پیارے قارئین کرام!
ماریشس میں ہونے والی ایک اُردو کانفرنس میں شرکت کے لئے جانے کے باعث،میراگھر پر قیام نہیں رہے گا۔۔۔اس لئے خبر نامہ کی ایک دو ہفتے غیر حاضری رہے گی۔انشاءاﷲ وہاں سے واپسی پر ملاقات ہو گی۔ ۔۔۔۔(حیدر قریشی)
٭٭ پاکستان کے شہر لیہ میں رکن قومی اسمبلی کے گھر کے قریب ایک بے آسرا خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہا ہے۔بے سروسامان خاندان کے بارہ افراد نابینا ہیں ۔
(اخباری خبر)
٭٭ اخباری خبر کے مطابق لیہ سے رکن قومی ا سمبلی نیاز احمد جکھڑ کی رہائش گاہ کے قریب ایک بے سروسامان خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہا ہے۔اس خاندان کے بارہ افراد آنکھوں کی نعمت سے محروم ہیں ۔یہ بہت دکھی کرنے والی خبر ہے۔کاش ہمارے قومی اور بین الاقوامی ادارے اس بد نصیب خاندان کی طبی اور مالی مدد کرکے انہیں کچھ سہارا دے دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ حیران کرنے والی بات ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے سینے میں دھڑکنے اور پسیجنے والا دل بھی تھا۔اور وہ۱۹۸۰ءمیں اپنے پہلے دورۂامریکہ میں ہیوسٹن(ٹیکساس)کی ایک حسینہ جان ہیرنگ(Joanne Herring)پر اس قدر فریفتہ ہو گئے تھے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ سے مشورہ کئے بغیراس خاتون کو پاکستان کی ”گشتی سفیر“بنا دیا تھا۔اور جب بھی اس خاتون کا فون آتا تھا تو جنرل ضیاءالحق کابینہ کا اجلاس چھوڑ کر اس کی کال لینے جاتے تھے۔انہوں نے اس خاتون کواپنے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ”ہلال قائد اعظم“ بھی مرحمت فرمایا تھا۔(منو بھائی کا کالم گریبان۔”جنگ “۲۲جولائی ۲۰۰۳ء)
٭٭ منو بھائی نے یہ سارا احوال امریکہ سے افغان جہاد کے بارے میں شائع ہونے والی ایک کتاب سے لیا ہے۔اس میں امریکی رکن کانگریس چارلی ولن نے اس قسم کی بہت سی دلچسپ باتیں کی ہیں ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ خود بھی جون ہےئرنگ کے دوست رہے ہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس خاتون کے ساتھ تعلقات میں جنسی تعلق قائم نہ ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔انہوں نے اپنے تعلق کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جان ہےئرنگ کے ساتھ جنرل ضیاع کے تعلقات کے بعد ہی پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خفیہ فوجی تعلقات کا آغاز ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ کراچی سے نیویارک جانے والا پی آئی اے کا طیارہ اسلام آباد سے ٹیک آف کرتے وقت حادثہ کا شکار۔سولہ پہیوں کے ٹائر پھٹ گئے۔جنرل مشرف جو افریقہ کے دورے سے واپس آرہے تھے ان کے طیارے کو اسلام آباد کی بجائے لاہور لے جانا پڑا۔
(اخباری رپورٹس)
٭٭ اس طیارہ میں ۲۷۶افراد موجود تھے جو سب کے سب خدا کے فضل سے محفوظ اور سلامت رہے۔ تاہم اس خبر کا یہ حصہ دلچسپ ہے کہ حادثہ کے فوراً بعد جب اسلام آباد ائیر پورٹ کو ہر قسم کی لینڈنگ کے لئے ہنگامی طور پر بند کر دیا گیا تب ہی جنرل پرویز مشرف کا طیارہ افریقہ سے اسلام آباد پہنچ رہا تھا۔اسے بھی اسلام آباد ائیر پورٹ نہیں اترنے دیا گیا اور لاہور لے جایا گیا۔جب جنرل مشرف کو جہاز میں بیٹھے ہوئے اطلاع ملی ہو گی کہ اسلام آباد اترنے کی اجازت نہیں مل رہی تو ایک بار تو انہیں نواز شریف کی وہ حرکت ضرور آئی ہو گی جب ان کا طیارہ کراچی اترنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔پھر یہ وسوسہ بھی انہیں ضرور آیا ہو گا کہ کہیں دوسرے جنرلز نے ان کا تختہ تو نہیں الٹ دیا۔ انسان کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ایسے کمزور لمحوں میں ایسے خدشات کا ذہن میں آنا انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ویسے جب بھی پرویز مشرف کا طیارہ اصل ائیرپورٹ پر اترنے سے روکا گیا ہے ،وقتی تکلیف کے باوجود ان کی طاقت اور قوت میں اضافہ ہوا ہے۔اس واقعہ کو شگون کے رنگ میں لیا جائے تو پھر ابھی پرویز مشرف مضبوط ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنوبی فرانس کے شہر نیس میں پانچ منٹ کے وقفے سے دو دھماکے ہوئے(اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق ان دھماکوں سے سولہ افراد زخمی ہوئے،دو سرکاری عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا اور دھماکوں کی آوازیں پانچ کلو میٹر دور تک سنی گئیں ۔۔۔۔میں نے اپنے ۲۳جون کے خبر نامہ میں برطانوی اینٹیلی جینس کی ایک رپورٹ کی خبر دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں بعض مغربی ممالک کے شہروں کو دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔تب ہی میں نے یہ لکھا تھا:
”لکھ لیجئے اگر اس کھیل کو سچ دکھانے کے لئے کوئی حملہ خود امریکی اور برطانوی ایجنٹوں کے ذریعے کرایا گیا تو اس کے لئے ان مغربی ممالک کی سر زمین کو نشانہ بنایا جائے گا جو عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔اس طرح بہانے سے ان مغربی ممالک کو سزا بھی دے دی جائے گی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اپنی سامراجی خواہشات کی تکمیل بھی کر لی جائے گی۔امکان یہی ہے کہ ایسے کسی کھیل کا الزام ایران کے سر منڈھ دیا جائے گا۔امریکی اور برطانوی حکام کے موجودہ ٹولہ کی بدبودار سازشیں تو اب عام آدمی کو بھی صاف سمجھ میں آنے لگی ہیں ۔“
ابھی آگے آگے دیکھئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ واجپائی جی سے مولانا فضل الرحمن اور ان کے وفد کی ملاقات کے دوران مولانا حافظ حسین احمد کی گل افشانیٔگفتار۔ (اخباری خبر)
٭٭ میں مولویوں میں سے صرف حافظ حسین احمد کو اس لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ مزاجاً زاہدِ خشک نہیں ہیں ۔ اس سے قبل وہ متعدد بار گل افشانیٔگفتار کا مظاہرہ کرچکے ہیں ۔ایل ایف او کے مسئلہ پر انہوں نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی ”ایلفی“ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر از خود ایل ایف۔ او۔ کو آئین کا حصہ نہیں بنا سکتی۔۔۔پھر کشملہ طارق کے یہ کہنے پر کہ آپ ”ایل ایف او نا منظور“کے بلے سے ”نا“ کا لفظ ہٹا دیں ۔۔ ان کا برجستہ جواب کہ بی بی آپ ”ہاں “کریں ہم ابھی ”نا “کو ہٹا دیتے ہیں ۔۔۔اب انہوں نے واجپائی جی سے ملاقات میں پھر ایک خوبصورت بات کی ہے۔جب یہ وفد وزیر اعظم ہاؤس پہنچا تو شدید بارش ہو رہی تھی۔ملاقات کے وقت واجپائی جی نے وفد سے پوچھا کہ بارش کی وجہ سے آنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟۔اس پر مولانا حافظ حسین احمد نے برجستہ کہا یہ کاروان امن مشن کے لئے ہے ۔ کوئی طوفان،بارش یا آندھی ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔یہ بات سن کر واجپائی جی بے اختیار مسکرا دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اقوام متحدہ کا عراق میں کوئی فوجی کردار نہیں ہے۔غیر ملکی فوجیں امریکی کمان کے تحت کام کریں ۔ (پال بریمر کا امریکہ میں انٹرویو)
