لسانیات، اُصولِ شعر اور صرف و نحو پر تفصیلی بحث میں آگے مقدمہ میں کرنے والا ہوں یہاں پر پیشِ نظر معروضات کا مقصدِ اصلی اپنی اُس دیرینہ کیفیت کو بیان کرنا ہے جس کی بنیاد پر میں نے شعر جیسے ایک عمومی ابلاغ کو منتخب کیا بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ غیر ارادی طور اِس کا انتخاب ہو گیا تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ حصولِ علم کے طویل اور نہایت اذیت ناک سفر کے بعد یا پھر یوں سمجھ لیں کہ جاری سفر میں جس ناقابل تردید و ناقابل بیان حقیقت کا انکشاف ہوا، اُس انکشاف نے نہ صرف شعور کو ریزہ ریزہ کر دیا بلکہ جذباتی و جسمانی وجود کو بھی شدید متاثر اور مضمحل کرد یا اور یہ انکشاف ایسا ہے کہ ع
ہُوک کروں تو جگ جرے اور جو کچھ ہے جر جائے
پاپی جیارا ناہی جرے کہ جاں میں ہُوک سمائے
شعور تو خیر فرو ہو ہی گیا ہے بلکہ جسم بھی اب بہت تیزی کے ساتھ نحیف ہو رہا ہے۔ بے خوابی، اضمحلالِ طبع، پژمردگی، یقیں تہی، بے ثباتی اور ایک لا محدود لایعنیت پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ زیرک مخاطب اِن تمام مسائل کو جدید علمِ نفسیات کی رُو سے مختلف نفسیاتی بیماریاں بھی کہہ سکتا ہے لیکن ایک ماہرِ علم الابدان و روح یا شعور سے ہم صحتِ حقیقی کے بارے ضرور دریافت کریں گے کہ صحت کی مطلق تعریف کیا ہوتی ہے۔
حقیقت شاید اتنی سی ہے کہ در حقیقت کوئی حقیقت نہیں بلکہ اِس کا اِمکان بھی شعور سے بالا تر ہے۔ رب جو کبھی ایک سکوں آور تصور ہوتا ہے جذبات کی لپیٹ میں آ کر ربیا کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے ہم مجاز کے معانی میں استعمال کرتے ہیں۔ پھر یہی رب ربیا کی صورت اختیار کرنے کے بعد واپس رب بننے کی کوشش کرتا ہے تو عشاق کہتے ہیں کہ ع
رب رانجھے ورگا ناہیں
یعنی مجاز ہی پھر حقیقت بن کر وحدتِ اصلی پیدا کر دیتا ہے جہاں پھر مجاز اور حقیقت میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی۔ اِسی کیفیت کو صوفیاء وحدت الوجود، ہمہ اُوست یا ویدانت کہتے ہیں۔ یہاں تک بھی معاملہ اتنا گھمبیر نہیں رہتا بلکہ اضطراب کو ہم مجاز کی بنیاد پر رفع کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِس سے بھی آگے ایک مقام آتا ہے جہاں مجاز، حقیقت، وحدت اور وجود سارا کچھ معدوم ہو جاتا ہے۔ یعنی ع
خبرِ تحیرِ عشق سن! نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ذہین اِسے بے خبری اور عشاق فراقِ ظاہری کہتے ہیں۔ پس اِنہی دونوں کیفیات کا مرقع ہے میرا شعر۔ فراقِ ظاہری کو میں نے سوزِ نہاں سے تعبیر کر دیا ہے۔ خبر اِمکان سے بالاتر ہے اِس لئے جذبہ طالب بنا دیتا ہے جبکہ جذبہ کسی موضوعی قانون اور ضبط و تربیت کا رہین نہیں ہوتا۔
منزل مِرے مقصد کی کعبہ ہے نہ بُت خانہ
اِن دونوں سے آگے چل اے ہمتِ مردانہ
لاشے
فقیر
نعمان نیئر کلاچوی 24 جنوری 2023، کلاچی
٭٭٭