دنیا عجب تماشا گاہ ہے جو آج روا ہے کل ناروا ہوگا۔ معاشرتی بے کسی بے بسی اور ستم ظریفی نے زندگی میں بے اطمینانی کی کثرت کر دی ہے۔ اس وطن عزیز میں چند سال پہلے بہت ہی سکون اور محبت کا دور دورہ تھا۔ پھر نہ جانے کیسے فلک کے نیچے انسانوں نے انسانوں سے کھیلنا شروع کر دیا۔ ہر چیز میں بناوٹ اور جعل سازی آگئی رشتوں میں بھی وہ محبت اور مودت نہ ہی، کرپشن سے لت پت معاشرے میں زندہ رہنا مشکل ہو گیا۔ ہمارا سارا فکری نظام دوسروں کی دین پر تکیہ کرتا آیا ہے۔ تعصب اور تنگ نظری نے نئی نئی تاویلات کی شکل میں ہنگامہ آرائی پر مبنی جنگل کا سماں پیدا کر دیا ہے ۔ امانت دیانت اورشرافت ہر جگہ سے عنقا معاشرہ میں داد رسی کا رستہ روکنے کے لئے بیک وقت بہت سے فارمولے ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ فرد کی آزادی کو غلامی میں بدلنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں معصوم عوام کو فلاح کے نام پر لارا لپا دیا جا رہا ہے۔ ادب شجر ممنوعہ بنا دیا گیاہے۔ ادیب کو لذت کام ودہن کا اسیر کر دیا گیا۔ انحراف کو مسند نشیں کی پسند بنا دیا گیا۔ عوام کسی مثبت تبدیلی پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بس نعرے سن کر فرصت اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ ارضی حقیقت یہ ہے کہ بے تحاشہ گرانی نے عقل کومفلوج کر دیا ہے۔ اد ب کے فکری سرمائے میں ادب نما مارکیٹ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور ادب اور زندگی کو ناقاتل بیان نقصان پہنچا یا ہے۔ آج ہر ادارے کی افادیت میں بہتری کی بجائے بد نظمی کا راج ہے وسیع قلبی کو طاق نسیاں میں رکھ دیا گیا ہے اور پستول اور بندوق کے بے دریغ ناجائز استعمال کا دور دورہ ہے۔ ادب نے ذاتی پسند و نا پسند کا کالا چوغعہ پہن کر اِترانا شروع کر دیا ہے۔ متشاعر مشاعروں کی صدارت فرمانے لگے ہیں اور خوشا مد پسند انہیں بادشاہ سلامت بتانے لگے ہیں۔ ابن الوقت اس معاشرتی حبس میں شاعری کی فیکٹریاں قائم کر کے مال کھینچنے میں لگے ہیں۔ نادان اور بے ہنر افراد نے فلسفہ اور فکر کو ادب سے بے دخل کر دیا ہے ۔ مقصدی اور موضوعی ادب صرف اُن لوگوں کی میراث ٹھہرا ہے جو اسلوب اور حسیات کو فن جانتے ہیں۔ ہم میں کوئی بھی اب ایسا ادیب و شاعر نہیں ہے جو اپنی فکر کا مؤجد ہو اور بیرون ممالک میں باعث تقلید ہو۔ ادب کی تخلیق اب مفاد پرستی اور ادب فروشی ٹھہری اور ایسے نقلی شاعر و ادیب مسرت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو قاری میسر نہیں آتے۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اخلاقی قدروں کی پاس داری ادب سے مشروط ہے ۔ آج کا ادب مدح خوانوں کی سرکاری اداروں میں سطح اونچی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ مادیت کا کمال یہ ہے کہ وہ جمال کو ختم کرنے کے در پے ہے تخلیق میں جب تک روح اور دل کو تڑپانے کی قوت نہ ہو وہ اثر پذیری سے عاری ہوتی ہے۔ آج کی تخلیقی دنیا میں چراغ گل کرنے کی روش عام ہے۔ عشاق ادب سے اب بلبلیں مشورہ نہیں کرتیں بلکہ وجدان کو صبا فرمائشی بنانے کا جتن کرتی ہے۔ آپ جان جائیں کہ اس حبس زدہ متعصب ناکارہ اور بے حس معاشرے میں ادب کی ترویج خاصی مشکل ہے یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ ایذرا پاونڈ نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا “اس آدمی کی تنقید پر کوئی توجہ نہ دو جس نے کبھی کوئی قابل توجہ فن پارہ تخلیق نہیں کیا “۔
حرف حرف کہانی کوئی قابل توجہ تخلیق/فن پارہ ہے کہ نہیں اس کا جواب قارئین دیں گے تنقید کی تعریف خوبیوںاور خامیوں کی تلاش میں اپنا فن آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے جو سراسر عشق سے لبریز ہے جس میں سوزو گداز اور تاثیر موجود ہے۔ حرف حرف کہانی کے سلسلے میں ڈاکٹر شاہد جمالی، ڈاکٹر معین الدین شاہین، عزیز تنویر کوٹوی مدیر پرواز سید معراج جامی ، معروف شاعر ادیب اور ناقد سلمان صدیقی اور ہر دل عزیز نصیر احمد ناصر مدیر تسطیر اور قابل صد احترام اور لاثانی شاعر حضرت جان کاشمیری صاحب ۔ میرے ساتھی افسانہ نگار دوست اجمل اعجاز، اور محب صادق حسین صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آخر میں شازیہ اکبر کے چند اشعار جو دلوں میں دھمال ڈالتے ہیں۔
مجھے دریافت کرنا چاہتے تو اور ڈرتے ہو
سنہری بات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
دیا بجھتا نہیں آرزو کے ساتھ جلتا ہے
فروزاں ذات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
نفس شوریدہ سر لوگوں کی پہلی راجدھانی ہے
جنوں کی بات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
میں نے جو بھی لکھا عوام کی مسرت اور شادمانی کے لئے تاکہ آئندگان اس سے سرشاری اور حظ پائیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...