(Last Updated On: )
س:- سوشلزم کو لازمی امربنانے والی معاشرتی طاقتیں مارکسزم کی نظر میںکون کون سی ہیں؟
ج:-سرمایہ داری معاشرے کا وہ مرحلہ ہے جو ہمیشہ سے نہیں ہے-اپنے پیش رونظاموں کی طرح سرمایہ داری جاگیردارانہ معاشرے کے پیٹ میں پلی- اس کی بڑھوتری اورارتقاء سرمایہ دارانہ معاشرے کے مقابل ہوا- آخرکار اس نے انقلابی ذرائع سے جاگیرداری کاخاتمہ کردیا اورانسانی پیداواریت کو اس نے ناقابل بیان حدتک بڑھادیا-
مسٹرشیون ہاٹ:ایک منٹ، مسٹر کینن! میرے خیال سے اس سوال کا جواب نسبتاً آسان انداز میں بھی دیا جاسکتا ہے- یہ محترم لگتا ہے اس موضوع پرتقریرکرنا چاہتے ہیں اورمیرے خیال سے یہ سوال اس کامتقاضی نہیں ہے-
س:-(ازمسٹر گولڈن میں) : یوں کیجئے مختصر انداز میں معاشرتی قوتوں کے بارے میں بتادیں-
ج:- میرا تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا- میں مختصراً ان قوتوں کاذکر کرنا چاہ رہاتھا جو سرمایہ داری کو دیوالیہ پن کی طرف دھکیل رہی ہیں- وہ قوانین جن کے تحت-
مسڑشیون ہاٹ: آپ سے یہ سوال نہیں پوچھا گیا- آپ سے پوچھا گیا تھا وہ کون سی قوتوںہیں جو سوشلزم کو لازمی امر بناتی ہیں- بہرحال میںاصرار نہیں کرتا- آپ بات جاری رکھیں-
کینن: میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں بھی اپنی تشریح کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کے لئے فکر مند ہوں-
سرمایہ داری کچھ اندرونی قوانین کے تحت کام کرتی ہے- ان قوانین کا تجزیہ پہلی بار مارکس نے پہلے ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ اور پھر’’ سرمایہ‘‘ میں کیاجو مارکس کی عظیم تحریریں ہیں-
دو اندرونی قوانین جو سرمایہ داری کے خاتمے اوراس کی جگہ سوشلزم کی استواری کویقینی بناتے ہیں وہ یہ ہیں:
اول ‘ ذرائع پیداوار کا نجی ملکیت میں ہونا اوراجرتی محنت سے اس اجرت پرکام لینا جو قدر میں اس شے سے سستی ہو جو مزدور تیار کررہاہے- اس کے نتیجہ میں سرپلس (زائد) پیدا ہوتا ہے جسے سرمایہ دارمالک نے منڈی میںفروخت کرنا ہوتا ہے- یہ بات تو واضح ہے کہ اجرتی مزدور کو جو معاوضہ ملتا ہے وہ اس شے کی کل قدر سے کم ہوتا ہے جو کہ اس نے تیارکی ہوتی ہے- لہٰذا وہ اپنی تیار کردہ شے کا اتنا حصہ ہی خرید سکتا ہے جتنے حصے کی اسے تنخواہ ملی ہوتی ہے- بقایا مارکس کے مطابق قدرزائد ہے اوراس قدر زائد کے لئے سرمایہ دار کو منڈی تلاش کرنا ہوتی ہے-
کسی ایک ملک میں سرمایہ داری جتنی پھیلتی ہے، مزدور کی محنت اتنی ہی بار آور ہوتی جاتی ہے اورقدر زائد میں بھی اسی لحاظ سے اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کے لئے منڈی نہیں مل پاتی کیونکہ لوگوں کی اکثریت جو یہ دولت پیدا کرتے ہیں انہیں اتنی تنخواہیں نہیں ملتیں کہ وہ اسے خرید سکیں- اس کے نتیجہ میں سرمایہ داری وقفے وقفے سے بحرانوں کا شکار ہوتی ہے جسے وہ زائد پیداوار کہتے ہیں‘ بعض ایجی ٹیشن کرنے والے اسے کم کھپت کانام دیتے ہیں مگر سائنسی الفاظ میں اسے زائد پیداور بھی کہا جاتاہے-
