بیسویں صدی کا ممتاز ماہر لسانیات سوسئیر26نومبر 1857کو اپنے آبائی شہر جنیوا میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی تعلیم جرمنی اور فرانس سے مکمل کی اور تمام امتحانا ت میں امتیازی کامیابی حاصل کی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے جنیوا یو نیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور کیا گیا ۔یہیںسے اس کے لسانی نظریات اور شعبہ لسانیات میں اس کے انقلابی تصورات کا آغاز ہوا۔اسے جدید لسانیات کا موجد اور باوا آدم قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کی علمی ،ادبی اور لسا نی خدمات کے اعتراف میں جنیوا یونیورسٹی میں اس کے نام کی چئیر کا قیام عمل میںلایا گیا جس پر وہ زندگی بھر مسند نشیں رہا ۔ سوئٹزر لینڈ کے اس نامور دانشور نے پوری دنیا کو لسانیات میں اپنے انقلابی تصورات سے حیرت زدہ کر دیا ۔اس نے زندگی بھر فروغ علم و ادب کے لیے اپنی جدو جہد کو جاری رکھا ۔اس کے افکار کی تابانیوں اور تصورات کی ضیاپاشیوں سے تقلید کی تاریکیاں کافور ہو گئیں ،افکار تازہ کی نوید سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات پیدا ہونے لگے اور لسانیات میں نئے مباحث کے دروازے کھلنے لگے ۔22فروری 1913کو جدید لسانیات کے اس عظیم مفکر نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا ۔اس کی وفات سے جدید لسانیات کو ایک منفرد اسلوب کے حامل بے باک اور انقلابی فاضل سے محرومی کا صدمہ سہنا پڑا ۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
سوسئیر زندگی بھر ستائش ،صلے اور نمود و نمائش سے بے نیازتدریسی خدمات میں مصرو ف رہا ۔اس کی زندگی میں اس کی کوئی با ضابطہ تصنیف شائع نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی کتاب کا کوئی مسودہ مرتب ہو سکا ۔اس کی وفات کے بعد اس کے رفقائے کار اور شاگردوں کی مدد سے اس کے کلاس لیکچرز کو جمع کیا گیا ان کی بہ غو ر چھان پھٹک اور تحقیق کے مراحل سے گزارنے کے بعد انھیں کتابی شکل میں1916میں شائع کیا گیا ۔یہ کتاب Course in General Linguistics کے نام سے پوری د نیامیںمشہور ہوئی اور اسے جدید لسانیات کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کا شمار بیسویں صدی کی اہم ترین لسانی تصانیف میںہوتا ہے جن کے معجز نما اثر سے فکر ونظر کی کایا پلٹ گئی اور جس کی باز گشت اب تک علم و ادب کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ سوسئیر کی یہ تصنیف اب تک انسانی تہذیب و ثقافت ،ادب و لسانیات اور فلسفہ کی سب سے زیادہ مطالعہ کی جانے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔نشاتہ الثانیہ کے دور سے لے کر اب تک جتنی بھی وقیع تصانیف منظر عام پر آئی ہیںان میں سے چشم کشا بیانات ،فکر پرور خیالات ،رجحان ساز تصوارات اور لسانیات کے انقلابی نظریات کے اعتبار سے سوسئیر کی یہ تصنیف کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔
سوسئیر نے قدیم مروج لسانی تصورفت اور فلسفیانہ خیالات کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔اس کا خیال تھا کہ یہ تمام خیالات نسل در نسل تاریخی روایات کی اساس پر استوار ہیں جن میں تقلیدی تصورات اور اوہام پرستی کے عناصر کے باعث صداقتوں پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑتی چلی گئی ہے ۔کورانہ تقلید کو اس نے بے بصری پر محمول کیا اور واضح کیا کہ ایسی روش ہلاکت خیزی کی جانب لے جاتی ہے جس سے فکری بانجھ پن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔اس کا اصرارتھا کہ لسانیات کے قدیم تصورات جدید دور میں قابل عمل نہیں ہیں کیونکہ ان تصورات میںحقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔قدیم لسانی محقق محض آوازوں کے مطالعہ اور علم معانی کے حصار میں رہتے ہوئے گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پر غور کرتا تھا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لسانیات جیسے اہم موضوع پر قدیم لسانی محقق اس سہو کا مرتکب ہوا کہ وہ زبانوں کے مختلف گروہوں کے ارتقائی مراحل کو زیر بحث لاتے وقت اس تفکر اور تعمق کو روبہ عمل نہ لا سکا جو اقتضائے وقت کے مطابق تھا ۔