٭٭ یہی گھمنڈ تو امریکی تابوتوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔امریکہ کو چاہئے کہ عراق میں اقوام متحدہ کو ہر گز ہرگز کوئی فوجی کردار نہیں دے،اس کے نتیجہ میں فرانس،جرمنی، روس، انڈیا اور دوسرے ممالک اپنی افواج کو عراق کے لئے نہیں بھیجیں گے اور امریکہ واپس جانے والے امریکی فوجیوں کے تابوتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ خدا کرے بُش انتظامیہ اپنی اس گھمنڈی ضد پر اڑی رہے کینکہ بُش جونیئر صرف اسی بنیاد پر اگلا الیکشن بری طرح ہارنے والے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بابری مسجد کے انہدام کی سازش کے حوالے سے سی بی آئی کی طرف سے عدالت میں ایک دن پہلے ایل کے ایڈوانی،مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی وغیرہ کے بارے میں ٹھوس ثبوت موجود ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد اگلے ہی روز ثبوتوں سے انکار کردینے پر بھارتی لوک سبھا میں شدید ہنگامہ (اخباری خبر)
٭٭ بھارتی اپوزیشن نے واضح طور پر الزام عائد کیا ہے کہ سی بی آئی جیسے حساس ادارے کو سر عام اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔اور اس کا انتہائی غلط استعمال کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ تعلیم کے شعبہ میں سیاسی مداخلت ہر گز برداشت نہیں کی جائیگی(وزیر تعلیم زبیدہ جلال)
٭٭ پاکستانی وزیر تعلیم زبیدہ جلال بڑے عرصہ کے بعد بولی ہیں لیکن پورے جلال کے ساتھ بولی ہیں ۔اصولاً ان کی بات درست ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔لیکن جنرل پرویز مشرف نے جو الیکشن کرائے ہیں اس میں بی اے پاس ہونے کی شرط رکھنا سیاسی شعبے میں صریحاً تعلیمی مداخلت تھی ۔اس لئے اگر سیاسی شعبے میں تعلیمی مداخلت ہو گی تو تعلیمی شعبے میں بھی سیاسی مداخلت از خود ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مولانا فضل الرحمن دورہ بھارت میں وشوا ہندو پریشد کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران گائے کے ذبیحہ پر پابندی سے متفق ہونے کے ساتھ اس بارہ میں فتویٰ دینے پر بھی آمادہ۔ (اخباری خبر)
٭٭ ممکن ہے بعض لوگ اس خبر کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کریں ۔لیکن اگر واقعتا (میں پھر دہرارہا ہوں۔۔واقعتا)ہندو مسلم فسادات کا مستقل حل نکالا جاتا ہے اور زہریلے پروپیگنڈے کو بند کرکے باہمی اعتماد کو بحال کیا جاتا ہے تو اس خطے کی ایک بڑی آبادی کے جذبات کے احترام میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کو برادرانہ طور پر مانا جا سکتا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کوئی نئی پیش کش نہیں کی۔لگ بھگ ایک سو سال پہلے بھی بعض بہت ہی اہم مسلم رہنماؤں نے ہندوؤں کو صلح کا پیغام دیا تھا اور اس میں یہ پیش کش کی گئی تھی۔لیکن گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں نے اس پیش کش کو امن کی خواہش سمجھنے کی بجائے مسلم اقلیت کی کمزوری سمجھا۔اس کا ایک نتیجہ قیام پاکستان کی صورت میں نکلا اور ابھی مزید کئی اس سے ملتے جلتے نتائج کے امکان کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بہر حال دونوں طرف نیک نیتی موجود ہو تو یہ مسئلہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہتا۔ مسلمانوں کی جانب سے نرمی کا پہلو موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ۹۔۱۰اپریل ۲۰۰۱ءکو پشاور میں ہونے والی ”دیو بند کانفرنس “میں جموں کشمیر کے مولانا محمد یوسف نے خطاب کرنا تھا لیکن ان کے خطاب سے پہلے مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اُنکو یہ بتایا گیا کہ آپ نے اپنی تقریر میں کشمیر کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنی۔ اس پر مولانا محمد یوسف نہ صرف دلبرداشتہ ہوئے بلکہ کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔
