(Last Updated On: )
کتنی مدت اس بند ویران طے خانے میں گزر چکی تھی اسنے اب اس بات کا اندازہ لگانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ مگر اپنے جسم میں گھلتی نکاہت اسے باور کرا دیتی کہ یہ واقع سالوں کی تعداد اختیار کر گیا ہے۔اسے اپنا آپ جتنا بے بس اور لاچار محسوس ہوتا اتنا ہی اسکے ذہن پر دباو بڑھتا جاتا۔زندگی کبھی کبھار ہم سے سب کچھ چھین کیوں لیتی ہے۔کیوں ایک دوراہے پر لا کر سب در بند کر دیتی ہے۔
سیاہی میں اسے اک پرانا منظر یاد آیا۔وہ سونے کو لیٹی تھی مگر نیند نگاہوں سے کوسوں دور تھی ۔ مومی نے اسکے کمرے میں روشنی دیکھی تو اندر چلی آئیں “کیا ہوا کرسٹی سوئ کیوں نہیں اب تک” انہیوں نے پوچھا”مومی نیند نہیں آرہی آپ مجھے night tale سنائیں نا”اس نے معصومیت سے کہا تو وہ مسکراتی ہوئ اسکے بیڈ کے قریب آئیں اور اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسکے پاس آ بیٹھیں”کون سی سناوں؟”انہوں نے پوچھا۔”I want to listen your most favroute one” اس نے کہا”Ok then story begin about a trader and a bird” انہوں نے کہنا شروع کیا”وہ برڈ اس ٹریڈر نے بہت عرصے سے اپنے پاس پنجرے میں رکھا تھا ایک دن وہ تجارت پر جا رہا تھا تو اس نے اس برڈ سے بھی پوچھا کہ تتمہارے لیے کیا لاوں تو اسنے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے بس جنگل سے گزرتے ہوئے میرے ساتھی پرندوں کو میرا پیغام دینا کہ میں بہت اداس اور تنہا ہوں تم لوگ آزاد ہو اور خوش ہو مگر میں یہاں قید ہوں تاجر جب اس جنگل سے گزرا تو اسنے وہ پیغام انہیں دیا نتیجاتن ان میں سے ایک پرندہ بے حوش ہو کر نیچے گر گیا۔ تاجر نے واپسی پر اس ساتھی کی روداد اس پرندے کو سنائ اور وہ بھی بے حوش ہوگیا۔تاجر کو یہ لگا کہ شاید وہ دکھ سے مر چکا ہے تو اسنے پنجرے کا دروازہ کھول دیا جونہی وہ کھلا پرندہ اڑتے ہوئے باہر نکل گیا اور ہوا میں آزادی سے اڑنے لگا”
“Wow thats great momy its friends were very sharp and helpful” کرسٹی نے خوش ہوتے ہوئے کہا
“ہاں وہ تھے ناو سلیپ ڈاون”وہ مسکراتے ہوئے لیمپ آف کرکے چل دیں
منظر اسکی آنکھوں سے اب اوجھل ہو چکا تھا۔ اور اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھی “اووو مومی”وہ بڑبڑائ وہ پرندہ تو مجھ سے بھی خوشنصیب تھا کہ اسکا کوئ تھا تو میرا تو کوئ رہا ہی نہیں۔یوں معلوم ہوا جیسے انکرا کی برستی بارش مزید اداسی میں ڈوب چکی ہو۔
***********
دریائے تھیمز کے جنوب میں London eye موجود تھا۔ لوگ یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے تھے۔ لنڈن آئے بھی بلکل پاکستان میں موجود آسمانی جھولے کی طرح ہے۔ بریٹش لوگ اسے کوکا کولا لنڈن آئے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ شام اترتے ہی اس راونڈ کو لائٹس سے روشن کر دیا جاتا ہے جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بھی ہے۔
