“روشنی!روشنی چھوڑو دادی کو۔”ثانیہ نے اسے بازو سے پکڑ کے پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی۔
روشنی کا وجود انتہائی بھاری ہورہا تھا۔دکھانے میں دھان پان سی روشنی اس وقت دس پہلوانوں جتنی بھاری پڑ رہی تھی۔
“منع کیا تھا’منع کیا تھا!”روشنی کے حلق سے خرخراتی ہوئی آواز برآمد ہوئی تھی۔وہ دونوں ہاتھوں کے شکنجے میں فرحانہ بیگم کی گردن دبوچے ہوئے تھی۔
“امی!اسے دیکھیں۔”ثانیہ چلائی تھی۔
اسی پل ڈور بیل بجی تھی۔ثانیہ نے بھاگ کے دروازہ کھولا تھا۔
کمال صاحب کے ساتھ کوئی اجنبی صورت بھی تھی۔
“کیا ہوا بیٹا؟تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟”کمال صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔
ٹھیک اسی وقت ایک زور دار چیخ سنائی دی۔نیم کے پیڑ پہ بیٹھا کوا کائیں کائیں کرتا ہوا اڑا تھا۔
“بابا جلدی آئیں’روشنی۔۔۔”ثانیہ کہتے ہوئے اندر کی جانب بھاگی۔
“نور اللہ صاحب پلیز!”کمال صاحب انہیں اندر کی جانب لے کے بڑھے تھے۔
٭٭٭٭
وہ دونوں ا ندر پہنچے تو ثانیہ اور سلطانہ بیگم نے روشنی کو زبردستی پکڑ رکھا تھا۔وہ انکی گرفت میں مچل رہی تھی۔وقفے’وقفے سے اس کے منہ سے اجنبی آوازیں نکل رہی تھیں۔
دائیں صوفے پہ فرحانہ بیگم بیٹھیں اپنا گلا مسل رہی تھیں۔
“ایک گلاس پانی!”نور اللہ صاحب کے کہنے پہ صارم نے انہیں فورا گلاس میں پانی ڈال کے دیا۔
نور اللہ صاحب گلاس لے کے کچھ پڑھنے لگے ‘کچھ دیر بعد اس پانی کے چند چھینٹے انہوں نے روشنی کے منہ پہ مارے تھے۔
روشنی بےدم سی ہو کے کرسی پہ گرگئی تھی۔
“میری بچی!”کمال صاحب تڑپ کے آگے بڑھے تھے۔
“نہیں کمال صاحب!جلدی بازی کام خراب کردیتی ہے۔”نور اللہ صاحب نے انہیں روکا تھا۔
“تو کیا کریں پھر ہم؟”کمال صاحب بےبسی سے بولے تھے۔
“اللہ بہتر کرے گا۔صائم نے مجھے کیفیت بتائی تھی بیٹی کی والدہ کہاں ہیں؟”انہوں نے پوچھا۔
“ان سے بات کرنے کا کیا فائدہ۔وہ بول نہیں پا رہیں۔”ثانیہ نے افسردگی سے بتایا۔
“اوہ!”نور اللہ صاحب کہہ کے تسبیح کے دانے گھمانے لگے۔
پھر جیب سے قلم نکال کے ایک نقش لکھا اور کمال صاحب کو دیا تھا۔
“یہ خاتون کو تین ٹائم پلا دیجئے گا۔اللہ عافیت کا معاملہ کرے گا۔”
“لیکن نور اللہ صاحب میری بچی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟”کمال صاحب کا اصل مسئلہ یہ تھا۔
“وہ مخلوق جو اس دنیا میں رہتی ہے لیکن ہم میں سے نہیں ہے۔”وہ سنجیدگی سے بولے۔
“مطلب؟”ثانیہ نے چونک کے انکی شکل دیکھی۔
“وہ مخلوق جنات میں سے ہے۔”کمال صاحب نے ڈوبتے دل کے ساتھ پوچھا۔
نور اللہ صاحب نے صرف سر ہلایا تھا۔
“تو اب؟”وہ پریشانی سے پوچھ رہے تھے۔
