سرد سی حسین و دلکش رات تھی ۔ایسی رات جس میں لگتا ہے کہ قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔آسماں پر چھائے بادل کبھی چاند کو چھپادیتے تو کبھی عیاں کردیتے۔ ہوا بھی اپنی مستی میں لہراتی ،جھومتی ماحول کو مزید پُرسکون کرنے کی کوشش میں تھی ہر طرف گہری خاموشی تھی ایسی خاموشی جو روح تک کو سکون پہنچادے لیکن کبھی کبھی خاموشیاں بھی اضطراب میں ڈال دیا کرتی ہیں ۔کچھ اسی طرح کے اضطراب میں وہ دونوں بھی تھے ۔
و ہ چھت پر خاموش اداس گم صم سے بیٹھے آسمان کی جانب د یکھ رہے تھے وہ کافی دیر سے یونہی خاموش بیٹھے تھے
ماہم بلیک کرتا پاجامہ میں تھی بال اس نے آج سلجھائے ہی نہیں تھے بس یونہی بالوں کو فولڈ کرکے کیچر لگایا ہوا تھا جب انسان خود الجھا ہوا ہو تو وہ کچھ اور کیا سلجھائے گا کیف بلیک ڈریس پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس تھا ان دونوں میں ایک رشتہ بھی تھا اور نہیں بھی تھا اس آدھ آدھورے رشتے کی ڈور میں وہ پچھلے3سال سے بندھے ہوئے تھے۔
آخر ماہم نے چپ کے شیشے کو توڑا۔
’’آپ سمجھتے کیوں نہیں کیف یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ آپ نے تو رشتوں کا مذاق ہی بنادیا ہے میری زندگی کامذاق بنادیا ہے لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں‘‘تمہیں لوگوں کی کیا فکر ہے؟تمہاری زندگی میں لوگوں کی اہمیت زیادہ ہے یا میری؟كیف نے اپنا ہمیشہ والا فقرہ دہرایا۔
’’تو مطلب میری کوئی عزت نہیں ہے میں یوں ہی اس آدھ آدھورے رشتے کو نبھاتی جاؤں جبکہ مجھے اسکے انجام کی خبر ہی نہیں ‘‘وہ بس رو دینے والی ہی تھی”ماہی میں مجبور ہوں ۔تم سب جانتی ہو پھر بھی؟مجھے تھوڑا وقت دو مجھے بس میرے پاؤں پر کھڑا ہونے دو ‘‘پچھلے3سالوں میں شاید وہ300بار اپنے رشتے کے بارے میں بحث کرچکے تھے
’’اور کتنا وقت چاہیے آپ کو؟كیا3سال کم ہوتے ہیں؟جب آپ3سالوں میں کچھ نہیں کرسکے تو آگے بھی آپ سے کچھ نہیں ہوگا ‘‘اس کے لہجے میں بہت مایوسی تھی”کیا تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے؟ایک بار پھر وہ بھروسے کی بات کررہا تھا
’’اب بھروسہ ہی تو نہیں ہے۔ آپ کے جب دل میں آتا ہے آپ میری زندگی میں آجاتے ہیں……میرے قدموں میں اپنی محبت کی بیڑیاں ڈال دیتے ہیں…..اور جب جی میں آتا ہے میرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں…..مجھے اس ادھورے رشتے کی زنجیروں سے آزاد کردیتے ہیں ۔پر اب بس……بہت ہوچکا ۔‘‘ انداز شکستہ تھا۔
’’میں کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا ماہی ….میرے لیئے سب کچھ تم ہی ہواور رہوگی ۔ یہ سب تمہاری خود کی سوچ کا فطور ہے جو سر چڑھ کے بول رہا ہے ‘‘۔اس نے اپنا دفاع کیا۔
’’تو ثابت کیجیے کیف عالم کہ یہ صرف فطور ہے اور روک لیں مجھے ٹوٹ کے بکھرنے سے …..روک لیں مجھے اپنے ہاتھ سے پھسلنے سے …میں آپ سے دور نہیں جانا چاہتی …مگر آپ…..آپ…… مجھے مجبور کررہے ہیں ‘‘۔ اس نے جتایا تھا۔
’’کیوں دور جاؤگی مجھ سے ….بولو…. کیوں؟ کیا تمہاری محبت میں اب وہ شدت نہیں رہی ….. یا تمہارے اس دل کا محبت سے جی بھرگیا ہے ‘‘۔ اس نے سوال کیا ….ایسا سوال جس پہ وہ طنزیہ ہنس دی ۔
’’جن کا محبت سے جی بھرجائے وہ دور جانے سے گھبراتے نہیں ہیں ۔ میں تو بس آپ سے گزارش کر رہی ہوں کہ مجھے روک لیں….مجھے مجبور نہ کریں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھوں جو ہماری راہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے جدا کردے ۔‘‘
’’تمہارے اس رویے کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘‘۔ تجسس سے بولا۔
’’بالکل جان سکتے ہیں…بس یوں سمجھ لیں کہ میری سوئی ہوئی غیرت جاگ گئی ہے ….میرا ضمیر جاگ گیا ہے ۔اب تک میں آپ کی محبت میں اپنی عزت گنواتی آئی ہوں….مزید اپنی عزت گنوانے کی سکت مجھ میں نہیں ہے ۔ مجھے اب احساس ہونے لگا ہے کہ جس کے لیئے میں اپنی عزت داؤ پر لگاتی آئی ہوں …اس کی خود کی نظر میں میری اہمیت دو کوڑی کی بھی نہیں ۔ وہ خود بھی مجھے عزت دینے سے قاصر ہے ‘‘۔ آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے بولی۔
’’تم میری محبت کی تذلیل کررہی ہو ماہم قریشی ۔ محبت میں خود غرضی نہیں ہوتی ….تم اس وقت صرف اپنے بارے میں سوچ رہی ہو…میرے بارے میں نہیں ‘‘۔اس نے جتا کر کہا۔
