منان اور پارس ہی نہیں وہ چاروں بھی بےساختہ چیخ پڑی تھیں اس افتاد پر ۔۔۔۔۔ فوری طور پر سنبھل جانے کے باوجود بھی پارس کے شانے پر ایک گملہ آ ہی گرا تھا ۔۔۔۔ جبکہ منان پہلی فرصت میں ہی کافی دور جا کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
چار سے پانچ گملے اوپر رکھے تھے جو ان پر پھینکے جا چکے تھے اور اب وہ تینوں بھائی کسی اور ہتھیار کی تلاش میں نظریں دوڑا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ سمجھدار تو وہ نہیں تھے لیکن اتنا اندازہ انہیں ہو گیا تھا کہ پارس نے ان کی بہن کو تکلیف پہنچائی ہے ۔۔ اب بھائی ہونے کے ناتے ان کا فرض تھا کوئی ایکشن دکھاتے ۔۔۔۔!!!!
منان کو وہ لوگ پہچانے نہیں تھے سو کسی کھاتے میں بھی نہیں لا رہے تھے ۔۔۔۔۔!
“آہ ۔۔۔ واٹ دی ہیل ۔۔۔۔۔؟؟”
اپنا شانہ پکڑے وہ چلایا تھا اور اس کے چیخنے پر ان چاروں کو بھی ہوش آیا تھا ۔۔
“یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ ۔۔۔۔؟ پاگل ہوگئے ہو کیا ۔۔۔۔؟؟؟”
ساشہ سر اٹھا کر بھائیوں کو گھورتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔
اپنے بھائیوں کے اقدام پر اسے سب سے زیادہ حیرت ہی ہو رہی تھی جو اس کا انداز ڈپٹنے والا نہیں تھا ۔۔۔۔۔
“اور نہیں تو کیا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟ تم لوگوں کو چاہیے کمرے میں پیٹی رکھی ہے اس میں سے ہتھوڑیاں وغیرہ لائو اور ان پر برسائو ۔۔۔۔۔
ایک منٹ میں کچن سے چھری لا کر دیتی ہوں ان کا تکا بوٹی کرتے ہیں ۔۔۔۔”
علیشہ کا انداز ایسا تھا کہ کسی کے سمجھ نہیں آیا تھا وہ مزاق کر رہی ہے یا سنجیدہ ہے ۔۔!
“بس کریں سب ۔۔۔۔ اور میری بات سنیں ۔۔!”
پارس دونوں ہاتھ اٹھا کر صلح جو انداز میں بولا تھا لیکن کسی نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی تھی ۔۔۔۔۔
عجیب بھونچال مچا تھا ۔۔۔
کوئی چیخ رہا تھا ۔۔۔۔
کوئی سمجھا رہا تھا ۔۔
کوئی ڈر رہا تھا ۔۔
کوئی رو رہا تھا ۔۔
اور وہ تینوں بھائی چھت پر سے اینٹیں لانے بھاگ پڑے تھے ۔۔۔۔
جب کان پھاڑتے شور کی آواز پر وہ ہانپتی کانپتی اٹھ کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔
موسم اچھا خاصہ گرم تھا لیکن وہ ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی ۔۔ چادر اپنے گرد لپیٹ کر اٹھتے ہوئے اس نے ایک تھکی ہوئی سی نظر سکون سے سوتی ہوئی ساشہ کی بیٹی ردا پر ڈالی تھی ۔۔ پھر لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔
چخ چخ پر کنپٹی دباتے ہوئے وہ بس دھندلائی نظروں سے سب دیکھتی سمجھنے کی کوشش میں لگی تھی جب ہونق سے کھڑے منان کی نظر اس پر پڑی تھی ۔۔۔۔
علیشہ کے ساتھ بحث میں مشغول پارس کا بازو کھینچ کر اس نے اس کی توجہ میشا کی طرف مبزول کرائی تھی ۔۔۔
اور پھر ایک کے بعد ایک سب کی نظریں اس پر پڑنا شروع ہو گئی تھیں ۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے جتنا شور تھا ۔۔ اب اتنی ہی خاموشی تھی صحن میں ۔۔۔ سب کی نظروں کا مرکز وہ تھی اور اس کی بھیگی غصیلی نظروں کا محور پارس تھا ۔۔۔۔۔!!
