سارہ کنٹین میں بیٹھی برگر کے ساتھ انصاف کرہی تھی اسے غصہ بھی آرہا تھا کہ سب نے اسے اکیلا چھوڑ دیا بس اپنا غصہ برگر پر نکال رہی تھی کہ ایک دم سے اسکی برابر والی سیٹ پر کوئی اکر بیٹھا
سارہ نے غصے سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا
“ہے لٹل لیڈی کیسی ہو ”
سلمان اسکو کنٹین میں کھاتے دیکھا تو سارہ کے برابر میں سیٹ پر بیٹھ کر پوچھنے لگا
“غصے میں ہو منہ نا لگو میرے”
سارہ نے غصے سے کہا اور برگر پر جھک گئی
“اچھا پھر کس کے منہ لگو”
سلمان آج اسکو تپانے کے موڈ میں تھا اسلیے بولا
“سب میرے مگیتر نہیں ہے نا اس لئے سوچ سمجھ کر منہ لگنا پڑتا ہے ”
سلمان سوچنے کے انداز میں کہنے لگا
“غلطی ہوگئی جو تم میرے پلے پر گئے”
سارہ کو اسکی اداکاری زہر لگ رہی تھی اسلیے تپ کر۔ کہا
“اب کیا کہ سکتے ہے ہوگئی ہے اب تمھیں زندگی بھر یہی شکل دیکھنی ہے”
سلمان اداس چہرے سے بولا جیسے سب سے دھکی بات کر رہا ہو
“بھار میں جاؤ”
سارہ کا دل چاہا اسکا سر پھاڑ دے ویسے ہی میرا موڈ خراب ہے اور اسنے اکر اور خراب کردیا ہے اسلیے جان چھرانے والے انداز میں کہا
“یہ کون سی جگہ ہے ….اچھی ہے تو مل کر چلے”
سلمان دماغ پر انگلی رکھتے ہوہے بولا اور آخری بات سارہ کو تپانے کے لئے کہا
“تم یہی بیٹھو میں جارہی ہو”
سارہ اپنا برگر وہی چھوڑ کر جانے لگی
“اچھا اچھا بیٹھ کر سکون سے کھا لو اب کچھ نہیں بول رہا”
سلمان کو اسکا کھانے سے ہاتھ ہٹانا پسند نہیں آیا تبھی اسکا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا
سارہ مجبورن بیٹھ گئی کیوں کہ برگر کی بات تھی یہ تو غصے میں چھوڑ دیا تھا پر اب کھالیتی ہو
سارہ سوچتی ہوئی بیٹھ گئی
سلمان اسکو کھاتا ہوا دیکھ رہا تھا
“مجھے گھورنا بند کرو”
سلمان اسے کب سے دیکھ رہا تھا اس لئے سارہ تنگ آتی ہوئی بولی
اب تمھیں ہی تو دیکھنا ہے کسی اور کو تو دیکھ نہیں سکتا”
سلمان شوخیہ بولا اور آنکھوں میں واضح شرارت تھی
“میں اٹھ جاؤ گی
سارہ دھمکی دیتی ہوئی بولی
“اچھا بھئ کچھ نہیں کہ رہا حد ہوگئی”
سلمان کا موڈ بگڑ رہا تھا
اور سارہ کو اب مزہ آرہا تھا
“اوہ شٹ کلاس ہے میری”
سارہ گھڑی پر نظر پڑتے ہویے بولی
“بعد میں میلونگی”
سارہ اپنا بیگ اٹھاتے ہویے بولی
“پر سنو تو”
سلمان اسکو اٹھتا دیکھ فورن بولا
“کیا”
سارہ پلٹتے ہویے پوچھنے لگی
“تم میری محبت ہو”
سلمان دل پر ہاتھ رکھتے ہویے کہنے لگا
اور سارہ اسکے اس طرح کہنے میں سٹپٹا گئی اور اگے پیچھے دیکھنے لگی جہاں رش تو کم . تھا لیکن جو تھے وہ سب انہیں دیکھ رہے تھے
سارہ سر جھکاے جانے لگی سلمان اسی کو دیکھ رہا تھا
“میں بھی”
