سلونی کے سارے سگے رشتے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے دور ہو چکے تھے اسکے دادا دادی ۔۔اب بچے بھی بڑے ہو رہے تھے سلونی کی بیٹی کا نام پری رکھا تھا سلونی نے۔اور وہ لوگ وہی ملازموں کے کوارٹر میں ہی رہتے تھے شاہ بیگم سے اسنے یہاں دل لگے رہنے کا بہانہ بنالیا تھا۔۔جس پر شاہ بیگم کو دکھ تو ہوا تھاا ور وہ سمجھ بھی گئ تھی۔کہ اسکی وجہ کون ہے۔
پری اب چھ سات سال کی ہوگئ تھی وہ نازک سی خوبصورت نین نقش والی گندمی رنگت والی لڑکی تھی اور تارہ آپا کی نواسی سنبل جو ایک عام شکل وصورت کی مگر تیز لڑکی تھی۔۔نوفل کو ثناه نے جانبوجھ کر بورڈنگ اسکول میں ڈالنے کیلۓ اپنی بہن کے پاس بجھوا دیا تھا تاکہ وہ ان سب سے دور رہے۔۔
ایک دن سلونی کو پری نے گنگناتے سنا تو پوچھی۔
امئ آپ کیاں کہہ رہی ہے مجھے بھی سکھاۓ؟
جس پرسلونی مسکراتے ہوۓ اسے اپنی گود میں لیکر بیٹھ گئ اور پھر سے سنانے لگی جیسے پری دہرا رہی تھی۔۔
محمد نبینا من نورالادینا
من مکہ حبیبی نور استاءل مدینہ
مگر امئ اسکا مطلب کیاں ہے؟؟
بیٹا نہیں پتہ مجھے اچھا لگتا ہے سننے میں اسے گنگناتی ہوں۔۔
کہاں سے سنتی ہے ۔؟
سلونی ایک پرانا ریڈیو اسے دکھا کر کہتی ہے۔۔
اس سے یہ میں نے اپنےدادا جی کا لیا تھا اس سے۔
اور اسے چلا کر دکھاتی ہے۔۔
من صلی صلواۃ من الم شفاۃَ
پری بھی اب سلونی کے ساتھ گنگنانے لگتی ہے جبکہ سلونی کو کچھ یاد آتا ہے اور اسکی آنکھوں میں آنسوں آ جاتے ہیں۔۔
شاہ بیگم کی موت سب کیلۓ ایک قیامت سے کم نہ تھی مگر شاہ زمان نے سختی سے منع کیا تھا کہ احد کو کوئ بھی اطلاع نہیں دیگا۔۔
سلونی اور پری بہت روۓ تھے کیونکہ پری کو اپنی دادی سے بہت لگاؤ تھاانھوں نے پری کو بہت پیار دیا تھا۔
شاہ بیگم کے انتقال کے ایک سال کے بعد احد کسی میڈیکل سیمینار میں شرکت میں مجبوری کی وجہ سے وطن آیا تو اسے پتہ چلا کہ اسکی اماں اب نہیں رہی ۔۔
وہ اور فہد صبح کے وقت باہر گارڈن میں بیٹھے تھے
بھائ نوفل کیسا ہے؟
ٹھیک ہے بورڈنگ اسکول میں ہوتا ہے ،،
کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا مگر ہمت نہ کرسکا۔۔
اور کب واپسی ہے تمھاری ؟؟فہد نے پوچھا۔
آج شام کو نکل جاؤں گا۔۔
کیا کل رات کو ہی تو آۓ ہو۔۔
پتہ ہے مگر اب یہاں رہنے کا حق نہیں رکھتا شاید ورنہ اماں کا انتقال ہوا اور کسی نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔
ٹھیک کہا تم نے احد ۔۔!!!!
یہ آواز شاہ زمان کی تھی جیسے سن کر دونوں بھائ کھڑے ہو گۓ تھے۔
اس سے پہلے کے شاہ زمان کچھ کہتے ایک آواز آنے پر سب اس طرف دیکنھے لگے۔
دادا جان دادا جان۔۔
یہ پری تھی جو روتے ہوۓ اس طرف ہی آ رہی تھی۔۔
شاہ زمان پری کی جانب دوڑے مگر عمر کا تقاضہ تھاا سلۓ پھرتی اتنی نہیں تھی ۔۔
پری شاہ زمان سے لپٹ کر رو رہی تھی
کیاں ہوا پری بیٹا؟؟!!
