جب وہ چلتی تو ریت بھرا رستہ اُس کے پاؤں کے نیچے سے سرکتا۔ متحرک راستے پر اُسے آگے بڑھنے میں سخت دشواری پیش آتی۔ ریت اُس کے پاؤں جکڑتی اور رائے گاں مشقت کا درد اُس کی پنڈلیوں سے ہوتا ہوا سر تک پہنچتا۔ اس کا گورا، گداز جسم اپنے اندر سڑتے بُستے، بے توقیر کنوار پن کا بوجھ اٹھائے اس ریتلے رستے سے یوں نبردآزما رہتا جیسے کشتی اتھلے پانیوں سے ہوتی ہوئی دلدلی ساحل میں آ پھنسی ہو۔ اس حرماں نصیب کشتی کے چپّو کم یاب پانی کو کوستے دلدل میں کھُب کھُب جاتے۔
گاؤں والے اس راستہ کو سڑک کا نام دیتے مگر یہ تو کچی سڑک بھی نہیں تھی۔ یہ بس ایک پانچ چھ فٹ کا ریت بھرا، اُداس راستہ تھا، جس کے دونوں طرف اس کی ریتلی سطح سے دو اڑھائی فٹ اونچی مینڈھ تھی۔ بھُربھُری مینڈھ پر چھدری گھاس سے ذرا اُوپر سرکنڈے کی جھاڑیوں کے تیز تلوار، باریک لمبے پتوں کے گھیروں سے نکلتے قد آدم سرکنڈے تھے۔ سرکنڈوں کے بلند ترین سرے سفید پھندنا نما گاؤدم پھولوں کو اُٹھائے یوں اِستادہ تھے جیسے اس راستے کی نگرانی کو برچھی بردار سپاہی دو رویہ کھڑے ہوں۔
اس دائمی اسیر کو لگتا کہ وہ گھر سے باہر بھی محصور ہی ہے۔ یہ محافظ سرکنڈے اسے رستے کے بیچوں بیچ رکھیں گے، گو ریت اس کو جکڑ جکڑ اور راستہ تھکا تھکا کر ماردے۔
اس کا لباس ہلکا زرد تھا اور سفید چادر کے کنارے کٹاؤں والے۔
اس کا چہرہ گول تھا، سفیدی میں جھلکتی پیلاہٹ لیے، پوری راتوں کا سفیدی مائل زرد چاند۔
وہ چلتی گئی چلتی گئی۔ ایک قدم آگے اور آدھ قدم پیچھے۔ مشقت کی نسبت کم تر فاصلہ طے کرتی وہ چلتی گئی، چلتی گئی۔
توانا سورج بلندیوں کی منزل مارنے کو دھیرے دھیرے اوپر سرکنا شروع کر چکا تھا۔ ریت بتدریج زیادہ سے زیادہ گرم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ مشقت دو چند ہونا تھی اور اس کے بے مصرف خاکی بت سے جان نچڑتی چلی جانی تھی۔
راستے میں ببول کے پیڑ آئے اور گذر گئے۔
پھر سرکنڈے کی جھاڑیاں چھدری ہونا شروع ہو گئیں۔ جہاں وقفہ آتا کھیت نظر آتے۔ کٹ چکی گندم کے ڈنٹھلوں والے کھیت۔ خالی کھیت، کہ بیوگی جن پر نوحے پڑھتی۔ گرم سرسراتی آوارہ ہوا میں پوہلی کے اکھڑ چکے، جھنجھناتے، خشک زرد پودے دوڑے دوڑے پھرتے۔
ایک ایسا مقام آیا کہ سرکنڈے کی جھاڑیوں میں خلا سا بن گیا۔ راستے کی مینڈھ پر اَدھ جلی گھاس چمٹی تھی۔ وہ اس گھاس پر بیٹھ گئی۔ گھاس کے نیچے سے کسی کانٹے دار جڑی بوٹی کے چھوٹے چھوٹے کانٹے اس کے نرم گوشت میں ہلکے سے چبھے تو اسے اچھا لگا۔ اس نے مٹی کی مینڈھ پر نیم دراز ہونے کی کوشش میں اپنے ٹیک لگائے داہنے ہاتھ پر دباؤ ڈالا تو گھاس میں موجود جڑی بوٹی کے کانٹے بہت زور سے چبھے۔
“دباؤ کسے پسند ہے!” اس نے سوچا اور فوراً ہاتھ اٹھا لیا۔
پھر غور سے چاروں طرف تفصیلی نظر دوڑائی۔
بے کل، مضطرب سی وہ متوقع، متلاشی نظروں سے مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ بے چینی، بے کلی اور نارسائی اس کے وجود سے مستقل غیر مرئی لہروں کی صورت خارج ہو کر ماحول پر اثر انداز ہو رہی تھی۔ اس کی حرکات اور کیفیت سے لگتا کہ طے شدہ جگہ اور وقت پر کوئی آنے والا ہے، جس کا شدت سے انتظار ہے۔
کوئی نجات دہندہ شاید۔
اس کے جسم سے واضح طور پر اظہار پاتا خوف اور خدشہ دلالت کرتے کہ وہ چھپتی چھپاتی آئی ہے اور انجانے خوف کے چُنگل میں ہے۔
اس کے انتظار میں بے چینی اور اشتیاق کے ساتھ سراسیمگی اور خدشہ صاف جھلکتے!!
