یہاں دو ہی کمرے تھے اور ایک چھوٹا سا کچن۔
پورا فلیٹ ہی بند تھا
سیدھے چلتے ہوئے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ گھر ضرورت سے زیادہ صاف ستھرا ہے
تھوڑا گندا ہے لیکن ہم نے کون سا ساری زندگی یہاں رہنا ہے ۔
عون نےصفائی پیش کرتے ہوئے کہا
جن نظروں سے وہ اس کو دیکھ رہی تھی عون اس گھر کی گندگی دیکھ کر تھوڑا سے شرمندہ ہو گیا تھا
بولا بھی تھا صاف کروا دینا پھر بھی کمینے نے صاف نہیں کروایا ۔
وہ بڑ بڑاتا ہوا آگے بڑھا اور ایک کمرا کھولا ۔
پورے گھر کی بنسبت یہ تھوڑا صاف تھا لیکن یہاں بھی جگہ جگہ سگریٹ کے ٹکڑے پڑے تھے ۔
دراصل یہ بہت سارے لوگوں کے استعمال میں رہا ہے ہم سے پہلے کچھ لوگ اس فلیٹ میں رہتے تھے
اس لئے اس کا حال قابل قبول نہیں ہے ۔
لیکن اب یہ لوگ چلے گئے ہیں صبح میڈ آئے گی سب کو صاف کر دے گی ۔
اب تو بہت وقت ہوگیا ہے
میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں تب تک تم ریسٹ کرو ۔تمہیں اکیلے ڈوتو نہیں لگے گا ۔
عون نے جانے سے پہلے پوچھا ۔
نہیں آپ جائیں میں نہیں ڈرؤں گی ابھی تو بہت روشنی ہے
ٹھیک ہے میں جلدی واپس آ جاؤں گا وہ اسے چھوڑ کرکھانا لانے گیا
آرزو نے ایک نظر پورے فلیٹ کو دیکھا جو واقع ہی ان کے رہنے کے لائق تو ہرگز نہیں تھا عون کا کیا ہے ۔وہ تو جیسے تیسے گزارہ کر لیتے ہیں ۔لیکن میں یہاں نہیں رہ سکتی آرزو نے دل ہی دل میں سوچتے ہوئے جھاڑو اٹھایا
عون جلدی جلدی کے چکر میں بھی ایک گھنٹہ لگا کے آیا تھا جب اس نے سیڑھیوں پر پہلا پیر رکھا ۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ آرزو اپنا کام کر چکی ہے ۔
مجال ہے یہ لڑکی تھوڑی دیر آرام سے بیٹھ جائے صبح میڈ نے آکر ویسے بھی صاف کر ہی دینا تھا ۔
وہ بڑبڑآتے ہوئے بولا
میں نے کہا تو تھا صبح میڈآ جائے گی پھر تم کیوں بیکار میں یہ سب کچھ کام کرتی رہی میں نے تمہیں ریسٹ کرنے کو کہا تھا وہ کمرے میں آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
آرزو بیڈ پر لیٹی دنیا جہان سے بیگانہ تھی ۔
عون مسکرائے بنا نہ رہ سکا
سارا دن سفر میں اور اب اس گھر کی صفائی میں بیچاری بہت تھک چکی تھی ۔
عون کیچن میں آیا جو پہلے سے کافی بہتر اور صاف ستھرا لگ رہا تھا یقیناً وہ ابھی ہی سوئی تھی
ورنہ جو حال وہ اس کیچن کا دیکھ کر گیا تھا اتنی جلدی تو یہ صاف ہونا نہیں تھا ۔
عون نے ڈش میں کھانہ نکالا اور ٹرے میں رکھ کر کمرے میں آ گیا ۔
آرزو اٹھو کھانا کھا لو پھر آرام سے سو جانا وہ ا سے پیار سے جگاتے ہوئے بولا ۔
آج کے بعد یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کل سے میڈ آئے گی سارے کام وہ کرے گی تمہیں یہاں اپنا خیال رکھنے کے لئے لایا ہوں گھر چمکانے کے لئے نہیں ۔
وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتے ہوئے بولا ۔
کیوں عون جی آپ کو پسند نہیں آئی گھر کی صفائی وہ معصومیت سے پوچھنے لگی
پسند آئی بہت پسند آئی لیکن تمہیں یہ سب کام کرنے کے لئے میں نہیں لایا یہاں میں تمہیں یہاں لایا ہوں تاکہ ہم تھوڑا وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزار کر ایک دوسرے کو سمجھے تاکہ ہماری آنے والی زندگی خوبصورت ہو ۔
