جنگل سے گزر کر بستی کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سرد تھا ۔۔
یوں لگتا تھا وہ اندر ہی اندر خود سے کوئی جنگ لڑ رہا ہو ۔۔
سیاہ آنکھوں کے آگے بار بار شہلا کا وہ خوفزدہ انداز لہرا رہا تھا ۔۔
جب وہ طوبی کے کمرے میں اسے دیکھ کر پیچھے ہو رہی تھی ۔۔
لیکن اس کا قصور نہیں تھا ۔۔
وہ بھوک اور کمزوری سے نڈھال تھا ۔۔
طوبی کے زندہ رہنے سے کسی کو فائدہ ہی کیا تھا ۔۔؟
سو جونہی اس عامل نے اپنا عمل درمیان میں روکا ۔۔
شمعون اپنے ساتھیوں سمیت طوبی کے کمرے میں گھس گیا ۔۔
اور مٹا ڈالی اپنی بھوک اور پیاس ۔۔
لیکن شہلا یا باقی حویلی والے کبھی یہ نہیں سمجھ سکتے تھے ۔۔
جیسے ایک عام انسان پر شدید بھوک میں حرام بھی حلال ہوجاتا ہے ۔۔
ویسے ہی وہ بھی مجبور ہوجاتا تھا ۔۔
اگر اس کے نصیب میں یہی “غذا” لکھ دی گئی تھی ۔۔
تو وہ کیا کر سکتا تھا ۔۔
وہ کوئی عام انسان نہیں تھا ۔۔
کوئی اور مخلوق تھا ۔۔
تو کیا اس میں اس کا کوئی قصور تھا ۔۔؟
کوئی نہیں سمجھنے والا تھا اس کے احساسات ۔۔
حویلی والے تو دور ۔۔
اس پر جان نچھاور کرنے والے تیمور آفندی ۔۔
اور اس کی پیاری شہلا ۔۔
کوئی بھی تو نہیں سمجھنے والا تھا اسے ۔۔
وہ بس ایک عفریت تھا ۔۔
ایک خوفناک غیر انسانی مخلوق ۔۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں کوئی احساسات نہیں تھے ۔۔
اگر احساسات نہ ہوتے تو کیا وہ شہلا سے محبت کرتا ۔۔
بھلا احساس بغیر بھی کوئی محبت کرتا ہے ۔۔
یہ انسان ہوتے ہیں جن کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔
وہ تو بھرے پیٹ کے ساتھ کبھی کسی کو کچھ کہتا ہی نہیں تھا ۔۔
(اگر سامنے والے سے دشمنی نہ ہوتی تو ۔۔!)
لیکن اس کی باتیں سمجھے گا کون ۔۔
چلو کوئی نہ سمجھے ۔۔
لیکن شہلا ۔۔!
سوچوں کے دھارے سے نکل کر شمعون نے بستی کی حدود میں قدم رکھ دیئے ۔۔
اور انسانی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔۔
شمعون کی بستی ہی نہیں ۔۔
بستی کی حدود میں داخل ہونے والے بھی انسانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے ۔۔
لیکن جب کوئی عام انسان غلطی سے ان کی دنیا کی حدود کی طرف قدم بڑھاتا ۔۔
تو تمام قبیلے والے اسے خوفزدہ کر کے جنگل سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ۔۔
انسانی دنیا میں یہ جنگل آسیب زدہ مشہور ہو چکا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شمعون ۔۔”
شمعون جب اس چھوٹی سی غار میں بلے کے روپ میں داخل ہوا ۔۔
شاکوپا کو اپنا منتظر پایا ۔۔
شمعون خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔
سر بھی جھکا دیا ۔۔
“میں جانتا ہوں تمہارے ذہن میں کئی سوالات ہیں ۔۔
جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تمہاری مدد کر کے تمہیں اس اللہ والے بندے سے کیوں بچایا گیا ۔۔؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تم ہمارے مجرم ہو ۔۔
تمہیں سزا دینے کا یا معاف کرنے کا حق بھی ہم ہی رکھتے ہیں ۔۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے ۔۔
کہ تم اکیلے نہیں ہو ۔۔
ایک تم اس کے قابو میں چلے گئے تو ہمارے پورے قبیلے کی جان خطرے میں پڑ جائے گی ۔۔
