میں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔ساری بات؟؟؟ کیا بات؟؟؟
“وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔کچھ دیر وہ چپ کر کے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر گویا ہوا
“چلو چھوڑو ان سب باتوں کو ٹیچر۔میں تمہیں ایک ہنستی بستی خوشحال فیملی کا قصہ سناتا ہوں۔سنو گے نا؟؟؟”
اس نے مجھ سے جواب چاہا۔میں نے پہلے کی طرح محض اپنا سر ہلایا۔۔۔
“ایک فیملی تھی۔ بڑا بھائی،چھوٹی بہن اور ان کے والدین۔ بہت ہی خوشحال گھرانہ تھا۔ ہر وقت قہقہے،ہنسی،مذاق۔لوگ اس فیملی پر رشک کرتے تھے۔کسی چیز کی کمی نہ تھی۔بہن بھائی کی آپس میں خوب بنتی تھی۔ بلکہ چھوٹی بہن تو بھائی کی شہزادی تھی۔اس کی کون سی ایسی فرمائش تھی جو بھائی نے کبھی پوری نہ کی ہو۔ وہ سب یونہی خوش و خرم ذندگی گزار رہے تھے۔ بہن نے میٹرک پاس کیا۔اسے ایک بہترین نجی کالج میں داخل کرادیا گیا ۔سب اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔وہ خود بھی یہیں چاہتی تھی۔ کالج میں شروع کے دن اس کے شاندار گزرے۔روز شام کو وہ جوش و خروش سے کالج کے قصے سناتی۔وہ اس گھر کی خوشی تھی۔ آہ!!!! ان کی خوشی پر ایک وحشی کی نظر پڑ گئی۔ وہ اس کا ٹیچر تھا۔ وہ انتہائی شاطر انسان تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے اور بہترین پرسنالٹی کے پیچھے ایک حوس پرست درندہ چھپا تھا۔ نجانے وہ اپنی ہی کتنی معصوم طالبات کی ذندگیاں اجاڑ چکا تھا۔ اب کے اس کی نظر اس لڑکی پر پڑگئی۔اپنے طریقہ واردات کے مطابق اس نے پہلے اس لڑکی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر کیا۔بات بات پر کلاس میں اس کی طرف توجہ دینا،اس سے سوالات کرنا۔۔۔ وہ معصوم اس کے جال میں پھنستی گئی۔جلد ہی وہ اس کا “فیورٹ موسٹ” ٹیچر بن گیا۔مگراس کے لیے وہ محض ٹیچر ہی تھا۔اس کے دل میں اور کوئی خیال نہ تھا۔وہ تو محض ایک بےوقوف سی معصوم سی لڑکی تھی۔جس نے دنیا ہی نہ دیکھی تھی۔اس کے لیے تو سب ہی اچھے تھے کیونکہ وہ خود اچھی تھی۔ اس لیے وہ اس ٹیچر پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنے لگی۔ایک دن ٹیچر نے اس لڑکی کو چھٹی کے بعد اپنے آفس بلوا بھیجا۔کہا گیا پیپر کے معاملے میں ضروری بات کرنی ہے۔چھٹی ہوتے ہی وہ اس کے آفس چلی گئی۔ٹیچر آفس میں نہ تھا۔جان بوجھ کر وہ کافی دیر سے پہنچا۔زیادہ تر سٹوڈنٹس اور ٹیچرز تب تک جا چکے تھے۔شاید اس دن اس ٹیچر کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اس نے لڑکی کے ساتھ دست درازی شروع کر دی۔وہ بیچاری بدحواس گئی۔پہلے تو اسے یقین نہ آیا کہ یہ وہیں پیاری پیاری باتیں کرنے اور اچھائی کا درس دینے والا ٹیچر تھا۔لیکن جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے چلانا شروع کردیا۔ٹیچر یک دم بوکھلا گیا۔فوراً اسے دھکا دے کر آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔سن رہے ہو نا ٹیچر؟؟؟”