(نوائے وقت انٹرنیٹ ایڈیشن ۲۴جولائی ۲۰۰۳ءمیں محمد یعقوب شاہق کے مضمون میں انکشاف)
٭٭ اس مضمون میں محمد یعقوب شاہق نے در اصل یہ بتایا ہے کہ اب مولانا فضل الرحمن نے دہلی میں جا کر کشمیر کے بارے میں جو باتیں کی ہیں وہ در اصل ان کی پرانی سیاسی ایمانیات کا حصہ ہے۔تاہم مجھے یہاں بے نظیر بھٹو کے وہ سارے مخالفین یاد آرہے ہیں جو ان پر ایک عرصہ تک صرف اس لئے گرجتے برستے رہے کہ انہوں نے راجیو گاندھی کی پاکستان آمد کے موقعہ پر کشمیر ہاؤس کا بورڈ کیوں اتروادیا تھا؟
اب اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر کے خلاف زہر اگلنے والے مذہبی لوگ تھے یا فوجی اور سیاسی ۔ وہ سب حقیقتاً اس مسئلہ پر خود اندر سے” مولانا فضل الرحمن“ ہی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بھارتی وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ جاری۔
(اخباری خبر)
٭٭ جارج فرنانڈیس کو اصل شہرت تہلکہ اسکینڈل سے ملی تھی۔۔۔بعد میں تابوتوں کے اسکینڈل میں بھی ان پر خاصا الزام آیا۔۔۔تاہم تہلکہ اسکینڈل کے حوالے سے ہی اپوزیشن نے لوک سبھا میں ان کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔نہ صرف یہ کہ ان سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ان کے بولنے پر لوک سبھا سے واک آؤٹ کرلیا جاتا ہے۔چنانچہ حالیہ لوک سبھا اجلاس میں بھی جارج فرنانڈیس کے بولنے پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کردیا۔یاد رہے کہ تہلکہ اسکینڈل میں پہلے جارج فرنانڈیس کو وزارت سے الگ کر دیا گیا تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد انہیں پھر وزیر دفاع بنا دیا گیا۔تب سے اپوزیشن یہ احتجاج کر رہی ہے۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب تک فرنانڈیس اس اسکینڈل سے عدالتی طور پر بری نہیں ہوتے تب تک ان کا دوبارہ وزیر بنایا جانا انتہائی غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بے نظیر بھٹو کے تینوں بچوں کو اچانک دبئی واپس بھیج دیا گیا۔ (اخباری خبر)
٭٭بے نظیر کے تینوں بچے بختاور،بلاول اور آصفہ اپنے گرفتار والد آصف زرداری سے ملنے کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے۔اس سلسلے میں ضابطے کی ساری کاروائی مکمل کی گئی تھی۔ اس کے باوجود ان بچوں کو اچانک پولیس کے گھیرے میں لے کر دبئی بھجوانا انتہائی گھٹیا درجے کی سیاست ہے اور اس سے بھی گھٹیا درجے کا فوجی ایکشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ صدام حسین کے دونوں بیٹے اور پوتا امریکی حملہ میں ہلاک ہو گئے۔ (اخباری خبر)
٭٭اس خبر کے کئی پہلو ہیں ۔۔۔کئی زاویوں سے اس خبر کا جائزہ لیا جاتا رہے گا لیکن جو پہلو سب سے واضح اور روشن ہے اور جس میں سب کے لئے ایک سبق ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی حکمران اپنی ہی قوم کے لئے حد سے زیادہ ظالم اور سفاک ہوجاتے ہیں تو انجام کار خدا کا عذاب کسی نہ کسی رنگ میں ضرور ظاہر ہوتا ہے۔امریکہ اور اس کے موجودہ حکمران جو اس وقت مسلمانوں کے بعض اہم طبقوں کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں لگتا ہے کہ یہ عذاب خدا کی طرف سے ہی آیا ہے۔