سلیم آغا قزلباش(سرگودھا)
معاشی و معاشرتی ناہمواریاں کس طرح فرد کو کھوکھلا کر دیتی ہیں اور نفسیاتی دباؤ فرد کے اندر جذباتی اور جنسی گھٹن کے عفریت کو کیسے بیدار کر تا ہے؟ان تمام گوشوں اور زاویوں کو رشید امجد نے اپنے ابتدائی دور کے افسانوں میں ایک حسّاس افسانہ نگار کی حیثیت سے محسوس کیا اور انھیں افسانوں کے سانچے میں ڈھالا۔رشید امجد کے فنِ افسانہ نگاری کی پہچان یہ ہے کہ انھوں نے کسی ادبی فیشن یاچلن کا تابع مہمل ہو کر افسانہ لکھنے کی کوشش نہیں کی۔فی الاصل انھوں نے اپنی افسانہ نگاری کی اطراف کو کھلا رکھا ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ فرد کی خارجی اور باطنی دنیاؤں کی سیاحت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ورنہ اکثر افسانہ نویسوں کا فن افسانہ جلد یا بدیر کسی نہ کسی’’ لفافے ‘‘کی صورت اختیا ر کر جاتا ہے۔جس کی صرف ایک ’’طرف‘‘ ہی کھلی ہوتی ہے۔اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے(اور اکثر جلد ہی آجاتا ہے)جب لفافے پر مرقوم عنوان کو پڑھتے ہی خط یعنی ’’افسانے‘‘کا مضمون سمجھ میں آ جاتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ کہ جب افسانہ بنی بنائی کھائیوں میں سفر کرنے لگے تو اس عہد کا افسانہ ڈاک کے لفافے کی مانند ایک جیسی وضع قطع اختیار کر لیتا ہے۔جس سے جمود کی صورتِ حال نمودار ہونے لگتی ہے۔اور صنفِ افسانہ کا فطری بہاؤ یا ارتقاء تھم جاتا ہے۔لہٰذا ایسے میں خونِ تازہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔تاکہ خون کی کمی(جو دراصل سوچ کی تازگی کے فقدان کا موجب ہوتی ہے)پوری کی جاسکے۔رشید امجد ان معدودے چند افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہیں ،جنھوں نے اردو افسانے میں سوچ کے عُنصر کو معدوم نہیں ہونے دیا۔نیز ان کا افسانہ فرد کے روحانی اور کشفی دیار میں داخل ہونے کی کامیاب کوشش بھی کرتا ہے۔رشید امجد نے گزشتہ دس بارہ برس میں جو افسانے لکھے ہیں، ان کے مطالعے سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے یہاں افقی پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ عمودی گہرائی کا پہلو مزید تواناہوا ہے۔مرشد اور شیخ کے کرداروں نے مردِ دانا کی صورت میں افسانے کے کرداروں کو بحر آسا کیفیات سے دو چار کیا ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے جز و کل ‘ حیات و ممات‘خیر و شراورBeing & Becomingجیسے سوالات اور زاویوں کو ابھار کر افسانے کو عمودی گہرائی بخشی ہے۔
۱۹۶۰ء کے عشرے میں علامتی و تجریدی افسانے نے مجموعی حوالے سے اردو افسانے کو جن توانائیوں اور امکانات سے متعارف کرایا تھا وہ بعد ازاں ماند پڑتے چلے گئے۔وہ اس وجہ سے کہ نا آموز اور نا تجربہ کار افسانہ نگاروں نے اس طرز کے افسانے کو سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک شارٹ کٹ راستہ سمجھ کر یا پھر روایت سے بغاوت اور جدیدیت کے نام پر اس کی اندھا دھند تقلید شروع کر دی تھی۔اس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔یعنی ایک جیسے افسانے دھڑا دھڑ سامنے آنے لگے۔اردو افسانے پر یہ بہت بھاری وقت تھا۔افسانے کا قاری اس سے بدظن ہوتا جا رہا تھا۔سنجیدہ ادب کے بجائے طرح طرح کے ڈائجسٹوں کی بھر مار ہونے لگی تھی۔اردو افسانے کے قارئین کا ایک بڑا طبقہ خصوصاَ نوجوان طبقہ ان ڈائجسٹوں کے چنگل میں پھنس کر ادبی ذوق سے تہی ہوتا جا رہا تھا۔