کافی دیر وہ یونہی بے مقصد بیٹھی رہی۔
اس ویرانے میں اس کے علاوہ دور دور تک کوئی انسان نہیں تھا۔
کیکر کے پرانے، آدھے سوکھے آدھے ہرے درخت پر فاختہ پھڑ پھڑائی تو سکوت یوں مرتعش ہوا جیسے ساکت جھیل میں کوئی پتھر گرے، لہریں ایک چھپاکے کے ساتھ متحرک ہو کر جی اٹھیں اور پھر فنا کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دیں۔
اس چھوٹی سی پھڑپھڑاہٹ کے بعد پھر چاروں طرف گرم اور سست خاموشی چھا گئی۔
ایسے لگتا تھا کہ سوگوار ماحول کی خاموشی اور ویرانی میں بسی بوجھل اداسی زمین کے اوپر کی نباتات، جمادات و حیوانات کو خود میں سمو کر، جذب کر کے نابود کر دینے کے درپے ہے۔
ایک مریل سی گلہری نیم سوختہ درخت سے اتری، تنے کے گرد چکر لگایا، ایک مقام پر رُک کر “چخ چخ” کی اور تیزی سے دوبارہ درخت پر چڑھ گئی۔
اس نے مضطرب ہو کر پھر دائیں بائیں نظر دوڑائی۔
بوجھل انتظار میں شامل بے چینی اب بڑھتی جا رہی تھی، جیسے دستیاب محدود وقت مٹھی میں بند ریت کی مانند نکلا چلا جا رہا ہو۔
“اب آ جاؤ بھئی! آ بھی جاؤ!!
مجھے اور انتظار نہ کرواؤ!”
وہ منمنائی
لیکن وہ آتے آتے کچھ وقت لے گیا
اور پھر، با لآخر سرکنڈے کی جھاڑی کے ساتھ بنے نرم مٹی کے چھوٹے سے ڈھیر کی اوٹ لیتا، محتاط چال چلتا وہ آ گیا۔
اسے دیکھ کر وہ مطمئن نظر آنے لگی!
اس کے چہرے پر ظاہر تناؤ میں واضح کمی نظر آئی!
” اوہ! آ گئے تم؟”
اس نے بڑی آہستگی سے اسے مخاطب کیا۔
سیاہی مائل بھورے بالوں والاتنومند نیولا اُس سے مانوس تھا۔
انھوں نے لاتعداد بار کافی وقت اکٹھے گزارا تھا۔
یوں لگا کہ اس ملاقات کو نیولابالکل معمول کی ملاقات سمجھ کر گفتگو میں دلچسپی لے رہا تھا۔
نیولے کے انداز میں خود اعتمادی اور وقار تھا۔
اس کی بات سن کر نیولے نے گردن پوری طرح اٹھا کر تفہیمی دانت دکھائے۔
“کیسے ہو؟” وہ پھر گویا ہوئی۔
“آج ذرا دو ٹوک بات کرو! پوری طرح کھل جاؤ میرے ساتھ۔ راز و نیاز کرو۔ دل کھول کر گفتگو کرو۔ اچھے دوست ہو جو رازدار نہیں بناتے۔ اچھی مصاحبت ہے تمہاری؟ تم بھی اپنے راز بچا کر رکھنا چاہتے ہو مجھ سے؟ میں تو تم سے کچھ نہیں چھپاتی۔ سب کچھ بتانے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے، کتنی دقّت سے، کتنی حدیں توڑ کر آ جاتی ہوں تمہارے پاس۔”