بعد میں امریکی حکمران بھی اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں جہانگیر کی اہلیہ نے اپنے تحفظ کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق میاں جہانگیر کی اہلیہ قدسیہ بانونے عاصمہ جہانگیر کے ذریعے درخواست دی ہے کہ ان کے شوہر ان کی زرعی اراضی اور کوٹھی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔قدسیہ نے تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا چاہا تو اسے بچیوں سمیت آٹھ ماہ تک گھر میں قید میں رکھا گیا اور باہر پولیس گارڈ بٹھا دی گئی۔چیف جسٹس نے میاں جہانگیر کی اہلیہ کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔اُدھر میاں جہانگیر نے ان سارے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ویسے تو خدا بہتر جانتا ہے کہ کہاں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے لیکن ایک بات تو ہے کہ ایک باعزت گھر میں اس طرح پھوٹ کھل کر سامنے آئے تو اس میں کوئی المیہ تو ضرور ہوتا ہے۔خدا کرے یہ تکلیف دہ خبر پھر سے اس گھر کے آباد ہونے میں بدل جائے۔دلی طور پر دونوں میاں بیوی میں صلح ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ کسی زمانے کی معروف فلمی ہیروئن اور اب تحریک مساوات کی چیئرپرسن مسرت شاہین نے مولانا فضل الرحمن کے دورۂہند کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگرکرنے کا موجب قراردیا ہے۔ (اخباری خبر)
٭٭مسرت شاہین مولانا فضل الرحمن کے مقابلہ میں انتخاب لڑنے کھڑی ہوئی تھیں اور مولاناکے لئے یہ تصور ہی کافی تکلیف دہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک اداکارہ سے مقابلہ کریں گے۔مسرت شاہین کے مذکورہ بیان کو مولانا فضل الرحمن کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار سمجھنا چاہئے۔ ایسے موسم میں جب مولانا کو سب سے زیادہ تنقید اپنے مذہبی حلقوں کی طرف سے سہنا پڑ رہی ہے ، مسرّت شاہین کے بیان سے یقینا ان کو خوشی ہو گی۔مسرت شاہین نے خود بھی بس کے ذریعے ہندوستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ آر۔ ایس۔ ایس اور بی جے پی کے قائدین ۹اگست سے پاکستان کا خیر سگالی دورہ کریں گے۔
٭٭ مولانا فضل الرحمن کے دورہ کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین کا دورہ حالات کو نارمل کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا پہلے پہل خبر یہ آئی تھی کہ مولانا اسعد مدنی علماءکا ایک وفد لے کر انڈیا سے پاکستان آرہے ہیں ۔تب میں نے اپنے ۱۲مئی ۲۰۰۳ءکے خبرنامہ میں لکھا تھا:
”ابھی تک ثقافتی ڈپلومیسی سے لے کر بس ڈپلومیسی تک کے مظاہردیکھنے میں آئے تھے۔اب یہ علماءڈپلومیسی پہلی بارسننے میں آرہی ہے ویسے جمعیت العلماءاسلام ہندشروع سے کانگریس کی ہمنوا رہی ہے اور بھارتی حکومتوں کے ساتھ اس کے مراسم عموماًاچھے رہے ہیں ، اِدھر ہمارے علماءکی ایک بڑی تعداد بھی ماضی میں جمعیت العلماءہند کے سیاسی موقف کی ہمنوا رہی ہے۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ جب سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک آن ملیں گے تو بہتری کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ویسے بہتر تھا کہ پاکستان سے علماءکے وفد جاکر انڈین پنڈتوں اور پروہتوں سے ملتے اور انڈیا سے پنڈتوں اور پروہتوں کے وفود پاکستان آکر علماءسے ملتے۔اس طرح دونوں طبقوں میں رابطے سے یا تو فساد کی جڑ ختم ہوتی یا فساد پوری طرح اٹھ کھڑا ہوتا۔ “۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ میری تجویز کو پڑھے بغیر اس پر عمل ہو رہا ہے۔محض علماءعلماءکھیلنے کی بجائے دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو ایک دوسرے سے ملایا جا رہا ہے۔گویا اب درست سمت میں قدم بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کی اے۔ آر۔ ڈی کے سربراہ نوابزادہ نصراﷲ خان سے ملاقات۔