’’نہیں کیف عالم….میں بس خود کو مزید تذلیل سے بچارہی ہوں ۔میں آپ کو3ماہ کا وقت دے رہی ہوں …..ان3ماہ میں اگر آپ مجھے عزت نہیں دے سکے تو کم از کم مزید رسوا بھی مت کروائیے گا۔ بہت کرلیا آپکا انتظار …..بہت سن لیں سب کی باتیں…. اب اور نہیں….. اور ہاں میں یہ باتیں غصے میں نہیں بول رہی ۔اس دفعہ میں واقعی سیریس ہوں ۔اب یا تو آپ مجھے سب کے سامنے اپنالیں یا ہمیشہ کے لیئے چھوڑدیں۔آج بھی فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے….. ا سکے بعدانجام کے ذمہ داربھی آپ ہی ہوں گے۔ اب آپ نہ تو مجھے کوئی میسج کریں گے اور نہ ہی کوئی کال کریں گے ۔ہاں اگر کچھ ضروری بات کرنی ہو تب کرلیجیئے گا‘‘۔وہ یہ کہہ کے کیف کا جواب جاننے کے لیئے رکی
’’مگر کیوں؟ تم بخوبی جانتی ہو تم بن رہنا میرے اختیار میں نہیں ….پھر یہ پابندی کیوں ؟‘‘۔ ماتھے پر بل لائے بولا۔
’’کیوں کہ میں کسی غیر سے کوئی بھی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی ‘‘۔لہجہ میں اجنبیت تھی ۔
’’غیر؟ اسے شاک لگا۔’’میں کب سے تمہارے لیے غیر ہوگیا ماہم قریشی ‘‘۔
’’ ہمیشہ سے تھے …..نہ تو آپ میرے شوہر ہیں اور نہ ہی پوری طرح سے منگیتر۔یہ تو میں تھی جو ایک غیر سے اک آدھ ادھورا رشتہ نبھاتی آئی ہوں ‘‘۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی۔
’’تمہارے لیئے میں اب غیر سہی ….پر میرے لیئے میری پوری کائنات تم ہو…..تمہاری محبت کسی رشتے کی محتاج ہوگی …پر میری محبت … میری محبت نام کے رشتوں کی قید سے آزاد ہے ‘‘۔ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بولا۔
’’کس وقت جانا ہے ؟ ڈیوووس کا ٹائم تو ہوگیا ہے شاید۔‘‘ وہ نرمی سے اس سے دور ہوتے ہوئے بولی ۔ وہ بات کو بدل رہی تھی اب۔
’’بس ٹائم ہونے والا ہے ۔میں جانے ہی والا ہوں‘‘۔اس کی نیلی آنکھوں میں نمی اترآئی ۔
’’آپ بھی ناکمال کرتے ہیں۔‘‘وہ کیف کی آنکھوں میں آئی نمی اپنے دوپٹے کے پلوسے صاف کرتے ہوئے بولی ۔
’’میں کیا کروں ماہی میرا دل ہی نہیں کرتا کہ یہاں سے جاؤں…… مجھے کچھ ہونے لگتا ہے۔ میں دل پر پتھر رکھ کر کراچی جاتا ہوں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنا آپ چھوڑ کے جارہا ہوں‘‘۔انداز جذباتی تھا۔وہ دونوں ایسے ہی تھے …پل میں تولہ …پل میں ماشہ۔
’’مجھ سے اتنی محبت ہے تو جلدی شادی کرلیں نا ۔‘‘وہ کیف پر شرارتی نظریں ڈالتے ہوئے بولی ۔
’’تم جانتی ہو نا کہ‘‘ …۔. وہ بول ہی رہا تھا کہ ماہم نے بات کاٹ دی ۔
’’ہاں جانتی ہوں …….سب جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کے اس بار آپ یہ3ماہ ضائع نہیں کریں گے ‘‘۔ اس نے اپنا دیا وقت یاد دلایا۔
’’میں پوری کوشش کروں گا ماہی ‘ ‘۔آنکھ سے ایک آنسو چھلکا تھا ۔
’’آپ اگر روکر جائیں گے تو وہاں دل لگا کر کیسے پڑھ سکیں گے…… اور آپ دل لگا کر پڑھیں گے نہیں تو …..اپنے پاؤں پر کیسے کھڑے ہوں گے اور پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے تو ہماری شادی کیسے ہوگی۔ اس لیئے اب روئیں مت تاکہ جلدی سے ہماری شادی ہوجائے اور پھر آپ کو اپنے یہ قیمتی آنسو نہ بہانہ پڑیں ۔‘‘یہ سب کہتے وہ ایک لمحے کو بھول گئی کے ان کی تقدیر کا فیصلہ آنے والے3ماہ کریں گے۔
کتنی ہی دیر کیف روتا رہا اور ماہی چپ کرواتی رہی۔ پچھلے3سال میں کیف جب بھی ماہی کے گھر سے وآپس کراچی کے لیئے جاتا تو نجانے کتنی ہی دیر روتا رہتا اور ماہی اسے تسلیاں دیتی رہتی۔حالانکہ کراچی سے سکھر کا فاصلہ چند گھنٹوں کا ہے اور لوگ تو ملک سے باہر جانے پر بھی اتنا نہیں روتے ۔وہ ماہی سے وقتی دوری پر بھی غم زدہ ہو جاتا تھا۔ آج بھی وہ تسلیاں لیئے وہا ں سے چلاگیا ان دونوں میں بات چیت کا سلسلہ5سال پہلے شروع ہوا تھا ۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں ماموں اظہر کے گھر پر کیف کچھ دن رہنے آیا تھا اور اگلے ہی روز اتفاق سے ماہم بھی آپہنچی ۔تب وہ16سالہ میٹرک کی اسٹودنٹ تھی اور کیف20سال کا گریجویٹ تھا ۔اس سے پہلے ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے کوسلام تک نہ کیا تھا حالانکہ وہ کزنز تھے ۔ کیف کی نیچر تھی کے وہ کسی رشتدار کے گھر نہیں جایا کرتا تھا ۔اس لیئے انکا آمنا سامنا بھی دو چار بار ہی ہوا ہوگا ….وہ بھی کسی شادی بیاہ کے موقع پر ۔ماہم بھی بچپن سے بہت ریزرو رہتی تھی۔وہ بہت کم لوگوں سے بات کرتی تھی ۔اس لیئے کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا کے وہ کیف سے کوئی بات کرے ۔
ماموں اظہرکی فیملی میں انکی بیوی کوثر…. دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹادانش جو اپنی بیوی ،بچوں کے ساتھ امریکہ سیٹل تھا ۔ایک بیٹا سعد جو کے کیف کاہم عمر اور دوست تھا۔اور بیٹی صدف جوکہ ماہم کی ہم عمر اور دوست تھی۔کیف صرف اور صرف سعد کے گھر ہر سال چھٹیوں میں آتا تھا ۔ صدف اور کیف کی بھی بہت بنتی تھی ۔
