اگلے دو دن رہ کر کراچی کے مکین واپس کراچی آگئے تھے۔ احد اور ساریہ کی شادی میں ابھی دو مہینے باقی تھے جبکہ سارہ اور عمر کا نکاح ☆اور وھاج کا وجیہہ کے ساتھ ولیمہ اسی مہینے کی آخری تاریخوں میں طے کردیا گیا تھا۔
“جا میرے بھائی تو جا کر بھابھی کو منا ہم لنچ کرنے جارہے ہیں۔” احد ساریہ کو لے کر چلا گیا جبکہ وھاج بھی ائیرپورٹ سے سیدھا وجیہہ کے گھر پہنچا تھا۔ کافی دیر تک ڈور بجاتا رہا پر کسی نے دروازہ نہ کھولا تو وھاج یکدم ہی پریشان ہوگیا۔ اس نے وجیہہ کا نمبر ڈائل کیا تو موبائل آف تھا۔ اس نے دوبارہ ڈور بیل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دروازہ کھل گیا وھاج کی جان میں جان آئی۔
” تمہیں نہیں لگتا تم بہت زیادہ سوتی ہو۔” وھاج سیدھا اندر آ گیا تھا اور وہ حیران و پریشان سی نیند سے بوجھل آنکھیں لیے دروازہ پر ہی کھڑی تھی۔
“مجھے لگا ساریہ آگئی ہے۔ وہ اسلام آباد گئی ہوئی تھی لیکن میں تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ بتا کر آتی ہے۔” وہ دروازہ بند کرکے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی۔
“ویسے آپ بھی تو پشاور میں تھے ناں کراچی کب آئے؟” اس نے کیا تو وھاج نے انجان بننے کی اداکاری شروع کردی۔
” تمہیں کس نے بتایا کہ میں پشاور میں ہوں؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہماری ملاقات دو ہفتے پہلے ہوئی تھی ناں؟”
“ساریہ نے بتایا تھا۔” وجیہہ نے سپاٹ سے انداز میں جواب دیا۔
“اوہ تو ہمارا ذکر بھی ہوتا ہے امیروں کی محفل میں۔” وھاج نے بےتکا شکوہ کیا۔
“ہاہاہا! امیر ہم نہیں امیر آپ ہیں۔” وجیہہ نے طنز کیا۔
“خیر میں آپ کو کچھ بتانے آیا تھا۔” وھاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جس پر وجیہہ کے ماتھے پر شکنیں ابھریں۔
“گھر میں سب مان گئے ہیں۔ میں نے سب کو بتا دیا ہمارے نکاح کا۔ وہ رکا اور پھر مزید گویا ہوا۔
“وجیہہ میری محبت پاک اور خالص تھی اللہ نے مجھے ناامید نہیں کیا۔”وجیہہ کو یقین نہیں آیا۔
“آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ کے گھر والے کیسے مان سکتے ہیں۔ سارہ کے پاپا اور آپ کے پاپا کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔” وجیہہ حیران تھی۔ وھاج نے اسے ساری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔
“مجھے کیوں نہیں بتایا۔ اور پھر ساریہ صاحبہ بھی آپ سب کے ساتھ تھیں واہ بھئی۔” نہ جانے کیوں وجیہہ کو اندر تک سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
“لیکن وھاج سارہ عمر کو کیسے پسند کر سکتی ہے وہ تو آپ سے محبت کرتی ہے۔ وہ جھوٹ تو نہیں بول رہی۔” وجیہہ وھاج کو بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی۔
“وہ دونوں ہمیشہ اچھے دوست رہے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ ایسا انہوں نے خود کہا۔” وھاج پرسکون تھا پر وجیہہ کے لیے یہ بات قبول کرنا انتہائی مشکل تھا۔
“خیر تم ان سب باتوں کو چھوڑو تم میمونہ پھپھو کے گھر جاؤ وہاں سے وریشہ اور پھپھو کے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے تم نے۔ ساریہ بھی کچھ دیر میں وہیں آ رہی ہے۔ اس مہینے کی آخری تاریخوں میں ہمارا ولیمہ ہے اور ساتھ میں عمر اور سارہ کا نکاح بھی۔” وھاج نے حکم صادر کیا۔