سمجھ رہے ہو ناں تم ۔۔؟”
“جی ۔۔”
شمعون نے سر جھکائے جھکائے ہی دھیمی آواز میں کہا ۔۔
“کچھ اور پوچھنا چاہتے ہو ۔۔؟”
شاکوپا نے بغور اس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا ۔۔
شمعون نے جواباً کرب سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
“جب انسان کے ساتھ دوسری مخلوق رشتہ نہیں بنا سکتی ۔۔
تو انہیں انسان سے محبت کیوں ہوتی یے شاکوپا ۔۔؟”
شاکوپا اس سوال پر چپ سا رہ گیا ۔۔
اندر کہیں نا کہیں شاکوپا کو اندازہ تھا ۔۔
شمعون اس سے ایسا ہی کوئی سوال پوچھے گا ۔۔
یہ معاملے تو تمام مخلوقات کو بنانے والا ہی جانے یا اس کے خاص بندے ۔۔
ہم بس اپنی حقیقت جانتے ہیں ۔۔
ہم کون ہیں ۔۔
کیوں ہیں ۔۔
کیا کر سکتے ہیں ۔۔
اور کیا نہیں ۔۔
اور انسان سے محبت ہم “نہیں” کر سکتے سمجھے ۔۔
کیونکہ یہ اس انسان کے لیئے ہی نہیں بلکہ ہمارے لیئے بھی نقصان دہ ہے ۔۔”
شاکوپا کا انداز قدرے نرم تھا ۔۔
وہ اب ایونا کے قتل کی وجہ سے شمعون سے خفا بھی نہیں لگ رہا تھا ۔۔
شاکوپا شمعون کے خاندان کی ہمیشہ سے غلامی کرتا آ رہا تھا ۔۔
شائد اس لیئے بھی وہ شمعون کو موقع دینا چاہتا تھا ۔۔
وہ پرانے نظریات کا حامی تھا ۔۔
شاکوپا کی خواہش تھی ۔۔
شمعون سب کچھ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیئے بستی میں بس جائے اور سرداری کرے ۔۔
شمعون کچھ دیر تک سنجیدگی سے شاکوپا کے جھریوں بھرے لٹکتی ہوئی سیاہ جلد والے چہرے کو گھورتا رہا ۔۔
پھر حتمی لہجہ میں بولا ۔۔
“میں نے شہلا کے لیئے بہت کچھ برداشت کیا ہے ۔۔
میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔
مجھ سے سرداری لے لی جائے ۔۔
لیکن مجھے شہلا کو یہاں لانے کی اجازت دی جائے ۔۔
کیونکہ میرا اب حویلی میں رہنا ناممکن ہے ۔۔
اور شہلا کے بغیر رہنا بھی ممکن نہیں ۔۔
شاکوپا مجھے وہ چاہیے ۔۔
جان کے علاوہ جو چاہیں آپ مجھ سے لے لیں بدلے میں ۔۔
کیونکہ جان نہیں ہوگی تو شہلا کے ساتھ جیوں گا کیسے ۔۔”
آخر میں شمعون ذرا سا مسکرا دیا ۔۔
شاکوپا نے افسوس سے سر ہلایا ۔۔
جیسے کہہ رہا ہو ۔۔”تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔”
پھر سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔۔
“شمعون تمہیں شہلا سے کچھ نہیں مل سکتا ۔۔
تم جانتے ہو تمہارے خمیر میں آگ بھی شامل ہے ۔۔
اور یہ آگ کسی انسان کی جان لے سکتی ہے ۔۔
اور تم اس کی جان لو گے نہیں ۔۔
پھر کیوں پیچھے پڑے ہو اس کے ۔۔
چھوڑ دو اسے ۔۔
اپنی اور اس کی دونوں کی زندگی مشکل بنا رہے ہو ۔۔”
“نہیں شاکوپا نہیں ۔۔”
شمعون اس کی بات کاٹ کر دہاڑا ۔۔
“میں نہیں رہ پائونگا اس کے بنا ۔۔
میں اسے دیکھ کر ہی خوش ہوں ۔۔
لیکن دور نہیں جانے دونگا ۔۔
وہ میری بیوی ہے ۔۔”
“اس شادی کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔”
شاکوپا اب کی بار جھنجلایا ۔۔
“میری نظر میں ہے ۔۔
میں اپنی ماں پر پڑا ہوں تو کیا ہوا ۔۔
میں ایک آدم زاد کی اولاد ہوں ۔۔
پھر کیسے نہیں اس نکاح کی اہمیت ۔۔”
شاکوپا کو بالآخر اندازہ ہوگیا کہ وہ بیکار میں اس سے بحث کر رہا ہے ۔۔
شمعون کبھی نہیں سمجھے گا ۔۔