جب کیف اور ماہم اکٹھے آگئے تو صدف کو کیف کے ساتھ بھی بیٹھنا ہوتا تھا اور ماہم کے ساتھ بھی۔اسی لیئے وہ تینوں اکٹھے ہی بیٹھ جاتے۔ سعد بھی ان کو جوائن کرلیتا تھا۔ کیف کی باتوں سے اس کی پرسنلٹی سے صدف بہت امپریس تھی ۔ وہ ہر وقت ماہم کے سامنے کیف بھائی ایسے ہیں کیف بھائی ویسے ہیں کی رٹ لگائے رہتی تھی ۔ شروع میں ماہم صرف صدف سے ہی بات کرتی تھی ….وہ آئی بھی صدف کے لیئے تھی…. پر آہستہ آہستہ وہ کیف اور سعد سے بھی بولنے لگی۔
سعد ،کیف ،صدف اور ماہم اکٹھے چکیف اور ماہم کی خوب بن گئی۔ اس کے بعد تو ماہم بھی کیف بھائی، کیف بھائی کرتے نہ تھکتی تھی۔
ایک ہفتہ کیسے کھیلتے کودتے گزرا ان کوپتہ بھی نہ چلا۔ جس دن کیف اور ماہم دونوں کو اپنے اپنے گھر واپس جانا تھا اس دن موسم بہت خوشگوار تھا۔آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ….لگتا تھا کہ کسی بھی پل برس پڑیں گے۔
موسم کا مزہ لینے کی خاطر وہ چاروں لان میں موجود کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ ماہم نے ڈارک بلو کلر کی سادہ شلوار قمیص پہن رکھی تھی جس میں اس کا رنگ بہت نکھرہ نکھرہ لگ رہا تھا ۔بالوں کواس نے ہلکی پھلکی چوٹی میں باندھا ہوا تھا۔
ماہم کی چیئر کے ساتھ ہی سرخ گلاب کا پودا تھا۔جس پر بہت سارے گلاب کھلے ہوئے تھے ….کچھ کلیاں بھی تھیں۔ماہم نے ایک گلاب توڑا اور کھیلنے لگی …پھر یونہی بغیر کچھ سوچے سمجھے پھول کیف کی طرف بڑھا دیا اور بے ساختہ کہہ بیٹھی ۔
’’ اس کو سنبھال کے رکھیے گا۔‘‘
کیف نے پھول لے کر ناک سے لگایا اور پھر مسکرانے لگا ۔تب یک دم ماہم کے ذہن میں آیا کہ پھول دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور وہ پھیکی سی ہو کر رہ گئی۔ اسکے دل میں کیف کے لیئے ایسا ویسا کچھ بھی نہ تھا ……وہ بس اس کی پرسنلٹی سے امپریس تھی جیسے صدف تھی۔وہ ابھی اپنی اس حرکت پر دل ہی دل میں خود کو کوس ہی رہی تھی کے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا۔
ہلکی ہلکی سی بوندیں ان چاروں پر پڑنے لگیں ۔سعد تو بھیگنے کے ڈر سے فوراً اندر بھاگا۔اسے بارش کوئی خاص پسند نہ تھی۔کیف ،ماہم اور صدف تو بارش کے دیوانے تھے ۔وہ بچوں کی طرح اچھلنے کودنے لگے تھے ۔
بارش کچھ مزید تیز ہوئی جس پر کیف بولا۔
’’بادل بھی کنجوسی کر رہے ہیں ….ذرا دل کھول کے برسیں تو مزہ آئے ‘‘۔ اس کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ ماہم نے لان میں موجود پانی کے پائپ کی ٹوٹی کھول دی ۔وہ پائپ اٹھا کر کیف پر فل پریشر سے پانی ڈالنے لگی ۔
’’ارے ….یہ کیا کر رہی ہو احمق لڑکی ‘‘۔وہ اپنے بازو اپنے آگے کرتے ہوئے بولا۔
’’بادل کنجوس ہو سکتے ہیں کیف بھائی ….مگر میں بہت کھلے دل کی ہوں ۔‘‘۔وہ شوخ سی اداسے بولی تھی۔
کچھ دیر میں ماہم سے صدف نے پائپ چھین لیا۔اب و ہ تینوں باری باری ایک دوسرے سے پا ئپ چھین کر ایک دوسرے پر پانی برسانے لگتے ۔بارش تو جانے کب کی تھم چکی تھی مگر وہ اپنے ہی کھیل میں لگے رہے ۔
اس پل ماہم کا دل چاہ تھا کہ وقت وہیں تھم جائے اور وہ ماموں کے گھر سے کبھی نہ جائے ۔وہ بس یوں ہی ہنستی کھیلتی رہے …پر اسے جانا تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماموں کے گھر سے آنے کے بعد ماہم کی کبھی کوئی ملاقات یا کوئی رابطہ کیف سے نہیں ہوا تھا……پر جب بھی وہ صدف سے ملتی ان لمحوں کو یاد کرتی اور کیف کی خوب تعریفیں کرتی ۔
ان دونوں کی اس ملاقات کے ٹھیک دو سال بعد ایک دفعہ پھر ماہم گرمیوں کی چھٹیوں میں ماموں اظہر کے گھر چلی گئی۔وہاں کیف پہلے سے ہی رہنے آیا ہوا تھا ۔ماہم انٹر کے امتحان د ے کر آئی تھی ۔کیف نے گریجوایشن کے بعد2سال جاب کی تھی ۔اب وہ کچھ دن تک کراچی جانے والا تھا تاکہ ماسٹرز کر سکے ۔
ماموں کے گھر ماہم پورے دو سال بعد کیف کو دیکھ رہی تھی ۔وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھی ۔ وہ کیف کو بس اپنا اچھا کزن ہی سمجھتی تھی۔ اب کی بار جب وہ ملے تو پھر سے ماموں کے گھر میں رونق لگ گئی۔اس بار صرف کیف اور ماہم ہی نہیں آئے تھے بلکہ صفدر ماموں کی فل فیملی اور ندا خالہ اوران کی ایک بیٹی کومل بھی آئے تھے۔صفدر ماموں کی فیملی میں چارلوگ تھے ماموں،مامی فاخرہ ،ایک بیٹاا حسن اور ایک بیٹی امبر۔