اس بحرانی دور میں’’ صحافتی ادب‘ ‘ نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے اورقارئین ادب کو ایک ’’نئے ذائقے‘‘سے روشناس کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔جس کے اچھے اور برے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں۔بہر کیف رشید امجد اور بعض دوسرے منجھے ہوئے جدیدافسانہ نگار نا موافق ادبی صورتحال ،عدم قبولیت اور مخالفانہ ردعمل کے باوجود پامردی سے افسانے کی اس نئی ڈگر پر کاربند رہے اور یوں علامتی اور تجریدی افسانے کا ارتقائی سفر جاری رہا۔نتیجتہَ اردو افسانہ اسلوب بیان ، زاویہ نگاہ،پیش کش اور بالخصوص سوچ کے عنصر کے حوالے سے تازہ دم ہو گیا۔دوسرے یہ کہ جدید افسانہ فقط NARAATIONکے بل بوتے پر اپنا دائرہ مکمل نہیں کرتابلکہ ’’سوچ کی غذا‘‘بھی مہیا کرتا ہے۔اردو افسانے میں یہ ایک ایسا اضافہ ہے جسے بلا جھجک علامتی و تجریدی افسانے کی دین قرار دیا جا سکتا ہے۔رشید امجد کے افسانے نے اسی ’’اضافے‘‘کو مستحکم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
جدید اردو افسانے کا ایک قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے بیان میں ایسے متعدد شگاف چھوڑ دیتا ہے جسے قاری اپنے تخیل یا سوچ کے ذریعے پر کرتا ہے۔اور یوں افسانہ کی معنی آفرینی یا علامتی جہات میں مزید ایک پرت کااضافہ ہو جاتا ہے۔رشید امجد کا افسانہ اس زاوئیے سے بڑا زرخیز ہے۔بعض ناقدین علامتی و تجریدی افسانے کو صرف تکنیک کا افسانہ گردانتے رہے ہیں،جس کا کام روایت شکنی تک محدو د ہے۔در آں حالیکہ روایت سے بغاوت،روایت کا شعور حاصل کئے بغیر کارِ عبث ہے۔اس حوالے سے رشید امجد کا افسانہ روایت سے با اندازِ دگر پوری طرح مربوط نظر آتا ہے۔اپنے متعدد افسانوں میں فرد کی سائیکی میں جھانکتے ہوئے انھوں نے اجتماعی سائیکی کو بھی چھوا ہے۔اور یوں اس میں مدفون ٹیکسلا،ہڑپّا اور موہنجو ڈارو کے آثار ، روایت سے اٹوٹ ربط و انسلاک کی صورت میں اجاگر ہوئے ہیں۔دوسری طرف رشید امجد کے افسانوں میں دھند یا دھندلکا کا استعارہ بھی ایک خاص معنویت کا حامل ہے۔دھند میں لپٹا ہوا ماحول نہ صرف پر اسرار دکھائی دیتا ہے بلکہ ہر چیز اپنے اصل چہرے یا وجود کے برعکس اس کے ہیولے یا نیگٹیو کو ظاہر کرنے لگتی ہے۔یہ دھند بعض اوقات غبار یا خواب ناک فضا کے روپ میں ایک ایسا مہین پردہ یا نقاب ہے۔جو سچ اور جھوٹ ،موجود اور نا موجود، مرئی اور غیر مرئی کے درمیان حائل ہے۔حقیقت کو جاننے کے لئے دھند کے جنگل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔اوراس سفر میں بصارت سے زیادہ بصیرت یا اندر کی آنکھ راہنمائی کرتی ہے۔علاوہ ازیں یہ دھند ایک مقام پر پہنچ کر Mystical Experienceکا روپ بھی دھار لیتی ہے۔
زیر نظر مجموعہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘کے افسانے باطن کے کینوس پر پھیلے مختلف النوع رنگوں کو اجاگر کرنے کی مساعی ہے۔یہ ست رنگا پرندہ دھنک کا اشارہ بھی ہے۔جس میں یہ ساتوں رنگ کچھ یوں باہم آمیز ہو گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے متمیز کرنا ممکن نہیں رہا۔با الفاظ دگر قوسِ قزح ایک ایسی نردبان کا روپ اختیار کر گئی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان رشتہ استوار کرتی ہے۔بلکہ ایک دوسرے زاویے سے موجود کو نا موجود سے جوڑتی ہے۔اور یوں زمین بوجھ کو تیاگ کر ایک روحانی منزل کی جانب پیش قدمی کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔اس سے قطع نظر ’’تعاقب‘‘ کی معنویت داستانی ادب سے لے کر عہدِ جدید تک نشان زد کی جا سکتی ہے۔
