“ویل ڈن برو! آئی ایم پراؤڈ آف یو!
میں عشال کو اس کی فیملی سمیت تین سال سے جانتا ہوں۔ آپ کے ڈسیژن کو میں سلیوٹ کرتا ہوں۔ سر!”
وقار نے صارم کے برابر بیٹھتے ہوئے اس کا شانہ تھپتھپایا تھا۔
صارم مسکرا دیا۔
“لیکن ملکہء عالیہ کو کیسے منائیں؟”
“وہ آپ اس ناچیز پر چھوڑ دیں، وقتی غصہ ہے، صبح تک نارمل ہوجائیں گی۔ آخر تھوڑا بہت تو ری ایکٹ کریں گی۔ لیکن ایک بات طے ہے، ہماری ملکہ بہت سویٹ ہیں۔
اس بات پر دونوں ہنس پڑے تھے۔
میں کھانے کے لیے کچھ لاتا ہوں۔ ان لوگوں نے کھانے پر بہت اصرار کیا، لیکن اس وقت ٹینشن کے مارے کچھ حلق سے اترا ہی نہیں۔”
وقار ہلکی پھلکی گفتگو کے ذریعے صارم کی توجہ پریشان کن خیالات سے بٹانا چاہتا تھا۔ اور کسی حد تک کامیاب رہا تھا۔
صارم نے بھی سر ہلا کر اس کی تائید کی تھی۔
“ابشام زبیر!”
وقار صارم کے کمرے سے نکل گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد صارم نے یہ نام زیرلب دہرایا تھا۔
*****************
ستاروں کا ہنگام صبح کی سپیدی میں بدل چکا تھا۔ جب عائشہ کے زانو پر رکھا میگزین کھسک کر نیچے گرا اور اس کی آواز سے عائشہ چونک کر بیدار ہوئی تھیں۔ رات ابشام کے پاس کاؤچ پر بیٹھے بیٹھے ہی عائشہ کی آنکھ لگ گئی تھی۔
عائشہ نے منہ پر ہاتھ رک کر جمائی روکی اور پوری آنکھیں کھول کر ایک نظر شامی کو دیکھا تھا۔ جس کے چہرے پر دھیرے دھیرے جاگنے کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔
عائشہ اٹھ کر شامی کے پاس جا کھڑی ہوئی دھیرے سے اس کا ماتھا چھوا،
“اب کیسی طبیعت ہے میری جان؟”
شامی نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور خود ہی کوشش کر کے اٹھ بیٹھا۔
“فائن!”
غالبا وہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا، اسی لیے مختصر جواب پر اکتفا کیا۔
“میرا سیل کہاں ہے؟”
شامی نے عائشہ کی آنکھوں میں نظریں گاڑ کر پوچھا۔ انداز میں چڑچڑاہٹ تھی۔
“ارے۔۔؟ لیٹے رہو! جانتے ہو، کتنا خون بہہ گیا ہے تمہارا؟”
عائشہ نے اس کا سوال نظر انداز کردیا۔
“مام! Give me my sell”
ابشام نے سپاٹ لب و لہجے میں عائشہ سے کہا مگر وہ بھی عائشہ تھیں، ابشام زبیر کی ماں۔
“تم نے سیل کا کیا کرنا ہے؟ لیٹے رہو، ابھی تمہاری طبیعت بہتر نہیں!”
آخر آپ مجھ سے کیا چھپانے کی کوشش کررہی ہیں مام؟”
شامی نے ترش روی کا مظاہرہ کیا۔
“اتنا penic کیوں ری ایکٹ کر رہے ہو؟”
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے کہہ رہی ہوں آرام کرو۔”
عائشہ نے زور دے کر کہا۔
“ہیلو! ایوری باڈی!”
ماں بیٹے کے درمیان بحث جاری تھی کہ شیما نے مسکراتے ہوئے کمرے کے دروازے پر دستک دی تھی۔ جو لاک نہیں تھا۔
شیما کو دیکھ کر دونوں ماں بیٹے کو چپ لگ گئی تھی۔
“کیسے ہو؟”
شیما کے ہاتھ میں خوبصورت پھولوں کا بڑا سا باسکٹ تھا۔ مگر اسے دیکھتے ہی شامی کے تاثرات ناگواری میں بدلے تھے۔
“ابھی زندہ ہوں۔”
شامی نے ترشی سے جواب دیا۔
لمحے بھر کو شیما کا چہرہ اترا اور پھر وہ سنبھل گئی۔
“اور آپ آنٹی۔۔؟”
شیما عائشہ کی طرف مڑی تھی۔
“فائن! بے بی! تم بتاؤ کافی دن بعد نظر آرہی ہو، بہت بزی ہو شاید!”
