لقمان ولاء
۔
ایان ملک اور وفا گاڑی سے اترے، لقمان ولاء آبادی سے ہٹ کر تھا، ارد گرد سبزے کا خوبصورت قالین بچھا ہوا تھا۔
چھوٹی سی دیوار ولاء کی حد بندی کر رہی تھی، وفا توصیفی نظر ڈالتی ایان کی معیت میں ولاء کے اندر چلی آئی۔
ولاء اندر سے انتہائی خوبصورت تھا۔
ایان وفا کے ساتھ لیونگ روم میں پرتعیش صوفے پر بیٹھ گیا، سامنے کی دیوار پر لقمان نائک اور خیام سعید کی تصویر آویزاں تھی۔
وفا کی آنکھیں بھر آئیں۔
ساریہ مضحمل سی چلتی اندر آئی، سفید چہرے پر ہونٹ کے پاس گہرے نیل کا نشان تھا، پیشانی سفید پٹی میں بندھی ہوئی تھی۔
وفا اٹھ کے ساریہ کے گلے لگ گئی۔
” آپ رک جاتیں ہمارے پاس۔”
وفا گلوگیر لہجے میں بولی۔
ساریہ نے اسے محبت سے گلے لگایا۔
” پھر لوگوں کی اوقات کیسے کھلتی مجھ پر۔”
ساریہ نائک خفیف سا مسکرائی۔
” آپ کو ان پر کیس فائل کرنا چاہیے۔”
ایان سنجیدفی سے بولا۔
” مجھے پریشانیوں سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے ایان، میں اب سکون چاہتی ہوں۔”
ساریہ نائک تھکن ذدہ لہجے میں بولی۔
” تم وفا کا خیال رکھنا، اب وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔”
ساریہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
” وفا کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا بھی تو نسلیں اجاڑ کر رکھ دوں گا نائک خاندان کی۔”
ایان سنجیدگی سے تیکھے لہجے میں بولا۔
” جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، وہ کم ز کم کمپنی واپس لینے کے لیے کچھ نا کچھ ضرور پلان کریں گے۔”
ساریہ نائک حقیقت پسندی سے بولی۔
” میں اب اہنی بیٹی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتی۔”
ساریہ نے وفا کو گلے سے لگا لیا۔
” آپ فکر مت کریں، وفا کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔”
ایان اٹھتے ہوئے بولا اور کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔
” میں چلتا ہوں اب، آفس جانا ہے، وفا کو شام میں پک کر لوں گا۔”
ایان ہاتھ جیبوں میں ڈالے نرمی سے بولا۔
” ٹھیک ہے۔”
وفا نے آہستگی سے سر اثبات میں ہلا دیا۔
” چائے پی کر جانا۔”
ساریہ نے لوازمات کی ٹرالی کو دیکھا اور پھر ایان کو۔
” نو اٹس لیٹ۔”
ایان ایک ہاتھ جیب سے نکالے اس کا رخسار تھپتھپاتا مڑ گیا۔
” شکر ہے تمہیں ایان جیسا ہمسفر مل گیا۔”
ساریہ نے اسکی طرف رخ موڑا اور چائے کا کپ وفا کو تھمایا۔
” جی۔”
وفا فقط مسکرائی۔
” ایان نے تم سے شادی کیسے کی۔؟”
ساریہ نے اسکے مسکراتے چہرے پر نگاہیں مرکوز کیں۔
وفا نے گہرا سانس خارج کیا۔
اسکی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا، وہ نائک ولاء سے پاکستان ٹریولنگ ایجنسی میں پہنچ گئی۔
گلاس ڈور دھکیلتی اندر داخل ہوئی، آج اسکا تیسرا چکر تھا۔
آفس کی سربراہی کرسی پر ایجنٹ ملک ثاقب مسکراتے ہوئے کسی سے باتیں کر رہا تھا۔
وفا نے ایک نظر اس مہمان پر ڈالی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
” آپ کے لیے ایک گڈ نیوز ہے مس وفا۔”
ثاقب نے رخ وفا کی طرف موڑا۔