نیولے پر اس آہستہ کلامی کا بہت اثر ہوا۔ وہ شرمندہ سا گردن جھکا کر کاندھا کھجانے لگا۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ نیولے نے سر اٹھایا، تیزی سے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا اور چند قدم قریب آ گیا۔
پھر رک گیا اور اسے گھورنے لگا۔
وہ ذرا توقف کے بعد دوبارہ مخاطب ہوئی:
“بولو بھئی بولو۔ کچھ تو کھُلو۔ میری اتنی لمبی، گہری دوستی کا بھرم رکھو۔ آج اپنا راز افشا کر دو۔ کوئی ایسا گُر کوئی ایسا منتر سکھاؤ کہ میرا جیون آسان ہو جائے۔ کچھ صلہ دو میری اتنی طویل، اتنی بے لوث دوستی کا۔
چلو آج بتا دو کہ تم موذی سانپ کو کیسے مارتے ہو؟ کیسے بچتے ہو زہریلے ناگ کے مہلک زہر سے؟ کیسے اس کا سر لہولہان کرتے ہو؟ اس کو زہر بھرے پھن سے پکڑ کر کیسے قابو کرتے ہو؟ اتنی مضبوطی سے کہ اس کا سارا قہر، جوش، زہر، سٹپٹانا، کسمسانا اکارت جاتا ہے۔ اس کی ساری انا، سارا غرور، احساس برتری، ساری تیزی طراری دھری کی دھری رہ جاتی ہے”۔
اس مطالبے پر نیولا اپنی دونوں پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ جیسے ایک بونا سا آدمی کھڑا ہو۔
اس کے چھوٹے چھوٹے کان ذرا سے ہلے۔ پھر نیولے نے جھریوں بھری سرخ جلد کے بیچ گڑی بلوریں، بنٹے جیسی، تیز نظر آنکھوں کو اس پر پیوست کر دیا جو اس کی پرانی دوستی کی دعویدار تھی۔ اپنے سیاہی مائل ہونٹوں کو سکوڑ کر تیز دانتوں کی جھلک دکھائی اور واپس چاروں پنجوں پر جا ٹکا۔
“خوش ہو اپنے آباد ویرانے میں؟ مزے سے ہو؟”
وہ پھر گویا ہوئی۔ وہ تو آئی ہی باتیں کرنے تھی نا۔
“سرکنڈوں سے نکلتے ہو تو آک کے پودوں میں جا گھستے ہو۔ بڑے مزے کرتے ہو۔ نہ دکھ نہ تکلیف۔ نہ مسئلہ نہ پریشانی۔
ہاں ! یاد آیا۔ کبھی آک کا پتہ ٹوٹتا دیکھا ہے تم نے۔ دودھ دھاریں بن کر امڈتا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ یہ آک بھی کوئی کوکھ جلی دُکھی ماں ہی ہو گا۔ ویرانوں میں خجل خوار۔
آک کے پھولوں کی گلابی جامنی رنگت کے گرد منڈھی سفیدی پہ نظر کرتے ہو؟ غور تو کیا ہو گا کبھی۔ پھول سے بنتی سبز، نرم پوٹلی سی تھیلی کو دیکھا ہے جس میں چھپا کر یہ ممتا کا مارا اپنے بیج سنبھالتا اور پکاتا ہے۔
پھر کیسے ریشمی پنکھ لگا کر ان بیجوں کو ہوا کے دوش پر چھوڑتا ہے کہ پھیل جائیں۔
دور دور نکل جائیں اور اپنی جڑیں جمانے کو نرم زمین ڈھونڈیں۔
فطرت نے ماں کو بھی کیا تخلیق کر دیا ہے یار۔ کیا شاہکار بنا دیا ہے۔
ہاں تیری بھی تو ماں ہو گی۔ اسے سلام کہنا!