اپنے قریب رکنے والے کیبن میں وہ پانچوں اور ساتھ دو خواتین اور ایک بیبی گرل بھی گھس چکے تھے۔ ان چاروں کو تو بیٹھنے کے لیے جگہ مل مگر حور کے بیٹھنے سے پہلے ہی اس سفید بلوں والی خاتون نے اپنی بیبی گرل کو بٹھا لیا”آپ اسے اپنی گود میں میں بٹھا لیں یہاں میں بیٹھ جاوں ” حور نے نرمی سے اس بوڑھی خاتون سے کہا اور اس نے تو جیسے سنی ان سنی کر دی”میں آپ سے کہہ رہی ہوں کچھ میم”اسنے پھر کہا “First come first surved I am not going to pick up my child now you may either stay stood or sit into your boy friend’s lap” اس عورت نے اسکے سامنے بیٹھے عرشمان کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ دباتے ہوئے جس پر حور تو حور عائشہ اور باقی سب بھی آنکھیں پھاڑ کر اس خاتون کو دیکھنے لگے کچھ اسکی ڈریسنگ بھی خاصی ویسٹرن تھی کہ عورت کو یہ بات کرنا بلکل معیوب نہ لگا حور اب بھی اسے حیرانی سے دیکھ رہی تھی جب اس خاتون نے پھر کہا”Go baby just sit into his lap”خاتون نے پھر اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا “اس عورت کا دماغ تو نہیں خراب کیا فضول بولے جارہی ہے”عائشہ نے حیران ہوتے ہوئے ماہین کے کان میں سرگوشی کی جبکہ عرشمان کا حیرت سے برا حال تھا جبکہ اس تمام سچویشن میں ریحان اور ماہین اپنی ہنسی چاہ کر بھی نہیں روک پا رہے تھے “اس کو جوانی میں اسکا بوائے فرینڈ چھوڑ گیا ہوگا اسی لیے اپنی تمنا بیچاری حور سے پورا کروانے پر بضد ہے اس بار ماہین نے عائشہ سے آہستہ سے کہا جس پر وہ بھی مسکرانے لگی البتہ حور نے کٹیلی نگاہوں سے ان تینوں کو دیکھا اور درشتی سے کہا”he is not my boy friend” عورت پھر اسے دیکھتے ہوئے بولی”but he can be” اس نے پھر آنکھ دباتے ہوئے کہا حور اپنا رہا سہا ضبط بھی کھونے ہی لگی تھی “oh you” اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ بولتی عائشہ نے کھینچ کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا”حور ریلیکس کالم ڈاون ہم یہاں کوئ بدمزگی پیدا کرکے اپنا ٹرپ خراب نہیں کر سکتے یہاں کی پولیس چھوٹی سی بات کو بھی ایشو بنا للیتی ہے سو جسٹ کیپ سائلنٹ۔
عائشہ کے کہنے پر وہ خاموش تو ہو گئ مگر وڈ سخت خراب ہوچکا تھا ferris wheel اب اوپر جا رہا تھا سب اونچائ سے ویو انجوائے کرنے مین مگن ہو گئے۔ جب انکا کیبن نیچے پہنچا تو وہ سب اتر گئے اس عورت نے جانے سے پہلے اس سے کہا”try to think about itجسے سب سن چکے تھےاور بامشکل اپنی ہنسی روک پائے تھے “you “اس سے پہلے کے ہور اس تک پہنچتی سب نے مل کر اسے روکا اور بامشکل ایک جگہ بٹھایا”ان سفید فام عوزتون نے سب کو اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے کیا”وہ غصے سے بولی جس پر سب مسکرا اٹھے “دفا کرو اسے اب کچھ کھاتے ہیں”وہ پھر وہان سے چلنے لگے “ویسے ائیڈیا برا نہین تھا”عائشہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور خود اگے کو بھاگی “عائشی تم بچو مجھ سے”وہ اسکے پیچھے بھاگنے لگی اور اس کو پکڑ کر اسکی پونی ٹیل کھینچی۔اوردونوں مسکرانے لگیں ان دونوں کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے آتے وہ تینوں بھی مسکرانے لگے سورج اب لندن مین غروب ہونے کو تھا۔۔
آج انہیں اپنے ریسٹ ہاوس شفٹ ہونا تھا۔ ماہین نے اپنی پیکنگ میں جت گئ تھی جبکہ ریحان عائشہ کو اپنے ساتھ windsor castle لے جانے کا پروگرام تھا اسی لیے عرشمان اور حور نے ان کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں سمجھا۔ حور کچھ دیر سے اٹھی اور پھر روم سے نکل کر ہوٹل کی بیرونی طرف آ نکلی جہاں ٹیبلز یہاں کے رہائشیوں کے کھانے پینے کے لیے لگائے گئے تھے۔ وہ بھی اس اوپن ائیر ایریا میں ایک ٹیبل پر آ بیٹھی۔عرشمان کو وہ دور ہی سے نظر آگئ تو وہ بھی چلتا ہوا اسکے مقابل آ بیٹھا۔ آج وہ گرے فل سلیوز شرٹ اور بلو جینز پہنے مفلر گردن کے گرد لپیٹے وہ کافی فریش لگ رہی تھی۔ کھاتے ہوئے انکی معمولی ہی بات ہوئ تھی۔ اتنے میں عرشمان کو کوئ اپنا جانا پہچانا دوست مل گیا تو وہ وہاں سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھ گیا
