر بولا شکریہ صاحب۔ خدا حافظ۔ شب بخیر
انتخاب نے کہا لیکن جانے سے پہلے اس گاہک کے بارے میں ہی کچھ بتا جاؤ جو اسے بھول کر گیا؟
وہ ایسا ہے صاحب کہ سعودی عرب سے ہمارے یہاں دو نوجوان آئے۔ ہفتہ دس دن قیام کیا اور پھر اچانک پولس کا چھاپہ پڑ گیا۔
تو کیا پولس نے انہیں گرفتار کر لیا؟
جی نہیں اتفاق سے وہ دونوں کمرے میں نہیں تھے۔ پولس نے ان کے کمرے سے بہت سارا اسلحہ برآمد کیا۔
اسلحہ؟ وہ کیسے آ گیا؟ تب تو تمہیں بھی گرفتار ہو جانا چاہیے تھا۔
ہمیں کیوں؟
تم نے سامان کی تلاشی جو نہیں لی۔
آپ کیسی بات کرتے ہیں صاحب! ہم اپنے معزز گاہکوں کے سامان کی تلاشی لینے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں کیا پتہ کہ آپ کے سامان میں کیا کچھ ہے؟
اچھا تو کیا تم مجھے دہشت گرد سمجھتے ہو؟
جی نہیں صاحب میں نے تو انہیں بھی سیدھا سادہ امن پسند شہری سمجھا تھا۔ میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو پولس نے بتا دیا ورنہ مجھے کچھ پتہ ہی نہ چلتا۔
اچھا پولس نے کیا بتایا؟ مجھے بھی تو معلوم ہو؟
پولس نے بتایا کہ وہ روہنگیائی مسلمان تھے۔ ان کے خاندان کو برما کے فوجیوں نے مار دیا تھا مگر وہ کسی طرح اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سعودی عرب پہنچ گئے۔ وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی مگر اپنے رشتے داروں کو سرکاری و غیر سرکاری ظلم و جبر سے بچانے کے لیے انہوں نے اراکان صوبے میں لوٹ کر آنے کا فیصلہ کیا۔
اراکان تو برما کا صوبہ ہے انہیں رنگون سے ہو کر جانا چاہیے تھا۔
جی ہاں صاحب۔ آپ کی بات درست ہے مگر برما کی حکومت کسی مسلمان کو ویزہ ہی نہیں دیتی۔ اس پر اگر وہ اراکان کا رہنے والا روہنگیائی مسلمان ہو تو تب تو نا ممکن ہے۔
تو پھر وہ لوگ یہاں کیوں آئے؟
یہاں سے ندی پار کر کے لوگ برما آتے جاتے ہیں۔ وہ اسی ارادے سے آئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ہوں لیکن افسوس کہ ان کا اسلحہ یہیں چھوٹ گیا۔
تمہیں اس کا افسوس کیوں ہے؟
کیسی باتیں کرتے ہیں صاحب۔ کیا اپنے والدین کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کا مقدس کام کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانا غلط ہے؟
یہ سب تمہیں کس نے بتایا؟
پولیس نے لیکن صاحب ایک راز کی بات بتاتا ہوں کسی سے بتائیے گا نہیں۔
بولو، بولو۔
وہ لوگ آپس میں بنگلہ نہیں بلکہ ہندی بول رہے تھے۔
کون لوگ؟ وہ نوجوان جو سعودی سے آئے تھے؟
جی نہیں میں چھاپہ مارنے والی پولس کی بات کر رہا ہوں۔
انتخاب نے چونک کر دریافت کیا، ہندی؟ تو کیا وہ ہندوستان سے آئے تھے؟
دیکھیے صاحب اس طرح کے مشکل سوالات کر کے آپ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیں۔ ان کی کارگذاری میں نے آپ کے گوش گذار کر دی۔ وہ کہاں سے آئے تھے؟ یہ میں نہیں جانتا۔
تم کچھ نہیں جان کر بھی بہت کچھ جانتے ہو۔
شکریہ صاحب۔ بہت نوازش اب آپ فلم دیکھئے اور سو جائیے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...