صدف،سعد،کیف ،ماہم،احسن اورامبرساری رات باتیں کرتے یا کچھ ناکچھ کھیلتے رہتے۔ کومل سب سے چھوٹی تھی سو وہ جلدی سو جایا کرتی وہ نہ بھی سوتی تو سب کی کوشش ہوتی کے اس کو بہانے سے بھگا دیا جائے ۔ ایک تو وہ چھوٹی تھی اوپر سے ذراذرا سی بات پر خالہ کو شکایت لگانے پہنچ جاتی ۔گھر کے بڑے کیف ،سعد ،احسن ،امبر ، صدف ،کومل اور ماہم کو بچہ پارٹی بلاتے تھے ۔عمر میں بچہ تو کوئی نہیں تھاسوائے کومل کے پر بڑوں کے لیئےتو وہ بچے ہی تھے ۔کیف زیادہ تر ماہم کے ساتھ باتیں کرتا تھا اس کے ساتھ کافی فرینک تھا ۔کبھی یہ سب واک کرنے جاتے تو کیف ہمیشہ ماہم کے ہم قدم رہتا ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ایک رات سعد، صدف،کومل ،احسن ،کیف اورماہم سب لاؤنج میں اکٹھے بیٹھے تھے اور امبر سونے جا چکی تھی ۔سب سوچ رہے تھے کے آج رات کیا کھیلا جائے ۔
’’ لڈو کھیلتے ہیں ……اس سے بیسٹ ان ڈور گیم کوئی ہے ہی نہیں ‘‘۔صدف اچھل کر بولی ۔
’’لڈو میں تو بس چار پلیئرز کھیل سکتے ہیں جب کے ہم چھ ہیں ‘ ‘۔احسن ناک چڑھا کر بولا تھا۔
’’ہر چیز نے ترقی کر لی ہے تو ہماری لڈو کیا پیچھے رہ جاتی ۔وہ بھی چھ پلیئرز والی آچکی ہے اور گھر میں موجو د بھی ہے ‘ ‘۔احسن کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سعد بولا ۔
’’بس پھر دیر کیسی جاؤ صدف…لڈو لے کر آؤ ‘‘۔ احسن پرجوش ہوکر بولا۔
صدف لڈو لے آئی اور سب نے اپنے کلرزچن لیئے۔ اب گیم شروع ہوچکی تھی ۔ سب نے جم کر چیٹنگ شروع کردی ۔کبھی سعد کی مری ہوئی گوٹی اچانک غائب ہوجاتی تو کبھی پتہ نہیں کیسے احسن کی گوٹی گھر والے خانے میں پگنے کے لےئے ایک نمبر پر بیٹھی ہوتی تھی ۔اور جو ہماری صدف تھیں انکی گوٹیاں ہمیشہ اسٹاپ پر ہی پائی جاتی تھیں….. راستے میں بیٹھی بیٹھی گوٹی کب اسٹاپ چڑھ گئی کچھ پتہ نہ چلتا ۔کومل جو سب سے چھوٹی تھی اس کی گوٹیاں تو گھر سے نکلتے ہی شہید ہوجاتیں ۔کیف اگر چیٹنگ کر بھی رہا تھا تو اتنی مہارت سے کے کوئی سار ی زندگی بھی نہ پکڑ پائے ۔ماہم بھی مو قع دیکھتے ہی گوٹیاں آ گے پیچھے کردیتی ۔ سب نے مل کر بیچاری کومل کو ہرا دیااور ایک گیم میں نہیں مسلسل تین گیمز میں ۔ کومل منہ بناتی ندا کے پاس بھاگ گئی ۔اب سب کی کلاس لگنے والی تھی ندا سے ۔ظاہر ہے بھئی ا نکی چھوٹی سی بیٹی کو جان بوجھ کر سب بے ایمانی سے ہرا رہے تھے ۔اس سے پہلے کے شکایتی کاکی کومل ندا کو لےکر آتی سب اپنے اپنے بسترے پر جا کر سوگئے ۔
صبح ہوتے ہی کوثرنے حکم جاری کیا کے آج کے بعد کومل کو کوئی تنگ نہیں کرے گا ۔غالباًندا نے ہی کوثر سے شکایت کی ہوگی۔ اب سب کو کومل اور بھی زہر لگنے لگی تھی ۔سب نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب تو کومل سے سو فٹ دور رہنا ہے اور بھول کر بھی اسے اپنے ساتھ نہیں کھلانا ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دوپہر کا وقت تھا۔ماہم اور صدف کچن میں گھسی ہوئی تھیں ۔ان دونوں نے نیٹ سے ماربل کیک کی ریسپی دیکھی تھی …اور وہ وہی بنانے کی جتن کرنے لگیں۔زندگی میں کیک بنانے کا یہ ان کا پہلا تجربہ تھا۔
کیک نکالنے سے پہلے وہ دونوں بڑی پر جوش تھیں اور کیک نکالنے کا بعد ان کا سارا جوش ہوا ہو چکا تھا۔ ایسا کیک نہ کبھی کسی نہ بنایا ہو …نہ کھایا ہو۔ کیک پھولا تک نہیں تھا ….اور سخت اتنا کہ دیکھنے میں ہی کسی پتھر جیسا تھا۔
اب وہ دونوں کبھی ایک دوسرے کو دیکھتیں تو کبھی شیلف پہ پڑے کیک کو۔
’’اڑتے اڑتے خبر ملی ہے کہ آج دو عظیم ہستیاں …..فیوچر کی ماسٹر شیفز کیک بنا رہیں‘‘۔ کیف کچن میں آ دھمکا تھا۔
’’آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں ‘‘۔ماہم ہاتھ باندھتے ہوئے بولی ۔
’’بالکل نہیں…نظر شیلف پہ رکھے کیک پر پڑتی ہے۔’مذاق تو خود ہی اڑتا جا رہا ہے ‘‘۔
ماہم نے گھور کے دیکھا۔صدف چپ چاپ وہاں سے کھسک گئی ….وہ سمجھ چکی تھی کہ اب بہت کھنچائی ہونے والی ہے ۔
’’ویسے یہ اینٹ نما کیک بنانے کا خیال تمہیں آیا کیسے ‘‘۔ وہ اب شیلف پہ بیٹھ چکا تھا۔
’’ذرا سنبھل کے…کہیں یہ اینٹ نما کیک سر پر ہی نہ پڑ جائے ‘‘۔ وہ شوخی سے بولی ۔
’’سر پہ مار کے ضائع نہ کرو …میں سوچ رہا ہوں اسے ٹیسٹ کر ہی لوں ‘‘۔ وہ ساتھ پڑی پھلوں کی ٹوکری سے سیب اٹھاتے بولا۔
’’are you sure‘‘۔وہ حیران ہوئی ۔
’’ہاں ہاں نائف اٹھاؤ …اگر اسے کاٹنے میں کامیاب ہوجاؤ تو مجھے چکھا دینا‘‘۔ اس نے سیب کو ہوا میں اچھالنا اور کیچ کرنا شروع کیا۔
’’اس احسان کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ وہ چڑ کے بولی ۔
’’تمہیں پتہ ہے ماہم ….شیکسپیئر کیا کہتا ہے ؟‘‘۔وہ سیب کا بڑا سا بائٹ لیتے ہوئے بولا۔
’’کیا کہتا ہے ‘‘۔؟ وہ متجسس ہوئی ۔
’’وہ کہتا ہے کہ احمق لڑکیوں پہ کبھی کبھی احسان کردینے چاہیں ‘‘۔ایک اور بائٹ لیتے ہوئے بولا۔
’’کیف بھائی ….آپ اپنی یہ مہربانیاں اپنے پاس ہی رکھیں ‘‘۔ وہ ناراض ہوئی۔
’’مجھے بھائی مت بلایا کرو یار…..بھری جوانی میں تم نے مجھے بھیا بنادیا ہے ‘‘۔وہ اب بھی سیب کھا رہا تھا۔
