“سارے کچن کی سیٹنگ کا ستیاناس کردیا ہے آپ کی بہو نے مجھے نہ چینی مل رہی ہے نہ الائچی” معیز کی کچن سے جھنجھلاتی ہوئی آواز آئی تو حسنہ بیگم نے جنت کو اشارہ کیا وہ اٹھ کر کچن میں چل دی—اوپر سامنے والے ہی کیبنٹ میں سارے مصالحے وغیرہ پڑے تھے اس نے شوگر پوٹ اور الائچی سلیب پر رکھی
“دار چینی, سوڈا اور میوے بھی نکال دو” وہ پلٹی جب کاؤنٹر سے ٹیک لگائے چولہے کے پاس کھڑے معیز نے حکمیہ انداز میں کہا وہ پھر کیبنٹ کھول کر کھڑی ہوگئی
“تمہیں آتی ہے کشمیری چائے بنانی؟؟؟” اس نے پستے کا جار کھول کر دو تین دانے منہ میں ڈالے—جنت نے نفی میں سر ہلایا
“آتا کیا ہے تمہیں؟؟؟” اس کے کہنے پر جنت نے بادام والا جار کیبنٹ سے نکال کر زور سے پٹخا اور غصے سے اسے گھورا جو ابرو اُٹھائے سوالیہ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا جنت نے ٹھک سے کیبنٹ بند کیا اور جانے لگی جب معیز سینے پر بازو باندھے اسکے سامنے کھڑا ہوگیا
“اب کیا چاہیے؟؟؟” جنت تلملائی
“ڈھیر ساری محبت” اس نے جنت کا کندھے پر پڑا شیفون کا دوپٹہ کھینچ کر اپنے بازو پر لپیٹتے گھمبیر بوجھل آواز میں کہا تو جنت کو اپنے سینے میں اچھلتے دل پر بےپناہ غصہ آیا
“بدتمیزی مت کریں— دوپٹہ چھوڑیں” اس نے دوپٹہ کھینچا جو معیز چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا چھ فٹ قد اور ورزشی جسامت کے باعث وہ اسکے وجود کے سامنے آتے ہی چھپ سی گئی تھی
“نہیں چھوڑ رہا— چھڑوا سکتی ہو؟؟؟” اس نے جنت کے دوپٹے کو ایک اور جھٹکا دیا فاصلہ سمٹنے لگا اسکی گھبراہٹ اور لرزتی پلکوں کا رقص معیز کو محویت سا کرگیا وہ لاکھ کانفیڈنٹ سہی مگر ایسی سچویشن میں معیز نے اسے ہمیشہ نروس ہی پایا تھا
“تمہیں میری ناراضگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟؟؟” اس نے جنت کو کاؤنٹر سے لگاتے اسکے دائیں بائیں ہاتھ ٹکا دیے—کچن لاؤنج سے صاف نظر آتا تھا مگر صوفے کی اس جانب بیک تھی
“بولو؟؟؟” وہ اسے اب بھی نظریں جھکائے مزید فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش میں سلیب سے چمٹے دیکھ رہا تھا
“تم کمرے میں پہنچو پھر پوچھتا ہوں تم سے” اسکو منہ میں کھنگھیاں ڈالے کھڑا دیکھ کر اس نے دھمکی دیتے اپنے بازو ہٹائے تو وہ ایسے بھاگی جیسے جیل سے قیدی, جیسے چھٹی کی بیل پر اسکول کے بچے
***************
معیز کی عادت تھی رات ایک گھنٹہ تو حسنہ بیگم کے پاس باتیں کرتے گزار دیتا تھا پھر اپنے کمرے میں آتا تھا. گیارہ بجے کے قریب وہ کمرے میں داخل ہوا تو جنت کو ٹانگیں سیدھی کر کے گود میں کشن رکھے اُس پر لیپ ٹاپ دھرے کام میں مصروف پایا یقیناً وہ کل کا کام مکمل کررہی تھی جو اس نے آج ریجکٹ کردیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ جنت مزید اکسٹرا آرز لگائے اسی لیے وہ اسکا سارا گرافک ورک ریجکٹ کرچکا تھا
“کیا ہورہا ہے؟؟؟” دھپ سے بیڈ پر اسکے پہلو میں گرتے پوچھا— جنت کو سخت چڑ تھی وہ تمیز سے, آرام سے تو آکر بیڈ پر نہیں لیٹتا تھا چھلانگ مار کر اوپر چھلانگ مار کر نیچے
“پوسٹر بنا رہی ہوں ایڈ کیلیے” اس نے سنجیدگی سے کہا— جب تک وہ ناراض تھا وہ سکون سے کام کرلیتی تھی مگر اب معیز کو اپنا وقت لینا تھا اس سے چاہے وہ دے یا نہ دینے