سوسئیر نے لسانی مباحث کو ایک منفرد روپ عطا کیا اور زبان کو اشارات کے ایک نظام سے تعبیر کیا ، جس کا عمیق مطالعہ اس امر کا متقاضی ہے کہ یہ تمام عمل بہ یک وقت اور ساتھ ساتھ پایہ ء تکمیل تک پہنچایا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانیات کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ زبان کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے ایک خاص نقطے اور خاص وقت پر توجہ مرکوز رکھی جائے ۔وہ اسے یکساں نوعیت کے نظام سے تعبیر کرتا ہے اس کو دو الگ الگ نظاموں کے بارے میں اس کے متعدد تحفظات ہیں ۔سوسئیر کے خیال میں لفظ کی جو تحریری یاتقریری شکل ہمارے مشاہدے میں آتی ہے اسے نشان (Sign) سمجھناچاہیے اس کے علاو ہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح کاغذ کے دو پرت ہوتے ہیں اسی طر ح لفظ کے بھی دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔سوسئیر ایک پہلو کو معنی نما (Signifier)کا نام دیتا ہے جب کہ دوسرے پہلو کو وہ تصور معنی (Signified)سے تعبیر کرتا ہے ۔سوسئیر سے قبل لسانیات کے ماہر زبان کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے چلے آئے تھے:
لفظ =چیز یا دوسرے لفظوں میںWord= Thing
سوسئیر نے اپنے انقلابی تصور لسانیات کے مطابق لفظ اور معنی کے بارے میں جو منفرد نمونہ پیش نظر رکھا اسے اس طر ح ظاہر کیا جا سکتا ہے :
نشان =معنی نما Sign =Signifier
تصور معنی Signified
سوسئیر نے تصور معنی اور معنی نما کے درمیان پائے جانے والے تعلق کے بارے میں یہ بات صراحت سے بیان کی ہے کہ یہ تعلق بادی النظر میں ایک ایسی نوعیت کا حامل ہے جس کو من مانی حیثیت قرار دینا درست ہو گا ۔اس کا استدلال یہ ہے کہ جب لسانیات کی رو سے پہلی مرتبہ ایک شخص نے ایک چوپائے کو جو کہ چھوٹے قد کا تھا اسے بلی کا نام دیا تو اب تک اس چوپائے کو بلی ہی کہا جاتا ہے ۔اس مخلوق کا یہ نام من مانا ہی تو ہے ۔جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس کو جس نام سے یاد کیا جائے وہ نا معلوم کب سے اسی من مانے انداز میں لسانی پہلو سے نوک زبان پر ہے ۔وہ نظام افتراقات کے ذریعے ان تمام ناموں کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کرتا ہے ۔اس طرح اس کا پیش کردہ نظام افتراقات اپنے اندر ایک قلزم معانی کو سموئے ہوئے قاری کو حیرت زدہ کردیتا ہے ۔
سوسئیر کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں ۔ان دو اصطلاحو ںکے ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue)ٌکا نام دیتا ہے ۔لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System)ہے۔اس سے وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ ،بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے ۔دوسری اصطلاح پارول (Parole)ہے ۔سوسئیر پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue)اپنی نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اورفعالیت کا ایک روپ ہے ۔جہاں تک پارول (Parole)کا تعلق ہے اسے سوسئیر ایک کے خیال کے مطابق ایک طریق کار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔سوسئیر نے کہا تھا :
”In linguistic system ,there are only differences : meaning is not mysteriously immanent in a sign but is functional ,the result of its difference from other sign ” (1)
سوسیئر نے واضح کردیا کہ زبان کو ایک کلی نظام میسر ہے جو کہ ہر لمحہ مکمل حالت میں موجود رہتا ہے ۔ جس طرح یہ کائنات نا تمام ہونے کے باوجود ہر لمحہ مکمل صورت میں سامنے آتی ہے اسی طرح زبان کا کلی نظام بھی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت کامظہر ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک لمحہ قبل وقو ع پذیر ہونے والے تغیرات بھی زبان کے اس کلی نظام کی دسترس میں ہوتے ہیں :
یہ کا ئنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدا ئے کن فیکون