“جنات یونہی کسی کو تنگ نہیں کرتے۔انکی اپنی دنیا ہے ،پہلے ہم وجہ معلوم کرنی ہوگی۔میں مغرب کے بعد پھر حاضر ہوں گا تب تک آپ گھر کے تمام افراد ایک ہی کمرے میں ہوں۔کمرہ بالکل پاک صاف ہونا چاہئے اور ایک بات کا خیال رہے کہ اس کمرے میں کوئی آئینہ نہیں ہونا چاہئے۔”نور اللہ صاحب ہدایت دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
“کوئی خاص وجہ اس عمل کی؟”فرحانہ بیگم نے پوچھا۔
“چونکہ ہمیں وجہ معلوم نہیں’اس لئے احتیاط بہترین عمل ہے۔”
نوراللہ صاحب ان سب کو گہری سوچ میں چھوڑ کے جا چکے تھے۔
٭٭٭٭
صارم غائب دماغی سے دکان پہ موجود کسٹمرز کو ڈیل کررہا تھا کہ اچانک وہ چونک گیا۔عثمان صاحب کے ساتھ آنے والا لڑکا آج پھر موجود تھا۔
“آج تو جمعرات نہیں۔”صارم کے لبوں سے بےساختہ نکلا تھا۔
“جانتا ہوں لیکن آنا ہی پڑا۔”وہ دھیمی آواز میں بولتا چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔
“کیا بات ہے ؟تم کچھ کہنا چاہتے ہو دوست؟”صارم نے اسکی بےچینی نوٹ کی تھی۔
“اوہ نہیں دوست!یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔”یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں شراروں کی سی لپک ابھری تھی۔
صارم تھوک نگل کے رہ گیا تھا۔
کون تھا یہ آدمی؟
“میرا نام یاد رکھنا’عامر تم سے جلد ہی ملاقات ہوگی۔وہ پیچھے کیا ہے؟”کہنے کے ساتھ ہی اس نے عامر کی توجہ پیچھے کی جانب کروائی تھی۔
صارم بےساختہ ہی پلٹا تھا لیکن وہاں صرف چمچماتے شیلف تھے۔
“وہاں تو کچھ نہیں ہے۔”کہتے ہوئے صارم نے جیسے ہی سامنے دیکھا تو عامر غائب تھا۔
“یہ کہاں گیا؟اچانک سے!”صارم حیرانگی سے کتنی ہی دیر سوچتا رہ گیا۔
٭٭٭٭
آسمان آج بنا چاند کے سیاہ پڑا تھا۔ایسا اندھیرا تھا کہ مانو بندے کا کلیجہ پانی ہوجائے۔سردیوں کی مختصر سی شام اب سیاہ طویل رات میں ڈھلنے لگی تھی۔
پرندے شور مچاتے اپنے گھونسلوں میں پناہ لے رہے تھے اور محلے کی آوارہ بلی کسی گاڑی کے نیچے پناہ لینے کی کوشش میں تھی۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہونے کو ہے۔
٭٭٭٭
نور اللہ صاحب گھر کے بڑے کمرے میں موجود تھے۔روشنی کو ہوش آچکا تھا اور اب وہ خاموشی سے ایک کرسی پہ بیٹھی تھی۔
نور اللہ صاحب کے ہاتھ میں ایک سنہرا سا خنجر تھا جس پہ وہ وقفے’وقفے سے کچھ پڑھ کے پھونکتے ہوئے حصار کھینچ رہے تھے۔
“آپ سب آیت الکرسی کا ورد کرتے رہئے۔حاضری بس شروع ہونے کو ہے۔”نور اللہ صاحب نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
انکی آنکھوں کی سرخی دیکھ کے ان سب کے وجود میں ایک پھریری سی دوڑ گئی تھی۔
یکایک کمرے کے بائیں جانب موجود کھڑکی کا پٹ کھلا تھا۔ہوا کے زور سے پردہ اٹھا تھا اور کمرے میں ایک مسحور کن بھینی سی مہک پھیل گئی تھی۔
ثانیہ نے بےاختیار گہری سانس لینا چاہی ‘اسی پل نور اللہ صاحب نے آنکھیں کھول کے اسے تنبیہی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ثانیہ خوفزدہ سی ہو کے نیچے دیکھنے لگی تھی۔
