محمود ہاشمی(دہلی)
’’صریر خامہ‘‘ کی شاعری، ہئیت کی نسبت مواد کے غلبے اور تسلط کو پیش کرتی ہے یعنی اس مجموعہ کی شاعری جو بظاہر غزل کی صنف پر مشتمل ہے، معنوی لحاظ سے خالص مواد، جس میں ہئیت کا داخلی کردار یا تو منقود ہے، یا مواد کے لیے انتہائی بے ضرر ہے ہئیت اور مواد کے اتحاد و انتخاب میں، مظفر حنفی نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بڑی حد تک مارکسی نظریہ فن کا حامل ہے۔مظفر حنفی نے خالص اسلوب اور ہئیت والی ’’چکنی غزل ۱‘‘ سے انحراف کیا ہے اور نئی ہئیت کی نسبت شعری میں مواد کی بنیاد کو لازمی قرار دیا ہے۔
مواد و ہئیت کے ضمن میں اس نظریاتی مارکسیت کے علاوہ شاعر نے اپنے عہد اور اپنی شخصیت کو اجتماعی زندگی اور عوام الناس کے انبوہ سے الگ نہیں کیا ہے۔ بلکہ اپنی آواز کو غیر انفرادی انداز میں تخاطب کا بلند آہنگ وسیلہ بنایا ہے، اس تخاطب کا مواد اپنے عہد کی زندگی، مظاہرات اور عوامل سے حاصل کیا گیا ہے۔ اشیاء اور عوامل کی جانب شاعر کا رویہ ایسے مبصر کا ہے جو پیدل چلنے والے مسافر کی طرح مظاہرات کا قریب سے مطالعہ کرتا ہے اور اس مطالعہ کا رد عمل کو بلند آواز میں بیان کرتا ہے۔ چوں کہ شاعر کا رد عمل خارج کی سمت اختیار کرتا ہے، اس لیے لب و لہجہ کھردرا اور بعض اوقات عامیانہ ہے لہجہ کی اس بے ساختگی اور حقیقت آمیز روش کے باعث اشعار میں نثری منطق بہت نمایاں ہے اور وہ پیچیدگی نہیں ہے جس کے لیے جدید شاعری کو معتوب قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، مظفر حنفی کے مشاہدات کا اظہار، سماجی تنقید اور بورژوا تصورات و عناصر سے ٹکرانے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات حقیقی، ترقی پسندی کو واضح کرتی ہیں۔ لیکن حیرت اور تعجب ہے کہ محمد حسن، جو سچی جدیدیت کو نئی ترقی پسندی کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ اور اس اصطلاح کو رواج دینے کے لیے تدریسی نوعیت کی جدوجہد میں مصروف ہیں، مظفرر حنفی کی ان خصوصیات کی جانب متوجہ نہیں ہو سکے، جب کہ مظفر حنفی موجودہ شعرا میں مذکورہ خصوصیات کے لیے منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ سماجی کش مکش اور عمرانی اقدار سے نبرد آزمائی میں، مظفر حنفی نے شعوری طور پر ایسا رویہ اختیار کیا ہے، جس میں تیکھا پن موجود ہے۔ مظفر حنفی اس تیکھے پن کو طنز کا مترادف سمجھتے ہیں اور اپنے شعور و آگہی کی بے باکی کو تمام تر مردانگی کے ساتھ واضح کرتے ہیں:-
تیرا گماں غلط ہے، شعوری عمل ہے یہ
ابھری نہیں ہے طنز، مرے لاشعور سے
شاعر کی اس توثیق سے نہ صرف یہ کہ جرات مندی کا احساس ہوتا ہے بلکہ شاعر کے ترقی پسندانہ تخلیقی عمل کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے۔مظفر حنفی کے اشعار کی ایک اور خصوصیت ان کے مقطے ہیں، جو ہرانفرادی غزل کے مواد کو، ایک تحکمانہ فیصلہ کے ساتھ تکمیل کی نمزل تک پہونچا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ مقطعوں کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا:
مظفر آپ کی ترچھی اڑانیں کام آئیں گی
سنا ہے کہ فن کے دروازے پہ پہرے دار بیٹھے ہیں
اپنے اشعار کے لہجے سے مظفر صاحب
بھیڑ میں دور سے پہچان لیے جاتے ہیں
مظفر ہمیں تجربہ ہوچکا ہے
کہ آساں ہے شاعر سے نقاد ہونا
مظفر آج کے نقاد بھی جانبدار ہوتے ہیں
ہمارا نام ان کے ذہن میں آئے گا مشکل سے
اگر عوام سے نزدیک ہوں مظفر میں
تو اک خفیف سا کج بھی مری کلاہ میں ہے
غزل کا مقطع، صرف شاعر کے تخلص کا اعلان نہیں، بلکہ شاعر کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کی غزل کا مقطع ایک ایسے شاعر کی داخلی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے، جو جبر و اختیار کی کش مکش میں شامل ہے۔ عوامی اور اجتماعی احساس سے پوری طرح وابستہ رہ کر اپنی انفرادیت اور کج کلاہی کو قائم رکھنا چاہتا ہے، جو ابتلا سے گزر کر ابتہاج اور ابتسام کی منزل تک پہونچتا ہے۔
زندگی اور لازندگی کے درمیان، اظہار کے معرکہ جاری رکھنے والا یہ شاعر اپنی حقیقت پسندانہ شعوری تخلیقی روش سے، اس امکان کی منزل پر ہے جو نئی ترقی پسندی، یا زندگی آمیز تخلیق کی منزل ہے۔