اس وسیع و عر یض کائنات کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ عالم آب و گل محض اشیا کا رہین منت نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کا ئنات کے حقائق ہیں جو ایک جا مع صورت میں سامنے آکر صورت حال کو پیش کر تے ہیں ۔ ساختیات کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس کائنات کا وجود اشیا کے آزادانہ وجود سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ساختیات نے واضح کردیا کہ زبان کو اشیا کے نام دینے والے نظام سے تعبیر کرنا غلط ہے ۔ اسی لیے وہ زبان کو اسمیانے( Nomentclatrue )والا نظام نہیںسمجھتے ۔ دراصل یہ ساخت ہی ہے جو نام دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ ساخت کو انسانی ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک میں کلیدی مقام حاصل ہے ۔ اگر اشیا اور تصورات کو ان اہم اور وقیع نشانات ( جو کہ انھیں ایک دوسرے سے ممیز کر تے ہیں ) سے باہر رہتے ہوئے بھی قابل فہم بنایا جاسکے تو اس طرح ایک زبان سے دوسری زبان کی اصطلاحات کا بالکل صحیح مترادف میسر آسکتا ہے ۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے چونکہ تراجم بالعموم تخمینے یا قریب قریب مفہوم کے بیان پر مبنی ہو تے ہیں اس لیے مفاہیم و مطالب کا انحصار فرق پر ہونا چاہیے نہ کہ چیزوں کے حوالے یا تصورات پر ۔ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton)نے سوسئیر کے کسانی نظریات کے حوالے سے لکھا ہے :
” Saussure believed that linguistics would get into a hopeless mess if it concerned itself with actual speech ,or parole as he called it .He was not interested in investigating what people actually said ;he was concerned with the objective structure of signs which made their speech possible in the first place ,and this he called langue.Neither was Saussure concerned with the real objects which people spoke about:in order to study language effectively ,the referents of signs ,the things they actually denoted ,had to be placed in brackets. (2)
سوسئیر نے لسانیات کے پس پردہ کارفرما عوامل کے بارے میںجو تصورات پیش کیے ان کی وجہ سے لسانیات کے ٹھہرے پانی کی جامد و ساکت کیفیت میں ایک مد و جزر پیدا ہوا ۔اس کی یہ دلی تمنا تھی کہ کسی بھی زبان کے ارتقائی مدارج اور لسانی اثاثے کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس عہد کے حالات اور زمانے کے تغیر پذیر حالات ،واقعات اور مروجہ صورت (Synchronic Form )پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے ۔سوسئیر نے زبان کے قائم بالذات (Substantive)چیز ہونے کے تصور پر گرفت کی اور اس قسم کے خیالات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اس نے اپنے نظریات میں اس بات پر اصرار کیا کہ زبان کسی طرح بھی کسی مثبت یا ٹھوس عنصر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ زبان کی اساس تو نظام افتراقات ہے ۔زبان کی کلیت کی تفہیم اس بات کی متقاضی ہے کہ زبان کا مطالعہ صحیح تناظر میں کیا جائے ۔گروہ انسانی کو تو اپنے روزمرہ کاموں اور ابلاغ کے لیے زبان کی احتیاج ہے مگر اپنی اصلیت کے اعتبار سے زبان کو اس قسم کی بیساکھیوں کی ہرگز ضرورت نہیں ۔جس طرح فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے اسی طرح زبانیں بھی فطری انداز میں نشو و ارتقا کے مدارج طے کرتی ہوئی اوج کمال تک پہنچتی ہیں ۔زبان کو دراصل ایک سماجی ادارے کی حیثیت حاصل ہے ۔تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کی نوعیت دوسرے سماجی اداروں سے یکسر مختلف ہے ۔اس کو تمام سماجی اداروں میں محوری حیثیت حاصل ہے ۔جس طرح ملا اور مجاہد کی اذاں میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہر سماجی ادارے کی ضروریات لسانی حوالے سے جداگانہ خیال کی جاتی ہیں۔سوسئیر نے زبان کے نظام اور اس کے اشارات کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