۔اسے اسکے ساتھ مگن دیکھ کر وہ بھی اپنے کمرے میں سامان باندھنے کے لیے اٹھ گئ۔ عرشمان کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ روکی وہ کافی مگن تھا۔اسے اپنا آپ نظرانداز ہوتا محسوس ہوا تو بول اٹھی”فری ہو کر میرے روم میں کافی لیتے آنا”اور تحکم سے کہتی ہوئ آگے بڑھ گئ۔ عرشمان نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا آیا کہ یہ مجھے کہہ کر گئ ہے یا ویٹر کو۔ پھر اپنے پیچھے کھڑے ویٹر کو دیکھا جسکی مسکین سی صورت بنی تھی مطلب واضح تھا کہ وہ اسے ہی کہہ کر گئ ہے”جو حکم محترمہ آپکا”اسنے دل میں کہا اور مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئ۔
وہ بیگ میں اپنے ڈریسز رکھ رہی تھی جب اسے دروازے پر دستک سنائ دی۔”yes come in” اس نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے لاپرواہی سے کہا “میم یہ آپکا آرڈر” وہ کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے نگاہیں نیچے کیے بہت موعدب انداز سے کہہ رہا تھا کہ جب حور نے اسے دیکھا تو وہ اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کرنے لگی “ٹھیک ہے اسے ٹیبل پر رکھ دو”حور نے تحکم سے کہا”anything else mam” اسنے پھر معصومیت سے پوچھا “نتھنگ ایلز” حور نے کہا “تو پھر میں جاوں”اسنے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔”یس یو مے فو”اسنے بالوں کی ایک لٹ کو انگلی میں گھماتے ہوئے کہا”سوری وہ ایک فرینڈ مل گیا تھا تو ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا تم بور تو نہیں ہوئ؟”اسنے پھر پوچھا”نہیں بلکل نہیں وہاں ویٹرز مجھے juggling کرکے دکھا رہے تھے تو میں انہیں دیکھ کرلطف اندوز ہو رہی تھی۔۔۔ہنہہ”حور نے رخ پھیرتے ہوئے کہا۔”اچھا آئے ایم سوری کر بھی دیں محترمہ معاف”اسنے التجا کی تو بامشکل اسے معاف کرنا پڑا۔ وہ اسکے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔
حور نے سائیڈ سے کافی کا مگ اٹھایا اور پینے لگی۔ اور وہ اسے دیکھنے میں مگن تھا سنہری زلفیں نیلی کاجل سے لبریز نگاہیں وہ کسی کو بھی خود پر فنا کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ “عائشہ نے مجھے بتایا تھا کہ تم ایبروڈ سے ہیاں اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کرنے کے لیے یہاں آئ ہو اور تمہارے پیرینٹس بھی آوٹ آف کنٹری ہوتے ہیں” کافی پیتے ہوئے اسکے ہاتھ لمحے بھر کو لرز گئے لیکن وہ اس پر جلد قابو پا کر مثبت میں سر ہلایا۔ “تم نے اپنی مائگریشن وہاں سے یہاں کیوں کروائ آئے مین وہاں کی ڈگری کی زیادہ کریڈیبلیٹی ہے”اس نے غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھا”بس مجھے وہاں کی سٹڈیز ٹف لگتی تھی اسی لیے میں یہاں آگئ”یک دم اسکے چہرے پر اداسی چھا گئ”یہی وجہ ہے یا کوئ اور بھی ریزن ہے”وہ اسے اپنی طرف اتنی گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے سٹپٹا گئ”نہیں بس یہی وجہ ہے”اسنے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا لی۔”کچھ تو ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی۔۔۔”