اس لئے آج کے بعد میں تمہیں ان سب کاموں میں الجھا ہوا نہ دیکھوں آج کی میں سمجھ رہا ہوں تمہیں گند میں رہنے کی عادت نہیں ہے ۔
لیکن آئندہ تم کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاؤگی نا یہاں اور نہ ہی گھر جا کے ۔
ائی بات سمجھ میں عون مسکراتے ہوئے سمجھانے لگا تو آرزو نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلا دی
جبکہ عون کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے سے روکنے کی کوشش کی ۔
کیا مسئلہ ہے میں کھلا رہا ہوں نہ عون نے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا
آپ خود بھی تو کھائیں ۔وہ پھر ہلکا سا منمنائی تو وہ ہنسنے لگا
میں تمہیں کھلا رہا ہوں تو تمہیں مجھے کھلانا چاہیے عون نے شرارت سے کہا ۔
او شرمانہ بند کرو اور مجھے کھانا کھلانا شروع کرو اب کی بار عون نے حکم دیا تھا ۔
جس پر تھوڑا گھبراتے تھوڑا شرماتے ہوئے آرزو نے عمل کرنا شروع کر دیا
پھرعون نے اسے سونے کے لئے بولا تو وہ فوراً لیٹ گئی ۔
عون اس پر کمبل ٹھیک کرتا دوسری سائیڈ آگیا
عون صرف تھوڑی دیر کے لئے اپنے کام پر گیا تھا اس کے بعد گھر آکر اسے باہر گھمانے لے گیا ۔
اس سے پہلے وہ کراچی کبھی نہیں آئی تھی اتنا بڑا شہر اور اتنے سارے لوگ دیکھ کر آرزو کو مزہ آ رہا تھا ۔
لیکن عون کی باتیں اسے شرمانے پر مجبور کر رہی تھی ۔
آج اس نے دل سے دعا مانگی کے وہ صرف اسی کا ہو جائے وہ جو کچھ تامیہ کے بارے میں کہتا ہے سب کچھ سچ ہو ۔
اس کے ساتھ گھومتے پھرتے تامیہ کو بالکل ہی فراموش کر چکی تھی ۔
پتا تھا تو بس اتنا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہے ۔
کھانا ان دونوں نے باہر سے کھایا تھا عون نے ایک بار اس سے اس کی مرضی پوچھ کر اپنا فرض نبھایا پھر اپنی مرضی سے کھانا لاکر زبردستی اسے بھی کھلایا اور یہ بھی کہہ دیا کہ آج سے تم نے یہی کھانا ہے اور یہی کچھ تمہاری پسند ہوگی۔
جبکہ عون کا اس طرح سے حق جتانا حکم چلانا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا
تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے گھر آکر اس نے پوچھا ۔
بہت اچھی آرزو نے مسکرا کر کہا ۔
مطلب پڑھائی کرنا بہت پسند ہے تمہیں اسی لئے اتنی مسکرا مسکرا کر جواب دے رہی ہو ورنہ صبح سے تم نے ایک بار بھی مسکرا کر جواب نہیں دیا ۔
اس کا مطلب ہوا کہ تم پڑھائی میں بہت اچھی ہو لائق اسٹوڈنٹ ہو۔
عون کے کہنے پر وہ پھر سے مسکرائی تھی ۔
میں بہت اچھی اسٹوڈنٹ ہوں اور بہت لائق بھی میں نے میٹرک میں پورے سکول سے ٹاپ کیا تھا آرزو نے خوشی خوشی بتایا۔
تو عون مسکرا دیا
اچھی بات ہے ویسے بھی مجھے پڑھی لکھی لڑکیاں بہت پسند ہیں
اور اب سے تمہیں کالج چھوڑنے میں جایا کروں گاوہ آخر تمہاری سہیلیوں کو بھی پتا چلے گا تمھارا ہسبنڈ کتنا ہینڈسم ہے عون نے اپنے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
اگر آپ مجھے چھوڑنے چلیں گے تو میں آپ کو کالج سے باہر سے ہی واپس بھیج دیا کروں گی کوئی آپ کو دیکھے گا ہی نہیں تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ آپ اتنے ہینڈسم ہیں آرزو نے اپنی طرف سے سمجھ داری کا ثبوت دیا تھا ۔