وفا نے ناسمجھ نگاہ اس پر ڈالی۔
” ان سے ملیے، یہ میرے کزن ہیں مسٹر ایان ملک فرام کیلگری کینیڈا۔”
ثاقب نے تعارف کروایا۔
” ہیلو سر۔”
وفا سنجیدگی سے بولی اور ثاقب کی طرف متوجہ ہوئی۔
” میں آپ ہی کہ سلسلے میں بات کر رہا تھا۔”
ثاقب نے مسکرا کر کہا تو وفا نے سر اثبات میں ہلایا۔
” یہ آپ کی ہیلپ کر سکتے ہیں، آپ کو پیپر میرج کرنی ہو گی۔”
ثاقب کا لجہ تھوڑا مدھم ہوا وہ وفا کے تاثرات جاننے کے لیے رکا۔
” لیکن۔۔۔۔”
وفا کو حیرت ہوئی تھی۔
” جسٙ ہیپر میرج ہے، اس سے آپ کا فائدہ ہے، آپ کو گیارہ ماہ میں کینڈین سٹیزن شپ مل سکتی ہے۔”
ثاقب ہاتھ باہم ملائے اسے سمجھا رہا تھا، ایان ملک لاتعلق بنا موبائل میں مگن تھا۔
” یہ مسٹر میری ہیلپ کیوں کریں گے۔؟”
وفا نے ایک نظر مغرور سے ایان پر ڈالی۔
” ان مسٹر کو آپ کی ہیلپ کی ضرورت ہے۔”
ثاقب ایان کی طرف دیکھ کر مبہم سا مسکرایا، ایان گھوری سے نوازا۔
“تمہارے فضول مشورے اسلئے نہیں مانگے۔”
ایان تیکھے لہجے میں بولا۔
” میرے یار تمہارا فائدہ ہے، وفا خیام سمجھدار ہیں، تمہاری ہیلپ ہو سکتی ہے۔”
ثاقب نے منت بھرے لہجے میں ایان کو دیکھا، جو اتنا سمجھانے کے بعد پھر سے اکھڑ گیا تھا۔
” کیسی ہیلپ۔۔۔۔؟”
وفا نے ناسمجھی سے اکھڑ سے ایان کو دیکھا۔
” انکی وائف بن کر انکے ساتھ انکی فیملی سے ملنا ہے بس، جیسے ہی آپ کو سٹی زن شپ مل جائے گی، آپ کو آزاد کر دیں گے۔”
ثاقب نے ایان کو چپ رہنے کا کہا۔
” لیکن میں ایک انجان شخص پر ٹرسٹ نہیں کر سکتی ثاقب سر، میں پیمنٹ ارینج کر لیتی ہوں۔”
وفا اٹھتے ہوئے بولی۔
” پیپر میرج کر لیں گی تو آپ کا سارا خرچ ان کے ذمے ہوگا۔”
ثاقب بھی اسکے ساتھ ہی اٹھ گیا۔
” کیا گانٹی ہے یہ اس میرج کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔”
وفا نے سنجیدگی سے ثاقب کو دیکھا۔
” ایکسکیوزمی، میں کوئی گرا پڑا لڑکا نہیں ہوں، آپ کی ہیلپ کی ہامی بھری ہے الٹا باتیں بھی سنوں۔”
ایان تیز لہجے میں بولتا آفس کے دروازے کی سمت بڑھا۔
” اکیان بات تو سنو۔”
ثاقب پکارتا رہ گیا، لیکن ایان تن فن کرتا چلا گیا۔
” مسٹر ثاقب میں رسک افورڈ نہیں کر سکتی۔”
وفا سنجیدگی سے بولی۔
” وہ غصے کا تیز ہے، لیکن کردار کا پختہ ہے، آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔”
ثاقب نرمی سے بولا۔
” آپ کی پریشانی کو مدنظر رکھ کر میں نے اپنے کزن کا منایا ہے، ایسا کوئی نہیں کرتا اپنے کلائینٹس کے لیے۔”
ثاقب نرمی سے بولا تو وفا بیٹھ گئی۔
” میں آپ پر ٹرسٹ کر رہی ہوں ثاقب سر۔”
وفا نے سنجیدگی سے ثاقب کو دیکھا۔
” آپ میری بہن کی طرح ہے۔”
ثاقب نے یقین دلایا۔
وفا نے گہرا سانس خارج کیا۔
” وہ مسٹر تو نکل گئے، اگر نہ بھی مانے تو کوئی بات نہیں میں ہیسوں کا بندو بست کر لوں گی۔”
وفا اٹھتے ہوئے بولی اور اللہ حافظ کرتی نکل گئی۔
آفس سے باہر نکلی تو ایان ملک شیڈ تلے گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
وفا نے سامنے کھڑی لڑکیوں کو ایان کو گھورتے دیکھا اور سر جھٹکتی چلی گئی۔
” یار وہ لڑکی بہت مجبور ہے۔”
ثاقب آفس سے نکل کر ایان کے پاس آیا۔