عرشمان کا فقرہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حور کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے جلدی سے موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا نمبر دیکھتے ہوئے اس کا چہرہ فق ہونے لگا۔عرشمان بہت غور سے اسکے چہرے کا اتار چڑھاو دیکھنے لگا۔ موبائل اب بھی بج رہا تھا۔ اس سے کال پک کرنا بےحد دشوار لگنے لگا۔ عرشمان نے موبائل اسکے ہاتھ سے لیا۔ حور کو لگا کوئ آہستگی سے اسکے پیروں تلے سے زمین کھنچ رہا ہو۔عرشمان نے کال ریسیو کی مگر آگے سے کوئ نہ بولا۔وہ سیل اس کے بیڈ پر پٹخ پر تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چل دیا اور پیچھے سے اسکے کمرے کا دروازہ زور دار آواز سے بند کیا۔ وہ اس وقت تیش سے انگارہ ہو رہا تھا۔ حور کو اس کے اس رویے سے نہ جانے کیوں خوف سا آیا۔وہ اپنا سر گھٹنوں میں ٹکائے بے آواز آنسو بہانے لگا۔
******
ونڈسر کیزل کی اس قدیم عمارت میں میں اک عجب سا سکون تھا۔ وہ دونوں وہاں کا سبزہ اور مدھم چلتی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔سیاح بہت کم کی یہاں کا وزٹ کرتے وجاں یہاں کی خاموشی تھی جو ہر سوں چھائ رہتی۔”ویسے آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں اتنا سناٹا ہے یہاں مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے اور اب تو سورج بھی غروب ہونے کو ہے اب واپس چلتے ہیں”عائشہ نے متفکر ہوتے ہوئے کہا “جو دکھانے لایا ہوں پہلے اسے تو دیکھ لو پھر چلی جانا واپس”اس نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ عائشہ خاموش ہو گئ اس بندے کا کچھ پتا نہیں یہ نہ ہو میرے احتججاج کرنے پر مجھے یہیں چھوڑ جائے اسے بھلا کونسی میری پرواہ ہے عائشہ نے افسوردگی سے سوچا اور اداس ہونے لگی۔
ریحان اسکے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔”اب اپنی آنکھیں بند کرو یہ پل کروس کرنا جو بہت اونچائ پر ہے جتنا تمہہیں خوف آتا ہے خود تو گرو گی ہی ساتھ مجھے بھی مڑواو گی”اس بار ریحان نے سختی سے کہا اور پہچھے دیکھے بغیر ایک ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ عائشہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں آخر کیوں میں اس کھڑوس کے ساتھ یہاں آگئ اس سے بہتر ہے میں یہیں سے نیچے گر جاوں کم از کم اسکی جان تو چھوٹ جائے گی مجھ سے” وہ خود ترسی کا شکار ہونے لگی آنکھیں بند کیے وہ اسکا ہاتھ تھامے قدم بڑھانے لگی پتا نہیں کہاں لے جا رہے ہیں یہ مجھے ضرور اس محل کے کسی قید خانے میں بند کرنا ہوگا مجھے۔
“اب کھولیں مخترمہ آنکھیں” سامنے جو منظر تھا اسے دیکھتے ہوئے اسے لگا اس کا سر چکرا جائے گا۔ ساحل پر ایک ہٹ نما چھت تھی جو اردگرد پلرز پر کھڑی تھی جسے کر ٹنز اور غبارون سے سجایا گیا تھا منظر اتنا دل کش تھا کہ وہ نگاہ نہں ہٹا پا رہی تھی۔اتنے میں ریحان اسکا ہاتھ تھامے اسے وہاں لے آیا۔وہ گھوم کر چاروں طرف دیکھنے لگی۔اسی پل وہ گھٹنوں پر بیٹتے ہوئے اسکی طرف ایک رنگ بڑھائ .عائشہ پر تو جیسے آج حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنے تھے۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا”So Queen of my Heart my dear lady will you marry me?” ریحان نے اس سے پوچھا”اوگوڈ!