جب کوئی اور مخلوق انسان پر عاشق ہوتی ہے ۔۔
وہ عشق پھر سب سے خطرناک عشق ہوتا ہے ۔۔
جہاں سے واپسی عاملوں کے جھاڑو کھائے بغیر ممکن نہیں ۔۔
اور شاکوپا ظاہر سے کسی عامل سے بات چیت کر کے اپنی اور قبیلے کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔
اب جو کرنا تھا اسے خود ہی کرنا تھا ۔۔
لیکن کیا ۔۔؟
شاکوپا نے شمعون کو جا کر آرام کرنے کی ہدایت کی ۔۔
کیونکہ وہ جتنا زخمی تھا ۔۔
اس حساب سے اس نے خون بہت کم مقدار میں پیا تھا ۔۔
سو اس وقت بھی وہ کمزور سا لگ رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستی میں رہتے ہوئے شمعون کو چار روز گزر چکے تھے ۔۔
اس وقت انسانی دنیا میں گہری رات کا سماں تھا جبکہ بستی والوں کا گویا دن شروع ہوا تھا ۔۔
شاکوپا نہر سے پانی پی رہا تھا جب شمعون اس کے قریب جا کھڑا ہوا ۔۔
شاکوپا نے سوالیا نظروں سے اسے دیکھا جو اپنے انسانی روپ میں ڈھلا کھڑا تھا ۔۔
شاکوپا بھی انسانی شکل میں ڈھل کر اس کے مقابل ہوا ۔۔
“بہت صبر کر لیا میں نے ۔۔
اب اور نہیں ۔۔
میں شہلا سے ملنے جا رہا ہوں ۔۔”
شمعون جبڑے بھینچ کر بولا ۔۔
“کوئی فائدہ نہیں ۔۔
مجھے معلومات ملی ہیں کہ اس عامل نے ایک خاص حصار حویلی کے گرد کھینچا ہے ۔۔
ہم سمیت کوئی بلا اس حصار کو پار نہیں کر سکتی ۔۔
اور ساتھ ہی وہ شہلا کے گلے میں کوئی اسم شریف ڈال گیا ہے ۔۔
وہ حویلی سے باہر بھی نکل آئے ۔۔
تب بھی تم اس کے سائے تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔۔”
شاکوپا کے انکشافات نے شمعون کو کچھ لمحوں کے لیئے ساکت کر دیا ۔۔
اور پھر وہ غصے کی زیادتی سے کانپ اٹھا ۔۔
“دیکھتا ہوں کس کی مجال ہے کہ مجھے شہلا کے قریب جانے سے روکے ۔۔
اب پہلے اس عامل کو ٹھکانے لگانا ہوگا ۔۔”
شمعون مٹھیاں بھینچے آگے کی پلاننگ سوچنے لگا جب شاکوپا کوفت سے بولا ۔۔
“ایک بار نہیں دو بار ۔۔
تم مرنے کے قریب پہنچ گئے تھے ۔۔
پھر بھی اس عامل کی قابلیت پر شک ہے تمہیں ۔۔؟
وہ دور سے تمہاری موجودگی محسوس کر لے گا ۔۔
آج کل وہ ہمارے ہی پیچھے چلے کاٹ رہا ہے ۔۔
ایسے میں بستی سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں ۔۔
تم نے شائد غور نہیں کیا ۔۔
کوئی بھی بستی سے باہر نہیں جا رہا ۔۔
شکار کو خود ہی بستی کی طرف متوجہ کر کے غذا کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔۔”
شاکوپا سختی سے کہہ کر جانے لگا لیکن اگلے ہی پل چونک کر مڑا ۔۔
شمعون نہر میں اتر رہا تھا ۔۔
انسانی روپ میں ہونے کی وجہ سے وہ نہر میں ڈوب نہیں رہا تھا ۔۔
نہر کے دوسری طرف سے انسانی دنیا کی حدود شروع ہوجاتی تھیں ۔۔
اور شمعون دوسری طرف جا رہا تھا ۔۔
“ایک بات یاد رکھنا ۔۔
زندہ لوٹ آئے تو ٹھیک ۔۔
لیکن اس بار کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئیگا ۔۔
کیونکہ اس بار سوال سارے قبیلے کی زندگی کا ہے ۔۔”
چاند کی دودھیا روشنی میں جگمگاتا سیاہ پانی چیر کر آگے بڑھتا شمعون لمحہ بھر کو رکا ۔۔
پھر بغیر مڑے سر اثبات میں ہلا کر آگے بڑھ گیا ۔۔