عائشہ نے بھرپور انداز سے اس کا خیر مقدم کرنا چاہا۔
“بزی تو نہیں ہوں، بس آپ کے پرنس چارمنگ کو ہی میرا آنا اچھا نہیں لگتا! جب بھی کال کروں، ایک ہی جواب ملتا ہے، ٹرائی لیٹر!”
اور ہنس دی۔
عائشہ نے بغور شامی کا چہرہ دیکھا جس پر ہنوز بیزاری رقم تھی۔
پھر وہ شامی کی طرف متوجہ ہوئی۔
“کیوں مسٹر؟ پھر مان گئی وہ تمہاری سو کالڈ گرل فرینڈ؟ یا ابھی مزید ڈرامہ باقی ہے؟ ویسے یہ سوسائیڈ کا آئیڈیا بہت ہی بوگس رہا۔ سنا ہے وہ تمہیں دیکھنے تک نہیں آئی؟ ڈیٹنگ تمہارے ساتھ کرتی رہی اور نکاح کسی اور سے کرلیا۔ از اٹ ٹرو؟”
شامی بری طرح چونکا۔
“میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے، تم کس کی بات کررہی ہو؟”
“واؤ! تم مجھ سے چھپا رہے ہو؟ مانا کہ تمہیں مجھ میں کوئی انٹرسٹ نہیں، لیکن ہم اچھے فرینڈز بھی تو ہیں؟ اور یہ اسٹوری تو پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔”
عائشہ سر پیٹ کر رہ گیئیں۔
مام! میرا سیل!”
شامی نے عائشہ کے سامنے ہتھیلی پھیلائی۔
اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ اگر یہ عشال تھی تو، اسے جینا تھا! ہر حال میں، وہ یوں اس سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا۔
عائشہ نے خاموشی اور شکست خوردگی سے فون نکال کر شامی کی ہتھیلی پر دھر دیا اور شیما کی طرف معترض نظروں سے دیکھا۔
” ایکسکیوز می!”
شامی نے فون آن کرتے ہی شیما اور عائشہ کو گھورا۔ گویا انھیں گیٹ آؤٹ کہہ رہا ہو۔ عائشہ شیما کو بازو سے پکڑے کمرے سے باہر نکل گیئیں۔
“یہ تم نے کیا کیا شیما؟ کتنی مشکل سے شامی سے ہم نے یہ خبر چھپائی تھی۔ اور تم نے ایک ہی سانس میں سب کچھ اسے بتادیا؟”
عائشہ بری طرح شیما پر بگڑی تھیں۔
“آئی ایم سوری! میرا خیال تھا اس سب کے پیچھے شامی ہے، تو کیا وہ شامی نہیں ہے؟ پھر کون ہے؟”
شیما کی حیرت دیکھنے لائق تھی۔
عائشہ نے کوئی جواب نہیں دیا وہ پریشانی سے انگلیاں مروڑنے لگیں۔
پتہ نہیں یہ لڑکا اب کیا کرے گا؟”
فون آن ہوتے ہی نوٹیفکیشنز کی بھرمار ہوگئی تھی۔ شامی نے سب چیزیں نظرانداز کرکے اپنا اکاؤنٹ چیک کیا، اس کے سامنے عشال کے ساتھ اس کی تصویریں تھیں، 39 تصویریں تو وہ تھیں، جن کے بارے میں وہ خود بھی جانتا تھا جھوٹ کا پلندہ ہے، جبکہ دو تصویریں اس کی ہاسپٹل کے اسٹریچر پر تھیں۔ اور کیپشن میں اس کے سوسائیڈ اٹیمپٹ کی پوری خبر تھی۔
“یہ۔۔یہ؟ کچھ لمحے تک وہ آنکھیں پھاڑے یہ سب تکتا رہا اور پھر!
ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا۔۔ہاہا!!!!
وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی میں عجب طرح کی وحشتناکی تھی۔ جیسے کوئی بھیڑیا جنگل میں چیخ پڑے۔
*****************
چٹاخ!!
ایک بھاری ہاتھ اس منحنی سے لڑکے کے گال پر پڑا تھا۔
اور وہ ضرب کی تاب نہ لاتے ہوئے کھردرے فرش پر گرا تھا۔
“معاف کردیں سر! سر پلیز! معاف کردیں۔”
ایک ہی تھپڑ نے اس کا سارا طمطراق نکال دیا تھا۔
“بکواس بند! بالکل بند! صرف کام کی بات کرو، تمہارا کلائنٹ کون تھا؟ نام بتاؤ!”
“سر۔۔ وہ۔۔سر!”