ریحان یہ سب کیا ہے”اس کے رکے آنسو پھر اسکے چہرے کو بھگونے لگے “یہ سب صرف تمہارے لیے ہے پاگل لڑکی پروپوز کر رہا ہوں تمہیں شادی کے لیے بتاو بھی کرو گی اس کھڑوس انسان سے شادی”ریحان نے شرارت سے پوچھا “نہیں کروں گی آپ نے مجھے بہت ستایا ہے”عائشہ نے نروٹھے انداز میں کہا۔ “آئے ایم سوری تمہین نظرانداز میں صرف اسی لیے کر رہا تھا کہ تم مجھ سے اس حقیقت کا اظہار کردو جو تمہاری ڈائر ی میں موجود ہے”ریحان نے مسکراتےہوئے اس کا ہاتھ تھاما”مگر آپ کو کیسے۔۔۔۔”اسنے اٹھتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا”میں تو ہمیشہ سے ہی جانتا تھاپھر ایک دن تم کچھ بکس ماہین کے روم مین ہی چھوڑ گئ تھی اسی میں تمہاری دائری بھی تھی غیرارادی طور پر مجھے اسمیں اک تصویر کی جھلک نظر آئ اور اس دن مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس خاموس سی لڑکی کے دل مین کیا ہے”ریحان نے ہاتھ میں پکڑی رنگ اسے پہنا دی۔عائشہ کی آج کی شام اپنی زندگی کی حسین ترین شام لگی تھی
******
وہ تیار ہو کر اسکے کمرے کہ قریب ٹھہری دروازہ کھلا تھا تو وہ اسے سامنے سے ہی ڈریسنگ ٹیبل کے قریب بالوں میں برش کرتا وہ دکھائ دیا۔شیشے میں اسکا عکس تو وہ دیکھ چکا تھا مگر نظرانداز کر گیا۔حور نے محسس تو کیا تھا پر کچھ کہا نہیں وہ چلتا ہوا دروازے کے قریب آیا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرا دی مگر اسی پل اسنے سختی سے دروازہ بند کیا اور واپس صوفے پر بیٹھ کر شو لیسز بند کرنے لگا۔اسکے یوں اسکے منہ پر دروازہ بند کرنے پر اسے بہت دکھ ہوا۔کاجل سے لبریز نگاہیں بھیگنے لگیں۔ اپنا سامان کار میں رکھتے ہوئے وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آبیٹھی
کچھ ہی دیر وہ ہوٹل سے باہر نکل کر کار کا فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے اندر بیٹھا۔ سفر خاموشی سے طے ہوا۔کار ریسٹ ہاوس میں پہنچتے ہی وہ اندر کی طرف بڑھ گئ ۔ اینٹرینس ڈور سے اندر داخل ہوئے ایک لاونج اور ساتھ ہی دو بیڈ رومز تھے زینے چڑھتے ہوئے اوپر دائیں طرف دو بیڈرومز تھے اور طرف ایک ۔ ریسٹ ہاوس کے بیرونی طرف مصنوعی جھیل تھی۔ ریسٹ ہاوس بہت خوبصورتی سے آراستہ اور ویل فرنشڈ تھا۔ وہ چلتی ہوئ لاونج تک آئ اور سر بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں پھر اپنی سائیڈ پوکٹ سے سیگریٹ کا کیس نکالا اور لائیٹر سے چلاتے ہوئے اس لبوں سے لگایا۔ ابھی ایک ہی کش لیا تھا کہ وہ چلتا ہوا اسکے قریب آیا اور قہر آلود نگاہں سے اسے دیکھنے لگا اور گرجدار آواز میں بولا””Stop it I said just stop it” حور نے نگاہین اٹھاتے ہوئے کہا وہ اسکا آج ضبط آزما رہی اسنے چہرے کارخ موڑ لیا تو اسنے آگے بڑھ کر وہ سگریٹ اسے ہاتھوں سے لیتے ہوئے دور اچھالا وہ اسکی اس حرکت پر چلا اٹھی “تم کون ہوتے ہو مجھے کسی چیز سے روکنے والے میں دیکھتی ہو کون روکتا ہے”اس نے دوبارہ جیب سے پیکٹ نکالا بس عرشمان کا ضبط جواب دے چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ ایک اور سگریٹ نکالتی عرشمان نے ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا اپنے رخسار پر ہاتھ رکھے جہاں اسکی انگلیوں کا نقش تھا اسنے شاک کے عالم مین اسے دیکھا اور آنسو بہاتی ہوئ زینے چڑھتے ہوئے اوپر کی طرف بھاگ گئ
