میری کتاب”ستیہ پال آنند کی بُودنی نابُودنی“نومبر۲۰۱۳ء کے شروع میں شائع ہو گئی تھی۔اس دوران مجھے ایک تو رؤف خیرکا لکھا ہوا ایک مضمون”ایک نیا اندازِسرقہ“ پڑھنے کا موقعہ ملااور نومبر۲۰۱۳ء کے آخری ہفتہ میں ستیہ پال آنند صاحب کا ایک انٹرویویوٹیوب پر دیکھنے اور سننے کا موقعہ ملا۔
پہلے رؤف خیر کے مضمون کا ذکر۔۔رؤف خیر کے مضمون میں غزل کے شعر کو اُڑا کر اسے بے جا پھیلا کرنظم کہہ لینے والی ستیہ پال آنند کی عادت کو ایک نئے ثبوت کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔رؤف خیر کا مضمون مجلہ ”مخزن ‘ ‘ لاہورجلد نمبر ۱۱،شمارہ نمبر۲(مسلسل شمارہ نمبر ۲۲)میں شائع ہوا تھا۔ان کی کتاب”بچشمِ خیر“مطبوعہ ۲۰۰۷ء میں شامل تھا۔ستیہ پال آنندجو غزل کے مضامین پر کلیشے کا الزام لگاتے ہیں،غزل کے کلیشے قسم کے خیال والے شعروں کو ہی غیر ضروری طور پر پھیلا کر،اپنی نظم بنا کر جدید نظم میں نئے گل کھلا رہے ہیں۔جس کے نتیجہ میں اردو نظم کا کوئی گلدان تیار نہیں ہو رہا بلکہ نظموں کا ایسا انبار تیار ہو رہا ہے جو اصلاََ غزل کا اگالدان ہے۔اردو شاعری میں مسئلہ جبرواختیار کو سورنگ سے باندھا گیا ہے۔ان سو رنگوں میں سے ایک رنگ کی رؤف خیر نے نشان دہی کی ہے۔ان کے مطابق پہلے یگانہ چنگیزی نے”وسعتِ زنجیر تک آزاد “ہونے کی ترکیب کے ذریعے اس موضوع کواپنی ایک رباعی میں یوں بیان کیا:
ہوں صید کبھی ، اور کبھی صیاد ہوں میں کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں
مختار۔۔ ۔۔مگر اپنی حدوں میں محدود ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں
شاہد صدیقی ۱۹۱۱ء میں اکبرآباد(آگرہ)میں پیدا ہوئے ،۱۹۳۲ء میں حیدرآباددکن چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔شاہد صدیقی کا شعری مجموعہ”چراغِ منزل“۱۹۶۰ء میں انجمن ترقی اردو،حیدرآباد دکن کی زیر نگرانی شائع ہوا۔اس مجموعہ میں ان کی ایک غزل کا مطلع یگانہ چنگیزی کی بیان کردہ ترکیب سے استفادہ کرتے ہوئے غزل میں یوں”کلیشے “بن گیا۔
جبرِ فطرت نے یہ اچھا کرم ایجاد کیا کہ مجھے وسعتِ زنجیر تک آزاد کیا
اور یہی”وسعتِ زنجیر تک آزاد“ہونے کا ”کلیشے“مضمون ستیہ پال آنند نے ایک نظم”اپنی زنجیر کی لمبائی تک“میں بیان کیاتو گویا نظم کو”تروتازہ “کر دیا۔ رؤف خیر کی درج کردہ ستیہ پال آنند کی نظم کو یہاں دہرا دیتا ہوں۔
”اپنی زنجیر کی لمبائی تک
کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں)میں بھی آزاد تھا،خود اپنا خدا تھا مجھ میںقوت کار بھی تھی،جراتِ اظہار بھی تھیگرمیٔ فعل و عمل،طاقتِ گفتار بھی تھیمیں کہ خود اپنا مسیحا تھا،خود اپنا مالک،کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں)اب مجھے حکم عدولی کا کوئی شوق نہیںبے زباں طاقتِ گویائی سے محروم ہے اب،ماسوا اس کے کہ شکراََ کہے خاموش رہیاب مجھے گالیاں سننا بھی گوارا ہے کہ میں حرفِ دشنام ہو یا حرفِ پذیرائی ہوفرق لہجے کا، سمجھ سکتا ہوں الفاظ سبھی سرزنش کے ہوں یا تعریف کے۔مالک کی زباںجو بھی ارشاد کرے میرے لیے واجب ہیہاں مجھے دیکھنے چپ رہنے کی آزادی ہیاور میں گھوم کر کچھ دور تک چل سکتا ہوںاپنی زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہوں میں!“