“چھوڑو کل بنا لینا” لیپ ٹاپ اسکی گود سے اٹھا کر دوسری جانب رکھ دیا
“میں نے سیو نہیں کی فائل” جنت نے خفگی سے کہتے اسکے اوپر سے ہاتھ لے جاتے دوسری جانب پڑا لیپ ٹاپ اُٹھانا چاہا تو معیز نے اسکی گود سے کشن اٹھا کر اپنے بازوؤں میں لیا اور سر اسکی گود میں رکھ لیا—اب وہ لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھے امیج فائل سیو کررہی تھی—چہرے پر جھنجھلاہٹ تھی
“ایک سیکنڈ کا کام ہے کیا کرنے لگ گئی ہو؟؟؟” اس نے گود میں سر رکھے ہی کروٹ لی—وہ فائلز اٹھا اٹھا کر ایک فولڈر میں ڈال رہی تھی
“بعد میں کرنا یہ سب” اس نے جنت کا ایک ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا
“اچھا شٹ ڈاؤن تو کرنے دیں” مگر معیز نے ہاتھ نہ چھوڑا اس نے دوسرے ہاتھ سے ہی لیپ ٹاپ بند کیا— معیز اسکے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی رونمائی کے تحفے میں دی گئی سونے کی انگوٹھی گھمانے لگا—جنت اسکے کچھ بولنے کی منتظر تھی مگر وہ انگوٹھی سے کھیلنے میں مصروف تھا
“اُتار کردے دوں؟؟؟” جنت نے ہلکے سے ہاتھ کو جھٹکا دیا تو معیز نے اسکا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے سر اٹھا کر اسے دیکھا
“تم خوش نہیں ہو میرے ساتھ؟؟؟” وہ بہت سنجیدہ تھا وہ اُن ایشیائی مردوں میں سے نہیں تھا جو اپنی بیوی کو غلام یا ملازمہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں دیتے تھے. اس نے بڑی ڈگریاں تو نہیں لی تھیں مگر ذہنی طور پر وہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ مردوں سے زیادہ ذہین اور تہذیب یافتہ تھا اگر جاہل ہوتا تو آج جنت یہاں نہ بیٹھی ہوتی—اسکی بیوی اس سے خوش نہیں ہے یہ جملہ اسکے لیے کسی گالی سے کم نہیں تھا
“ایسی کوئی بات نہیں ہے” وہ کیا کہتی کہ تم وہ ہو ہی نہیں جسکے میں نے خواب دیکھے تھے جیسی اپنی میرڈ لائف سوچی تھی یہ تو اُس سے بالکل اُلٹ تھی— نوکروں کی فوج کیا یہاں تو ایک بھی ملازم نہیں تھا محل کا خواب دیکھا تھا اور یہاں تو بنگلہ بھی نہ ملا, مرسیڈیز کا سوچا تھا کرولا بھی نہیں ملی
“کچھ تو ہے جو تم مجھ سے اتنا دور دور رہتی ہو” معیز نے اسکے گریز سے یہی مطلب اُخذ کیا تھا
“ایسا کچھ نہیں ہے آپ سوجائیں مجھے یہ کام مکمل کرنا ہے نہیں تو کل مینجر سے ڈانٹ پڑے گی” اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا
“مینجر کی ایسی کی تیسی” معیز نے اب اسکے دونوں ہاتھ جکڑ لیے تھے
“مینجر کی اتنی ہمت کہ میری بیوی کو کچھ کہہ سکے” کتنا بدتمیز تھا اتنے دنوں سے آفس میں اسکا جینا حرام کر رکھا تھا اور اب ہنس رہا تھا
“اتنے دنوں سے وہ کھڑوس, بدتمیز, بدمزاج اور اکڑو مینجر مجھے ڈانٹ رہا ہے— جتنا ان دنوں اُس نے مجھے انسلٹ کیا ہے نا اللہ کرے اُتنے دن اُسکی وائف اُس سے بات نہ کرے” جنت نے شرارت سے کہتے ہنسی روکنے کو نچلا ہونٹ دانتوں میں دبایا
“ایسی بددعائیں تو نہ دو بےچارے کو” معیز نے ہنستے ہوئے چہرہ اوپر کر کے اسے دیکھا جوکھکھلا رہی تھی وہ ہمیشہ اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتا تھا