چٹاخ کی ایک اور آواز گونجی اور اس کے ہونٹ سے خون کی لکیر بہہ نکلی تھی۔
“ایک۔۔۔ایک۔۔۔۔منٹ سر۔۔!”
لڑکے نے سنبھلنے کی کوشش کی لیکن سادہ کپڑوں میں ملبوس وہ اہلکار جیسے سننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس وقت وہ صرف ایک ہی کام جانتا تھا۔
ہاتھ چلانا!
“اوغ!!!”
ایک اور گھونسا پوری شدت سے لڑکے کے پیٹ میں پڑا تھا۔
“بتاتا ہوں سر۔۔۔ پلیز سر!”
“صرف نام۔۔۔! نام بتاؤ اپنے کلائنٹ کا۔۔۔!!”
بالآخر سفید کپڑوں والے اہلکار کی قوت سماعت لوٹ ہی آئی تھی۔
“کوئی سوٹیڈ بوٹیڈ آدمی تھا، اس نے انویلپ دیا تھا اور پھر چلا گیا تھا۔”
سفید کپڑوں والا اہلکار اب کسی سوچ میں تھا۔
“اس کا حلیہ یاد ہے؟”
لڑکے نے سر کو اثباتی جنبش دی تھی۔
“اسے دیکھ کر پہچان لو گے؟”
اس نے اگلا سوال داغا۔
“جج۔۔جی۔۔!”
مزید مار سہنے کی اس کی طاقت نہیں تھی۔ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کا عام سا انچارج تھا۔ اور سرکاری مہمان نوازی بھی پہلی بار ہوئی تھی۔
****************
“ہاں! میں نے کروایا ہے یہ سب!
میرے پاس یہی ایک راستہ تھا۔ اس لڑکی کا نکاح ہوچکا تھا۔ اور اس میٹر کو ایسے ہی ٹھیک کیا جاسکتا تھا۔ اب دیکھنا جلد ہی سب کچھ اپنی جگہ پر آجائے گا۔”
زبیر عثمانی نے جوتوں سے پیر آزاد کرتے ہوئے عائشہ کے گوش گذار کیا۔
“عزتوں کو اپنے پیر تلے روندنا تمہارا پرانا مشغلہ ہے، زبیر عثمانی! مگر کچھ تو اپنے مقام کا خیال رکھا ہوتا؟یہ ہی سوچ لیتے اب تم اکیس گریڈ کے آفیسر ہو! اس طرخ کی گھٹیا حرکتیں تمہیں زیب نہیں دیتیں۔”
عائشہ نے سرخ چہرے کے ساتھ زبیر عثمانی کو شرم دلانا چاہی تھی۔
“تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اپنے معاملات میں خود ہینڈل کرسکتا ہوں! ویسے بھی اس کام کے لیے میں نے ایک اور آدمی کو ہائر کیا تھا۔ میرا نام کہیں نہیں ہے۔”
زبیر عثمانی نے اطمینان سے کہا اور کاؤچ پر نیم دراز ہوگئے۔
“ہونہہ! اچھی طرح جانتی ہوں میں تمہارے سارے گڈز! آج تک تو مجھ پر ڈپینڈ کررہے ہو تم! ایک ٹکے کی اوقات نہیں ہے تمہاری میرے بغیر۔۔۔!”
عائشہ اس معاملے کو ہضم نہیں کر پارہی تھیں۔
“سنو! میں اس وقت تمہارا مرض جھیلنے کے موڈ میں نہیں ہوں، سو پلیز، اس ٹاپک کو یہیں ختم کردو!”
زبیر عثمانی تند لہجے میں جواب دے کر لا تعلق ہوگئے۔
“تم آخر چاہتے کیا ہو؟ مقصد کیا ہے تمہارا؟”
عائشہ نے زبیر عثمانی کی بات ہوا میں اڑائی تھی۔
عثمانی صاحب عائشہ کو جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
“یس۔۔!”
عائشہ نے قدرے بلند آواز سے کہا اور اس کے ساتھ ہی شامی اندر داخل ہوا تھا۔
پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے!
“مجھے آپ سے بات کرنی ہے ڈیڈ!”
شامی کا لہجہ بے لچک تھا۔
“یس۔۔؟”
عثمانی صاحب نے نارمل لہجے میں جواب دیا۔
“ڈیڈ! عشال کی پکس آپ نے کہاں سے حاصل کیں؟”
وہ سپاٹ لب و لہجے میں متفسر تھا۔
“تمہارے سیل سے۔۔۔”
زبیر عثمانی نے مختصر جواب دیا۔
“کیوں؟”
شامی کا اگلا سوال تھا۔
“تمہیں سکھانے کے لیے کہ معاملات کیسے ہینڈل کیے جاتے ہیں؟”
زبیر عثمانی اب بھی مطمئن تھے۔
“اپنے میٹرز میں خود ہینڈل کرسکتا ہوں! اینڈ پلیز۔۔۔۔، اب میرے کسی معاملے کے بیچ آپ نہیں آئیں گے۔ تھینک یو!”