پارس کا رنگ اڑ سا گیا تھا ۔۔۔
خشک لبوں پر زبان پھیر کر اس نے کچھ کہنا چاہا تھا جب اوپر سے ایک اینٹ پھینکی گئی تھی جو اس کا دماغ ہلا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
سب ہی کے منہ سے چیخ نکلی تھی سوائے اس کے جس نے سر اٹھا کر یہ حرکت کرنے والے کو دیکھا تھا ۔۔۔
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے خشک ہونٹوں پر بکھری تھی ۔۔
خون خون ہوتا سر پکڑ کر زمین پر اکڑوں بیٹھا وہ لب سختی سے بھینچے اذیت برداشت کرتا میشا کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
یہاں تک کے وہ اس کے قریب آ پہنچی ۔۔۔۔۔۔
پارس کی چمکدار نظروں کو نظر انداز کر کے اس نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔
“پلک جھپکنے سے پہلے نکل جائو ۔۔۔۔۔”
“نہیں ۔۔۔!”
ایک پل کو رک کر پارس نے اس کی نظروں میں موجود بےحسی دیکھی تھی ۔۔ پھر قطیعت سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
“میں نے کہا نکلو یہاں سے ۔۔۔۔ دفع ہو جائو ۔۔۔۔!!!
یہ سمجھنے کی غلطی مت کرنا کہ تم ہمیں ڈرا لو گے ۔۔۔۔۔۔۔ جان سے مار دوں گی میں تمہیں اگر تم نے میری فیملی پر ایک نگاہ غلط ڈالی تو ۔۔۔۔ ابھی اور اسی وقت نکلو ۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں نکلو ۔۔ بہرے ہو گئے ہو ۔۔۔۔؟ اٹھو نکلو ۔۔۔۔۔ دفع ہو ۔۔۔۔ گھٹیا ، ذلیل ، کمینے انسان ۔۔ نکل جائو میرے گھر سے ۔۔۔۔۔۔”
کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر وہ جو دل میں آ رہا تھا بول رہی تھی ۔۔۔ ساتھ ہی اپنے کمزور سے وجود سے اسے بھی اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جو خود بھی بہت کمزوری محسوس کرتا اپنے خونم خون سر سے خون کی برسات کر رہا تھا ۔۔۔۔
لیکن ڈھٹائی کی انتہا پر پہنچا اٹھنے سے انکاری تھا ۔۔۔
“پارس اس وقت چلو یہاں سے ۔۔ تمہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔”
یہ جاننے کے باوجود بھی کہ پارس ضد میں آجائے تو کسی کی نہیں سنتا تھا ۔۔ منان خود کو یہ کہنے سے روک نہیں سکا تھا ۔۔۔ وجہ اس کا بےحال حال تھا ۔۔۔۔
“نہیں مجھے ۔۔ مجھے بس ۔۔۔۔۔۔ مجھے بس ۔۔ میشا ۔۔۔۔ میشا کی ضرورت ہے ۔۔۔”
تھک ہار کر اپنے قریب ہی گرتی میشا کی طرف جھک کر آہستگی سے کہتا وہ اس کی جوابی سرد نظروں پر ہنسا تھا اور پھر ایک طرف کو لڑھک گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیہوش نہیں تھا مگر اب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ بیٹھ بھی سکتا ۔۔۔۔۔
ساشہ میشا کے قریب آئی تھی ۔۔۔۔ اسے بازئوں سے پکڑ کر اٹھایا تھا لیکن میشا بھی چند قدم چل کر ہی زمین پر دھڑام سے گر گئی تھی ۔۔
“میشو ۔۔ میشا ۔۔!! باجی۔۔!!”