اس نے مجھے متوجہ کیا۔میں سن رہا تھا۔ایک ایک لفظ۔۔۔بغور۔۔ اس لیے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“اس واقعے کے بعد وہ معصوم چپ چپ رہنے لگی۔ادھر ٹیچر اپنے ٹھکرائے جانے کا بدلہ لینے کے لیے تل گیا۔اپنے ایک دو چہیتے سٹوڈنٹس کے ذریعے اس نے اس لڑکی کی کردار کشی شروع کردی۔بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک جا پہنچی کہ وہ لڑکی پورے کالج میں بدنام ہوگئی۔کوئی کہتا اس لڑکی نے ٹیچر کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کی،کوئی کہتا کہ وہ بدچلن ہے۔۔۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس معصوم کا گھر سے باہر قدم نکالنا محال ہوگیا۔اور ایک دن وہ ہار گئی۔صبح اس کے گھر والے تو اٹھے مگر وہ نہ بیدار ہوئی۔ جب اس کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو وہ پنکھے سے جھول رہی تھی۔یہ منظر دیکھ اس کے بابا سہہ نہ پائے۔موقع پر ہی ہارٹ اٹیک نے انہیں ہسپتال پہنچا دیا۔ماں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔۔۔۔یوں وہ گھر کہ جہاں کبھی قہقہوں کی گونج ہوتی اب قبرستان بن چکا تھا۔۔۔”
وہ چپ ہوگیا۔مجھے ایک بار پھر شدید درد کا احساس ہونے لگا۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور میرے نزدیک آیا۔۔۔
“کیوں کیا تم نے ایسا ٹیچر؟؟؟”
اس نے آہستگی سے کہا۔میرا سر جھکا ہوا تھا۔مجھے دوسال پہلے کے وہ واقعات یاد آنے لگے۔علینہ انتہائی معصوم اور خوبصوت سٹوڈنٹ تھی۔۔۔بہت خوش اور ہر وقت مسکرانے والی۔۔۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔۔۔
“میں نے کچھ پوچھا ہے ٹیچر۔۔۔کیوں کیا ایسا؟؟”
اب کی بار وہ چیخا۔۔۔
“مممم۔۔۔میں ۔۔۔شرررمندہ۔۔۔”
میں جانتا تھا کہ ایسی حالت میں اس واقعے سے مکرنے یا صفائیاں دینے کا مطلب اسے مزید غصہ دلانا۔۔۔اس لیے میں اتنا ہی کہہ پایا کہ ایک زوردار مکہ میرے ناک پر پڑا۔ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا۔
“شرمندہ؟؟؟؟؟ خبردار۔۔۔خبردار جو تم نے یہ لفظ منہ سے نکالا اگر”
اس کے لہجے میں غصہ کم نفرت زیادہ تھی۔
“معصوم تھی میری بہن۔۔۔۔ معصوم۔۔۔۔آہ!!!!”
ّاس کی آواز بھرانے لگی تھی۔اس لیے کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔۔۔پھر ایک دم اسے کچھ یاد آیا۔وہ کمرے کے ایک کونے کی طرف دوڑا۔سامان اِدھر اُدھر کیا۔شاید وہ کچھ تلاش رہا تھا۔جب پلٹا تو اس کے ہاتھ میں ٹیڈی بیئر تھا۔
“یہ۔۔۔یہ ٹیڈی دیکھ رہے ہو ٹیچر۔۔۔۔علینہ۔۔۔میری بہن۔۔۔اس کو سب سے زیادہ عزیز تھا۔۔۔دیکھو اس کو۔۔۔غور سے دیکھو۔۔۔۔ اسے دیکھ کر بتاو وہ کتنی معصوم ہوگی۔۔۔ہم نے تو کبھی اس کا بچپنا نہ جانے دیا۔مگر تم۔۔۔۔ذلیل انسان۔۔۔تم نے اس کی ساری معصومیت سارا بچپنا یک مشت خاک میں ملا دیا۔۔۔آہ۔۔۔۔آہ!!!!”