نہر کے دوسری اور سارا قبیلہ شمعون کو یوں گم صم ہو کر دیکھ رہا تھا جیسے آخری بار دیکھ رہا ہو ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی کا سوئم بھی ہو چکا تھا ۔۔حویلی والوں کے چہرے پتھریلے ہو چکے تھے ۔۔
یہ احساس سب کو تڑپا رہا تھا کہ ان کے پیاروں کی قاتل وہ خونی بلا ان کے درمیان تھی اور وہ انجان بیٹھے رہے ۔۔
تیمور آفندی کو کسی نے کچھ کہا نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ دل میں خود کو سب کا مجرم سمجھتے ہوئے نظریں جھکائے پھر رہے تھے ۔۔
یہ سچ تھا کہ اب بھی وہ شمعون سے نفرت نہیں کر پا رہے تھے ۔۔
محبت جو اس قدر کر لی تھی ۔۔
اب نفرت ناممکن تھی ۔۔
لیکن ان کا دل خوف اور دکھ سے بوجھل تھا ۔۔
ان کے کتنے ہی پیاروں کی کیسی اجڑی پجڑی لاشیں انہوں نے اٹھائی تھیں ۔۔
اور طوبی ۔۔؟
وہ تو کتنی معصوم اور بے ضرر تھی ۔۔
اسے بھی نہ چھوڑا ۔۔
کیا تھا آخر ۔۔
کیا تھا اگر شمعون حویلی والوں کی جان نہ لیتا ۔۔
شائد ان کے دل کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی ۔۔
شائد ان کا مان اتنی بری طرح نہ ٹوٹتا ۔۔
شائد ۔۔
تیمور آفندی نے شمعون کی اکلوتی تصویر کو لائٹر کے اس چھوٹے سے نارنجی گولے کی نظر کر دیا ۔۔
اس کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتے تھے ۔۔
معاملہ کسی انسان کا نہیں تھا جو وہ شمعون کی کھوج کرتے ۔۔
اب عامل سے ہی امیدیں تھیں ۔۔
یہ تھا تیمور آفندی کی طرف کا قصہ ۔۔
اور اب رہ گئی شہلا ۔۔
تو شہلا اب وہی پہلے والی شہلا بن چکی تھی جو بلکل بے سہارا تھی ۔۔
جسے تیمور آفندی نے اپنی رحمدلی کے ہاتھوں مجبور ہو کر حویلی میں پناہ دے دی تھی ۔۔
جس کا حویلی پر کوئی حق نہیں تھا ۔۔
سہمی سہمی گیسٹ روم میں رہائش پزیر وہ بے سہارا لڑکی ۔۔
جو حویلی والوں کی کاٹ دار نظروں کی ضد میں رہتی تھی ۔۔
پہلے لڑکیاں وغیرہ اس سے ہمدردی تو رکھتی تھیں ۔۔
اب تو بلکل ہی کترائی کترائی پھرتی تھیں ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر شہلا نے رو رو کر سوج جانے والی آنکھوں کو دوپٹے سے صاف کیا ۔۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا ۔۔
وہ کمرے میں گیلری میں کھڑی اپنے نصیب کے حیرت انگیز کھیل پر حیران تھی ۔۔
اس کا سب کچھ چھین لینے والی خون آشام بلا ۔۔
بقول عامل بابا کے ۔۔
اس پر عاشق ہو چکی تھی ۔۔
یہی نہیں ۔۔
بلکہ وہ خود اس بلا سے نکاح بھی کر چکی تھی پورے ہوش و حواس میں ۔۔
اب نہ جانے آگے زندگی اسے اپنے کون کون سے نرالے رنگ دکھانے والی تھی ۔۔
شہلا ان ہی سوچوں میں تھی ۔۔
جب اسے گیلری میں کھڑے کھڑے ۔۔
دور روڈ پر ایک ہیولا بھاگتا نظر آیا ۔۔
شہلا نے خوفزدہ ہو کر غور کیا تو وہ بہت بڑے سائز کا سرخ آنکھوں والا بلا تھا ۔۔
جس کی آنکھوں کی چمک دور سے بھی واضع تھی ۔۔
شہلا نے چیخ روکنے کے لیئے دونوں ہاتھ لبوں پر جما لیئے ۔۔
کیونکہ وہ بلا حویلی کے گیٹ کے نزدیک آ کر رک گیا تھا ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ انسانی شکل میں ڈھل گیا ۔۔
دور سے بھی شہلا اندازہ لگا تھی ۔۔
وہ کوئی اور نہیں ۔۔
اس کا مجرم ۔۔
اس کا محرم ۔۔
ایک بلا تھا ۔۔
وہ شمعون تھا ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...