دادا جان یہ دیکھے امئ نے ہمارا ریڈیو تھوڑ دیا۔۔
پری نے ہاتھ میں پکڑا ٹوٹا ریڈیو دکھاتے ہوۓ رو کر کہا۔۔
اوہو مگر کیو کیاں امئ نے ایسا بیٹا؟؟؟
ہم نے کہا کہ اسکول نہیں جانا اسلۓ ۔۔پری اب بھی رو رہی تھی۔
تبھی وہاں سنبل ہانپتے ہوۓ اسکا اور اپنا بیگ اٹھاتے ہوئ آئ۔
چلو پری ورنہ ماسٹر جی مارےگیں۔۔
پری بیٹا آپ جاؤ ہم آپ کیلۓ نیا ریڈیو لے آۓ گیں مگر آپ اسکول جاؤن گی تو ورنہ نہیں ۔۔
ہاں میں جاؤن گی چھٹی نہیں کرونگی پکا آپ جلدی لانا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔
سنبل اسکا ہاتھ تھامے اسے بیگ پہنانے کے بعد وہاں سے لے جاتی ہے۔۔
جبکہ احد اسی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے جاتے ہوۓ پری ایک دفعہ مڑ کر احد کی طرف دیکھتی ہے اور چلی جاتی ہے جبکہ سلونی جو پری کو لانے کے غرض سے اس طرف آتے ہوۓ احد کو دیکھ کر رک جاتی ہے اور وہی دیوار کی آڑ میں چھپ جاتی ہے اسکے سینے میں ایک درد اٹھنے لگتا ہے اور آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہے یہ سارا منظر ثناه اوپر اپنے کمرے کی کھڑکی سے بھی دیکھ رہی ہوتی ہے اسے سلونی کیلۓ برا لگتا ہے مگر وہ وہاں سے چلی جاتی ہے
احد جو پری کی جانب ہی دیکھ رہا ہوتا ہے اسکے جاتے ہی فہد کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔۔
تبھی شاہ زمان کی بوجل آواز آتی
ہے ۔۔۔
فہد ایسے جاتے ہوۓ چھوڑ دینا ۔۔
اور وہ وہاں سے چلے جاتے ہیں۔۔۔
جبکہ احد اب بھی فہد کو ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔
احد تم آرام کرلو میں شام سے پہلے ہی آجاؤ گا ساءیٹ سے ٹھیک ہے پھر ساتھ چلے گے ۔
فہد چلا جاتا ہے۔مگر احد وہی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ۔۔
پری اور سنبل اسکول سے واپس آتے ہوۓ ہمیشہ کی طرح کھیتوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔۔
چلو پری سناؤ آج کیا سناؤں گی۔۔
سنبل آج دل نہیں کر رہا گھر چلتے ہیں۔
سنبل اسکا ہاتھ تھامے گھر کی جانب چلتے ہیں گھر کے قریب گاڑی میں احد شاید انکا ہی انتظار کر رہا ہوتا ہے۔۔
ان دونوں کے قریب آتے ہی احد انھیں آواز دیتا ہے سنبل پری کو لیکر گاڑی کی طرف بڑھتی ہے۔
جی ۔۔۔
سنبل پہنچ کر کہتی ہے۔
احد ایک ڈبہ اسکی جانب بڑھاتا ہوۓ کہتا ہے۔۔۔
یہ لو اور اس لڑکی کو دیدو۔۔
اسکا نام پری ہے اور یہ کیاں ہے؟
یہ ریڈیو ہے۔۔
ریڈیو سنتے ہی پری بھاگتے ہوۓ آتی ہے اور ڈبہ لیکر سنبل کا ہاتھ پکڑ کر اندر کے جانب دوڑتی ہے۔۔
انکے جاتے ہی احد بھی وہاں سے نکل جاتا ہے۔
پری اندر جاکر شاہ زمان کو دیکھ کر ڈبہ دکھاکر ہنستی ہوۓ سلونی کے پاس جانے کیلۓ دوڑتی ہے ۔جبکہ سنبل کو شاہ زمان آواز دیکر روک کر پوچھتے ہیں۔
پری کے ہاتھ میں کیاں تھا سنبل۔۔
ریڈیو وہ پری کے ابو نے دیا۔۔
کیاں کس کی بات کر رہی ہو سنبل۔۔؟؟؟
وہی جو صبح یہاں کھڑے تھے جنکی تصویر بھی ہے اندر نانی نے بتایا تھاانکے بارے میں ۔
یہ کہہ کر وہ چلی جاتی ہے اور شاہ زمان بس آہ بھرتے وہاں سے چلے جاتے ہیں
!!!!!!¡!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
۔ ¡!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
تین سالوں میں اسکی جولی کے ساتھ ہی رہنے کی وجہ سے وہ جولی سے کافی کچھ جان چکی تھی کہ وہ یہاں کیسے آئ اور اب تک کیاں کیاں ہوا ہے اسے افسوس تو تھا کہ اسکی تلاش کسی نے نہیں کی تھی مگر دل بہلانے کیلۓ خود ہی سوچتی کہ اسکا تھا بھی کون۔۔اور ڈاکٹر آھل اسے ہمیشہ ایک ڈاکٹر کی طرح ہی ملتے اور اسکے کیے جانے والے procedure اسے بتاتے اسکے علاوہ کوئ بات نہ کرتے ۔۔