’’کیوں نہ بلاؤں ؟‘‘۔تیوڑی چڑھا کے بولی ۔
’’تمہیں پتہ ہے شیکسپیئر کیا کہتا ہے ‘‘۔ وہ اب شیلف سے نیچے اترا۔
’’اب کیا کہہ دیا شیکسپیئرچا چا نے ؟‘‘۔
’’وہ کہتا ہے کہ ہینڈسم لڑکوں کو بھائی نہیں کہنا چاہیے….ان کی پرسنلٹی پر فرق پڑتا ہے ‘‘۔سیب کھانے کے بعد ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولا۔
’’پر اس نے تو صرف ہینڈسم لڑکوں کی بات کی ہے ‘‘۔وہ شوخ انداز میں بولی ۔
’’تو کیا میں ہینڈسم نہیں ‘‘۔وہ اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’بالکل نہیں ‘‘۔وہ کچھ قدم پیچھے ہٹی۔وہ مزید آگے کو بڑھا۔وہ بے اختیار پیچھے کو ہوئی ۔ وہ اس پر گہری نظریں ڈالے مزید قریب ہوا۔وہ نظریں جھکائے پیچھے کو ہوئی اور دیوار پہ جا لگی۔وہ اب بھی اس کے قریب آرہا تھا۔ وہ نروس ہونے لگی۔
’’مجھے تو لگا کہ شاید دور سے ہی تمہاری ناک چھوٹی لگتی ہے…پر یہ تو قریب سے بھی چھوٹی ہے ‘‘۔وہ اس کی ناک زور سے کھینچتے ہوئے بولا۔
ماہم کے سمجھنے اور سنبھلنے سے پہلے ہی وہ ہنس کر وہاں سے چلاگیا۔
وہ اپنے سر پہ ہلکا سا تھپڑ لگاتے ہوئے مسکرادی۔رات کو جب بچہ پارٹی اکٹھے بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی تب احسن بھاگا گیا ….اور لڈو اٹھا لایا …..وہ مووی سے بے حد بور ہو رہا تھا ۔
’’چلوچلو اٹھو سب…….. لڈو کھیلتے ہیں بہت دیکھ لی مووی۔‘ ‘احسن ایل۔ای۔ڈی بند کرتے ہوئے بولا ۔
’’ارے نہیں آج کچھ اور کھیلتے ہیں‘‘۔صدف بولی ۔
’’پھر بتاؤ کیا کھیلیں ‘ ‘۔احسن بولا۔
’’کرکٹ کھیلتے ہیں ‘‘۔صدف اچھل کر بولی ۔اس کے دماغ میں جب بھی کوئی آئیڈیا آتا تھا وہ یو نہی اچھل جاتی تھی ۔
’’لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے …..ہم چھ،سات لوگ کرکٹ کیسے کھیلیں گے ؟ ۔اوہ اچھا تو تم بیٹ بال کی بات کر رہی ہو ہا ہا ہا ہا ہا یہ لڑکیاں گھر میں بچوں والی بیٹ ،بال کھیل کر سمجھتی ہیں ہم نے کرکٹ کھیل لی ہاہاہاہاہا۔ کرکٹ ورکٹ ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے ‘‘۔سعد نے چڑاتے ہوئے کہا ۔
’’خبردار بھیا …….جو اب آپ نے لڑکیوں کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا…….ہم کسی سے کم نہیں ‘‘۔صدف نے صوفے کا کشن سعد کو مارتے ہوئے کہا ۔
’’اچھا جی ….تو ابھی پتہ لگ جائے گا کہ کون کس سے کم ہے اور کون کس سے زیادہ، چلو سب یسو ،پنجو کھیلتے ہیں‘ ‘۔ اب کی بار کیف بولا تھا ۔
’’نہیں ،نہیں مار کٹائی والی گیم نہیں ‘‘۔ امبر گھبرا کے بولی ۔
’’تو یہ لڑکیاں ہم سے ڈر گئیں ‘‘۔احسن لڑکیوں کو چڑانے والے انداز میں بولا ۔
’’جی نہیں …….ہم ضرور کھیلیں گے…… امبر تو تم سب پر ترس کھا کر بول رہی تھی ۔وہ نہیں چاہتی کہ تم سب لڑکوں کے ہاتھوں کا قیمہ بن جائے‘‘۔ ماہم بڑے مغرور انداز میں بولی ۔امبر نے جب دیکھا کے یہ سب یسو پنجو کھیل کر ہی چھوڑیں گے تو اس نے سونے کا بہانہ کیا اور وہاں سے کھسک گئی ۔کومل بیچاری کو تو ویسے بھی زبردستی پہلے ہی سلا دیا گیا تھا ۔
’’کس کا قیمہ بنتا ہے۔۔۔۔ اور کس کا نہیں یہ تو ابھی پتہ چل جائے گا میں تو ڈولی ہوں بھئی ‘ ‘۔کیف بولا ۔
’’اور میں یسو‘‘۔ صدف بولی۔
’’میں پنجو ‘‘۔ ماہم فٹ سے بولی وہ ہمیشہ پنجو ہی لیتی تھی۔
’’میں ہار‘ ‘۔ احسن بولا ۔
’’اب کبوتر ہی بچا ہے تو پھر میں کبوتر‘ ‘۔ سعد بولا ۔
سب صوفوں سے اٹھ کے نیچے قالین پر بیٹھ گئے …..سب نے ایک جگہ ہاتھ اکٹھے کیئے اور ہوا میں اڑا دیئے اورپھر اپنی انگلیاں قالین پر رکھ دیں۔ کسی نے دو انگلیاں رکھیں تو کسی نے تین پھر صدف سب کی انگلیاں گننے لگی یسو ،پنجو،ہار،کبوتر ،ڈولی۔ اس طرح گنتے ،گنتے سعد پگ گیا …..پھر ماہم …..پھرکیف اور صدف بھی ۔بچ گیا احسن جو سب کے آ گے باری باری ہاتھ کرتا رہا۔ سب نے جم کے دھلائی کی بچارے کے تو ہاتھ ہی لال ہو گئے تھے۔
اب اگلی باری کیف ہارا جس پر سب نے اسکی دھلائی کی سوائے صدف کے۔ وہ کیف کی اتنی بڑی فین تھی وہ بھلا کیف کو کیسے مارسکتی تھی۔ اس نے معاف کردیا پر اگلی بار جب صدف ہار گئی تو کیف نے اسے معاف نہیں کیا….. یہ اور بات ہے کے اس کے ہاتھ پر ایسے تھپڑ لگائے جیسے پھول مار رہا ہو ۔
پھر سے سب نے ہوا میں ہاتھ اڑاکر قالین پر ڈالے اور اس بار ہاری ہماری ماہم۔ وہ باری باری سب کے آگے ہاتھ کرتی رہی اور آخر میں اس نے ہاتھ کیئے کیف کے آگے۔ وہ پتہ نہیں کس امید میں تھی کے کیف اس کو چھوڑدے گا …..لیکن کیف نے ایک زور دار تھپڑ اس کے ہاتھ پر دے مارا ۔اتنی زور سے کیف نے شاید ا ب تک کسی کو نہیں مارا تھا ۔ماہم کا ہاتھ لال ہو چکا تھا ۔ اسکی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔اس کی امید ٹوٹی تھی۔یہ امیدیں ہی تو ہیں جو ٹوٹنے پہ انسان کو بھی توڑ دیتی ہیں ۔
