۔۔۔۔۔۔پانچ بجے تک ہم لوگ مکہ شریف میں اپنے پہلے والے ہوٹل پہنچے۔کمرہ لیا،کھانا کھایا۔ تکلیف وہ سفر کے باعث مبارکہ کی طبیعت خراب سی ہورہی تھی اس لئے میں نے اسے آرام کرنے کامشورہ دیااور خود نماز مغرب اداکرنے کے لئے حرم شریف چلاآیا۔ اس بار میں ”باب الملک فہد“ سے سیدھااندرجاکر، مطاف سے باہر، کعبہ کے سامنے بائیں ہاتھ بیٹھا تھا میرے سامنے رکن یمانی اور رکن شامی کی پوری دیوار تھی۔ بائیں طرف میزاب الرحمت اور حطیم تھا۔
۔۔۔۔۔۔مدینہ شریف سے مکہ آتے ہوئے ہماری بس ایک جگہ رُکی تھی۔ یہ مدینہ کی طرف سے مکہ آتے ہوئے میقات تھی۔مسجد کانام تو اب یادنہیں رہا۔ ہم نے وہیں غسل کرلیاتھا۔ میںنے احرام بھی وہیں باندھ لیاتھا۔ سو اب مسجد عائشہ جاکرغسل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ عشاءکے وقت مبارکہ اور میں ایک ساتھ حرم شریف میں حاضر ہوئے۔ نماز عشاءکے بعد ہم نے اپنے اس بابرکت سفرکے ساتویں اور آخری عمرہ کے لئے طواف کعبہ سے آغاز کیا۔قرآن مجید میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ذکرملتاہے۔ ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں۔ عمرہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے سات پھیرے ہوتے ہیں صفاومروہ کے درمیان سعی کے بھی سات چکر ہوتے ہیں۔ ہم جو پانچ بچوں کے ماں، باپ ہیں، ہمارا اپنا خاندان سات افراد پر مشتمل ہے اور یہ ہمارا ساتواں عمرہ ہیکبھی کبھی ہندسوں کے کھیل میں عجیب اور دلچسپ صورتحال بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔حجراسود پربوسہ دینے والوں کارش سب سے زیادہ ہوتاہے لیکن چونکہ وہاں سرکاری اہلکار کسی کو دیرتک رہنے نہیں دیتے بس بوسہ دیجئے اور جگہ چھوڑیئے۔ اس لئے بے حد رش اور دھکم پیل کے باوجودوہاں تک پہنچنے میں کامیابی مل جاتی ہے۔ اس کے برعکس درِ کعبہ (ملتزم شریف) پررش تو حجراسود کے مقابلہ میں کم ہوتاہے لیکن وہاں جو کعبہ کی چوکھٹ سے لپٹ گئے۔ سو لپٹ گئے۔ پھر وہ اپنی مرضی سے ہی پیچھے آتے ہیں۔ اسی وجہ سے کعبہ کی چوکھٹ تک شرف باریابی پانا،حجرِ اسود تک رسائی پانے سے زیادہ مشکل تھا۔پہلے چھ عمرے میں نے اس طرح کئے تھے کہ طوافِ کعبہ کے اختتام پر چوکھٹ سے تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ہوکرمخصوص دعائیں بھی پڑھ لیتا تھااور اپنی زبان میں دعائیں بھی کر لیتا تھا۔وہاں پر نوافل کی ادائیگی کی توفیق بھی مل چکی تھی۔ سومبارکہ کو اندازہ تھا کہ طواف کعبہ کے اختتام کے بعد ملتزم شریف پر مجھے دعاؤں میں کتنی دیر لگتی ہے اور مقام ابراہیم پرکتناوقت لگتاہے، پھر وہ مجھے مقام ابراہیم کے قریب ہی مل جایاکرتی تھی۔ لیکن اس بار تو معاملہ ہی کچھ اور ہوگیا۔میں حسبِ سابق ملتزم شریف کے سامنے جاکرکھڑاہواکہ یہاں سے دعائیں پڑھنا شروع کرتاہوں۔ مخصوص دعائیں مکمل کرتے ہی ایسے لگاجیسے رش کے باوجود میرے لئے خود بخود رستہ بن گیاہے اور کسی نے مجھے پیچھے سے، کندھے سے پکڑکر کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ پر پہنچادیاہے۔
جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا
۔۔۔۔۔۔بس پھر میری کھلی ہوئی بانہیں اور جھکاہواسرتھااور اُس کادرتھا۔ دروازے کی چوکھٹ کے درمیانے حصے میں (غالباً سونے کا)ایک سنہری گول دائرہ سالگاہواتھا۔ میں چوکھٹ تک کیاپہنچاتھا، میرے لئے تو گویا درِ کعبہ ہی واہوگیاتھا۔ اب تک کی ساری دعائیں، تمنائیں، التجائیں ایک بارپھر بیان کردیں۔ میرے لئے تویہ پَل بھر تھامگر مبارکہ اُدھر مقام ابراہیم کے پاس سرگرداں تھی میری غیر موجودگی سے اس کی گھبراہٹ اور پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ جب میں ملتزم شریف کے بعد مقام ابراہیم کے قریب پہنچاتو مبارکہ نے مجھے دور سے دیکھ لیا اور اس کی جان میں جان آئی۔مقام ابراہیم پر میں نے دو نفل اداکئے۔ مخصوص دعائیں پڑھیں۔ پھر بئرزم زم پینے بیٹھالیکن مجھے توویسے ہی کعبہ کی چوکھٹ کانشہ چڑھاہواتھا۔ یہاں مبارکہ بھی آگئی تھی۔ ہم دونوں نے حجراسود کے سامنے آکر اسے دورسے بوسہ دیااور ”الصفا“کے رستے سے گذرکر صفااور مردہ کے درمیان سعی کے لئے جانے لگے۔ جاتے جاتے میں نے پلٹ کر دیکھامیرے دائیں ہاتھ آب زم زم، سامنے مقام ابراہیم، حطیم کاایک حصہ، رکن عراقی، ملتزم، حجراسود، رکن یمانی۔۔۔ سب میرے سامنے تھے۔ صرف میز اب الرحمت، رُکن شامی اور اُدھر کی دو دیواریں نظر سے اوجھل تھیں۔ میں تھوڑی دیر کے لئے اس نظارے میں کھوساگیا۔ سعی کے دوران جی بھرکے دعائیں کیں، خداکاشکر اداکیا عمرہ مکمل کرنے کے بعد ہم مارکیٹ کی طرف نکل گئے۔ جرمنی میں بچوں کو ٹیلی فون کرکے پھر اطلاع دی کہ ہم انشاءاللہ کل ۱۱دسمبرکو جدہ سے روانہ ہوکر ۱۲دسمبر کی صبح فرینکفرٹ پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد اپنے کمرے میں آگئے۔ ۱۰دسمبرکا دن گذرچکاتھا کل ۱۱دسمبرکی شام سے پہلے ہم یہاں سے جاچکے ہوں گے۔ یہی خیال کرتے ہوئے نیند آگئی۔
٭٭٭