سجاد ظہیر
انسان کے کردار کی تشکیل کیسے ہوتی ہے اور اس کی زندگی کا رخ کس طرح متعین ہوتا ہے یہ بے حد پیچیدہ سوال ہے، جبلت اور پیدائشی خصلتیں، تعلیم و تربیت ، سماجی ماحول، قومی، طبقہ داری اور خاندانی روایات و ثقافت، شعور و تحت الشعور کا عمل،ہمارے کردار ان سب کا مرکب اور ان سب سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس بھول بھلیاں میں کیسے متعین کیا جائے کہ کسی شخص نے زندگی کی ایک راہ کیوں اختیار کی اور دوسری کیوں نہیں ؟ بہر حال اس قسم کا تجزیہ اور تشریح ماہروں کا کام ہے۔ بالوجی، نفسیات، سماجیات اور تعلیم کے ماہروں کا کام ، ورنہ عام طور پر ہم انسانوں کو ان کے کردار، افعال اور اعمال اور ان سب کے نتائج سے ہی جانچتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس طرح جانچنے میں خود جانچنے والوں کے ساتھ ساتھ یہ پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں، زندگی کے متعلق ان کے اپنے نکتۂ نظر اور نصب العین کی بھی اہمیت ہوتی ہے، نیز یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص تاریخی عہد یا د ور میں سماج کے مختلف طبقوں یا گروہوں کے بالکل مختلف بلکہ متضاد پیمانے یا نصب العین ہوں۔ مثال کے طور پر ہم اردو، فارسی ادب پر ہی نظر ڈالیں تو اس میں صدیوں سے یعنی تقریبا آٹھ سو سال سے، یہ بات نظر آتی ہے کہ احمق، جاہل اور ظالم حکمرانوں، قاضی، کوتوال، سنگدل نا صحوں، کوڑ ھ مغز عالموں اور مدّرسوں، ریاکار عابدوں اور زاہدوں کی سخت مذمت کی گئی ہے، ان کا مذاق اڑایا گیا ہے، اس پورے گروہ کے ماخوذ کئے ہوئے قوانین اور ان کے عائد کئے ہوئے اخلاقی اصولوں کو برتنے کی نہیں بلکہ توڑنے کی ترغیب دی گئی ہے، شریعت کی جگہ طریقت ، ظاہری علم کی جگہ اندرونی و باطنی علم و عرفان، ظاہر داری کی جگہ سچائی اور اصلیت تک پہونچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قیصر روم کے قوانین کی مذمت کی گئی اور عزت اور پرورش کی گئی رومی قانون کے مطابق صلیب پر چڑھا دیئے جانے والے عیسیٰ ابن مریم کی۔ حسین ابن علی نے خلیفۂ وقت یزید ابن معاویہ کی بیعت کرنے سے انکار کیا اور وہ اس ’’جرم‘‘ کی سزا میں قتل کر دیئے گئے لیکن عام مسلمان اب بھی شہید کر بلا کا سوگ مناتے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔۔ منصور حلاج، انا الحق کا نعرہ لگا نے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا لیکن ہمارے شاعروں کی نظر میں وہی آج تک سچائی کے لئے جان دینے والوں کی سب سے درخشاں مثال ہے۔
زندگی کے یہ متضاد اور مختلف پیمانے کیوں اور کیسے بنتے ہیں اور ہم اپنے لئے ان پیمانوں کو کیسے اور کیوں چنتے ہیں، کیوں ہم ایک خاص ہی راستہ انتخاب کرتے ہیں اور دوسرا نہیں ، سماجی اور انفرادی عمل کے محرکات کیا ہیں اور کیسے۔ انسانی تاریخ کی رفتار کا بھی کوئی قانون ہے یا یہ محض حادثات کا مجموعہ ہے، یا پھر کوئی انجانی غیبی، الوہی یا شیطانی قوت، پر دے کے پیچھے تمام تاروں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹے، ہمیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہتی ہے ؟
