۔۔۔۔ پاکستان کے جنرل پرویز مشرف جن اعلیٰ آدرشوں کے دعووں کے ساتھ اقتدار پر آئے تھے،ان کی بنیاد پر مجھ جیسے کئی لوگ نیک نیتی کے ساتھ ان سے بہت ساری توقعات وابستہ کر بیٹھے۔اپنی ان نیک توقعات کے باعث جنرل پرویز مشرف کو قوم کا نجات دہندہ اور مخلص رہنما سمجھ بیٹھے۔لیکن پاکستان کے حالیہ ”سیاسی عمل“ اور اس کے نتیجہ میں ”جمہوریت کی بحالی“اتنی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی ”کرپشن“ کے خلاف ساری تقریریں اور باتیں ایک مذاق معلوم ہونے لگی ہیں اور ”گڈ گورننس“ کے دعوے محض ”سیاسی بیان“ ثابت ہو گئے ہیں۔مجھے پاکستان کی حالیہ” جمہوریت کی بحالی“ پر مزید کچھ نہیں کہنا کہ میرے لئے یہ کہانی بہت تکلیف دہ ہو جائے گی۔اگرچہ میاں نواز شریف کی حکومت کوئی پاک پوتر حکومت نہیں تھی۔بلکہ وہ خود جنرل ضیاءالحق جیسے فوجی آمر کی پیدا کردہ ”سیاسی حکومت“ کا ثمر تھے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوجیوں کے ساختہ حکمران بھی ایک حد تک جانے کے بعد بالآخر عوام کے لئے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جب تک میاں نواز شریف میں ایسی سوچ توانا ہوئی تب تک وہ اپنی بعض غلطیوں کے باعث اقتدار سے محروم ہو گئے۔بے نظیر بھٹو کو بے شک دو بار اقتدار میں آنے دیا گیا لیکن فوج اور ایجنسیوں نے ایک طرح سے انہیں مجبور محض بنائے رکھا۔خود میاں نواز شریف بھی انہیں”غیبی اشاروں“پر بے نظیر بھٹو کو زچ کرنے پر تلے رہے۔بہر حال خوش امید لوگوں کی تما م تر خوش امیدیاں ”خوش فہمیاں“بن کرظاہر ہو چکی ہیں۔فوجی جرنیل اپنے پرانے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔وہی کھیل جو ایوب خان سے لے کر جنرل ضیا تک کھیلا گیا ،اب پھر نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ جاری ہے۔ایسی تکلیف دہ صورتحال میں پھر انتہا پسند سیاسی حلقوں کی یہ الزام تراشی دل پر کچھ اثر کرنے لگتی ہے کہ ”پاکستان کو کسی فوجی جرنیل نے نہیں،بلکہ سیاسی شخصیات نے بنایا تھا اور اس ملک کو جب بھی توڑا ہے یا برباد کیا ہے تو فوجی جرنیلوں نے ہی توڑا اور برباد کیا ہے۔اگر بعض سیاستدان اس لوٹ مار میں شامل ہوئے تو ان کو بھی فوجی جرنیلوں نے ہی ایسا کرنے کا اشارا دیا۔ سیاستدانوں کو بھی فوجی جرنیلوں نے ہی کرپٹ کیا ہے۔“
۔۔۔۔ پاکستان کے عوام کے حقیقی مسائل کو دیکھا جائے تو عوام کی بہت بڑی اکثریت کا مسئلہ تعلیم کا حصول، اچھا علاج معالجہ ،غربت کا خاتمہ اور دیگربنیادی انسانی ضروریات ہیں۔عوام کو غربت،بھوک ،بیماریوںاورجہالت سے جنگ کرنا ہے اور ان ساری مصیبتوں سے نجات پانا ہے۔کیا فوجی جرنیلوں نے اپنے زائد از ستائیس سالہ دور اقتدار میں عوام کے ان مسائل کے حل کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ؟انڈیا اور پاکستان کی دشمنی کو ہوا دے کر فوج کے مقتدر حلقوں نے بھلے اپنی جائیدادیں اور جاگیریں بنا لی ہوں لیکن غریب پاکستانی تو غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔انڈیا کے ساتھ خوامخواہ کی دشمنی سے ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے،الٹا ہمارے عوام کے مسائل اور دکھوں میں اضافہ ہوا ہے۔کشمیر کا مسئلہ یقیناً حل ہونا چاہئے ۔ اس کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداداورشملہ معاہدہ دونوں کی رو سے کشمیری عوام کی آزادانہ رائے ہی ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔یہی مسئلہ کشمیر کے حل کی اصل اور حقیقی بنیاد ہے۔بے شک انڈیا اس طرف آنے سے مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہا ہے،لیکن اب تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس معاملے کو لٹکائے رکھنا پاکستانی جرنیلوں کی بھی ضرورت ہو۔خدا کے لئے اب اپنے عوام سے یہ کھلواڑ بند کیجئے۔اور جنوبی ایشیا میں غربت اور جہالت کے پیدا کردہ انتہا پسندانہ تعصبات کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریں ۔پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور پاکستان کی اس وقت کی صورتحال پر مجھے فی الوقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔
۔۔۔۔پاکستان کے ان اندرونی امور سے ہٹ کرجنوبی ایشیا کی عمومی صورتحال بھی اس وقت انتہائی نازک مرحلوں سے گزر رہی ہے۔نیپال کے شاہی خاندان کا قتل،سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کی طویل خانہ جنگی،کشمیر ی عوام کی جدو جہد آزادی،ایسے امور ہیں جن سے صرف نظر کرنا حقائق کو چھپانے کے مترادف ہے۔تاہم اگر وقتی طور پر اس خطہ کے تمام اہم مسائل کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو پاکستان اور انڈیا کی کشیدگی ہی سارے خطہ کے امن کو برباد کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ میں نے اپنے کالم (ذیلی عنوان ”انڈوپاک مسائل اور مستقبل“)میں انڈیا اور پاکستان کے عوام کے اصل دکھوں،مصائب اور ضروریات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان ضروریات کو پورا کرنے اور دکھوں اور مصائب کو دور کرنے کے لئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے۔اس کے لئے میں نے خطہ کے دیرینہ مسائل کے ایماندارانہ حل کے ساتھ وسیع اشتراک عمل کی طرف توجہ دلائی تھی۔یورپی یونین کی طرز پر سارک یونین کا قیام ہی ہمارے سارے عوام کے دکھوں کا علاج ہے اور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔میرے لئے یہ اہم نکتہ ابھی بھی ایک خواب جیسا ہے،لیکن مجھے داخلی طور پر تحریک ہوئی ہے کہ میں اس بارے میں ایک بار پھر اور قدرے وضاحت کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے مقتدر سیاسی حلقوں اور موثر صائب الرائے دانشوروں کو اس طرف توجہ دلاؤں۔میرا مذکورہ بالا کالم القمر آن لائن ڈاٹ کام پر بھی موجود ہے اور اردوستان ڈاٹ کام پرتو 22 جولائی 2002 ءکی تاریخ کے ساتھ آن لائن موجود ہے۔ لگ بھگ پانچ ماہ کے بعد پاکستان کی ایک معتبر اور اہم سیاستدان بے نظیر بھٹو نے اس بات کواپنے ایک آرٹیکل میں اپنے انداز سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:”ہم کو ’سارک‘کو مضبوط کرنا چاہئے کیونکہ کشمیر کی وجہ سے سارک اپنا کردار ادا نہیں کرپارہا۔آہستہ آہستہ سارک کو کوشش کرکے یورپین کامن مارکیٹ کی طرز پر بڑھانا چاہئے کیونکہ اس خطہ کے دو ارب لوگوں کا مستقبل خطہ کے امن اور دوستی میں مضمر ہے“(بحوالہ مضمون”ہماری خارجہ پالیسی اور خطہ کی صورتحال“از بے نظیر بھٹو۔جنگ ۔انٹر نیٹ ایڈیشن 25 دسمبر2002 ء)
مجھے خوشی ہے کہ اپنی بعض ترجیحات کے باوجود (جو کہ حالات کے دباؤکا نتیجہ ہیں)ملک کی سب سے اہم سیاسی شخصیت نے بھی سارک ممالک کے اتحاد کا احساس کیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تصور کو اب انڈیا کے اہم سیاستدانوں اور دانشوروں تک بھی بڑھایا جانا چاہئے اور پاکستانی ارباب اختیار کو بھی اس پر بہت سنجیدگی سے اور عملیت پسندی کے حوالے سے غور کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔مجھے اندازہ ہے کہ ”اکھنڈ بھارت“کا خواب دیکھنے والے انتہا پسند ہندو سیاستدان بھی اس تصور کی اتنی ہی مخالفت کریں گے،جتنی پاکستان کے وہ عناصر کریں گے جو دل سے یہ چاہتے ہی نہیں کہ پاکستان اور انڈیا کی دشمنی ختم ہو۔تاہم یہاں میں انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں کے لئے اپنے طور پر کچھ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کا مسلمانوں کے خلاف سارا غیض و غضب اپنی جگہ ۔۔۔