کیا بات ہے بیوی اپنا نہ سہی باقی لڑکیوں کا ہی بٙلا ہو نے دو تم نے تو قسم کھارکھی ہے کہ میرے پاس نہیں آنا کسی اور کو تو میرے پاس آنے دو ۔
عون نے اس کا ہاتھ تھام کے اسے اپنی طرف کھینچ کر کہا ۔
وہ چائے بنانی ہے ۔۔۔آرزو نے بہانہ بنایا
نہیں میری جان تمہیں چائے نہیں بنانی تمہیں مجھے بیوقوف بنانا ہے ۔
جاؤ بناؤ وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بدمزا ہوا جبکہ آرزو آزادی ملتے ہی کچن کی طرف بھاگ گئی
چھوٹی چھوٹی باتوں ننھی ننھی شرارتوں میں یہ تین دن کیسے گزر گئے ان دونوں کو پتہ نہ چلا ۔
ان تین دنوں میں آرزو کو لگا کہ وہ ایک الگ جہان میں ہے ۔
عون کے ساتھ گزارہ یہ وقت آرزو ہمیشہ یاد رکھے گی ۔
اس الگ دنیا میں عون نے اسے بہت خوشیاں دی تھی ۔
اور جس چیز نے اسے سب سے زیادہ خوش کیا تھا وہ تامیہ کی کال کو اگنور کرنا ۔
تقریبا مسلسل ہی وہاں عون کا فون بچتا رہا ۔
لیکن وہ اسے اگنور کیے بس اپنی آرزو میں ہی کھویا ہوا تھا ۔
گھر واپس آ کر وہ بہت خوش تھی ۔
ہانیہ اسے عون کے نام سے چھڑتی تو کبھی پوچھتی کہ وہاں کیا کیا ہوا ۔
جبکہ کچھ بھی نہ ہونے کے باوجود بھی آرزو بس شرما ئے جا رہی تھی۔
لیکن عون کے ساتھ کی خوشی کوئی بھی اس کے چہرے پر دیکھ سکتا تھا ۔
وہ کمرے میں آئی تو عون کا فون بج رہا تھا فون پر تامیہ کا نام دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا
عون اسے اس حد تک اگنور کر رہا ہے لیکن پھر بھی بے شرموں کی طرح اسے فون کر رہی تھی ۔
پہلے تو تامیہ اس کے ساتھ جیسے بھی کرے جتنا بھی برا کرے جو بھی زیادتی کرے لیکن کبھی بھی وہ اسے اتنی بری نہ لگی تھی جتنی اس کے شوہر کے ساتھ نام جوڑنے کے بعد لگی
اس نے عون کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اور اس فیصلے میں تامیہ کی کوئی جگہ نہیں نکلتی تھی ۔
مسلسل فون بجے جا رہا تھا آج اس نے تامیہ سے آخری بار بات کرنے کا فیصلہ کیا
فون اٹھا کر اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی وہ روتے ہوئے بولنے لگی ۔
آرزو تم اپنی بہن کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم اب تک میرے کیے کا بدلہ لے رہی ہو مجھ سے ۔
تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتی ہوآرزو تمہارا دل تو اتنا نرم تھا ۔
تم اتنے ظالم کیسے بن گئی کہ تمہیں اپنی بہن پر ترس نہیں آتا ۔تامیہ بلک بلک کر روتے ہوئے بولی ۔
جبکہ اس کے اس طرح سے رونے پر آرزو کورونہ آنے لگا
تبھی عون نہا کر باہر نکلا
اسے اس طرح سے روتے ہوئے اپنا فون اس کے کان کے ساتھ لگا ہوا دیکھ کر وہ کھٹکا اور اس کے قریب آ کر کھڑا ہوا
اسے کہو کہ آج کے بعد میرے شوہر کو فون نہیں کرنا عون اس کے قریب آ کر بولا ۔
وہ بہت زیادہ رو رہی ہیں آرزو نے روتے ہوئے فون اس کی طرف بڑھایا لیکن عون نے لینےسےانکارکردیا
اسے کہو کہ آج کے بعد یہ تمہارے شوہر کو فون نہیں کر سکتی
اسے منع کرو بولو اسے کہ میں تمہارا شوہر ہوں کسی دوسری عورت کا مجھ پر کوئی حق نہیں عون غصے سے کہہ رہا تھا
میں یہ نہیں کہہ سکتی وہ بہت زیادہ رو رہی ہیں آرزو نے فون اس کی طرف بڑھانا چاہا ۔
کہو آرزو ورنہ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا وہ غصے سے بول رہا تھا