ایک بات ظاہر اور صاف ہے کہ ہر حساس اور سمجھدار انسان کے شاہراہ حیات پر گزرتے وقت ، بار بار اور مسلسل ایسے موقع آتے رہتے ہیں۔ جب اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مختلف اور نو بہ نو مسائل کے پیش آنے پر وہ کون سا رخ اختیار کرے، کس پیمانے سے اپنے یا دوسروں کے اعمال و افعال کو جانچے اور خود اپنے لئے آگے بڑھنے کی لئے کون سا راستہ اختیار کرے۔ اکثر یہ راستے واضح نہیں ہوتے، یا ہم خود اپنے ماحول، عادات ، طبقات تعصبات اور جبلتوں کے زیر اثر ، جیسے آنکھ بند کئے، بغیر شعوری طور پر ایک خاص ڈھرے پر چلتے چلتے زندگی کا سارا سفر طے کر جاتے ہیں اور یہ احساس تک نہیں کر پاتے کہ ہمارے سامنے ایسے موقع بھی آئے تھے جب کہ ہم شعوری طور پر اپنا راستہ خود چن سکتے تھے، لیکن ہم نے اسے اختیار نہیں کیا۔
میں جب اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میری سب سے بڑی خوش قسمتی یہ تھی کہ اس عمر میں جب کہ میرا شعور تھوڑا تھوڑا بیدار ہونا شروع ہوا تھا، میں اسکول میں پڑھتا تھا اور میری عمر پندرہ سو لہ سال تھی، تب ہمارے ملک میں آزادی کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی، نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریک ابھری اور پھر حب وطن کی اس لہر نے مقناطیس کی طرح مجھے اپنی جانب کھینچ لیا۔ میں نے اوپر چند سطریں اپنے گھرانے کے ماحول کے متعلق لکھی۔ اس سے شاید پڑھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ ہمارے گھر کا ماحول با لکل امیرانہ اور سرکاری تھا لیکن واقعہ ہے کہ اس زمانے میں بہت سے ہندوستانی مختلف ذہنی اور نفسیاتی سطحوں پر زندگی بسرکرتے تھے یعنی ایک طرف انگریزی سرکار کی ملازمت لیکن ساتھ ہی اس کے کالے کرتوتوں سے سخت بیزاری بھی۔۔۔ جب نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکیں دھیمی ہوتی ہوتی ختم ہو گئیں اور انگریزی راج ویسا کا ویسا ہی بنا رہا، ہندو مسلم اتحاد کی جگہ ملک میں فرقہ پرستی کا زور ہوا، شدھی اور تنظیم کی زہریلی تحریکیں ابھریں تو مجھ پر اور میرے ایسے بہت سے نیشنلسٹ نوجوانوں پر سخت غم اور غصہ طاری ہوا۔ ہم اب لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور یہ سوچنے لگے تھے کہ گاندھی جی کا بتایا ہوا راستہ غلط تھا، بنگال کے نوجوانوں نے انقلابی تشدد شروع کر دیا۔ نوجوان انقلابی انگریز افسروں پر بم پھینکنے اور گولیاں چلانے لگے۔کانپور میں ڈانگے، مظفر احمد،شوکت عثمانی، ایم این۔ رائے کمیونسٹ سازش کے مقدمے میں ماخوذ ہوئے، ہم ان کی خبریں اخباروں میں پڑھ کر سوچنے لگے شاید آزادی حاصل کرنے کا یہی صحیح راستہ ہے، کوئی چیز صاف نہ تھی، خیالات، تصورات ، نظریئے، سب آپس میں گڈمڈتھے، سمجھ کی افق پر دھند لکا تھا۔ صرف ایک چیز یقینی تھی کہ دل میں ایک جوالاسی بھڑک رہی تھی۔ لیکن آزادی کی اس منزل پہ کیسے پہنچا جائے جو اس تمام دکھ درد کا علاج تھی !