شامی واپس جانے کے لیے مڑا،
“ایک بات میری بھی سن لو!”
زبیر عثمانی نے اس کے قدم بڑھانے سے پہلے اسے پکارا۔
شامی بیزاری سے ٹھہر گیا۔
“یہ فارم ہاؤس کی چابیاں رکھ لو!”
شامی آنکھوں میں سوال لیے مڑا، مگر زبیر عثمانی خود ہی بول پڑے۔
“جو ہونا تھا ہو چکا، اب ان کے ری ایکشن دینے کا وقت ہے۔”
اور بے پرواہ انداز میں کریم کافی کا مگ منہ سے لگا لیا۔
شامی نے چند لمحے ماں باپ کے چہرے دیکھے اور پھر چابیاں اٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔
اس کے باوجود اس کے انداز میں جارحیت تھی۔
“خدا کا خوف کرو زبیر! ہمارا ایک ہی بیٹا ہے، اور تم اسے بھی برباد کررہے ہو؟!”
عائشہ کرلائی تھی۔
“ایک ہی بیٹا ہے! اسی لیے اسے زندگی جینے کے گر سکھارہا ہوں۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک بادشاہ کا بیٹا ہے۔
اور بادشاہ کبھی خیرات نہیں مانگتے۔۔۔، محبت کی بھی نہیں!”
عائشہ ہونٹ بھینچ کر رہ گئیں۔
“ہمیں ان کے گھر پرپوزل لے کر جانا ہے، تیار رہنا۔”
زبیر عثمانی نے آخری بات کہی اور نظریں ہاتھ میں پکڑے سیاسی میگزین پر جمادیں۔
***************
“آپ بیٹھیں سر! صاحب ابھی آتے ہیں۔”
ایک سپاہی نے صارم کو کرسی پیش کی تھی اور خود کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
صارم نے ایک نظر سلیقے سے دجے أفس پر ڈالی تھی اور پھر اپنے موبائل میں مگن ہوگیا تھا۔
“ہیلو صارم!”
تھوڑے سے ہی انتظار کے بعد ایک اچھی ڈیل ڈول والا آفیسر اس کے سامنے تھا، دائیں کندھے پر خاقان کے نام کی نیم پلیٹ موجود تھی۔ اور انداز میں بے تکلفی تھی۔
“سوری یار! تمہیں انتظار کرنا پڑا۔”
“اٹس اوکے! خاقان، تم بتاؤ میرا کام ہوا؟”
صارم نے تکلفات میں پڑے بغیر پوچھا تھا۔
“تقریبا!”
خاقان نے جواب دیا اور کچھ سوچنے لگا، ایسا محسوس ہوتا تھا وہ اپنی بات کہنے کے لیے مناسب لفظ تلاش کررہا ہے۔
“کیا مطلب، تقریبا؟”
صارم نے تیز لہجے میں پوچھا۔
“پہلے تم مجھے بتاؤ، تم اس معاملے کو کس حد تک لے جانا چاہتے ہو؟ آئی مین، کیا تم اس کیس کو عدالت تک لے جانا چاہتے ہو؟”
خاقان کا انداز الجھاؤ پیدا کررہا تھا۔
“آف کورس ناٹ!”
میرے ان لاز اور خود میں بھی ایسا ہرگز نہیں چاہیں گے۔”
صارم نے وضاحت سے جواب دیا تھا۔
“اور میں بھی تمہیں یہی مشورہ دینا چاہتا تھا۔ کیونکہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے، بہتر ہےبات کو یہیں ختم کردو۔”
خاقان بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
“خاقان! کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ معاملہ تمہاری پہنچ سے دور ہے؟”
صارم نے مشکوک ہوکر اس کی طرف دیکھا تھا۔
“دیکھو صارم!”