اچھا مجھے بہت دکھ ہے کہ تمھیں کچھ بھی یاد نہیں مگر یہ اچھا ہے تم یہاں ہو تمھیں بہت جلد ڈاکٹر آھل اپنے apartment میں shift کر دیگے جہاں میں تمھارے ساتھ رہو گی بڑا مزہ آۓ گاویسے بھی میرا کوئ نہیں ہے مگر اب تم ہو نہ ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھے گے۔ارے تمھارا نام تو پتہ نہیں تھا تو میں تمھیں angel کہتی تھی اب تو یہاں سب تمھیں اسی نام سے جانتے ہیں۔تم کہو تو نام بدل دیں جو تم چاہو وہی رکھ لے۔۔
نہیں اچھا نام ہے نہ بدلو۔۔
ok چلو پھر گانے سنے میرے favourite کا ہمیشہ کی طرح اب تو تمھیں بھی میری وجہ سے عادت ہوگئی ہے جب سے تم بےہوشی میں تھی تب سے سنارہی ہو تمھیں ۔ہممممم یہ collection تو دکھی ہے چلو سنتے ہے۔
دھواں بناکے فضاء میں اڑا دیا مجھکو
میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیامجھکو۔۔۔۔۔
یہ سنکر اسکی آنکھیں نم ہوگئ تھی مگر جولی بے خبر تھی
تبھی intercome پہ کال آئ جسے سنکر جولی چہکنے لگیں۔
ہررررےےےےچلو تمھیں shift کرنے کا کہا ہے مزہ آۓ گا۔۔
وہ یہ سنکر ذرا سہم گئ ۔
مگر جولی ؟؟؟
او ڈیَر تم کیاں ڈر رہی ہو نہیں ڈرو دیکھنا تم خوش ہو جاؤن گی میں تمھیں گھمانے بھی لے جاونگی چلو شاباش ٹھیک ہے۔۔
اور وہ ہلکا سا مسکرا کر ہامی بھرتی ہے۔۔
یہ ایک وسیع modern appartment تھا جسکا ہر کمرہ جدید طرز سے سجا ہوا ۔۔جولی نے اسے اسکا کمرہ دکھایا اور خود اپنا سامان لیکر نیچھے servant quarter کی جانب بڑھ گئ۔
اس نے جولی کے جانے کے بعد پورے کمرے کا جاءزہ لیا مگر ڈریسنگ کے قریب پہنچ کر آءینہ میں اپنا عکس دیکھکر گبھرا گئ اور پھر سنبھل تو گئ مگر اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور کمرے سے نکل کر کیچن کے قریب آکر دیوار سے ٹیک لگا کر رونے لگی تبھی کسی نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا اور وہ اس سے لپٹ کر رونے لگی بغیر یہ دیکھے کہ اسکے آنسو کسے بھگا رہے ہیں۔اچانک وہ روتے ہوۓ اس سے دور ہوئ تو اک اجنبی کو دیکھ کر گبھرا گئ مگر اسکے جو اجنبی تھاا سکے لۓ یہ چہرہ اجنبی نہ تھا وہ حیرت سے منہ کھولے اسی کو دیکھے جا رہا تھا۔۔
سارہ!!!!!!!!!
سارہ بھابھی آپ مطلب ایسا کیسے کون ہو تم۔۔۔
یہ زید تھا جو اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔۔
hey young man she is Angel۔my patientکیاں ہوا
تبھی آھل کی آواز پر زید آھل کی جانب متوجہ ہوا۔۔
جولی بھی وہاں آچکی تھی تو آھل نے اسے angel کو اندر لیجانے کا کہا۔
بھائ یہ کون تھی مطلب کیاں یہ وہی لڑکی ہے اور آپ نے تو اف مطلب کمال کر دیا آپ نے۔۔زید ابھی تک حیران تھا۔
ہاں جانتا ہو مگر چہرے کا انتخاب غلط تھا خیر تم fresh ہو جاؤن شام کو party میں بھی جانا ہے ok
یہ کہہ کر آھل چلا جاتا ہے مگر زید ابھی بھی حیران وہی پر صوفے پر گر سا جاتا ہے ۔
احد کے جانے کے بعد سب کی زندگی جیسے چل رہی تھی ویسے ہی چلنے لگی مگر سلونی کی زندگی ٹھہر گئ اسکے زخم تازہ ہوگئے تھے جو اسکی روح کو لگے ہوۓ تھے۔۔اسکی صحت دن بدن گرتی گئ تارہ آپا کے ساتھ ثناه کو بھی اسکی حالت پر دکھ ہوتا تھا مگر وہ ظاہر نہیں کرتی تھی۔۔
ایک رات سلونی کی حالت بہت خراب ہوگئ ڈاکٹر کو بلایا گیا مگر تب تک سلونی اپنے سارے دکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلۓ آزاد ہو چکی تھی۔۔
پری بہت روئی تھی مگر تارہ آپا نے اسے سہارا دیا ثناه چاہ کر بھی پری کو ساتھ رکھ نہیں پا رہی تھی جب فہد نے بھی اسے پری کو ساتھ رکھنے کا کہا تو ثناه نے بہانہ بنایا کہ وہ خود وہی رہنا چاہتی ہے اسکا دل وہی لگا رہتا ہے یہاں وہ خود رہنا بےنہیں چاہتی ۔۔یہ سنکر فہد خاموش ہو جاتا ہے اور شاہ زمان بھی پری کی خوشی کا سوچ کر صبر کر لیتے ہے۔۔
15سال بعد