سورج کی تپش اب قدرے کم ہو چکی تھی۔وہ دونوں ریسٹ ہاوس دوپہر میں پہنچے تھے اور اب شام ہونے کو آئ تھی مگر اس کے کمرے کا در اب بھی نہ کھلا تھا۔ پہلے تو وہ اپنی اس بے اختیار حرکت پر خود بھی ششد رہ گیا مگر اعصاب پر قابو پاتے ہی اسے پھر تیش آنے لگا۔آخر وہ کیوں اسکی پراہ کر رہا ہے جبکہ اسے تو رتی برار احساس نہیں کے وہ کس دوراہے پر کھڑی ہے۔ شام بیتتی ہوئ اب رات کے سناٹے میں بدل رہی تھی مگر وہ اسے دیکھنے اسکے پیچھے نہیں گیا اور نہ ہی وہ خود نیچے آئ تھی۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا اس کی اس خاموشی سے وہ فکرمند ہونے لگا تھا۔
صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے وہ کسی سوچ میں غرق تھا جب اسے کسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئ۔”بھائ کچھ ہوا ہے کیا آپ یوں اداس کیوں بیٹھے ہیں؟”ماہین نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا “ایوری تھنگ از فائن تم کچھ لیٹ نہیں ہوگئ؟”عرشمان نے پہلو بدلنا چاہا”بس پیکنگ میں کچھ ٹائم لگ گیا مجھے حور کہاں ہے وہ آپکے ساتھ ہی آئ تھی نہ” ماہین نے پوچھا”ہاں وہ اوپر روم میں ہے تم دیکھ آو اسے” وہ سر ہلاتے ہوئے زینے چڑھنے لگی۔ماہین سے اسنے کہہ تو دیا مگر اب یہ سوچ کر پریشان ہونے لگا کہ وہ کیا ریئیکشن دیتی ہے۔ماہین نے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا
۔کمرہ سیاہی میں ڈوبا ہوا تھا۔ماہین نے آگے بڑھ کر لائٹس آن کی اور اک دبی دبی سی چیخ اسکے لبوں سے خارج ہوئ وہ بھاگتی ہوئ کمرے سے باہر آئ اور بدحواسی سے چلائ”بھائ۔۔ڈاکٹر کو کال کریں جلدی حور کی کلائ سے خون رس رہا ہے”بہتے ہوئے آنسووں سے اسنے کہا “پلیز بھائ ڈاکٹر کو جلدی بلائیں اسے کچھ ہو جائے گا۔عرشمان پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا اسکے چہرے کا رنگ فق پرنے لگا او میرے خدا یہ میں نے کیا کر دیا اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔اور اس سے آگے سوچتے ہوئے اسے یوں لگا جیسے وہ سانس نہیں لے پائے گا۔وہ تیزی سے زینے پھلانگتا ہوا اوپر کمرے میں آیا وہ کارپیٹ پر بے سدھ پری اور سرخ مایا اس کی کلائ سے اب بھی بہہ رہا تھا۔”میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں اور تم اسے بیڈ پر لیٹاو اور عائشہ ریحان کو بھی فون کرو کہ وہ جلدی پہنچیں”کہتا ہوا وہ تیزی سے موبائل پر نمبر ملانے لگا۔
“اگر آپ لوگ کچھ دیر اور وقت ضایع کرتے تو یقینن انہیں کھو چکے ہوتے ان کی کنڈیشن کافی کریٹیکل تھی انہیں سخت آرام کی ضرورت ہے آپ لوگ پلیز انہیں کسی بھی قسم کی ٹینشن سے دوور رکھیں اب میں چلتا ہوں”ریحان ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے آیا۔عائشہ نے جونہی خبر سنی وہ اس کے کچھ دیر بعد وہاں موجود تھی۔ اسکے چہرے پر نقاہت طاری اور کلائ پر پٹی بندھی دیکھ کر عائشہ کے آنسو بہنے لگے
ناجانے وہ کب سے ضبط کیےکھڑی تھی کہ ڈاکٹر کے جانے کے فورن بعد کسی زخمی شیرنی کی طرح عرشمان پر برس پڑی”اسی لیے چھوڑ کر گئ اسے میں آپ کے پاس کہ چند گھنٹوں میں ہی آپ اس کا یہ حشر کردیں اتنا بے وقت جانا آپ نے اسے کہ وہ کب سے اس طرح بے سود پڑی ہے اور آپ کو خبر تک نہ ہوئ۔میں ہوں اسکے لیے ابھی مری نہیں ہوں اتنی بے سہارا نہیں ہے وہ جتنی آپ اسے سمجھ بیٹھے ہیں۔مجھے اگر آپ اسکے دو فٹ پاس بھی نظر آئے تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا اب جائیں یہاں سے”وہ قہر برساتی نگاہوں سے اسے وہاں سے جانے کا کہہ رہی تھی اور عرشمان پشیمان سا اک نظر اسکے زرد پرتے چہرے پر ڈال کر وہاں سے چل دیا