اپنے ہاتھوں سے تاریخ کو مسخ کرنے کے بعد سابقہ مسلم حکمرانوں پر لگائے جانے والے ان کے سارے الزامات بھی بر حق سہی۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ اگر آج کے سارے عالمِ اسلام کے حکمران خود اپنے عوام کے لئے کوئی بڑا منصفانہ اور فلاحی نظام نہیں لا سکے تو سابقہ صدیوں کے بر صغیر کے مسلم حکمرانوں کے کسی سچے،جھوٹے اور جائز،ناجائز فعل کا ذمہ دار موجودہ مسلمان عوام کو کیونکر گردانا جا سکتا ہے؟اور تاریخ کے نام پر ظلم اور انتہا پسندی کا کھیل کب تک جاری رکھا جا سکے گا؟سابقہ مسلم حکمرانوں کے کسی فرضی یا حقیقی کردار کو بنیاد بنا کر انتہا پسند ہندوتوا کی سیاست بالآخر نہ صرف ہندو دھرم کے لئے شدید نقصان کا موجب بنے گی بلکہ پورے خطے کی تباہی کا موجب بنے گی۔
۔۔۔۔ہندو انتہا پسندوں کے سیاسی کھیل کے سلسلہ میں بڑی حد تک ہمارے پاکستان کے مذہبی اسلامی انتہا پسند بھی ذمہ دار ہیں۔در اصل پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی روش جیسے جیسے فروغ پاتی گئی ویسے ویسے ہی انڈیا میں ہندوتوا کی لہر توانا ہوتی گئی۔اس کے لئے کسی طویل تاریخ کو کھنگالنے کی ضرورت بھی نہیں۱۹۸۰ءکے بعدپاکستان کے اسلامی انتہا پسند بتدریج طاقتور ہوتے گئے ۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی سرپرستی میں ہونے والے ”جہاد“ کے بعد پاکستان کے اسلامی انتہا پسند طبقے مالی، سیاسی اور عسکری ہر لحاظ سے مضبوط ہو گئے۔اور ان کے ” دینی حمیت کے جذبوں“کی تقلید کرتے ہوئے انڈیا میں ہندو انتہا پسند بھی ویسے ہی اپنے دھرم کے معاملے میں اپنی ”حمیت “کا اظہار کرنے لگے۔اس لئے میرے نزدیک بر صغیر کے سابقہ اسلامی حکمرانوں کے بجائے خود آج کے پاکستان کے انتہا پسند اسلامی حلقے ،ہندوستان میں ہندو توا لہر کو توانا کرنے میں زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اگر سیکولر انڈیاکے ہمسایہ میں کوئی اپنے دین سے وابستگی میں ”غیرت،حمیت“وغیرہ اوصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر نازکررہا ہے تو پھر انڈیا کے ہندو انتہا پسندوں کو بھی ویسے ہی اپنے دھرم کے معاملہ میں ”غیرت وحمیت“کا اظہار کرنے اور اپنے دھرم پر ناز کرنے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔لیکن یہی تو وہ فساد ہے جو ہمیں ہمارے اصل مسائل سے ہٹاکربھٹکا رہا ہے۔
۔۔۔۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح امریکی چالوں کے باوجود شمالی کوریا اور جنوبی کوریا اپنے اشتراک عمل میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں ،اسی طرح محض امریکی مفادات کی تکمیل کرنے کے بجائے سارک ممالک کو بالعموم اور پاکستان اور انڈیا کو بالخصوص مل بیٹھ کر نہ صرف اپنے مسائل کو حل کرنا چاہئے بلکہ اشتراک عمل کا ایسا منصوبہ وضع کرنا چاہئے جس میں سارک ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر فعال اور موثر بنایا جا سکے۔نیک نیت کے ساتھ قدم آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف اس سے دلوں میں سرایت کرجانے والے بہت سارے زہریلے تعصبات کا تدریجاًخاتمہ ہوگا بلکہ اس سے پورے خطہ میں امن و استحکام قائم ہو سکے گا۔فوجی اخراجات میں زبردست کمی کے ساتھ اس خطہ کے ممالک کو غربت کے خاتمہ کے لئے کسی بیرونی قرض یا امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔
۔۔۔۔سارک یونین کو یورپی یونین کی طرز پر متحرک اور موثر بنانا ہی اس خطے کے عوام کے مفاد میں ہے۔اس ”زمینی حقیقت“کا ادراک کرلینے والے ہی اس خطہ کے عوام کے دکھوں اور مصائب کا خاتمہ کر سکیں گے،جو قائدین اس حقیقت کے شعور سے محروم رہیں گے وہ اپنے ملک کے ساتھ برصغیر کے سارے عوام کو بھی دکھوں میں مبتلا رکھنے والے قائدین ہوں گے۔
سارک یونین آج کے وقت کی ضرورت ہے!
٭٭٭