صبح سویرے کھیتوں میں خوبصورت ہریالی اور سورج نکلنے کا وقت بڑا حسین منظر پیش کر رہا تھا تبھی ایک روح کو چھو لینے والی گنگناتی آواز آتی ہے
یا صاحب الجمال و یا سیدالبشر
من وجہۃالمنیر ولقد نول قمر
بعد از خدا بزرگ تو ہی
قصہ مختصر۔۔۔۔
مرحبا سیدی مکی مدنی العربی
دل وجانا کی ہدایت پہ عجب خوش لفظی
مرحبا سیدی مکی مدنی العربی۔۔
کھیتوں میں کام کرنے والے اسکول جانے والے چھوٹے بچے وہاں ہر کوئ اس آواز کی سحر میں تھا جو روز انھیں اس وقت سنائی دیتی تھی۔
شاہ پیلس کے تمام رہنے والے بھی اس آواز کے سحر سے محفوظ نہ تھے مگر کوئ بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ کون ہے۔اور نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی تھی۔۔۔
پری پری چل ورنہ آج نانی سچ میں پٹائی کر دیگی۔۔
ہاں ہاں چل تو رہی ہوں سنبل۔۔
دونوں دوڑتی ہوئ شاہ پیلس کے پچھلے گیٹ سے اندر داخل ہو جاتی ہے جہاں تارہ آپا انہی کی منتظر تھی ۔۔
آگئ تم دونوں روز تم لوگوں کا جا کر واپس آنے تک کا وقت مجھ پر ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا۔۔
اوہ نانی آپ کتنی ڈرپوک ہے۔۔ہم دونوں نقاب میں ہوتی ہیں کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ گانے والا کون ہے۔۔”سنبل تارہ سے لپٹتی ہوئ بولی
تارہ آپا آپ میرے لۓ اتنا کر رہی ہے آپکا احسان ہے۔۔پری کی آنکھیں بھیگ گئ تھی۔
نہیں ہاں رونا نہیں ہے تمھاری ماں کو بھی گنگناتے سنا ہے اکثر بہت میٹھی آواز تھی سلونی کی ۔۔
سچ میں نانی پری جیسی آواز تھی۔۔
ہمممم پری سے بھی میٹھی اسی آواز نے تو اس سے !!!!!تارہ آپا کچھ کہنے والی تھی کہ اچانک رک گئ ۔۔
ارے میں تو بھول گئ چلو جلدی ناشتہ کرو دونوں اور پھر سنبل کو تیار کرو آج لڑکے والے آءیں گے سنبل کو دیکنھے ۔۔
سنبل شرما گئ اور پری کو لیکر اندر چلی گئ۔۔
جبکہ تارہ آپا کو آج پھر سلونی کی یاد رلا گئ۔۔
شاہ پیلس میں سب خوش تھے کیونکہ فہد اور ثناه کا بیٹا نوفل آنے والا تھا ۔سب دل سے خوش تھے مگر ثناه اندر سے ڈری ہوئی تھی۔۔اسنے اتنے سالوں سے نوفل کو یہاں سے دور رکھا مگر اب نوفل آگے کی پڑھائی کیلۓ ملک سے باہر جانے کا پلان کر رہا تھا اسلۓ کچھ دنوں کیلۓ اپنے چند دوستوں کے ساتھ شاہ پیلس میں رکنے آرہا تھا۔
ثناه نے اپنی بہن کو بھی ساتھ آنے کا کہا تھا کیونکہ اسی کی بیٹی سے نوفل کی شادی کروانے کا سوچ رکھا تھا ثناه نے۔
ملازمہ نے ثناه کو اسکی بہن کے آنے کی اطلاع دی تو وہ مہمان خانہ کی جانب گئ
السَّلَامُ عَلَيْكُمْ زیبا کیسی ہوارے تم اپنی بیٹی کو بھی لے آئ ساتھ میں ۔کیسی ہو یمنا بیٹا۔
وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ ثناه آپی ہم ٹھیک ہے تم سناؤ کیسی ہو فہد بھائ کیسے ہے انکل کی طبیعت کیسی ہے۔
جبکہ یمنا جو کہ کم گو اور بڑی پیاری تھی اور اخلاق کی بھی اچھی بس مسکرا دی
سب ٹھیک ہے بس بابا کی طبیعت زرا سست رہتی ہے کبھی کبھار۔نوفل نہیں آیا تم لوگوں کے ساتھ ۔؟
نہیں آپی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آۓ گا۔۔
اوہ اچھا ۔۔پھر دونوں باتیں کرنے لگتی ہے جبکہ ثناه سے اجازت لیکر یمنا پری اور سنبل سے ملنے آجاتی ہے۔
تینوں دوست تو نہیں تھے مگر جب بھی یمنا یہاں آتی ان دونوں سے ضرور ملتی۔۔
سنبل کا رشتہ طے ہو چکا تھا وہ اور پری خوش تھے مگر پری ذرا افسردہ تھی کیونکہ سنبل سے بچپن کا ساتھ تھا۔
ارے تم کیوں منہ لٹکا کر بیٹھی ہوں پری چلو اب اک گانا سناؤ میری شادی کی خوشی میں ۔۔
پری سنبل کی طرف دیکھتی ہے تو اس سے لپٹ کر رو پڑتی ہے۔
سنبل بہت یاد آؤ گی تم ۔۔
ارے تم رو رہی ہو تمھیں بھی تو شادی کرنی ہے پھر میں دیکھتی ہوں تم کیسے مجھے یاد کرتی ہو۔
چھپ کرو سنبل ۔۔
ارے ارے پری کو شرم آگئ تو جب نوفل سامنے آۓ گا تو کیا کروگی۔۔
نوفل !!!!!!!