سارہ دروازے پر پہنچ کر سلمان کی طرف دیکھتے ہویے دھیرے سے کہا اور شریر سی مسکراہٹ سلمان کی طرف اچھال کر باہر چلی گئی
اور سلمان اسکے ہلتے لب کی بربراہٹ اچھے سے سمجھ گیا تھا وہ اتنے مشکل لفظ نہیں تھے کہ کوئی بندہ سمجھ نا سکے
سارہ کی مسکراہٹ اور لفظ سن کر دل خوشی سے جھوم اٹھا
سلمان تو بس اسکے لفظ میں کھو گیا تھا اور وہی کرسی سے ٹیک لگا گیا
__________
عنایہ آبیان کے پیچھے بھاگی جو مین گیٹ تک پہنچ چکا تھا
“آبیان آپ کیا کرنے والے ہو سعد بھائی کے ساتھ”
عنایہ سیڑیاں اتر کر آبیان کو پیچھے سے آواز دیتی ہوئی بولی
“تم سے مطلب”
آبیان پیچھے مڑ کر روکھے پن سے جواب دیتا ہوا بولا
“آپ پلیز ان کو چھوڑدو”
عنایہ منت کرتی ہوئی بولی
کیوں کہ اسکو تو کم سزا دینگا لیکن سعد کو ڈبل سزا دلواے گا
“تم کچھ زیادہ نہیں بول رہی میں نے تمھیں اب تک کچھ نہیں کہا ہے ورنہ میرے ساتھ گداری کرنے والوں کو میں اگلی سانس بھی نہیں لینے دیتا مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمہارے لئے کوئی قدم اٹھاؤ”
آبیان کو سچ میں غصہ اگیا تھا کہ وہ اسکے لئے کہ رہی ہے
“پلیز چھوڑ دیں آپ مجھ سے تو پیار کرتے ہے نا مجھے کم ہی ڈانٹے گے لیکن سعد بھائی کا آپ کچومر بنا دینگے”
عنایہ اسکی وارننگ سن کر خوف میں آگئی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہویے معصوم سے انداز میں بولی
کسی ملازمہ میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ وہاں سے گزر بھی جائے اس لئے انہیں تنگ کرنے والا کوئی نہ تھا
آبیان اسکی بات پر مسکرا دیا
“اچھا تو میری جان کو اسکی فکر ہے….اپنے شوہر کی فکر نہیں ہے کہ اسنے کیسے دن رات نکالے ہوگے”
آبیان اسکو اپنے سینے سے ہٹا کر دونو ہاتھ سے عنایہ کا چہرہ پکڑے بہت نرمی سے کہ رہا تھا
“میں نے آپ کی بھلائی کے لئے کیا تھا کہ آپ سیدھے راستے پر آجاے”
عنایہ نرمی سی کہ کر دوبارہ اسکے سینے میں منہ چھپا گئی
“پر تم نے مجھے بہت ڈرا دیا تھا تم سوچ نہیں سکتی میں کتنا خوف زدہ ہوگیا تھا جب جب یہ بات سوچتا تب تب میں بے چین ہوجاتا تھا میری جان تم میں بستی ہے اور جب تم نے بتایا تو مجھے بہت دکھ ہوا میں نہیں چاہتا میرا غصہ تم پر نکلے لیکن تم مجبور کردیتی ہو”
آبیان عنایہ کو کس کر گلے لگاتے ہویے اسکے کان میں اپنے دل کی بات کہنے لگا
“ای ایم سوری بس میں آپ کو سیدھے راستے پر دیکھنا چاہتی تھی اس لئے یہ سب کیا آپ کو دکھ ہوا اس کے لئے سوری”
عنایہ اسکی بیچینی سمجھ سکتی تھی اس لئے اسکے سینے میں منہ چھپاے ہی کہنے لگی آخری بات اسکے سینے سے سر اٹھا کر بولی
آبیان بھی اسکو دیکھ کر مسکرا دیا