(نظم مطبوعہ ماہنامہ پرواز لندن۔جنوری ۲۰۰۶ء)
شاہد صدیقی کا شعر صرف اس لیے پیش کیا ہے تاکہ سند رہے کہ یگانہ کی ترکیب استعمال کر کے یہ مضمون ”کلیشے“بن چکا ہے اور ستیہ پال آنند اس کلیشے مضمون سے کیسے استفادہ کر رہے ہیں۔وگرنہ اس نظم کے حدود اربعہ کو ظاہر کرنے کے لیے یگانہ چنگیزی کا کلام کافی تھا۔ اس نظم میں کھینچ تان کے طور پر خود ہی اپنا خدا ہونے کا جو بیان دیا گیا ہے،وہ بھی یگانہ چنگیزی سے ہی مستعار لیا ہوا ہے۔گویابنیادی خیال اور کلیدی ترکیب کو اُڑانے کے بعد نظم کو لمبا کرنے کے لیے بھی انہوں نے یگانہ چنگیزی سے ہی استفادہ کیا ہے۔یگانہ کا مشہور شعر ہے۔
خودی کا نشہ چڑھا،آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
اب بتائیے ان اشعار کے سامنے ستیہ پال آنند کی نظم میں ان کا اپنا کیا رہ گیا ہے؟ غزل کے” کلیشے“ بنے ہوئے مضامین کو اُڑا کران مضامین سے نظمیں گھڑنے والے ستیہ پال آنند صاحب کی نظموں کی یہی حقیقت ہے،یہی اصلیت ہے۔انجمن امداد باہمی کے ذریعے ان کی جتنی ستائش کر لی جائے،کرا لی جائے،انجمن امداد باہمی والے اردو کی ترقی کے نام پر اردو کے زوال کا باعث ہی بنے رہیں گے۔
یہاں رؤف خیر کے مضمون کے فیصلہ کن الفاظ کو درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔رؤف خیر لکھتے ہیں:
”شاہد صدیقی کے مذکورہ ایک مطلعے کو وضاحتی وسعت دے کر ستیہ پال آنندنے ایک نظم میں ڈھال لیالیکن تاثر کے اعتبار سے دل چھو لینے والا یہ مطلع ان کی پوری نظم پر بھاری ہے۔اب تو انہیں غزل کے اعجاز کا قائل ہوجانا چاہیے کہ دو مصرعوں میں شاعر جو آتشِ نم چھپا دیتا ہے وہ خاشاکِ نظم کو بھسم کرکے رکھ دیتی ہے۔“
اب حال ہی میں ستیہ پال آنند نے اپنی ایک”بودنی“کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ غزل کے مخالف نہیں ہیں۔وہ غزل کے مخالف رہیں یا نہ رہیں،اس سے غزل کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہونے والا،لیکن ان کی”بودنی“کا تاثر کوئی حیثیت نہیں رکھتا،اس معاملہ میں ستیہ پال آنند کو اپنے لکھے ہوئے سارے الفاظ اور اپنے آن ریکارڈ موجود الفاظ کا سامنا کرکے ،اپنے پہلے لکھے کی برملا تکذیب کرنی ہوگی،غزل کی حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا،ورنہ ان کی کسی ”بودنی“کا کوئی تاثر بے معنی رہے گا چاہے وہ درپردہ ان کا اپنا تیار کرایا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ویسے اردو غزل نے ستیہ پال آنند سے جو انتقام لیا ہے اور ان کا جو حال کیا ہے،وہ دلچسپ بھی ہے اور عبرتناک بھی۔
اب میں ستیہ پال آنند کے تازہ انٹرویو کی جانب آتا ہوں۔اصلاً یہ انٹرویو ان کی نئی کتاب”کتھا چار جنموں کی“کے حوالے سے ہوا ہے۔جواس لنک پر دستیاب ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=e7zEkYs7Qew&feature=youtu.be&a