“پھر کیسی بددعائیں دوں؟؟؟” جنت نے معیز کے ہاتھوں کی جانب دیکھ کر پوچھا جن میں اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھ مقید تھے
“ہمممممم تم اُسے دعا دو کہ اللہ تعالٰی جلد ہی اُسے پاپا بنادیں” جنت جو سر ہلاتے ہلاتے اسے سُن رہی تھی جملہ مکمل ہونے تک اسکی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی—معیز کو لگا وہ شرما رہی ہے
“مجھے گول مٹول سی ڈول چاہیے— ہمارے ٹوئنز ہونے چاہیے کیا خیال ہے؟؟؟” وہ شوخ ہورہا تھا اب اوندھا ہو کر کہنیاں کھڑی کر کے ان پر اپنا چہرہ رکھ کر اسکی سنجیدہ صورت دیکھنے لگا
“اب کیا ہوا؟؟؟” معیز نے سر جھکائے اپنے ناخنوں کو چھیڑتی جنت سے پوچھا
“شادی کرلی اب بچے کرلو یہی لائف ہے کیا؟؟؟ میرے اپنے پلان ہیں ابھی تو کریئر بنانے کا وقت ہے اور ہمارے پاس کہاں اتنی سہولتیں ہیں کہ اپنے بچوں کو اچھا لائف اسٹائل دے سکیں” اس نے بہت سنجیدگی اور بےلچک انداز میں اپنا ارادہ ظاہر کیا
“کیوں؟؟؟ ہم لوگوں سے مانگ کر پہنتے ہیں؟؟؟ خیرات و صدقہ کھاتے ہیں؟؟؟ کھلے آسمان تلے رہتے ہیں؟؟؟ بتاؤ؟؟؟ کیسا لائف اسٹائل چاہتی ہو تم؟؟؟ اتنا خوبصورت مکمل گھر ہے اچھی جاب ہے ہر ضرورت پوری ہوتی ہے یہاں کے مکینوں کی—” معیز کو اسکی بات نہایت ناگوار گزری
“چند ہزار کی جاب اور چار کمرے کا مکان بھی کوئی لائف اسٹائل ہے؟؟؟ ایک برانڈڈ کپڑے تک تو—” وہ جو تیزی سے کہنے والی تھی رُک گئی
“پلیز میرا موڈ مت خراب کریں— میرا اب کسی قسم کی لڑائی کا ارادہ نہیں ہے پہلے آفس کی ٹینشن پھر آپ کے نخرے جھگڑے—” اس نے تکیہ سیٹ کر کے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور بیڈ سے اُتر گئی—معیز خاموش ہوگیا وہ اور کیا کرتا؟؟؟
یہی اسکی کمزوری تھی وہ اسے بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کر کہ اس پر اپنے فیصلے نہیں تھوپ سکتا تھا نہ اس سے زبردستی کر سکتا تھا مار پیٹ کا تو تصور نہیں تھا— ایک جھگڑا سلجھا تھا کہ دوسرا پہلو میں آبیٹھا تھا
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا
***************
“مس جنت ہم نے نیو گرافک ڈیزائینر ہائیر کرلیا ہے— اب سے آپ کو اکسٹرا آرز لگانے کی ضرورت نہیں ہے— پچھلے منتھ کے اکسٹرا آرز کی پے منٹ آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوچکی ہے” معیز نے اسکی ای میل چیک کرتے کہا جس میں پوسٹر کا فولڈر تھا— جنت اسکی کرسی کے پیچھے کھڑی تھی
“بٹ وائے؟؟؟ آپ میرے کام سے سیٹسفائی نہیں ہیں کیا؟؟؟” جنت نے کچھ افسردگی سے پوچھا
“اگر میں سیٹسفائی ہوتا تو آپ کو منع کرتا؟؟؟” اس نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر اپنے قریب کھڑی جنت کو دیکھا پستہ اور پیچ کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں بڑا سا دوپٹہ بائیں شانے پر پھیلائے کھڑی تھی اسکی مہندی اُترچکی تھی اب صاف شفاف دودھیاں رنگت کے ہاتھ ہر آرائش سے پاک اسکے سامنے تھے
“بٹ پہلے تو آپ کو کوئی پرابلم نہیں تھی” جنت سے یہ ریجکشن برداشت نہیں ہورہی تھی
“don’t argue with me”
اس نے گردن موڑ کر اونچی کرتے اسکی جانب دیکھ کر قطیعت سے کہا
