محمد حسن(دہلی)
ادھر پے درپے چار چھ اچھے شعری مجموعے چھپے، اچھے مجموعے تھے اور چھپے بھی اچھے۔ شاعری کو چند سال سے اتنی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ ہر طرف شعری مجموعوں کا بازار گرم ہے۔ ان پر اچھی بری رائیں بھی بکثرت سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں اور آوازوں کے اس جنگل میں نئی جہتیں بخشنے والے مجموعے بھی کھو جاتے ہیں۔ ان مجموعوں کے ساتھ بھی زمانہ یہی سلوک نہ کرے اس لیے ان کی بخشی ہوئی نئی جہتوں کی نشاندہی کرنا مفید ہوگا۔
مظفر حنفی کا مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ تیکھی طنز یہ شاعری کا گلدستہ ہے مگر زور طنز پر نہیں شاعری پر ہے۔ ہماری غزلوں میں جو ایک رونی سی کیفیت طاری رہتی ہے اس کے برعکس مظفر نے اپنے دور پر سخت طنز کے ذریعے شاعری کا مزا بدل دیا ہے۔ وہ شاد عارفی کے شاگرد اور پیرو ہیں لیکن ان کا رنگ محض تقلیدی نہیں۔ شاد کو جس سماج سے سابقہ تھا وہ جاگیرداری دور کا تھا۔ مظفر نے شہروں کی بے امان زندگی کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ ہنسنے اور قہقہے لگانے کے قابل نہیں بلکہ سماجی ناہمواری اور ہپا کریسی کو جوں کا توں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں:
چند کھیتوں کے مقدر میں نہیں ہے پانی ورنہ بادل تو بہر حال برستے ہوں گے
کیا کریں دھبے انہیں کی آستیں پر مل گئے جن کی پیشانی پہ لکھا تھا کہ ہم قاتل نہیں
میرے پیچھے کیوں آتا ہے بستی پیاسی ہے میں بنجارا ہوں میرا کیا ، بادل او بادل
وفا سا جرم کر بیٹھے ہیں یارو تبھی تو آگ پر بیٹھے ہیں یارو
کہہ رہی ہے مورتی بھگوان کی کم نہیں ہیں نقش فریادی سے ہم
ترچھی راہوں پر چلتا ہوں رہبر سے کتراتا ہوں یعنی رہزن کی آنکھوں پر آئینہ چمکاتا ہوں
مظفر حنفی نے اپنی غزل کو کھردری غزل کہا ہے جس کے آئینے میں ہماری صدی کے زخم نظر آنے لگیں۔ مظفر حنفی کی شاعری تیکھے امکانات کی شاعری ہے۔ کاش کہ وہ شاد صاحب کی طرح محض زبان کے چٹخارے اور لہجے کے نکیلے پن کے شہید نہ ہو جائیں اور راستے کے اس حسین موڑ سے بعافیت گزر کے زیادہ پُر معنویت اور ھسین تر شاعری کی طرف راغب ہوں۔