خاقان ذرا سا آگے کو ہوا اور سمجھانے والے انداز میں بولا۔
“ہم نے مجرم کو پکڑلیا ہے، تصویروں کا معاملہ بھی سیٹل ہوچکا ہے، لیکن اس سے آگے، تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا! وہ بہت اسٹرونگ لوگ ہیں۔ ان سے بھڑنا نہ تمہیں زیب دیتا ہے اور نہ تمہارے بس کی بات ہے، وہ لوگ تمہیں خوار کرکے رکھ دیں گے۔”
خاقان نے صارم کے چہرے کو ٹٹولنا چاہا۔
صارم کچھ نہیں بولا، وہ شاید سوچ رہا تھا۔
“ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو!تمہاری صرف جگ ہنسائی ہوگی اور حاصل کچھ نہیں ہوگا، بہتر ہے جتنا ہوگیا اسی پر اکتفا کرو۔”
خاقان نے ایک بار پھر صارم سے کہا تھا۔
“اور ابشام زبیر؟”
صارم نے خاقان کی آنکھوں میں جھانکا۔
“وہ انوالو نہیں ہے۔”
خاقان نے ایک بار پھر اسے سمجھانے والے انداز میں جتایا تھا۔
“تھنکس خاقان! باقی میں خود سنبھال لوں گا۔ بس وہ تصویریں دوبارہ اپلوڈ نہیں ہونی چاہیئیں!”
صارم نے اتنا کہا اور سرد چائے چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور الوداعی مصافحہ کر کے آفس سے باہر نکل گیا۔
اپنی کار میں بیٹھ کر وہ سوچ رہا تھا کہ کم ازکم ایک پنچ تو ابشام زبیر کا حق بنتا ہی ہے۔
اسی لمحے اس کا سیل بج اٹھا تھا۔
“ہیلو!”
وہ فورا ہی مؤدب ہوا تھا۔
جی سر؟ پوسٹنگ؟ لیکن ابھی تو ٹائم ہے،”
صارم نے دوسری طرف کی بات سن کر اعتراض کیا تھا۔
“آہ کو دو دن تک جوائن کرنا ہے، اٹس این آرڈر صارم!”
“اوکے سر!”
صارم فقط اتنا ہی کہہ سکا۔
اس کا بلاوا آچکا تھا۔ اور نہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ چاروں طرف سے گھر چکا تھا۔
****************************
افق پر چاند بادلوں کی اوٹ سے درختوں کی شاخوں پر جھکا ہوا تھا۔ حبس زدہ دوپہر نرم رات میں ڈھل چکی تھی۔ شامی کے کمرے میں اے۔ سی کے خنکی پھیلی تھی اور کمرہ نیم روشن تھا۔
شامی بیڈ سے اٹھ کر لان میں کھلنے والی کھڑکی میں آکھڑا ہوا، ایک ہاتھ میں کافی کا مگ تھا۔ اور دوسرے ہاتھ میں سیل فون پکڑے وہ مسلسل عشال کی تصویر دیکھ رہا تھا۔
یہ تصویریں اس نے یونی میں جہاں کہیں وہ نظر آئی اس نے خاموشی سے اتار لیں، کبھی لائبریری میں، کبھی لان میں اور کبھی کسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے، اس نے عشال کا لمحہ لمحہ ان میں قید کر رکھا تھا۔ اور تنہائی میں وہ ان لمحوں کو جیتا تھا۔
اور زبیر عثمانی نے انھی تصویروں کو کسی تھرڈ کلاس ماڈل کی تصویروں کے ساتھ ایڈٹ کرکے فوٹو شاپ کروایا تھا۔
ایسی نام نہاد ماڈلز مارکیٹ میں بہت آسانی سے دستیاب تھیں۔
شامی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ لیا اور پھر کچھ سوچ کر ایک بار پھر نورین کا نمبر ٹرائی کیا تھا۔
“بکو! کیا بکنا چاہتے ہو؟ اب کیوں تنگ کررہے ہو مجھے؟ اتنا بڑا بلنڈر کرنے کے بعد بھی تمہیں چین نہیں آیا؟”
بالآخر کافی دیر کی کوشش کے بعد کال ریسیو کر لی گئی تھی۔ اور خاصے جارحانہ انداز کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ مگر شامی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔
“کہہ لو! جو کہنا ہے کہہ لو! بس ایک بار مجھ سے مل لو!”
شامی نے اطمینان سے مدعا بیان کیا تھا، گویا اسے کوئی فکر نہیں تھی۔
“جہنم میں جاؤ تم! میں پہلے ہی بہت گلٹی فیل کررہی ہوں، میں اب کسی معاملے میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی۔ گیٹ لاسٹ!”
اور رابطہ منقطع کردیا گیا۔
دوسرے ہی لمحے شامی نے پھر سے کوشش شروع کردی تھی۔
اور توقع کے برخلاف فورا ہی کال پک بھی ہوگئی۔
“تمہارا مسئلہ کیا ہے؟”
“وووو۔۔۔ویٹ۔۔۔ویٹ!
“صرف ایک بار مجھے بات کرنے کا موقع دو، میں عشال کے سامنے اپنی پوزیشن کلئیر کرنا چاہتا ہوں اینڈ دیٹس آل!”
شامی نے تیزی سے کہا، مبادہ وہ کال ہی نہ ختم کردے!