یمنا یہ سنکر چونک گئ تھی کیونکہ اسے تو یہ بتایا تھاا سکی ماں اور خالہ نے کہ نوفل سے یمنا کی شادی ہوگی۔
ارے آؤ بیٹا یمنا تم کب آئ؟؟
تارہ آپا نے اسے دیکھ کر پوچھا جو آجکل بس اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی زیادہ کیونکہ عمر اتنی ہوگئ تھی کہ کامکاج نہیں کر سکتی تھی۔
ابھی امئ کے ساتھ مگر یہ تم دونو ں نوفل کے بارے میں کیا کہہ رہی تھی۔۔
ارے بیٹا یہ سنبل کی عادت ہے ہمیشہ پری کو اسکے منگیتر کے نام سے چھیڑنے کی خود کا رشتہ ہوگیا تو بس اب پری کو ستا رہی ہے۔
کیا کہاں آپ نے منگیتر مگر منگنی کب ہوئ مطلب میں سمجی نہیں ۔۔!!!یمنا دل دھڑک اٹھا تھاا۔
بیٹا شاہ خاندان کا رواج تمھیں بتایا نہیں کسی نے شاید اس خاندان کی بیٹیوں کا باہر رشتہ نہیں کیا جاتا تو پری اور نوفل کی شادی تو طے ہے
یمنا سے برداشت نہیں ہوا اس نے ایک نظر سانولی سی پری کو دیکھا اور پھر اسکے ہاتھوں پیرو کو جو چہرے سے گورے تھے پھر نوفل کا چہرہ اسکے آنکھوں کے سامنےلہرایا کہ کیسا خوبصورت اور دیوانہ کر دینے والا انسان جیسے رب نے خوبصورتی کے ساتھ آواز بھی دی ہے اور یہ لڑکی جو کہیں سے بھی اسکی برابری نہیں کرتی یہ سوچ لیے وہ وہاں سے بنا کچھ کہے چلی جاتی ہے۔
نوفل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ شاہ پیلس کیلئے نکلنے کیلۓ تیار کھڑا ہے اور کسی کا انتظار کر رہا ہے۔۔وہ فون نکال کر کال ملاتا ہے
ہیلو میم آپ ابھی تک آئ نہیں جی yes ok ok
کیاں ہوا نوفل کیاں کہا میم نے؟؟ایک دوست نے پوچھا
ہمیں نکلنے کا کہا ہے وہ کل تک آجاۓ گی۔نوفل نے جواب دیکر گاڑی اسٹارٹ کرلی
یار نوفل کیاں تجھے لگتا ہے یہ البم جلدی مکمل ہوگا میرا مطلب الگ الگ زبانوں کے گانے اور ریمیکس کے ساتھ اگر مقررہ وقت سے لیٹ ہوۓ تو۔ایک اور دوست بولا
نہیں ہونگے ریمیک مشکل نہیں بس میم کو جو نئی آواز ملی ہے وہ بھی میرے گاؤں سے یہ strangeہے کہ کون ہےجس نے میم کو پاگل بنا دیا ہےاسکو ابھی میم کہاں سے اور کیسے لائی گی یہ ذرا پیچیدہ معاملہ ہے۔۔
ہاں excited تو میں بھی ہوں سنا ہے بڑی جادوئ آواز ہے lets see۔ایک اور دوست بولا
yes lets see
نوفل نے جواب دیا
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!::::::::؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛!!!!!!!!!!!!!!!!!
رات بہت ہوچکی تھی زید اور آھل ابھی تک پارٹی سے واپس نہیں آۓ تھے تو جولی angel کے ساتھ dinner کرکے اسی کے کمرے میں بیٹھ گئ۔۔اور اپنے بارے میں بتارہی تھی۔۔
angel میں تم سے عمر میں بڑی ہوں مگر تمھیں میری حرکتيں بچکانا لگتی ہوگی ہے نہ
نہیں جولی بلکہ مجھے اچھا لگتا ہے تم ایک زندہ دل انسان ہو۔
ہاں ہوں مگر آھل سر کی وجہ سے ورنہ میں جیکب کے مرنے کے بعد تو ٹوٹ چکی تھی ایک بیوہ کو سہارہ دیکر آھل نے نہ صرف میری زندگی سنواری بلکہ ہر طرح سے میری مد د کی he is a great man مگر پھر بھی اتنے درد اور تکلیف کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے ہیں
کیسا درد؟؟
چھوڑو مجھے نیند آرہی ہے وہ لوگ پتہ نہیں کب آءیں گے میں تو سو رہی ہوں اٹھا دینا مجھے okاور نیند نہیں آرہی تو میوزک سن لو ہااااااااااgood night angel
جولی کے سوتے ہی وہ ہینڈ فری کانوں میں ڈال کر میوزک آن کرتی ہے جس میں صرف نوفل کے گانے ہوتے ہیں
کیوں ہوا آج یو گا رہی ہے
کیون فضاء رنگ چلکا رہی ہے
یہ سنتے ہوۓ وہ اسکے سحر میں کھو کر ساتھ ساتھ گانے لگتی ہے تبھی گاڑی مین گیٹ سے اندر آتی ہے اور آھل اورزید لفٹ کے ذریعے اپنے اپارٹمنٹ کے فلور پر پہنچتے ہے تو انھیں کسی کے گانے کی آواز آتی ہے۔
یہ کسکا ہے چہرہ جیسے میں
ہر ایک پھول میں دیکھتا ہوں
یہ کسکی ہے آواز جسکو
نہ سنکے بھی میں سن رہا ہوں
کیسی یہ آہٹیں آرہی ہے
کیسے یہ خواب دکھلا رہی ہے
میرے دل بتا آج ہونا ہے کیا
کیوں ہوا آج یو گا رہی ہے
گا رہی ہے گا رہی ہے
وہ اپنے دھن میں مگن گاتے گاتے جب پیچھے مڑتی ہے تو اسکی آنکھیں خوف اور ڈر سے پھیل جاتی ہے
تارہ آپا !!تازہ آپا!!!