کیا خوب دلیر جنا ہے۔
سانپوں کو زچ کرنے والا۔ بانکا اور نڈر۔
بے خطر سانپ کا پھن زہر سمیت دبوچ لینے والا۔
اس کے الٹنے پلٹنے پیچ و تاب کھانے سے بددل نہ ہونے والا۔ ہمت اور حوصلے والا۔
میرا سلام کہنا اپنی ماں سے۔
ایک مظلوم دکھیاری بے کس لاچار عورت کا سلام۔
ماں ہونا جس کا آخری اعزاز ہے جو جانے کب چھن جائے کہ علم بڑی تیزی سے ہر سچ کو جھوٹ کیے دے رہا ہے۔
اسے کہنا غنیمت ہے یہ وقت کہ ہم ابھی تک مائیں ہیں، چاہے یہ منصب یہ کردار ہماری ہڈیوں سے گودا بھی نچوڑ لے۔ “
نیولے نے یہ سنا تو بڑا اثر لیا۔
لگا جیسے اس کی چمکتی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہوں۔ اس نے حسب عادت پھر تیز جھٹکوں کے ساتھ اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور مزید قریب سَرک آیا۔
سورج کی تمازت بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔
آگ برساتا گولابتدریج بلند ہو رہا تھا۔ زمینی مخلوق اس آتش فشانی کے جبر کو جھیلنے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
وہ جو تپتی سرکتی ریت پر رینگ رینگ کر سرکنڈوں کی جھاڑیوں اور آک کے پودوں کے بیچ اس سے ملنے آئی تھی جو اس کی باتیں سنتا تھا اور سانپ کا پھن زہر سمیت چبا ڈالنے پر قادر تھا، وقت کے گزرنے اور گزر جانے کا ادراک رکھتی تھی۔
وہ آئی تھی اور جانے کی سوچ سے آزاد نہیں تھی۔ وہ تو زیست کی گھٹن زدہ تاریک کوٹھڑی کے اندر ہی اندر سانس لینے کو سہارے ڈھونڈتی پھرتی تھی۔
“مجھے واپس تو جانا ہو گا۔
جبر کی کوٹھڑی میں۔
کوئی راہ فرار نہیں۔
پھر واپس آؤں گی سرکنڈوں، آک، نیولے اور سانپ کی دنیا میں، ریت کی تپتی دلدل سے گزر کر۔
پھر سوال و جواب اور تشکیک کی بھٹی کا ایندھن بننا ہو گا۔
لیکن کسی روز نیولے سے مکالمہ کو پھر جو نکلنا ہے تو کیوں نہ اس دنیا کو اپنی کال کوٹھڑی میں ساتھ ہی لے جاؤں؟
وہیں مکالمہ ہو اور وہیں تماشا۔
سرکنڈوں کی جھاڑیاں ساتھ لے لوں؟
اُسترے جیسے تیز دھار لمبے تلوار پتوں والی بے رحم جھاڑیاں۔
لیکن یہ سہولت تو میری جبر کی کوٹھڑی میں مجھے پہلے ہی سے میسر ہے۔ میری تو سانس تک تلوار بن جاتی ہے۔
میرا کلیجہ تو سانس سانس کٹتا ہے۔ تلواریں اور خنجر تو میرے خون میں گھومتے ہیں۔
رگ رگ میں، نس نس میں چرکے لگاتے ہیں۔
جو موجود ہے اسے باہر سے ساتھ لے جا کر کیا کروں گی۔
سانپ؟
سانپوں والی کوٹھڑی میں تو بند ہوں۔
تو پھر؟
میرے ساتھ چلو گے انسانوں کی بستی میں؟
یار نیولے!”
نیولے نے اپنے گول مٹول کانوں کو ہلکی جنبش دی۔ گردن کو تیزی سے دائیں بائیں گھمایا۔ اپنی تیز، بلوریں آنکھیں جھکائیں۔ پھر بائیں طرف گردن موڑی اور بھاگتا ہوا سرکنڈے کی جھاڑی میں گھس گیا۔
وہ جو پریشان تھی ششدر رہ گئی!
اس نے آک کے اندر سے جامنی اور باہر سے سفید پھولوں کی ایک ڈنڈی توڑی تو سفید چکنا دودھ ابل ابل کر، بہہ کر اس کی انگلیاں چپچپی کرنے لگا۔
پھر اس نے سرکنڈے کی جھاڑیوں کی طرف دیکھا جہاں نیولاگھسا تھا تو اسے سانپ کے لاتعداد بل نظر آئے۔
“میں نے تو سنا تھا کہ سانپ اور نیولا اکٹھے نہیں رہتے۔
تو کیا یہ متروک بل ہیں؟”
اس نے سوچا۔
ابھی اسے بہت سوچنا تھا۔
سوچنا اور سوچتے رہنا ہی اس کا مقدر تھا۔
پھر وہ صرف انھیں سے بات کر سکتی تھی جو اس کی بات سنتے تھے۔
بات کرنا تو ضروری ہے نا، اور سوچنا بھی۔
جب تک دماغ ماؤف نہ ہو جائے۔
ضروری بھی اور مجبوری بھی۔
وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ریت کی نہر جیسی “سرکتی سڑک ” پر واپس رینگنے لگی۔
اس کے تصور میں اپنی گھٹن اور حبس سے بھری تاریک کوٹھڑی آ گئی جو اس کا مقدر تھی سو اس کی منتظر تھی۔
” کیا میں دشوار راستوں سے ہو کر پھر اس سرکنڈوں، آک، گلہری، سانپ اور نیولے کی دنیا میں واپس آؤں گی؟”
اس نے ریت کی دلدل سے لڑ کر واپس رینگتے ہوئے سوچا۔
“میرا خیال ہے آؤں گی۔
مجھے آنا ہی ہو گا۔
یہیں تو بستے ہیں جو میری سنتے ہیں۔”
اس کے اندر سے آواز آئی۔
٭٭٭