“عشال کو تو تم اب بھول ہی جاؤ! مجھے افسوس ہے شامی! کہ میں نے تمہیں ایک دوست جتنی اہمیت دی۔”
نورین نے دکھ سے کہا۔
“میں اس میں انوالو نہیں ہوں، تم چاہو تو انویسٹی گیٹ کرسکتی ہو!”
شامی نے ایک بار پھر اسے منانے کی کوشش کی۔
“سوری شامی!
میں اب تم پر یقین نہیں کرسکتی، کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ! مجھے اس سے اب کوئی غرض نہیں، بس آج کے بعد مجھ سے کانٹیکٹ مت کرنا!”
اتنا کہہ کر نورین نے رابطہ منقطع کر دینا چاہا۔
“کیا تم صرف آنکھوں دیکھے پر یقین رکھتی ہو نورین؟”
شامی کی بات نے نورین کو رکنے پر مجبور کردیا۔
“کہنا کیا چاہتے ہو تم؟”
نورین کو کنفیوز کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔
“یہی! کبھی کبھی حقیقت وہ نہیں ہوتی، جس طرح نظر آرہی ہوتی ہے۔ اگر تم مجھے ایک موقع دو، تو سب کچھ کلیئر کر سکتا ہوں۔”
شامی نے زور دے کر کہا۔
“تم سے دوسری بات اس وقت ہو سکتی ہے، جب تم سب کچھ ٹھیک کردو گے۔ اینڈ آئی ایم شیور! یہ تم ہی ٹھیک کر سکتے ہو۔۔۔”
نورین نے اتنا کہا اور کال بند کردی۔
“نو پرابلم ڈیئر!”
شامی کھل کر مسکرایا تھا۔ اسے یقین تھا وہ ٹھیک جگہ نشانہ لگا چکا ہے۔
****************
“میں جا تو رہا ہوں، لیکن واپس ضرور آؤں گا! میرا انتظار کرو گی؟”
ایک طویل تقریر کے بعد بالآخر وقار نے شافعہ کو نرم کر ہی لیا تھا۔ اگرچہ وہ دل سے خوش نہیں تھیں،لیکن صارم کی خوشی اور چاہت نے انھیں گھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
صارم کی روانگی کی خبر دونوں گھرانوں کے لیے زیادہ خوش کن نہیں تھی۔ مگر جانے سے پہلے صارم ایک بار عشال سے ملنا چاہتا تھا۔
آغاجان سے رخصت لینے کے بعد اس نے عشال سے ملاقات کی اجازت چاہی تھی، جو انھوں نے بخوشی دے دی تھی۔
ڈرائنگ روم میں سطوت آراء ضیاءالدین صاحب شافعہ کے ساتھ وقار اور آغا جان موجود تھے۔
جبکہ لاؤنج کی دہلیز سے لگی عشال سے، صارم بات کررہا تھا۔
اس نے دھیرے سے عشال کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
اور عشال نے آہستگی سے گردن اثبات میں ہلا دی تھی۔
“عشال! ایک وعدہ کرو مجھ سے۔۔۔۔آج کے بعد اپنا کوئی دکھ، کوئی تکلیف، کوئی مسئلہ مجھ سے نہیں چھپاؤ گی؟ اور اگر اب بھی تمہیں لگتا ہے، کوئی ایسی بات ہے جو مجھے معلوم ہونی چاہیے تو تم مجھ سے کر سکتی ہو! مجھے تم سے صرف بھروسہ چاہیے!
کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو؟”
صارم نے سر جھکا کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی تھی۔
“جی۔۔۔!”
عشال فقط اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
“اور صارم اس کی تمتماتی رنگت دیکھ کر پورے دل سے مسکرایا تھا۔
“شکریہ عشال! مجھ پر بھروسہ کرنے کے لیے، خدا حافظ!”
وہ ممنونیت سے کہتا واپس پلٹ گیا تھا۔
“بھروسہ تو آپ نے جیت لیا ہے میرا صارم! اور مجھے بھی! شکریہ صارم! بہت شکریہ!”
عشال نے زیر لب خود سے کہا تھا۔
وہ نہیں بھول سکتی تھی کہ بھری محفل میں اس کا اعتبار کرکے کس طرح اس شخص نے اسے معتبر کر دیا تھا۔
اور وہ سمجھتی تھی، اعتبار کا یہ کانچ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔
**************
***************
“تم یونیورسٹی نہیں جاؤگی!”