ثناه سونٹ کوارٹر تک خود چل کر آئ تھی شاید تارہ آپا کی عمر کا لحاظ کر رہی تھی۔۔
تارہ آپا سمجھی شاید سنبل کے رشتے کی مبارکباد دینے آئ ہے مگر جب انکے چہرہ کے تاثرات دیکھے تو ذرا پریشان ہوئ ۔۔
جی جی چھوٹی بیگم ۔۔
کیاں کہا ہے تم نے یمنا سے ؟؟؟؟
جی وہ میں نے——
رکو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس میری بات یاد رکھنا اس کالی پری کو میرے شہزاده سے دور رکھنا وہ آنے والا ہے اور یاں نوفل کی شادی میرے جیتے جی اس منحوس سے کبھی نہیں ہوگی اپنے دلوں سے یہ خیال سب نکال دو اور اسے نوفل کے رہنے تک اسطرف ہی رکھنا سمجھ گئ آپ۔
جی چھوٹی بیگم!!
ثناه کے جاتے ہی تارہ آپا وہی بیٹھ جاتی ہے اور رونے لگتی ہے۔۔
یا اللہ یہ کیاں ہوا میری پری پر اور کیاں کیاں ستم ہونے باقی ہے۔۔
تبھی اندر سے پری اور سنبل کے ہنسنے کی آوازیں آتی ہے۔۔
شکر ہے اسنے سنا نہیں ۔۔
جبکہ سنبل یہ ساری باتیں سن چکی تھی اور پری کو اسی طرف آتا دیکھکر جلدی سے اسے باتوں میں لگا لیا تھا
کہاں جا رہی ہوں رکو پہلے مجھے وہ اپنا بچپن والا گانا سناؤ ۔۔
کیاں وہ نہیں یار۔۔۔
اور دونوں ہنسنے لگتی ہے۔۔
مگر سنبل کی ضد کے آگے پری ہتھیار ڈال دیتی ہے۔
نار دانہ انار دانہ
اسا رومی ٹوپی والے نار دانہ
اور دونوں پھر بھاگتی ہوئ پچھلے گیٹ سے کھیتوں کی طرف نکل جاتی ہے۔
یہ ٹوپی یہ چاند سا چہرہ
جو دلہے کے سر پہ سہرا
مر جانا مر جانا
اسا تینوں تک تک مر جانا
تبھی نوفل جو گاڑی روک کر اپنے دوستوں کو کھیت دکھا رہا ہوتا ہے انکی سماعتوں میں یہ آواز اپنا رس گھولنے لگتی ہے
oh my wt a voice
نوفل یہ کہتا ہوا گاڑی سے اترتا ہے
اسکے ساتھ اسکے دوست بھی
نوفل آواز کاپیچھا کرتا ہے مگر اسکے دوست وہی رک جاتے ہیں
پیار کی ڈوری دل کو کھینچے
تو آگے میں پیچھے پیچھے
ٹکرانا ٹکرانا
تیرے لۓ سارا جگ ٹکرانا
نار دانہ انار دانہ
اچانک آواز آنا بند ہو جاتی ہے نوفل سب طرف دیلھتا ہے مگر اسے کوئی نظرنہیں آتا تو وہ واپس پلٹتا ہے
کیاں ہوا کون تھی؟؟
کوئ نہیں تھالگتا ہے کوئ recording یا ریڈیو ہوگا چلو بیٹھو چلتے ہیں
انکی گاڑی نکلتے ہی سنبل اور پری جو نوفل کو دیکھ کر وہی کھیتوں میں چھپ جاتی ہے باہر نکل آتی ہے
بچ گۓ یار چلو گھر بھاگتے ہے جلدی سے۔۔سنبل یہ کہہ کر پری کا ہاتھ تھامے بھاگنے لگتی ہے۔
گھر کے قریب پہنچتے ہی انھیں گیٹ کے قریب فہد اور گاڑی سے اترتے کچھ لوگ نظر آتے ہیں۔
یہ سب کون ہے اوریہ تایا ابو کس سے گلے مل رہے ہیں
سنبل پری کی بات سنکر اسی طرف دیکھتی ہے تو وہ پری کی جانب دوبارہ دیکھتی ہے جسکے چہرے پہ شرمیل مسکراہٹ پھیلنے لگتی ہے سنبل کو ثناه کی باتیں یاد آتی ہےتو وہ پری کو کھینچتی ہوئ اندر لے جاتی ہے۔۔
نوفل کھانے کے ٹیبل پر سب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھااسکے دوست guest room میں تھے تبھی یمنا اور اسکی ماں وہاں آتے ہے۔
ارے واہ خالہ یمنا کیسے ہے آپ دونوں ۔؟؟
ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔جبکہ یمنا بس مسکرا دیتی ہے
پری کہاں ہے ثناه ؟؟فہد سوال کرتا ہے جیسے سنکر ثناه چونکتی ہے اور نوفل کے چہرے کے زاویے بگڑ جاتے ہیں جسے فہد کو چھوڑ کر باقی تینوں دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوجاتے ہیں خاص کر ثناه جو کئ سالوں سے نوفل کے دل میں پری کیلۓ اپنی نا پسندگی اور کالے رنگت سے نوفل کی نفرت کو بڑھانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔
نہیں اس نے کھانا کھا لیا تھاا ور سو رہی تھی تو میں نے جگایا نہیں ۔۔
ہممم۔۔نوفل تم بھی نہیں ملے پری سے ابھی تک۔۔
افففف بابا پلیز آپ کیاں چاہتے ہیں میں جاؤن یہاں سے۔ڈیم
