۹۱۔ یاد
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
۹۲۔ گزرا ہوا زمانہ
خدا نے تمام رُوحوں سے پوچھا تھا، ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ تمام روحوں نے جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں۔ اِسے عہدِ اَلَست کہتے ہیں۔ یہی وہ گزرا ہوا زمانہ ہے جو پرندے کو یاد آ رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ پرندے سے مراد آپ کی رُوح ہے۔
۹۳۔ باغ کی بہاریں
خدا جانے انسان اپنے پروردگار سے کب کا بچھڑا ہوا ہے!
باغ کی بہاروں سے مراد کون سے باغ کی بہاریں ہیں؟ وہ سب کون تھے جن کے ساتھ مل کر یہ رُوح خدا کی تسبیح کرتی تھی؟ تلاش کے سفر کی چھ منزلوں سے گزرنے کے بعد اِس کا جواب تلاش کرنا اب مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
۹۴۔ دِل پر چوٹ
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
۹۵۔ رہائی
رہائی کا مطلب زندگی سے رہائی اور موت نہیں ہے بلکہ خدا کو پہچاننا ہے۔
اِسلام میں خود کشی حرام ہے۔ پھر خدا تک واپس پہنچنے کا طریقہ کیا ہے؟ اُس کا طریقہ خدا کی مرضی کو سمجھنا ہے اور اُس مرضی کو سمجھ کر اپنے آپ کو با اختیار بنانا ہے۔ دنیا کو حاصل کیے بغیر وہ قرب بھی میسر نہیں ہو سکتا اس لیے اگر ہم گلاب کی خوشبو ہیں تو ہمیں چاہیے کہ سارا باغ اپنے گریبان میں سمیٹ لیں۔
آپ نے پچھلی نظموں میں دیکھا تھا کہ دنیا میں ہر چیز خدا سے جُڑی ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا بھی خدا کو پہچاننا ہے اور دنیا کو پہچاننا بھی خدا کو پہچاننا ہی ہے بشرطیکہ دنیا کی صرف ظاہری سطح کو نہ دیکھا جائے۔ اسے دل سے محسوس بھی کیا جائے۔
۹۶۔ قید
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اِس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اِس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں
۹۷۔ دوسری قسم کی موت
رُوح جس موت سے ڈر رہی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں خدا کو پہچاننے سے غافل نہ ہو جائے۔ کہیں راستے سے اِس طرح نہ بھٹک جائے کہ جب واپس پہنچے تو اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہو۔
۹۸۔ غم
جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
۹۹۔ غم کی قسمیں
غم کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتی۔ حوصلہ کم کرتی ہے، زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی لگن باقی نہیں رہنے دیتی۔ یہ غم ایمان میں کمزوری کی علامت ہے۔
غم کی دُوسری قسم وہ ہے جس میں یہ پرندہ مبتلا ہے۔ مکھی، گلہری، بکری، بچہ، جگنو، دِیا اور اب یہ پرندہ۔۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اب پرندے کو آگے بڑھ کر کیا بننا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں باغ کی بہاروں کی ہلکی سی جھلک ذہن میں آ کر مٹ جاتی ہے۔ کوئی کامنی سی مورت یاد آتی ہے جس کی آواز یہاں سنائی نہیں دے رہی۔
یہ غم ہے جو دوسرے ہر غم کو ختم کر دیتا ہے۔ پرندے کو خوراک کا غم نہیں ہے جو کسی نہ کسی طرح پنجرے میں پہنچ ہی جاتی ہے۔ اِسے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی تڑپ ہے۔
۱۰۰۔ آہ و زاری
گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دُکھے ہوئے دِلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے
۱۰۱۔ قید کرنے والا
رُوح کس کی قید میں ہے؟ دُنیا میں رہتے ہوئے ہمیں جس طرح سوچنے کی عادت ہو جاتی ہے وہ رُوح کے لیے پنجرہ بن جاتی ہے۔ یہ سات نظمیں در اصل اِسی سے آزادی حاصل کرنے کی سات منزلیں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ کا آخری مقام آسمانوں سے پرے تھا۔
۱۰۲۔ خودی کے راز
آپ کو یاد ہو گا کہ شاعری کا باغ دس حصوں میں بٹا ہوا ہے اور آپ نے اُس حصے کی سیر کی ہے جو بچوں کے لیے ہے۔ اگلی دفعہ آپ آئیں تو باغ کے دوسرے حصوں کی سیر بھی کیجیے گا۔ اِن حصوں کا تعارف آپ سے ابھی کروایا جا رہا ہے۔
پہلا تختہ اسرار و رموز ہے۔ یہ فارسی میں ہے اور اِس کے دو حصے ہیں، اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی۔ پہلا حصہ فرد کی خودی کے بارے میں ہے اور دوسرا حصہ قوم کی خودی کے بارے میں۔ جی ہاں، فرد کی طرح قوم کی خودی بھی ہوتی ہے جس کے ساتھ اپنا تعلق دریافت کر کے افراد دنیا میں کامیابی کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔
۱۰۳۔ مشرق کا پیغام
باغ کا دوسرا تختہ پیامِ مشرق ہے۔ یہ بھی فارسی میں ہے اور اِس میں مختلف رباعیات، نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں، ’’زندگی کی گہرائیوں میں فطرت ایک نیا آدم اور اُس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔‘‘