اتفاق سے کتابوں کے ناموں کا توارد ہوجانا،بڑا عیب نہیں ہے،لیکن جب دیدہ دانستہ دوسروں کے کسی امتیازی وصف کوخول کی طرح خود پر چڑھانے کی کوشش کی جائے تو اسے بہر حال معیوب گردانا جائے گا۔اس انٹرویو میںمذکور ”کتھا چار جنموں کی“کتاب کا نام ہی ماخوذ ہے۔جوگندر پال جی جب اسّی سال کے ہوئے تھے تو میں نے جدید ادب کے شمارہ نمبر ۵۔جولائی تا دسمبر ۵۰۰۲ءمیں ان کا خاص گوشہ شائع کیا تھا۔اس گوشہ کا پہلا مضمون علی احمد فاطمی کا تھا اور اس کا عنوان تھا”چار جنموں کا مسافر۔جوگیندر پال“۔لنک پیش کر رہا ہوں۔
http://www.jadeedadab.com/archive/2005july/mazameen6.php
علی احمد فاطمی نے یہ عنوان خود سے نہیں دیا تھا بلکہ جوگندر پال کے ”خود وفاتیہ“ سے اخذکرتے ہوئے جمایا تھا۔اپنے اسی مضمون میں علی احمد فاطمی نے جوگندر پال جی کے خود وفاتیہ کا متعلقہ اقتباس بھی پورے طور پر درج کر دیا تھا۔ستیہ پال آنند کوچار جنموں کی ترکیب اچھی لگی تو کسی معقول حوالے کے ساتھ اسے اختیار کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی نام نہاد ”دانشوری“ظاہر کرتے ہوئے اپنی زندگی کی روداد کا نام”کتھا چار جنموں کی‘ ‘کر دیا ہے۔اس سے جناب ستیہ پال آنند کی خوشہ چینی،اکتساب،استفادہ اور( داؤلگے تو) سرقہ کی حد تک چلے جانے کا رویہ مزید ظاہر ہورہا ہے۔ ارے بھائی!فاطمی کا عنوان اتنا ہی اچھا لگا ہے تو اپنے جنموں میں ہی کچھ کمی بیشی کر لو۔ چار کی بجائے تین کر لو یا پانچ،چھ کر لو۔اگرچہ پکڑنے والوں نے پھر بھی اصل ماخذ تک پہنچ جانا تھا لیکن چلو ایک ہلکی سی لحاظ داری تو رہ جاتی۔
اپنے انٹرویومیں ستیہ پال آنند نے ایک پنجابی شعر سنا کر بتایا ہے کہ وہ بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں آگئے۔غربت کے حالات کے باعث جوگندر پال یہ بات تب کا لکھ چکے ہیں جب ستیہ پال آنند نے ابھی اردو نظم نگاری شروع نہیں کی تھی۔ ”میں اپنے اولین عہدِ طفلی میں ہی بوڑھا ہو گیا“(مضمون ”پل بھر زندگی“از جوگندر پال،
بحوالہ جدید ادب خانپور۔جوگندر پال نمبر۔سال اشاعت ۱۹۸۵ء۔ صفحہ نمبر۵۸)
مختلف لوگوں کے زندگی کے حالات ملتے جلتے ہو سکتے ہیں،لیکن پھرکوئی بڑا دعویٰ کیے بغیر ہی بات کرنی چاہیے۔
جب کوئی بندہ عمر کے اسّی سال عبور کرجانے کے بعد بھی اپنی ”عظمت“کا پرچم خودد لہراتاپھر رہا ہو تواسے معذور سمجھ کر درگزر سے کام لیاجا سکتا ہے۔تاہم اس انٹرویو میں ستیہ پال آنندنے سیاق وسباق سے ہٹ کر اچانک گوتم بدھ ہونے کا اعلان کردیاہے اور وہ بھی بیس تیس برس کی عمر میں۔ان کے اپنے بقول:
”بیس تیس برس کی عمر تک اتنا کچھ اکٹھا کر چکا تھا میں،کہ خود کو میں نے گوتم بدھ سمجھنا شروع کر دیا۔“
مہاتما بدھ کی عظمت اور عزت ان کی تعلیمات اور کردارمیں ہم آہنگی سے عیاں ہے۔مہاتما بدھ نے تخت تاج،عزت،شہرت،دولت،تمام خواہشات کو تج دیا تھا۔آج کئی ملکوں کے حکمران اپنے تخت و تاج،اپنی عزت،شہرت اور دولت سمیت اپنے سر مہاتما بدھ کے قدموں پر جھکا دیتے ہیں۔ایک جہان ان کے سامنے اپنے سر جھکا رہا ہے۔کہاں مہاتما بدھ کی عظیم ہستی اور کہاں ہمارے یہ ”مہاتما خودستیہ پال آنند“جنہیںبیاسی سال کی عمر میں بھی یہ حسرت ہے کہ وہ زندگی میں عیش و عشرت نہیں کر سکے۔