٭٭ اس اخباری خبر کے مطابق برطانوی ہائی کمشنر اپوزیشن جماعتوں کے موقف کو جاننے اور سمجھنے کے لئے خصوصی طور پران کی رہائش گاہ پر گئے۔وہاں اس وقت سارے سیاستدان حیران رہ گئے جب برطانوی ہائی کمشنر نے انگریزی کی بجائے ان کے ساتھ اردو میں گفتگو شروع کی۔اسی حیرانی میں نوابزادہ نصراﷲ خان نے اپنی روایتی شگفتگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہاکہ ”ساڈی تے ساری انگریزی ضائع ہو گئی“یعنی ہم نے ان کے ساتھ انگریزی میں بات کرنے کے لئے جو تیاری کر رکھی تھی وہ ساری بیکار گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بھارت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنرل سیکریٹری کو بھارت کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔سیکریٹری جنرل کی آمد کا مقصد گجرات کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں مزید حقائق تک پہنچنا تھا۔ (اخباری خبر)
٭٭ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل کو ویزہ نہ دیا جانا،بھارت کے سیکولر اور جمہوری کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔بھارتی صوبہ گجرات میں عمومی طور وحشت و بربریت کا کھیل سرکاری سرپرستی میں کھیلا گیا تھا۔اسی لئے حکومت گودھرا کے اپنے رچائے ہوئے ڈرامے سے لے کر گجرات کے وحشیانہ حملوں تک اپنے کارکنوں اور کارسیوکوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس قسم کے حیلے کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکی کانگریس کی رپورٹ میں سعودی عرب پر گیارہ ستمبر کے حادثہ میں ملوث ہونے کا الزام۔۔بُش انتظامیہ نے رپورٹ کے ۲۵صفحات کی اشاعت روک دی۔امریکہ میں سعودی سفیر کی جانب سے رپورٹ پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے اسے جھوٹ اور عداوت پر مبنی قرار دیا گیا ۔ (اخباری خبر)
٭٭ میں اپنے کالم”منظر اور پس منظر“کے بعض آرٹیکلز میں سعودی عرب کے بارے میں امریکی عزائم کا کافی حد تک ذکر کرچکا ہوں۔یہ رپورٹ بھی اسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔اگر یورپ اور دیگر ممالک گیارہ ستمبر کے واقعہ کی کھلی تحقیقات پر زور دیں تو اصل سازشی اور اصل مجرم طبقات اپنے تمام تر مکروہ چہروں او ر عزائم کے ساتھ سامنے آجائیں گے۔وگرنہ وہی اصل سازشی عناصر افغانستان کے طالبان۔۔القاعدہ اور عراق کے بعد دوسرے اسلامی ممالک کو بھی اسی طرح زد پر لیتے چلے جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ کی پانچ ریاستوں میں امریکی پولیس کے سینکڑوں بیج،یونیفارم،شناختی کارڈز اور دیگر سامان چوری ہو گیا۔حکومت کی طرف سے یہ سامان القاعدہ کے ہاتھ لگنے کے خدشہ کا اظہار۔ (امریکی محکمہ خارجہ کے بلیٹن میں خصوصی اطلاع)
٭٭ حیرت ہے امریکہ جیسے ملک کی ایک نہیں ،دو نہیں ،ایک ساتھ پانچ ریاستوں میں ایک جیسا کام ہو گیا اور کوئی چور پکڑا نہیں جا سکا۔اس ڈرامے کا ایک ہی مطلب ہے کہ اب آنے والے دنوں میں امریکہ میں یا امریکہ سے باہر امریکی پولیس بعض وارداتیں کرنے جا رہی ہے اور ان کا الزام پیشگی طور پر القاعدہ پر ڈال دیا گیا ہے۔تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
٭٭