عشال تیاری کررہی تھی جب سطوت آراء نے اسے تنبیہہ کی تھی۔
“کیوں ماما جان؟”
وہ حیران سی پلٹی تھی۔
“أغا جان کا حکم ہے، تم گھر میں ہی امتحان کی تیاری کرو، اب رخصتی تک تمہیں گھر میں رہنا ہوگا۔”
“مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ میری کیا غلطی ہے، اس سب میں؟”
وہ بھیگی آنکھوں سے پوچھنے لگی۔
“غلطی چاہے کسی کی بھی ہو عشال! لیکن قیمت ہمیشہ لڑکی ذات کو چکانی پڑتی ہے، ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں۔ بہت مشکل سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے۔ شکر کرو، تمہاری سسرال اچھی ہے، ورنہ اتنی بڑی بات کوئی ہضم نہیں کرتا۔”
سطوت آراء نے سخت لہجے میں اسے باور کروایا تھا۔
“ماما پلیز! میرا پریکٹیکل ہے آج! مجھ پر یہ ظلم نہ کریں؟”
عشال کے آنسو بہہ نکلے۔
“سطوت آراء پریشانی سے اسے دیکھ کر رہ گیئیں۔
“سمجھنے کی کوشش کرو، عشال! ہم نہ تمہارے دشمن ہیں اور نہ تمہاری پڑھائی پر کوئی اعتراض ہے، لیکن اب تم پرائی امانت ہو، کوئی اونچ نیچ اس بار تمہیں بربادی سے نہیں بچا سکے گی۔ خدا کے لیے، ہماری مجبوریوں کو بھی سمجھو!”
سطوت آراء نے اس کی منت کی تھی۔
“ٹھیک ہے ماما! لیکن پلیز آج مجھے اجازت دے دیں، لائبریری کی کچھ کتابیں واپس کرنی ہیں۔ پلیز مجھے جانے دیں؟”
وہ گڑگڑائی۔
آخری بار وہ ان درودیوار کو دیکھ لینا چاہتی تھی۔ جو اب اس کے لیے اجنبی ہونے والے تھے۔
“کتابیں نورین کے حوالے کردینا وہ لوٹا دے گی، تمہارا جانا ضروری نہیں۔”
سطوت آراء فیصلہ صادر کر کے جا چکی تھیں۔
عشال نے دل میں اک ٹیس اٹھتی محسوس کی تھی۔
****************
ناشتے کی ٹیبل پر اس کی غیر موجودگی کو سب سے پہلے ضیاءالدین صاحب نے محسوس کیا تھا۔
“عشال کہاں ہے؟ اسے یونیورسٹی نہیں جانا؟”
“نہیں!”
آغاجان کا خیال ہے، عشال کو اب یونیورسٹی سے رخصت لے لینی چاہیے۔”
سطوت آراء نے آملیٹ کی پلیٹ ان کے سامنے دھرتے ہوئے جواب دیا۔
“میں بات کرتا ہوں آغا جان سے، یہ کوئی حل نہیں ہے مسئلے کا۔”
ضیاءالدین صاحب ناشتے سے اٹھ گئے تھے۔
“ارے۔۔۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ بات بھی کر لیجے گا۔”
سطوت آراء نے انھیں روکنے کی کوشش کی تھی، مگر ضیاء الدین صاحب ان سنی کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔
“عشال وہاں پہلے سے موجود تھی۔
“آغا جان! آپ نے تو وعدہ کیا تھا، کوئی چیز میرے خوابوں کے درمیان نہیں آئے گی۔ پھر اب؟ آپ کا میری ذات پر یقین متزلزل ہوگیا ہے یا آپ بھی دنیا کی نظر سے مجھے دیکھ رہے ہیں؟”
وہ ہاتھ جوڑے ان کے سامنے کھڑی تھی۔
“نہ ہمارا یقین متزلزل ہوا ہے اور نہ ہماری نگاہ میں فرق آیا ہے، یکن بیٹا! جو کچھ ہماری نظر دیکھ رہی ہے، وہ تم ابھی نہیں سمجھ سکتیں۔ بس اتنا جان لو! قیمتی سرمایہ ہمیشہ سات پردوں میں رکھا جاتا ہے۔”
آغا جان نے اسے سینے سے لگا کر کہا تھا۔
“لیکن آغا جان! یہ حفاظت میری سانسیں اکھاڑ رہی ہے، پلیز! مجھ پر یقین کریں۔”
وہ سسک رہی تھی۔
“تم پر ہمیں پورا یقین ہے، میری بچی! اس فتنہ پرداز زمانے پر یقین نہیں ہے۔ تم اب امانت ہو ہمارے پاس! پہلے سے زیادہ تمہاری حفاظت فرض ہے ہم پر! ایک بار خیریت سے رخصت ہو جاؤ، پھر جتنی چاہو اونچی پرواز بھرنا، تب کھلا آسمان ہو گا تمہارے سامنے!”