“لیو” اسی بدلحاظی سے دوبارہ بولا تو جنت غصے میں کیبن سے ہی نکل گئی
“اسکا دماغ میں درست کروں گا اب” معیز نے اسکی محنت ضائع نہیں کی تھی اسے گرافک ڈیزائینر کو دے کر کچھ ایڈٹنگ کروا لی تھی—وہ اسکا مینجر تھا اور اسے مکمل اختیار تھا اپنے انڈر ٹیم میں سے کسی کو بھی ریجکٹ کرنے کا یا اسکے کام میں فالٹ نکالنے کا وہ اس بارے میں اپنے باس سے بھی بات نہیں کرسکتی تھی— واٹر کولر کے سامنے کھڑی وہ ٹوٹی پر دباؤ ڈالے حساب لگا رہی تھی کہ اب اکسٹرا آرز کی وجہ سے جو اسکی پے آتی تھی وہ اب کم ہوگئی ہوگی— اسے معیز پر بےپناہ غصہ آرہا تھا
********************
وہ آج دیر سے گھر پہنچا تھا جنت پہلے سے موجود تھی کیوں کہ اب اسکے ورکنگ آرز کم ہوچکے تھے—وہ لانج میں داخل ہوا تو اسے سامنے ہی حسنہ بیگم کی گود میں سر رکھے ہیئر آئلنگ کرواتے دیکھا
“اسلام و علیکم لیڈیز” اس نے لیپ ٹاپ بیگ وسط میں پڑی میز پر رکھا اور شوز اُتارنے لگا
“وعلیکم السلام— کیا حال ہے میری جان کا” حسنہ بیگم نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا
“آپکی جان حال سے بےحال ہے” معیز نے شوز پاؤں مار کر صوفے کے نیچے گھساتے تھکے سے انداز میں صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے کہا—نظریں بےنیازی سے آنکھیں موندے عام سے حلیے میں لیٹی جنت پر جمی تھیں
“سب خیریت ہے نا؟؟؟” وہ کچھ پریشان ہوگئیں وہ زیادہ تر اس سوال کے جواب میں الحمداللہ کہتا تھا مگر آج جواب ذرا مختلف تھا—اس نے ہونٹ دبائے نفی میں سر ہلایا
“آپ کے بیٹے کی ایک عدد بیوی جان کی نخروں نے یہ حال کردیا ہے میرا” اسکا اشارہ جنت تو سمجھ گئی تھی مگر ان کے سر پر سے گزرا
“کون سے نخرے دکھا دیے میری بیٹی نے؟؟؟ گھمانے تو تم اُسے لے کر گئے نہیں” وہ صحیح کہتا تھا وہ بہو کو پیاری ہوچکی تھیں
“استغفراللہ شادی کا پہلا ہفتہ باہر ہی تو گزرا ہے—” وہ صوفے سے اٹھ کر ان کے پاس آیا جنت نے ابھی تک آنکھیں نہیں کھولیں تھیں
“اُٹھو میری مما کی گود سے ڈرامہ کوئین” معیز نے کھڑے کھڑے ہی اسکا بازو پکڑ کر کھینچ کر صوفے سے اٹھا دیا اور خود مزے سے اسکی جگہ لیٹ گیا—سر حسنہ بیگم کی گود میں رکھ لیا— جنت ایک ہاتھ پسلی پر رکھے غصے سے کھڑی اسے گھور رہی تھی
“شرافت سے میری جگہ سے کھڑے ہوجائیں” اس نے انگلی سے جلدی اٹھنے کا اشارہ کیا معیز کے ہونٹوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ رینگ گئی
“فار یور کائنڈ انفارمیشن مائی ڈئیر وائف آپ نے میری جگہ لی ہے میں نے نہیں—شی از مائے مدر” اس نے مائے پر خاصا زور دے کر جتایا
“یہ میری بھی امی ہیں” جنت بھڑکی—معیز نفی میں سر ہلانے لگا
“امیییییی” جنت روہانسی ہوتی چیخی—حسنہ بیگم ان کی تکرار سے محظوظ ہورہی تھیں
“بری بات معیز” انہوں نے اسکے ماتھے پر بکھرے بال سنوارے—معیز نے پاس کھڑی گھورتی جنت کو چچ چچ کر کے چڑایا تو اس نے پاس پڑے سنگل صوفے سے کشن اٹھا کر اسے مارا جسے معیز نے کیچ کرتے قہقہہ لگایا—
ایک گھنٹے تک وہ یونہی سستی سے صوفے پر پڑا رہا—مغرب کی نماز کے وقت اٹھا اور لباس بدل کر مسجد چلا گیا— حسنہ بیگم سالن بنا چکی تھیں جنت روٹیاں ڈال رہی تھی جب وہ کچن میں چلا آیا