کیف یہ دیکھ کرشرمندہ سا ہو گیا ۔
’’بس ماہم ایک کافی ہے باقی معاف کیا ‘ ‘۔آواز میں احساس ِ ندامت تھا۔
’’نہیں…….. اس احسان کی ضرورت نہیں ۔آپ اپنی باری تب تک پوری کریں ….جب تک میں خود ہاتھ پیچھے کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتی‘ ‘۔ وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی قابومیں کرتے ہوئے بولی۔
اسے ڈر تھا کے کہیں کوئی اشک بہہ ہی نہ نکلے ۔کیف جانتا تھا ….وہ ضدی ہے۔ اس طرح معافی نہیں لے گی ۔اس نے پھر سے تھپڑ لگایا…. مگر اس بار آہستہ سے اسکے بعد پھر سے لگانے لگا کہ وہ اپنا ہاتھ کھینچنے میں کامیاب ہوگئی ۔
’’چلو بس بہت ہوگئی یسو ،پنجو ‘‘۔ سعد بولا تھا وہ خوش تھا کے اب تک اس کی باری نہیں آ ئی اس لیئے اس نے گیم ختم کرنے کا بولا کہ کہیں اسکی باری نہ آجائے۔ سب نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا…..کوئی نہیں چاہتا تھا کے دوبارہ اس کو مار کھانی پڑجائے ۔سب واپس سے صوفوں پر جاکر بیٹھ گئے لیکن ماہم اوپر چھت کی طرف بھاگی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وہ فرش پر اپنے گھٹنوں میں سر دیئے آنسو بہا رہی تھی۔اس نے بے بی پنک کلر کا کرتا پہن رکھا تھا۔بال ہلکی چوٹی میں گوندھ رکھے تھے ۔ اسے اس طرح زمین پر بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا…. وہ اپنے گھر میں بھی ہمیشہ چھت پر جایا کرتی تھی… اور فرش پر گھنٹوں بیٹھی رہا کرتی تھی ۔
آج اس کو خود بھی نہیں پتہ تھا کے وہ کیوں آنسو بہارہی ہے ۔
کچھ دیربعد اسے آہٹ سنائی دی جیسے کوئی چپ کے سے اس کے پاس آبیٹھا ہو۔ وہ سمجھ چکی تھی کے کون آیا ہے ۔اس نے اپنا سر اپنے گھٹنے سے اٹھایا….. اپنے آنسو صا ف کیئے اور سامنے بیٹھے کیف کو دیکھا …جو اس پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ اس کی نظروں میں کچھ تھا کے وہ جھجھک سی گئی۔
’’آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟‘‘۔وہ شوں شوں کرتے بولی ….وہ جب بھی آنسو بہاتی تھی…. اسکی ناک آنسوؤں سے زیادہ بہنے لگتی ۔
’’تمہارے لیئے آیا ہوں ‘ ‘۔وہ نظریں اور گہری کر کے بولا تھا ۔
’’اس احسان کی کوئی ضرورت نہیں‘ ‘ ۔وہ منہ پھیر کے بولی تھی۔
کیف نے اپنی انگلی اس کی تھوڑی کے نیچے رکھی ….اور اس کے چہرے کا رخ اپنی جانب کر کے بولا۔
’’کس بات کی ضرورت ہے ….وہی بتا دو‘‘۔
وہ خاموش رہی ۔وہ پھر خود ہی بولا۔
’’ میر ا خیا ل ہے تمہیں گرما گرم چائے کی ضرورت ہے …..نیچے صدف سب کے لیئے چائے بنانے لگی ہے….. تم بھی چلو اکٹھے چل کے پیتے ہیں۔‘‘
’’نو تھینکس ‘ ‘۔اس نے پھر سے اپنا چہرہ پھیر لیا۔
کیف کو وہ اس لمحے بڑی کیوٹ لگی …….. اس نے ماہم کی ناک کھینچی ۔وہ جھنجھلا سی گئی ….پھرذرا غصے سے بولی ۔
’’آپ جائیں یہاں سے۔ ‘ ‘
’’اگر نہ جاؤں تو ؟‘ ‘۔وہ مسکرا کر بولا تھا ……….ماہم کا یوں روٹھ جانا اسے اچھا لگ رہا تھا ۔
’’تو میں چلی جاتی ہوں ‘‘۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی …..کیف نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر پھر سے اسے نیچے بٹھا دیا ۔
’’معاف کر دو ماہم ‘ ‘۔وہ اب بھی شرمندہ تھا۔
’’کس بات کے لیئے ‘ ‘۔وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
’’میں نے تمہیں زور سے مارا اس لیئے ‘‘۔وہ بولا ۔
’’یہی تو گیم تھی اس میں معافی کیسی ‘‘۔وہ جانتی تھی یہ گیم ہے پھر بھی جانے کیوں اس کو کیف سے چوٹ کھانا بہت برا لگا تھا ۔اس نے تو خوامخواہ میں کیف سے امید لگالی تھی کے وہ اسے کبھی تکلیف نہیں دے سکتا کسی نے سہی اس فانی دنیأ میں کسی انسان کو کسی انسان سے امید نہیں لگانی چاہیئے
’’چلو واک کرنے چلتے ہیں‘ ‘۔کیف نے اس بات کو ختم کرنا چاہا اس لیئے واک کی آفر کردی …..وہ جانتا تھا کے باہر گھومنے کے نام پر ماہم چھلانگ لگا کر کھڑی ہو جائے گی ….اور ہوا بھی ایسا ……کدھر گیا رونا اور کدھر گیا دھونا۔ شوں شوں کرتی ماہم فٹ سے کھڑی ہوگئی کیف اسکی اس حرکت پر مسکرانے لگا۔
وہ دونوں چھت سے اتر کر لاؤنج میں آگئے جہاں سب چائے پی رہے تھے….میز پر دو کپ چائے رکھی تھی جو یقیناًان دونوں کی تھی ۔
’’کیف بھائی آپ تو ماہم کو بلانے گئے تھے……..پر خود بھی وہاں ہی بیٹھ گئے‘۔ ‘ صدف ان کے آتے ہی بولی ۔
’’اور نہیں تو کیا اتنی دیر میں تو صدف نے چائے بنا بھی لی اور ہمیں دے بھی دی …..ہاں بس تھوڑی کچی رہ گئی ہے ….یہ الگ بات ہے ‘‘۔احسن شرارتی انداز میں بولا ۔وہ ہمیشہ ہی صدف کی ٹانگ کھینچنے میں لگا ہوتا تھا۔اس سے پہلے کے صدف کوئی جواب دیتی کیف بولا۔