مہاتما خود،ستیہ پال آنند اپنی کتاب کا ایک امتیازی وصف اپنے بعض دوستوں اور نارنگ صاحب کے حوالے سے اس انٹرویو میں یہ بتاتے ہیں کہ اس میں زندگی کے حالات سے زیادہ آس پاس کے لوگوں کے بارے میں اور ادب کے تناظر میں بات کی گئی ہے جو دنیا میں اپنی قسم کی واحد کتاب ہے۔”کتھا چارجنموں کی“کے بارے میں اگر واقعی ان کے دوستوں نے ایسی بات کہی ہے تو انہوں نے ستیہ پال آنند کے ساتھ مذاق کیا ہے۔اور اگر آنند صاحب خود بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں تو وہ بھی اپنے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔دنیا جہان کی خود نوشتوں کے بارے میں تو چھوڑیں،خود اردو میں ہمارے قریب ترین بزرگ ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت”شام کی منڈیر سے“مذکورہ اوصاف کی حامل کتاب ہے۔کہیں ستیہ پال آنند نے وزیر آغاکے اندازسے خوشہ چینی تو نہیں کی؟کتاب کے نام سے لے کر ”منفرد انداز“تک ہر کام میں خوشہ چینی کا عمل اور پھر اس برتے پرمہاتما بدھ ہونے کا دعویٰ۔
ستیہ پال آنند کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نظموں میں مسلسل اخذواکتساب سے استفادہ تک کا عمل دکھائی دیتا ہے۔اردو دنیا کے بڑے طبقے کو خوش کرنے کے لیے وہ عربی وفارسی حوالوں کو اپنا ماخذبناتے ہیں تو مغربی دنیا میں مہاتما بدھ کی فکری مقبولیت دیکھ کر وہ ان کی تعلیمات اور ان کے دور کی فضا کو بھی اپنا موضوع بناتے ہیں۔مقصد ہر جگہ ایک ہی ہے کہ شہرت کاجو شارٹ کٹ بھی ملتا ہے،اسے اختیار کرلو۔
مہاتما بدھ کے بارے میں ایک جہان نے لکھا ہے۔جغرافیائی اور لسانی طور پراپنے مقامی حوالوں سے بات کروں توجرمنی کے ممتاز ادیب ہرمن ہیسے کا ناول ”سدھارتھ“ایک شاندار حوالہ بنتا ہے۔ہر من ہیسے نے اپنے ناول ”سدھارتھ“میں خودکو گوتم بدھ کے برابر لانے کی جسارت نہیں کی۔اس سلسلہ میںجدید ادب جرمنی،شمارہ نمبر ۱۱،جولائی ۲۰۰۸ءمیں ”سدھارتھ“پر بات کرتے ہوئے میں یہ لکھ چکا ہوں:
” ہرمن ہیسے نے ہندوستان کے سفر کے دوران گوتم بدھ کا جو احوال سنا اُس کی روشنی میں اپنی زندگی کو دیکھنے کی کاوش کی۔اس کاوش میں ہرمن ہیسے کو یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے چند ازلی سوالوں کے ساتھ حقیقتِ عظمیٰ کی جستجو اور تلاش کا سفر تو کر رہا ہے لیکن اسے گوتم بدھ جیسے گیان کی منزل نصیب نہیں ہو سکتی۔سو اس نے خود کو گیان کی روشنی سے پہلے والے سدھارتھ کے مقام پر رکھا اور اسی نام کے ساتھ اپنی جستجو کا سفر شروع کیا جو ظاہر ہے ایک نا مختتم سفر ہونے کے باعث کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔تاہم اس سفر میں جو کچھ پیش آیا وہ سب بجائے خوداس کی زندگی کی روحانی واردات کا حصہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ “
ستیہ پال آنند میں ہرمن ہیسے جیسا ظرف تو خیر کہاں سے آتا،تاہم وہ تھوڑی سی عقل سے کام لیتے تو بیس تیس برس کی عمر میں گوتم بدھ بننے کا مضحکہ خیز دعویٰ کرکے خود ہی اپنی تضحیک کا باعث نہ بنتے۔