کہو آرزو ور نہ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا اس کا غصہ دیکھ کر آرزو کو روناآنے لگا
جبکہ عون دروازے کی طرف بڑھ چکا تھا اسے جاتا ہوا وہ دیکھ نہیں سکتی تھی لیکن اپنی بہن کا مزید دل بھی دکھا نہیں سکتی تھی
تمہیں اپنی بہن سے مجھ سے زیادہ محبت ہے عون نے دروازے کھولا جب اسے اپنے کانوں میں آواز سنائی دی
بس بہت ہو گیا آپ آج کے بعد آپ میرے شوہر کو فون نہیں کریں گی شرم مجھے نہیں آپ کو نہیں چاہئے غیر مرد سے بات کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی آپ کو اپنی بہن کے شوہر کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے آج کے بعد میرے شوہر کو فون کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیئے گا وہ روتے ہوئے کہتی فون بند کر چکی تھی جبکہ تامیہ پریشان اپنے فون کو دیکھ رہی تھی ۔
عون نے مسکرا کردروازہ بند کردیا
اور آہستہ آہستہ پلٹ کر اس کے پاس واپس آیا ۔
بہت وقت ضائع کردیا ہے تم نے آرزو اب میں مزید تم سے دور نہیں رہ سکتا وہ اسکے لبوں پر جھکتے ہوئے بولا
اور استحاق سے بھرپور مہر اس کے لبوں پر ثبت کردی ۔
آج میں ساری دوریاں مٹا دینا چاہتا ہوں ۔
تاکہ کوئی تامیہ ہمارے بیچ نہ آئے
میں صرف تمہارا بن کے رہنا چاہتا ہوں وہ اسے اپنی باہوں میں بھرے بیڈ پر اٹھا لیا
آج تمہاری اس بات نے تمہاری رضامندی کا ثبوت دیا ہے آرزو یہ تو میں پہلے دن ہی سمجھ لیا تھا کہ تم خود سے کبھی مجھے اپنے قریب نہیں بلاؤ گی ۔
اور اب تم سے دور رہنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ۔
آئی لو یو ۔وہ اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے بولا جب آرزو نے اپنا آپ اس کو سونپتے ہوئے اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا
عون نے اسے اپنی باہوں میں بھرتے اپنا تحفظ فراہم کیا
آنکھ کھلی تو اس نے عون کو اپنے بالکل قریب دیکھا ۔
شرم سے نظر اٹھانا مشکل لگ رہا تھا ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں پر جگہ بنائی ۔
وہ اس کے قریب سے اٹھ کر جانے لگی جب عون نے اسے پھر سے اپنی طرف کھینچ لیا ۔
عون جی۔ ۔وہ بے ساختہ بولی
ہائے میں صدقے ۔پہلے ہی دن مار ڈالوگی کیا ہو وہ اس کی شرم حیا دیکھتے ہوئے بولا ۔
بہت جلدی تمہیں لے جاؤں گا یہاں سے اپنا گھر بنا رہا ہوں ہم اپنے گھرمیں بہت خوش رہیں گے آرزو میں تمہیں سب سے بہت دور لے جاؤں گا وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بولا جبکہ آرزو کو اس کی ایک بھی بات سمجھ نہ آئی تھی
ہم کہاں جائیں گے عون جی وہ اس کے سینے میں سر چھپائے بولی
ان سب لوگوں سے بہت دور ہم اپنا گھر بنائیں گے الگ دنیا بنائیں گے ۔
جہاں پر صرف میں اور تم ہوں گے ۔عون نےمسکرا کر اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے
جبکہ آرزو کی سوچیں وہیں تک تھم چکی تھی ۔
اس کی ماں آرزو سے امیدیں لگا کے بیٹھی تھی کہ انکا بیٹا ان سے بات کرنے لگے گا ان سے پیار کرنے لگے گا ان کی مجبوری کو سمجھنے لگے گا اور یہاں عون ان کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا تھا
نہیں میں نہیں جاوں گئی آپ جلدی واپس آ جائے گا پھوپھو ابھی تھوڑی دیر میں عون واپس آنے والے ہونگے ۔