“A language is a system of signs expressing ideas,and hence comparable to writing ,the deaf -and -dumb alphabet,,symbolic rites ,forms of politeness,military signals,and so on .It is simply the most importsant of such systems .It is therefore possible to conceive of a science which studies the role of signs as part of social life .It would form part of social psychology ,and hence of general psychology .We shall call it semiology.” (3)
سوسئیر نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر جن خیالات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ان کے بارے میں مباحث کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔سوسئیر نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر اس جانب توجہ دلائی کہ عقل عام (Common Sense)پر مبنی تمام تصورات کسی طور بھی قابل لحاظ نہیں۔ساختیاتی فکر کے مطابق حقیقت نگاری (Realism )کا بھی عملی طور پر کوئی وجود نہیں ۔اس کے علاوہ ساختیاتی فکر نے زبان کو شفاف میڈیم ماننے سے انکار کر دیا ۔اس عالم آب و گل میں معاشرتی زندگی اور سماج کے مروج تصور کو ساختیاتی فکر نے قابل توجہ نہ سمجھا ان کا خیال تھاکہ سماجی تشکیل کا تصور روبہ عمل لانا چاہیئے ۔جہاں تک آئیڈیالوجی کا تعلق ہے ساختیاتی فکر نے اسے کوئی اہمیت نہ دی بلکہ ان کے نزدیک اس کا وجود ایک واہمہ ہے ۔ہر قسم کا نظریہ بہ ہر صورت زباں کے ڈسکورس کا مرہون منت ہے ۔ساختیات کی حیثیت ایک فلسفیانہ اصول اورطریق کار کی سی ہے اس کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ کسی عظیم آئیڈیالوجی کی اساس پر استوار ہے ایک خام خیالی ہے ۔جہاں تک لفظ سیمیالوجی (Semiology)کا تعلق ہے یہ یونانی
زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب نشان ہے ۔گویا زبان کو نظام نشانات سے مربوط کر کے سوسئیر نے اسے ایک جداگانہ انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی ۔جب بھی کوئی نظام اشارات منصہ ء شہود پر آتا ہے اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اظہار اور ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں ۔اس قسم کی مساعی سے زبان کی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے اور نت نئے تجربات کے اعجاز سے زبان کو منفرد پیرایہ ہائے اظہار نصیب ہوتے ہیں۔جوناتھن کیولر (Jonathan Culler)نے سوسئیر کے لسانی تصورات اور نظام نشانات کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھا ہے :
” Saussure begins by defining language as a system of signs . Noises count as language only when they serve to
express or communicate ideas,and thus the central question for him becomes the the nature of the sign :what gives it its identity and enables it to function as sign .He argues that signs are arbitrary and conventional and that each is defined not by essential properties but by differences ,and this leads to the development of the distinctions on which structuralism and semiotics have relied.”(4)
سوسئیر کا بیان کردہ یہ نظام افتراقات اپنی اصلیت کے لحاظ سے قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے امکانات تک رسائی کے امکانات پیدا کرتا ہے ۔زبان میں جنم لینے والے نظام اختلاف کو اگر لانگ (Langue)سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔اسی طر ح گفتگو اور تقریر کے دوران اظہار کے جو مراحل طے کیے جاتے ہیں اور جو کہ اپنی تمام تر فعالیت کے باعث اس نظام کا ثمر ہیں۔انھی کی اساس پر یہ نظام افتراقات استوار ہے اسے پارول (Parole)کا نام دیا جاتا ہے ۔سوسئیر نے معنی نما (Signifier )اورتصور معنی (Signified)میں پائے جانے والے نظام افتراقات کو واضح کرتے ہوئے ان میں ربط کی ایک صورت بھی پیدا کردی اور یہ ارتباط معنی کی وحدت پر منتج ہوا ۔سوسئیر نے معنی نما اور تصور معنی میں وحدت کا جو تصور پیش کیا اس کے بعد آنے والو ںنے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بالآخر ژاک دریدا نے اس وحدت کو دو لخت کر دیا ۔یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ ژاک دریدا کے رد تشکیل کے تصور کے سوتے سوسئیر کے نظیریہ ء افتراق سے پھوٹتے ہیں ۔اس لیے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بعد میں آنے والے دانشورو ں نے سوسئیر کے افکار کی مشعل تھام کر روشنی کے سفر کو جاری رکھا اور نئے زمانے نئے صبح و شام کی جانب رواں دواں رہے ۔اس لیے سوسئیر کے لسانی تصورات کی ندرت ،تنوع اور انفرادیت کو نظر انداز کرنا ایک تاریخی غلطی کے مترادف ہو گا ۔جدید لسانیات میں اسے بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔بہ قول رام ریاض :
