زمین و آسماں کے ربّ! یہ منظر مضطرب کیوں ہیں!
پہاڑوں پر مچلتی برف شعلوں میں بدل آئی
صنوبر کے درختوں پر طلسماتی ہوئیں شاخیں
جہاں باغات سیبوں کے ، وہاں بنجر تماشا ہے
اِدھر چاول کی فصلوں میں بلائیں راج کرتی ہیں
کبھی ستلج کی موجوں میں ہَلاہَل تیرتا آئے
خدایا! پھر مجھے وہ قاف کی پریاں بُلاتی ہیں
سنہری کشتیوں کی بادباں آرا چٹانوں پر
جھپٹتی مچھلیوں کی سُرخ یاقوتی جواں آنکھیں
سمندر کے کُہن چاندی کے تختوں پر مچلتی تھیں
تمنّاؤں کی بوڑھی داشتہ رقصاں جہاں رہتی
وہاں صدیوں کا زندانی مچھیرا غوطہ زَن ٹھہرا
کہ جس کی اُنگلیوں سے مچھلیوں کا خوش نما منظر
سرک کر گِر گیا تھا زنگ آلودہ سمندر میں
وہ حکماً ڈھونڈتا ہے گمشدہ منظر زمانوں سے
مچلتی مچھلیاں رُوپوش ہیں ، خاموش ہیں ، تب سے
اُدھر جھریوں کی بوسیدہ طنابیں زرد رُو ہیں
دھڑکتی سانس کا گریہ سرابوں میں تڑپتا ہے
خدایا! قاف کی پریاں غضب آلود ہو جائیں
عجب کیا ؟ روٹھ جائیں ، چھوڑ جائیں یا تڑپ جائیں
مجھے صدیوں کے زندانی مچھیرے کو چھڑانا ہے
مجھے اپنے قبیلے کی شکستہ آنکھ کا ڈر ہے
مگر وہ قاف کی پریاں مجھے پھر آزماتی ہیں
تمنّاؤں کی بوڑھی داشتہ کا رقص تھم جائے
مجھے یاقوت سی آنکھیں گرفتِ عکس کرنی ہیں
جسے دُشوار ہے ، اُس کو مری آنکھیں عطا کردے
مری آنکھیں پَرو لے نوکِ خارا پر ، مگر کچھ دَم
ترے دربار میں اُلجھی رداؤں کی گِرہ کھولے
خداوندا! مرے ہمراہ ایسے لوگ کر دے تُو
جبینوں پر وفا جن کی ، نگاہوں میں سویرا ہو
مجھے زندانیوں کے وہ خمیدہ سر اُٹھانے ہیں
قبیلے کی جھکی گردن ، نگاہوں میں سما لوں پھر
کہ جس کی پشت پر صدیاں ہراساں تلملاتی تھیں
کہ جس کے عکس سے ڈر کر سمندر بھی لرزتے تھے
زمین و آسماں کے ربّ! سمندر مضطرب کیوں تھے!
وہاں خیبر شکن کی گونج پھیلی تھی ہزاروں اور
یہاں وحشت کے عریاں تخت رقصاں ، گنگناتے ہیں
مجھے اِن سے رہائی ہو ، تری سرکار میں پہنچوں