۱۰۴۔ شاعر کے ذہن کی سرگزشت
تیسرا تختہ بانگِ درا ہے جو اُردو میں ہے۔ اِس کا ایک حصہ بچوں کے لیے ہے اور آپ نے اِسی حصے کی سیر کی ہے۔ پورا تختہ در اصل علامہ اقبال کے ذہن کی سرگزشت ہے۔ ’’شکوہ‘‘، ’’شمع اور شاعر‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘ اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ جیسی مشہور نظمیں اِسی میں شامل ہیں۔
۱۰۵۔ راز کی بات
چوتھا تختہ زبورِ عجم ہے اور یہ فارسی میں ہے۔ یہاں علامہ اقبال پہلی بار اپنے لیے قلندر کا لقب استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو بات اب تک نہیں کہی گئی تھی وہ اُنہوں نے کہ دی ہے۔ در اصل یہ تختہ اُس سیار گاہ کی سیر کے لیے تیاری کا سامان مہیا کرتا ہے جو اِس کے بعد باغ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔
۱۰۶۔ نئی دُنیا
پانچواں تختہ وہی سیار گاہ ہے جو باغ کے بیچوں بیچ واقع ہے اور جس کا مختصر تعارف آپ سے ہو چکا ہے۔ یہ جاوید نامہ ہے اور فارسی میں ہے۔ اِس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ کتاب کسی اور ہی آسمان سے اُتری ہے۔
۱۰۷۔ جبریل کی پرواز
چھٹا تختہ بالِ جبریل ہے جو اُردو میں ہے۔ جس طرح چوتھا تختہ سیار گاہ کی سیر کے لیے تیار کرواتا ہے اُسی طرح یہ چھٹا تختہ واپسی پر سیر میں سیکھی ہوئی باتوں کو دُنیا میں برتنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہِ‘‘ ’’ذوق و شوق‘‘، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ جیسی مشہور نظمیں اِس میں شامل ہیں۔
۱۰۸۔ اعلانِ جنگ
ساتواں تختہ ضربِ کلیم ہے جسے علامہ اقبال عہدِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیتے ہیں۔ یہ اُردو میں ہے اور اِس کے پانچ حصے ہیں جن کے موضوعات ’’اسلام اور مسلمان‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’عورت‘‘، ’’ادبیات، فنونِ لطیفہ‘‘ اور ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ ہیں۔ آخر میں ‘‘محراب گل افغان کے افکار‘‘ بھی شامل ہیں جو در اصل علامہ اقبال ہی کا قلمی نام ہے۔
۱۰۸۔ اے اقوامِ شرق!
آٹھواں تختہ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ہے۔ یہ فارسی میں ہے اور اِس عنوان کا مطلب ہے، ’’اب کیا کرنا چاہیے اے مشرق کی اقوام؟‘‘ یہ فارسی میں ہے اور اِس میں علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ باغ کے بقیہ حصوں میں جو کچھ آپ نے سیکھا ہے اُسے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اِس تختے کا دوسرا حصہ ایک چھوٹا سا افغانستان ہے جو در اصل علامہ اقبال کا سفرنامہ ہے۔ اِس کا عنوان مسافر ہے اور یہ بھی فارسی میں ہے۔
۱۰۹۔ حجاز کا تحفہ
شاعری کے آخری تختے کا عنوان ارمغانِ حجاز ہے یعنی حجاز کا تحفہ (حجاز عرب کے ایک حصے کا نام ہے جہاں مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر ہیں)۔ یہ نصف فارسی میں اور نصف اُردو میں ہے۔ حصۂ اردو کی مشہور نظموں میں ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ اور ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ شامل ہیں، جس کا یہ شعر شاید سبھی کو یاد ہو گا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
۱۱۰۔ سوچ کے دروازے
شاعری کے تختوں کے بعد باغ میں ایک یونیورسٹی ہے۔ یہ انگریزی نثر کی ایک کتاب کی شکل میں ہے جس کا عنوان ہے:
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
اِس میں سات لیکچر ہال ہیں جہاں علامہ اقبال ایک مفکر کی صورت میں آپ کو سکھاتے ہیں کہ باغ میں سیکھی ہوئی باتوں کی روشنی میں کس طرح ایک نئی سوچ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
۱۱۱۔ پاکستان
باغ سے نکلتے ہوئے ایک یادگاری برو شر بھی ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ انگریزی میں ہے اور اِس کا عنوان ہے:
The Presidential Address of Dr. Sir Muhammad Iqbal
یہ وہ صدارتی خطبہ ہے جو علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۰ء میں پڑھا تھا۔ اِسی میں انہوں نے ایک آزاد مسلمان ریاست کا تصوّر بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا تھا جو بعد میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے نام سے وجود میں آئی۔
اِسے پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ آپ نے بچوں کے حصے کی سیر میں جو کچھ دیکھا ہے اور سیکھا ہے اُس کا پاکستان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق سب کے سامنے آتا جائے گا۔
٭٭٭