“اچھا اب تمھیں سزا کیا دی جائے”
آبیان سنجیدگی سے کہتا ہوا بولا لیکن آنکھوں میں واضح شرارت تھی
“آپ مجھے سزا دینگے”
عنایہ اسکی شرارت بھری آنکھیں نہ دیکھ سکی اس لئے صدمے سے بولی
“ہاں تم نے غلطی کی ہے تو سزا بھی بنتی ہے”
آبیان اسکو اپنے۔ سینے۔ سے ہٹا کر بولا
“چلو تمھیں دوبارہ اسی کمرے۔ میں بند کردیا جائے”
آبیان سوچنے کے انداز میں بولا
“ایسا تو نہیں ہوسکتا”
عنایہ اسکی آنکھیں دیکھتی ہوئی شرارت سے بولی اور کمرے کی طرف دوڑ لگا دی
“رکو صبر رکھو تمھیں مگرمچھ سے ملواتا ہو”
آبیان اسکی طرف دوڑتے ہویے بولا
“آپ خود مل لیں میں نے نہیں ملنا”
عنایہ ہستے ہویے بولی
عنایہ کمرے میں پہنچ کر جیسے ہی روم بند کرنے لگی آبیان نے پیر سے دروازہ روک لیا
“اب کہا بھاگو گی”
آبیان پورا دروازہ کھولتے ہویے بولا
“دیکھے ہماری ایسی مذاق نہیں ہے”
عنایہ دهور ہوتے ہویے سانس بحال کرتی ہوئی بولی
“پھر کیسی مذاق ہے مسز”
آبیان زو معنی لہجے میں کہتے ہویے اسکی طرف بڑھ رہا تھا
“آپ سعد کو چھوڑ دیں نہ پلیز”
عنایہ اپنے چکر میں بھول ہی گئی تھی
“اچھا کیا دوگی اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو ”
آبیان اسکو اپنے حصار میں لیتے ہویے بولا
“جو آپ چاہے”
عنایہ تو اسی میں خوش ہوگئی تھی کہ وہ مان رہا تھا
“مجھے ایک پیاری سی بیٹی چاہیے”
آبیان اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہویے بولا
عنایہ اسکی بات سن کر تو سٹمٹا گئی اور شرم سے سر جھکا گئی
“ارے تم تو شرما گئی”
آبیان قہقہ لگاتے ہویے بولا
“چھوڑے میں باہر جارہی ہو”
عنایہ چروانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی
“اچھا اچھا جاؤ شرماؤ تو نہیں”
آبیان اب بھی اسکے شرمانے پر مزے لے رہا تھا
اور عنایہ اپنا سرخ چہرہ لے کر باہر چلی گئی
*****
آبیان نے سعد کو فون کیا
“ہیلو”
سعد نے ڈرتے ڈرتے کہا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کوئی بیڈ نیوز ہی سننے کو ملیگی
“ہیلو سعد”
آبیان روب دار آواز میں بولا
“ہاں ”
سعد نے جھجھکتے ہویے بولا
“میں نے تمہارا ہسپتال”
آبیان نے جان بوجھ کر۔ بات ادھوری چھوڑی
“کیا کیا میرے ہسپتال کا..آبیان میرے ہسپتال کو چھوڑ دے یار میں نے تیرا بھلا ہی کیا تھا کوئی تیری چیز لے۔ کر نہیں بھاگا ہوں”
سعد کو اپنا ہسپتال بہت پیارا تھا اس لئے وہ آبیان کی منت کرنے لگا آخری بات پر تو سعد کو غصہ ہی آگیا تھا
“تو مجھ پر نہیں بڑھک میں ایک منٹ میں سب کچھ بند کروا سکتا ہو”
آبیان اسکو دھمکی دیتے ہویے بولا پر ہونٹ مسلسل مسکرا رہے تھے
“نہ کر نا یار”
سعد دوبارہ اپنی وہی ٹون میں آگیا تھا