سوسال بلکہ لگ بھگ دو سوسال ہوچلے ہیں‘ سرمایہ داری اپنی ابتداء سے اس طرح کے بحرانوں سے دوچار ہوتی آئی ہے- ماضی میں سرمایہ داری نئی منڈیاں تلاش کرکے‘ سرمایہ کاری کے لئے نئے میدان تلاش کرکے اوراستحصال کے لئے راستے تلاش کرکے ان حلقہ وار بحرانوں سے نکلتی آئی ہے جو ہردس سال بعد آئے اور پیداور میں اضافے کی جانب اس نے سفر جاری رکھا- لیکن جب بھی سرمایہ داری میں کوئی ابھار آیا‘ اس نے کوئی نیا علاقہ دریافت کیا، دنیا اس کے لئے محدود ہوتی چلی گئی کیونکہ سرمایہ داری نے جہاں قدم گھسایااس کے قوانین سائے کی طرح اس کے پیچھے پہنچ گئے اوریوں استحصال کے نئے طریقے بھی قدر زائد کاشکار ہوکر رہ گئے-
مثال کے طورپرمتحدہ امریکہ جو یورپ کی زائد اشیاء کا ذخیرہ تھا اور جس نے یورپی سرمایہ داری کو بھی سانس لینے کا موقع دیا‘ ڈیڑھ سوسال کے عرصہ میں اب وہ خود اس مقام پرپہنچ گیاہے کہ وہ خود بڑی مقدار میں سرپلس پیداکرتا ہے اوراس منڈی کی خاطر یورپ سے لڑرہا ہے جہاں وہ اپنا سرپلس فروخت کرسکے- لہٰذا نجی ملکیت اوراجرتی محنت کے مابین یہ زبردست تضاد سرمایہ داری کو ناقابل حل بحران سے دوچار کرتا ہے- یہ سرمایہ داری کا ایک قانون ہے-
دوسرا قانون وہ تنازعہ ہے کہ جو پیداواری قوتوں کے ارتقاء اوران قومی سرحدوں کے مابین ہے جن تک یہ پیداواری قوتیں سرمایہ داری کے تحت محدود ہیں – سرمایہ دارانہ بنیادوں پرچلنے والا ہرملک ایک سرپلس پیدا کرتا ہے جسے وہ اندرونی منڈی میں فروخت نہیں کرپاتا اوراس کی وجوہ میںنے پہلے بیان کردی ہیں-
تو اس کے بعد کیاہوتا ہے؟ سرمایہ داروں کو اس صورت میں غیرملکی منڈی درکار ہوتی ہے- جہاں وہ اپنا سرپلس فروخت کر سکیں اور انہیںایک غیرملکی علاقہ درکار ہوتا ہے جہاں وہ اپنا زائد سرمایہ لگا سکیں- سرمایہ داری کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ دنیا مزید بڑی نہیں ہورہی – اس کا حجم ویسے کا ویسا ہے جبکہ ہر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک اپنی پیداوارانہ قوتوں کو اس قدر ترقی دے رہا ہے جو اس کی اندرونی کھپت سے کہیں زیادہ ہے- یاوہ اسے منافع پرنہیں بیچ سکتا- اس کے نتیجہ میں پہلی عالمی جنگ کا زبردست دھماکہ ہوا- 1914ء کی عالمی جنگ ہماری تھیوری اورنظریہ ٔ کے مطابق سرمایہ دارانہ دنیا کے دیوالیہ پن بحران کاسگنل تھی-
س:-سرمایہ داری کے تحت کام کرنے والے اصول مقابلہ کے بارے میں آپ کیاکہیں گے؟
ج:- سرمایہ داروں کے مابین مقابلہ بازی لازمی طورپربڑے سرمایہ داروں کوجنم دیتی ہے وہ بڑے سرمایہ دار جن کے پاس جدید ترین‘ بہترین اورزیادہ صلاحیت رکھنے والاکارخانہ ہوتا ہے اوروہ چھوٹے سرمایہ داروں کو تباہ کرکے یاانہیں اپنے اندر جذب کرکے ان کا خاتمہ کردیتے ہیں یہاں تک کہ آزاد مالکوں کی مسلسل تعداد کم سے کم جبکہ مفلسوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جاتی ہے‘ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا جاتا ہے اور عوام بالخصوص مزدوروں کی بڑی تعداد کے معاشی ومعاشرتی مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں-