وہ غصے میں اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتا جاتا اور روتا جاتا۔۔۔۔ ایک بچے کی مانند۔۔۔ایک لمحے کو تو میں بھول ہی گیا کہ یہ وہیں شخص ہے جس نے میرا یہ حال کیا ہے۔
“میری شہزادی تھی وہ!!! جب بھی مما بابا اسے ڈانٹتے دوڑ کر میرے پاس پہنچ جاتی۔۔۔۔چھوٹی سے چھوٹی شکایت لگاتی مجھے۔۔۔مما اسے “بھائی کی چمچی” کہہ کر چھیڑتیں۔۔۔۔آہ!!!!!!!!! تم نہیں جانتے بدذات شخص۔۔۔تم نے ہمارا سب کچھ غرق کر دیا۔۔۔۔”
اس نے ماسک اتار دیا تھا۔اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو بارش بن برس رہے تھے۔ اس کی باتیں۔۔۔۔”
وہ کہانی سناتے سناتے چپ ہوگیا۔جیسے پچھتاوے اور شرمندگی کے بوجھ تلے دب گیاہو۔میں اسے غصے اور حقارت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔میرا دل چاہ کہ اس ٹیچر کو اٹھا کر دیوار پہ دے ماروں۔وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہوا
“میں اس سے نظریں نہیں ملا سکتا تھا۔میرا ضمیر جو نجانے کتنے سالوں سے مر چکا تھا اچانک زندہ ہوگیا۔رہ رہ کر میری آنکھوں کے سامنے علینہ کا مسکراتا چہرہ آرہا تھا۔
“تم انسان نہیں درندے ہو۔درندے ہو تم۔۔۔۔”
وہ ایک دم پھٹ پڑا۔اس نےمجھ پر تھپڑوں کی بارش شروع کردی۔کافی دیر وہ یونہی مجھے مارتا رہا۔پھر تھک کر پیچھے ہوگیا۔میری ٹانگ اب مکمل سُن ہوچکی تھی۔جیسے کبھی تھی ہی نا۔البتہ ہاتھ مسلسل درد کیے جارہے تھے۔۔۔۔
“آہ!!!! علینہ! میری گڑیا!!! وحشی انسان تمہیں ذرا بھر ترس نہ آیا؟؟؟؟؟ خداااااااایا!!!!!!!”
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اس کی آنکھیں لگاتار برس رہی تھیں۔۔۔ میں نے ایک موہوم سی امید کے تحت بولنے کی ہمت کی۔۔۔
“ممم۔۔۔معاف۔۔۔مجھے۔۔۔معاف۔۔کردو۔۔۔”
ابھی میں اتنا ہی کہہ پایا کہ اس نے لپک کر اپنے پاس پڑا لوہے کاراڈ اٹھایا اور میری طرف دوڑا۔میں یکدم سہم گیا۔اس نے دیوانہ وار میری دوسری ٹانگ پر راڈ سے وار کرنا شروع کردیا۔میری چیخیں نکل گئیں۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ کب رکا۔مگر جب رکا تو میری ٹانگ پر کئی پھٹ پڑ چکے تھے۔ساری ٹانگ خون سے بھر چکی تھی۔
“بسس!!! بہت ہوگیا!!! وہ دیکھو اوپر۔۔۔میری گڑیا۔۔۔اپنا معصوم چہرہ لیے مجھ سے انصاف مانگ رہی ہے۔انصاف کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔”
اس نے اپنی پینٹ میں اڑسا ایک خنجر نکالا۔ایک نظر اوپر سے نیچے مجھے حقارت سے دیکھا۔پھر اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف بلند کیا۔۔۔
“یہ میری شہزادی کی ہنسی چھیننے کے لیے۔۔۔یہ میری گڑیا کی معصومیت ختم کرنے کے لیے۔۔۔۔یہ میری باحیا بہن پر قدغن لگانے کے لیے۔۔۔یہ میری پاکیزہ بہن پر گھٹیا نظر رکھنے کے لیے۔۔۔۔”
وہ میری آنکھوں،شانوں، چہرے،بازوں پرلگاتار وار پہ وار کیے جارہا تھا۔۔۔اور جب اسے لگا کہ میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔۔تب ایک آخری وار اس نے عین میرے دل پر کیا اور چلایا۔۔۔
“یہ میری چھوٹی کے پنکھے سے جھولتے جسم کے لیے۔۔۔”
اس کی آواز آخری مرتبہ میرے کانوں میں پڑی۔۔۔”
کہانی ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔میں ہکا بکا اسے گرتے ہوئے دیکھتا رہا۔اس کے جسم کا کون سا حصہ تھا کہ جو زخمی نہ ہو۔آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا۔مجھے نجانے کیوں اسے اس حالت میں دیکھ سکون مل رہا تھا۔