ستیہ پال آنند(کینیڈا)
دائرہ در دائرہ
عاقبت منزل ما وادی ء خاموشاں است
حالیہ غلغلہ د ر گنبد افلاک انداز
لکیروں کے چکر میں محبوس اک د ائرہ ہے
لکیریں بہت تیز رفتار سے گھومتی ہیں
مدار اپنا لیکن نہیں بھولتیں اس سفر میں
کہاں سے ہوا تھا شروع سفر دائرے کا؟
کوئی ایک نقطہ جو آغاز تھا، ابتدا تھی؟
کوئی مدعا تھا کہ ساری لکیریں
بہت تیز رفتار سے گھوم کر دائرہ اک بنا لیں؟
نہیں! کچھ نہیں! کوئی معنی و مقصد نہیں تھا۔۔۔۔
فقط دائرہ بن گیا تھا
جو اپنی ہی دھن میں
لگاتار اک اندھی رفتار سے
سالہا سال سے گھومتا جا رہا ہے!
مگر قرۃالعین سا دائرے کے کہیں وسط میں ایک باریک نقطہ
تواتر سے تحریک لیتا ہوا
کچھ دنوں سے مدار اپنا طے کر کے خود گھومنے لگ گیا ہے
نیا دائرہ اک ہویدا ہوا ہے
بڑے دائرے کی حدوں میں مقید
نیا دائرہ گول آکار میں گھومتے گھومتے
تیز آندھی کی رفتار سے اپنا رقبہ بڑھاتے بڑھاتے
بڑے دائرے کی لکیروں کو چھونے لگا ہے
کبھی اس کی رفتار میں جذب ہوتا
کبھی اس سے ٹکرا کے حد بندیاں پار کرتا ۔ پلٹتا، مگر
اک بگولے کے مانند باہر نکلنے کو اب چھٹپٹانے لگا ہے
بہت شور و غوغا ہے دو دائروں کے تصادم کا ․․․․
چنگاریاں اٹھ رہی ہیں!
کہو، میرے’’ ـمیں‘‘ ـ کے بگولے
مرے سر کے گنبد سے آزاد ہونے میں اب دیر کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Eye of the Hurricane
اشک کے قطروں میں جلتا دل
اسے ٹھنڈا لگا تھا
اپنے پلّو میں یہ موتی
باندھ کر بے فکر سی وہ سو گئی تھی
اس کو اندازہ نہیں تھا
پر سکوں یہ نرم ٹھنڈک
مرگ آسا خامشی جو
اس کو راحت بخش ، خواب آور لگی تھی
میرے اندر حشر کی صورت بپا
طوفاں کی وسطی آنکھ تھی
خاموش، پانی سے دھلی ۔ اور
آنے وا لی آندھیوں کا پیش خیمہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریٹنگ کارڈ
برسوں کے سیلاب کی باقی ماندہ دھاری دار لکیریں
اور ان پر پڑتی بوندیں ، کچھ اور لکیریں
نئے برس کی بارش کا سیلاب۔۔۔
نئی سطریں اس خط کی
جو ہر سال کے پہلے دن مجھ کو آتا ہے
گڈ مڈ لفظ، پرانے، پچھلے کارڈوں والے
اور نئے، کچھ بے معنی، کچھ با معنی، بے ربط سے جملے
جھوٹے دلاسے، میٹھے چکمے، شعبدہ بازی
کچھ تصویریں، خاکے، رنگیں تاگے، جھالرکی آرائش
یہ تصویریں دیکھ کے ان میں گم ہو جانا
ان فقروں کو پڑھنا اور پھر بیتی یادوں میں کھو جانا
پچھلے برس کی دھاری دار لکیروں پر بنتی مٹتی
کچھ اور لکیروں
نئے برس کی بارش کی بوندیں گننا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی تمہاری آ گئی ہے!
بینچ پر بیٹھا ہوا ہوں
اک اکیلا، یکسرو تنہا، یگانہ
برف شاید رات بھر گرتی رہی ہے
اس لیے تو میرا اوور کوٹ، مفلر اور ٹوپی
برف سے یوں ڈھک گئے ہیں
جیسے ان کی بیخ و بن میں
اون اور برفوں کے تار و پود یکجا ہو گئے ہوں
سانس نتھنوں سے نکلتا ہے تو جیسے
برف میں تحلیل ہو کر
پھر مرے نتھنوں کے اندر تک رسائی چاہتا ہے
ہاں، بہت دقّت طلب ہے
آنکھ کے وزنی پپوٹے کا ذرا سا کھل کے باہر دیکھنا
بس ایک لمحے کے لئے ہی
ہاں، بہت دقّت طلب ہے!
کھول ہی لیتا ہوں آخر
دور تک بس برف کے انبار ہیں
جو ریل کی پٹڑی کو بالکل ڈھک چکے ہیں
دائیں بائیں اور بھی کچھ بینچ ہیں
لیکن سبھی خالی پڑے ہیں
ریلوے کا یہ سٹیشن
صرف اک جانب سے آنے والی گاڑی کا کوئی ادنےً پڑاؤ
منتظر ہے، منجمد ہے، آدھا سویا اور آدھا جاگتا ہے!
آنکھ کا وزنی پپوٹا بند ہونا چاہتا ہے
اور تب اک برف کا کورا ہیولےً
میری انگشت شہادت کو پکڑ کر
مجھ سے کہتا ہے ۔ چلو، آؤ
اٹھو، گاڑی تمہاری آ گئی ہے!!