میں نے 1914ء کی عالمی جنگ کاذکر کیاکہ وہ جنگ علامت تھی اس بات کی کہ سرمایہ داری اپنے مسائل پرامن انداز میں حل کرنے کے قابل نہیں رہی- انہیں گیارہ ملین لوگ مارنے پڑے‘ پھر امن قائم کیاتاکہ نئے سرے سے یہ سب کچھ کیاجاسکے- مارکسی سوشلسٹوں کی نظر میں یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ سرمایہ داری اپنے مسائل کے حل کی صلاحیت کھو چکی ہے-
س:- سوشلزم کی خاطر سوشلسٹ ورکرز پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے ایجی ٹیشن کی بابت آپ کیاکہیںگے؟
ج:- مارکسی سوشلزم ‘ اگر میں یہاں وضاحت کرسکوں ‘ خیالاتی سوشلزم سے ہماری تعلیمات کے مطابق مختلف ہے- خیالاتی سوشلزم ان لوگوں کانظریہ ٔ ہے جو بہتر معاشرے کاتصور رکھتے ہیں‘ اورسمجھتے ہیں کہ بہتر معاشرے کاصرف تصور ہی ضروری ہے اورلوگوں کو اس بہترمعاشرے کے لئے قائل کیاجاسکتا ہے اورمسائل حل کئے جاسکتے ہیں- مارکسی سوشلزم کی ابتداء اس نظریے سے ہوتی ہے کہ سرمایہ اپنے اندرونی قوانین کے نتیجے میں معاشرے کوسوشلسٹ حل کی جانب دھکیلتا ہے- میں نے جنگ کاذکر کیا- میں نے سرمایہ دار قوموں کے مابین تنازع کاذکر کیاجو ہروقت یاحالت جنگ میں ہیں یاانہوں نے نئی جنگ کے لئے جنگ بندی کررکھی ہے-میں 1929ء کے معاشی بحران کا ذکر کرناچاہوں گا ڈیڑھ کروڑ صحت مندامریکی کام کرنے کے خواہش مندتھے مگر انہیں کام نہیں مل رہا تھا- سرمایہ داری نامی ڈھانچے کی خرابی صحت کی یہ ایک اورعلامت تھی جبکہ بے روزگاری کاعفریت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا-
حقیقی انقلابی عناصر‘ سوشلزم کی جانب لے جانے والی حقیقی قوتیں وہ تضادات ہیں جو سرمایہ داری کے اپنے اندر پائے جاتے ہیں- ہمارے ایجی ٹیشن کاکام یہ ہے کہ معاشرتی انقلاب کے راستے پرنظریاتی حوالے سے امکانات کی پیشن گوئی کرے‘ لوگوں کے ذہنوں کو اس کے لئے تیار کرے ‘ انہیں اس کے لئے قائل کرے‘ انہیں منظم کرے تاکہ وہ اس عمل کو تیز کرسکیں اور مؤثر انداز میں انقلاب برپا کرسکیں- ایجی ٹیشن صرف یہی کچھ کرسکتاہے-
س:- فاشزم کاعنصر کیاکردار ادا کرسکتاہے؟
ج:- فاشزم ایک اورعلامت ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرے میں نمودار ہوتی ہے جب وہ تباہی اوربحران کے دور سے گزرتا ہے اوراس قابل نہیں رہتا کہ جمہوری پارلیمانی طریقہ سے معاشرے کے اندر توازن برقرار رکھ سکے، جمہوری پارلیمانی نظام سرمایہ داری کے عروج کے دور میں اس کا نظام حکومت رہاہے، فاشزم ترقی کرتا ہے‘ انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتا ہے اورمزدوروں کیلئے زبردست وارننگ بن جاتاہے کہ اگر انہوں نے خود کو متحرک نہ کیااورچیزوں کو اپنے ہاتھ میں نہ لیاتو لمبے عرصے کیلئے ان کا بھی وہی انجام ہوگا جس کا سامنا جرمنی ‘اٹلی اوربعض دیگر یورپی ممالک کوکرنا پڑرہاہے-
س:- سوشلزم کو لازمی امربنانے والی معاشرتی طاقتیں مارکسزم کی نظر میںکون کون سی ہیں؟
ج:-سرمایہ داری معاشرے کا وہ مرحلہ ہے جو ہمیشہ سے نہیں ہے-اپنے پیش رونظاموں کی طرح سرمایہ داری جاگیردارانہ معاشرے کے پیٹ میں پلی- اس کی بڑھوتری اورارتقاء سرمایہ دارانہ معاشرے کے مقابل ہوا- آخرکار اس نے انقلابی ذرائع سے جاگیرداری کاخاتمہ کردیا اورانسانی پیداواریت کو اس نے ناقابل بیان حدتک بڑھادیا-