وہ سب اس کی طرف بھاگی تھیں ۔۔۔۔ تینوں بھائی جو پارس کا خون دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے ۔۔ میشا کے بیہوش ہونے پر رونے کو ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔
“اسے ہاسپٹل لے کر چلیئے پلیز ۔۔۔۔”
ساشہ یکدم ہی پارس کو سہارہ دیئے کھڑے منان سے بولی تھی ۔۔۔۔۔
منان کو اس کا مخاطب کرنا خواب سا لگا تھا ۔۔
حلق تر کر کے وہ غائب دماغی سے سر ہلانے لگا جبکہ پارس اس سے الگ ہونے لگا تھا ۔۔۔
“میشا کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟؟؟”
وہ خود بھی بری طرح ہانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ گئے نہیں ابھی تک ۔۔۔۔؟”
علیشہ حلق کے بل پوری قوت سے چیخی تھی ۔۔۔۔۔
منان اور پارس کو قتل کرنے سے بمشکل خود کو روک رہی تھی ۔۔ورنہ جتنا اسے غصہ تھا ۔۔ وہ ایسا کر بھی سکتی تھی ۔۔۔۔
“چپ ہوجائو علیشہ ۔۔۔۔ آپ نے سنا نہیں ۔۔۔؟ گاڑی ہے تو پلیز اسے لے چلیں ۔۔”
ساشہ کے ذہن میں صرف یہی تھا کہ اس وقت گدھے کو باپ بنانا تھا ۔۔۔
مگر منان ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس صورتحال میں بھی اپنے لبوں پر بےساختہ پھڑکتی مسکراہٹ روک نہیں سکا تھا ۔۔۔۔
سر ہلا کر وہ “ابھی آیا” کہتا گھر سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔ اور پارس رومال سر پر باندھ کر خون روکنے کی انتہائی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے پریشان نظروں سے بلکل چت پڑی میشا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
*******************
میشا بخار اور ذہنی اذیت کی وجہ سے بیہوش ہوئی تھی سو اسے ڈرپ لگا کر کچھ دوائیں لکھ کر فارغ کر دیا گیا تھا ۔۔۔ جبکہ پارس کی حالت کچھ سنجیدہ تھی سو اسے ہاسپٹل میں ہی رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔
شمح ان سے الوداع لے کر اسکول ہیڈمسٹریس سے بات کرنے کا وعدہ کرتی چلی گئی تھی اور اب ساشہ میشا کو ساتھ لگائے رکشہ کے لیئے نظریں دوڑا رہی تھی جب منان دوڑتا ہوا ان کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔۔
میشا نے بروں میں سب سے برا منہ بنا لیا تھا لیکن ساشہ کے چہرے پر شناسائی کا بھی کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔۔ اور یہ زیادہ تکلیف دہ بات تھی ۔۔
منان جو کہ بہت سی خوش فہمیوں کا شکار ہو گیا ساشہ کی بیگانگی دیکھ کر واپس اپنے جامے میں آ گیا تھا ۔۔۔۔
“آئیے میں آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں۔۔۔۔”
ہاتھ پشت پر باندھے وہ سر جھکائے بہت دھیمی آواز میں بولا تھا ۔۔۔۔۔
“چھوڑ ہی دیں تو مہربانی ہوگی ۔۔۔”
میشا پھاڑ کھانے والے انداز میں بول کر قریب رکتے رکشے کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ۔۔۔
زندگی میں پہلی بار کرائے پر بحث کیئے بغیر وہ رکشے میں سوار ہو کر ایک تلخ نگاہ منان پر ڈالنا نہیں بھولی تھی ۔۔۔۔
اب تک کے عرصے میں وہ لوگ منان اور پارس کا تعلق تو سمجھ ہی گئے تھے ۔۔۔ اور بقول میشا کے ۔۔
“دونوں ایکسے بڑھ کر ایک کمینے ہیں ۔۔۔”
جبڑے کسے وہ سخت اشتعال کا شکار تھی ۔۔ جبکہ ساشہ پرس میں موجود سو روپے کے اکلوتے نوٹ کو بیچارگی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
“یہ رکشے کا کرایہ ہو گیا اب دوپہر کا کھانا ۔۔۔؟؟؟
اللہ غربت دے تو زندگی میں کوئی اور مسئلہ نہ دے ۔۔۔ کوئی اور پریشانی دے تو غریبت نہ دے ۔۔۔۔”
افسردگی سے سوچتی وہ انگلیاں چٹخاتی رہ گئی ۔۔۔
*******************
بھوک سے ہر کوئی بیحال تھا لیکن اظہار کوئی نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔
پھیکے پھیکے چہرے لیئے وہ سب کسی نا کسی کام میں خود کو مصروف رکھ کر بھوک کے احساس سے جان چھڑوا رہے تھے اور میشا ۔۔۔۔۔۔!!