“جا بخش دیا میں نے تجھے اپنی بیوی کی خاطر”
آبیان نے ایسے کہا جیسے ملک کی بادشاہت اسے دیدی ہو
سعد۔ کو تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا
“کیا اس نے غلط سنا”
“دوبارہ بول کیا کہا”
سعد اپنے کان ٹھیک کرتے ہویے بولا
آبیان جیسا بندہ کسی کو چھوڑ دے یہ جیسے۔ نہ ممکن سی بات ہے
“جی لے اپنی زندگی آزاد کیا میں نے”
آبیان ہستے ہویے بولا
“واہ بھائی ہم نے اتنا کہا لیکن بھابھی کے کہنے پر فورن مان گئے”
سعد شکوہ کرتے ہویے دل میں اللّه کا شکر ادا کرنے لگا
“بس کیا کرے بیوی بھی تو میری ہے”
آبیان شوخیہ ہوتے ہویے بولا
“ہا ہا ہا ہاں بھئ تیری ہی بیوی ہے”
سعد ہستے ہویے بولا
یہ تو میں نے۔ اپنی بیوی کے لئے چھوڑ دیا ورنہ تو ابھی روڈ پر ہوتا
آبیان اب بھی اس کی لینے میں لگا ہوا تھا
“ہاں بھئ مہربانی تیری تو نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا
” جیسے میں نے تجھے معاف کیا ویسے ہی اللّه مجھے معاف کردیں”
آبیان اداسی سے کہنے لگا
“اللّه معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اللّه تجھے بھی معاف کردے گا”
سعد اسکو حوصلہ دیتا ہوا کہنے لگا
“ان شاء اللّه”
آبیان نے دل سے کہا
” چل میں اون ڈیوٹی ہوں مجھے پیشنٹ بلا رہے ہے بعد میں بات کرتا ہو”
سعد نے احسان جتاتے ہویے کہا
“چل سہی ہے اللّه حافظ”
“اللّه تجھے ہمیشہ خوش رکھے”
سعد نے دل میں دعا دیتے ہویے اللّه حافظ کہ کر فون رکھ دیا
*****
سارہ تھوڑی دیر ریسٹ کرنے یونی کے گارڈن میں بیٹھی تھی کہ برابر میں سلمان اکر بیٹھا
“کیا کر رہی ہو”
سلمان اسکو بیگ کے اندر گھسا پا کر بولا
“تم یہاں”
سارہ اس کے بیٹھنے پر بولی
“کیوں میں یہاں نہیں بیٹھ سکتا”
سلمان شراتی لہجے میں بولا
“اچھا بتاؤ تو کیا ڈھونڈ رہی ہو”
سلمان پوچھنے لگا
“یار چپس ڈھونڈ رہی ہو بھوک لگ رہی ہے”
سارہ مصروف انداز میں بولی
“تمھیں کیا ہر وقت بھوک ہی لگتی رہتی ہے کتنا کھاتی ہو جب دیکھو کیفے میں ملتی ہو یا ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ”
سلمان شوخیہ ہوتے ہویے بولا
“تمہارا نہیں کھاتی میں”
سارہ غصے ہوتے ہویے بولی
“اچھا اچھا سہی ہے یہ لو تمہارے لئے لیا تھا”
اسکو غصہ دیکھ کر۔ سلمان چپس کا۔ پیکٹ۔ بڑھاتے ہویے بولا
“پہلے ہی دیدیتے فالتو کا غصہ نہیں اتا”
سارہ ہستے ہویے بولی
“لنچ پر چلو گی”
سلمان اسکو دیکھ کر افر کرتے ہویے بولا
“کیوں تم پیزا کھلا رہے ہو”
سارہ چپس کھاتی ہوئی بولی
“تمھیں کھانے کے۔ علاوہ بھی کوئی بات کرنی آتی ہے”
سلمان تنگ اکر بولا
“نہ جی میں اور۔ میرا کھانا دونو ایک دوسرے کے لئے مکمل ہے”