کس نے پہلا پتھر کاٹا ،پتھر کی بنیاد رکھی عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
1994 میں ژاک دریدا (Jacques Derrida )نے ماریزیو فیراسیس (Maurizio Ferrasis)سے ایک انٹرویو میں اس بات کی صراحت کردی تھی کہ اس کا رد تشکیل کا تصور در اصل ساختیات کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا ۔ژاک دریدا نے کہا :
“The first step for me, in the approach to what I proposed to call deconstruction, was a putting into question of authority of linguistics,of logocentrism .And this ,accordingly ,was a protest against the ‘linguistic turn’,which under the name of structuralism ,was already well on its way .Deconstruction was inscribed in the ‘linguistic turn’ ,when it was in fact a protest against linguistics.! “(5)
جدید لسانیات نے سوسئیر کی فراہم کی گئی فکری اساس پر اپنا سفر مسلسل جاری رکھا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا عزم کر لیا ۔سوسئیر نے جس طر ح لانگ (Langue )اور پارول (Parole)میں حد فاصل کا احساس اجاگر کیا اس سے ایسی ہلچل پیدا ہوئی جس نے جدید لسانیات کو نئے آفاق کی جانب سر گرم سفر ہونے پر مائل کیا ۔لانگ کو ایک نظام اور ایک ادارے کے طور پر پہلی بار متعارف کرایا گیا جب کہ پارول کی حیثیت تقریر و تحریر کے نظام میں ادائیگی کے غالب عنصر کی ہے ۔بعض اوقات اس سے عام قاری الجھن کا شکار بھی ہو جاتا ہے ۔اس کے باوجود جدید لسانیات میں سوسئیر کے خیالات تازہ ہوا کے ایک ایسے جھونکے کے مانند تھے جن کے اعجاز سے گلشن ادب میں روئیدگی اور نمو کے امکانات پیدا ہوئے ۔جوناتھن کیولر (Jonathan Culler)نے سوسئیر کے لسانی نظریات پر عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے اس کے نظام افتراقات کے بارے مدلل گفتگو کی ہے ۔اس نے لکھا ہے :ٖ
” For Saussure the identity of two instances of a linguistic unit (two utterances of the same phoneme )was not an identity of substance but of form only .This is one of his most important and influential principles,though it is also among the hardest to grasp.”(6)
سوسئیر کا خیال تھا کہ گفتگو اور تقریر کو بہ ہر حال تحریر پر فوقیت اور بالا دستی حاصل ہے ۔اس نے لسانی امور اور لسانیات میں اپنے تجزیاتی مطالعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لسانیات میں اگر سائنسی انداز فکر کو اپنایا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقریر کی لذت سے یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے دل سے جو بات نکلتی ہے وہ بے پناہ اثر رکھتی ہے وہ سیدھی سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے ۔اس دلنشیں تقریر اور گفتگو کو سننے والا پکار اٹھتا ہے یہ سب کچھ تو پہلے سے اس کے نہاں خانہ ء دل میں موجزن تھا ۔تخلیق فن کے لمحو ں میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانا اور سامعین کو مسحور کر دینا ایک جان دار اسلوب کا امتیازی وصف ہوتا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعد میںژاک دریدا نے سوسئیر سے الگ اپنی راہ نکالی لیکن یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ژاک دریدا کے رد تشکیل پر مبنی تمام تصورات کے سوتے اسی رجحان ساز ادیب او رمفکر کے افکار سے پھوٹتے ہیں ۔جدید لسانیات کے فروغ کے لیے سوسئیر کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔
سوسئیر نے زبان کے حوالے سے یہ بات واضح کردی کہ زبان کی اصلیت ایسے عناصر اور اصطلاحات کی رہین منت ہے جو ایک دوسرے پر باہم انحصار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔لسانی عمل میں ا ن عناصر اور اصطلاحات کا عمل دخل اس قدر مسلسل اور غیر مختتم انداز میں جاری رہتا ہے کہ ایک اصطلاح اپنے انفرادی روپ میں ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہوئے گلدستہء معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے کا کرشمہ کر دکھاتی ہے ۔یہ بات قابل ذکرہے کہ یہ عمل دوسرے عناصر کی موجودگی میں بھی جاری رہتا ہے ۔سوسئیر نے لسانیات میں اقدار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کہ لسانی نقطہء نظر سے قدر سے مراد معانی کی وہ مجتمع کیفیت ہے جس کے جلوے نشانات کے مرہون منت ہیں ۔نشانات ایسے واضح اشارے کرتے ہیں کہ ان اقدار کے بارے میں کوئی ابہام سرے سے باقی نہیں رہتا ۔یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ لسانی اقدا رکی جلوہ گری اور ان کی بو قلمونی لسانایت کی ساخت اور ایک خاص نظام کا ثمر ہیں ۔یہ دھنک رنگ منظر نامہ اپنے تمام تنوع کے ساتھ اس وقت نگاہوں کوخیرہ کرتا ہے جب عناصر میں تعلق کا پور ا نظام ارتباط و تضاد کے دوہرے تفاعل کے ساتھ معنی خیزی کے عمل کو یقینی بنائے ۔لسانی عمل میں ارتباط و تضاد کا پہلو بہ پہلو سر گرم سفر رہنا قابل فہم ہے ۔اسی سے معنی خیزی کا عمل پوری تاب و تواں کے ساتھ منصہء شہود پر آتا ہے ۔ایک ماہر لسانیات اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا تخلیق کار ارتباط و تضاد کے وسیلے سے ابلاغ کو مئوثربنا دیتا ہے ۔کہیں متضاد اشیا کا موازنہ کیا جاتا ہے اور کہیں یکساں خصوصیات کی حامل اشیا کے بیان سے معنی خیزی پر قدرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر یہ شعر قابل توجہ ہیں :
ایک سب آگ ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
چراغ خانہء درویش ہو ںمیں ادھر جلتا ادھر بجھتا رہا ہوں
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا
سوسئیر کے افکار کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی امریکہ میں لیونارڈ بلوم فیلڈ (Leonard Bloomfield)نے اس کی پذیرائی کی ۔ہر ادبی و علمی نظریے کی طرح سوسئیر کے لسانی نظریات پر بھی گرفت ہوئی اور اسے بعد میں آنے والو ںنے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مقدور بھر مساعی کیں۔یہاں تک کہ ساختیات کے اصولوں کو ناقابل عمل قرار دیا گیا ۔اس کے بعد پس ساختیات کا دور شروع ہو گیا ۔ جس طرح رخش عمر ہمیشہ رو میں رہتا ہے اسی طرح فکر و خیال کے فاصلے بھی کبھی طے نہیںہوتے ۔رہروان علم و دانش نے روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا اسے بعد میں آنے والے عصری تقاضوں کے مطابق جاری رکھتے ہیں ۔یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔وقت یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا تصور درست تھا اور کس نئے تصور کو غلط تصور کی جگہ اپنا رنگ جمانا ہے ۔پس ساختیات نے سوسئیر کے تصورات کی بساط لپیٹ دی ہے اور افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے لیے جد و جہد جاری ہے ۔اس راہ میں مقام کا کوئی تصور ہی نہیں ۔جامد و ساکت اشیا موت کی مظہر ہوتی ہیں۔تبدیلی اور ندرت ہی زندگی کی حرکت و حرارت کی نقیب ہے ۔آنے والا دور بدلتے ہوئے منظر نامے کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرے گا ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ۔
مآخذ
.(1)Terry Eagleton :Literary Theory ,Minnesota Press USA,1996,Page 84-
(2)Terry Eagleton :Literary Theory , Page84-
(3)David Lodge :Modern Criticism and Theory ,Pearson Education ,Singapore,2003,Page ,8-
(4)Jonathan Culler:On Deconstruction ,Routledge ,London ,1983,Page 98-
(5)Nicholas Royle:Jacques Derrida ,Routledge ,London ,2003,Page 62-
(6)Jonathan Culler:Structuralist Poetics,Routledge London ,2002,Page, 12-