رات اب مزید گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔”ماہین تم حور کے ساتھ اس کے کمرے میں ہی سو جاو اور عرشمان کو کسی صورت اس سے ملنے نہیں دینا جب حور ہوش میں آئے تو۔۔۔”وہ اسے تنبیہہ کرتی ہوئ ساتھ والے اپنے روم میں چل دی۔ وہ نیچے لیونگ روم میں بےچینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔جانے اسے ہوش آیا بھی تھا یا نہیں اب وہ کیسی تھی ان سب سوالات کے جواب وہ عائشہ سے لینے کی فلحال ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔آخر کار جب وہ تھکنے لگا تو قریب پڑے صوفے پر ہی لیٹ گیا نیند اسکی نگاہوں سے کوسوں دور تھی۔
اسنے ماہین کو تین کالز کی جو اوپر کمرے میں موجود تھی مگر عائشہ کے منہ کرنے پر اسنے عرشمان کی کال ریسیو نہ کی تو عرشمان نے اسے میسج کیا”ماہین پلیز مجھے اسے دیکھنا ہے کہ وہ کیسی ہے پلیز یار اپنے بھائ کے لیے اتنا تو کر سکتی ہو تم”عرشمان نے اس سے التجا کی”سوری بھائ مگر آپ نے بھی تو سیدھا بورڈر پر حملہ کیا ہے اب بھگتیں رضیہ سلطانہ نے سختی سے فرمان جاری کیا ہے کہ آپ کو اس سے ملنے نہ دیا جائے”ماہین نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا”پلیز ماہین کچھ کرو مجھے اس بےچینی سے نکالو”اس نے دوبارہ رپلائے کیا”ویٹ میں دیکھتی ہوں یہاں سے تو آپ آ نہیں سکتے عائشہ کو فورن پتا چل جائے گا کوئ اور حل نکالنا پڑے گا”ماہین نے میسج سینڈ کیا”میرے پاس پلین ہے پہلے تم دیکھو عائشہ جاگ تو نہیں رہی”وہ میسج پڑھتے ہوئے عائشہ کے روم تک گئ وہ اب سو چکی تھی “وہ سو چکی ہیں بھائ” “اوکے گریٹ اب تم ونڈوز کھولو حور کے روم کی میں باہر سردی میں مر جاوں گا” “اوگوڈ بھائ آپ کہاں ہیں”اسنے جلدی سے کھڑکی کھولی
وہ سیڑھی پر چڑھتا ہوا اوپر تک پہنچا”یہ ۔۔یہ۔۔آپ کو کہاں سے ملی”ماہین نے ششد ہوتے ہوئے اس سے پوچھا “سٹور روم سے اب سائیڈ پر ہو “کہتے ہوئے وہ روم میں داخل ہوا”آپکو نیوی میں نے نہیں بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھااس طرح چوروں جیسی حرکتیں کرنے پر”ماہین نے کہا”اچھا اب جاو بھی مجھے کچھ دیر اسکے پاس رہنا ہے ” اس نے اسے چلتا کیا “اوکے جاہی رہی ہوں اب کیا دھکے دے کر نکالیں گے”وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چل دی۔
وہ اسکے قریب ہی کرسی پر بیٹھ گیا کچھ ہی گھنٹوں میں وہ کتنی کمزور لگنے لگی تھی اسے چہرے کی رنگت پھیکی پرتی جا رہی تھی۔ اسکے بالوں میں نرمی سے اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے وہ بلکل نڈھال سا پر گیا مجھے اتنا اوور ریئیکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ تو اسکی ناراضگی نہیں سہہ سکتی تھی تو پھر اسکا یہ جنونی انداز کیسے سہتی۔”پانی۔۔۔”اچانک ہی اسے ہوش آنے لگا اس نے قریب پڑاگلاس اٹھا کر اسکے لبوں کو لگایا۔گلاس سائیڈ پر رکھنے کہ بعد وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اور وہ اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔”مجھے یہاں سے باہر جانا ہے یہاں بہت گھٹن محسوس ہو رہی ہے مجھے۔ اسنے عرشمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”اوکے باہر چلتے ہیں”وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ زینے اترنے لگے۔ اور باہر کی سرد ہوا میں چلتے ہوئے مصنوعی جھیل کے قریب بیٹھ گئے۔
******