” تو۔”
ایان ملک کا وہی اکھڑ انداز۔
” تو اسکی ہیلپ کرنے میں کچھ نہیں جائے گا، فارہ بے اسے ریکمنڈ کیا ہے ”
ثاقب نے اپنی بہن کا نام لیا۔
” اس کی اکڑ دیکھی ہے۔”
ایان کا وفا کا ریزرو رویہ برا لگا۔
” جن کے کردار پختہ ہوتے ہیں، ان میں اکڑ تو ہوتی ہے، اپنی طعف دیکھ لو۔”
ثاقب آخر میں ہنسا۔
ایان نے گھونسا اسکے پیٹ میں رسید کیا اور اندر چلا آیا۔
” یار مان بھی جاو، ادے گھر لے جانا، تمہارا ہرابلم بھی سولو ہو جائے گا شادی کا۔”
ثاقب نے اسکی تنی شکل کو دیکھا۔
” اگر اس لڑکی نے کوئی ایشو کرئیٹ کیا تو۔۔۔۔۔”
ایان نے دایاں ابرو اٹھا کے ثاقب کو دیکھا۔
” وہ بے ضرر سے لڑکی ہے۔”
ثاقب نے یقین دلایا اور مزید تین گھنٹے کی سر کھپائی کے بعد ایان پیپر میرج کے لیے راضی ہوا۔
چار روز بعد نکاح کے دن
وفا نے پیپرز پر سائن کیے، ایان سنجیدہ شکل بنائے بیٹھا تھا۔
نکاح ہوا اور ثاقب نے باقی کاغذات بنائے اور وفا کی ٹکٹ اس دن کی بک کروا دی جس دن ایان ملک واپس جانے والا تھا۔
” اپنے ہی کزن کو بکرا بنا دیا۔”
ایان خفگی سے بولا۔
فلائٹ کے دن۔
ایان ریڈی ہو کر ثاقب کے آفس چلا آیا۔
سات بجے کا وقت تھا۔
” آئی نہیں تمہاری کلائنٹ۔؟”
ایان نے کوفت سے گھڑی کو دیکھا۔
” آجائے گی۔”
ثاقب پیپرز سیٹ کر کے فائل میں رکھتے ہوئے بولا۔
” کال کرو اسے، آنا ہے تو آجائے ورنہ میں فلائٹ مس نہیں کرنے والا۔”
ایان نے حتمی انداز میں کہا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
ایک گھنٹے کے مزید انتظار کے بعد ثاقب اٹھ گیا۔
” میں وفا کا پتہ کرتا ہوں، وہ اتنی غیر ذمہ دار نہیں ہے۔”
ثاقب باہر نکلنے لگا۔
” میں بھی چلتا ہوں۔”
ایان اسکے ساتھ ہو لیا۔
ایڈریس دیکھتے گاڑی ایک محلے سے گزر رہی تھی۔
ایک گھر کے سامنے رکے ہی تھے، جس کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ دونوں باہر نکل آئے۔
فرش پر سر گھٹنوں میں دیے بھورے بالوں کی حامل لڑکی سسک رہی تھی۔
چھ فٹ کا حامل نوجوان اسکے سر پر ڈنڈے سے وار کرنے کو تھا، ایان نے سرعت سے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
لڑکی نے سر اٹھایا تو وہی وفا خیام تھی، اسکا چہرہ چوٹوں سے نیل نیل ہو رہا تھا۔
ایان کا خون کھول گیا تھا، پر ضبط کرتے اسنے ڈنڈا جھٹکا اور وفا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
ماضی سے حال میں لوٹتے وفا کی آنکھیں نم تھیں، ساریہ نائک مسلسل رو رہیں تھیں۔
” میری کوتاہی کی سزا میری بیٹی بھگتتی رہی ہے۔”
ساریہ نائک شرمندگی کے آثار لیے ہچکیوں سے رو دی۔
” جو پاس تھے، وہ کبھی پاس نہیں آئے تھے، آپ تو پھر دور تھیں۔”
وفا نے سر انکے سینے پر رکھ لیا۔
” ایک دوسرے کی بے وفائی کی سزا مجھے دے دی۔”
وفا سوچ کر رہ گٙی۔
ساریہ نائک پہلے ہی بے حد شرمندہ تھی۔
وفا نے مامتا کی پرسکون ٹھنڈی چھایا کے آغوش میں آنکھیں موند گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساریہ اور لقمان نائک کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔
لقمان نائک نے نائک ولاء ان کے نام کردیا۔