یہ تھی میری کیفیت جب میں ۱۹۲۷ء میں انگلستان پہنچا—– رفتہ رفتہ میری ملاقات لندن میں رہنے والے ان ہندوستانیوں سے ہوئی جو وہاں کی انڈین نیشنل کانگریس کی شاخ سے متعلق تھے، زندگی میں پہلی بار مجھے بغیر کسی رکاوٹ کے مارکس اور لینن کی کتابیں اور دوسرا انقلابی لٹریچر خریدنے اور پڑھنے کو ملا، ہندوستان میں یہ چیزیں غیر قانونی تھیں— اسی زمانے میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ آکسفورڈ میں ہندوستانی طلبا کی انجمن آکسفورڈ مجلس کا میں صدر تھا اور اس حیثیت سے مجھے برلن سے ایک خط ملا کہ گرمیوں میں جرمنی کے شہر فرانکفرٹ میں عالمی اینٹی امپر یالسٹ عالمی سامراج مخالف کا نگریس ہونے والی ہے، اس کانگریس کے منتظمین نے آکسفورڈ کے ہندوستانی طلبا کی انجمن سے دو نمائندوں کو شرکت کے لئے مدعو کیا تھا۔ جب میں نے اس خط کو مجلس کے ایک جلسے میں پیش کیا تو سب کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ زیادہ تر طلبا خوفزدہ ہو گئے کہ اس کانفرنس میں شریک ہونے کے بعد ہندوستان میں ان کو سرکاری نوکری ملنے کے امکانات پر تو بالکل ہی پانی پھر جائے گا۔ جب سب چپ رہے تو میں نے کہا کہ میں مجلس کا نمائندہ ہو کر اس کانگریس میں شریک ہونے جرمنی جاؤں گا، کسی کو کوئی اعتراض ہے ؟ سب پھر بھی چپ رہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے تئیں خود کو ڈیلیگیٹ نامزد کیا !
آکسفورڈ میں ویلمسن نام کا ایک ریٹائرڈ آئی سی ایس ہندوستانی لڑکوں کی نگرانی کے لئے تھا، میرے جرمنی جانے سے پہلے اس نے مجھے بلایا اور سختی سے کانگریس میں جانے سے منع کیا اور کہا کہ میں اس میں شریک ہوں گا تو میرا مستقبل برباد ہو جائے گا۔ میں نے ان کو نہائت سنجیدگی سے جواب دیا کہ ویلمسن صاحب کو میرے مستقبل کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں مجلس کا نمائندہ چنا گیا ہوں اور اپنا فرض پورا کروں گا۔ ان کا چہرہ لال ہو گیا، زیر لب کچھ بڑبڑائے، میں اٹھ کر چلا گیا۔
اس کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے اپنے والد کا ایک خط ملا، انھوں نے مجھے لکھا کہ انھوں نے سنا ہے کہ میں فرانکفرٹ کی کانگریس میں شریک ہونے جا رہا ہوں تو بہتر ہے کہ میں نہ جاؤں، میں سمجھ گیا کہ یہ ویلمسن صاحب کی کا رستانی ہے، لیکن اب اپنے مستقبل کے متعلق ان مشفقانہ مشوروں سے آگے نکل چکا تھا
حضرت ناصح گرآئیں، دیدہ و دل فرش راہ
پر کوئی مجھ کو یہ سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا ؟
٭٭٭
’’میرے ایک مرحوم دوست کہاکرتے تھے کہ ترقی پسندوں نے ادبی مارشل لا نافذ کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ویسا ہی طرزِ عمل بعض دینی ادب والوں نے بھی اپنا رکھا ہے تو وہ مسکرائے اور بولے بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن ہم اسے مارشل لا کی جگہ ماشاء اللہ کہتے ہیں۔‘‘( اقتباس از انشائیہ یہ خیرو شر کے سلسلے بحوالہ کلیات حیدر قریشی عمرِ لا حاصل کا حاصل ص ۲۲۷)