وہ خود کو اس سب کا قصوروار سمجھتی پیٹی سے فالتو سامان چھانٹ رہی تھی تاکہ اسے بیچ باچ کر کچھ کھانے کو لا سکے ۔۔۔۔۔
“تم کیا کرنے لگی ہو میشا ۔۔۔؟ ابھی بھی ہلکی ہلکی حرارت ہے ۔۔ بیٹھ جائو سکون سے ۔۔۔”
کچھ پرانے کپڑے اٹھائے ساشہ اس کے قریب آ کر اس کی پیشانی چھوتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
“یہ اچھا خاصہ سامان نکل گیا یے ۔۔۔۔ گزارا ہو جائے گا ۔۔”
اس کی بات ان سنی کرتی میشا چہک کر بولی تھی ۔۔۔۔
“یہ امی کے کچھ کپڑے ۔۔۔ اگر ان سے کچھ ہو سکے تو ۔۔؟؟؟”
بات ادھوری چھوڑ کر وہ میشا کی آنکھوں میں در آتی نمی دیکھ کر گھبرا گئی تھی ۔۔۔
اور اس کے روہانسے تاثرات دیکھ کر میشا نے خود کو سنبھال لیا تھا ۔۔
آنکھیں مسلتے ہوئے وہ شور کی آواز پر چونک گئی تھی ۔۔۔۔
دونوں بہنوں نے ایک الجھن بھری نظر ایک دوسرے پر ڈالی اور پھر کمرے سے نکل پڑیں ۔۔
“میں تجھے جیل بھی بھجوا سکتا ہوں سالے ۔۔۔
چپ کر کے یہ کھانا کھا لے ۔۔۔۔۔۔”
فہیم جس نے پارس کے سر پر اینٹ ماری تھی ڈرا ڈرا سا پارس کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ جبکہ اس کے دونوں ہاتھ پارس کے ایک ہی ہاتھ میں مقید تھے ۔۔۔
اس منظر سے زیادہ میشا پلنگ پر رکھے بہت سارے شاپرز دیکھ کر حیران تھی جن میں دال سبزی آٹا وغیرہ موجود تھا ۔۔۔۔
باہر سے آئی بنی بنائی بریانی کا پیکٹ پارس کی گود میں تھا اور پارس دوسرے ہاتھ سے نوالہ بنائے فہیم کو کھلانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اس سب سے نظریں ہٹا کر میشا نے اپنے باقی بہن بھائیوں کو دیکھا تھا ۔۔۔ جو پیشانی پر تیوریاں لیئے ۔۔ آنکھوں میں غصہ بھرے پارس کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
لیکن سب کی آنکھوں میں بھوک کی چمک بھی واضح تھی ۔۔۔
گہری سانس بھر کے اس نے پھر پارس کو دیکھا تھا جو اسے دیکھ کر فہیم کو چھوڑ چکا تھا ۔۔۔۔
“کھانا کھاتے ہیں بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔”
اس کے پرسکون انداز نے میشا کا دماغ اچھا خاصہ گھما دیا تھا ۔۔۔
“کیا پاگل لکھا ہے ہماری شکل پر ۔۔؟؟
یہ سب کرو گے اور ہم تم پر بھروسہ کر کے پھر سے دھوکہ کھا لیں گے ۔۔۔؟؟؟
جب کوئی اعتبار توڑے اس پر پھر سے اعتبار کرنے والے سے بڑھ کر بیوقوف کوئی نہیں ۔۔۔”
بگڑ کر کہتی وہ الجھن کا شکار بھی تھی کہ پارس کو گھر کے حالات کا علم کیسے ہوا ۔۔ جو وہ یہ سارا سامان لیئے چلا آیا تھا ۔۔
“میں تم سے نہیں کہتا مجھ ہر اعتبار کرو ۔۔۔۔ مجھ پر ترس کھائو اور مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ محبت آرام آرام سے ہو جائے گی”
“معاف ۔۔؟”
آخری بات یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس نے تمسخرانہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ اور اس کے استہزایہ انداز میں پوچھنے پر پارس نے بس شرمندگی سے سر ہی ہلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