اردو فکشن میں انتظار حسین نے بدھ جاتکوں سے جو اکتساب کیا ہے ،وہ ظاہر و باہر ہے۔وزیر آغا کے فکری مضامین سے لے کر ان کی نظموں تک میں مہاتما بدھ کا فیض بھی دکھائی دیتا ہے اور کئی مقامات پر ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی فکر سے اختلاف بھی موجود ہے۔اب اگرستیہ پال آنند نے مہاتما بدھ کی شخصیت اور ان کی تعلیمات کے کچے پکے اشارے دے کر اپنی نظموں کو مزیّن کرنے کی کاوش کی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔گڑ بڑ وہاں ہوئی ہے جب انہوں نے اپنی ایسی نظموں سے خود ہی متاثرہو کراپنے آپ کو مہاتما بدھ جیسا قرار دے ڈالا ہے۔اور وہ بھی اپنے ماضی بعید میں جا کر بیس تیس سال کی عمر میںمہاتما بدھ بن بیٹھے ہیں۔ اس سے ستیہ پال آنند کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ اُلٹاستیہ پال آنندکی شخصیت” مہاتما خود“کی مضحکہ خیز صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔مہاتما بدھ کے گیان سے نروان تک کے جن فرمودات کو انہوں نے محض اشاراتی لفاظی کی حد تک بیان کیا ہے ،وہ خود ان کی روح سے یکسر ناواقف دکھائی دے رہے ہیں،وگرنہ اس باب میں اپنی طرف سے کوئی انکشاف تو فرماتے۔پہلے سے کہے گئے الفاظ کو دہراتے جانا بعض اوقات لفظوں کی جگالی کہلاتی ہے۔کاش ہمارے مہاتما خود ستیہ پال آنند پہلی عظیم ہستیوں کے عظیم فرمودات کو اپنی روح کا جزو بنا کر پھر اپنی طرف سے کچھ نیا کہہ پاتے۔ابھی تک وہ صرف پہلے مقدس فرمودات کی جگالی ہی کر رہے ہیں۔ایسا نہ ہوتا تو” مہاتما خود ستیہ پال آنند“ کو بدھ جیسا ہونے کامضحکہ خیز دعویٰ نہ کرنا پڑتا۔دنیا خود ان کا اعتراف کرتی۔پھر کسی بھی جیسا ہوناکیوں؟جینوئن تخلیق کارتو اپنے جیسا آپ ہوتا ہے۔اس کا چھوٹا یا بڑا ہونا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اس کا جینوئن ہونااہم ہوتا ہے ۔ جینوئن تخلیق کارجہاں کہیں سے بھی فیض حاصل کرے لیکن اپنے مجموعی تخلیقی ظہور میں وہ اپنے جیسا آپ ہوتا ہے ۔ کسی اور جیسا نہیں ہوتا۔ستیہ پال آنند کو تخلیقیت کا اتنا سا گیان بھی نصیب ہواہوتا تو وہ گیان اور نروان کی سطحی باتیں نہ کرتے۔
میری کتاب”ستیہ پال آنند کی’۔۔۔بودنی،نابودنی“کی اشاعت کے معاََ بعد ستیہ پال آنند کے ارد گرد سے اور خود ان کی طرف سے بھی چند باتوں کا اعتراف سامنے آگیا ہے اور اس اعتراف میں چند نئی باتیں بھی سامنے آئی ہیں ۔مثلاََستیہ پال آنندایک طویل عرصہ تک ہندی،پنجابی اور انگریزی میں لکھتے رہے ہیں۔ان زبانوں میں بھی نثر میں خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔ساٹھ سال کا ہو جانے کے بعدانہوں نے اردو نظم کا رخ کیا۔اس سے میرا پہلااندازہ درست نکلا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ بالا تینوں زبانوں میں لکھے گئے کو کوئی اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اردو کا رُخ کیااور اس میں غزل کی مخالفت کا اعلان کرکے نظم نگاری شروع کر دی۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہندی میں ستیہ پال آنند نے جاسوسی ناول بھی لکھے۔اردو میں ابنِ صفی کے لکھے ہوئے ناول پورے برصغیر میں مقبول ہیں۔ہندی سے لے کر انگریزی تک میں ان کے ترجمے ہو چکے ہیں۔کمرشیل سطح پر سہی ،ابنِ صفی کے ناولوں کے مقابلہ میں ستیہ پال آنند کے جاسوسی ناول کہیں دکھائی دیتے ہیں؟