یہ کہتا ہوا نوفل وہاں سے چلا جاتا ہے۔۔
فہد آپ کو پتہ ہے نہ کہ اسے پری سے الرجی ہے تو پھر۔۔ثناه تپ کر بولی۔۔
تو ثناه نار بیگم اس الرجی کا علاج جلدی کر دے کیونکہ نوفل کے جانے سے پہلے اسکا پری سے نکاح ہوگا سمجھی آپ ۔۔فہد یہ کہہ کر چلا جاتا ہے جبکہ اس کی بات پر یمنا کوچھوڑ کر ثناه اور اسکی بہن دونوں حیران ہو جاتی ہے۔۔
رات دیر گۓ تک پری کو نیند نہیں آرہی ہوتی اسے بار بار نوفل کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتا نظر آتا ہے۔۔
اپنی پری تو نوفل کے سنگ اڑ جاۓ گی۔۔
نوفل سے ہوگی پری کی شادی ۔۔
اسے تارہ آپا کی باتیں یاد آتی ہے تو وہ شرما جاتی ہے
تبھی اسے شورشرابے کی آوازیں آتی ہے لگتا ہے انکے تہوار کا فنکشن شروع ہوچکا ہے۔۔
سنبل سنبل اٹھو نہ یار چلو نہ چھت پہ پروگرام شروع ہو گیا ہے چلو نہ۔۔۔
اففففف تمھیں انیتا کے گھر چھوڑ کر آنا چاہیۓ تھا چلو ۔۔
دونوں درخت کے سہارہ لیکر حویلی کی چھت کے کونے والے حصے پہ چڑھ جاتی ہے جہاں سے پروگرام آسانی سے نظر آرہا ہوتا ہے
پری تو دیکھ ناچ مگر خدارا گانا مت جب تیرا ہو جاۓ تو مجھے اٹھا دینا تب تک میں اس میز پر سو جاتی ہوں بہت نیند آرہی ہے مجھےےےےےےےے
سنبل سو جاتی ہے اور پری انتظار کرنے لگتی ہے
اسکا انتظار ختم ہو جاتا ہے اب وہ بھی گانے کے بولو کو گنگناتے ہوۓ ناچنے لگتی ہے
گھر مورے پردیسیا
آؤں پدھارو پیا
جبکہ اسے کتنی دیر سے کوئ دیکھ رہا تھا کہ اچانک سنبل کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ نوفل کو چھت کے دروازے پر دیکھکر کانپ جاتی ہے جو پری کو دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ پری اپنی دھن میں ناچ رہی تھی۔۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
واؤؤؤؤؤؤؤ اینجل یہ تم ہو تمھاری آواز تمھاری آواز تو کمال ہے یار اتنی پیاری اور تم نے بتایا نہیں میں آھل سر کو ضرور بتاؤں گی۔۔
نہیں جولی تمھیں میری قسم ہے تم کسی کو کبھی بھی نہیں بتاؤں گی وعدہ کرو مجھ سے پلیز وعدہ کرو۔۔
یہ کہتے ہوۓ وہ رو پڑتی ہے تو جولی پریشان ہو جاتی ہے۔۔
اینجل میں نہیں بتاؤں گی تم رونا بند کرو دیکھو دروازے کی آواز ہے وہ لوگ آگۓ ہونگے میں جاتی ہوں اور پلیز رونا مت میں نہیں بتاؤ گی۔۔
جولی باہر آتی ہے تو زید اسے ملتا ہے
جولی تم نے گانا سنا کتنی میٹھی آواز تھی لگتا ہے کوئی آسپاس سنگر رہنے آئ ہے۔
جی سر سنی ہے اور بلکونی سے صاف آواز آرہی تھی اسلۓ ریکارڈ بھی کی ہے۔
جولی اس نے کھانا کھایا اور میڈیسن دیتی رہتی ہو نا۔۔
آھل نے پوچھا۔
جی سر میں یہی تھی اب بس جارہی ہوں۔۔
اگر تم چاہو تو اسکے ساتھ اسی کمرے میں رہ سکتی ہو۔
نہیں سر میں وہی ٹھیک ہوں۔۔
ہمممم ok julie
hey julie listen
مجھے وہ ریکارڈنگ تو send کردو
زید نے کہا۔
ہاں ضرور مگر اسوقت بیٹری لو ہے کل ok
ok julie goodnight
goodnight both of u sir
جولی چلی جاتی ہے اور زید بھی اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔
آھل اپنے کمرے میں آتا ہے لاءیٹ آن کرتا ٹائ کوٹ اتار کر بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے۔
ہمممم ابھی تک ناراض ہو سوری بول تو چکا ہوں اس دن کچھ سمھ ہی نہیں آرہا تھا اور دیکھوں تم نے میری کتنی مدد کی اچھا ہوا تمھاری pic تھی میرے پاس ورنہ پتہ نہیں میں اسے کیاں چہرہ دیتا ۔۔اوہ ہو تو آپ جل رہی تھی اس وقت jealous really
ہاہاہاہاہا فکر مت کرو وہ بھی اپنا تم جیسا چہرہ دیکھ کر خوش ہوگی اور تم بھی ہے نہ کہ ابھی تک مجھے تمھاری ضرورت پڑتی ہے۔
وہ اٹھ کر بیڈ کراؤن کی جانب آتا ہے جہاں سارہ کی بڑی سی تصویر لگی ہوئ ہے وہ اس پر سر ٹکا کر ماضی کو یاد کرنے لگتا ہے۔۔