“تم نے کوئی غلطی نہیں کی جو معاف کر دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ۔۔ تم ۔۔۔۔۔۔ میں بس ۔۔۔۔۔ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔ مہربانی کرو یہ سامان اٹھائو اور دفع ہو جائو ۔۔۔۔۔۔۔”
“میں ابھی تو دفع ہو جائوں گا لیکن سامان لے کر نہیں جائوں گا ۔۔۔۔۔
اور ہاں ۔۔۔ کوئی بھی کام ہو مجھے بتانا گلی سے باہر اپنی گاڑی میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔!”
اپنی کہہ کر وہ اس کی سنی بغیر گھر سے نکل گیا تھا جبکہ کنپٹیاں دباتی میشا کی سوالیا نظریں فہیم پر جا ٹکی تھیں ۔۔۔
وہی تھا جو گھر سے باہر تھا ۔۔۔
کیا اس نے پارس سے مدد مانگی تھی ۔۔؟
لیکن اس کا دل یہ نہیں مان رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
“مجھے سب سچ بتائو فہیم ۔۔”
“کیا بتائوں ۔۔۔؟”
وہ نظریں چراتا اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔
“اس کو کیسے معلوم ہوا گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے ۔۔۔؟”
“مجھے کیا پتا باجی ۔۔۔”
مچلتے ہوئے فہیم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔۔ ساشہ نے پیچھے سے اسے سینے سے لگا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
بغور اسے دیکھتے ہوئے میشا نے اس کے بھیگتے ہوئے گال صاف کیئے تھے جب وہ بڑبڑانے والے انداز میں بولا تھا ۔۔۔
“میں “اکی فقیر” کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے کہا جو بھی ملا اس میں سے آدھا تو لے لینا ۔۔۔۔ وہاں پارس بھائی نے مجھے دیکھ لیا ۔۔ پھر مجھے سب بتانا پڑا ۔۔۔۔!”
وہ کچھ دیر تک مجرم کی طرح کھڑے اپنے چھوٹے سے بھائی کو دیکھتی رہی تھی ۔۔۔ پھر اس کی پیشانی چوم کر سب کو کھانا کھا لینے کا کہتی ہوئے اوپر کمرے میں جا کر بند ہو گئی ۔۔
“میرا اعتبار ٹوٹنے سے پہلے ساتھ دے دیتے تو آج تم پر بھروسہ کرتے ہوئے اتنا خوف نہیں آتا ۔۔۔۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے تم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولیس مخلص نہیں یے ورنہ میں پولیس سے ہی مدد لے لیتی ۔۔۔”
وہ کبھی تصور میں پارس سے مخاطب ہو رہی تھی ۔۔ کبھی خود سے ۔۔!
“اب اگر تم نے میرے ساتھ میرے گھر والوں کو بھی کوئی تکلیف دی تو ۔۔۔ تو میں کیا کر لوں گی ۔۔۔۔۔؟
یا اللہ میری مدد کریں ۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔۔۔۔ میرے دل میں خوف بیٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ میں پہلے جیسی مضبوط نہیں ہو پارہی ۔۔ میری ذات کا اعتماد چھین لیا ہے اس شخص نے مجھ سے ۔۔۔ میری مدد فرمائیں میرے اللہ ۔۔۔”
****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...