پھر آپ کو تو پتا ہے مجھے گھرمیں نہ دیکھا کر انہوں نے غصہ کیا تو ۔
آرزو کا دل تو بہت چاہ رہا تھا شادی پہ جانے کا ۔
لیکن عون صرف اسے اپنی ساتھ ہی باہر لے کے جانا تھا اسے پسند نہ تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ زیادہ ٹائم گزارے ۔
وہ تو اکثر گھر آکر اسے باقیوں سے بات کرنے پر بھی منع کر دیتا ۔
باہر بارش ہونے والی ہے اپنا دھیان رکھنا ۔
ہم لوگ جلدی واپس آجائیں گے چھٹیوں کی وجہ سے ان کی ساری بہو اپنے اپنے مائکے گئی ہوئی تھی ۔
آج کل صرف آرزو ہی گھرپے تھی ۔
پھوپھو نے تو اسے کہا تھا کہ تایا ابو سے مل آؤ لیکن عون کی اجازت نہ ملی وہ اسے تامیہ کی طرف نہیں جانے دینا چاہتا تھا ۔
وہ تامیہ کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور نہ اس کا سایہ اپنی زندگی پرپڑنے دینا چاہتا تھا ۔۔
اتنی بے عزتی کے باوجود بھی تامیہ نے اسے فون کرنا نہ چھوڑا تھا وہ اکثر اسے فون کرتی۔
عون ابھی دو دن پہلے ہی اس کے لئے فون لایا تھا وہ جب بھی فون کرتا گھر میں کوئی نہ کوئی اٹھاتا جس کی وجہ سے اسے غصہ آ جاتا
اسی لیے وہ آرزؤ کے لئے الگ سے فون لایا تھا کہ جب اس کا دل چاہے اس سے بات کر سکے ۔
عون کے ساتھ اس کے دن رات کسی حسین خواب کی طرح گزر رہے تھے ۔
عون کی محبت نے اسے بہت بدل دیا تھا لیکن عون کے سامنے وہ اب بھی ویسی ہی تھی وہ اس کی نظروں سے بھی شرما جاتی ۔
عون کی نظر میں اسے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا عون کی پیار لٹاتی نظریں اسی دن با دن خوبصورت بناتی جا رہی تھی ۔
ہر دن عون کا ایک نیا انداز تھا وہ ہر طریقے سے اسے سرہاتا
وہ سراپائے عشق بنا اس پر اپنی محبت کی برسات کر رہا تھا اور آرزو ہر منفی سوچ بُلاکے صرف اور صرف عون کی محبت میں ڈوب چکی تھی
کیا کر رہی ہو عون جی کی جان ۔عون نےفون کر کے پوچھا ۔
میں آپ کیلئے اسپیشل کچھ بنا رہی ہوں ۔وہ شرماتے ہوئے بولی ۔
مطلب کے آج اتنی ساری پلٹن میں کسی کو میری یاد آگئی ۔
آپ گھر والوں کو پلٹن کیوں کہتے ہیں ۔آرزو کو اچھا نہ لگا ۔
اب اتنے سارے ہجوم کو پلٹن نہیں تو کیا بولوں گا ۔
ہر وقت میری بیوی پر قبضہ کیے رہتے ہیں مجال ہے جواسے تھوڑی دیر کے لیے سکون کی سانس لینے دیں ۔
خیر چھوڑ انہیں تم سناؤ ۔آج رات کا کیا پلان ہے ۔
کوئی پلان نہیں ہے عون کی بات ادھوری تھی کہ آرزو جلدی سے بول پڑی۔
میرا مطلب ہے اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
کوئی پلان بنانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ آج میرا پلان ہے عون اس کی بات ہستے ہوئے بولا ۔
بارش کا موسم ہے اگر بارش نہ ہوئی تو شام کو کہیں باہر چلے گے اور اگر بارش ہوئی تو اسی بارش میں بھیگے گے کیا خیال ہے ۔۔۔وہ اپنا پلان بناتے اس سے پوچھنے لگا ۔
نہیں ہم کہیں باہر نہیں جا سکتے
عون جی مجھے بارش سے بہت ڈر لگتا ہے بارش نہ بھی ہوئی تو بجلی ضرور کڑکے گی پلیز آپ جلدی گھر آ جائیں آج تو گھر پر بھی کوئی نہیں ہے آرزو نے جلدی سے بتایا ۔
گھر میں کوئی نہیں ہے کیوں کہاں گئی ہے ساری پلٹن عون نے پوچھا ۔
عون جی آپ بار بار سب گھر والوں کو پلٹن تو نہ کہیں۔ آرزو کو پھر بُرالگا تھا ۔