’’ میں اور ماہم واک کرنے جارہے ہیں …..تم لوگ گیٹ لاک نہ کرنا ہم بس کچھ دیر میں آئے ۔‘‘
’’یہ آدھ کچی ،پکی چائے تو پیتے جاؤ‘‘۔ احسن پھر سے صدف کو چڑانے کے لیئے بولا تھا ۔ صدف نے کشن اٹھا کراحسن کے منہ کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر دے مارا……کیا کمال کا نشانہ باندھا گیا تھا۔ احسن برق رفتاری سے سائیڈ پر ہو گیا اور کشن اس کے پاس سے ہوتے ہوئے نیچے جا گرا۔اب احسن کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔
’ ’تم لوگ اپنی یہ ہوائی جنگ جاری رکھو…ہم بس ابھی آئے‘ ‘ ۔کیف نے کہا اور سب ہنسنے لگے۔
کیف اور ماہم کے جانے کے بعد احسن نے عجیب لہجے میں کہا ۔
’’لگتا ہے کوئی کھچڑی پک رہی ہے ‘‘۔
’’کیسی کھچڑی ‘‘۔صدف ابرو چڑھائے بولی۔
’’میرا خیال ہے کے ان کا چکر چل رہا ہے‘ ‘۔ احسن اپنی ہلکی بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیڑتے ہوئے بولا ۔
’’توبہ احسن ….چپ رہو…‘ ‘۔صدف بولی۔
’’اب تم سب خود ہی سوچو….. وہ دونوں اکیلے ہی چلے گئے …..ہمیں بھی تو لے کر جاسکتے تھے نا ‘‘۔ احسن دلیل دیتے ہوئے بولا ۔
’ اگر وہ ہمیں لے بھی جاتے…… تب بھی تو وہ آپس میں ہی لگے رہتے …..ہمیں کہاں لفٹ کرواتے ‘‘ ۔امبر بولی جو لڈو کے وقت توسونے کا بہانہ کرکے بھاگ گئی تھی پر گیم ختم ہوتے ہی چائے پینے آ گئی ۔
’’خیر اب ایسا بھی نہیں ہے امبر۔…..ہاں ٹھیک ہے کے ان کی تھوڑی زیادہ بنتی ہے…. مگر اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ ‘‘۔سعد کندھے اچکاتے ہوئے بولا ۔
’’نہیں بھائی ….شاید ایسا ہی ہو….. آپکو یاد ہے لاسٹ ٹائم کیف بھائی سب کے لیئے چاکلیٹس لائے تھے….. تب انہوں نے سب کو ایک چاکلیٹ دی لیکن ماہم کو دو دیں‘ ‘ ۔صدف سر کھجاتے ہوئے بول رہی تھی جیسے ابھی وہ اور بھی باتیں یاد کر کے بتائے گی اور آج ثابت کر ہی دے گی کے کچھ گڑ بڑ ہے ۔
’’اور کل جب ہم سب کولڈ ڈرنک پی رہے تھے تو کیف نے اپنی کولڈ ڈرنک پینے کے بعد ماہم کے ہا تھ سے اس کی جھوٹی کولڈ ڈرنک لے کرپی‘ ‘ ۔احسن پھر سے شیو میں ہاتھ پھیرتے بولا تھا۔
’’واٹ ربش …………اتنی فضول باتوں کی وجہ سے تم سب نے ان کے ایک اچھے تعلق کو چکر بنا کر رکھ دیا…..اتنی احمقانہ باتوں کی تم سب سے امید نہیں تھی…… اب اس بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا‘‘۔سعد قدرے سنجیدہ ہو کر بولا ۔
پھر سب نے کیف اور ماہم کا ٹاپک چھوڑا…… اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے ۔
ماہم اور سعد گھر کے ساتھ والی سڑک پر ہی واک کررہے تھے ۔ہوا کے ہلکے جھونکے ماہم کو بہت اچھے لگ رہے تھے۔رات کافی ہو چکی تھی اس لیئے سڑک بالکل سنسان تھی۔ ماہم کو ایسی سنسان سڑکیں بہت پسند تھیں…… اس کا دل کرتا تھا کے وہ راتوں کوکہیں نکل جایا کرے اور سنسان سڑکوں پر بھٹکتی رہا کرے۔ اس کو چاند ،تارے ،بادل ،ہوا، آسمان ، فرش ،بارش ، سب پسند تھا اور بے حد پسند تھا …..وہ ہر چھوٹی چیز پر بھی خوش ہو جایا کرتی تھی……… وہ گھنٹوں اکیلے ان چاند تاروں کے ساتھ بیٹھ سکتی تھی۔سنسان سڑک پر واک کرکے وہ بہت سکون محسوس کر رہی تھی ۔
’’جب تک میں یہاں ہوں نا …….آپ مجھے روز باہر لانا ‘ ‘۔وہ بہت چہک کر بولی تھی ۔
کیف جواب میں مسکرادیا ۔
’’ہم نا ایسا کریں گے فیوچر میں اپنے گھر ساتھ ساتھ ہی بنائیں گے………. ایک دیوار کے فاصلے سے۔ آپ میرے خاوند سے دوستی کر لینا میں آپکی بیوی سے ………پھر ہم چاروں خوب گھومیں گے ،بہت فن کریں گے ،بہت کھیلیں گے ،ٹھیک ہے نا …..پر اگر آپکی بیوی بور قسم کی ہوئی تو ؟ یا وہ نک چڑھی ہوئی تو ؟ ‘‘ ۔وہ اس سنسان سڑک پر بہت چہک رہی تھی خود سے ہی پتہ نہیں کیا کیا سوچے ،بولے جا رہی تھی ۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ماہم…..ویسے مجھے بھی لگ ہی رہا ہے کہ میری وائف شاید نک چڑھی ہی ہو‘ ‘ ۔کیف نے مسکراتے ہوئے ماہم کو دیکھا۔
’’نہیں نا ….. اگر وہ بور ٹائپ کی ہوئی …..تو وہ خود بھی بور ہوگی…….. ہمیں بھی بور کرے گی ‘ ‘۔ماہم سنجیدہ ہو کر بولی۔ وہ سچ میں پریشان ہو رہی تھی کہ کیف کی بیوی بور نکلی تو ؟۔
’ ’تو پھر کیا کر سکتے ہیں ماہم ؟‘ ‘۔کیف بھی اب سنجیدہ ہو کر بولا۔
’’تو پھر یہ کر سکتے ہیں کے میں نے آپکے لیئے لڑکی پسندکی ہے ……..اگر آپ اس سے شادی کرلیں تو پھر مسئلہ ہی کوئی نہیں‘ ‘ ۔وہ پھر سے چہک اٹھی تھی ۔
’’کون لڑکی ؟‘‘۔ اسے شاک سا لگا۔
’’پہلے آپ بتائیں…. آپ میری پسند کی لڑکی سے شادی کریں گے نا ؟‘‘۔ وہ معصومیت سے بولی تھی۔