میں اپنے مضمون”دو نظموں کا قضیہ“میں ستیہ پال آنند کے بارے میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ ان کے ہاں:
” کہیں پورے اور کہیں آدھے ادھورے حوالہ جات بھی ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت ساری ایسی باتیں بھی ملتی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔خصوصاً جب وہ بغیر واضح حوالہ دئیے بعض بڑے اور اہم ادیبوں کے ساتھ اپنی بے تکلفی ظاہر کرتے ہیں۔یہ سارا سلسلہ صرف اپنی (غلط) اہمیت ظاہر کرکے خود کو بھی اہم ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔“
ستیہ پال آنند کا یہ رویہ جابجا موجود ہے۔”کتھا چار جنموں کی “پر انعام الحق کی رائے میں(بحوالہ چہار سو) ستیہ پال آنندکے اقتباس سے ظاہر کیا گیا ہے کہ تلوک چند محروم اور جوش ملیسانی نے کہا تھا کہ اس نوجوان کا مزاج صرف نظم کے لیے موزوں ہے۔(دروغ برگردن ستیہ پال آنند)۔
پہلی بات تو یہ کہ دونوں بزرگ شاعرجدید نظم سے بالکل بے تعلق تھے اور پابند نظم کی روایت میں اپنا شاندار مقام رکھتے تھے۔انہوں نے اُس زمانے میںجب یہ تیرہ چودہ برس کے تھے، کیسے یہ گمان کر لیا کہ یہ نوجوان نظم کا مزاج رکھتا ہے۔ایسی کم عمری میں اگر کوئی بات قرینِ قیاس ہو سکتی ہے تو اتنی کہ ستیہ پال آنند نے لڑکپن میں شاعری کے نام پر تک بندی جیسے چند مصرعے لکھے ہوں گے اور ان بزرگوں کو دکھائے ہونگے۔پرانی روایات کے امین ان بزرگوں نے بے وزن تک بندی دیکھ کرشاعری سے روکنے کے لیے کہا ہو گا کہ میاں! آجکل جو آزاد شاعری کی جا رہی ہے،آپ بھی ویسی نظمیں لکھا کرو۔پابند شاعری مت کیا کرو۔
دوسری بات یہ کہ بھائی صاحب!دوسروں کے بتانے پر ہی کیوں سمجھے؟جدید نظم کا معاملہ تو خارجی سے کہیں زیادہ داخلی نوعیت کا ہے۔اپنی اہمیت جتانے کے لیے کوئی روایت گھڑنی تھی تو اس میں کوئی معقول مطابقت بھی پیداکر لی ہوتی۔
اردو کے بعض ادبی رسائل کے کاروباری مزاج کے باعث ستیہ پال آنندکی ان رسائل میں جتنی اہمیت بنی ہوئی ہے وہ ساری سر آنکھوں پر!۔۔تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ اردو غزل کے ستیہ پال آنند سے بھر پور انتقام کے باوجود، خوشہ چینی،اکتساب،استفادہ سے ہوتے ہوئے داؤ لگے تو سرقہ تک کر گزرناستیہ پال آنند کی شخصیت اوران کے مزاج کا حصہ ہے۔اپنی زندگی کی کتھا لکھ کر وہ اس کتاب کا نام بھی جوگندر پال سے اُڑائے بغیر نہ رہ سکے۔اسی طرح مہاتما بدھ کے مقابلہ میں گیان اورنروان کی خالی خولی باتیں کرنا”مہاتما خود“ بننا ہے۔یہی ستیہ پال آنند کی ادبی شخصیت ہے اور یہی ان کی حقیقت ہے۔
آخر میں یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ کئی سال پیشترعطاءالحق قاسمی کا ایک کالم ”مہاتماخود“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔عطا کے شکریہ کے ساتھ یہ عنوان اس مضمون کے لیے اختیار کررہا ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ عطاءکے ممدوح کی شخصیت سے زیادہ یہ عنوان میرے ممدوح ستیہ پال آنند صاحب پر فٹ آیا ہے۔سو حق بحق دار رسید۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۱۹۔مئی ۲۰۱۴ء
مطبوعہ سہ ماہی کولاژ کراچی ۔شمارہ نمبر۳۔۲۰۱۴ء