’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘کے افسانے پڑھتے ہوئے ہمیں رشید امجد کے ہاں تہہ دار شعور اور انکشافِ ذات کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ نظر آتا ہے۔جو ایک طرح سے the other selfکی تلاش سے منسلک ہے۔تاہم ان کے افسانوں میں Know thyselfکا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے۔خود کی تلاش ،شناخت یا پہچان کا عمل اس صوفیانہ مسلک سے ربط قائم کرتا ہے‘ جس کی رو سے جس نے خود کو جانا اس نے گویا اپنے رب کو پہچانا۔
رشید امجد کے افسانوں کے متعدّد کردار کسی خاص وقت یا زمانے کے جالے میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح نہیں ہیں۔بلکہ ابعادِ ثلاثہ میں بیک وقت محوِ سفر رہتے ہیں۔زمانِ مسلسل Durationان کے افسانے کا ایک خصوصی امتیاز رہا ہے۔بعینہٖ ان کے افسانوں میں قبر کا استعارہ موت کا اعلامیہ ہونے کے ساتھ ساتھ جون بدلنے یا قلب ماہیت کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔علاوہ ازیں یہ tombکی علامت بھی ہے، مراد یہ کہ قبر دھرتی کے بطن یا رحمِ مادر کے مماثل ہے اور یہاں پہنچ کر فرد کی زندگی کا ’’دائرہ ‘‘مکمل ہو جاتا ہے۔گویا خاکی وجود،خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے یا پھر مجتمع عناصر دوبارہ قدرتی عناصر میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
رشید امجد کے فن افسانہ نویسی کے بارے میں اس بات کا ذکر بار بار ہوا ہے کہ ان کے افسانوں کا مرکزہ ’ IDEA‘پر مبنی ہے،اور پوری کہانی ایک خیال کے گرد گھومتی ہے۔جس کی بدولت ٹھوس یا واقعاتی پہلوؤں کے بجائے سیال کیفیات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا روایتی کہانی کا پلاٹ ایک خاکہ یا IDEA نہیں ہوتا !دراصل اس سلسلے میں بنیادی فرق طریق کار کا ہے۔روایتی افسانہ چونکہ ٹھوس خارجی مظاہر وحوادث پر زیادہ توجہ صرف کرتا ہے،لہٰذا اس میں ارتکاز ،واقعات کے منطقی ربط ضبط پر ہوتا ہے۔مگر علامتی و تجریدی افسانہ ’’Non Figurative‘‘ آرٹ کا نمائندہ ہے،چنانچہ وہ تصویر کشی یا پیکر تراشی کے بجائے رنگوں کے سیال پیٹرن سے ایسی پرچھائیاں ابھارتا ہے، جن میں معنی آفرینی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
رشید امجد نے دنیا یا سماج میں پھیلے دکھ ،اذیت یا خواہش کے چرکوں کا مداوا ڈھونڈنے کے لئے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔اور اس سفر میں جب وہ ذات کے بن میں داخل ہوئے تو وہاں انھیں بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ مارا کی بیٹیوں کی بھڑکائی ہوئی خواہش کی آگ کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔تاہم اس جوکھم میں سے گزرنے کے بعد آگہی یا پہچان کا جو کیمیا ان کے ہاتھ لگا وہ فقط تیاگ یا خواہش کی موت کا پروانہ نہیں تھا، بلکہ خواہش کی کشتی کے بادبان کھول کر زندگی کے بپھرے ہوئے دریا میں سفر کرنے کا درس دیتا تھا۔(مراد یہ کہ خواہش موجود بھی رہے اور فرد اس میں سر تا پا غرق ہونے سے محفوظ بھی رہ سکے۔)رشید امجد کے کم و بیش چالیس سال پر محیط ادبی سفر کو دیکھتے ہوئے یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ ان کا افسانہ ٹھہراؤ یا جمود کا شکار نہیں ہوا،بلکہ تہہ دار خصوصیات کے باعث ہمیشہ مائل بہ ارتقاء رہا ہے۔’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘کے افسانے ان کے فنِ افسانہ نگاری کی اسی خاصیت کا واضح ثبوت ہیں۔