خوشبو آہستہ’آہستہ بڑھتی جارہی تھی اور اسکا خمار ان سب کے حواسوں پہ طاری ہورہا تھا۔روشنی کا سر نیچے جھتکا جارہا تھا۔
نور اللہ صاحب نے زیر لب ورد کرتے ہوئے اچانک ہی روشنی کی جانب پھونک ماری تھی۔
روشنی کے وجود نے جھٹکا کے اوپر کی جانب دیکھا تھا۔اسکی آنکھوں میں دوڑتی سرخی نے ان سب کا لہو خشک کیا تھا۔
روشنی کے سیاہ بالوں میں ایک بار پھر سے سرخ گلاب بہار دکھا رہا تھا۔
صارم نے اپنی سانس تک روک لی تھی۔
٭٭٭٭
“کون ہو تم؟”نور اللہ صاحب نے کڑکتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
دوسری طرف سے روشنی بس انہیں’سرخ آنکھوں سے ہی گھورتی رہی تھی۔
نور اللہ صاحب کچھ سوچ کے سر ہلانے لگے پھر انہوں نے کمال صاحب کو ایک مخصوص اشارہ کیا ۔
“آپ کون ہیں؟یہاں تک کیوں آئے ہیں؟”نور اللہ صاحب کے برعکس کمال صاحب کا لہجہ خاصا نرم تھا۔
“ہم اس کی وجہ سے آئے ہیں۔”باریک سی سماعتوں پہ گراں گزرتی ہوئی آواز روشنی کے حلق سے برآمد ہوئی تھی۔اسی کے ساتھ سرخ گلاب کی ایک پتی ٹوٹ کے نیچے سفید چادر پہ گری تھی۔
“لیکن تم ہو کون؟”نور اللہ صاحب نے اپنا سوال دہرایا تھا۔
“اسکا جواب دینا ہم ضروری نہیں سمجھتے۔”دوسری طرف سے سرکشی دکھائی گئی تھی۔
“نرمی کا جواب نرمی سے دیتے ہیں۔”کمال صاحب نے مداخلت کی۔
روشنی نے آنکھیں گھما کے انہیں بےحد خوفناک انداز میں گھورا تھا۔
“تم قوم جنات میں سے ہو۔ہم جانتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمہارا مسکن کہاں ہے۔”نور اللہ صاحب نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
“اس میں کون سی بڑی بات ہے۔”دوسری طرف سے صریح انہیں نظر انداز کیا گیا۔
گلاب کی ایک اور پتی ٹوٹ کے سفید چادر پہ گری تھی۔
“ناراض لگتے ہو دوست۔”نوراللہ صاحب نے پانی کا گلاس روشنی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
دوسری طرف سے روشنی نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے ایک غصیلی آہ بھری تھی۔
نور اللہ صاحب نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تھا۔
“آج بلانے کی کوشش کی ہے’دوبارہ مت بلانا۔”وہ باریک آواز آج انہوں نے آخری بار سنی تھی اور اسی کے ساتھ خوشبو اور گلاب کا پھول غائب ہوگئے تھے۔
روشنی کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا تھا ۔
“کیا یہ جن ہماری روشنی کے پیچھے ہے؟اس پہ عاشق ہے۔”فرحانہ بیگم نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
“نہیں!آپ کی بیٹی پہ وہ عاشق نہیں ہے لیکن اس نے کچھ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس ناراض ہے۔”
“پر روشنی نے ایسا کیا کیا ہے؟”صارم ناسمجھی سے بولا۔
“اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ہمیں روشنی کی یونیورسٹی جانا ہوگا۔”نور اللہ صاحب نے چادر پہ پڑی گلاب کی پتیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
انکے یہ کہنے کی دیر تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان پتیوں میں شعلے بھڑک اٹھے تھے اور تھوڑی دیر بعد چادر پہ صرف راکھ تھی۔
“یہ چادر ہمیں دے دیجئے۔یہ ہمارے ساتھ جائے گی۔”نور اللہ صاحب نے کہا تھا۔
کمال صاحب نے صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا تھا۔
٭٭٭٭
نور اللہ صاحب کے جانے کے بعد صائم نے بھی جانے کی اجازت مانگی تھی۔
“اماں!آج لوڈنگ کروانی ہے مال کی،اس لئے رات دیر تک کارخانے میں ہی ہوں گا۔”اس نے بتایا تھا۔
فرحانہ بیگم نے اسے اپنی دعاؤں کے حصار میں رخصت کیا تھا۔
“بابا!آپ اس وقت؟”روشنی کی آواز نے ان سب کو متوجہ کیا تھا۔وہ خالی خالی نگاہوں سے کمال صاحب کو دیکھ رہی تھی۔
“بس یونہی۔”وہ پھیکا سا مسکرا کے رہ گئے تھے۔
روشنی کو حاضری کے بعد کچھ یاد نہیں رہتا تھا ‘وہ سب یہ جان گئے تھے۔
“میرا پیپر ہے کل’میں جاؤں تیاری کرلوں۔”روشنی بڑبڑاتی ہوئی اٹھ چکی تھی۔
٭٭٭٭
رات کا سناٹا کل کائنات پہ حاوی تھا۔گلی میں اندھیرے کا راج تھا۔دور کہیں آسمان پہ اکا دکا تارے چمکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
اس سناٹے کو دور سے کہیں کتوں کے بھونکنے کی آواز چیرتی تھی۔
صائم کارخانے سے باہر نکلا تو گھپ اندھیرے نے اسکا استقبال کیا۔کارخانہ چونکہ گھر سے قریب تھا سو وہ اکثر پیدل ہی آتا تھا ۔آج بھی وہ پیدل ہی گھر کی جانب روانہ ہوا تھا۔
راستے میں ٹھوکر نے لگے اس نے موبائل ٹارچ آن کرلی تھی۔سفید روشنی نے اسکے چہرے کے گرد ہالا سا بنا لیا تھا۔
گلی میں اوپر کی جانب آؤ تو دائیں کونے کے آخری گھر میں بڑا سا نیم کا پیڑ تھا۔جس کی اونچی’گھنی شاخوں کا سایہ سڑک پہ گرتا تھا۔
صائم ابھی گلی کے کونے میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک اسے کسی کی نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تھا۔اندر تک اتر جانے والی ‘لہو جمادینے والی نظر۔
صائم نے موبائل سے نگاہیں اٹھا کے اوپر دیکھا تھا اور اسکے زمین و آسمان ساکت ہوئے تھے۔
وہ مخلوق جو کوئی بھی تھی’صائم نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔
اسکی آنکھیں انگاروں کی مانند دہکتی تھیں’کہنے کو وہ ایک لڑکی کا چہرہ تھا لیکن اسکے چہرے کے نقش!
صائم کے ہاتھ سے سیل فون چھوٹ کے نیچے جا گرا تھا۔
ٹارچ بجھ گئی اور گلی اندھیرے میں ڈوبی تھی۔دفعتا اس لڑکی کا ہاتھ اٹھا تھا اور فضا میں زور دار آواز گونجی تھی۔
“چٹاخ!”
صائم کے چہرے پہ شاید نہیں یقینا پوری پانچ انگلیاں چھپی تھیں۔ایک شدید جلن کا احساس تھا جو اس پہ حاوی ہوا تھا۔
صائم پورے قد سے نیچے گرا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...