اچھا نہیں کہتا تمہیں بجلی کڑکنے سے ڈر کیوں لگتا ہے وہ اس وقت گھر والوں کے بارے میں بات ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
پتا نہیں پرجب بجلی کڑکتی ہے نہ تب میرے ہاتھ پیر کانپنے لگتے ہیں دل بھی زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔
اور بہت ڈر لگتا ہے ۔آرزو نے بتایا ۔
میری جان تم بھی نہ عام لڑکیوں جیسی ہی ہو بارش بھی کوئی ڈرنے والی چیز ہے ۔
اتنا پیارا اور حسین موسم ہوتا ہے اور سنو ایسے موسم میں بہانے نہیں کرنے چاہیے شوہر کو خود سے دور نہیں رکھنا چاہیے ۔عون شرارت سے کہتا اسے شرمانے پر مجبور کر گیا
اب میں جلدی گھرآونگا تو مجھے کیا ملے گا میرا مطلب ہے میں تمہارے ڈر کی وجہ سے اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر تمہارے پاس آؤں گا تو تمہیں بھی میرے پاس آنا پڑے گا ۔وہ ابھی بھی باز نہ آیا ۔
عون جی ۔۔
میری جان بھی صدقے تھوڑا سا کام ہے نپٹا کےآتا ہوں۔
سنو میرے آنے سے پہلے میرا ایک کام کر دینا عون فون رکھنے سے پہلے کہا ۔
جی عون جی بولیں نہ آرزو نے تابعدار بیوی کی طرح کہا ۔
میرے آنے سے پہلے ریڈ ڈریس پہن لینا ۔عون نے کہا تو آرزو شرمادی ۔
اور وہ جانتی تھی عون کا ارادہ اسےشرمانے پر ہی مجبور کرنا ہے ۔
اتنا ٹائم ہوگیا عون جی ابھی تک نہیں آئے اب تو اندھیرا ہونے والا ہے
پھوپھو نے تو کہا کہ آنے میں دیر ہو جائے گی لیکن عون جی تو آنے والے تھے ۔
اس نے کھانے میں ساری ڈش عون کی پسند کی بنائی تھی لیکن عون تھا جو آنے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا ۔
یا اللہ بارش بھی شروع ہوگئی پلیز بجلی مت کڑکائیے گا وہ دعائیں مانگتی اپنے کمرے میں جانے لگی جب آسمان سے بجلی کی کڑک کے ساتھ اس کی چیخ نکلی ۔
جلدی سے بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ اندر سے بند کر کے بیٹھ گئی ۔
اب تو بجلی بھی کڑکنے لگی ہے عون جی کہاں رہ گئے اس نے جلدی سے فون اٹھایا اور عون کو فون کرنے لگی ۔
بل مسلسل جا رہی تھی اور عون فون نہیں اٹھا رہا تھا ۔
عون جی پلیز فون اٹھائیے ۔
بہت کوشش کے بعد بھی فون نہ لگااور ایک بار پھر سے بجلی کڑکنے لگی اور اس بار بجلی کڑکنے کے ساتھ لائٹ بھی چلی گئی ۔
اب تو آرزو کورو نا آنے لگا ڈر کے مارے اس کے ہاتھ پیر بھی کانپنے لگے ۔
تھوڑی دیر کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے بجلی کی کڑک اس کے کمرے کی کھڑکی تک آ پہنچی ہے ۔
اسے لگا کے اب بھی بجلی کڑکے گی اور اگلی بار اسے آگ لگ جائے گی وہ بچپن سے ہی بجلی سے بہت ڈرتی تھی ۔
اور تائی امی ا سے اور ڈراتی ۔
گھرمیں تو وہ ہمیشہ تایاابو کے پاس رہتی ایسے موسم میں ۔
اور وہ اسے اپنے سینے سے لگا کر یہ سمجھاتے کہ بجلی سے کچھ نہیں ہوگا ۔
اور پھر تائی امی اسے ڈرتے ہوئے دیکھ کر ایسے واقعات سناتی جن میں بجلی گرنے کی وجہ سے لوگ جل کر مر گئے ۔
اب ان میں کتنی سچائی ہوتی یہ تو وہ نہیں جانتی تھی لیکن یہ ڈر بچپن سے ہی اس کے دل میں بیٹھا تھا
بارش کے ساتھ اس کے رونے میں بھی شدت آنے لگی وہ اپنے کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیوں کے نیچے بیٹھ گئی جہاں بالکل اندھیرا تھا اور بجلی کڑکنے سے وہاں پر روشنی نہیں پہنچتی تھی ۔
لیکن آواز کی وجہ سے اسے ابھی بھی رو نا آ رہا تھا ۔