“کیا بنایا ہے؟؟؟” اس نے روٹیاں پکاتی جنت کو مخاطب کیا پھر خود ہی پتیلی کا ڈھکن اُٹھا کر دیکھنے لگا
“بینگن؟؟؟” معیز نے برا سا منہ بناتے بےنیازی سے روٹی سیکتی جنت کو دیکھا—جسے گرمی کی وجہ سے پسینہ آرہا تھا—بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا گردن پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمک رہے تھے
“آج کچھ زیادہ ہی گرمی ہے” معیز نے اسکے گلے میں پڑے دوپٹے کا ایک پلو پکڑ کر اسکی گردن سے پسینہ صاف کرتے کہا—جنت نے روٹی اُتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھی پھر غصے سے اسکی جانب پلٹی—آگ کی تپش نے اسکی صاف رنگت میں سرخی بھردی تھی اس پر متضاد پسینے کی بوندوں کا چمکنا اور بپھرے ہوئے انداز میں پلٹنا—کاش کبھی شاعر ان اُلجھی اور بےترتیب زلفوں پر بھی دھیان دیتے تو آج وہ کوئی شعر ہی کہہ ڈالتا مگر شاعروں کو تو سجی سنوری دوشیزاؤں پر ہی شعر لکھنے تھے
“اگر آپ ابھی کچن سے نہیں نکلے تو یہ گرم گرم چمٹا مار دینا ہے میں نے” اسکے غصے میں جھنجھلاہٹ کا عنصر نمایاں تھا
“اب میری بیوی مجھے چمٹے سے مارے گی؟؟؟ مگر میرا جرم کیا ہے؟؟؟” وہ بے چارگی سے دریافت کرنے لگا—جنت نے دانت پیسے
“بہت فضول انسان ہیں آپ” جنت نے زچ آتے کہا پھر چمٹا ہاٹ پاٹ میں رکھ کر دوسری روٹی بیلنے لگی— معیز چمٹا اٹھا کر یونہی بجانے لگا
“یہ کوئی کھیلنے کی چیز ہے؟؟؟” جنت نے اسے گھورا— معیز نے شرارت سے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا— جنت نے روٹی ہاتھ پر پھیلاتے توے پر ڈالنی چاہی مگر معیز نے کہنی سے اسکا بازو پکڑ لیا
“یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ چھوڑیں روٹی خراب ہوگئی” جنت چیخی معیز کی شرارتیں بالکل ناگوار گزر رہی تھیں اسے— آفس میں ایسے بنتا تھا جیسے جانتا بھی نہ ہو اور اب دیکھو—جنت نے بازو کو جھٹکا دیا—روٹی لٹک لٹک کر لمبی ہوچکی تھی—جنت کی آنکھوں میں غصہ و ناراضگی تھی جبکہ مقابل کی آنکھوں میں شرارت و محبت پنہاں تھی—معیز نے بازو چھوڑا تو جنت نے خراب روٹی سلیب پر رکھی
“میرے لیے روٹی نہیں بناؤ— میں بینگن نہیں کھاتا” جنت کو اب اسکی حرکت کی وجہ معلوم ہوئی تھی
“یہ بات طریقے سے بھی بتائی جاسکتی تھی” جنت نے آٹا سمیٹنا شروع کیا—چولہا بند کردیا
“ایک بنادو میرے لیے بھی” جنت نے جب سب سمیٹ دیا تو کاؤنٹر سے ٹیک لگائے چمٹے سے کھیلتے معیز نے حکم جاری کیا پہلے ہی اسے گرمی لگ رہی تھی اب وہ تپ چکی تھی “میں نہیں بنارہی” جنت نے اسکے ہاتھ سے چمٹا جھپٹا—معیز نے قہقہہ لگایا
“میں اپنے لیے چکن شاشلک لایا ہوں—تم ہی کھاؤ اپنی شکل جیسے بینگن” اسے چڑاتے ہوئے معیز نے کاؤنٹر پر رکھے شاپر کو کھولا—کتنا ڈرامے باز تھا وہ جنت گھور کر رہ گئی اسے پتا بھی نہیں چلا تھا وہ کب یہ تھیلا لے کر کچن میں آیا
“مجھے چائینیز نہیں پسند آپ ہی کھائیں یہ شاش لاش” جنت نے لاپرواہی سے کہا تو معیز نے ایک اور قہقہہ لگایا “شاش لاش نہیں شاشلک مائی وائف”
“آئی نو” ناک چڑھاتی ڈونگے میں سالن نکالنے لگی
*****************