عشال شکستگی سے واپس مڑ گئی، وہ جان چکی تھی۔ اس کی طنابیں اب دوسرے ہاتھوں میں تھیں۔
“السلام علیکم آغاجان!”
ضیاءالدین صاحب نے ان کی خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی انھیں مخاطب کیا تھا۔
“وعلیکم السلام!
کچھ کہنے آئے ہو، ضیاءالدین؟”
غالبا آغا جان پہلے ہی ان کی آمد کا مقصد بھانپ گئے تھے۔
“جی آغا جان!”
مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔،”
انھوں نے عشال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“عشال جاؤ، جا کر ناشتہ کر لو شاباش!”
آغا جان نے صاف اسے ٹالا تھا۔
“وہ خاموشی سے پلٹ گئی۔
” آغا جان! یہ زیادتی ہے، عشال کے ساتھ! اس طرح اس کی پڑھائی چھڑوا دینا آپ سمجھتے ہیں مناسب ہوگا؟”
عشال کے جاتے ہی ضیاءالدین صاحب نے کھڑے کھڑے کہا تھا۔
“بیٹھو!”
آغا جان نے انھیں تسلی سے کہا۔
“ضیاءالدین صاحب نے آگے بڑھ کر آنشست سنبھالی۔
“پڑھائی نہیں چھڑوارہے، صرف احتیاط کررہے ہیں۔”
آغا جان نے وضاحت کی۔
“ایک ہی بات ہے آغا جان! اس بات کو جب تک ہم یاد رکھیں گے، دنیا بھی رکھے گی۔ بہتر ہے عشال پر کوئی پابندی نہ لگائیں۔ اپنی بچی کا مستقبل اپنے ہاتھ میں رکھیں، دنیا کی نگاہ میں نہیں۔”
ضیاءالدین صاحب نے انھیں سمجھانا چاہا۔
“تم جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو، ضیاءالدین! جبکہ ہم سارے پہلوؤں کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ ہم نے یہ فیصلہ خوشی سے کیا ہے؟
ہرگز نہیں! مگر ان دو دونوں میں دو سو بار ہم نے موت کا ذائقہ چکھا ہے۔ عشال ہماری جان ہے، اور ہمیں اپنی جان بہت عزیز ہے، لیکن عزت۔۔۔۔؟ جان سے زیادہ!”
آغا جان نے اتنا کہہ کر بات ختم کردی۔
“امید ہے تم ہماری بات سمجھ چکے ہو۔”
اتنا کہہ کر آغا جان اپنی رائٹنگ ٹیبل کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
ضیاءالدین صاحب کے پاس مزید لفظ نہیں تھے۔ چنانچہ خاموشی اور مایوسی سے پلٹ گئے۔
***************
شام اداس اور بے مہر سی تھی۔ جاتی گرمیوں کی زرد سی۔۔۔۔! عشال گھر کے لان میں تنہا کھڑی تھی۔ جب مین گیٹ سے اس نے اجنبی مہمانوں کو وارد ہوتے دیکھا۔
وہ چوکیدار سے کچھ کہہ رہے تھے۔
عشال تجسس لیے ان کی طرف بڑھ گئی۔
“جی! کس سے ملنا ہے آپ لوگوں نے؟”
عشال نے اس ماڈرن اور نفیس سے کپل سے پوچھا۔ اس کا خیال تھا۔ وہ لوگ غلطی سے یہاں آگئے ہیں۔ ورنہ ٹراؤزر اور نی لینتھ کی ٹاپ کے ساتھ دوپٹے سے بے نیاز اس فیشن ایبل خاتون اور تھری پیس ڈنر سوٹ میں ملبوس وجیہہ و شکیل مرد کا بھلا شہیر ولا میں کیا کام؟
“تم عشال ہو؟”
خاتون نے مسکرا کر الٹا اس سے سوال پوچھا تھا۔
“جی۔۔۔؟ میں ہی عشال ہوں! لیکن آپ۔۔۔؟”
اسے حیرت ہوئی تھی، یہ لوگ اسے کیسے جانتے تھے؟ عشال کو پھر اچانک ہی وہ خاتون یاد آئی تھیں۔
“آپ۔۔۔ عائشہ عثمانی؟”
عشال کے تاثرات بدلے تھے۔
مگر وہ اس وقت عشال کے گھر میں کھڑے تھے۔ وہ چاہ کر بھی بد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھی۔ یہ اس گھر کی روایات کے خلاف تھا۔
“کیوں آئی ہیں آپ یہاں؟”
لیکن وہ خود کو کہنے سے باز نہیں رکھ سکی۔
“آغا سمیع الدین صاحب سے ملنے۔۔!”
اس بار جواب زبیر عثمانی نے دیا تھا۔
******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...