“ویسے وھاج یہ اتنی آسانی سے کس طرح ہو گیا۔ بظاہر اتنا آسان تو نہیں تھا۔” وجیہہ کو سب کچھ جیسے خواب لگ رہا تھا اس نے ہمیشہ اپنے لیے خیر کی دعا مانگی تھی اور وھاج جو ہمیشہ سے اس کے لیے خیر ثابت ہوا تھا، خیر کی صورت میں اسکے ساتھ ہمیشہ کے لیے لکھ دیا گیا تھا۔ وہ خوش تھی مگر ظاہر نہ کیا۔
“کہتے ہیں ناں دعائیں کبھی رد نہیں ہوتی شاید کچھ سچی اور خالص محبتوں کی دعاؤں کے زیر اثر اللہ نے ہمارا ساتھ لکھ دیا۔” وہ مسکرایا تھا۔
“لیکن میں نے تو آپ کا ساتھ کبھی بھی نہیں مانگا۔” وجیہہ نے سادگی سے سچ بتا دیا۔
“کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو وجیہہ؟ اگر نہیں کرتی ہو تو بتا دو مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے اب چاہے خوشی ہمارے ساتھ میں ہو یا الگ ہونے میں۔” وھاج نے سنجیدگی سے سوال کیا تو وجیہہ نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا وھاج مسکراہٹ روک نہ سکا۔
“ابھی بھی مت کہنا کہ ہاں ہے محبت کہیں تمہاری شان میں کمی نہ آجائے۔” وھاج نے ملامتی انداز میں کہا اور اس کے سر پر چپت لگاتا صوفے پر لیٹ گیا۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے” وجیہہ آنکھیں نکالے آ کھڑی ہوئی اور اسے گھورنے میں مصروف تھی۔ وھاج حیران پریشان اسے دیکھنے لگا
“سارے کشن دوسرے صوفے پر کیوں پھینک دئیے۔” وجیہہ مسلسل اسے گھور رہی تھی۔
“استغفراللہ! ابھی تو رخصتی میں نہیں ہوئی اور یہ شیرنی کی طرح مجھ سے لڑنے لگی ہے۔ وھاج بیٹا تیرا اللہ ہی حافظ ہے۔” اس نے آخری جملہ احد کا دہرایا تو وجیہہ ہنسی روک نہ سکی۔
” ساری زندگی یوں ہی ہنستی رہنا۔” وھاج مسکراتے ہوئے بولا۔ وجیہہ بھی مسکرا دی۔
یہ زندگی بہت قیمتی ہے اس میں کچھ دن صرف خوشی اور کچھ دن صرف غموں کی نظر نہیں ہوسکتے۔ مایوسی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر خزاں کے بعد بہار اور ہر رات کے بعد دن ہے۔ مسلسل تبدیلیوں اور آزمائشوں کا نام ہی تو زندگی ہے۔
میں سفھاء ہوں اپنے بابا اور بہن کی لاڈلی مگر افسوس میں نے اپنی عزت کا جنازہ نکال دیا اور مری عزت کیا مری وہ خود بھی مر گۓ مگر میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا
نہ جانے مجھ جیسی لڑکیاں اتنی بےوقوف کیوں ہوتی ہیں جو نامحرم کی باتوں اور انکے محبت کے جھانسوں میں آکراپنے محرم رشتوں کی محبت بھول جاتی ہیں
میں بھی ویسی ہی ایک بےوقوف لڑکی ہوں جو عباس رضوی کی حوس کا نشانہ بنگئی اسکی جھوٹی محبت پر بھروسہ کرکے اسکے ساتھ چلی گئی اور اپنی عزت اپنی بےوقوفیوں کی نظر کرآئی
جان لیلی میں نے بابا کی میں جو سمجھتی تھی کہ بابا کو کبھی نہیں پتہ چلےگا مگر میں غلط تھی انہوں نے مری اور وجی کی باتیں سن لی تھیں اور پھر …….
پھر انکا دل بند ہوگیا وہ ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ گئے
میں بہت گناہگار ہوں
میں زانی ہوں
میں قاتل ہوں
اللہ مجھے کیسے معاف کریگا اور وجی وہ تو مجھ سے نفرت کرنے لگی ہوگی میں نے اس سے بابا کو چھین لیا
مجھے اب زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں مجھے اب ڈر لگتا ہے انسانوں سے میں مرنا چاہتی ہوں مجھے گھٹن ہوتی ہے رات میں نے وجی سے معافی مانگی بےوقوف بننے پر اور اسنے مجھے معاف کردیا مگر میں خود کو معاف نہیں کرسکتی مجھے بابا کے پاس جانا ہے انسے معافی مانگنے وجی میرے لئے بخشش کی دعا کرنا میں ایک اور حرام کام کرنے جارہی ہوں میں خودکشی کرنے جارہی ہوں کہ مجھے زندگی سے خوف آتا ہے
چلو چھوڑو دنیا کی بے رخیاں
وہ سامنے دیکھو قبرستان میں کتنا سکون ہے
ختم شد