سورج ڈُوب رہا ہے۔ گاڑی پوری رفتار سے چل رہی ہے۔ عبدل کھڑکی کی طرف بیٹھا سوچ رہا ہے۔ گاڑی کبھی کبھی سُرنگ میں سے یا کسی پل پر سے گزرتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے۔ احمد اور فیاض دوسری طرف باتیں کر رہے ہیں۔
کردار
عبدل، احمد، فیاض
عبدل: (کھڑکی کے باہر چیزوں کو دیکھ کر سوچتا ہے )
رنگ برنگے ذرے بھورے بھورے پتھر
پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں
کالے ناگ سنہری جیب نکالے!۔۔ ۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
خشک پہاڑوں کی چوٹی پر
آڑی ترچھی کالی زرد لکیریں!۔۔ ۔
پتھر کے سینے سے چشمے پھوٹ رہے ہیں
کہیں کہیں ہریالی بھی ہے
بھو کی گائیں —- ان کے تھنوں میں دُودھ نہیں ہے
وہ کیا چیز ہے!!
وہی درا ہے
سانجھ سے پہلے اس پر تالے پڑ جاتے ہیں
کون اب اس کی مہریں توڑے!
………………
یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چکی ہے
ایک قبیلہ جاگ رہا ہے
بھیڑوں کو للکار رہا ہے
ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے
لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے
سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں
وہی پہاڑ اور وہی نظارے
اس وادی میں کیسے اُتروں ؛
اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے
اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
احمد: (فیاض سے )
وہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو
مرے بھائی باہر ہوا چل رہی ہے
فیاض: ذرا گلاس تو بھرنا بھائی!
پیاس لگی ہے —- سارا دن میں کتنے گلاس انڈیل چکا ہوں
یہ شیشے کی صراحی تم نے کہاں سے لی ہے ؟
یہ مال تو باہر کا لگتا ہے مجھ کو
احمد: یہ سب اپنے ہی کنچ گھر میں بنی ہیں
کبھی آپ آئیں تو باہر کی صنعت گری بھول جائیں
فیاض: پانی تو خاصا ٹھنڈا ہے!
آپ پئیں گے ؟
احمد: بہت پی چکا ہوں!
میں گرمی میں پانی ذرا کم ہی پیتا ہوں
فیاض: وہ دیکھو کھڑکی سے باہر
نقرے پر اک لڑکا سرپٹ دَوڑ رہا ہے!
احمد: چال تو خوب چلتا ہے
لیکن سوار اس کا بالکل اناڑی ہی لگتا ہے
فیاض: ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے
گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے
اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں
میں نے انھیں بچوں کی طرح سے پالا ہے۔۔ ۔
احمد: مرے پاس بھی ایک چِینا ہے
اس میں بڑا دَم ہے بھائی!
بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا
مرے پاس جس دن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی
فیاض: یہ بھی وہم ہے
اگلے وقتوں کے لوگوں کی خوش فہمی ہے
احمد: پرانی حویلی کے گھوڑے —- مگر وہ تو اُجڑی پڑی ہے
فیاض: حشمت کا ڈیرہ بھی اب سنسان پڑا ہے
احمد: بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے
فیاض: ہم نے اپنی ساری عمر میں رنگ رنگ کے گھوڑے پالے
چمبا، نقرا، خاکی، چینا، کالا اور کمیت
گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتا ہے
اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے
اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دِل کانپ اُٹھتا ہے
احمد: مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے!
تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا
وہی کالا گھوڑا!
وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے!
فیاض: اس خطے کا کون سا گھوڑا مجھ سے چھپا ہوا ہے
اس میں کوئی گُن ہوتا تو میں کب چھوڑ نے والا تھا
جی وہ تو فوج کا کنڈم مال ہے
دیکھنے میں تصویر ہے لیکن ناکارہ ہے
وہ گھوڑا تو بڑا خونخوار ہے!
احمد: تمھیں یاد ہو گا کہ گھوڑوں کے میلے میں پچھلے برس
گاؤں کے چودھری جی نے للکار کے شرط باندھی
کہ اس کالے گھوڑے پہ جو بھی سواری کرے گا
یہ گھوڑا اسی کو ملے گا
تمھیں یاد ہے نا! کہ اکبر سے پتلے چھریرے بدن
کا جواں اس کو اِک آن میں لے اُڑا تھا
ارے یہ پنہ گیر لڑکا تو آفت کا پتلا ہے
دیکھو تو بھولا سا معصوم سا ہے
مگر وہ گُنی ہے!
فیاض: گُنی وُنی تو کیا ہے بس قسمت کا دھَنی ہے
احمد: اب تو اکبر نے مونا سے شادی بھی کر لی ہے
اچھے گھرانے کی لڑکی ہے!
فیاض: لیکن اس میں ایک ہی کھوٹ ہے
نئے زمانے کی لڑکی ہے
کالج تک تو ٹھیک ہے لیکن
وہ تو کھلے بندوں بے پردہ پھرتی ہے
یہ سب باتیں اپنے کو تو کھلتی ہیں
میاں ہم تو پرانے لوگ ہیں
احمد: اجی اب تو نقشہ ہی کچھ اَور ہے
وہ زمانہ گیا یہ نئی روشنی ہے
وہ نندی بھی تھی! آگ میں جل بجھی
فیاض: وہ بے چاری زندہ رہ کر بھی کیا کرتی!
اس کی قسمت میں جل مرنا ہی لکھا تھا
احمد: تو وہ آگ کس نے لگائی تھی؟
عبدل نے! —- نندی کے بھائی نے! —- حسنی نے!
فیاض: میاں جتنے منہ اتنی ہی باتیں
سنا یہی ہے!
اللہ جانے تہہ میں کیا ہے ؟
احمد: یہ سارے زمیندار ایسے ہی ہیں
لوگ کہتے ہیں جنگل انھوں نے جلایا
مگر گاؤں والوں کو نندی کے بھائی پہ شک ہے
بھلا آپ اس دن کہاں تھے
فیاض: میں اس روز وہیں تھا
اپنے گاؤں میں تھا، بس کھانا کھانے ہی بیٹھا تھا
اتنے میں اک شور سا اُٹھا
میں سمجھا کہ ساتھ کے گاؤں نے ہلّہ بول دیا ہے
ننگے بدن گھوڑے پہ الانا چڑھ کے نکلا
اِس سے پوچھا اُس سے پوچھا
کالی رات اور تیز ہوا تھی
تین کوس سے آگ کی لاٹیں چمک رہی تھیں
ڈیرے والے بھرے طمنچے اور بندوقیں لے کر نکلے
گھوڑے سوار مشالیں لے کر بھاگ رہے تھے
احمد: تعجب ہے عبدل کہاں تھا؟
وہ نندی تو جل ہی گئی تھی!
تمھیں تو خبر ہے!
فیاض: آگ کے بہتے دریاؤں میں
اس کی چیخیں ہم نے سنی ہیں
ہم نے لاکھ پکارا
آوازیں دیں
لیکن کوئی نہ بولا!
احمد: میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسماں سرخ تھا!