سارہ اداکاری کرتے ہویے بولی
“ہا ہا تم کیا چیز ہو”
سلمان ہستے ہویے بولا
“انسان ذات ہے کوئی چیز تو نہیں ہے خیر تم بتاؤ کیا کام ہے”
سارہ برا مانتے ہویے بولی
“ارے ہاں میں تو بھول ہی گیا تم لنچ پر چل رہی ہو شام میں لینے۔ آؤ گا تمہاری امی سے بات کرلی ہے میں نے تیار رہنا اور ہاں پیزا بھی کھلاؤ گا”
سلمان سنجیدگی سے کہنے لگا اور آخری بات ایک آنکھ دبا کر کہتے ہویے جانے لگا
“بتا تو دو کیا بات ہے”
سارہ اسکی مشت دیکھتی ہوئی بولی
“شام میں ملو بتا۔ دونگا اللّه حافظ”
سلمان ہاتھ ہلاتے ہویے بولا
“اب اسے کیا بات کرنی ہے”
سارہ وہی بیٹھے سوچنے لگی
جب کچھ سمجھ نہ آیا تو سب سوچو کو ایک سائیڈ رکھ کر چپس کھانے میں محو ہوگئی
*****
ایک ہفتہ ہوگیا تھا کہ ان کی شادی کو اور دونوں ایک دوسرے کو جانے لگے تھے پہچانے لگے تھے
“آبی کہاں ہو”
حسن نے آبش کو روم سے آواز دی
“ہاں بولیں”
آبش کیچن سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی روم میں ای
گھر کے کھانے کی زمیداری آبش نے اپنے اوپر لی تھی حسن کی امی کے لاکھ دفعہ منا کرنے کے باوجود بھی آبش نے پورا کیچن سمبھالا ہوا تھا
رات کے برتن اٹھاتے ہویے حسن نے اسکو آواز دی
آبش جواب دیتی ہوئی ہاتھ دھو کر روم میں جانے لگی
“یار میری شرٹ کہا ہے”
حسن کپبورڈ میں گھسا پوچھ رہا تھا
“کون سی شرٹ”
آبش اسکے قریب جاتے ہویے پوچھنے لگی
“وہی وائٹ والی”
حسن تھک ہار کر بولا
“آپ ہٹے میں دیکھتی ہو”
آبش حسن کو پیچھے کرتی ہوئی بولی
“یہ تو رہی آگے ہی پڑی تھی”
آبش ہاتھ میں شرٹ لئے بولی
“اوہ میں نے دیکھی ہی نہیں”
حسن شرٹ کو دیکھتا ہوا بولا
“تم کہاں جارہی ہو”
آبش کو جاتا دیکھ حسن اسکا ہاتھ پکڑتے ہویے بولا
“کام چھوڑ کر۔ ای ہو”
آبش تھکے تھکے لہجے۔ میں بولی
“بعد میں کرلینا ادھر اکر بیٹھو”
حسن اسکو اپنے برابر میں بھیٹاتا ہوا بولا
“کتنا کام کرنے لگ گئی ہو تھوڑا آرام بھی کر لیا کرو”
حسن اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھتے ہویے بولا
“نہیں اتنا کام تو نہیں ہوتا”
آبش مسکراتے ہویے حسن کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
“اچھا تو تھوڑا بہت میری ہی مدد کردو”
حسن معنی خیز لہجے میں بولا
“کس کام میں”
آبش نہ۔ سمجھی سے پوچھنے لگی
میرا پیارا سا بیٹا دینے میں”
حسن کہتے ہویے اسکے ہاتھوں پر اپنے لب رکھے
آبش شرما کر اسکے سینے سے لگ ہے
حسن اسکی شرماہٹ سے محفوظ ہوتا اسکے اوپر اپنی شدتو ں کی بارش کرنے لگا اور آبش خود کو حسن کے حوالے کرکے پر سکون ہوگئی تھی.
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...