’’ہاں کرلوں گا…… اگر مجھے بھی پسند آئی تو۔ ‘ ‘کیف نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔
’’پسند نہیں….بہت پسند آئے گی …..وہ بہت اچھی لڑکی ہے…. آپ بہت خوش رہیں گے اسکے ساتھ…. اور یقین مانیں آپ دونوں کا کپل بھی بہت کیوٹ لگے گا۔ہر کوئی بولے گا واہ کیا چاند ،سورج کی جوڑی ہے ‘ ‘۔وہ ایسے بول رہی تھی جیسے کسی بچے کو آئسکریم کی لالچ دے رہی ہو۔
’’اچھا جی …..کون ہے وہ بھلا ؟۔‘ ‘ کیف متجسس ہوا۔
’’امبر ‘ ‘۔ وہ بڑے اعتماد سے بولی ۔اسے تو لگا تھا کیف یہ نام سن کر جھوم اٹھے گا لیکن کیف کوپھر سے شاک لگا ۔
’’ واٹ ؟؟؟؟میں نے امبر کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ۔‘ ‘وہ بہت سنجیدگی سے بولا تھا جیسے اسے اس بارے میں بات ہی نہیں کرنی۔
’’تو اب دیکھ لیں نا ۔‘‘ وہ اعتماد سے بولی….. اسے لگ رہا تھا کے کیف بس یونہی بھاؤ کھارہا ہے۔
’’اگر میں دیکھ بھی لوں تب بھی یہ نا ممکن ہے ۔تم جانتی بھی ہو کے امی کی مامی فاخرہ سے بالکل نہیں بنتی …..وہ ہرگز اس رشتے کے لیئے نہیں مانیں گی ‘‘۔کیف کا موڈ اب خراب ہورہا تھا۔
( حال دیکھو ان کا…. یہ تک سوچا ہوا ہے…. کے کون مانے گا، کون نہیں…..اور میرے سامنے بس نخرے کررہے ہیں ،چلو اٹھا لیتے ہیں نخرے بھی)اس نے دل میں سوچا تھا۔
’’آپ منائیں گے تو خالہ مان جائیں گی آپ کوشش تو کریں ‘ ‘۔انداز معصومانہ تھا۔
’’امبر ہی کیوں ؟۔‘‘ وہ تیوڑی چڑھا کر بولا ۔
’’ وہ اس لیئے کیوں کے کوئی اور آپکی بیوی بنی تو مجھے اس سے دوستی کرنی پڑے گی اور وہ مجھے لفٹ کروائے نا کروائے ۔جب کے امبر کے ساتھ میری ان کچھ دنوں میں کافی بن چکی ہے ۔‘ ‘ وہ بولی پر دل میں سوچنے لگی ( وہ اتنی خوبصورت ہے…. آپ بھی اتنے پیارے ہیں…. آپ دونوں ہی نیلی آنکھوں والے ….آپ دونوں ساتھ میں کتنے اچھے لگیں گے…. آپ دونوں کو دیکھ کر لگتا ہے آپ بنے ہی ایک دوسرے کے لےئے ہیں )۔
’’گھر چلیں اب ؟‘ ‘۔کیف نے بات کو بدلنے کے لیئے کہا ۔
’’جی چلیں نا …..اس سے پہلے کے امبر سو جائے۔ ‘ ‘ اف معصومیت ،وہ سمجھی کیف کو گھر امبر کی وجہ سے یاد آگیا ہے ….کیف نے اس بات کو ایسے اگنور کیا جیسے سنا ہی نہیں
“کیف مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے”سعد سنجیدگی سے بولا”پوچھو”وہ موبائل پر نظریں ٹکائے ہی بولا”پہلے تم وعدہ کرو کہ میری بات کا برا نہیں مانو گے اور مجھ سے کچھ چھپاؤگے نہیں”سعد بولا
وہ اپنے موبائل فون پر کار ریسنگ گیم کھیل رہا تھا سعد کے انداز نے اسے بتادیا کہ وہ کوئی خاص بات کرنے آیا ہے اس نے گیم بند کی اور سعد کی طرف متوجہ ہوکر بولا”تم جانتے ہو میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں”
’’ہمم کیا تم اور ماہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو؟سعد نے اس پر بمب پھوڑا اس سوال کی امید تو وہ خواب میں بھی نہیں کرسکتا تھا”اگر تم دونوں کے درمیان ایسا کچھ نہیں تو اپنی ایک دوسرے سے فرینکس کم کردو کیونکہ سب لوگ تم دونوں پر شک کررہے ہیں۔ سب کو لگتا ہے کے تم دونوں کا چکر ہے تم دونوں خوامخواہ میں بدنام ہورہے ہو اور اگر واقعی تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو تو اپنے قدم پیچھے کرلو ۔تم اچھی طرح جانتے ہوکہ تمہارے گھر والے کبھی ماہم کو نہیں اپنائیں گے ۔تم ماضی میں ہونے والے حالات سے واقف ہو۔تم نے ماہم کے بارے میں سوچا بھی تو تمہارے گھر میں فساد پڑجائےگا”وہ ایک سانس میں سب بول گیا”ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم بس اچھے کزنز ہیں اور کچھ نہیں میں جانتاہوں کے مجھے اس راستے پر نہیں چلنا مجھے دکھ ہے کہ کوئی کیوں غلط سوچ رہا ہے ہمارے بارے میں؟اتنی چھوٹی سوچ کیوں ہے سب کی”اس کا لہجہ افسردہ تھا
’’کل رات تم دونوں کا اکیلے جانا اور اوور آل ایک دوسرے کو زیادہ وقت اور امپورٹنس دینا سب کو شک کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ آج صبح بھی احسن تم دونوں کے بارے میں پھوپھو ندا کو فضول باتیں کررہا تھا تم تو پھو پھو ندا کو جانتے ہی ہو پورے خاندان میں مرچ مسالہ لگا کر پھیلائیں گی اور ایک بار بھی یہ نہیں سوچیں گی کے وہ جس کے بارے میں بات کررہی ہیں وہ ان کے اپنے بھانجا ،بھانجی ہیں”سعد کے لہجے میں واضح پریشانی تھی”شایدتم ٹھیک کہہ رہے ہو سعد لوگوں کی سوچ کا ہمارے پاس علاج تو ہے نہیں اس لیئے ہمیں خود ہی محتاط رہنا چاہیے”کیف پوری طرح بات کو سمجھ چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کے ماہم پر کوئی اس کی وجہ سے انگلی اٹھائے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...