شادی کے بعد وہ ایک فیملی کے طور پر ڈنر کرنے باہر گیے تھے۔
ہیملین ہوٹلز کے فرسٹ فلور پر تینوں نفوس ڈنر کر رہے تھے، دائیں جانب بنے پول کے شفاف پانی پر روشنیاں منعکس ہو رہیں تھیں۔
انتہائی خوبصورت سماں بصارت کو ترواٹ بخش رہا تھا۔
لقمان نائک ساریہ کی کھلکھلاہٹ میں خوشی کے گہرے رنگ محسوس کر ریے تھے۔
دل سے دائمی خوشیوں کی دعا مانگتے وہ ڈرائیور کے ساتھ گھر آگئے۔
ساریہ اور خیام لونگ ڈرائیو پر چلے گئے۔
” خیام ذندگی حسین لگ رہی ہے۔”
ساریہ نائک دل کی خوشی زباں پر لے آئی تھی۔
خیام نے فقط مسکراتی نظر اس پر ڈالی۔
” آپ ذندگی سے کم حسین تو نہیں ہیں مادام۔”
خیام شوخی سے بولا تو ساریہ نائک کے گلابی دودھیاہٹ ملے رخسار دہکنے لگے۔
” خیام آپ بہت کم تعریف کرتے ہیں، پر جب کرتے ہیں، میں خود دنیا کی خوش قسمت لڑکی تصور کرتی ہوں”
ساریہ محبت پاش نگاہیں خیام سعید کے خوبرو چہرے پر مرکوز کیے جذب کے عالم بولی۔
” میں بار بار تعریفوں کے انبار لگا کر، تعریف کی دلکشی خراب کرنے کے حق میں نہیں۔”
خیام گاڑی آہستہ سپیڈ پر چھوڑے ساریہ کی جانب متوجہ ہوا۔
” کو آر سچ آ ڈفرنٹ پرسن۔”
ساریہ اسکے گال پر اپنا مخملی نرم ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، خیام سعید کی شیو کے بال اسے ہتھیلی میں گدگدی کرتے محسوس ہوئے۔
” ییس آئی ایم، بی کاز مائی پرنسس از ون ان دا ورلڈ۔”
خیام محبت سے مخمور لہجے میں مدھم سا بولا، اسکے لہجے کی گھمبیرتاً ساریہ نائک کے نازک دل میں طلاطم برپا کر گئی۔
” آئی وش خیام آپ میرے ساتھ ساحل کنارے چلیں، جہاں سمندر ساحل کنارہ کھو دے، وہیں بے شک آپ مجھے چھوڑ جانا۔”
ساریہ ٹھوڑی اسکے مضبوط شانے پر رکھتی ہوئی مسکرا کر بولی۔
” سمندر ساحل کبھی نہیں کھوتے مادام۔”
خیام ترچھی نظر اسکی دودھیا رنگت پر ڈالتے ہوئے بولا۔
” تو میں آپ کو کھونے کی متحمل کیسے ہو سکتی ہوں خیام۔”
ساریہ لاڈ بھرے انداز میں بولی تھی۔
خیام سعید اسکے سر سے سر ٹکرائے مسکرا دیا، عنابی لب مسکراہٹ میں کیا ڈھلے، وجیہہ چہرہ گلاب کی مانند کھلتا چلا گیا، ساریہ نائک نے والہانہ انداز میں اسے دیکھا۔
” آئی لو یو سو سو سو سو مچ۔”
ساریہ آنخضیں میچ کر بولی، مخروطی انگلیاں خیام سعید کے کندھے پر دھریں تھیں۔
” بٹ آئی کانٹ لو یو۔”
خیام سنجیدہ ہوا، ساریہ یکلخت کو پیچھے ہٹی، بھوری چمکتی روشن آنکھیں پل بھر میں ساگر کا روپ دھار گئیں، نازک حسینہ کا نازک دل مٹھی میں آ کر مسلا گیا تھا۔
رخساروں پر موتی پھسلنے لگے تھے۔
خیام سعید کے پیر نے بریک پر دباو ڈالا اور گاڑی کیلگری کی سنسان سڑک کے بیچ رک گئی۔
” ساریہ۔!”
خیام اسکا حسین مکھڑا ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے بولا، نازک حسینہ شاید تھک گئی تھی،مزاحمت کر ہی نہیں پائی۔
” آپ میرا پیار تھیں، اب پیار سے بڑھ گئیں ہیں، خیام سعید ساریہ خیام کے بغیر جی ہی نہیں پائے گا۔”
خیام نے اسے آغوش میں بھرا۔
کون جانتا ہے، وقت بازی پلٹ کر الفاظ منہ پر دے مارتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...