۔
کیاں کہہ رہے ہے بھائ سچ میں آپ اور سارہ شادی کرنے والے ہیں
واؤؤ کب آرہے ہیں یہاں ؟؟زید فون پر آھل سے بات کرتے ہوۓ بہت خوش لگ رہا تھا
ہم آچکے ہیں رستے میں ہے کیسا لگا سرپراءز دیور جی۔۔
اوہ سارہ مطلب بھابھی بتاۓ بغیر پہنچ گۓ چلے جلدی آۓ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔
ہاں چھوٹے بس آرہا ہوں باۓ۔۔
باۓ بھائ۔۔
ہمممم finally we r getting marry im really happy thankyou Aahil for this ۔
اوہ شکریہ تو مجھے کہنا چاہیۓ کہ تم میری زندگی میں آئی اب بس شادی ہو جاۓ اور میں تمھارا مجازی خدا بن جاؤن ۔۔
ہاہاہاہا آھل مجازی خدا so sweet
تبھی سامنے سے ایک بے قابو ٹرالر آکر انکی گاڑی کو ٹوکر مار کر خود تو نکل جاتی ہے مگر ساتھ سارہ کی سانسیں بھی۔۔
آھل پندرہ دنوں تک بےہوش رہا جب ہوش میں آیا تو سارہ کا آخری دیدار تک نہ کرسکا۔
اک آواز پر آھل سوچوں کی دنیا سے باہر آیااور کمرے سے باہر آکر ہال کی طرف گیا جہاں کیچن کی لاءیٹ آن دیکھ کر اسی طرف گیاتو دیکھا اینجل فرش پر سے کانچ کے ٹکرے اٹھا رہی ہے
کیاچاہیۓ تمھیں آواز دیتی کسی کو۔
وہ چونک گئ تو کانچ اسکی انگلی میں لگ گیا
آہ ۔!!!وہ ہلکا ساچلائ
اوہ گاڈ۔!!!آھل نے اسکی انگلی کو اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھا اور اسے باہر کرسی پر بٹھا کر فرسٹ ایڈ باکس لاکر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
کانچ اسکی انگلی میں گھسا ہوا تھاا۔
وہ اب سی سی کرتے ہوۓ ہلکا ہلکا رو رہی تھی۔
آھل نے اسکا کانچ نکالنے کیلۓ فارسپ لیا تو اسنے ڈر کے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
کیاں ہوا؟؟؟
یہ کھینچی سے درد ہوگا ۔۔
کھینچی !!!ہاہاہاہا یہ کھینچی نہیں ہے اور اس سے درد نہیں ہوگا۔۔
مگر اب اسکے آنسوں نکلنے لگتے ہیں۔۔۔آھل غور سے اسکا چہرہ دیکھتا ہے تو کہیں کھو جاتا ہے مگر فوراَ نظریں ہٹا لیتا ہے۔۔
اچھا اچھا تم کیچن میں کیاں کرنے گئ تھی؟
چاۓ بنانے۔۔وہ روتے ہوۓ کہتی ہے۔
ہممم اس سے پہلے کیاں کر رہی تھی ؟؟
گانا سن رہی تھی۔
اچھا تم روکو میں تمھیں گانا لگا کر دیتا ہوں ٹی وی پر ok
وہ اٹھکر ریموٹ سے ٹی وی آن کرکے کوئ میوزک چینل لگاتا ہے جہاں گانا سنکر پھر سے اسکے چہرے میں کھو جاتا ہے۔
اور آہستہ کیجیے باتیں
دھڑکنیں کوئ سن رہا ہوگا
لفظ گرنے نہ پاۓ ہونٹوں سے
وقت کے ہاتھ انکو چن لیگے
کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار
راز کی ساری بات سن لیگے
اور آہستہ کیجیے باتیں
غزل سنتے ہوۓ آھل اسکی آنکھوں میں کھویا رہتا ہے جبکہ اسے نیند آ گھیرتی ہے اور وہ کرسی سے ٹیک لگا کر سو جاتی ہے جبکہ اسکا ہاتھ ابھی تک آھل نے پکڑا ہوا تھاا۔
اوہ یہ تو سو گئ۔۔آھل یہ کہکر اسکی نیند خراب نہ ہو اسی لۓ اسے گود میں اٹھا کر اسکے کمرےمیں لاکر آرام سے لٹا کر اسکی پٹی کرنے لگتا ہے کانچ نکالتے ہوۓ وہ ہلکا سا کسمساتی ہے اور آھل جو کہ بیڈ پر اسکے قریب بیٹھا پٹی کر رہا ہوتا ہے اسکا بازو دبوچ کر پکڑ لیتی ہے
آھل اسکی ڈریسنگ کرکے جانے کیلۓ اسکا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹانے لگتا ہے تو وہ اسکی ہتھیلی تھام لیتی ہے۔آھل اب کی بار ہاتھ چھڑانے کے بجاۓ بیڈ کے قریب نیچھے اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا بیڈ پر سر رکھ لیتا ہے۔
خوبصورت ہے وہ اتنا سہا نہیں جاتا
کیسے ہم خود کو روک لے رہا نہیں جاتا
چاند پہ داغ ہے یہ جانتے ہے ہم لیکن
پیار دھرتی پہ فرشتوں سے کیاں نہیں جاتا
ٹی وی چلتا گانا سنکر آھل اسکا چہرہ دیکھتے ہوۓ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...